Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 36

سورة الصافات

وَ یَقُوۡلُوۡنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡنُوۡنٍ ﴿ؕ۳۶﴾

And were saying, "Are we to leave our gods for a mad poet?"

اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Truly, when it was said to them: "La ilaha illallah," they puffed themselves up with pride. And (they) said: "Are we going to abandon our gods for the sake of a mad poet!" meaning, `Shall we stop worshipping our gods and the gods of our forefathers just because of the words of this mad poet' -- meaning the Messenger of Allah. Allah said in refutation of their attitude:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یعنی انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر اور مجنون کہا اور آپ کی دعوت کو جنون (دیوانگی) اور قرآن کو شعر سے تعبیر کیا اور کہا کہ ایک دیوانے کی دیوانگی پر ہم اپنے معبودوں کو کیوں چھوڑیں ؟ حالانکہ یہ دیوانگی نہیں، دانائی تھی، شاعری نہیں، حقیقت تھی اور اس دعوت کو اپنانے میں ان کی ... ہلاکت نہیں، نجات تھی۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] شاعر اور نبی کا فرق :۔ تمام پیغمبروں کو اور اسی طرح رسول اللہ کو بھی شاعر اور مجنوں کے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ شاعر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فصیح اور منظوم زبان میں اپنے تخیل کی بلندی اور نکتہ آفرینی یوں پیش کرتا ہے کہ اس سے سننے والے پر عارضی اور وقتی طور پر ایک وجدانی سی کیفیت آجاتی ہے۔...  قرآن کریم گو بحر اور اوزان سے مبرا ہے لیکن دل میں اتر جانے کے لحاظ سے اس میں شعر سے بھی زیادہ تاثیر پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ مماثلت کی بنا پر آپ کو شاعر بھی کہا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ شاعر اور نبی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شاعر کے کلام میں جب تک جھوٹ، مبالغہ اور غلو شامل نہ ہو اس میں کچھ دلکشی پیدا نہیں ہوتی۔ جبکہ اللہ کا کلام ایسی تمام بےہودگیوں سے پاک ہوتا ہے۔ شاعر کے تخیل کی پرواز کا میدان زندگی کا ہر اچھا یا برا پہلو ہوتا۔ ماحول کا تاثر اس کی طبیعت پر غالب رہتا ہے اور معاشرہ کی اکثریت چونکہ گمراہ ہوتی ہے لہذا اس کا تخیل بھی انہی راستوں پر پرواز کرتا ہے۔ جبکہ اللہ کے کلام کا بنیادی موضوع صرف ایک ہے اور وہ ہے انسان کو حکیمانہ اور ناصحانہ انداز میں ہدایت کی راہ دکھانا۔ مزید برآں شاعر کے قول اور فعل میں نمایاں تضاد ہوتا ہے جبکہ ایک پیغمبر جو کچھ کہتا ہے سب سے پہلے اس پر خود عمل کرکے دکھاتا ہے۔ پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے۔ خ مجنون اور نبی کا فرق :۔ پیغمبروں کو کفار اور بالخصوص وہ لوگ جو آخرت اور جزا و سزا کے منکر ہوتے ہیں دیوانہ اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں مرنے کے بعد جی اٹھنا، اللہ کی عدالت میں پیش ہونا اور روز قیامت کے ہولناک مناظر اور جنت و دوزخ سب طلسماتی اور افسانوی قسم کی باتیں ہیں۔ لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حواس ٹھکانے نہیں رہے۔ حالانکہ نبی ہر ایک کا ہمدرد، عہد کا پابند، پاکیزہ سیرت و کردار کا مالک ہوتا ہے۔ جبکہ دیوانوں کا نہ کوئی اخلاق ہوتا ہے نہ سیرت و کردار حتیٰ کہ وہ ساری ہی باتیں بہکی بہکی کرتے ہیں۔ اور لوگ ان کی دیوانہ وار حرکتوں سے خائف رہتے ہیں اور ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کافروں کی ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ ان کے زعم کے مطابق محض ایک وجہ مماثلت کی بنا پر پیغمبروں کو شاعر اور مجنوں کہہ دیتے ہیں جبکہ بیشمار پہلوؤں میں وہ شاعروں اور دیوانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان کے دل ان سب باتوں کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ مگر صرف پیغمبروں سے مخالفت کی بنا پر انہیں ایسے ناموزوں القابات سے نوازتے ہیں اور ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ بھلا ہم ایسے شاعروں اور دیوانوں کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـهَتِنَا : یعنی وہ کلمہ توحید کی دعوت کے جواب میں کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو، جن کی عبادت ہم اور ہمارے آباء کرتے چلے آئے ہیں، ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر چھوڑ دیں ؟ اس سے ان کی مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ ان ظالموں نے حق سے انکار ہی ... کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ سارے جہان سے زیادہ علم و عقل والے شخص کو دیوانہ اور شاعر قرار دیا۔ حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کا شعر اور شعراء سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی آپ دیوانے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ان کا جواب دیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۝ ٣٦ۭ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِن... ْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ شعر ( شاعر) الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر، وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور/ 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . ( ش ع ر ) الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور/ 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے جُنون : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] جنون ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦۔ ٣٩) اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کی عبادت کو ایک شاعر دیوانہ یعنی رسول اکرم کی وجہ سے چھوڑ دیں بلکہ آپ تو قرآن کریم اور توحید کا حکم لے کر آئے ہیں اور پہلے پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں۔ اے مکہ والو تم سب کو دوزخ کا دردناک عذاب چکھنا پڑے گا اور تمہیں آخرت میں اسی چیز کا بدلہ ملے گا جو ... تم دنیا میں کفر و شرک کرتے تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦{ وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْٓا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ } ” اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک مجنون شاعر کی خاطر چھوڑ دیں ! “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں یہ لوگ ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم ان کے کہنے پر اپنے ان معبو... دوں کو چھوڑ دیں جن کی ہم کئی نسلوں سے پرستش کرتے آئے ہیں !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:36) ویقولون وائو عاطفہ ہے یقولون ای کانوا یقولون اور کہا کرتے تھے ۔ ائنا میں الف استفہامیہ ہے۔ لتارکوا الہتنا۔ لام تاکید کا ہے الھتنا مضاف مضاف الیہ ہمارے معبود ۔ ہمارے خدا۔ تارکوا اصل میں تارکون تھا۔ الھتنا کی طرف اضافت کی وجہ سے ن گرگیا۔ لشاعر مجنون۔ لام جارہ ہے شاعر مجنون موصوف وصفت ۔ دیوان... ہ شاعر۔ شاعر کو جنون کی صفت سے متصف کرنا تخلیط وہذیان محض ہے کیونکہ ایک اچھا شاعر ایک مکمل صاحب عقل کا مقتضی ہوتا ہے جو دقیق وعمیق مطالب کو شستہ اور موزوں الفاظ کے قالب میں منظم طریقہ سے ڈھال سکے : بعض نے مجنون کو معطوف لیا ہے ای لشاعر ومجنون اور ترجمہ کیا ہے : کیا ہم چھوڑ دیں گے اپنے خدائوں کو ایک شاعر اور دیوانے کے کہنے سے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس میں توحید اور رسالت دونوں کا انکار ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) اورکہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی وجہ سے چھوڑ دینے والے ہیں۔ یعنی چونکہ کفر میں اشتراک تھا تابع اور متبوع کا لہٰذا عذاب میں بھی دونوں شریک ہوں گے نافرمانوں اور مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں ان کی سرکشی کا یہ حال تھا ان کو لا الہ الا اللہ کی دعوت دی جاتی تھی تو یہ...  اس کے مقابلے میں تکبر کرتے تھے اور تکبر سے اس دعوت کو ٹھکرا دیا کرتے تھے اور توہین آمیز لہجے میں کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعر اور مجنوں کے کہنے سے چھوڑ دیں گے اور ان کی پوجا اور بندگی سے انکار کردیں گے۔ آگے جواب مذکور ہے۔  Show more