Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 147

سورة الصافات

وَ اَرۡسَلۡنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلۡفٍ اَوۡ یَزِیۡدُوۡنَ ﴿۱۴۷﴾ۚ

And We sent him to [his people of] a hundred thousand or more.

اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We sent him to a hundred thousand (people) or even more. It is as if he was commanded, after he came forth from the fish, to go back to those to whom he had been sent in the first place, and they all believed in him. ... أَوْ يَزِيدُونَ ...or even more. Makhul said, "They numbered one hundred and ten thousand. This was reported by Ibn Abi Hatim. Ibn Jarir said, "Some of the scholars of Arabic, the people of Basrah, said that this means up to one hundred thousand or more." Ibn Jarir interpreted this Ayah as he interpreted the Ayat: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِّن بَعْدِ ذلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً Then, after that, your hearts were hardened and became as stones or even worse in hardness. (2:74), إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً Behold! a section of them fear men as they fear Allah or even more. (4:77) and, فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى And was at a distance of two bows' length or (even) nearer. (53:9) The meaning is, "not less than that, but rather more."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی قوم کے ہاں جانے کا حکم دیا۔ جس سے آپ بھاگ آئے تھے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ انہوں نے جس آہ وزاری سے توبہ کی تھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کرکے ان سے عذاب کو ٹال دیا تھا اور وہ کسی رہنمائی کرنے والے کے منتظر تھے۔ سیدنا یونس کو تلاش کرتے رہے۔ مگر وہ کہیں نہ ملے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ : تندرست ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر ایک لاکھ یا اس سے زیادہ افراد پر مشتمل آبادی کی طرف پیغام حق پہنچانے کے لیے بھیج دیا۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ وہی آبادی تھی جہاں سے وہ ناراض ہو کر گئے تھے اور جن کی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب سے محفوظ رکھا تھا۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں جو لفظ ” اَوْ “ استعمال فرمایا ہے کہ ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا ” یا “ وہ زیادہ ہوں گے، یہ لفظ تو شک کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے شک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ یہ دیکھنے والوں کے لحاظ سے ہے کہ اگر کوئی انھیں دیکھے تو کہے گا کہ ایک لاکھ ہیں یا اس سے زیادہ ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں ” اَوْ “ بمعنی ” بَلْ “ ہے، اور اسی کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے ” بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It was said in verse 147: Y); وَأَرْ‌سَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (And We had sent him [ as messenger ] to one hundred thousand, or more). A difficulty may arise here. Is it not that Allah Ta’ ala is Knowing and Aware? Why would He have to express the doubt that the number of those people was &one hundred thousand, or more?& It can be answered by saying that this statement has been made in congruity with the view of common people, that is, if an average person would have seen them, he would have said that their number is one hundred thousand or somewhat more than that (Mazhari). Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) has said that nothing is being doubted here in the text itself. They could be called one hundred thousand, and also more than that - for example, if one eliminates the fraction, their number was one hundred thousand, and if the fraction were also taken into account, it would be more than one hundred thousand. (Bayan-ul-Qur’ an)

(آیت) وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ (اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا) یہاں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علیم و خیبر ہیں، ان کو اس شک کے اظہار کی کیا ضرورت ہے کہ ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدمی تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ عام لوگوں کی مناسبت سے کہا گیا ہے، یعنی ایک عام آدمی انہیں دیکھتا تو یہ کہتا کہ ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے کچھ اوپر ہے (مظہری) اور حضرت تھانوی نے فرمایا کہ یہاں شک کا اظہار مقصود ہی نہیں ہے، انہیں ایک لاکھ بھی کہا جاسکتا ہے، اور اس سے زیادہ بھی، اور وہ اس طرح کہ اگر کسر کا لحاظ نہ کیا جائے تو ان کی تعداد ایک لاکھ تھی اور اگر کسر بھی شمار کیا جائے تو ایک لاکھ سے زیادہ (بیان القرآن) یہ جملہ چونکہ مچھلی کے واقعہ کے بعد آیا ہے اس لئے اس سے بعض مفسرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی بعثت اس واقعہ کے بعد ہوئی تھی۔ اور علامہ بغوی نے یہاں تک فرما دیا کہ اس آیت میں نینوا کی طرف بعثت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ مچھلی کے واقعہ کے بعد انہیں ایک دوسری امت کی طرف بھیجا گیا، جس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، لیکن قرآن کریم اور روایات سے ان کے اس قول کی تائید نہیں ہوتی، یہاں حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کے شروع ہی میں آپ کی رسالت کا تذکرہ صاف بتارہا ہے کہ مچھلی کا واقعہ رسول بننے کے بعد پیش آیا ہے، اس کے بعد یہاں اس جملے کو دوبارہ اس لئے لایا گیا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی تندرستی کے بعد انہیں دوبارہ وہیں بھیجا گیا تھا یہاں یہ واضح کردیا کہ وہ لوگ معدودے چند افراد نہیں تھے بلکہ ان کی تعداد لاکھ سے بھی اوپر تھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَرْسَلْنٰہُ اِلٰى مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ۝ ١٤٧ۚ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ مئة المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال : أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ. م ی ء ) المائۃ ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

او جب اللہ کی طرف منسوب ہو تو شک کے بجائے بلکہ کے معنی میں ہوگا قول باری ہے (وارسلناہ الی مائۃ الف اویزیدون۔ اور ہم نے ان کو ایک لاکھ (آبادی) یا اس سے زائد کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” بلکہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ تھے۔ “ ایک قول کے مطابق یہاں حرف آئو کے معنی ایہام کے ہیں گویا یوں فرمایا گیا ” ہم نے انہیں ان دو میں سے ایک تعداد کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا۔ “ ایک قول کے مطابق اس شک کا تعلق مخاطبین سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف شک کی نسبت جائز نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کو ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی بیس ہزار زائد آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٧{ وَاَرْسَلْنٰـہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ } ” پھر ہم نے اس کو بھیج دیا ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف۔ “ یعنی صحت یاب ہوجانے کے بعد آپ ( علیہ السلام) کو دوبارہ رسالت کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ قرآن میں اس حوالے سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ دوبارہ آپ ( علیہ السلام) کو اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا گیا تھا یا کسی اور قوم کی طرف۔ لیکن گمان غالب یہی ہے کہ آپ ( علیہ السلام) دوبارہ اپنی ہی قوم میں مبعوث ہوئے اور اس آیت میں آپ ( علیہ السلام) ہی کی قوم کی تعداد کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ بہر حال سورة یونس میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) کی قوم کی توبہ قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا تھا۔ سورة یونس کی آیت ٩٨ میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ یہ استثناء صرف قوم یونس ہی کو حاصل ہے۔ یعنی پوری انسانی تاریخ میں واحد مثال ہے کہ عذاب کے آثار ظاہر ہوجانے کے بعد آپ ( علیہ السلام) کی قوم کی توبہ قبول کرلی گئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84 The mention of "a hundred thousand people or more" does not mean that Allah had any doubt about their number, but it means that a casual observer would have estimated the population to be more than a hundred thousand people in any case. Probably it was the same place which the Prophet Jonah had left and fled. After his departure when the people of the place saw the scourge approaching they believed, but this was only a kind of repentance which was accepted and the scourge averted. Now, the Prophet Jonah was again sent .to them so drat the people should believe in him as a Prophet and become Muslims formally. To understand this, one should keep in view verse 98 of Surah Yunus.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :84 ایک لاکھ یا اس سے زائد کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی تعداد میں شک تھا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان کی بستی کو دیکھتا تو یہی اندازہ کرتا کہ اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہی ہو گی ، کم نہ ہو گی ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ وہی بستی تھی جس کو چھوڑ کر حضرت یونس بھاگے تھے ۔ ان کے جانے کے بعد عذاب آتا دیکھ کر جو ایمان اس بستی کے لوگ لے آئے تھے اس کی حیثیت صرف توبہ کی تھی جسے قبول کر کے عذاب ان پر سے ٹال دیا گیا تھا ۔ اب حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ ان کی طرف بھیجے گئے تاکہ وہ نبی پر ایمان لا کر باقاعدہ مسلمان ہو جائیں ۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سورہ یونس ، آیت 98 نگاہ میں رہنی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:147) او یزیدون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ حکایت حال ماضی (فعل مضارع جو کسی گذشتہ بات کو بیان کرنے کے لئے فعل ماضی کی بجائے استعمال کیا جائے۔ ملاحظہ ہو (28:4) یستضعف۔ یذبح) او یزیدون یا وہ زیاددہ تھے (اگر او اپنے اصلی معنی ” یا “ کے استعمال ہوا ہے) او بمعنی بل بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ مقاتل اور کلبی نے کہا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا :۔ ایک لاکھ کی طرف بلکہ اس سے بھی زیادہ کی طرف ہم نے یونس ( علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا۔ او بمعنی وائو بھی ہوسکتا ہے یک صد ہزار و زیادہ بقول علامہ پانی پتی (رح) ۔ ایسا ہی او کا استعمال عذرا او نذرا (77:6) میں ہے۔ لیکن علماء کی اکثریت نے یہاں او بمعنی ” یا “ ہی لیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ وارسلنہ الخ : حضرت یونس (علیہ السلام) کو جس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا تھا اس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ اَوْ بمعنی بَلْ ہے۔ قال الفراء او بمعنی بل (قرطبی۔ مدارک) ۔ فامنوا الخ، قوم یونس (علیہ السلام) نے آثار عذاب دیکھ کر توبہ کرلی تھی۔ اور وہ حضرت یونس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے اس لیے اللہ نے ان کو عذاب سے بچا لیا۔ اور حین حیات میں انہیں دنیوی منافع سے متمتع ہونے کا موقع دیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(147) اور ہم نے اس کو ایک لاکھ یا لاکھ سے زیادہ آدمیوں پر پیغمبر بنا کر بھیجا تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگر عاقل بالغ گئے تو لاکھ تھے اور اگر سب کو شامل گنئے تو زیادہ تھے اللہ کو شک نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آئو بمعنی بل ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کسر کا اعتبار نہ کرو تو ایک لاکھ کہو اور کسر کا اعتبار کرو تو لاکھ سے زیادہ کہو بہرحال وہ لوگ حضرت یونس کی تلاش میں تھے، اجمالی ایمان تو پہلے ہی لے آئے تھے تفصیل ایمان حضرت یونس کی دوبارہ تشریف آوری پر لائے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔