Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 148

سورة الصافات

فَاٰمَنُوۡا فَمَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۱۴۸﴾ؕ

And they believed, so We gave them enjoyment [of life] for a time.

پس وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش و عشرت دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأمَنُوا ... And they believed; means, these people to whom Yunus, peace be upon him, had been sent all believed. ... فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ so We gave them enjoyment for a while. means, until the time of their appointed end. This is like the Ayah, فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَأ إِيمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّأ ءَامَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْىِ فِى الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ Was there any town (community) that believed, and its faith (at that moment) saved it -- except the people of Yunus; when they believed, We removed from them the torment of disgrace in the life of the (present) world, and permitted them to enjoy for a while. (10:98)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

148۔ 1 ان کے ایمان لانے کی کیفیت کا بیان (فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ ) 10 ۔ یونس :98) میں گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] سیدنا یونس کا اپنی قوم میں واپس آنا :۔ جب سیدنا یونس اپنی قوم کے پاس پہنچے تو وہ پہلے ہی آپ کے منتظر بیٹھے تھے۔ وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔ اور پھر سے ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات ہونے لگے۔ چونکہ اس واقعہ میں سیدنا یونس کے ایک کمزور پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے۔ غالباً اسی لئے رسول اللہ نے یہ بتاکید فرما دیا کہ تمام انبیاء نبی ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں اور کسی نبی کو دوسرے پر فضیلت نہیں۔ ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ && مجھے یونس بن متیٰ پر فضیلت نہ دو && اور دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جس نے مجھے یونس بن متیٰ پر فضیلت دی اس نے جھوٹ بولا && (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب من فضائل موسیٰ ) دراصل یہ یونس کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔ اور یہ ہر انسان حتیٰ کہ انبیاء سے بھی ممکن ہے۔ لیکن مقربین کی چھوٹی سی غلطی اور لغزش بھی اللہ کے ہاں بڑی اور قابل مواخذہ ہوتی ہے۔ اسی بنا پر انبیاء پر بھی اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاٰمَنُوْا : شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” وہی قوم جس سے بھاگے تھے، ان پر ایمان لا رہی تھی۔ (وہ انھیں) ڈھونڈتی تھی کہ یہ جا پہنچے، (اس سے) ان کو بڑی خوشی ہوئی۔ “ (موضح) فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ : یعنی انھیں عذاب سے بیک وقت ہلاک کرنے کے بجائے ہر ایک کو اس کی مقررہ عمر تک فائدہ اٹھانے کا موقع عطا فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The expression: إِلَىٰ حِينٍ (ila hin: for a time) in: فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ([ 147] So, they believed, then, We let them enjoy for a time.- 148) means that as long as they did not revert to their kufr and shirk, no punishment visited them. Exposing the fraud of the Qadyani imposter It has already been demonstrated in the Tafsir of Surah Yunus (علیہ السلام) (Ma’ ariful-Qur’ an, English, Volume IV), and it is clear from this verse too, that the reason why the punishment due to visit the people of Sayyidna Yunus (علیہ السلام) was averted was that his people had started believing on time - before it actually materialized. This puts the fraudulent claim of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani (the false pretender to prophethood from Qadian located in Punjab, now called Haryana in India) when he had challenged his adversaries that, should they continue to oppose him, it stood decreed that Divine punishment would descend upon them by such and such time. But, quite conversely, the adversaries became stronger and more vocal, yet the punishment never came. At that time, iii order to salvage himself out from the disgrace of failure, the Qadiani imposter started saying that since his adversaries were really scared in their hearts, therefore, this punishment stood removed from them - as it had stood removed from the people of Sayyidna Yunus (علیہ السلام) . But, this verse of the noble Qur&an declares this interpretation to be false and rejected. The reason is that the people of Sayyidna Yunus (علیہ السلام) had stayed safe from the punishment because of their &iman, belief and faith. Contrary to this was the case of the adversaries of Mirza Ghulam Ahmad of Qadian - not only that they did not believe in him, in fact, their struggle against him gained more strength and momentum.

فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ (پس وہ ایمان لے آئے، سو ہم نے ان کو ایک زمانہ تک عیش دیا) ” ایک زمانہ تک “ کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا نہیں ہوئے ان پر کوئی عذاب نہیں آیا۔ مرزا قادیانی کی تلبیس کا جواب : یہ بات سورة یونس کی تفسیر میں بھی واضح کی جا چکی ہے اور اس آیت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب ٹلایا گیا وہ اس لئے کہ آپ کی قوم بروقت ایمان لے آئی تھی۔ اس سے پنجاب کے جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی اس تلبیس کا خاتمہ ہوجاتا ہے کہ جب اس نے اپنے مخالفوں کو یہ چیلنج کیا کہ اگر وہ اس طرح مخالفت کرتے رہے تو خدا کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ فلاں وقت تک عذاب الٰہی آجائے گا، لیکن مخالفین کی جدوجہد اور تیز ہوگئی پھر بھی عذاب نہ آیا، تب ناکامی کی ذلت سے بچنے کے لئے قادیانی نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چونکہ مخالفین دل میں ڈر گئے ہیں اس لئے ان پر سے عذاب ٹل گیا، جس طرح یونس (علیہ السلام) کی قوم پر سے ٹل گیا تھا، لیکن قرآن کریم کی یہ آیت اس تاویل باطل کو مردود قرار دیتی ہے۔ اس لئے کہ قوم یونس (علیہ السلام) تو ایمان کی وجہ سے عذاب سے بچی تھی، اس کے برعکس مرزا قادیانی کے مخالفین نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں لائے بلکہ ان کی مخالفانہ جدوجہد اور تیز ہوگئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰى حِيْنٍ۝ ١٤٨ۭ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو وہ لوگ ان پر ایمان لے آئے تھے تو ہم نے ان کو مرنے تک بلا کسی تکلیف کے عیش دیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨{ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ } ” تو وہ ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں متاع دنیوی عطا کردی ایک خاص وقت تک۔ “ یعنی ان کی توبہ اور ایمان کے بعد انہیں بقا کی ایک نئی مہلت (fresh lease of existance) دے دی گئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85 Some people have taken exception to what we have written concerning this story of the Prophet Jonah in our commentary of Surahs Yunus and AI-Anbiya'. It would therefore be proper that we should reproduce here the explanations given by the other commentators in this regard. The famous commentator Qatadah in his commentary of verse 98 of Surah Yunus says: There has been no habitation which disbelieved and might have believed after the arrival of the scourge, and then might have been left unpunished. The only exception were the people of the Prophet Jonah. When they searched for their Prophet and did not find him, and felt that the scourge had approached near at hand, Allah put repentance in their hearts. " (Ibn Kathir, vol. II, p. 433). Commenting on the same verse 'Allama Alusi; says: "The Prophet Jonah (peace be upon him) had been sent to the people of Nineveh in the land of Mosul. They were polytheistic people. The Prophet Jonah invited them to believe in Allah, the One, and to give up idol-worship. They refused to believe and belied him. Jonah gave them the news that they would be visited by a scourge after three days and he left the place at midnight before the expiry of the three days. Then, in the day time when the scourge approached...... and the people realized that they would alI perish, they began to search for the Prophet but did not find him. At last, they took their families and their cattle and came out in the desert and expressed belief and repentance.......So, AIlah showed them mercy and accepted their prayer. " (Ruh al-Ma ani, vol. XI, p. 170). Commenting on v. 87 of Surah Al-Anbiya', `Allama Alusi writes: "The Prophet Jonah's forsaking his people in anger was an act of migration, but he had not been commanded to do so." (Ruh al-Ma'ani, vol. XVII, p. 77). Then he explains the meaning of the sentence, "Inna kun-tu min-az-zalimin ", of Jonah's prayer, thus:`That is, I was blameworthy in that I hastened to migrate, against The way of the Prophets, before receiving the command for it. " This was, in fact, a confession of his sin and expression of repentance so that Allah might remove his affliction. (Ruh al-Ma'ani, vol. :XVII, p. 78). Maulana Ashraf `Ali Thanwi's note on this verse is: "He became angry with his people when they did not believe, and forsook them, and did not return to them of his own accord when the scourge had been averted, and did not await Our Command for the migration." (Bayan al-Qur’an). Maulana Shabbir Ahmad 'Uthmani writes in his note on this verse: "Vexed at the misconduct of his people he left the city in anger, did not await the Divine Command and threatened the people that they would be visited by a torment after three days......lnni kun-tu min az-Zalimin: He confessed his error that he had made haste and left the habitation without awaiting Allah's Command., "Explaining these verses of Surah Saaffat, Imam Razi writes: "The Prophet Jonah's fault was that when Allah threatened to destroy the people who had belied him, he thought that the scourge would inevitably befall them. Therefore, he did not show patience and abandoned his mission and left the place, whereas he ought to have continued the work of his mission, for there was a possibility that Allah might not destroy those people." (Tafsir Kabir, vol. VII, p. 158). Explaining the verse Idh abaqa......, Allama .Alusi writes: `Literally, abaqa means the escape of a slave from his master's house. Since Jonah had run away from his people without Allah's leave, the word has been rightly used about him." Then he writes: "When the third day came, the Prophet Jonah left the place without Allah's permission. Thus, when his people did not find him, they came out along with their young and old people and their cattle, and they implored Allah and begged for His forgiveness and Allah forgave them.' (Ruh al-Ma 'ani, vol. XXII, p. 13). Maulana Shabbir Ahmad 'Uthmani has explained the words wa huwa mulim thus: `The accusation against him was that he had left the city because of an error of judgement, without awaiting the Divine Command, and even specified the day for the coming of the scourge." Then Maulana Shabbir Ahmad's note on v. 48 of Surah AI-Qalam is: "Do not be perplexed and agitated with regard to the deniers like the Man of the Fish (i.e. the Prophet Jonah)." And about the sentence: wa huwa makzum of the same verse, he writes: "That is, he was full of anger against his people, so he prayed for the tomunt, rather foretold it, in fretful haste." These explanations by the commentators clearly show that there were three offences on account of which the Prophet Jonah was made to suffer Allah's displeasure: (1) That he himself fixed the day of the torment, whereas Allah had not made any declaration in this regard; (2) that he emigrated from the city even before the day came; whereas a Prophet should not leave the place of his mission until Allah commands him to do so; and (3) that he did not return to his people after the tomunt had been averted from them.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :85 حضرت یونس کے اس قصے کے متعلق سورہ یونس اور سورہ انبیا کی تفسیریں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر بعض لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے مفسرین کے اقوال بھی نقل کر دیے جائیں ۔ مشہور مفسر قَتَادہ سورہ یونس ، آیت 98 کی تفسیر میں فرماتے ہیں : کوئی بستی ایسی نہیں گزری ہے جو کفر کر چکی ہو اور عذاب آ جانے کے بعد ایمان لائی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو ۔ اس سے صرف قوم یونس مستثنیٰ ہے ۔ انہوں نے جب اپنے نبی کو تلاش کیا اور نہ پایا ، اور محسوس کیا کہ عذاب قریب آگیا ہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ ڈال دی ( ابن کثیر ، جلد 2 ، ص 433 ) اسی آیت کی تفسیر علامہ آلوسی لکھتے ہیں : اس قوم کا قصہ یہ ہے کہ یونس علیہ السلام موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے ۔ حضرت یونس نے ان کو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی ۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا ۔ حضرت یونس نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آجائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے ۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیاـــــــــ اور انہیں یقین ہو گیا کہ سب ہلاک ہو جائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا ، مگر نہ پایا ۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیا ــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کر لی ( روح المعانی ، جلد 11 ، ص 170 ) سورہ انبیا کی آیت 87 کی تشریح کرتے ہوئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں : حضرت یونس کا اپنی قوم سے ناراض ہو کر نکل جانا ہجرت کا فعل تھا ، مگر انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا ( روح المعانی ، ج 17 ، ص 77 ) پھر وہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا کے فقرہ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں : یعنی میں قصور وار تھا کہ انبیاء کے طریقہ کے خلاف ، حکم آنے سے پہلے ، ہجرت کرنے میں جلدی کر بیٹھا ۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور توبہ کا اظہار تھا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس مصیبت کو دور فرما دے ( روح المعانی ، ج 17 ، ص 78 ) مولانا اشرف علی تھانوی کا حاشیہ اس آیت پر یہ ہے کہ وہ اپنی قوم پر جبکہ وہ ایمان نہ لائی خفا ہوکر چل دیے اور قوم پر سے عذاب ٹل جانے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لیے ہمارے حکم کا انتظار نہ کیا ( بیان القرآن ) اسی آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانی حاشیہ میں فرماتے ہیں : قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصے میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے ، حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ـــــــ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن ، اپنے خطا کا اعتراف کیا کہ بے شک میں نے جلدی کی تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا ۔ سورہ صافات کی آیات بالا کی تشریح میں امام رازی لکھتے ہیں : حضرت یونس کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قوم کو جس نے انہیں جھٹلایا تھا ، ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا ، یہ سمجھے کہ یہ عذاب لا محالہ نازل ہونے والا ہے ، اس لیے انہوں نے صبر نہ کیا اور قوم کو دعوت دینے کا کام چھوڑ کر نکل گئے ، حالانکہ ان پر واجب تھا کہ دعوت کا کام برابر جاری رکھتے ، کیونکہ اس امر کا امکان باقی تھا کہ اللہ ان لوگوں کو ہلاک نہ کرے ( تفسیر کبیر ، ج 7 ، ص 185 ) علامہ آلوسی اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُون پر لکھتے ہیں : ابق کے اصل معنی آقا کے ہاں سے غلام کے فرار ہونے کے ہیں ۔ چونکہ حضرت یونس اپنے رب کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے بھاگ نکلے تھے اس لیے اس لفظ کا اطلاق ان پر درست ہوا ۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں : جب تیسرا دن ہوا تو حضرت یونس اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نکل گئے ۔ اب جو ان کی قوم نے ان کو نہ پایا تو وہ اپنے بڑے اور چھوٹے اور جانوروں ، سب کو لے کر نکلے ، اور نزول عذاب ان سے قریب تھا ، پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کی اور معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا ( روح المعانی ، جلد 23 ، ص ، 13 ) مولانا شبیر احمد صاحب وَھُوَ مُلِیْم کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الزام یہی تھا کہ خطائے اجتہادی سے حکم الٰہی کا انتظار کیے بغیر بستی سے نکل پڑے اور عذاب کے دن کی تعیین کر دی ۔ پھر سورہ القلم کی آیت فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ پر مولانا شبیر احمد صاحب کا حاشیہ یہ ہے یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے والے پیغمبر ( حضرت یونس علیہ السلام ) کی طرح مکذبین کے معاملہ میں تنگ دلی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیجیے ۔ اور اسی آیت کے فقرہ وَھُوَ مَکْظُوْم پر حاشیہ تحریر کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں : یعنی قوم کی طرف سے غصے میں بھرے ہوئے تھے ۔ جھنجھلا کر شتابی عذاب کی دعا ، بلکہ پیشن کر بیٹھے ۔ مفسرین کے ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تین قصور تھے جن کی وجہ سے حضرت یونس پر عتاب ہوا ۔ ایک یہ کہ انہوں نے عذاب کے دن کی خود ہی تعیین کر دی حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ ہوا تھا ۔ دوسرے یہ کہ وہ دن آنے سے پہلے ہجرت کر کے ملک سے نکل گئے ، حالانکہ نبی کو اس وقت تک اپنی جگہ نہ چھوڑنی چاہیے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ آ جائے ۔ تیسرے یہ کہ جب اس قوم پر سے عذاب ٹل گیا تو واپس نہ گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اور سورۂ یونس : 98 میں بھی گذر چکا ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عذاب کے آثار دیکھ کر عذاب آنے سے پہلے ہی ایمان لے آئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا تھا اور وہ ایمان لا کر ایک عرصے تک زندہ رہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:148) فامنوا۔ میں فاء سببیہ ہے ضمیر فاعل جمع مذکر غائب قوم یونس (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ (ہم نے حضرت یونس کو ان کی قوم کی طرف بھیجا) تو وہ لوگ ایمان لے آئے۔ متعنہم۔ متعنا ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے تمتع (تفعیل) مصدر سے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ہم نے ان کو دنیاوی سامان دے کر بہرہ مند کیا۔ الی حین ایک زمانہ تک یا ایک وقت مقررہ تک ای الی اجالہم المسماۃ فی الازل۔ ان کے ازل سے مقررہ وقت تک۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ان سے نینوی شہر کے لوگ ہی مراد ہیں جس سے بھاگ کر حضرت یونس ( علیہ السلام) سمندر کی طرف آئے تھے۔11 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد انہوں نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی تھی اور وہ عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی تھی اور وہ عذاب سے بچ گئے تھے چناچہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کو جب اپنی قوم کے ایمان لانے کی اطلاع ملی تو وہ واپس آگئے۔ ( دیکھئے سورة یونس ( علیہ السلام) آیت 98)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپر قصص سے ان سب انبیاء (علیہم السلام) کا جن کی نبوت عقلا ثابت ہے مومن و موحد و عابد و مخلص اور داعی الی التوحید والایمان ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے قبل شروع سورت میں عقلی دلائل توحید کے مذکور ہوچکے ہیں۔ آگے ان دلائل نقلیہ و عقلیہ پر بطور تفریع کے ابطال شرک و کفر کا فرماتے ہیں، اور وجہ تفریع کی دلیل عقلی پر تو ظاہر ہے، اور دلیل نقلی پر یہ ہے کہ نبوت کے لئے صدق لازم، پس توحید کا حق ہونا ضروری اور بطلان شرک کا اس کے لوازم میں سے ہونا ظاہر۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فامنوا فمتعنھم الی حین (37: 148) ” وہ ایمان لے آئے اور ہم نے ایک مقررہ وقت تک ان کو متاع حیات دیا “۔ ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ تھی۔ اور یہ سب کے سب ایمان لے آئے تھے۔ یہ قصہ یہاں یہ بتاتا ہے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے جو ایمان لاتے ہیں جبکہ سابقہ قصص کا مدعا یہ بتانا تھا کہ جو ایمان نہیں لاتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا اے قوم محمد ، تم ان دو انجاموں میں سے اپنے لیے جو انجام چاہتے ہو ، اختیار کرلو۔ یہاں آکر اس سورت کا یہ سبق ختم ہوتا ہے اور اس پر وہ تاریخی جائزہ بھی ختم ہوتا ہے جو نوح (علیہ السلام) کے بعد تمام ڈرانے والوں کی اقوام کے انجام کے بارے میں تھا ، خواہ وہ مومنین تھے یا مکذبین تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(148) پھر اس واقعہ کے بعد وہ سب لوگ ایمان لائے یعنی تفصیل ایمان اور ہم نے ان کو ایک خاص وقت تک سود مند کیا اور ایک مدت تک بہرہ مند کیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہی قوم جن سے بھاگے تھے ان پر ایمان لارہے تھے ڈھونڈتے تھے یہ جا پہنچے ان کو بڑی خوشی ہوئی۔ خلاصہ : یہ کہ نینوا کے لوگ آ کرلے گئے یا یہ خود تشریف لے گئے دونوں لڑکے اور بیوی صحیح سلامت ان کو مل گئے بڑے لڑکے اور بیوی کو قریب کے گائوں والوں نے نکال لیا اور چھوٹے بچہ کو بھیڑیے کے منہ سے چھڑا لیا۔ وقت مقرر سے ان لوگوں کی مدت عمر مراد ہے کہ اسلام لانے کے بعد حضرت یونس کے ہمراہ مدت العمر آرام اور عیش میں رہے چندانبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کرنے اور یہ نبوت کی بحث کرنے کے بعد اب شرک کا بطلان اور شرک کی برائی مذکور ہے۔