Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 164

سورة الصافات

وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۱۶۴﴾ۙ

[The angels say], "There is not among us any except that he has a known position.

۔ ( فرشتوں کا قول ہے کہ ) ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And there is not one of us (angels) but has his known place; meaning, each one has his own place in the heavens and in the places of worship, which he does not overstep. Ad-Dahhak said in his Tafsir: وَمَا مِنَّا إِلاَّ لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ "And there is not one of us (angels) but has his known place;" Masruq used to narrate that A'ishah, may Allah be pleased with her, said, "The Messenger of Allah said: مَا مِنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا مَوْضِعٌ إِلاَّ عَلَيْهِ مَلَكٌ سَاجِدٌ أَوْ قَايِم There is no place in the lower heaven without an angel standing or prostrating in it. This is what Allah says: وَمَا مِنَّا إِلاَّ لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ And there is not one of us (angels) but has his known place (or position)." It was reported that Ibn Mas`ud said, "In the heavens there is one heaven in which there is no space a hand span wide but there is the forehead or the foot of an angel on it. " Then he recited: وَمَا مِنَّا إِلاَّ لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ (And there is not one of us (angels) but has his known place;) Sa`id bin Jubayr similarly said: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

164۔ 1 یعنی اللہ کی عبادت کے لئے۔ یہ فرشتوں کا قول ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبانی ان کا اعتراف ذکر فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں بلکہ اس کے کامل اطاعت گزار بندے اور ہر وقت اس کی عبادت اور تسبیح کرنے والے ہیں۔ یعنی تمہارے اس شرکیہ عقیدے کے مقابلے میں فرشتوں کا اپنا بیان یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرشتے کا ایک مقرر درجہ اور مقام ہے، جس سے آگے ہم نہیں بڑھ سکتے۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنِّي أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ ، أَطَّتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَہَا أَنْ تَءِطَّ مَا فِیْہَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلاَّ وَمَلَکٌ وَاضِعٌ جَبْہَتَہُ سَاجِدًا لِلّٰہِ ، وَاللّٰہِ ! لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا ) [ ترمذي، الزھد، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لو تعلمون ما أعلم۔۔ : ٢٣١٢، و صححہ الألباني، أنظر تراجعات الألباني، ح : ٣٣ ] ” میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چر چرا رہا ہے اور اس کا حق ہے کہ چر چرائے۔ اس میں چار انگلیوں کے برابر جگہ نہیں مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اس میں اپنی پیشانی اللہ کے لیے سجدے میں رکھے ہوئے ہے۔ قسم ہے اللہ کی ! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ۝ ١٦٤ۙ مَقامُ والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر : 380- واستبّ بعدک يا كليب المجلس «2» فسمّى المستبّين المجلس . المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٤۔ ١٦٦) آگے جبریل امین کا قول روایت کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کا آسمان میں ایک درجہ مقرر ہے اور ہم نماز میں صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہم اللہ کی پاکی بیان کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٤{ وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ} ” اور ہم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے لیے ایک مقام مقرر ہے۔ “ اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح بادشاہوں کے درباروں میں تمام مقربین و مصاحبین میں سے ہر ایک کا کوئی خاص عہدہ ‘ مقام اور مرتبہ مقرر ہوتا تھا۔ ان میں کوئی پنج ہزاری ہوتا تھا تو کوئی دس ہزاری اور کوئی تیس ہزاری۔ اسی طرح اللہ کے حضور فرشتوں کے بھی الگ الگ مراتب ہیں ‘ جیسے ملائکہ مقربین ‘ ملااعلیٰ ‘ ملائکہ دنیا ‘ ملائکہ اسفل وغیرہ۔ یہاں فرشتوں کا قول نقل ہوا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین ّمقام ہے ‘ اور ہم میں سے جس کا جو درجہ اور مرتبہ مقرر ہے ہم اس سے ذرہ برابر بھی تجاوز کرنے کی مجال نہیں رکھتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91 That is, "Not to speak of being Allah's children, we do not have the power to exceed in any way or degree the place and position and status appointed for each of us by Allah. "

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :91 یعنی اللہ کی اولاد ہونا تو درکنار ، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے جس کاجو درجہ اور مرتبہ مقرر ہے اس سے ذرہ برابر تجاوز تک کرنے کی مجال ہم نہیں رکھتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦٤۔ ١٦٦ تفسیر قرطبی اور تفسیر مقاتل ٢ ؎ میں چند روایتوں سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ معراج کی رات جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام سدرۃ المنتہیٰ تک جبرئیل کے ساتھ پہنچے تو اس مقام پر پہنچ کر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آگے جانے سے رکے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے کہا کہ ایسے مقام پر مجھ کو تنہا چھوڑتے ہو حضرت جبرئیل نے ان تینوں آیتوں کے مضمون کے موافق جواب دیا۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے قائل کرنے کو ان تین آیتوں میں نازل فرمایا کہ یہ ظالم مشرک فرشتوں کو اللہ کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور ان مورتوں کی پوجا کر کے مورتوں والے فرشتوں کو اپنا سفارشی قرار دیتے ہیں۔ ان کو یہ نہیں معلوم کہ اللہ کی جناب میں تمام فرشتوں کا تو کیا ذکر ہے مقرب فرشتوں کا یہ حال ہے۔ کہ جو جگہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے حد ٹھہرا دی ہے اس سے حد سے ایک قدم آگے وہ جنبش نہیں کرسکتے اس تفسیر قرطبی کا نام جامع احکام القرآن ہے اور قرطبی کا نام محمد بن احمد ہے۔ یہ بڑی تفسیر ہے اور علما نے اس تفسیر کو مختصر بھی کیا ہے اس شان نزول کی تائید اور صحیح حدیثوں سے بھی ہوتی ہے جن حدیثوں کا حاصل یہ ہے۔ کہ آسمان پر ملائکہ کے لئے خاص خاص جگہ اور خاص خاص تعداد مقرر ہے۔ چناچہ معتبر سند سے ترمذی ٢ ؎ اور ابن ماجہ میں حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسمان پر کہیں چار انگل کی جگہ ایسی نہیں ہے۔ جہاں کوئی فرشتہ سجدہ میں نہ پڑا ہو صحیح مسلم ٣ ؎ اور نسائی اور ابن ماجہ میں ابوذر (رض) اور جابر (رض) بن سمرہ سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کہا کہ جس طرح فرشتے اللہ تعالیٰ کے رو برو برابر صفیں باندھتے ہیں۔ تم بھی نماز میں اسی طرح برابر صفیں باندھا کرو اور صحیح روایتوں میں رکوع کی حالت کا بھی ذکر آیا ہے۔ سورة الانبیا میں گزر چکا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے برخلاف کوئی کام نہیں کرتے۔ توراۃ انبیاء کا یہ مضمون گویا ان آیتوں کی اور اوپر کی آیتوں کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ مشرکوں کی نجات کو جب اللہ تعالیٰ نے سورة الاعراف میں اس طرح ناممکن فرما دیا ہے جس طرح سوئی کے ناکے میں اونٹ کا گھس جانا ناممکن ہے۔ تو پھر اللہ کے فرشتے حکم الٰہی کے برخلاف ان مشرکوں کی نہ سفارش کرسکتے ہیں نہ اپنی حد سے بڑھ کر ان مشرکوں کی اور کوئی مدد کرسکتے ہیں۔ (٢ ؎ تفسیرہذا ص ١۔ ) (٣ ؎ مسلم شریف مع نودی باب النھی عن رفع البصرالی السماء فی الصلوۃ ص ١٨١ ج ١)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:164) وما منا الا لہ مقام معلوم۔ سابقہ مضمون سے آیات 164165، 166 کا ربط یہ ہے کہ اوپر ذکر ہو رہا ہے تھا۔ کفار مکہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ حالانکہ وہ فرشتے ازخود کہتے ہیں وما منا الخ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں :۔ فھو من کلامہ تعالیٰ لکنہ حکی بلفظہم واصلہ وما منھم الالہ ۔۔ الخ اصل میں کلام اللہ تعالیٰ کا ہی ہے لیکن ان کی (فرشتوں کی) زیادتی بیان کیا گیا ہے اصل میں یہ اس طرح تھا ۔ وما منھم الا ۔۔ اور ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر ۔۔ الخ۔ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے لئے ایک متعین مقام ہے (164 اور ہم (سب) صت بستہ کھڑے رہتے ہیں (165) تو جب ان کا یہ حال ہے تو وہ خدا کے بیٹے یا بیٹیاں کیسے ہوئے ؟ اور ہم سب (اللہ کی) تسبیح و تحمید میں لگے رہتے ہیں (166) ۔ مراد یہ ہے کہ فرشتے تو عبد محض اور محکوم خالص ہیں اپنی رائے سے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ تو پھر وہ اللہ کی اولاد کیسی اور ان میں الوہیت اور معبودیت کی شان کیسی ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6” جس سے ہم ذرہ برابر تجاوز نہیں کرسکتے، کجا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کا دعویٰ کریں “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی ان میں جو ملائکہ ہیں ان کا یہ مقولہ ہے کہ ہم تو بندہ محض ہیں، چناچہ جو خدمت ہم کو سپرد ہے اسی کی بجا آوری میں لگے رہتے ہیں، اپنی رائے سے کچھ نہیں کرسکتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نیک جنّات اور مواحد بندوں کا عقیدہ بیان کرنے کے بعدملائ کہ کا عقیدہ اور ان کا اعتراف ذکر کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے نیک جنّات اور مخلص بندوں کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کی رشتہ داری ہے۔ جنّات، انسان اور ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ وہ سب کا واحد خالق، مالک اور رازق ہے یہی عقیدہ تمام ملائکہ کا ہے۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ ہماری کیا مجال ہے کہ جہاں ہماری ڈیوٹی لگائی گئی ہے اس سے ایک انچ آگے پیچھے ہوسکیں اور جو ہمیں حکم دیا جاتا ہے اس میں بال برابر سستی کریں۔ ہم تو اپنی اپنی جگہ پر کھڑے اپنے خالق کے حکم کے منتظر رہتے اور ہر وقت اپنے رب کے حضور صف بستہ حاضر رہتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن بھی ملائکہ کی یہی حالت گی۔ (الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ) [ المومن : ٧] ” عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور جو عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں، وہ ” اللہ “ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمانداروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی اتباع کی انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ “ (یَوْمَ یَقُوم الرُّوحُ وَالْمَلَاءِکَۃُ صَفًّا لَا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا) [ النبا : ٣٨] ” جس دن جبرائیل امین اور دوسرے فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے اس دن صرف وہی بول سکے گا جس کو الرّحمن نے اجازت دی ہوگی۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے۔ جیسے ہموار پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ملائکہ کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ اوپر والے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا ذکر کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں اس اللہ کا یہ ارشاد ہے جو بلند وبالا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ملائکہ ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ ملائکہ اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے ساتھ ہر دم اپنے رب کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ٣۔ ملائکہ ہر وقت اپنے رب کے حضور صف بستہ رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ اور جنات بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند اور اس کی بندگی میں لگے ہوئے ہیں : ١۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٢۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) ٣۔ قیامت کے دن تمام فرشتے اور جبرائیل (علیہ السلام) اپنے رب کے روبرو قطار میں کھڑے ہوں گے۔ (النباء : ٣٨) ٤۔ قیامت کے دن فرشتے صف بنا کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (الفجر : ٢٢) ٥۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٦۔ اے انسانوں اور جنوں اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرّحمن : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ وما منا الخ : یہاں سے لنحن المسبحون تک فرشتوں کے حال کا دوسری بار اعادہ ہے۔ فرشتے خود اپنی عبودیت کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا اللہ کی بارگاہ میں ایک معین مقام ہے جس سے وہ ذرا آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ ہم سب اللہ کے سامنے صف بستہ کھڑے رہتے ہیں اس کی عبادت میں مصروف یا اس کے احکام کے منتظر اور ہم اللہ کی تنزیہ و تقدیس کرتے اور مشرکین کے شرک سے اللہ تعالیٰ کی برتری اور اس کی تنزیہہ کا اعلان کرتے ہیں۔ فرشتے خود اعلان کر رہے ہیں کہ وہ نہ معبود ہیں، نہ خدا کی بیٹیاں اور نہ اس کی بارگاہ میں شفیع غالب والمراد انہم یخبرون انہم یعبدون اللہ بالتسبیح والصلوۃ ولیسو معبودین ولا بنات اللہ (قرطبی ج 15 ص 138) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(164) اور فرشتوں کا قول ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک درجہ اور ٹھکانا معین ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہاں سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبان سے فرمایا جیسے دعائیں فرمائیں آدمیوں کی زبان سے ٹھکانا مقرر یعنی اپنی حد سے اسے آگے بڑھنا نہیں یہ اس پر فرمایا کہ کافر کہتے تھے فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جنہوں کی عورتوں سے پیدا ہوتیاں سوجنوں کو اپنا حال معلوم ہے اور فرشتے یوں کہتے ہیں۔ خلاصہ : یہ کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک درجہ معین ہے اس کی بجاآوری میں لگے رہتے ہیں اور اپنی رائے سے کچھ نہیں کرسکتے۔