Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 127

سورة الصافات

فَکَذَّبُوۡہُ فَاِنَّہُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾ۙ

And they denied him, so indeed, they will be brought [for punishment],

لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا ، پس وہ ضرور ( عذاب میں ) حاضر رکھے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But they denied him, so they will certainly be brought forth, means, for the punishment on the Day of Reckoning. إِلاَّ عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

127۔ 1 یعنی توحید و ایمان سے انکار کی پاداش میں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ : یعنی وہ جھٹلانے کی پاداش میں جہنم میں حاضر کیے جانے والے ہیں، جہاں انھیں جھٹلانے کی سزا مل کر رہے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 127, it was said: فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُ‌ونَ : |"Then they rejected him. Therefore, they will be arraigned.|" It mpa&ns that they will have to taste the consequence of having belied the true messengers of Allah (علیہم السلام) . It could also be referring to the punishment of the Hereafter as well as their sad end within this world. That the rulers of both the countries of Isra&il and Judah had to face destruction as a result of their having rejected Sayyidna Ilyas (علیہ السلام) has been mentioned earlier. The detailed account of this destruction is present in Tafsir Mazhari and in the Bible: Kings I, Chapter 22; Kings II; Chapter 1 and Chronicles II; Chapter 21.

فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ (سو ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا سو وہ پکڑے جائیں گے) مطلب یہ ہے کہ انہیں اللہ کے سچے رسول کو جھٹلانے کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ اس سے آخرت کا عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے اور دنیا کا انجام بد بھی۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی تکذیب کے نتیجے میں یہوداہ اور اسرائیل دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا، اس تباہی کی تفصیل تفسیر مظہری میں اور بائبل کی کتاب سلاطین اول باب ٢٢ سلاطین دوم باب اول اور تاواریخ دوم باب ١٢ میں موجود ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَذَّبُوْہُ فَاِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۝ ١٢٧ۙ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧{ فَکَذَّبُوْہُ فَاِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ } ” تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا ‘ چناچہ وہ سب (قیامت کے دن) حاضرکر لیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:127) فکذبوہ۔ یعنی حضرت الیاس کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ ان کی تکذیب کی۔ فانہم میں فاء سببیہ ہے۔ لمحضرون۔ لام تاکید کا ہے صیغہ اسم مفعول جمع مذکر۔ مرفوع ۔ محضر واحد وہ لوگ جن کو حاضر کیا جائے گا۔ (رسول کو جھٹلانے کی پاداش میں عذاب بھگتنے کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ فکذبوہ الخ : لیکن مشرکین نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان کے قتل پر آمادہ ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل سے بچا لیا اور جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ الا عبادللہ المخلصین۔ یہ کذبوہ کی ضمیر فاعل سے استثناء متصل ہے۔ یعنی ان کی قوم کے مخلصین نے ان کو نہیں جھٹلایا۔ یا یہ محضرون سے استثناء منقطع ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ قوم الیاس (علیہ السلام) جنہوں نے ان کو جھٹلایا، عذاب جہنم میں حاضر کی جائے گی لیکن جو اللہ کے مخلص اور برگزیدہ بندے ہوتے ہیں وہ عذاب سے محفوظ رہتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(127) پھر ان لوگوں نے حضرت الیاس کی تکذیب کی اور حضرت الیاس کو جھوٹا بتایا سو یقینا وہ لوگ گرفتار کرکے حاضر کئے جائیں گے۔