Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 133

سورة الصافات

وَ اِنَّ لُوۡطًا لَّمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾ؕ

And indeed, Lot was among the messengers.

بیشک لوط ( علیہ السلام بھی ) پیغمبروں میں سے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Destruction of the People of Lut (Lot) Allah tells, وَإِنَّ لُوطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِينَ إِذْ نَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ

قوم لوط علیہ السلام ایک عبرت کا مقام ۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول حضرت لوط علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں بھی ان کی قوم نے جھٹلایا ۔ جس پر اللہ کے عذاب ان پر برس پڑے اور اللہ نے اپنے پیارے حضرت لوط علیہ السلام کو مع ان کے گھر والوں کے نجات دے دی ۔ لیکن ان کی بیوی غارت ہوئی قوم کے ساتھ ہی ہلاک ہوئی اور ساری قوم بھی تباہ ہوئی ۔ قسم قسم کے عذاب ان پر آئے اور جس جگہ وہ رہتے تھے وہاں ایک بدبو دار اور جھیل بن گئی جس کا پانی بدمزہ بدبو بد رنگ ہے جو آنے جانے والوں کے راستے میں ہی پڑی ہے ۔ تم تو دن رات وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو اور اس خوفناک منظر اور بھیانک مقام کو صبح شام دیکھتے رہتے ہو ۔ کیا اس معائنہ کے بعد بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور سوچتے سمجھتے نہیں ہو؟ کس طرح یہ برباد کر دیئے گئے؟ ایسا نہ ہو کہ یہی عذاب تم پر بھی آ جائیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة ہود (٧٧ تا ٨٣) اور سورة حجر (٥٧ تا ٧٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in these verses is the fifth event that relates to Sayyidna Lut (علیہ السلام) . This event has appeared at several places earlier, therefore, no more details are needed. Here, the people of Makkah have been particularly admonished that they passed by the site of Sadum (Sodom) day and night while traveling with theirs trade caravans to the country of Syria, and Sadum was a place where this grave event came to pass, an event full of vital lessons, yet they failed to learn any. The time of morning and evening was particularly mentioned for the reason that the people of Arabia generally used to pass through here during these very hours. Says Qadi Abu-s-Sa&ud: &Perhaps, this site of Sodom was located at a stage on this route that those who departed from here did so in the hours of the morning and those who arrived here did so at the time of the evening& (Tafsir abi-s- Saud).

خلاصہ تفسیر اور بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے (ان کا اس وقت کا قصہ قابل ذکر ہے) جب کہ ہم نے ان کو اور ان کے متعلقین کو سب کو نجات دی بجز اس بڑھیا (یعنی ان کی بیوی) کے کہ وہ (عذاب کے اندر) رہ جانے والوں میں رہ گئی، پھر ہم نے اور سب کو (جو لوط اور ان کے اہل کے سوا تھے) ہلاک کردیا (جن کا قصہ کئی جگہ آ چکا ہے) اور (اے اہل مکہ) تم تو ان کے (دیار و مساکن پر سفر شام میں کبھی) صبح ہوتے اور (کبھی) رات میں گزار کرتے ہو (اور آثار بربادی دیکھتے ہو) تو کیا (اس کو دیکھ کر) پھر بھی نہیں سمجھتے ہو (کہ کفر کا کیا انجام ہوا، اور جو آئندہ کفر کرے گا اس کے لئے بھی یہی اندیشہ ہے) ۔ معارف و مسائل ان آیات میں پانچواں واقعہ حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یہ واقعہ پیچھے کئی مقامات پر گزر چکا ہے، اس لئے یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں۔ یہاں اہل مکہ کو خاص طور پر یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ تم شام کے تجارتی سفر میں سدوم کے اس علاقہ سے دن رات گزرتے ہو جہاں یہ عبرتناک واقعہ پیش آیا، لیکن اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ صبح اور رات کا ذکر خاص طور سے اس لئے فرمایا گیا کہ اہل عرب عموماً انہی اوقات میں یہاں سے گزرا کرتے تھے اور قاضی ابوالسعود فرماتے ہیں کہ غالباً سدوم کا یہ علاقہ راستے کی ایسی منزل پر واقع تھا کہ یہاں سے کوچ کرنیوالے صبح کے وقت روانہ ہوتے تھے اور آنے والے شام کے وقت آتے تھے (تفسیر ابی السعود)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١٣٣ۭ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٣۔ ١٣٨) اور لوط کو بھی ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ جبکہ ہم نے ان کو اور ان کی دونوں صاحبزادیوں زاعورا اور ایثا کو نجات دی سوائے ان کی منافقہ بیوی کے کہ وہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ رہ گئی۔ چناچہ ہم نے لو اور ان کے متعلقین کے علاوہ جو باقی بچے سب کو ہلاک کردیا۔ اور مکہ والو تم قوم لو کی بستیوں سدوم عمورا، صبور وادادوما پر سے کبھی صبح ہوتے گزرتے ہو اور کبھی رات میں گزرا کرتے ہو۔ کیا پھر بھی اس چیز کا اقرار نہیں کرتے کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تاکہ ان کی پیروی نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٣{ وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } ” اور یقینا لوط ( علیہ السلام) بھی رسولوں میں سے تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣٣۔ ١٣٨۔ حضرت الیاس کے قصہ کے بعد یہ لوط (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا۔ یہ قصہ سورة الاعراف سورة ہود سورة شعراء اور سورة النمل میں گزر چکا ہے۔ حاصل اس قصہ کا یہی ہے کہ ان لوگوں نے لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کی عادت نکالی تھی۔ ملک شام کے شہروں میں ایک بستی سدوم سے وہاں یہ لوگ رہتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ابراہیم کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) جب ملک عراق سے ملک شام کو آئے تو سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی مقرر ہوئے ایک مدت تک لوط (علیہ السلام) نے طرح طرح کی نصیحت سے ان لوگوں کو راہ راست پر لانا چاہا۔ مگر یہ لوگ اپنی عادت سے باز نہ آئے آخر اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کی بستی کو الٹ دیا اب وہاں بدبو دار پانی کا ایک چشمہ ہے جو کسی کام نہیں آتا ملک شام کے سفر کے وقت قریش کا گزر اس الٹی ہوئی جگہ پر سے ہوا کرتا تھا اسی واسطے فرمایا کہ اس جگہ کو دیکھ کر کیا یہ عبرت حاصل کرنے کی سمجھ ان لوگوں میں نہیں ہے کہ نافرمان لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے صحیح بخاری ٣ ؎ کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گزرچکی ہے کہ نافرمان لوگوں کو پہلے اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے۔ جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو پھر ان کو سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے۔ ان آیتوں میں قوم لوط اور قریش دونوں قوموں کا جو ذکر ہے۔ یہ حدیث دونوں کی حالت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ میں قوم لوط (علیہ السلام) نے اور قریش کو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر طرح سے سمجھایا۔ لیکن یہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو قوم لوط کا انجام تو اوپر ابھی گزرا کہ ان کی بستی الٹ گئی۔ اور قریش کا انجام صحیح بخاری ١ ؎ کی انس (رض) بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ کہ بدر کی لڑائی میں ان میں کے بڑے بڑے نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوئے جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا۔ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ لوط (علیہ السلام) کی بی بی قوم کے لوگوں سے ملی ہوئی تھی۔ اس لئے وہ بھی عذاب میں پکڑی گئی۔ جس کو نجات والوں میں سے الگ کرکے ایک بڑھیا فرمایا۔ (٣ ؎ تفسیر ہذا ص ١٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:133) یہاں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 26:160 ۔ 175 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 133 تا 138 :۔ عجوز ( بوڑھی عورت ، بڑھیا) الغبرین ( پیچھے رہ جانے والی) تمرون ( تم گزرتے ہو) مصبحین ( صبح کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 133 تا 138 :۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھیجتے تھے۔ اللہ نے آپ آپ کو سدوم اور عامورہ کی ان بستیوں کے لوگوں کی اصلاح کے لئے نبی بنا کر بھیجا تھا جنہوں نے بےحیائی اور بےغیرتی کے وہ کام کر رکھے تھے جو ان سے پہلے کسی قوم نے نہیں کئے تھے وہ پوری قوم خلاف فطرت فعل کرتی اور اس پر کسی شرمندگی کے بجائے جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اس فعل بد سے روکنا چاہا تو ان پر طعن وطنز کے تیر چلانے کے ساتھ ساتھ یہ دھمکیاں بھی دی جانے لگیں کہ اے لوط ! اگر تم نے اپنے وعظ و نصیحت کا سلسلہ بند نہیں کیا تو ہم تمہیں نہ صرف اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے بلکہ تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے۔ آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا ، اللہ نے اپنے فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں بھیجے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو ان بدکاروں کی سرپستی کرتی تھی اس نے قوم کے لوگوں کو بتا دیا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت لڑکے مہمان بن کر آئے ہیں ۔ یہ پوری بدکار قوم حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور مطالبہ کیا کہ ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کر دو ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوگئے۔ فرشتوں نے کہا کہ اے لوط (علیہ السلام) آپ پریشان نہ ہوں در حقیقت ہم اللہ کے فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب لانے کے لئے بھیجے گئے ہیں آپ اپنی بیوی کے سوا سارے گھر والوں اور اہل ایمان کو صبح ہی صبح لے کر اپنے گھر سے اس طرح نکل جائیے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھئے ، چناچہ حضرت لوط (علیہ السلام) صبح اہل ایمان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ سب سے پہلے ایک زبردست آواز اور چیخ سنائی دی پھر ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور ان پر پتھروں کی زبردست بارش کردی گئی ۔ اس کے بعد ان آباد بستیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا اور سمندر کا پانی اس طرح چڑھ کر آگیا کہ وہی آباد بستیاں پانی کے نیچے چلی گئیں اور وہ بحیرہ مردار بن گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ ان تباہ کی ہوئی بستیوں سے کبھی صبح اور کبھی رات کے اندھیروں میں تمہارے قافلے ان کے پاس سے گزرتے ہیں کبھی تم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ آباد بستیاں کیوں تباہ کر کے سمندر میں غرق کردی گئیں ۔ اگر تم غور و فکر کرو گے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس قوم نے نہ صرف یہ کہ بدکاروں میں انتہاء کردی تھی بلکہ اللہ کے پیغمبر کی توہین بھی کی تھی اور ان کو جھٹلا دیا تھا ۔ فرمایا کہ تمہارے اندر اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں اگر تم نے ان کی اطاعت نہ کی اور اپنے کفر و شرک میں مبتلا رہے تو تمہارا انجام بھی گزری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت الیاس (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے اہل کو ذلّت آمیز عذاب سے محفوظ رکھا البتہ ان کی بیوی اور دوسرے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ اے عرب کے لوگو ! تم سفر کے دوران صبح و شام قوم لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کے کھنڈرات کے قریب سے گزرتے اور انہیں دیکھتے ہو۔ لیکن پھر بھی عقل سے کام لینے کے لیے تیار نہیں ہو ؟۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن مجید میں کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے اس لیے یہاں اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بیوی اور ان کی قوم کو آسمان کے قریب لے جا کر الٹ دیا گیا اور پھر ان پر پتھروں کی بارش برسائی جو نشان زدہ تھے۔ تفسیر بالقرآن حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (العنکبوت : ٢٦) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کے رسولوں میں سے تھے۔ (الصّٰفّٰت : ١٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو لوگوں پر فضیلت دی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوط کو دانائی اور علم عطا فرمایا۔ (الانبیاء : ٧٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قصہ لوط کی ایک جھلک۔ دوسرے مقامات پر یہ قصہ حضرت ابراہیم کے قصے کے ساتھ آتا ہے۔ وان لوطا لمن ۔۔۔۔ افلا تعقلون (133 – 138) ” یہ جھلک نوح (علیہ السلام) کے قصے کی جھلک کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے۔ اس میں اس بات کا ذکر ہے کہ لوط (علیہ السلام) رسول تھے۔ ان کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ نجات دی گئی۔ ماسوائے ان کی بیوی کے۔ اور گمراہ جھٹلانے والوں کو ہلاک کردیا گیا۔ عربوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم تو روزوشب علاقہ لوط پر سے گزرتے ہو۔ کیا تمہارے دل بیدار نہیں ہوتے اور تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ کیا یہ کھنڈرات جو کہانی سناتے ہیں۔ تم اس کی طرف کان نہیں لگاتے اور کیا تمہارے دل میں ایسے انجام کا ڈر پیدا نہیں ہوتا۔ قصص انبیاء کی یہ جھلکیاں قصہ یونس پر ختم ہوتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ اور قوم کا ہلاک ہونا اور بیوی کے علاوہ ان کے تمام اہل و عیال کا نجات پانا ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی بعثت اور ان کی اور ان کے اہل و عیال کی نجات اور ان کی قوم کی ہلاکت کا ذکر ہے، ان کی قوم کے لوگ کافر تو تھے ہی برے اعمال میں بھی بہت آگے بڑھے ہوئے تھے، مرد مردوں سے شہوت پوری کرتے تھے، حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا وہ لوگ نہ مانے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہا کہ اے لوط اگر تم اپنی بات سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں اپنی آبادی سے نکال باہر کردیں گے۔ ان لوگوں پر جس دن صبح صبح عذاب آنا تھا اللہ تعالیٰ نے اس صبح سے پہلے حضرت لوط (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ اپنے اہل و عیال کو لے کر رات کے آخری حصہ میں آبادی سے نکل جائیں البتہ اپنی بیوی کو ساتھ نہ لینا (یہ اس لیے کہ وہ کافرہ تھی جیسا کہ سورة التحریم کے آخر میں اس کا کافر ہونا مذکور ہے) چناچہ حضرت لوط (علیہ السلام) رات کو اپنے اہل و عیال کو لے کر آبادی سے نکل گئے، صبح ہوئی قوم پر عذاب آگیا، زمین کا تختہ الٹ دیا گیا اور آسمان سے پتھر برسا دئیے گئے، یہ قصہ سورة الانعام، سورة الحجر، سورة الشعراء اور سورة النمل میں گزر چکا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک شدہ لوگوں میں رہ گئی، اسی کو (اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغَابِرِیْنَ ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ اہل مکہ کو عبرت دلانا اہل مکہ کا یہ طریقہ تھا کہ سال میں دو مرتبہ ملک شام کا سفر کرتے تھے، ایک سفر سردی میں اور ایک سفر گرمی میں ہوتا تھا، جس کے بارے میں (رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ ) فرمایا ہے، یہ سفر تجارت کا ہوتا تھا، شام جانے کے لیے ضروری تھا کہ ان بستیوں کے پاس سے گزرے جو الٹ دی گئی تھیں ان کے کھنڈر نظر آتے تھے، ان جگہوں میں کبھی رات کو گزرتے تھے اور کبھی صبح کو، ہلاک شدہ اقوام کے آثار اور نشان دیکھتے تھے لیکن اثر نہیں لیتے تھے، اسی کو فرمایا (وَاِِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُّصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (اور بیشک تم ان پر گزرتے ہو صبح کے وقت اور رات کو، تو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ جب حجاز کی جانب سے شام کو جاتے تھے تو ان کا گزر ان بستیوں کے قریب صبح کے وقت ہوتا تھا اور جب ادھر سے حجاز کی جانب واپس آتے تھے تو رات کو ان بستیوں کے پاس سے گزرتے تھے انہیں یاد دلایا کہ دیکھو کفر کی وجہ سے یہ بستیاں ہلاک ہوگئیں، تم آنکھوں سے ان کی نشانیاں دیکھ رہے ہو پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے، تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے باز آؤ اور ہلاک شدہ قوموں سے عبرت حاصل کرو ورنہ تمہیں بھی عذاب پہنچ سکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ وان لوطاً الخ : یہ نفی شفاعت قہری پر چھٹا واقعہ ہے۔ لوط (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو ہم نے عذاب سے بچا لیا۔ البتہ ان کی بیوی کو معذبین میں شامل کردیا۔ اور اس کی بد کردار قوم کا تختہ الٹ کر اسے نیست و نابود کردیا۔ لوط (علیہ السلام) کو عذاب سے ہم نے بچایا اور وہ عذاب سے نجات میں ہمارے محتاج تھے۔ اس لیے وہ شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ وانکم لتمرون الخ، یہ مشرکین عرب سے خطاب ہے کہ تم صبح و شام قوم لوط کی تباہ شدہ بستی سے گذرتے ہو لیکن پھر بھی تمہیں عبرت نہیں ہوتی اور تم سمجھتے نہیں ہو کہ بدکردار اور سرکش قوموں کا انجام یہی ہوا کرتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(133) اور بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھا۔