Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 50

سورة يس

فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ تَوۡصِیَۃً وَّ لَاۤ اِلٰۤی اَہۡلِہِمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۵۰﴾٪  2

And they will not be able [to give] any instruction, nor to their people can they return.

اس وقت نہ تو یہ وصیت کر سکیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف لوٹ سکیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَ يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً ... Then they will not be able to make bequest, meaning, with regard to their possessions, because the matter is more serious than that, ... وَلاَ إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ nor they will return to their family. Numerous Hadiths and reports have been narrated about this, which we have mentioned elsewhere. After this there will be the Trumpet blast which will cause everyone who is alive to die, besides the One Who is Ever Living, Eternal. Then after that the trumpet blast of the resurrection will be sounded.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٨] قیامت آگئی تو پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت ہی کرسکیں یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جاسکیں بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی موجود ہوگا وہیں اس کا کام تمام کردیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَةً : ” تَوْصِيَةً “ ” وَصّٰی یُوَصِّيْ “ (تفعیل) کا مصدر ہے، وصیت کرنا۔ یعنی اس چیخ کے بعد انھیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت کرسکیں، یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جاسکیں، بلکہ جو کوئی جہاں موجود ہوگا وہیں دھر لیا جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 50, it was said فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْ‌جِعُونَ (So they will not be able to make a bequest, nor will they return to their household.), that is, people who are gathered there will not have the respite to make a will among themselves to do something on their behalf, and those who are still outside their houses will not find the respite even to go into their houses. They will lie dead in the very state in which they would be at that time. This is a description of the first blowing of the Horn of the day of Qiyamah as a result of which the entire gamut of the earth and heavens will be destroyed.

(آیت) فلا یستطیعون توصیة ولا الیٰ اھلہم یرجعون، یعنی اس وقت جو لوگ مجتمع ہوں گے وہ آپس میں کسی کو کسی کام کی وصیت کرنے کی مہلت نہیں پائیں گے اور جو گھروں سے باہر ہوں گے وہ اپنے گھروں میں واپس آنے کی بھی مہلت نہیں پائیں گے، اسی جگہ مرے کے مرے رہ جائیں گے۔ یہ بیان قیامت کے نفخہ اولیٰ کا ہے، جس سے سارا عالم زمین و آسمان تباہ ہوجائیں گے۔ اس کے بعد فرمایا :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَۃً وَّلَآ اِلٰٓى اَہْلِہِمْ يَرْجِعُوْنَ۝ ٥٠ۧ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ وصی الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] وقرئ : وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء/ 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء/ 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ( و ص ی ) الوصیۃ : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة/ 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر/ 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات/ 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو اس وقت نہ تو ان کو وصیت اور کلام کی فرصت ملے گی اور نہ بازار سے واپسی کی یا یہ کہ نہ اپنے گھروں تک لوٹ آنے کی بلکہ اسی حال میں مرے کے مرے رہ جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ { فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَۃً وَّلَآ اِلٰٓی اَہْلِہِمْ یَرْجِعُوْنَ } ” پھر نہ تو وہ کوئی وصیت ہی کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر جاسکیں گے۔ “ وہ معاملہ اس قدر اچانک ہوگا کہ جو کوئی جس حالت میں ہوگا اسی حالت میں اس کا شکار ہوجائے گا۔ قبل ازیں اسی سورت میں اس منظر اور کیفیت کا ایک نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : { اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ } ” وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ تو جبھی وہ سب بجھ کر رہ گئے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46 That is, "The Resurrection will not take place piecemeal so that the people may leisurely watch its coming, but it will come all of a sudden when thepeople will be engaged in their daily business and they will have no idea whatever that the end of the world had approached. There will be a terrible blast and everyone will fall dead at the spot. " Hadrat 'Abdullah bin 'Amr and Hadrat Abu Hurairah have related a Hadith from the Holy Prophet saying: "The people will be walking on the roads as astral, will be buying and selling in the markets, will be disputing matters in their assemblies, when suddenly the Trumpet shall be sounded. Thereupon the one who was buying cloth would collapse and he would not have the time to put down the cloth from his hand; the one who was filling a cistern to water his animals would not have the time to water; and the one who was going to eat, would not have the time to Iift the morsel to his mouth and Resurrection will take place. "

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :46 یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ قیامت آہستہ آہستہ آ رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ وہ آ رہی ہے ۔ بلکہ وہ اس طرح آئے گی کہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصور موجود نہیں ہے کہ دنیا کے خاتمہ کی گھڑی آ پہنچی ہے ۔ اس حالت میں اچانک ایک زور کا کڑاکا ہو گا اور جو جہاں تھا وہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے ، بازاروں میں خرید و فروخت کر رہے ہوں گے ، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگوئیں کر رہے ہوں گے ۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا ۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آئے گی کہ ختم ہو جائے گا ۔ کوئی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بھرے گا اور ابھی پلانے نہ پائے گا کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اسے مہلت نہ ملے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:50) لا یستطیعون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ استطاعۃ (استفعال) مصدر طوع مادہ یستطیع اصل میں یستطوع تھا وائو کا کسرہ ما قبل کو دیا اب وائو ساکن ما قبل مکسور وائو کو یاء میں بدلا۔ یستطیع ہوگیا۔ لا یستطیعون وہ طاقت نہیں رکھنے ہیں، وہ قدرت نہیں رکھتے ہیں۔ الاستطاعۃ کے اصل معنی ہیں کسی کام کو سرانجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجود ہونا۔ مگر محققین کے نزدیک استطاعۃ نام ہے ان اسباب و ذرائع اور صلاحیتوں کا جن کے ذریعے انسان کو کسی کام کے کرنے پر قدرت ہوجائے۔ اس کی ضد عجز ہے۔ توصیۃ وصیت کرنا۔ بروزن تفعلۃ باب تفعیل کا مصدر ہے منصوب بوجہ یستطیعون کے مفعول بہ ہونے کے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 بلکہ بازاروں اور راستوں میں جہاں ہونگے صور کی آواز سن کر فوراً ختم ہوجائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ ” قیامت اس طرح ( یکایک) آئے گی کہ کہیں دو آدمیوں نے ( خریدو فروخت کیلئے) کپڑا پھیلا رکھا ہوگا مگر وہ اس کی خریدو فروخت نہ کر پائیں گے حتیٰ کہ ایک شخص نے لقمہ اٹھا رکھا ہوگا مگر اسے منہ میں رکھنے نہ پائے گا۔ (فتح البیان) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جو جس حال میں ہوگا مر کر رہ جاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) قیامت کے اچانک آنے کی یہ حالت ہوگی کہ نہ تو کچھ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے اہل خانہ کی طرف واپس ہی لوٹ سکیں گے۔ یعنی نہ اتنی مہلت ہوگی کہ کوئی وصیت کرسکیں اور کچھ کہہ مریں اور نہ اتنی فرصت ہوگی کہ گھر تک پہنچ سکیں بلکہ جہاں ہوں گے وہیں رہ جائیں گے۔