It was said in verse 147: Y); وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (And We had sent him [ as messenger ] to one hundred thousand, or more). A difficulty may arise here. Is it not that Allah Ta’ ala is Knowing and Aware? Why would He have to express the doubt that the number of those people was &one hundred thousand, or more?& It can be answered by saying that this statement has been made in congruity with the view of common people, that is, if an average person would have seen them, he would have said that their number is one hundred thousand or somewhat more than that (Mazhari). Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) has said that nothing is being doubted here in the text itself. They could be called one hundred thousand, and also more than that - for example, if one eliminates the fraction, their number was one hundred thousand, and if the fraction were also taken into account, it would be more than one hundred thousand. (Bayan-ul-Qur’ an)
(آیت) وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ (اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا) یہاں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علیم و خیبر ہیں، ان کو اس شک کے اظہار کی کیا ضرورت ہے کہ ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدمی تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ عام لوگوں کی مناسبت سے کہا گیا ہے، یعنی ایک عام آدمی انہیں دیکھتا تو یہ کہتا کہ ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے کچھ اوپر ہے (مظہری) اور حضرت تھانوی نے فرمایا کہ یہاں شک کا اظہار مقصود ہی نہیں ہے، انہیں ایک لاکھ بھی کہا جاسکتا ہے، اور اس سے زیادہ بھی، اور وہ اس طرح کہ اگر کسر کا لحاظ نہ کیا جائے تو ان کی تعداد ایک لاکھ تھی اور اگر کسر بھی شمار کیا جائے تو ایک لاکھ سے زیادہ (بیان القرآن) یہ جملہ چونکہ مچھلی کے واقعہ کے بعد آیا ہے اس لئے اس سے بعض مفسرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی بعثت اس واقعہ کے بعد ہوئی تھی۔ اور علامہ بغوی نے یہاں تک فرما دیا کہ اس آیت میں نینوا کی طرف بعثت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ مچھلی کے واقعہ کے بعد انہیں ایک دوسری امت کی طرف بھیجا گیا، جس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، لیکن قرآن کریم اور روایات سے ان کے اس قول کی تائید نہیں ہوتی، یہاں حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کے شروع ہی میں آپ کی رسالت کا تذکرہ صاف بتارہا ہے کہ مچھلی کا واقعہ رسول بننے کے بعد پیش آیا ہے، اس کے بعد یہاں اس جملے کو دوبارہ اس لئے لایا گیا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی تندرستی کے بعد انہیں دوبارہ وہیں بھیجا گیا تھا یہاں یہ واضح کردیا کہ وہ لوگ معدودے چند افراد نہیں تھے بلکہ ان کی تعداد لاکھ سے بھی اوپر تھی۔