نسائی شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہلکی نماز پڑھنے کا حکم فرماتے تھے اور آپ ہمیں سورہ والصافات سے نماز پڑھاتے تھے ۔
سورة الصّٰٓفّٰت نام : پہلی ہی آیت کے لفظ والصافات سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : مضامین اور طرز کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکی دور کے وسط میں ، بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے ۔ انداز بیان صاف بتا رہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے اور نبی و اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت دل شکن حالات سے سابقہ در پیش ہے ۔ موضوع و مضمون: اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا ، اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا ، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقہ سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کر دیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر ، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ، تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آ جائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا ہوا پاؤ گے ( آیت نمبر 171 تا 179 ) ۔ یہ نوٹس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے ۔ مسلمان ( جن کو ان آیات میں اللہ کا لشکر کہا گیا ہے ) بری طرح ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے ۔ ان کی تین چوتھائی تعداد ملک چھوڑ کر نکل گئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بمشکل 40 ۔ 50 صحابہ مکہ میں رہ گئے تھا اور انتہائی بے بسی کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں برداشت کر رہے تھے ۔ ان حالات میں ظاہر اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ باور نہ کر سکتا تھا کہ غلبہ آخر کار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مٹھی بھر بے سر و سامان جماعت کو نصیب ہو گا ۔ بلکہ دیکھنے والے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تحریک مکے کی گھاٹیوں ہی میں دفن ہو کر رہ جائے گی ۔ لیکن 15 ۔ 16 سال سے زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی کچھ پیش آگیا جس سے کفار کو خبردار کیا گیا تھا ۔ تنبیہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں تفہیم اور ترغیب کا حق بھی پورے توازن کے ساتھ ادا فرمایا ہے ۔ توحید اور آخرت کے عقیدے کی صحت پر منحصر دل نشین دلائل دیے ہیں ، مشرکین کے عقائد پر تنقید کر کے بتایا ہے کہ وہ کیسی لغو باتوں پر ایمان لائے بیٹھے ہیں ، ان گمراہیوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ایمان و عمل صالح کے نتائج کس قدر شاندار ہیں ۔ پھر اسی سلسلے میں پچھلی تاریخ کی مثالیں دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے ، کس کس طرح اس نے اپنے وفادار بندوں کو نوازا ہے اور کس طرح ان کے جھٹلانے والوں کو سزا دی ہے ۔ جو تاریخی قصے اس سورہ میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ سبق آموز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کا یہ اہم واقعہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے ۔ اس میں صرف ان کفار قریش ہی کے لیے سبق نہ تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اپنے نسبی تعلق پر فخر کرتے پھرتے تھے ، بلکہ ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق تھا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے ۔ یہ واقعہ سنا کر انہیں بتا دیا گیا کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی اصلی روح کیا ہے ، اور اسے اپنا دین بنا لینے کے بعد ایک مومن صادق کو کس طرح اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے ۔ سورہ کی آخری آیات محض کفار کے لیے تنبیہ ہی نہ تھیں بلکہ ان اہل ایمان کے لیے بشارت بھی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و حمایت میں انتہائی حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ انہیں یہ آیات سنا کر خوشخبری دے دی گئی کہ آغاز کار میں جن مصائب سے انہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ان پر گھبرائیں نہیں ، آخر کار غلبہ ان ہی کو نصیب ہو گا ، اور باطل کے وہ علمبردار جو اس وقت غالب نظر آ رہے ہیں ، انہی کے ہاتھوں مغلوب و مفتوح ہو کر رہیں گے ۔ چند ہی سال بعد واقعات نے بتا دیا کہ یہ محض خالی تسلی نہ تھی بلکہ ایک ہونے والا واقعہ تھا جس کی پیشگی خبر دے کر ان کے دل مضبوط کیے گئے تھے ۔
تعارف سورۃ الصّٰفّٰت مکی سورتوں میں زیادہ تر اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر زوردیا گیا ہے، اس سورت کا مرکزی موضوع بھی یہی ہے، البتہ اس سورت میں خاص طور پر مشرکین عرب کے اس غلط عقیدہ کی تردید کی گئی ہے جس کی رو سے وہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز فرشتوں کے اوصاف سے کیا گیا ہے، کفار کو کفر کے ہولناک انجام سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس دنیا میں بھی اسلام ہی غالب آکر رہے گا، اسی مناسبت سے حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت موسیٰ، حضرت الیاس اور حضرت یونس علیہم السلام کے واقعات مختصر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے قربانی کے جس عظیم جذبے سے اس کی تعمیل فرمائی، اس کا واقعہ بڑے مؤثر اور مفصل انداز میں اسی سورت کے اندر بیان ہوا ہے، سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔
تعارف سورة الصافات :۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا رکھا تھا اسی طرح کفار عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ نعوذ باللہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرشتوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے عبادت گزار اور نور سے بنائے گئے بندے ہیں جن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر وقت صفیں باندھے ہوئے اس کے ہر حکم کی تکمیل کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور وہ اسی کی حمد وثناء کرتے رہتے ہیں ۔ ٭اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو بنا کر اور انسانی ضروریات کی تمام چیزوں کو پیدا کر کے ایک خاص نظم و ضبط کی لڑی میں پرو رکھا ہے اور اللہ نے کائنات کی تمام چیزوں کو انسانوں کے کام میں لگا رکھا ہے۔ کسی چیز کو ختم کرنا یا باقی رکھنا ، زندگی اور موت سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، اسی نے زندگی دی ہے ، وہی موت دے گا اور وہی دوبارہ پیدا کر کے ہر شخص سے اس کی زندگی کے ہر لمحے کا حساب لے گا ۔ فرمایا کہ کفار عرب کا یہ کہنا کہ مرنے کے بعد جب ہماری ہڈیاں چورہ چورہ ہوجائیں گی اور ہمارے وجود کے ذرات بکھر جائیں گے تو ہم اور ہمارے باپ دادا جن کے وجود کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں رہا کیا وہ دوبارہ پیدا کئے جاسکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب وہ چاند ، سورج ، ستارے اور آسمان و زمین کو پیدا کرسکتا ہے تو اس کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ یقینا ان چیزوں کے مقابلے میں انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا تو بہت ہی آسان ہے اور وہ پیدا کرے گا ۔ کفار مذاق اڑانے کے لئے کہتے تھے کہ انسانوں کا دوبارہ پیدا ہونا ایک شاعرانہ خیال ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ جب صور پھونکا جائے گا تو تم اور تمہارے باپ دادا سب اٹھ کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے اور پھر یہ لوگ اپنے کیے ہوئے اعمال اور غلط خیال و عقیدہ کی وجہ سے پچھتائیں گے ۔ فرمایا کہ جب ان کفار اور ان کے سرداروں کو قیامت میں جمع کرنے کا حکم دیا جائے گا تو وہ اسی طرح شرمندگی کے ساتھ حاضر ہوں گے کہ شرم و ندامت سے ان کی گردنیں جھکی ہوئی ہوں گی اور وہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے قابل بھی نہ ہوں گے۔ اس وقت عام لوگ اپنے سرداروں کو اور سردار اپنے ماننے والوں کو اس عذاب کا سبب بتا کر ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجیں گے اور وہ سب کے سب جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ ( اس سورة میں حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و حضرت ہارون (علیہ السلام) ، حضرت الیاس (علیہ السلام) ، حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت یونس (علیہ السلام) ، چھ انبیاء کرام کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی قوم کو بت پرستی اور جاہلانہ رسموں سے روکنے کی کوشش کی مگر قوم نے نافرمانی اختیار کی جس کی وجہ سے ان کی قوموں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ) (حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے جب عذاب کے آثار دیکھے تو ساری قوم نے اجتماعی معافی مانگی اور عذاب کا فیصلہ ہونے کے باوجود اللہ نے ان پر عذاب اس لیے ہٹا لیا تھا کہ پوری قوم نے اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر معافی مانگی تھی اور پھر حضرت یونس (علیہ السلام) بھی واپس آگئے اور قوم کی اصلاح میں مشغول ہوگئے۔ ) (قیامت میں مشرکین ایک دوسرے پر لعنت بھیج کر اپنی گمراہی کا ذمہدار دوسروں کو ٹھہرائیں گے مگر نہ ماننے والے اور گمراہ کرنے والوں دونوں کو سخت عذاب دیا جائے گا۔ ) ٭اس کے بر خلاف جنت والوں کا اعزازو اکرام یہ ہوگا کہ ان کے لئے بہتر ین جنتیں ہوں گی ۔ جن میں بہترین غذائیں ، رہنے کے لئے عیش و آرام کے گھر ، باغات ، سر سبزی و شادابی ، پینے کے لیے شراب طہور ، جو سفید رنگ کی مزیدار شراب ہوگی ۔ نہ اس شراب سے چکر آئیں گے نہ وہ بہکیں گے نہ مستی اور خرافات میں مبتلا ہوں گے۔ اسی دوران ایک شخص کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو ہمیشہ اللہ و رسول کے خلاف باتیں کرتا تھا اور آخرت کا انکار کرتا تھا نجانے وہ کس حال میں ہوگا ؟ کہا جائے گا کہ کیا تم اس کو دیکھنا چاہتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ اس کی کیفیت کو سامنے کردیں گے کہ وہ جہنم کے بالکل بیچ میں آگ میں جل رہا ہوگا ۔ اس وقت یہ شخص اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہے گا کہ اللہ کا کرم ہوگیا ورنہ میں بھی تیری طرح آگ میں جل رہا ہوتا ۔ ٭اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کی بت پرستی کو قابل ملامت ٹھہراتے ہوئے حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) ، حضرت الیاس (علیہ السلام) ، حضرت لو ط (علیہ السلام) اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے پوری زندگی اپنی قوم کو بت پرستی کی لعنت سے چھڑاکر ایک اللہ کا بندہ بننے کی دعوت دی ۔ جب انہوں نے انکار کیا تو ان پر اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا اور یہ قومیں تباہ ہو کر رہ گئیں ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھ کر اور حضرت یونس (علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد اجتماعی توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کا فیصلہ واپس لے لیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) بھی واپس آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا مقصد اور مشن جاری رکھیے۔ لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہیے۔ کچھ تھوڑا سا انتظار کرلیجئے۔ اللہ بہت جلد اہل ایمان کو غلبہ عطاء فرمائے گا چناچہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ قرآن کریم کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور مکہ فتح ہوگیا اور اللہ نے سارے جزیرۃ العرب پر اہل ایمان کو غلبہ عطاء فرما دیا ۔ کفار مکہ سے کہا گیا کہ دوسری قوموں کا انجام تمہارے سامنے ہے اگر تم نے توبہ کرلی اور اپنے عقیدہ کی اصلاح کرلی تو سب کچھ درست ہوجائے گا ورنہ تم دوسری قوموں کی طرح اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔
سورة الصفت۔ 37 آیات 1 ۔۔۔ تا۔۔۔ 182 سورة الصفت ایک نظر میں سابقہ سورت کی طرح یہ سورت بھی مکی ہے۔ اس کی آیات اور فواصل مختصر اور زود اثر ہیں اور ان کے اندر مختلف مناظر اور مختلف مواقف ہیں۔ مختلف تصاویر اور مختلف سائے ہیں۔ اس کے اندر تمام واقعات ایسے ہیں جن کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن بعض واقعات خصوصی طور پر نہایت ہی شدید ، سخت اور گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ تمام دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا ہدف بھی یہی ہے کہ انسانوں کے نظریات اور عقائد کو درست کیا جائے۔ انسانی سوچ کو ہر قسم اور ہر شکل و صورت کی شرک سے پاک کیا جائے۔ لیکن خصوصاً یہاں شرک کی اس صورت کو لیا گیا ہے جو اس وقت عربی معاشرے میں رائج تھی۔ یہ سورت شرک کی اس قسم پر طویل تبصرہ کرتی ہے اور مختلف وسائل اور ذرائع سے اس کے کھوٹ اور باطل ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ جاہلیت عربیہ نے اس شرک کی شکل و صورت یوں گھڑ رکھی تھی کہ وہ اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داریاں ثابت کرتے تھے۔ اس سوچ میں وہ اس قدر آگے بڑھے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ نے نعوذ باللہ جنوں کے ساتھ شادی کی اور اس کے نتیجے میں ملائکہ پیدا ہوئے۔ پھر یہ بھی ان کا عقیدہ تھا کہ فرشتے عورتیں ہیں اور یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اس سورت میں ان خرافاتی کہانیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ اس تصور کے پوچ اور اس سوچ کے کھوٹ ہونے سے بحث کی گئی ہے۔ چونکہ اس سورت کا یہ اہم موضوع تھا ، اس لیے سورت کے آغاز ہی میں فرشتوں کے بعض گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اللہ کے حوالے سے ان کی حیثیت کا تعین ہو۔ والصفت صفا۔۔۔۔ فالتلیت ذکرا (37: 1 – 3) ” قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم ، پھر ان کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں۔ پھر ان کی قسم جو کلام نصیحت سنانے والے ہیں “۔ اس کے بعد سرکش شیاطین کا ذکر آتا ہے جن کو شہاب ثاقب کے ذریعہ مارا جاتا ہے تاکہ وہ ملاء اعلیٰ کے قریب نہ جاسکیں۔ اور عالم بالا میں اللہ کے تکوینی امور کے بارے میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کے سننے کے لیے یہ کان نہ لگائیں۔ اگرچہ عربوں میں مروج وہم پر ستانہ کہانیوں کے مطابق عالم بالا سے ان شیطاطین کو یوں نہ بھگایا جاسکتا تھا۔ اس سورت میں زقوم کے پودے کے پھلوں کو رؤس الشیاطین سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی اس درخت کو مزید گھناؤنا اور قبیح ثابت کرنے کے لیے ، سورت کے آخر میں اس پوچ تصور پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔ فاستفتھم الربک۔۔۔۔۔ عما یصفون (37: 149 – 159) ” پھر ذرا ان لوگوں سے پوچھو ، کیا (ان کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ) تمہارے رب کے لیے تو ہوں بیٹیاں اور ان کے لیے ہوں بیٹے ؟ کیا واقعی ہم نے ملائکہ کو عورتیں ہی بنایا ہے اور یہ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں ؟ خوب سن رکھو ، دراصل یہ لوگ اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ ” اللہ اولاد رکھتا ہے “۔ اور فی الواقع یہ جھوٹے ہیں۔ کیا اللہ نے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں اپنے لیے پسند کرلیں ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کیسے حکم لگا رہے ہو ؟ انہوں نے اللہ اور ملائکہ کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ ملائکہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مجرم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔ اللہ پاک ان باتوں سے جو یہ لوگ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں “۔ اس مخصوص صورت شرکیہ کی تردید کے ساتھ ساتھ ، اس سورت میں ان تمام دوسرے غلط عقائد کی بھی تردید کی گئی ہے جو مکی سورتوں کا خاص موضوع ہے ۔ چناچہ خالص توحید پر اس ظاہر و باہر کائنات سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان الھکم لواحد۔۔۔۔ ورب المشارق (37: 4 – 5) ” تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہے ، وہ جو زمین اور آسمانوں اور تمام ان چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں اور سارے مشرقوں کا مالک ہے “۔ یہ سورت تصریح کرتی ہے کہ شرک جہنم رسید ہونے اور عذاب پانے کا سبب اول ہے۔ یہ تصریح مناظر قیامت کے ایک منظر میں کی جاتی ہے۔ فانھم یومئذ فی العذاب۔۔۔۔۔۔۔ الا ما کنتم تعملون (37: 33 – 39) ” اس طرح وہ سب اس روز عذاب میں مشترک ہوں گے۔ ہم مجرموں کے ساتھ یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ وہ حق لے کر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی۔ اب ان سے کہا جائے گا کہ تم لازماً دردناک سزا کا مزہ چکھنے والے ہو اور تمہیں جو بدلہ بھی دیا جا رہا ہے وہ انہی اعمال کا دیا جا رہا ہے۔ جو تم کرتے رہے ہو۔ اس سورت میں بعث بعد الموت اور جزاء و سزا کے مسئلے کو بھی لیا گیا ہے۔ وقالوا ان ھذا الا۔۔۔۔۔۔ انتم داخرون (37: 15 – 18) ” اور وہ کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے۔ بھلا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اس وقت ہم پھر۔۔۔ زندہ کرکے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آباو اجداد بھی اٹھائے جائیں گے۔ ان سے کہو ہاں اور تم خدا کے مقابلے میں بےبس ہو “۔ اور اس کے بعد پھر مناظر قیامت میں سے ایک طویل اور منفرد منظر پیش کیا جاتا ہے ، جس کے اندر بیشمار مناظر ، حرکات ، تاثرات اور اچانک آنے والے حالات پیش کیے گئے ہیں۔ اس سورت میں وحی الٰہی اور منصب رسالت سے بھی بحث کی گئی ہے۔ وہ کہتے تھے۔ ویقولون ائنا۔۔۔۔ مجنون (37: 36) ” کیا ہم اپنے الہوں کو ایک شاعر اور مجنوں کی وجہ سے چھوڑ دیں “۔ اس کا جواب یوں آتا ہے : بل جآء ۔۔۔۔ المرسلین (37: 37) ” بلکہ وہ سچ لے کر آیا ہے اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی ہے “۔ اہل مکہ کی گواہی اور تکذیب کی مناسبت سے رسولوں کے قصے بھی اس سورت میں لائے گئے ہیں۔ حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور آپ کی اولاد کے قصص لائے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون ، حضرت الیاس ، حضرت لوط اور حضرت یونس (علیہم السلام) کے قصص بھی لائے گئے ہیں۔ ان قصص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے رسولوں پر ہمیشہ رحمت فرماتا رہا ہے اور ان کی نصرت کرتا رہا ہے۔ اور ان کے مخالفین اور مکذبین پر اللہ کا عذاب آتا رہا ہے ۔ اور ان کو سزا دی جاتی رہی ہے۔ ولقد ضل قبلھم۔۔۔۔۔ عباد اللہ المخلصین (37: 71 – 74) ” حالانکہ ان سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے تھے اور ان میں ہم نے تنبیہہ کرنے والے رسول بھیجے تھے۔ اب دیکھو کہ ان تنبیہہ کیے جانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس بدگمانی سے بس اللہ کیے وہی بندے بچے ہیں جنہیں اس نے اپنے لیے خالص کرلیا تھا “۔ ان قصص میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بہت ہی ممتاز ہے۔ حضرت اپنے بیٹے کو خواب میں اشارے کی بنا پر ذبح کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعت اور سرتسلیم خم کرنے کا اعلیٰ ترین معیار کیا ہوتا ہے۔ یہ اطاعت امر رب کی اعلیٰ ترین مثال ہے اور اس اعلیٰ اور بلند ترین چوٹی پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جنہوں نے اپنے نفوس کی تربیت اعلیٰ مقاصد کے لیے کی ہو اور ان کی نظریں افق اعلیٰ پر ہوں جو نہایت ہی روشن ہے۔ اس سورت میں موضوع سجن اور مسائل زیربحث کے نتیجے میں جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا خلاصہ واضح طور پر یوں ہے : 1 ۔ آسمانوں کے مناظر ، کو اکب اور شہاب ثاقب کے حیران کن مناظر : انا زینا۔۔۔۔۔ شھاب ثاقب (37: 10) ” ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر شیطان سر کش سے اس کو محفوظ کردیا ہے ۔ یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے ۔ ہر طرف سے مارے اور بانلے جاتے ہیں اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے ۔ تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے “۔ 2 ۔ قیامت کے مناظر اور اس کے نہایت ہی اچانک ، غیر متوقع اور دہشت ناک مناظر اور نہایت ہی قوی اثر ات اس سورت میں بیان کیے گئے ۔ اس سورت میں یہ مناظر ایک حصوصی شان لیے ہوئے ہیں ۔ ان کی تفصیلات ہم تشریح آیات کے وقت دیں گے ۔ انشاء اللہ ! 3 ۔ پھر اس سورت میں لائے ہوئے قصص میں خاص اشارات اور اسباق پو شیدہ ہیں ۔ خصوصاً قصہ ابراہیم اور آپ کے ذبیح بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے واقعات میں یہ اثر ات اپنے عروج پر نظر آتے ہیں ۔ باپ جب بیٹے کو حکم الٰہی کے تحت زبح کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں تو تسلیم ورضا کی یہ ایک اعلیٰ ترین مثال قرارپاتی ہے اور بہت ہی مشکل تعمیل ۔ 4 ۔ پھر اس سورت میں ترنم انگیز فواصل آیات ہیں ۔ مختصر آیات اور آیات کا ہم وزن خاتمہ ۔ اس سورت کے مناظر ، اس کے توؤں اور اس کے مواقف اور اشارات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ یہ سورت ان موضوعات کو تین اسباق کی شکل میں لیتی ہے۔ 1 ۔ پہلے سبق کا آغاز ان ملائکہ کی قسم کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جو صف بستہ تعمل حکم ۔۔۔ اور جو ڈانٹتے اور پھٹکارتے ہیں اور وہ جو کلام نصیحت سناتے اور پھیلاتے ہیں۔ یہ قسم اس بات پر اٹھائی جاتی ہے کہ تمام مشرقوں کا رب اللہ وحدہ ہے۔ جس نے آسمانوں کو کواکب کے ذریعے مزین کیا ہے۔ پھر شیاطین ، ان کی جانب سے عالم بالا کے راز چرانے اور شہاب ثاقب سے مارے جانے کا ذکر ہے اور اس کے بعد سوال کیا جاتا ہے۔ اھم اشد خلقا (37: 11) ” کیا یہ لوگ زیادہ طاقتور ہیں “ یا یہ بندگان خدا ملائکہ ، کواکب ، شیاطین اور شہاب ثاقب ؟ اس سے اس بات پر استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ بعث بعد الموت کو بعید سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے لیے یہ بہت ہی آسان کام ہے۔ یہ لوگ اپنی کج فہمی کی وجہ سے اسے مستبعد سمجھتے ہیں اور مزاح کرتے ہیں۔ چناچہ اس کے بعد حساب و کتاب اور جنت و دوزخ کا ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے ، یہ ایک منفرد منظر ہے۔ 2 ۔ دوسرے سبق کا آغاز اس مضمون سے کیا جاتا ہے۔ کہ مکہ کے گمراہوں کی مثالیں امم سابقہ میں بھی موجود رہی ہیں۔ ان کے پاس بھی ڈرانے والے آئے تھے لیکن ان میں سے اکثر لوگ گمراہ ہی رہے۔ ان ڈرانے والوں میں قوم نوح ، قوم ابراہیم ، موسیٰ ، ہارون ، الیاس ، لوط اور یونس (علیہم السلام) کے قصص لائے گئے ہیں۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان ڈرانے والوں کی اقوام کا انجام کیا ہوا۔ 3 ۔ تیسرے سبق میں وہ خرافاتی تصور پیش کرکے اسے رد کیا گیا ہے۔ جس کا تذکرہ ہم کر آئے ہیں۔ یعنی جنات اور ملائکہ کا قصہ۔ اس آخری سبق میں اللہ کے اس عہد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اس نے تمام رسولوں کے ساتھ کیا ہے۔ ولقد سبقت ۔۔۔۔۔ لھم الغلبون (37: 171 – 173) ” اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا “۔ سورت کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ تمام شرکوں سے پاک ہیں۔ اس کے رسولوں پر دنیا وآخرت میں سلامتی ہے۔ اور ہر قسم کی حمد و ثنا اور حاکمیت و ربوبیت اللہ کے لیے ہے۔ سبحن ربک رب العزۃ۔۔۔۔۔ رب العلمین (37: 180 – 182) ” پاک ہے تیرا رب ، عزت کا مالک ، ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں اور سلام ہے رسولوں پر ، اور ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے یہی وہ اصل مسائل ہیں جو اس سورت کا موضوع سخن ہیں۔ اور سورت کے مضامین انہی کے گرد گھومتے ہیں۔ اب تفصیلات اور تشریحات۔