Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 139

سورة الصافات

وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ؕ

And indeed, Jonah was among the messengers.

اور بلاشبہ یونس ( علیہ السلام ) نبیوں میں سے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Yunus Allah tells, وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ And verily, Yunus was one of the Messengers. We have already discussed the story of Yunus, peace be upon him, in Surah Al-Anbiya' (21:87-88) In the Two Sahihs it is reported that the Messenger of Allah said: مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى It is not right for any person to say I am better than Yunus bin Matta. إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ

واقعہ حضرت یونس علیہ السلام ۔ حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ سورہ یونس میں بیان ہو چکا ہے ۔ بخاری مسلم میں حدیث ہے کہ کسی بندے کو یہ لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے افضل ہوں ۔ یہ نام ممکن ہے آپ کی والدہ کا ہو اور ممکن ہے والد کا ہو ۔ یہ بھاگ کر مال و اسباب سے لدی ہوئی کشتی پر سوار ہوگئے ۔ وہاں قرعہ اندازی ہوئی اور یہ مغلوب ہوگئے کشتی کے چلتے ہی چاروں طرف سے موجیں اٹھیں اور سخت طوفان آیا ۔ یہاں تک کہ سب کو اپنی موت کا اور کشتی کے ڈوب جانے کا یقین ہو گیا ۔ سب آپس میں کہنے لگے کہ قرعہ ڈالو جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں ڈال دو تاکہ سب بچ جائیں اور کشتی اس طوفان سے چھوٹ جائے ۔ تین دفعہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ اللہ کے پیارے پیغبمر حضرت یونس علیہ السلام کا ہی نام نکلا ۔ اہل کشتی آپ کو پانی میں بہانا نہیں چاہتے تھے لیکن کیا کرتے بار بار کی قرعہ اندازی پر بھی آپ کا نام نکلتا رہا اور خود آپ کپڑے اتار کر باوجود ان لوگں کے روکنے کے سمندر میں کود پڑے ۔ اس وقت بحر اخضر کی ایک بہت بڑی مچھلی کو جناب باری کا فرمان سرزد ہوا کہ وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی جائے اور حضرت یونس کو نگل لے لیکن نہ تو ان کا جسم زخمی ہو نہ کوئی ہڈی ٹوٹے ۔ چنانچہ اس مچھلی نے پیغمبر اللہ کو نگل لیا اور سمندروں میں چلنے پھرنے لگی ۔ جب حضرت یونس پوری طرح مچھلی کے پیٹ میں جا چکے تو آپ کو خیال گذرا کہ میں مر چکا ہوں لیکن جب ہاتھ پیروں کو حرکت دی اور ہلے جلے تو زندگی کا یقین کر کے وہیں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے پروردگار میں نے تیرے لئے اس جگہ مسجد بنائی ہے جہاں کوئی نہ پہنچا ہو گا ۔ تین دن یا سات دن یا چالیس دن ایک ایک دن سے بھی کم یا صرف ایک رات تک مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ اگر یہ ہماری پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، یعنی جبکہ فراخی اور کشادگی اور امن و امان کی حالت میں تھے اس وقت ان کی نیکیاں اگر نہ ہوتیں ایک حدیث بھی اس قسم کی ہے جو عنقریب بیان ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ابن عباس کی حدیث میں ہے آرام اور راحت کے وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو وہ سختی اور بےچینی کے وقت تمہاری مدد کرے گا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ پابند نماز نہ ہوتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مچھلی کے پیٹ میں نماز نہ پڑھتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ ) 21- الأنبياء:87 ) کے ساتھ ہماری تسبیح نہ کرتے چنانچہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں ہے کہ اس نے اندھیروں میں یہی کلمات کہے اور ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت یونس نے جب مچھلی کے پیٹ میں ان کلمات کو کہا تو یہ دعا عرش اللہ کے اردگرد منڈلانے لگی اور فرشتوں نے کہا اللہ یہ آواز تو کہیں بہت ہی دور کی ہے لیکن اس آواز سے ہمارے کان آشنا ضرور ہیں ۔ اللہ نے فرمایا اب بھی پہچان لیا یہ کس کی آواز ہے؟ انہوں نے کہا نہیں پہچانا فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے نیک اعمال اور مقبول دعائیں ہمیشہ آسمان پر چڑھتی رہتی تھیں؟ اللہ اس پر تو ضرور رحم فرما اس کی دعا قبول کر وہ تو آسانیوں میں بھی تیرا نام لیا کرتا تھا ۔ اسے بلا سے نجات دے ۔ اللہ نے فرمایا ہاں میں اسے نجات دوں گا ۔ چنانچہ مچھلی کو حکم ہوا کہ میدان میں حضرت یونس کو اگل دے اور اس نے اگل دیا اور وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی نحیفی کمزوری اور بیماری کی وجہ سے چھاؤں کے لئے کدو کی بیل اگا دی اور ایک جنگلی بکری کو مقرر کر دیا جو صبح شام ان کے پاس آ جاتی تھی اور یہ اس کا دودھ پی لیا کرتے تھے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے یہ واقعات مرفوع احادیث سے سورہ انبیاء کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں ۔ ہم نے انہیں اس زمین میں ڈال دیا جہاں سبزہ روئیدگی گھاس کچھ نہ تھا ۔ دجلہ کے کنارے یا یمن کی سر زمین پر یہ لادے گئے تھے ۔ وہ اس وقت کمزور تھے جیسے پرندوں کے بچے ہوتے ہیں ۔ یا بچہ جس وقت پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی صرف سانس چل رہا تھا اور طاقت ہلنے جلنے کی بھی نہ تھی ۔ یقطین کدو کے درخت کو بھی کہتے ہیں اور ہر اس درخت کو جس کا تنہ نہ ہو یعنی بیل ہو اور اس درخت کو بھی جس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ کدو میں بہت سے فوائد ہیں یہ بہت جلد اگتا اور بھڑتا ہے اس کے پتوں کا سایہ گھنا اور فرحت بخش ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اس کے پاس مکھیاں نہیں آتیں ۔ یہ غذا کا کام دے جاتا ہے اور چھلکے اور گودے سمیت کھایا جاتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو یعنی گھیا بہت پسند تھا اور برتن میں سے چن چن کر اسے کھاتے تھے ۔ پھر انہیں ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف رسالت کے ساتھ بھیجا گیا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے پہلے آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ تھے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے ہی آپ اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ دونوں قولوں سے اس طرح تضاد اٹھ سکتا ہے کہ پہلے بھی ان کی طرف بھیجے گئے تھے اب دوبارہ بھی ان ہی کی طرف بھیجے گئے اور وہ سب ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی ۔ بغوی کہتے ہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات پانے کے بعد دوسری قوم کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ یہاں او معنی میں بلکہ کے ہے اور وہ ایک لاکھ تیس ہزار یا اس سے بھی کچھ اوپر ۔ یا ایک لاکھ چالیس ہزار سے بھی زیادہ یا ستر ہزار سے بھی زیادہ یا ایک لاکھ دس ہزار اور ایک غریب مرفوع حدیث کی رو سے ایک لاکھ بیس ہزار تھے ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسانی اندازہ ایک لاکھ سے زیادہ ہی کا تھا ۔ ابن جریر کا یہی مسلک ہے اور یہی مسلک ان کا آیت ( اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً 74؀ ) 2- البقرة:74 ) اور آیت ( اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً 77؀ ) 4- النسآء:77 ) اور آیت ( اَوْ اَدْنٰى Ḍ۝ۚ ) 53- النجم:9 ) میں ہے یعنی اس سے کم نہیں اس سے زائد ہے ۔ پس قوم یونس سب کی سب مسلمان ہو گئی حضرت یونس کی تصدیق کی اور اللہ پر ایمان لے آئے ہم نے بھی ان کے مقررہ وقت یعنی موت کی گھڑی تک دنیوی فائدے دئے اور آیت میں ہے کسی بستی کے ایمان نے انہیں ( عذاب آ چکنے کے بعد ) نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے وہ جب ایمان لائے تو ہم نے ان پر سے عذاب ہٹا لئے اور انہیں ایک معیاد معین تک بہرہ مند کیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : ان کا نام حدیث میں یونس بن مَتّٰی آیا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یَنْبَغِيْ لِعَبْدٍ أَنْ یَّقُوْلَ أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و إن یونس لمن المرسلین ) : ٣٤١٦ ] ” کسی بندے کے لائق نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن مَتّٰی سے بہتر ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The last event described in this Sarah is that of Sayyidna Yunus (علیہ السلام) . This event, along with its details, has appeared towards the later part of Surah Yunus (please see Ma’ ariful-Qur’ an, English, Volume IV, pages 573-588). However, a few necessary comments about these particular verses are being given below. In the opening verse (139), it was said: وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ (And surely, Yunus (علیہ السلام) is from among the messengers). Was Sayyidna Yunus (علیہ السلام) ordained as a messenger much earlier than his encounter with the fish, or did it come to pass after that? This issue has been a subject of debate among some commentators and historians. Some of them think that he was made a messenger after this event. But, in view of the apparent order and style of the noble Qur&an, and from most Hadith narrations, it is more likely that he was invested with the mission of prophethood earlier. The event of the fish came later.

خلاصہ تفسیر اور بیشک یونس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے (ان کا اس وقت کا قصہ یاد کیجئے) جبکہ (انہوں نے اپنی قوم سے ایمان نہ لانے پر بحکم الٰہی عذاب کی پیشنگوئی کی، اور خود وہاں سے چلے گئے اور جب متعین وقت پر عذاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو قوم کو ایمان لانے کی غرض سے یونس (علیہ السلام) کی تلاش ہوئی، جب وہ نہ ملے تو سب نے متفق ہو کر حق تعالیٰ کے سامنے گریہ وزاری کی اور اجمالی طور پر ایمان لے آئے، اور وہ عذاب ٹل گیا، یونس (علیہ السلام) کو کسی ذریعہ سے یہ خبر معلوم ہوئی تو شرمندگی کی وجہ سے اپنے اجتہاد سے اللہ تعالیٰ کی صریح اجازت کے بغیر کہیں دور چلے جانے کا ارادہ کر کے اپنی جگہ سے) بھاگ کر (چلے، راہ میں دریا تھا، اس میں مسافروں سے بھری ہوئی کشتی تھی، اس) بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے (کشتی چلی تو طوفان آیا، کشتی والے کہنے لگے کہ ہم میں کوئی نیا قصور وار ہے، اس کو کشتی سے علیحدہ کرنا چاہئے، اس شخص کو متعین کرنے کے لئے سب کا اتفاق اس پر ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے) سو یونس (علیہ السلام) بھی شریک قرعہ ہوئے تو (قرعہ میں) یہی ملزم ٹھہرے (یعنی انہی کا نام نکلا، پس انہوں نے اپنے کو دریا میں ڈال دیا۔ شاید کنارہ قریب ہوگا، شن اوری کر کے کنارہ پر جا پہنچنے کا ارادہ ہوگا، پس شبہ خودکشی کا لازم نہیں آتا) پھر (جب دریا میں گرے تو ہمارے حکم سے) ان کو مچھلی نے (ثابت) نگل لیا اور یہ (اس وقت) اپنے کو (اس اجتہادی غلطی پر) ملامت کر رہے تھے (یہ تو دل سے توبہ ہوئی اور زبان سے بھی توحید و تسبیح کے ساتھ استغفار کر رہے تھے، جیسا دوسری آیت میں ہے (آیت) لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین سو اگر وہ (اس وقت) تسبیح (و استغفار) کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں رہتے (مطلب یہ کہ پیٹ سے نکلنا میسر نہ ہوتا، بلکہ اس کی غذا بنا دیئے جاتے) سو (چونکہ انہوں نے تسبیح اور توبہ کی اس لئے) ہم نے (ان کو اس سے محفوظ رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) ان کو ایک میدان میں ڈال دیا (یعنی مچھلی کو حکم دیا کہ کنارے پر اگل دے) اور وہ اس وقت مضمحل تھے (کیونکہ مچھلی کے پیٹ میں کافی ہوا اور غذا نہ پہنچتی تھی) اور ہم نے (دھوپ سے بچانے کے لئے) ان پر ایک بیلدار درخت بھی اگا دیا تھا (اور کوئی پہاڑی بکری انہیں دودھ پلا جاتی تھی) اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی طرف (شہر نینوا میں موصل کے قریب) پیغمبر بنا کر بھیجا تھا، پھر وہ لوگ ایمان لے آئے تھے (آثار عذاب دیکھ کر اجمالاً اور مچھلی کے واقعہ کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) وہاں دوبارہ تشریف لے گئے اس وقت تفصیلاً ) تو (ایمان کی برکت سے) ہم نے ان کو ایک زمانہ تک (یعنی مدت عمر تک خیر و خوبی سے) عیش دیا۔ معارف ومسائل اس سورة میں آخری واقعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اور اس کی متعلقہ تفصیلات سورة یونس کے آخر میں گزر چکی ہیں (دیکھئے معارف القرآن، ص ٥٧ ٥، ج ٤) اور ان کا خلاصہ اوپر خلاصہ تفسیر میں بھی آ گیا ہے، اس لئے یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، البتہ خاص ان آیتوں کے بارے میں چند ضروری باتیں درج ذیل ہیں :۔ وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ، بعض مفسرین اور مورخین نے اس پر بحث کی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے واقعہ سے پہلے ہی رسول بنا دیئے گئے تھے یا بعد میں بنائے گئے ؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ مچھلی کے واقعہ کے بعد انہیں رسول بنایا گیا، لیکن قرآن کریم کے ظاہری اسلوب اور بیشتر روایات سے یہی راجح ہے کہ آپ کو پہلے ہی منصب رسالت پر فائز کردیا گیا تھا، مچھلی کا واقعہ بعد میں پیش آیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١٣٩ۭ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٩۔ ١٤٠) یونس بھی پیغبروں میں سے تھے جبکہ وہ اپنی قوم کے پاس سے چل کر یا یہ کہ بھاگ کر ایک بھری ہوئی تیار کشتی کے پاس پہنچے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٩{ وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } ” اور یقینا یونس (علیہ السلام) بھی رسولوں میں سے تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77 This is the third place where the Prophet Jonah (peace be upon him) has been mentioned in the Qur'an. Before this he has already been mentioned in Surah Yunus and Surah Al-Anbiya`. (For reference, please see yunus: 98 and AI-Anbiya`: 87-88 and the E.N.'s thereof).

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :77 یہ تیسرا موقع ہے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ انبیاء میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 312 ۔ 313 ۔ جلد سوم ، صفحہ 182 ۔ 183 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣٩۔ ١٤٨۔ یہ یونس (علیہ السلام) کا قصہ سورة الانبیا میں بھی گزر چکا ہے۔ تفسیر سدی تفسیر ابن ابی ٢ ؎ حاتم مسند بزار اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ عبد اللہ بن مسعود کی صحیح روایت سے جو بیان کیا گیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ موصل شہر کی سر زمین میں نینویٰ بستی ہے۔ وہاں کے لوگوں کی ہدایت کے واسطے حضرت یونس نبی ہوئے تھے جب وہاں کے لوگوں نے حضرت یونس کی نصیحت کو نہ مانا تو حضرت یونس نے ان لوگوں کو عذاب الٰہی کے نازل ہونے کی خبر سنائی۔ اور خود اس بستی کے باہر چلے گئے۔ جب نینوا کے لوگوں نے کچھ کچھ آثار عذاب الٰہی کے دیکھے تو جنگل میں جا کر بہت روئے اور گڑگڑاتے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم فرما کر ان پر عذاب نازل نہیں فرمایا۔ جب حضرت یونس کو معلوم ہوا۔ کہ وقت مقررہ پر عذاب نہیں آیا تو اس شریعت میں یہ حکم تھا کہ جھوٹ بولنے والے شخص کو مار ڈالا کرتے تھے۔ اس لئے حضرت یونس نے اپنے دل میں سوچھا کہ جس قوم کے نزدیک میں جھوٹا اور واجب القتل ٹھہر چکا ہوں۔ اس قوم کی سرحد میں بھی رہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ سوچ کر بدوں مرضی اور حکم اللہ تعالیٰ کے اس بستی سے بہت دور جانا چاہا اور دریا پر جا کر کشتی میں بیٹھے۔ کشتی دریا میں چلنے سے اٹک گئی۔ جب قرعہ ڈالا کہ کس شخص کے سبب سے کشتی نہیں چلتی تو تین دفعہ حضرت یونس کا نام نکلا۔ اس لئے یونس (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا اور اللہ کے حکم سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا جب وہ مچھلی دریا کی تہ میں بیٹھی تو کنکروں کے تسبیح کی آواز حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں آئی اور انہوں نے بھی لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ پڑھنا شروع کیا۔ اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ اگر یونس (علیہ السلام) راحت کے وقت اللہ کی عبادت میں نہ لگے رہتے اور اب تکلیف کے وقت مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے اس میں علمائے مفسرین نے اختلاف کیا ہے کہ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں کتنے روز رہے تفسیر سدی تفسیر کلبی ‘ تفسیر مقاتل بن سلیمان تینوں تفسروں ٣ ؎ میں بالاتفاق حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول کے موافق یہی ہے۔ کہ حضرت یونس چالیس روز تک مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اس میں بھی علما نے اختلاف کیا ہے۔ کہ حضرت یونس پہلے سے نبی تھے یا مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد نبی ہوئے۔ قوی قول یہی ہے کہ مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے حضرت یونس نبی تھے۔ کیونکہ آیتوں میں کشتی میں جانے کے وقت ان کو نبی فرمایا ہے۔ حدیث کی شرح کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس خیال سے کہ حضرت یونس کا قصہ سن کر لوگوں کے دل میں حضرت یونس کی طرف سے کوئی برا خیال لوگوں کے دل میں پیدا نہ ہوجاوے۔ اور لوگ حضرت یونس کو حقیر نہ جانیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت میں فرمایا کہ کوئی شخص مجھ کو یہ نہ کہے کہ میں یونس سے بہتر ہوں حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے۔ کہ نینوا بستی کے لوگوں کی ہدایت کے لئے یونس (علیہ السلام) کو رسول بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ جو عذاب کا وعدہ ٹل جانے سے گھبرا کر ایک بھری ہوئی کشتی میں سفر کی نیت سے جا بیٹھے اور جب وہ کشتی اٹک گئی اور کشتی والوں نے قرعہ ڈالا اور کشتی کے اٹک جانے کا یہ حال دریافت کیا۔ کہ کشتی کسی شخص کے سبب اٹکی ہے تو قرعہ میں یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کے صحیح قول کے موافق مدحضین کے معنی مقروعین کے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قرعہ میں یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا۔ جس کے سبب سے انہوں نے اپنے آپ کو دریا میں ڈالا دیا اور ان کے خطا وار ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کو ایک مچھلی نے نگل لیا۔ پھر فرمایا اس تکلیف سے پہلے راحت کے زمانہ میں اگر یونس (علیہ السلام) ذکر الٰہی میں نہ لگے رہتے تو فقط تکلیف کے وقت ذکر الٰہی ان کو قیامت تک کچھ فائدہ نہ دیتا کیونکہ تکلیف کے وقت تو فرعون نے بھی اللہ کو یاد کیا تھا۔ یہ تفسیر قتادہ کے قول کے موافق ہے۔ ترمذی ٢ ؎ اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی معتبر روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شخص کو یہ منظور ہو کہ تکلیف کے وقت اس کی دعاجلدی قبول ہو تو وہ شخص راحت کے وقت اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے۔ اس حدیث سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ غرض اس قول کے موافق یونس (علیہ السلام) راحت کے زمانہ میں ذکر الٰہی میں لگے رہتے تھے اور تکلیف کے وقت بھی انہوں نے وہ دعا کی جس کا ذکر اوپر گزرا۔ اس لئے اللہ کے حکم سے اس مچھلی نے دریا کے کنارہ پر ان کو اگل دیا اور مچھلی کے پیٹ کی گرمی کے سبب سے ان کی حالت بامنروں کی سی ہوگئی۔ بدن پر کے بال اور ناخن اڑ گئے کھال بالکل پتلی ہوگئی۔ عراء اس میدان کو کہتے ہیں جہاں کسی درخت یا مکان کا سایہ نہ ہو۔ اس لئے وہاں اللہ تعالیٰ نے کدو کی بیل پیدا کردی کہ اس کے پتوں کا سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ترجمہ میں عراء کے معنی چٹپل میدان کے جو لکھے ہیں۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس میدان میں کسی طرح کا سایہ نہ تھا۔ ابوہریرہ (رض) کا قول ہے کہ جب تک یونس (علیہ السلام) میں پھرنے چلنے کی طاقت نہیں آئی۔ اس وقت تک اللہ کے حکم سے ایک پہاڑی بکری صبح و شام ان کی دودھ پلا جاتی ہر ایک نبی کی امت کی ابتدا میں ایک تعداد ہوتی ہے۔ اور پھر نئے بچے پیدا ہو کر جب نبی کی نصیحت سننے کے قابل ہوجاتے ہیں تو وہ تعداد بڑھ جاتی ہے اسی مطلب کو مائۃ الف او یزیدون سے فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) کے نبی ہو کر جانے کے وقت تو ان کی امت کی تعداد لاکھ آدمیوں کی تھی۔ مگر آئندہ زیادتی کی گنجائش تھی جس طرح مثلاً صلح حدیبیہ کے وقت اللہ کے رسول کے ساتھی صحابہ کی تعداد چودہ سو کے قریب تھی۔ مگر اس میں زیاتی کی گنجائش تھی۔ جو فتح مکہ کے سفر تک دس ہزار تک پہنچ گئی۔ پھر فرمایا کہ دوسری دفعہ یونس (علیہ السلام) کے نینوا بستی میں آنے کے بعد وہاں کے لوگ راہ راست پر آگئے اور اللہ تعالیٰ نے موت کے وقت مقررہ تک ان کو امن امان میں رکھا۔ ہاں موت کے بعد ہر ایک کے عملوں کے موافق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ معتبر سند سے امام احمد ترمذی ١ ؎ نسائی اور مستدرک حاکم میں سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یونس (علیہ السلام) کی اس دعا کو اسم اعظم فرمایا ہے جس کا ذکر اوپر گزرا۔ اسم اعظم وہ ہے۔ جس کے پڑھنے کے بعد جو دعا مانگی جاوے وہ قبول ہوتی ہے۔ (٢ ؎ بحوالہ تفسیر الدرالمنثور ص ٢٨٨ ج ٥۔ ) (٣ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٢٨٩ ج ٥) (١ ؎ صحیح بخاری باب وان یونس لمن المرسلین ص ٤٨٥ ج ١) (١ ؎ جامع ترمذی کتاب الدعوات ص ٢١٠ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:139) حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ سورة الانبیاء میں بھی ملاحظہ ہو (21:87 ۔ 88) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 5 ۔ آیات 139 ۔ تا۔ 182: اسرار و معارف : ایک حال دنیا میں ایمان لانے والوں کی کامیابی کا یونس (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ہے کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا مگر قوم نے نہ مانا اور یہاں تک تکلیف دی اور تنگ کیا کہ وہ ان سے الگ ہوگئے اور انہیں عذاب الہی کی پیشگوئی فرمائی ادھر وہ تشریف لے گئے ادھر قوم نے جب عذاب الہی کے آثار ان کی پیشگوئی کے مطابق دیکھے تو انہوں نے توبہ کرلی اور یونس (علیہ السلام) کی تلاش شروع کی عذاب ٹل گیا۔ یونس (علیہ السلام) اسی ناراضگی مٰں واپس نہ گئے یہ ان سے اجتہاداً خطا ہوئی کہ معاملہ ان کی ذات کا نہ تھا اللہ کے پیغام کا تھا جب انہوں نے مان لیا تو دوسرے بچ سکتے ہیں ورنہ سب ڈوب جائیں گے چناچہ قرعہ نکالا گیا کہ آخر کس کو ڈالا جائے کہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ رہے۔ قرعہ میں یونس (علیہ السلام) کا نام نکل آیا چناچہ آپ دریا میں کود گئے۔ مقربین کی خطا اجتہادی بھی ان کے لیے دنیا کی مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔ شاید ان کی کوشش ہو کہ باقی سفر تیر کر نکل جائیں گے مگر ایک بہت بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا تب انہیں بہت شدت سے احساس ہوا کہ مجھے یہ اقدام نہ کرنا چاہیے تھا بلکہ واپس قوم میں جانا چاہیے تھا۔ تب انہوں نے اللہ کی تسبیح شروع کی اور مسلسل کرتے ہی چلے گئے وہ تسبیح آیۃ کریمہ تھی جس کے بہت سے فوائد حدیث شریف میں بیان ہوئے ہیں۔ اگر وہ اس احساس کے ساتھ اللہ کی تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ یعنی دنیا کے اعتبار سے موت بھی آجاتی تو انبیاء کی موت صرف دنیا سے برزخ میں انتقال کا نام ہے ورنہ قبر میں بھی ان کے اجسام مبارک میں روح موجود اور حیات باقی رہتی ہے تو مچھلی بھی ان کی قبر بن کر قیامت تک باقی رہتی کہ ان کا جسد اطہر اس کی خوراک تو بن سکتا تھا وہ بھی ان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ باقی رہتی خواہ مر بھی جاتی تو بھی اس کا جسم اسی حالت میں رہتا مگر اللہ نے ان کی معذرت قبول فرما کر مچھلی کو حکم دیا جس نے انہیں کنار دریا اگل دیا جہاں چٹیل میدان تھا اور ان کا بدن مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے باعث کافی کافی مضمحل ہورہا تھا کہ بال تک نہ رہے تھے اور کھال یقینا بہت نرم پڑگئی ہوگی چناچہ ہم نے ان پر فوراً ایک بیلدار درخت پیدا کردیا جس کی گھنی چھاؤں بھی اور پھل بھی ان کی خاطر پیدا کردئیے گئے اور یوں ان کا بدن پھر بحال ہوگیا قوم نے بھی انہیں پا لیا تو خوشی خوشی واپس لے گئے۔ وہ ایک لاکھ یا اس کے قریب لوگ تھے جو سب ان پر ایمان لائے اطاعت کی اور مدتوں عیش و آرام سے بسر کی اب ذرا ان مشرکین سے ان کے عقائد کی بات کیجیے کہ یہ کیا بےتکی بات ہے اپنے لیے تو لڑکے پسند کرتے ہو اور اللہ کے اولاد بھی مانی تو اس کی بیٹیاں مان لیں کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے کیا یہ جانتے ہیں یا یہ پاس موجود تھے کہ جب ہم نے فرشتے پیدا فرمائے تو انہیں مونث پیدا فرمایا۔ بلکہ یہ بہت بڑا جھوٹ کہتے ہیں کہ اللہ کی کوئی اولاد ہے اور اسے بیٹوں سے زیادہ بیٹیاں پسند ہیں بھلا یہ کیا بات ہوئی تم غور ہی نہیں کرپاتے بھلا تمہارے پاس کیا دلیل ہے اگر کسی آسمانی کتاب میں یہ خبر نازل ہوئی ہے تو وہ لے آؤ کہ دلائل تین قسم کے ہوتے ہیں اول مشاہدہ کہ بندہ خود دیکھ رہا ہو یا پھر وہ بات عقلا تو ثابت ہو یا پھر اس پہ کوئی نقلی دلیل موجود ہو جب اللہ کریم کفار سے یہ دلائل مانگ رہے ہیں تو اس کا معنی ہے کہ اسلام عقلاً بھی درست ہے لہذا سائنس بھی ہر نئی دریافت میں اسلام کی تائید کرتی ہے نقلاً بھی کہ پہلی تمام کتب ان ہی حقائق کو بیان بھی کرتی ہیں اور نبی آخر الزماں کی پیشگوئی بھی اور اگر خلوص دل سے محنت کرے تو ان سب حقائق کا مشاہدہ بھی ممکن ہے کبھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ اور جن ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اللہ نیکی کا خالق ہے اور اس کا بھائی ابلیس برائی کا جس کا دعوی خود شیطان نے بھی نہیں کیا بلکہ وہ خود خوب جانتا ہے کہ آخر وہ اللہ کی بارگاہ میں پکڑا آئے گا اور سخت عذاب سے دوچار ہوگا یہ مشرکین تو اپنے دعو وں میں اس سے بھی آگے نکل گئے اللہ تو ان کی بیان کردہ سب خرافات سے بھی اور ہر طرح کی کمزوری سے پاک اور بہت بالا ہے یہ خود ہی اپنے کیے کی سزا پائیں گے جس سے صرف وہ لوگ بچ سکیں گے جو خالصتاً اللہ ہی کے بندے ہوں گے۔ اور یہ بھی سن لو کہ تم اور تمہارے معبودان باطلہ چاہو بھی تو سارے مل کر کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے نہ کسی کو یہ اختیار ہے کہ پکڑ کر کفر کی طرف لے جائے وہ گمراہ ہوتا ہے جو بدبخت اپنے لیے خود ایسا غلط فیصلہ کرتا ہے جو اس کے دوزخ جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ رہی بات فرشتوں کی تو وہ خود اقرار کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقررہ مقام ہے اور ہم ہر وقت اطاعت الہی پہ کمربستہ اور اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ ہر ایک کا مقام مقرر ہے اور مسلسل ذکر و اطاعت سے بھی اس سے آگے نہیں بڑھتے کہ انہیں اطاعت الہی کے راستے میں کوئی مانع پیش نہیں آتا۔ یہ مشرکین آپ کی بعثت سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم تک تو صحیح دین پہنچا ہی نہیں پہلی کتب ہی سلامت پہنچ گئی ہوتیں تو ہم اطاعت کا حق ادا کردیتے اور اللہ کے نہایت مخلص بندے ہوتے مگر جب آپ مبعوث ہوئے آسمانی کتاب لائے تو انکار کردیا انہیں جلدی پتہ چل جائے گا کہ جس طاقت کا انہیں گھمنڈ ہے وہ نبی کا راستہ نہ روک سکے گی کہ یہ تو ہمرا فیصلہ ہے کہ ہمارے رسول ہی ہمیشہ فتح یاب ہوں گے اور ہماری مدد ان کے ساتھ ہوگی اور وہ لوگ جو خود کو اللہ کا سپاہی بنائیں گے کبھی شکست کا منہ نہ دیکھیں گے اور ہمیشہ ان کی کامیابی یقینی ہوگی آپ ذرا انتظار فرمائیے اور دیکھتے رہیے کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے یہ خود ہمارے عذاب کو جلدی آنے کی دعوت دے رہے ہیں یعنی آپ کی مخالفت اور ایذا رسانی ہی تو اس کے نزول کا سبب ہے اور جب آئے گا تو ان کا حال بہت ہی برا ہوگا آپ صرف انتظار فرمائیے اور دیکھیے کہ خود انہیں بھی معلوم ہوجائے گا۔ کہ تیرا پروردگار ہی پاک ہے اور بہت بلند ہے اس کی شان ان کی بےہودی باتوں کو اس کی بارگاہ میں گذر نہیں اور سلامتی ہے اللہ کی طرف سے اس کے رسولوں پر اور سب خوبیاں اور سارے کمالات صرف اسی ذات پاک کو سزاوار ہیں۔ بحمداللہ تمت سورة صفت۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 139 تا 148 :۔ ابق (وہ بھاگا ، دوڑا) المحشون ( بھری ہوئی) ساھم (قرعہ ڈالا گیا) المدحضین ( دھکیلے گئے ، الزام لگائے گئے) التقم ( نگل لیا) الحوت ( مچھلی) العرائ (چٹیل میدان ، صاف میدان) سقیم ( بیمار) یقطین ( بیل دار پودا) مائۃ الف (ایک لاکھ) متعنا ( ہم نے فائدہ پہنچایا) حین (زمانہ ، مدت) تشریح : آیت نمبر 139 تا 148 :۔ سورة الصافات میں حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) ، حضرت الیاس (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعات کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر خیر فرمایا گیا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) جو بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے انبیاء میں سے ایک نبی ہیں ان کو بابل و نینوا کے نافرمانوں کی اصلاح و تربیت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت یونس (علیہ السلام) نے نینوا کے لوگوں کو مسلسل سات سال تک تبلیغ دین فرمائی مگر وہ اپنی کافرانہ اور مشرکانہ حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ ایک دن حضرت یونس (علیہ السلام) نے پوری صورت حال اللہ کی بارگاہ میں پیش کر کے عرض کیا اے اللہ یہ قوم اپنے گناہوں پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کر رہی ہے اور کسی طرح میری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے لہٰذا اب آپ اس قوم کے لئے اپنا فیصلہ فرما دیجئے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی تھی جس کا انہیں یقین تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر ہی حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی بیوی اور دو بچوں کو لے کر نینوا سے نکل گئے۔ راستے میں ان کے ایک بیٹے کو بھیڑیا لے گیا ۔ تلاش کرنے کے باوجود نہ مل سکا ۔ ادھر دوسرا بچہ پانی میں بہہ گیا ۔ آپ کی بیوی اپنے بچے کو بچانے کے لئے دوڑیں تو وہ بھی لا پتہ ہوگئیں ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) تن تنہاء دریا کی طرف چلے ۔ لوگوں سے بھری ہوئی ایک کشتی میں سوار ہوگئے جب کشتی بیچ دریا میں پہنچی تو وہ بھنور میں پھنس گئی اور سب کے ڈوبنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ۔ ملاح نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر بھاگا ہے اور وہ کشتی پر سوار ہے جب تک وہ اس کشتی سے نہیں اترے گا ہم سب کا زندہ بچنا مشکل ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو احساس ہوا کہ میں بھی تو اللہ کا بندہ اور غلام ہوں اور اپنے آقا اللہ کی اجازت کے بغیر گھر سے روانہ ہوگیا ہوں ۔ انہوں سے سب سے کہا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ سب نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ قرعہ اندازی کی جائے ۔ قرعہ اندازی کی گئی تو اس میں تین مرتبہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا آخر کار حضرت یونس (علیہ السلام) نے خود ہی پانی میں چھلانک لگا دی ادھر اللہ نے ایک بہت بڑی مچھلی کو حکم دیا کہ وہ یونس (علیہ السلام) کو نگل کر اپنے پیٹ میں ان کی حفاظت کرے ، چناچہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جیسے ہی پانی میں چھلانگ لگائی تو وہ مچھلی جو منہ کھولے ہوئے تیار تھی اس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان تمام حالات کا سخت افسوس تھا اور انہوں نے یہ تسبیح پڑھنا شروع کی ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظمین “ انہوں نے اس تسبیح کو اتنی کثرت سے پڑھا کہ اللہ کو ان پر پیار آگیا ۔ مچھلی نے اللہ کے حکم سے ایک طویل عرصہ تک پیٹ میں رکھنے کے بعد ان کو کسی چٹیل میدان میں اگل دیا۔ تقریباً چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے وہ بہت کمزور اور نا تو اں ہوگئے تھے اللہ نے ان پر سایہ کرنے کے لئے ایک کدو کی بیل کو اگا دیا اور بعض روایات کے مطابق ایک پہاڑی بکری روزانہ ان کے قریب آتی اور حضرت یونس (علیہ السلام) اس کا دودھ پی لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح نہ کرتے یعنی اپنے کئے پر شرمندگی اور ندامی کا اظہار نہ کرتے تو قیامت تک وہ اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ ادھر جب نینوا کے لوگوں نے دیکھا کہ گہرے سیاہ بال بڑی تیزی سے ان کی طرف امنڈ امنڈ کر آ رہے ہیں اس میں دھواں اور زبردست گھن گرج ہے تو وہ سب کے سب سہم گئے اور سمجھ گئے کہ اب اللہ کا عذاب نازل ہونے والا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا مگر وہ تو جا چکے تھے۔ پوری قوم نے فیصلہ کیا کہ سب بچے بڑے اپنے مویشی جانور لے کر میدان میں نکل جائیں اور اللہ سے دعا کریں اور معافی مانگیں چناچہ پوری قوم اپنی بیوی ، بوڑھے ، جوانوں اور تمام مویشوں کو لے کر کھلے میدان میں جمع ہوگئے اور عرض کیا الٰہی ہم سے بھول ہوگئی ہمیں معاف کر دیجئے۔ عذاب کا فیصلہ ہونے کے باوجود اللہ نے پوری قوم کے استغفار کی وجہ سے معافی کا حکم دے دیا اور اس قوم سے اللہ کا عذاب ٹل گیا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) صحت مند ہوتے گئے تو اللہ نے حکم دیا کہ اب وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جائیں اور ان کی اصلاح کا کام کریں چناچہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) اپنے شہر میں آئے تو پوری قوم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کا وعدہ کر کے اپنی اصلاح شروع کردی ۔ ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) کی بیوی اور دونوں بچوں کو لوگوں نے پانی میں ڈوبنے اور بھیڑیئے سے بچا لیا تھا وہ بھی واپس آگئے۔ اس طرح اللہ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو ہر طرح کی خوشیاں عطاء فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو ایک مرتبہ پھر آگاہ کیا ہے کہ موت کے فرشتے اور کسی قوم پر عذاب کا فیصلہ ہونے کے بعد پھر دعا و استغفار کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی واحد ایسی قوم تھی جس پر عذاب کا فیصلہ ہونے کے باوجود ان کو معاف کردیا گیا تھا۔ فرمایا کہ اے مکہ والو ! تمہارے اندر تو وہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں کہ تمہارے حق میں ان کی دعا ہی کافی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کی جائے ۔ اگر آپ پر ایمان نہ لائے اور نا فرمانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر اللہ کا وہ فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گی جس سے قومیں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر گرامی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بھی اللہ کے برگزیدہ انبیائے کرام (علیہ السلام) میں شامل ہیں۔ انہیں نینوا کے علاقہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی آبادی میں مبعوث کیا گیا۔ نہ معلوم حضرت یونس (علیہ السلام) نے کتنا عرصہ اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم سدھرنے کی بجائے بگڑتی چلی گئی۔ اس پر یونس (علیہ السلام) نے قوم کو انتباہ کیا کہ اگر تم راہ ہدایت پر نہ آئے تو فلاں دن تمہیں اللہ کا عذاب آلے گا لیکن اس دن عذاب نہ آیا جس پر قوم نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو طعنے دیئے اور جھوٹا قرار دیا جس پر یونس (علیہ السلام) پریشان ہو کر اللہ کی اجازت کے بغیر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے جس کے لیے قرآن مجید نے ” اَبَقَ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے آقا سے بھاگنے والا غلام۔ حضرت یونس (علیہ السلام) قوم سے ناراض ہو کر اپنے شہر سے نکلے اور دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے کشتی دریا میں تھوڑی دیر چلی تو ہچکولے کھانے لگی۔ ملاح نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ جب کشتی ہموار موسم میں ہچکولے کھانے لگے تو میرا تجربہ ہے کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص ضرور سوار ہوتا ہے جو اپنے مالک سے بھاگ آکر آیا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آج بھی کوئی سوار اس طرح ہی اپنے مالک سے بھاگ کر آیا ہے۔ اس پر قرعہ اندازی کی گئی بالآخر قرعہ یونس (علیہ السلام) کے نام نکلا جس پر یونس (علیہ السلام) نے کشتی کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ جونہی دریا میں کودے تو ایک مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ وہ نہایت افسردگی کے عالم میں مچھلی کے پیٹ میں جاکر ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگے،” لَا اِلٰہَ الاَّاَنْتَ سُُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ “ اے اللہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں بیشک میں ظالموں میں سے ہوں۔ “ یونس (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی بجائے ” اَنْتَ “ کی ضمیر استعمال کی جس سے ان کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہونے اور مچھلی کے پیٹ میں جانے کے باوجود ” اَنْتَ “ کی ضمیر استعمال کرتے ہیں جو واحد حاضر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا کہ انتہائی پریشانی کے باوجود اپنے رب کی قربت محسوس کرتے ہوئے یوں پکارتے ہیں گویا کہ رب تعالیٰ ان کے سامنے موجود ہیں یہی ذکر کا بہترین طریقہ ہے۔ جس طرح حدیث میں نماز کے بارے میں آیا کہ نماز اس طرح پڑھنی چاہیے جیسے نمازی اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ نہیں تو یہ تصور تو ہونا چاہیے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب الایمان) اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یونس (علیہ السلام) مجھے یاد نہ کرتا تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا اور مچھلی کے پیٹ سے ہی اٹھایا جاتا۔ گویا کہ مچھلی کی موت کے ساتھ ہی انہیں موت آجاتی۔ اور قیامت کو مچھلی کے پیٹ سے نکالے جاتے۔ یونس (علیہ السلام) کی فریاد کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مچھلی کو حکم دیا کہ یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے اگل دے۔ یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو اتنے کمزور ہوچکے تھے کہ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے۔ اس حالت میں یونس (علیہ السلام) دریا کے کنارے بےسدھ ہو کر لیٹے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خوراک اور سائے کے لیے ایک بیل دار پودا اگا دیا جس کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ وہ کدو یا بڑے بڑے پتوں والا بیل دار درخت تھا۔ اس مقام پر ضرورت سے زیادہ عقل رکھنے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں انگلستان کے ساحل کے قریب ایک واقعہ پیش آچکا ہے جو ایسے لوگوں کے دعوے کی تردید کردیتا ہے۔ اگست ١٨٩١ ؁ء میں ایک جہاز پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو ٢٠ فٹ لمبی ٥٠ فٹ چوڑی اور سوٹن وزنی تھی شکاریوں نے سخت زخمی کردیا مچھلی کو قابو کرتے ہوئے جمیز بار ٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انہوں نے بمشکل ہی اسے جہاز پر چڑھایاجب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر زندہ برآمد ہوگیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے ٦٠ گھنٹے رہا تھا۔ (اردو ڈائجسٹ، فروری ١٩٦٤ ؁ء) غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟ ٢٠٠٥ رمضان المبارک میں آزاد کشمیر میں شدید زلزلہ آیا۔ اس زلزلہ میں پانچ اور چھ سیکنڈ کے اندر اسی ہزار افراد موت کا لقمہ بنے گھروں کے گھر ملیامیٹ ہوگئے۔ مواصلات کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا۔ تقریباً ایک سال تک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لوگوں تک خوراک پہنچائی جاتی رہی اور کئی ماہ تک مکانوں سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مظفر آباد شہر میں ایک بلڈنگ کاملبہ صاف کیا جارہا تھا کہ ایک گھر سے چھ ماہ بعد جواں سال لڑکی زندہ ملی جس کا سرکاری طور پر اسلام آباد ہسپتال میں علاج کیا گیا جو دو مہینے کے بعد لڑکی چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی۔ ذکر کے فائدے : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِءَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن) [ الانفال : ٤٥] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم کسی گروہ کا مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِيْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِيْ وَتَحَرَّکَتْ بِيْ شَفَتَاہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں ‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر کے لیے حرکت کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کے لیے ایک بیلدار درخت اگادیا۔ ٣۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٣) ٢۔ یونس (علیہ السلام) رسولوں میں سے تھے۔ (الصّٰفّٰت : ١٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ یونس (علیہ السلام) کی اللہ نے دعا قبول فرما کر مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ (الانبیاء : ٨٨) ٥۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس : ٩٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان یونس لمن المرسلین۔۔۔۔ فمتعنھم الی حین (139 – 148) قرآن کریم اس بات کا تذکرہ نہیں کرتا کہ قوم یونس کہاں تھی۔ یہ بات قرآن سے صاف صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ کسی ساحلی بستی میں آباد تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت یونس کی قوم کی جانب سے مسلسل تکذیب کی وجہ سے ان کا دل بھر آیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنی قوم کو یہ وارننگ دے دی کہ جلد ہی تم پر عذاب آنے والا ہے۔ آپ نے اپنی قوم سے سخت غصہ ہوکر نکل کھڑے ہوئے۔ چناچہ آپ سمندر کے ساحل پر چلے گئے۔ اور وہاں ایک ایسی کشتی میں سوار ہوگئے جو سواریوں سے بھری ہوئی تھی۔ سمندر کے درمیان میں کشتی کو طوفان نے آلیا اور وہ موجوں کی لپیٹ میں آگئی۔ لوگوں کی طرف سے اعلان ہوا ، کشتی کے سواروں میں کوئی شخص ایسا ہے جس نے غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور وہ مغضوب علیہ ہے اور یہ بات لازمی ہے کہ ایسے شخص کو سمندر میں پھینک دیا جائے تاکہ کشتی نجات پاجائے۔ اس لیے ان لوگوں نے قرعہ اندازی کی کہ جس کا قرعہ نکلا اسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔ یونس (علیہ السلام) کا قرعہ نکل آیا۔ ان لوگوں کے اندر یونس (علیہ السلام) نیکی اور تقویٰ میں معروف تھے۔ لیکن جب ان کے نام بار بار قرعہ نکلا تو انہوں نے انہیں سمندر میں پھینک دیا یا خود وہ سمندر میں کود گئے۔ چناچہ ان کو مچھلی نے نگل لیا۔ اس وقت سب لوگ ان کو ملامت کر رہے تھے یعنی وہ ملامت کے بظاہر مستحق تھے کیونکہ انہوں نے اس مہم کو چھوڑ دیا تھا جس کے لیے ان کو بھیجا گیا تھا اور اپنی قوم سے ناراض ہوکر ان کو چھوڑ دیا حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نہ آئی تھی۔ جب مچھلی کے پیٹ میں انہوں نے احساس کرلیا اس ظلم سے استغفار کرنا شروع کردیا۔ اور یہ اعتراف کرلیا کہ میں نے ظلم کیا ہے۔ لا الہ الا ۔۔۔۔ من الظالمین ” نہیں ہے کوئی حاکم مگر تو ، تو پاک ہے ، بیشک میں ظالموں میں سے تھا “۔ اللہ نے ان کی دعا کو سنا اور قبول کرلیا۔ چناچہ مچھلی نے ان کو ساحل پر اگل دیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یونس (علیہ السلام) کا کشتی سے سمندر میں کود پڑنا، پھر مچھلی کے پیٹ میں تسبیح میں مشغول رہنا ان آیات میں حضرت یونس (علیہ السلام) کی بعثت اور مصیبت اور ان کی قوم کی ضلالت اور پھر ہدایت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ جب وہ ایک عرصہ تک اپنی قوم کو تبلیغ کرتے رہے اور قوم نے نہ مانا انکار پر تلے رہے تو حضرت یونس (علیہ السلام) نے ان سے فرما دیا کہ دیکھو تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آجائے گا، اس کے بعد دو دن تک انتظار کیا، تیسرے دن بھی انتظار میں تھے لیکن عذاب کے آثار نہیں دیکھے، جب یہ صورت حال سامنے آئی تو یہ سمجھ کر کہ اگر عذاب نہ آیا تو میں جھوٹا بنوں گا وہاں سے روانہ ہوگئے اور ادھر ان کی قوم نے عذاب آتا دیکھا تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں روئے اور گڑگڑائے، زاری کرتے رہے، خوب توبہ کی، معافی مانگی اور ایمان قبول کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ہٹا دیا اور ان کا ایمان قبول فرما لیا۔ یہ ان کی خصوصیت تھی کیونکہ عذاب آنے کے بعد ایمان اور توبہ کی قبولیت نہیں ہوتی۔ سورة یونس میں فرمایا (فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ ) سو کوئی ایسی بستی کیوں ایمان نہ لائی جس کا ایمان لانا اس کو نافع ہوتا مگر یونس کی قوم، جب وہ ایمان لائے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کا دنیوی زندگی میں ان پر ٹال دیا اور ان کو ایک وقت خاص تک عیش دیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) یہ دیکھ کر کہ عذاب نہیں آیا اپنی قوم کو چھوڑ کر روانہ ہوئے تو چلتے چلتے دریا کے کنارے پہنچے وہاں جو کشتی والے تھے سواریوں کو کشتی میں بٹھا کر اس کنارے سے اس کنارہ تک پہنچاتے تھے اور مسافروں سے کرایہ بھی لیتے تھے، انہوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور بغیر اجرت کے کشتی میں بٹھا لیا، کشتی میں سوار ہوگئے لیکن اب یہ ماجرا ہوا کہ کشتی روانہ ہو کر بیچ منجھدار میں جاکر رک گئی۔ کشتی والوں نے کہا کہ جو لوگ کشتی میں سوار ہیں ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی وجہ سے کشتی بیچ دریا میں آکر ٹھہر گئی ہے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہوئے تو دیکھ رہے ہیں کہ دائیں بائیں کشتیاں چل رہی ہیں لیکن آپ جس کشتی میں تھے وہ نہ چلانے سے چلتی ہے نہ ہلانے سے ہلتی ہے، آپ نے خود ہی دریافت فرمایا کہ اس کشتی کو کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں تو پتہ نہیں ! فرمایا لیکن مجھے اس کا سبب معلوم ہے، اس میں کوئی ایسا غلام ہے جو اپنے آقا کی فرمانبرداری چھوڑ کر بھاگ آیا ہے اور جب تک اس شخص کو سمندر میں نہ ڈال دو یہ کشتی ٹھہری ہی رہے گی، اور وہ بھاگا ہوا غلام میں ہوں (یہ اس لیے کہا کہ اللہ جل شانہٗ کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے آئے تھے) مجھے دریا میں ڈال دو ، لوگوں نے کہا یا نبی اللہ ! ہم آپ کو دریا میں نہیں ڈال سکتے۔ فرمایا اچھا تو پھر قرعہ ڈال لو، جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے دریا میں ڈال دینا چناچہ انہوں نے تین بار قرعہ ڈالا ہر بار آپ ہی کا نام نکلا، لہٰذا آپ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عربی زبان میں (سھم) تیر کو کہتے ہیں چونکہ تیروں کے ذریعہ قرعہ ڈالا گیا تھا اس لیے اسے (فَسَاھَمَ ) سے تعبیر فرمایا۔ اور طریقہ قرعہ کا یہ تھا کہ ہر شخص اپنا اپنا تیر لے کر پانی میں ڈال دے جس کا تیر اوپر ہی کو رہے اس کو دریا میں ڈال دیا جائے اور جس کا تیر ڈوب جائے اس کے بارے میں سمجھ لیا جائے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کی وجہ سے کشتی رکی کھڑی ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام کا جو تیر تھا پانی پر ہی تیرتا ہوا رہ گیا، اس پر آپ نے سمجھ لیا کہ مجھ ہی کو سمندر کے حوالے ہونا چاہیے، اور کشتی کے دوسرے سواروں نے بھی اس بات کا یقین کرلیا۔ اس کو یہاں فرمایا (فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ) (کہ حضرت یونس (علیہ السلام) مغلوب ہوگئے اور دوسری سواریوں کے مقابلہ میں ہار گئے) (ذکرہ صاحب الروح) حضرت یونس (علیہ السلام) نے جیسے ہی دریا میں چھلانگ لگائی ایک مچھلی اللہ کے حکم سے پہلے ہی سے تیار تھی اس نے آپ کو لقمہ بنا لیا لیکن چبایا نہیں صحیح سالم نگل لیا، مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو تین تاریکوں میں مبتلا ہوئے، ایک تاریکی رات کی، دوسری سمندر کے پانی کی، تیسری مچھلی کے پیٹ کی، ان تاریکیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے رہے جسے سورة الانبیاء میں فرمایا ہے (فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) (سو تاریکیوں میں پکارتے رہے کہ اے اللہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ پاک ہیں بیشک میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں) مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہے، اللہ تعالیٰ نے وہاں ان کی حفاظت فرمائی اور ان کو اس مصیبت سے نجات دے دی، سورة الانبیاء میں فرمایا ہے (فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجْی الْمُؤْمِنِیْنَ ) (سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں گھٹن سے نجات دی اور ہم اسی طرح اہل ایمان کو نجات دیا کرتے ہیں) اور یہاں سورة الصفت میں فرمایا ہے (فَلَوْلاَ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہِ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) (سو اگر وہ تسبیح بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتے۔ ) ایک بیل دار درخت کا سایہ دینا جب مچھلی کے پیٹ میں آپ نے ذکر کیا، اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی تو اللہ جل شانہٗ نے مچھلی کو حکم دیا کہ ان کو کنارے پر اگل دے، مچھلی نے آپ کو کنارے پر ڈال دیا۔ اس کے پیٹ سے اور پانی سے باہر تو آگئے لیکن سقیم تھے، سقیم عربی زبان میں بیمار کو کہتے ہیں، جب مچھلی کے پیٹ میں کھانا دانہ نہ ملا تو تندرستی والی حالت برقرار نہ رہی، ضعف ہوجانا لازمی تھا۔ اسی لیے بعض حضرات نے سقیم کا ترجمہ مضمحل کیا ہے، ضرورت تھی کہ سایہ بھی ملے اور غذا بھی پہنچے، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے وہاں ایک بیلدار درخت اگا دیا مشہور ہے کہ وہ کدو کا درخت تھا اور مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جنگل کی بکری کو انہیں دودھ پلانے پر لگا دیا، وہ بکری آتی تھی اور آپ کو دودھ پلا کر چلی جاتی تھی۔ امتیوں کی تعداد حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ نینویٰ بستی کی طرف مبعوث ہوئے تھے جو شہر موصل کے قریب تھی، یہاں سورة الصفت میں ان کی تعداد کے بارے میں فرمایا ہے (وَاَرْسَلْنَاہُ اِِلٰی ماءَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ) (اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ افراد کی طرف بھیجا) چونکہ ان لوگوں نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کرلی اور ایمان لے آئے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ہٹا دیا اور اس کے بعد انہیں ایک زمانہ تک مزید زندگی بخش دی اور دنیا کی زندگی سے اور دنیا کی دوسری نعمتوں سے بھی متنفع ہونے کا موقع دیا۔ اسی کو یہاں فرمایا (فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنَاھُمْ اِِلٰی حِیْنٍ ) (سو وہ لوگ ایمان لے آئے لہٰذا ہم نے انہیں ایک زمانہ تک جینے اور فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا) تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) تندرست ہوگئے تو اپنی قوم کے پاس تشریف لے گئے۔ یہاں جو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیل دار درخت تو زمین پر پھیل جاتا ہے اس سے سایہ کیسے مل سکتا ہے ؟ بعض حضرات نے اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ بطور خرق عادت اس درخت کی بیل کسی سہارے کے بغیر اوپر پھیل گئی، کیونکہ معجزہ تھا اس کے لیے چڑھنے اور ٹھہرنے کے لیے کسی درخت یا دیوار کی ضرورت نہ ہوئی، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے کہ وہاں کوئی سوکھا ہوا درخت کھڑا ہو، اس پر بیل چڑھ گئی ہو۔ (اِِلٰی ماءَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ) جو فرمایا ہے کہ اس میں اَوْ شک کے لیے نہیں ہے۔ (لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ مُتَعَالٍ عَنْ ذٰلِکَ ) اسی لیے فرانحوی نے فرمایا ہے کہ یہاں اوبل کے معنی میں ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ واؤ کے معنی میں ہے اور اخفش اور زجاج نے فرمایا ہے کہ الفاظ قرآنی کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کو دیکھ لیتے تو تمہارے اندازہ میں ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ سمجھ میں آتے۔ (تفسیر قرطبی ص ١٣٢: ج ١٥) اور ” بیان القرآن “ میں لکھا ہے کہ کسر کا اعتبار نہ کرو تو ایک لاکھ کہو اور اگر کسر کا اعتبار کرو تو زیادہ کہو۔ سنن ترمذی میں حضرت ابی بن کعب (رض) کا بیان نقل کیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَاَرْسَلْنَاہُ اِِلٰی ماءَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ) کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ ایک لاکھ بیس ہزار زیادہ تھے۔ (قال الترمذی ھذا حدیث غریب وفی سندہ رجل مجھولٌ) فائدہ : اللہ تعالیٰ کا تکوینی قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجائے تو اس وقت توبہ کرنے سے واپس نہیں ہوتا لیکن حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کے لیے یہ خصوصیت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب آنے کے بعد بھی ان کی توبہ قبول فرمائی، وہ ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اور ایمان بھی قبول فرمایا اور عذاب کو ہٹا دیا جس کی تفصیل سورة یونس میں گزر چکی ہے۔ (انوار البیان جلد اول)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ان یونس الخ : یہ نفی شفاعت قہری کے لیے ساتواں قصہ ہے۔ یونس (علیہ السلام) کو مچھلی نے ہمارے حکم سے نگل لیا۔ یہ ایک انتباہ تھا۔ انہوں نے ہمیں پکارا تو ہم نے ان کو اس مصیبت سے نجات دی۔ اس لیے جو خود اس قدر محتاج و عاجز ہو وہ کسی طرح شفیع غالب نہیں ہوسکتا۔ اذ ابق الخ، حضرت یونس (علیہ السلام) نے جب قوم پر تبلیغ حق سے حجت قائم کردی۔ اور قوم تکذیب و انکار پر اڑی رہی تو انہوں نے اللہ کے حکم سے اعلان فرما دیا کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو تین دن تک تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا حضرت یونس (علیہ السلام) قوم کے ایمان سے مایوس تھے اور تیسرے دن نزول عذاب کا بھی انہیں یقین تھا۔ اس لیے تیسرے دن اللہ کی طرف سے اجازت کے بغیر ہی بستی سے نکل کھڑے ہوئے انہیں یقین تھا کہ یہ قوم آج عذاب سے ہلاک ہوجائے گی۔ لیکن قوم نے جب عذاب کے آثار دیکھے تو گڑ گڑا کر توبہ کی اور ایمان لے آئے۔ تو اللہ نے ان سے عذاب اٹھا لیا۔ ادھر یونس (علیہ السلام) دوران سفر میں دریا عبور کرنے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ ملاح نے کہا، مسافروں میں کوئی ایسا غلام ہے جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلا ہے۔ فساھم فکان من المدحضین، چناچہ تمام مسافروں میں قرعہ اندازی کی گئی تو تین بار حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام کا قرعہ نکلا۔ اس پر انہوں نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ تو اللہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مچھلی نمودار ہوئی جس نے پانی میں گرنے سے پہلے ہی ان کو نگل لیا۔ اخرجہ احمد وغیرہ عن ابن مسعود (رض) (روح ج 23 ص 143) ۔ وھو ملیم، اب حضرت یونس (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ یہ بلا اذن قوم کو چھوڑ آنے پر عتاب ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے۔ ھوملیم نفسہ (ابو السعود، روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(139) بلا شبہ یونس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھا۔ یعنی یونس (علیہ السلام) کو موصل سے نینوا بھیجا اللہ تعالیٰ نے تاکہ وہاں کے لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچائیں جب وہاں کے لوگ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو عذاب سے ڈرایا اور عذاب کے آنے کا ایک دن مقرر کردیا اور خود وہاں سے نکل کر دوسری جگہ چلے گئے اور وہاں سے نینوا کی خبریں حاصل کرتے رہے یہاں یوم موعود پر عذاب کے آثار نمودار ہوئے لوگ گھروں سے نکل کر جنگل میں گئے وہاں جاکر توبہ کی ایمان لائے اور گڑ گڑائے اللہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب واپس ہوگیا۔ جب حضرت یونس کو یہ معلوم ہوا تو شرمندگی کے باعث نینوا میں واپس نہ آئے بلکہ ایک کشتی پر سوار ہوکر اس علاقے سے نکل جانا چاہتے تھے بچوں کو اور بیوی کو لے کر نکلے یہ واقعہ سورة یونس اور سورة انبیاء میں قدرے تفصیل سے گزر چکا ہے۔