Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 110

سورة الصافات

کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۱۰﴾

Indeed, We thus reward the doers of good.

ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] مُحْسِنِیْنَ کا ترجمہ اردو میں ایک دو لفظوں میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ لہذا عموماً اس کا ترجمہ نیکی کرنے والے یا نیکو کار کردیا جاتا ہے۔ إحْسَانٌ کا مطلب دراصل کسی کام کو بہتر سے بہتر طریق پر سرانجام دینا ہے۔ جیسا کہ حدیث جبریل سے واضح ہوتا ہے کہ جب سیدنا جبریل نے آپ سے یہ سوال کیا کہ إحْسَانٌ کیا چیز ہے۔ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا : && تو اللہ کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا تو سمجھے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے && (متفق علیہ) اور احسان میں کم از کم تین باتوں کا ہونا ضروری ہے (١) جو کام کیا جائے پوری خلوص نیت سے اور رضائے الٰہی کے لئے کیا جائے۔ (٢) حکم کی تعمیل محض اطاعت کے جذبہ سے نہ ہو بلکہ اس میں مطاع کی محبت کا جذبہ بھی شامل ہو۔ اور (٣) کام کے آداب و ارکان کو اس طریقہ پر سرانجام دیا جائے جو بہتر سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ اور سیدنا ابراہیم نے چونکہ ہر کام احسان کے ساتھ کیا تھا۔ لہذا اللہ نے دنیا میں انہیں دو طرح سے بدلہ دیا ایک یہ کہ رہتی دنیا تک ان پر سلامتی کی دعائیں کی جایا کریں۔ جیسا کہ ہم ہر نماز میں رسول اللہ کے ساتھ سیدنا ابراہیم اور ان کی آل پر بھی درود وسلام کی دعا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اکثر مذاہب والے انہیں اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سے نسبت جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کا ذکر اچھے الفاظ میں ہی کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١١٠ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠{ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ } ” اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں محسنین کو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ کہ ان کو محل و عار و بشارت بالسلامت کا بناتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کذلک نجزی المحسین (110) ” ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں “۔ آزمائش میں ڈال کر ان سے وفا کا اظہار کرا کے ، ان کے ذکر کو دوام بخش کر ، ان پر سلام بھیج کر ، اور ان کو اعزاز دے کر ہم جزاء دیتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ و بشرنہ الخ، سیاق وسباق قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کر کے شام میں سکونت پذیر ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے فرزند عطا کرنے کی دعا کی۔ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ایک غلام حلیم کی ولادت کی خوشخبری دی۔ جب یہ غلام حلیم بڑا ہوا تو اس کو ذبح کرنے کا حکم آگیا۔ پھر جب واقعہ ذبح گذر گیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دوسرے فرزند حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری دی۔ قرآن کا یہ سیاق واضح دلیل ہے کہ ذبیح حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ہیں اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت ہی اس واقعہ کے بعد ہوئی برکنا علیہ الخ : ابراہیم و اسحاق پر ہم نے دین و دنیا کی برکتیں نازل کیں۔ ان کی نسل کو دنیا میں پھیلایا۔ ان کی اولاد میں انبیاء اور سلاطین پیدا کیے۔ ومن ذریتہما الخ، لیکن ان کی ساری نسل ان کے دین پر قائم رنہ رہی۔ کچھ تو ان کے مسلک ایمان و احسان پر رہے اور کچھ ظلم و اسراف کی راہ پر گامزن ہوئے۔ بہر حال اخلاق کی بےراہ روی سے اسلاف پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ اور نہ نسب کو ہدایت و ضلالت میں کوئی دخل ہے۔ وفی ذلک تنبیہ علی ان النسب لا اثر لہ فی الہدی والضلال وان الظلم فی اعقابہما لا یضرہما (مظہری ج 8 ص 133) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(110) ہم نیک روش اختیار کرنے والوں کو ایسا ہی بدلا اور صلہ دیا کرتے ہیں۔