Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 140

سورة الصافات

اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ ﴿۱۴۰﴾ۙ

[Mention] when he ran away to the laden ship.

جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When he ran to the laden ship. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "It was filled with cargo.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] سیدنا یونس کی بلا اذن الہٰی ہجرت :۔ اَبَقَ کا لفظ بالخصوص ایک غلام کا اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ کھڑا ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سیدنا یونس بھی چونکہ اللہ کے حکم ہجرت کے بغیر اپنی قوم کے لوگوں سے بھاگ آئے تھے اس لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا اس میں لطیف اشارہ یہ ہے کہ ہر شخص حتیٰ کہ ہر نبی بھی اپنے پروردگار کا ہمہ وقتی غلام اور بندہ ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ اَبَقَ : ” أَبَقَ (ض، ن، س) إِبَاقًا وَ أَبْقًا وَ أَبَقًا، الْعَبْدُ “ غلام کے اپنے مالک کے پاس سے بھاگ جانے کو کہتے ہیں۔ یونس (علیہ السلام) چونکہ اپنے مالک (اللہ تعالیٰ ) کے حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، اس لیے ان کے جانے کے لیے ” اَبَقَ “ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کو کب اور کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے ؟ اس کے لیے دیکھیے سورة یونس (٩٨) اور سورة انبیاء (٨٧) ۔ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی کشتی سے مراد سامان اور مسافروں سے بھری ہوئی کشتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: أَبَقَ (abaqa) in the next verse (140):إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (when he ran towards the boat already loaded) has been derived from: اِبَاق (ibaq) which means &escaping of a slave from his master&. Allah Ta’ ala has used this word for Sayyidna Yunus (علیہ السلام) for the reason that he had started off without waiting for the revelation from his Lord. The noble prophets are the close ones among the servants of Allah. The slightest slip from them causes the swiftest grip. Hence comes this strong expression أَبَقَ (&abaqa&: &he ran& ).

اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ (جب کہ وہ بھاگے بھری ہوئی کشتی کی طرف) لفظ ابق اباق سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں کسی غلام کا اپنے آقا کے پاس سے بھاگ جانا۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کے لئے اس وجہ سے استعمال فرمایا کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے وحی کا انتظار کئے بغیر روانہ ہوگئے تھے۔ انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہوتے ہیں اور ان کی معمولی سی لغزش بھی بڑی گرفت کا سبب بن جاتی ہے، اس لئے یہ سخت لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝ ١٤٠ۙ أبق قال اللہ تعالی: إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الصافات/ 140] . يقال : أَبَقَ العبد يَأْبِقُ إباقاً ، وأَبَقَ يَأْبَقُ : إذا هرب وعبد آبق وجمعه أُبَّاق، وتأبّق الرجل : تشبّه به في الاستتار، وقول الشاعر : قد أحكمت حکمات القدّ والأبقا قيل : هو القنّب . ( اب ق ) ابق ( س ص ) العبد اباقا۔ غلام بھاگ گیا ۔ قرآن میں ہے :۔ {إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ } [ الصافات : 140] جب بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے آبق ( صفت فاعلی) بھاگا ہو اغلام و وجمعه أُبَّاق۔ تأبّق الرجل) ۔ وہ بھاگے ہوئے غلام کی طرح چھپ گیا اور شاعر کے قول (3) قداحکمت حکمات القد والابقا ( ان گھوڑوں کے چمڑے کے تسمے اور جوٹ کی کی کپٹیاں کسی ہوئی ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ آبق کے معنی جوٹ یا اس کی رسی کے ہیں ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ شحن قال تعالی: فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء/ 119] ، أي : المملوء، والشَّحْنَاءُ : عداوة امتلأت منها النّفس . يقال : عدوّ مُشَاحِنٍ ، وأَشْحَنَ للبکاء : امتلأت نفسه لتهيّئه له . ( ش ح ن ) الشحن ۔ کشتی یا جہاز میں سامان لادنا بھرنا قرآن میں ہے : فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء/ 119] بھری ہوئی کشتی میں ( سوار ) تھے ۔ الشحناء کینہ و عداوت جس سے نفس پر اور بھر ہوا ہو عدو مشاحن بہت سخت دشمن گویا وہ دشمنی سے پر ہے ۔ اشحن للبکاء غم سے بھر کر رونے کیلئے آمادہ ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠{ اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ } ” جب وہ بھاگ کر پہنچا اس کشتی کی طرف جو ( پہلے سے ہی) بھری ہوئی تھی۔ “ لفظ ” اَبَقَ “ کسی غلام کا اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جانے پر بولا جاتا ہے۔ اس واقعے کا ذکر سورة یونس اور سورة الانبیاء میں بھی آچکا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے آپ ( علیہ السلام) کو جھٹلا دیا اور ان کے مسلسل انکار اور کفر کے باعث اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ فرما لیا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا قانون اور طریقہ یہی رہا ہے کہ کسی قوم پر عذاب سے قبل رسول کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا اور رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد متعلقہ قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے اس ضمن میں یہ لغزش ہوگئی کہ آپ ( علیہ السلام) حمیت ِحق کے جوش میں غضبناک ہو کر (سورۃ الانبیاء کی آیت ٨٧ میں اس حوالے سے { اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا } کے الفاظ آئے ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح اجازت ملنے سے قبل ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل آئے اور دجلہ یا فرات میں سے کسی دریا کو پار کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78 The word ebaqe in Arabic is used for the flight and escape of a slave from his master's house.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :78 اصل میں لفظ اَبَقَ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں صرف اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے ۔ الاباق ھرب العبد من سیدہ ۔ اِباق کے معنی ہیں غلام کا اپنے آقا سے فرار ہو جانا ( لسان العرب )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ اِختصار کے ساتھ سورۂ یونس (۱۰:۹۸) میں بھی گذر چکا ہے، اور سورۂ انبیاء (۲۱:۸۷) میں بھی۔ وہ عراق کے شہر نینوا میں بھیجے گئے تھے، اور اُنہوں نے ایک عرصے تک اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی، اور جب وہ نہ مانی تو اُنہیں متنبہ کردیا کہ اب تم پر تین دن کے اندر اندر عذاب آکر رہے گا، قوم کے لوگوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ کبھی جُھوٹ نہیں بولتے، اِس لئے اگر وہ بستی سے چلے جاتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے، اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے بستی چھوڑ کر باہر چلے گئے، اِدھر بستی کے لوگوں نے جب دیکھا کہ آپ بستی میں نہیں ہیں، اور کچھ عذاب کے آثار بھی محسوس کئے تو اُنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ توبہ کی جس کے نتیجے میں اُن سے عذاب ٹل گیا، حضرت یونس علیہ السلام کو اُن کی توبہ کا حال معلوم نہیں تھا، اور جب اُنہوں نے یہ دیکھا کہ تین دن گزرگئے اور عداب نہیں آیا تو اُنہیں ڈرہوا کہ اگر میں بستی میں واپس جاؤں گا تو بستی والے مجھے جھوٹا بنائیں گے، اور اندیشہ یہ بھی تھا کہ جُھوٹا سمجھ کر قتل نہ کردیں، اس لئے اس خوف کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کا حکم آنے سے پہلے ہی وہ اپنی بستی میں جانے کے بجائے سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوئے، اور ایک کشتی میں سوار ہوگئے جو آدمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اﷲ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر پیغمبر ہونے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کو آپ کی یہ بات پسند نہیں آئی کہ آپ اﷲ تعالیٰ کا حکم آنے سے پہلے بستی کو چھوڑکر کیوں چلے گئے۔ بڑے لوگوں کی معمولی چُوک پر بھی گرفت ہوتی ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ کشتی وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈُدبنے کے قریب آگئی، اور قرعہ اندازی کی گئی کہ ایک شخص کو کشتی سے باہر پانی میں اتارا جائے، کئی مرتبہ قرعہ ڈالا گیا اور ہر بار قرعے میں انہی کا نام نکلا، چنانچہ اُنہیں پانی میں پھینک دیا گیا، جہاں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی آپ کی منتظر تھی، اُس نے آپ کو نگل لیا، اور آپ کچھ عرصے مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ تین دن اس میں گذرے، اور بعض میں ہے کہ چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہے، جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گزرا ہے، وہاں آپ یہ تسبیح پڑھتے رہے کہ :’’ لَآ اِلٰہَ اِلآَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:140) اذ مفعول فعل محذوف ای اذکر وقت اباقہ الی الفلک المشحون بھری ہوئی کشتی کی طرف اس کے بھاگ جانے کا وقت یاد کرو۔ ابق۔ ماضی واحد مذکر غائب وہ بھاگا اباق سے (باب نصر، ضرب، سمع) جس کے معنی غلام کے اپنے مالک سے بھاگنے کے ہیں :۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنے اللہ کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر بھاگے تھے اس لئے ان کے بھاگنے کو اباق قرار دیا۔ الفلک المشحون۔ موصوف وصفت۔ المشحون اسم مفعول واحد مذکر شحن یشحن (فتح، نصر، سمع) بمعنی بھرنا۔ المشحون بھری ہوئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہاں بھاگنے کے لئے لفظ ” ابق “ استعمال ہوا ہے جو دراصل غلام کے اپنے آقا کے پاس سے بھاگ جانے کیلئے بولا جاتا ہے۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) چونکہ اپنے آقا اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کئے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اس لئے ان کے چلے جانے ” ابق “ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) اپنی قوم کو کب اور کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے اس کے لئے دیکھئے سورة یونس آیت 98، سورة انبیاء آیت 87 ( قرطبی) بھری ہوئی کشتی سے مراد سامان اور مسافروں سے بھری ہوئی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(140) اور یونس کا وہ واقعہ قابل ذکر ہے جبکہ وہ اپنی قوم سے بھاگ کر ایک ایسی کشتی پر پہنچا جو مسافروں وغیرہ سے پر تھی۔ یعنی جب یہ معلوم ہوا کہ قوم پر سے عذاب ٹل گیا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ اگر واپس جائوں گا تو قوم مجھے جھٹلائے گی اس لئے کہیں نکل جائوں چونکہ یہ تجویز بھاگ نکلنے کی بغیر اللہ تعالیٰ کی منظوری کے اختیار کی اس لئے وہ واقعات پیش آئے جو آگے مذکور ہیں۔ کہتے ہیں ندی پار کررہے تھے کہ ایک لڑکا اور بیوی بہہ گئی اور ایک لڑکے کو کنارے پر چھوڑ گئے تھے اسے بھیڑیا لے گیا۔ بہرحال جوں توں کرکے کشتی پکڑی کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی روانہہوئی تو دھارے پر جاکر رک گئی اور چکر کھانے لگی ۔ کشتی والوں نے کہا ان مسافروں میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا سوار ہوگیا ہے اور ہم قاعدے اور دستور کے موافق بھاگے ہوئے غلام کو دریا میں پھینک دیا کرتے ہیں تاکہ ہماری کشتی غرق سے محفوظ رہے، حضرت یونس سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو وہ غلام میں ہی ہوں جو مولا سے بھاگ کر آیا ہوں چناچہ انہوں نے اپنے کو پیش کردیا لیکن ان کی صورت کو دیکھ کرنا خدا کو یقین نہ آیا کہ یہ بھاگے ہوئے غلام ہیں چناچہ قرعہ ڈالا گیا اور کئی بار قرعہ میں ان کا ہی نام نکلا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔