Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 73

سورة يس

وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُ ؕ اَفَلَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۳﴾

And for them therein are [other] benefits and drinks, so will they not be grateful?

انہیں ان سے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور پینے کی چیزیں ۔ کیا پھر ( بھی ) یہ شکر ادا نہیں کریں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ ... And they have (other) benefits from them, means, from their wool, fur, and hair, furnishings and articles of convenience, comfort for a time. ... وَمَشَارِبُ ... and (they get to) drink. means, their milk, and their urine for those who need it as medicine, and so on. ... أَفَلَ يَشْكُرُونَ Will they not then be grateful! means, `will they not worship the Creator and Subduer of that, without showing gratitude to others!'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں مثلًا اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ باربرداری اور کھیتی باڑی کے کام بھی آتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦٦] یہ سب قسم کے احسانات تو انسان پر اللہ تعالیٰ نے کئے۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا اس نے انہیں جانوروں کی قربانیاں بتوں کے نام پر کیں اور استھانوں میں کیں۔ بتوں کے نام پر جانور آزاد چھوڑے۔ جن کا ان جانوروں کی پیدائش میں اور ان کو انسان کے مطیع فرمان بنانے میں کچھ بھی عمل دخل نہ تھا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کفران نعمت اور نمک حرامی ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَهُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ : سواری اور گوشت کے علاوہ انسان کے لیے ان جانوروں میں بہت سے فوائد ہیں، مثلاً ان کی کھال، چربی، سینگوں، بالوں اور آنتوں وغیرہ سے سیکڑوں چیزیں بناتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں، ان کے گوبر کی کھاد بناتے ہیں اور ان کی خریدو فروخت کے ساتھ زندگی کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ جانوروں کے ذریعے سے آدمی کو پینے کی بھی بہت سی چیزیں مہیا ہوتی ہیں، مثلاً ان کا دودھ اور بیشمار وہ چیزیں جو دودھ سے بنتی ہیں۔ مزید دیکھیے سورة نحل (٥ تا ٨) اور سورة زخرف (١٢ تا ١٤) ۔ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ : یعنی یہ سب قسم کے احسانات تو انسان پر اللہ تعالیٰ نے کیے، اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا، اس نے انھی جانوروں کی قربانیاں غیر اللہ کے آستانوں پر اور ان کے نام پر کیں۔ ان کے نام پر جانور آزاد چھوڑے جن کا ان جانوروں کے پیدا کرنے اور انھیں انسان کا مطیع بنانے میں کچھ بھی عمل دخل نہ تھا، اس سے بڑھ کر ناشکری اور نمک حرامی کیا ہوسکتی ہے ! ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَہُمْ فِيْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ۝ ٠ ۭ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ۝ ٧٣ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مکہ والوں کے لیے ان مویشیوں میں اور بھی سواری کمائی وغیرہ کے منافع ہیں اور ان کے دودھ بھی پینے کے لیے ہیں۔ سو جس ذات نے یہ تمام چیزیں پیدا کیں پھر بھی یہ اس کا شکر نہیں ادا کرتے کہ اس پر ایمان لے آئیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ { وَلَہُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُط اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ } ” اور ان کے لیے ان میں بہت سی منفعتیں اور پینے کی جگہیں ہیں۔ تو کیا یہ لوگ شکر نہیں کرتے ! “ انسانی زندگی میں جانوروں کی اہمیت اور افادیت کے بہت سے دوسرے پہلو بھی ہیں۔ باربرداری کی خدمات اور غذائی ضروریات کے علاوہ ان کی اون اور کھالوں سے انسانی استعمال کی بیشمار چیزیں بنتی ہیں۔ اور اب تو ان جانوروں کی کوئی ایک چیز بھی ضائع نہیں جاتی ‘ حتیٰ کہ ان کے خون اور گوبر کو بھی مختلف طریقوں سے استعمال کرلیا جاتا ہے۔ ” مشَارِب “ جمع ہے اور اس کا واحد ” مشرب “ ہے جس کے معنی پینے کی جگہ اور گھاٹ کے ہیں۔ گویا دودھ دینے والے جانور اور ان جانوروں کے تھن انسان کے لیے ” مشرب “ یعنی دودھ کے گھاٹ ہیں۔ دودھ ایک بہترین مشروب اور انسانی زندگی کے لیے بیحد مفید غذا ہے۔ جانوروں سے حاصل ہونے والی اس ایک نعمت پر ہی انسان اللہ کا شکر ادا کرنا چاہے تو اس کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اسماعیل میرٹھی صاحب نے یہ انتہائی اہم اور سنجیدہ بات کتنے سادہ انداز میں بچوں کی زبان میں کہہ دی ہے : ؎ رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی اس مالک کو کیوں نہ پکاریں جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61 It is ingratitude to regard a blessing as a gift of someone outer than the donor, to be grateful to another for it, and to cherish the hope of receiving it or to seek it from another than the donor. Likewise, it is also ingratitude that one should use a blessing against the will of the donor. Therefore, a mushrik or a disbeliever or a hypocrite or a sinful person cannot be regarded as a grateful servant of God when he utters words of thankfulness only with the tongue. The disbelievers of Makkah did not deny that the cattle had been created by Allah; none of them said that the other deities had any hand in their creation. Hut despite knowing All this when they paid homage to their deities for the blessings granted by Allah, presented offerings before them and prayed to them for more blessings and offered sacrifices for their sake, their verbal gratitude became meaningless. That is why Allah has regarded them as guilty of ingratitude and thanklessness.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :61 نعمت کو منعم کے سوا کسی اور کا عطیہ سمجھنا ، اس پر کسی اور کا احسان مند ہونا ، اور منعم کے سوا کسی اور سے نعمت پانے کی امید رکھنا یا نعمت طلب کرنا ، یہ سب کفران نعمت ہے ۔ اسی طرح یہ بھی کفران نعمت ہے کہ آدمی منعم کی دی ہوئی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ۔ لہٰذا ایک مشرک اور کافر اور منافق اور فاسق انسان محض زبان سے شکر کے الفاظ ادا کر کے خدا کا شاکر بندہ قرار نہیں پا سکتا ۔ کفار مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ ان جانوروں کو خدا نے پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں دوسرے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ماننے کے باوجود جب وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اپنے معبودوں کے شکریے بجا لاتے اور ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے اور ان سے مزید نعمتوں کی دعائیں مانگتے اور ان کے لیے قربانیاں کرتے تھے تو خدا کے لیے ان کا زبانی شکر بالکل بے معنی ہو جاتا تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو کافر نعمت اور احسان فراموش قرار دے رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:73) ولہم فیھا۔ ای فی الانعام۔ منافع۔ اسم جمع منتہی الجموع ۔ منفعۃ واحد۔ فائدے۔ مثلاً زمین جوتنا۔ بوجھ اٹھانا۔ ان کی کھالوں اور بالوں کا استعمال وغیرہم۔ مشارب۔ اسم جمع منتہی الجموع۔ مشربۃ واحد۔ یہ اسم ظرف مکان بھی ہوسکتا ہے اور ظرف زمان بھی۔ یعنی پینے کی جگہ تھن۔ یا پینے کے اوقات۔ اور یہ مصدر میمی بھی ہے بمعنی پینا۔ بغوی نے مشربۃ سے مشروب یعنی پینے کی چیز لیا ہے ۔ یعنی دودھ، دہی وغیرہ ۔ منافع ومشارب بوجہ جمع منتہی الجموع ہونے کے غیر منصرف ہے لہٰذا ان پر تنوین نہیں آتی۔ افلا یشکرون۔ ہمزہ استفہام انکاری کا ہے۔ فاء عطف کا ہے اور اس کا فعل محذوف پر ہے ای یشاھدون ہذہ النعم فلا یشکرون المنعم بھا۔ ان نعمتوں کو دیکھتے ہیں اور ان نعمتوں کے دینے والے کا شکر ادا نہیں کرتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 مثلاً ان کی کھال، چربی، سینگ، بال اور آنتوں وغیرہ سے سینکڑوں چیزیں بناتے ہیں۔11 یعنی دودھ اور وہ چیزیں جو دودھ سے بنتی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَہُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ ) (اور چوپایوں میں ان کے لیے منافع ہیں اور پینے کی چیزیں ہیں سو کیا یہ شکر نہیں کرتے) اوپر دو منافع کا ذکر تھا، ایک یہ کہ جانور سواری کا کام دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان میں سے بعض کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ اس آیت میں دوسرے منافع کا بھی اجمالاً ذکر فرما دیا۔ مثلاً ان کی کھالیں دباغت کے بعد کام میں لاتے ہیں اور ان کے بال اور اون کاٹ کر بچھانے اور پہننے کی چیزیں تیار کرتے ہیں اور ان سے کھیتی جوتنے کا کام بھی لیتے ہیں، اور ان کے ذریعے پانی کھینچ کر کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ ساتھ ہی مشارب کا بھی ذکر فرمایا، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اس سے دودھ مراد ہے اور مشارب مشرب کی جمع ہے جو مشروب کے معنی میں ہے اور دودھ کی چونکہ بہت سے اقسام ہیں اس لیے جمع لایا گیا۔ پھر دودھ سے گھی بنتا ہے۔ لسی بھی بنتی ہے، دہی بھی بنائی جاتی ہے جس کو پیتے ہیں اور استعمال میں لاتے ہیں، یہ بھی جمع لانے کی ایک وجہ ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ مشارب ظرف کا صیغہ ہے اور اس سے برتن مراد ہیں، زمانہ قدیم میں جانوروں کے چمڑوں سے مشکیزے تو بناتے ہی تھے پیالے بھی بنالیتے تھے جس میں دودھ وغیرہ پیتے تھے۔ اگر یہ معنی مراد لیے جائیں تو یہ بھی بعید نہیں ہے اور اس سے مشارب کا جمع لانا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(73) اور ان مواشی میں ان لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فوائد اور منافع ہیں اور ان میں ان کے لئے پینے کی چیزیں بھی ہیں سو یہ لوگ شکر کیوں نہیں بجا لاتے۔ نفعوں سے مراد ان چوپایوں کی کھال ہڈی اور ان کے سینگ اور اون وغیرہ سے فائدہ حاصل کرنا ہوسکتا ہے۔ ان کا دودھ پیا جاتا ہے۔ یہ تمام احسانات اور انعامات اس امر کے مقتضی ہیں کہ حضرت حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کو مسخر کردیا ہے انسان جس طرح چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے مواشی کو استعمال کرتا ہے اور پھر اس خالق حقیقی اور منعم حقیقی کا شکر نہیں بجا لاتا۔