Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 80

سورة يس

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الشَّجَرِ الۡاَخۡضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنۡتُمۡ مِّنۡہُ تُوۡقِدُوۡنَ ﴿۸۰﴾

[It is] He who made for you from the green tree, fire, and then from it you ignite.

وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He Who produces for you fire out of the green tree, when behold you kindle therewith. means, the One Who initiated the creation of this tree from water, when it has become green and beautiful, bearing fruit, then He changes it until it becomes dry wood with which fires are lit. For He does whatever He wills and He is able to do whatever He wills, and none can stop Him. Qatadah said concerning the Ayah: الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الاَْخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ (He Who produces for you fire out of the green tree, when behold you kindle therewith). this means, the One Who brought forth this fire from this tree is able to resurrect him. It was said that this refers to the Markh tree and the `Afar tree, which grow in the Hijaz. If one wants to light a fire but has no kindling with him, then he takes two green branches from these trees and rubs one against the other, and fire is produced from them. So they are just like kindling. This was reported from Ibn Abbas, may Allah be pleased with him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٢] اللہ نے ہر مردہ میں زندہ اور زندہ میں مردے کی خاصیت رکھ دی ہے :۔ یعنی درخت کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر آخر میں اسے ایندھن بنا کر اس سے آگ نکالی۔ درخت کا آغاز پانی سے ہوا اور انتہا آگ پر ہوئی اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد بلکہ ایک لحاظ سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ آگ تھوڑی مقدار میں ہو تو پانی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ اور پانی کم مقدار میں ہو تو آگ اسے آبی بخارات میں تبدیل کرکے اسے ختم کردیتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ایک ہی چیز کے آغاز اور انجام میں متضادصفات پیدا کرسکتے ہیں تو پھر ایک ہی چیز کو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کیوں نہیں بناسکتے۔ یہ تو عام درختوں اور پودوں کا حال ہے۔ پھر کچھ درخت ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں رگڑنے سے اس طرح آگ پیدا ہوجاتی ہے جس طرح چقماق پتھر سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں موم بتی کی طرح جلتی ہیں۔ کیونکہ ان میں روغن خاصی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر درخت اور پودا جو پانی سے پیدا ہوا ہے اس کے اندر بھی آتش گیری کی صفات رکھ دی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہر مردہ میں زندہ ہونے اور زندہ میں مرنے کی صفت بھی فطری طور پر رکھ دی گئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا : ” الْاَخْضَرِ “ سے مراد تروتازہ درخت ہے، جو پانی سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ دوبارہ زندگی کی دوسری دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اشیاء سے ان کی ضد نکالنے پر قادر ہے، وہ بوسیدہ ہڈیوں سے دوبارہ زندہ انسان بنا دے گا، کیونکہ دیکھو، پانی اور آگ ایک دوسرے کی ضد ہیں، مگر اس نے پانی سے لبریز تازہ درخت میں آگ پکڑنے والا وہ مادہ رکھ دیا ہے جس سے تازہ لکڑی بھی جلنے لگتی ہے۔ اسی طرح وہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور نکالے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 80, it was said: جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ‌ الْأَخْضَرِ‌ نَارً‌ا (the One who created for you fire from the green tree). Two trees used to be well known in ` Arabia - Markh (Cynanchum Vinimale) and ` Afar. The Arabs were accustomed to cutting two twigs from these two trees as they did with siwak or miswak. These twigs would be solid, green, and full of fresh water inside. By rubbing one on the other, it worked like firestone. They could strike fire out of these. This is what has been alluded to in striking fire out of the green tree. (Qurtubi) And if we were to consider the ultimate fate of trees, every green tree that flourishes initially, then, later on, once dried, it becomes a source of fuel and fire. Seen from this angle, every tree can be meant here - as seems to be the sense in the following verse of the noble Qur&an: أَفَرَ‌أَيْتُمُ النَّارَ‌ الَّتِي تُورُ‌ونَ ﴿٧١﴾ أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَ‌تَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ (Now tell Me about the fire you kindle: Is it you who have originated its tree, are We the Orginiator? - 56:71-72). But, in the present verse, since the quality of the &shajar& or tree has also been mentioned as being &akhdar& or green, therefore, here it seems that meant here are those particular trees that used to be a source of fire despite being green and moisturized.

(آیت) جعل لکم من الشجر الاخضر ناراً ، عرب میں دو درخت معروف تھے۔ ایک مرخ دوسرا عفار۔ عرب لوگ ان دونوں درختوں کی دو شاخیں مثل مسواک کے کاٹ لیتے تھے جو بالکل ہری تازہ پانی سے بھری ہوتی تھیں، ایک کو دوسری پر رگڑنے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی۔ ہرے درخت سے آگ پیدا کرنے میں اس طرف اشارہ ہے۔ (قرطبی) اور اگر درختوں کے آخری انجام کو دیکھا جائے تو ہر درخت بھی اس کا مصداق ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں بظاہر یہی مراد ہے (آیت) افرءیتم النار التی تورون انتم انشاتم شجر تھا ام نحن المنشؤن، یعنی کیا تم اس آگ کو نہیں دیکھتے جس کو تم سلگا کر اپنے کام میں لیتے ہو کیا اس آگ سے شعلہ بننے والے درخت کو تم نے پیدا کیا یا ہم نے ؟ لیکن آیت مذکورہ میں چونکہ شجر کے ساتھ اخضر کی صفت بھی ذکر کردی گئی ہے اس لئے یہاں ظاہر یہی ہے کہ وہ خاص درخت مراد ہیں جن سے ہرے بھرے ہونے کے باوجود آگ پیدا ہوتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۝ ٨٠ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ خضر قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر : قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة : المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر . ( خ ض ر ) قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ وقد يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ ( و ق د ) وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج/ 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مکہ والو وہ ایسا ہے جو ہرے درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کردیتا ہے پھر تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ { الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا } ” جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی “ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرے بھرے درختوں کے اندر جلنے اور آگ پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے۔ ان کی لکڑیوں کو تم لوگ خشک کر کے جلاتے ہو اور آگ کے حوالے سے اپنی مختلف ضروریات پوری کرتے ہو۔ اس کے علاوہ اس سے بعض ایسے درخت بھی مراد ہیں جن کی سبزٹہنیوں کو رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً بانس کی بعض اقسام میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صحرائوں میں خاص طور پر بعض ایسے درخت پیدا کر رکھے ہیں جن کی مدد سے مسافر ضرورت پڑنے پر آگ پیدا کرسکیں۔ جیسے کہ عرب کے صحرائوں میں مرخ اور عفار نامی دو درخت پائے جاتے تھے ‘ جن کی سبز شاخوں کو آپس میں رگڑکر آگ پیدا کی جاسکتی تھی۔ { فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ } ” تو تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68 It either means that He has placed the inflammable matter in the green trees due to which people kindle fire from the pieces of wood. Or, it is an allusion to the markh and 'afar trees, whose green branches the Arabs struck against each other to produce the sparks. In ancient times the Bedouins used this method of kindling the fire and might even be using the same today.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :68 یا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہرے بھرے درختوں میں وہ آتش گیر مادہ رکھا ہے جس کی بدولت تم لکڑیوں سے آگ جلاتے ہو ۔ یا پھر یہ اشارہ ہے مرْخ اور عَفَار نامی ان دو درختوں کی طرف جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کر اہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تھے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی تھی ۔ قدیم زمانہ میں عرب کے بدّو آگ جلانے کے لیے یہی چقماق استعمال کیا کرتے تھے اور ممکن ہے آج بھی کرتے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: عرب میں دو درخت ہوتے تھے، ایک مرخ اور دوسرا عفار۔ اہل عرب ان سے چقماق کا کام لیتے تھے، اور ان کو ایکد وسرے کے ساتھ رگڑنے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ جس ذات نے ایک سرسبز درخت سے آگ پیدا کردی ہے، اس کے لیے دوسرے جمادات میں زندگی پیدا کردینا کیا مشکل ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٠ تا ٨٣۔ انسان کی عقل کی رسائی سے باہر یہ اور قدرت کی نشانی بیان فرمائی ہے کیوں کہ انسان کا عقلی تجربہ تو یہی ہے کہ کسی ہرے درخت کی ٹہنیوں پر آگ ڈال دی جاوے تو اس کی ٹہنیاں جل جاویں گی یہ ساری صاحب قدرت کی قدرت ہے کہ مثلاً بانس اور بعضے درختوں میں اس نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ ان درختوں کی ہری ٹہنیوں کو توڑ کر ایک ٹہنی کو دوسری ٹہنی سے رگڑا جاوے تو ان تنیوں میں سے آگ نکلتی ہے جس آگ کو مسافر لوگ کام میں لاتے ہیں۔ پھر فرمایا جس صاحب قدرت نے ان منکرین حشر کے سر پر بغیر ستون کے سات آسمان کھڑے کردیئے ان کے رہنے اور بسنے کے لیے پانی پر زمین بچھادی کیا ایک دفعہ پیدا کر کے پھر دوبارہ ان منکرین حشر کا پیدا کرنا اس صاحب قدرت کی قدرت سے باہر ہے ؟ نہیں نہیں وہ بڑا خالق ہے اور اس کا علم بہت وسیع ہے اس کی قدرت کے کار خانہ میں ہر ایک چیز کے پیدا ہوجانے کے لیے فقط حکم کی دیر ہے یہ منکرین حشر اس کی شان میں جو بکواس لگاتے ہیں اس سے وہ پاک اور دور ہے ہر ایک چیز اس کے حکم کے تابع ہے جنگل دریا میں جہاں کہیں ان منکرین حشر کی خاک ہوگی اس کو جمع کیا جاکر ان کو دوبارہ پیدا کیا جاوے گا اور عمر بھر کے سب نیک و بد کا ان کو حساب دینا پڑے گا ترمذی سند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے ابوہرزہ (رض) اور معا ذبن حبل (رض) کی صحیح روایتیں ١ ؎ اوپر گزر چکی ہیں (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٩٥ فصل فی ذکر الحساب۔ (ع ‘ ح) کہ چار باتوں کی جواب دہی کے لیے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے روبرو ضرور کھڑا ہونا پڑے گا۔ (١) ساری عمر کس کام میں گزاری۔ (٢) جوانی میں کیا کرتا رہا۔ (٣) روپیہ پیسہ کیوں کر کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (٤) دین کی کوئی بات سیکھی تو اس پر کیا عمل کیا۔ ان روایتوں کو اور صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رض) کی روایتیں جو اوپر گزری جن میں ایک شخص کی لاش کے جلا دینے اور خاک کو ہوا میں اڑا دینے اور دریا میں بہادینے کی وصیت کی تھی ان سب روایتوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر چیز اللہ کے حکم کے جو تابع ہے اس کے موافق جنگل اور دریا نے اس شخص کی خاک کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے فورا حاضر کردیا اور انسان کے دوبارہ پیدا ہوجانے میں فقط اللہ کے حکم کی دیر تھی اس لیے حکم ہوتے ہی وہ شخص دوبارہ زندہ ہوگیا ‘ جن باتوں کو جواب وہی کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کیا جاوے۔ گا وہ چار باتیں ہیں جن میں عمر بھر کے عملوں کا جب سوال ہوگا تو منکرین حشر نے پانی عمر کا جو حصہ حشر کے انکار میں گزرا ہے وہ ان کو بہت آفت میں ڈالے گا ‘ فقط ‘ سورة یسٰین ختم ہوئی۔ (وللہ الحمد)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:80) الشجر الاخضر۔ سبز درخت، ہرا بھرا درخت، موصوف وصفت ۔ فاذا انتم منہ توقدون۔ اور پھر تم اس سے (اور ) آگ سلگا لیتے ہو۔ منہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الشجر الاخضر ہے توقدون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم آگ سلگاتے ہو، تم آگ روشن کرتے ہو۔ ایقاد (افعال) مصدر۔ وقد مادہ۔ وقود ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جائے۔ آگ کا شعلہ۔ الشجر الاخضر سے آگ کے مہیا ہونے کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں ! (1) اللہ تعالیٰ کسی چیز کی ہیئت کو منقلب کرسکتا ہے ” فرمایا کہ تم غور کرو کہ پانی سے میں نے درخت اگائے جو سرسبز و شاداب ہرے بھرے اور پھل دار ہوئے۔ پھر وہ سوکھ گئے اور ان کی لکڑیوں میں سے میں نے آگ نکالی۔ کہاں وہ تری اور ٹھنڈک اور کہاں یہ خشکی اور گرمی پس مجھے کوئی چیز بھاری نہیں “ (ابن کثیر) ۔ (2) یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے مرخ اور عفار کے درخت ہیں جو حجاز میں ہوتے ہیں ان کی سبز ٹہنیوں کو آپس میں رگڑنے سے چمق کی طرح آگ نکلتی ہے “ (ابن کثیر) ۔ اس سلسلہ میں علامہ عبداللہ یوسف علی نے لین Lane کی لغات العربیہ سے نقل کیا ہے ! فولاد کو چقماق پر مار کر آگ جلانے سے زیادہ پرانا اور قدیم طریقہ درخت کی ٹہنیوں کو ایک دوسرے سے رگڑ کر آگ حاصل کرنے کا ہے “ برٹش انسائیکلو پیڈیا چودھواں ایڈیشن جلد 9 کے صفحہ 262 پر ایک تصویر ہے جس میں برٹش کی آنا کے لڑکے دکھائے گئے ہیں جو زمین پر پڑے ہوئے ایک لکڑی کے بڑے ٹکڑے میں ایک گول سراخ میں آگ لینے کے لئے ایک لکڑی کے ڈنڈے کو رگڑ رہے ہیں۔ عرب ایک چوبی آلہ استعمال کرتے تھے جس کو زناد کہتے ہیں۔ یہ دو ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ جو ایک دوسرے کے ساتھ رگڑے جاتے تھے ۔ او پر والا حصہ عفار یا زند کہلاتا تھا اور زیریں حصہ کو مرخ کہتے تھے۔ مرخ ایک ایسے درخت کی شاخ تھی جو پھیلائو کے رخ زیادہ بڑھتا ہے۔ اسے CYNANCHUM. VIMLANE کہتے ہیں اس کی شاخیں بغیر پتوں اور کانٹوں کے ہوتی ہیں جب یہ آپس میں الجھ جائیں تو تیز ہوا چلنے سے رگڑ کھا کر آگ دیتی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اس نے پہلے تو پانی سے سرسبز شاداب درخت پیدا کیا پھر اسے سکھا کر ایندھن بنا دذیا جس سے اب تم آگ جلا رہے ہو۔ بعض علماء تفسیر نے ” سبز درخت “ سے مراد غفار اور مرخ نامی دو درخت لئے ہیں جن کی ہری بھری ٹہنیاں لے کر اہل عرب انہیں آپس میں ٹکراتے تو ان سے آگ پیدا ہوجاتی اور وہ انہی سے آگ حاصل کرتے تھے واللہ اعلم۔ ( کذا فی الوضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ چناچہ عرب میں ایک درخت تھا مرخ اور ایک عفار، ان سے چقماق کا کام لیتے تھے، پس جب پانی میں کہ خضرت اسی کا اثر ہے، آگ پیدا کردیتے ہیں تو جماد میں حیات پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکر کو اس کی پیدائش کا حوالہ دے کر قیامت قائم ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ اگر انسان کو اپنی تخلیق یاد ہو تو وہ قیامت کا انکار نہ کرے اور نہ ہی اس کے بارے میں بحث و تکرار کرے۔ کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ہی پہلی بار پیدا کیا ہے اور وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ اس نے نہ صرف انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے بلکہ تمہارے لیے ہر بھرے درخت سے آگ پیدا کی ہے جس سے تم آگ حاصل کرتے ہو۔ کیا انسان اس پر بھی غور نہیں کرتا کہ جس نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور جس نے سبز درخت میں آگ پیدا کی اور جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ کیا اب وہ انہیں پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ؟ کیوں نہیں ! وہ تو بڑی سے بڑی چیز پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کی طاقت اور اختیارات کا عالم یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا حکم صادر فرماتا ہے کہ ہوجا۔ وہ چیز اس کی منشاء کے مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے کا ثبوت دیتے ہوئے چار دلائل دئیے ہیں۔ 1 پہلے انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر ہر انسان کو اس کے ماں باپ کے نطفہ سے پیدا کرتا ہے اب نطفہ پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کس طرح انسان کو پیدا کرتا ہے۔ 2 وہ انسان کو اس لیے دوبارہ پیدا کرسکتا ہے اور کرے گا کیونکہ اس نے اسے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے جو کسی میٹریل اور پہلے سے موجودہ نقشے کے بغیر انسان کو پیدا کرسکتا ہے تو دوبارہ کیوں نہیں پیدا کرسکتا ؟ اس کے ثبوت اس سے پہلی آیت کی تفسیر بالقرآن میں دئیے گئے ہیں۔ 3 انسان اپنی محدود عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ انسان مر کر مٹی کے ساتھ مل جائے گا تو اس کے ذرّات کو مٹی سے الگ کرنا پھر اس کا ڈھانچہ بنانا اور اس میں زندگی پیدا کرنا مشکل ہے۔ اس باطل عقیدہ کے حامل شخص کو ایک ایسے درخت کے ذریعے آخرت کا عقیدہ سمجھایا گیا ہے جس سے پرانے زمانے کے عرب آگ حاصل کیا کرتے تھے۔ انہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ غور کرو۔ درخت اپنے بیج کی بنیاد پر مٹی اور پانی کے جوہر سے اگتا ہے اور اس کے پتے اور ٹہنیاں انتہائی سبز ہوتی ہیں۔ جن میں ایک خاص مقدار میں پانی ہوتا ہے مگر جب تم اس کی ٹہنیوں کو آپس میں رگڑتے ہو تو اس سے آگ نکلتی ہے حالانکہ دونوں چیزیں آپس میں متضاد ہیں۔ جو ذات سبز اور تروتازہ ٹہنی سے آگ نکال سکتی ہے کیا وہ مٹی سے بنے ہوئے انسان کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی ؟۔ یہ اشارہ مرخ اور عفار نامی دو درختوں کی طرف ہے جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کر اہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی۔ قدیم زمانے میں عرب کے بدو آگ جلانے کے لیے چقماق استعمال کرتے تھے اور ممکن ہے دور دراز کے صحراؤں میں رہنے والے بادیہ نشین آج کل ایسا کرتے ہوں۔ 4 قیامت کا منکر انسان اپنی سمجھ کے مطابق دوبارہ پیدا ہونے کو انوکھا اور بڑا کام سمجھتا ہے کیا وہ غور نہیں کرتا کہ زمین و آسمان اس کے وجود اور اس کی تخلیق کے اعتبار سے بڑے نہیں ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں پیدا کیا ہے اور وہ پوری مخلوق اور اس جیسی دوسری مخلوقات کو دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ بڑا ہی خلّاق اور علیم ہے۔ اسے پیدا کرنے کے لیے کسی بنے بنائے نقشے اور میٹریل کی ضرورت نہیں جب وہ کسی کام یا چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف ” کُنْ “ کا لفظ بولتا ہے اور وہ چیز عین اس کی مرضی کے مطابق بن جاتی ہے۔ مسائل ١۔ منکرین قیامت کو بتلائیں کہ وہی ” اللہ “ انہیں دوبارہ پیدا کرے گا جس نے پہلی مرتبہ انہیں پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اسی نے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کی جس سے تم آگ حاصل کرتے ہو۔ ٣۔ وہی ذات کبریا ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور وہ جب چاہے اس جیسی مخلوق پیدا کرسکتا ہے۔ ٤۔ صرف ایک ” اللہ “ ہی سب کچھ پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف کن فرماتا ہے اور وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قاد رہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٨٤) ٥۔ آسمان و زمین کی بادشاہت ” اللہ “ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٦۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٧۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنے احاطہ قدرت میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٢٦) ٨۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سب چیزوں کو اللہ نے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٠٨) ٩۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک میرے رب نے جو تم کرتے ہو اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ (ھود : ٩٢) ١٠۔ جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ١١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم کے ذریعہ احاطہ کر رکھا ہے۔ (الطلاق : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الذی جعل۔۔۔۔ توقدون (36: 80 ) ” وہ جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو “۔ یعنی یہ سادی ابتدائی مشاہدہ ہی اللہ کی قدرت مذکورہ کی تصدیق کر دے گا۔ یہ مشاہدہ تم لوگ روز کرتے ہو لیکن اس کی حقیقت نہیں پاتے ہو۔ یہ سرسبز درخت جو پانی کے رس سے بھرا ہوا ہے جب اس کا ایک حصہ دوسرے سے رگڑا جاتا ہے تو اس سے آگ پیدا ہوتی ہے اور یہ درخت بھی پھر اس آگ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ باوجود اپنی سرسبزی اور تروتازگی کے۔ اور وہ گہری تحقیق کہ درخت کے اندر جو طبیعی حرارت کا خزانہ ہوتا ہے ، جو وہ سورج کی تاب کاری سے جذب کرتا ہے اور وہ اسے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتا ہے حالانکہ وہ پانی کے رس سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اور ان درختوں کے رگڑ سے پھر وہ آگ پیدا ہوتی ہے جس طرح جلنے کے عمل سے آگ پیدا ہوتی ہے تو اس حقیقی علم و معرفت سے یہ حقیقت اور کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہرے بھرے درخت سے آگ کس طرح نمودار ہوتی ہے۔ خالق کائنات ہی نے درختوں کے اندر یہ کمالات ودیعت فرمائے جس نے ہر چیز کو اسکی تخلیق دی اور پھر اسے حکم دیا کہ وہ ان مقاصد کو پورا کرے جن کے لئے پیدا کیا گیا۔ ہاں یہ ہماری بےراہ روی ہے کہ ہم اس مخلوق کو اسی زاویہ نظر سے نہیں کھلتے اور نہ وہ ہماری راہنمائی اس خالق اور صانع کی طرف کرتے ہیں۔ اگر ہم کھلے دلوں اور گہری نظروں کے ساتھ دیکھیں تو یہ اسرار و رموز ہماری دسترس میں ہیں اور ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم انہیں سمجھیں ، اللہ کی بندگی کریں اور ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا کرتے رہیں۔ اس کے بعد دلائل قدرت الہیہ بیان کیے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ تخلیق کا یہ عمل کس قدر سادہ ہے اور اسی طرح اللہ کے لوگوں کا دوبارہ پیدا کرنا کس قدر آسان ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِِذَا اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ ) (جس نے تمہارے لیے ہرے درخت سے آگ پیدا کی۔ سو اچانک تم اس میں سے جلاتے ہو) یعنی جس ذات پاک نے ہرے درخت میں سے آگ نکالی حالانکہ درخت پانی کے اثر سے ہرا بھرا ہوتا ہے اور درخت کو نچوڑیں تو اس میں سے پانی نکلتا ہے اور آگ اور پانی آپس میں ضد ہیں، اس کے لیے جماد یعنی ایسی بےجان چیز میں جان ڈالنا کیا مشکل ہے جس میں ظاہری اعتبار سے اس کے مخالف اور منافی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور وہ ایک بار زندگی پاچکی ہے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ مرخ اور عفار دو درخت ہوتے تھے اور سرسبز ہوتے تھے جن میں سے پانی ٹپکتا تھا، ان میں سے ایک ٹہنی لے کر دوسری کی ٹہنی پر مارتے تھے تو اس سے آگ نکلتی تھی پھر اس آگ سے اپنی ضرورت کے لیے آگ جلا لیتے تھے۔ ان دو درختوں میں سے ایک کا دوسرے پر مارا جانا چقماق کا کام دیتا تھا۔ اسی کو فرمایا (فَاِِذَا اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ ) (سو اچانک تم اس میں سے آگ جلاتے ہو۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ الذی جعل الخ :۔ اس کی قدرت کاملہ کا ایک ادنی کرشمہ یہ ہے کہ وہ سبز درخت سے آگ نکالتا ہے۔ جسے تم روشن کرتے ہو۔ سبز درخت سے عفار بانس اور مرخ مراد ہیں۔ ان تینوں درختوں کی تازہ لکڑیوں کو باہم رگڑ کر آگ حاصل کی جاتی تھی۔ وھی الزنا والتی توری بھا الاعراب و اکثرھا من المرخ والعفار (مدارک ج 4 ص 12) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(80) وہ پہلی بار پیدا کرنے والا ایسا ہے جو تمہارے لئے ہرے اور سبز درخت سے آگ پیدا کرتا ہے۔ پھر تب ہی تم اس سبز درخت سے اور آگ سلگاتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اول پتھر سے نکالتے ہیں یا درخت سبز سے ٹہنیاں اس کی آپس میں رگڑتی ہیں تو آگ نکلتی ہے جیسے بانس ہے۔ بانس کے درخت سے آگ کا نکلنا تو مشہور ہے جب ہوا سے بانس آپس میں رگڑتے ہیں تو ان میں آگ پیدا ہوجاتی ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ پانی سے جو لکڑی پیدا ہوتی ہے وہی آگ کا کام دیتی ہے۔ یہ تغیر اور تبدل اس امر کی دلیل ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے یا اہل عرب چونکہ عام طور سے مرخ اور عفار کو رگڑ کر آگ نکالتے تھے اس کو ظاہر فرمایا کہ ہری لکڑی میں سے آگ نکال دیتا ہے جس میں رطوبت موجود ہوتی ہے۔ مرخ نر ہے اور عفار مادہ ہے جب دونوں کی ٹہنیوں کو آپس میں رگڑتے ہیں تو آگ پیدا ہوجاتی ہے۔ بہرحال ! جب یہ تغیرات آگ اور پانی کے اس عالم امکان میں موجود ہیں اور یہ تغیر و تبدل روزمرہ دیکھنے میں آتے ہیں تو مردوں کو زندہ کردینا کون سا مستبعد ہے۔