Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 42
سورة الصافات
فَوَاکِہُ ۚ وَ ہُمۡ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾
Fruits; and they will be honored
۔ ( ہر طرح ) کے میوے ، اور باعزت و اکرام ہونگے ۔
فَوَاکِہُ ۚ وَ ہُمۡ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾
Fruits; and they will be honored
۔ ( ہر طرح ) کے میوے ، اور باعزت و اکرام ہونگے ۔
فَوَاكِهُ ... Fruits, meaning, of different kinds. ... وَهُم مُّكْرَمُونَ and they shall be honored, means, they will be served and will live a life of luxury. فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
[٢٢] فواکہ کیسے پھل ہیں ؟ یہاں فواکہ کا لفظ آیا ہے اور فواکہ ایسے پھلوں کو کہتے ہیں جن سے لذت و سرور حاصل ہو۔ (مقاییس اللغۃ) اور اس لفظ کا اطلاق عموماً خشک پھلوں پر ہوتا ہے۔ اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت کو جو رزق دیا جائے گا وہ بطور غذا نہیں بلکہ لذت کے حصول کے لئے دیا جائے گا۔
” فَوَاكِهُ “ ” فَاکِھَۃٌ“ کی جمع ہے، پھل جس سے لذت حاصل ہو۔ یعنی ان کے کھانے کی تمام چیزیں، حتیٰ کہ گوشت وغیرہ بھی، لذت کے لیے ہوں گی، نہ کہ پیٹ بھرنے کے لیے، کیونکہ جنت میں بھوک پیاس کے ستانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١١٨، ١١٩) ۔ وَهُمْ مُّكْـرَمُوْنَ : ”ۙفَوَاكِهُ “ جسمانی لذتیں ہیں جو روحانی لذتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتیں، اس لیے فرمایا کہ وہ اس میں عزت بخشے گئے ہیں۔ ” مُّكْـرَمُوْنَ “ اسم مفعول اس لیے استعمال فرمایا کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے، فرشتوں کی طرف سے اور جنت کے دوسرے تمام ساتھیوں اور خدمت گاروں غرض ہر طرف سے عزت ملے گی۔
2. By saying: فَوَاكِهُ (fawakih: fruits - 42) immediately after, the Qur&an has itself explained &rizq& (provision) - that it will comprise fruits. The word: فَواکِہِ explained (fawakih) is the plural form of: فَاکِہا fakihah) and it denotes everything eaten for the taste and not to remove hunger. It is conveniently translated as fruit since it is eaten for the taste. Otherwise, the sense of fakihah is much wider than that of fruit. Imam Razi has culled the subtle point from this very word that the cuisine offered in Jannah will be for the taste of it, and not for removing hunger. The reason is that in Jannah there is nothing one would really need. Once there, one would need no food or energy-giving intake in order to sustain life or preserve health. Yes, there will be wish. The fulfillment of wish will bring the pleasure of satiation - and that would be the objective of all blessings of Paradise. (Tafsir Kabir, page 98. v.7) 3. Then, by saying: وَهُم مُّكْرَمُونَ (wa hum mukramun: and they will be honored), it was given to understand that this provision will be presented to the people of Jannah with full protocol of hospitality and honor, for an absence of it would render even the most delicious offering remain without relish. From here, we also learn that the right of a guest is not fulfilled simply by feeding him or her. In fact, the warmth of hospitality and the according of honor to a guest is also included under his or her rights.
(٢) فواکہ، اس لفظ کے ذریعہ قرآن نے جنت کے رزق کی خود تفسیر فرما دی ہے کہ وہ رزق میووں پر مشتمل ہوگا۔ فواکہ، فاکہة کی جمع ہے، اور عربی میں فاکہة ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بھوک کی ضرورت رفع کرنے کے لئے نہیں، بلکہ لذت حاصل کرنے کے لئے کھائی جائے اردو میں اس کا ترجمہ ” میوہ “ اس لئے کردیا جاتا ہے کہ میوہ بھی لذت حاصل کرنے کے لئے کھایا جاتا ہے، ورنہ درحقیقت ” فاکہتہ “ کا مفہوم میوے کے مفہوم سے زیادہ عام ہے امام رازی نے اسی ” فواکہ “ کے لفظ سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ جنت میں جتنی غذائیں دی جائیں گی وہ سب لذت بخشنے کے لئے دی جائیں گی، بھوک کی حاجت رفع کرنے کے لئے نہیں۔ اس لئے کہ جنت میں انسان کی حاجت کسی چیز کی نہیں ہوگی، وہاں اسے اپنی زندگی برقرار رکھنے یا حفظان صحت کے لئے بھی کسی غذا کی ضرورت نہیں ہوگی، ہاں خواہش ہوگی، اس خواہش کے پورے ہونے سے لذت حاصل ہوگی، اور جنت کی تمام نعمتوں کا مقصد لذت عطا کرنا ہوگا۔ (تفسیر کبیر، ص ٨٩ ج ٧) (٣) (آیت) وھم مکرمون، کہہ کر بتادیا گیا ہے کہ اہل جنت کو یہ رزق پورے اعزازو اکرام کے ساتھ دیا جائے گا۔ کیونکہ اعزازو اکرام نہ ہو تو لذیذ سے لذیذ غذا بھی بےحلاوت ہوجاتی ہے، اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کا حق صرف کھانا کھلانے سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اعزازو اکرام بھی اس کے حقوق میں داخل ہے۔
فَوَاكِہُ ٠ ۚ وَہُمْ مُّكْـرَمُوْنَ ٤٢ۙ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
آیت ٤٢{ فَوَاکِہُج وَہُمْ مُّکْرَمُوْنَ } ” (یعنی) میوے ‘ اور ان کا اکرام کیا جائے گا۔ “
23 In this there is a subtle allusion to this also that in Paradise food will be provided not to serve as food but for pleasure and delight. That is, the food there will not be meant to replenish the bodily deficiencies through diet, for no deficiency whatever will occur in the body in that eternal life, nor will man have appetite, for appetite is caused by the process of assimilation in the body, nor will the body demand food for its survival. That is why the word fawakih has been used for the different kinds of food in Paradise, which contains the sense of taste and pleasure more than that of nutrition.
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :23 اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جنت میں کھانا غذا کے طور پر نہیں بلکہ لذت کے لیے ہو گا ۔ یعنی وہاں کھانا اس غرض کے لیے نہ ہو گا کہ جسم کے تحلیل شدہ اجزاء کی جگہ دوسرے اجزاء غذا کے ذریعہ فراہم کیے جائیں ، کیونکہ اس ابدی زندگی میں سرے سے اجزائے جسم تحلیل ہی نہ ہوں گے ، نہ آدمی کو بھوک لگے گی جو اس دنیا میں تحلیل کے عمل کی وجہ سے لگتی ہے ، اور نہ جسم اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے غذا مانگے گا ۔ اسی بنا پر جنت کے ان کھانوں کے لیے فواکہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مفہوم میں تغذیہ کے بجائے تلذُّذ کا پہلو نمایاں ہے ۔
(37:42) فواکہ۔ پھل، میوے۔ فاکھۃ واحد۔ یہ رزق کا بدل ہے۔ لفظ فواکہ کے استعمال کے متعلق صاحب تفہیم القرآن لکھتے ہیں :۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جنت میں کھانا غذا کے طور پر نہیں بلکہ لذت کے لئے ہوگا۔ یعنی وہاں کھانا اس غرض کے لئے نہیں ہوگا کہ جسم کے تحلیل شدہ اجزا کی جگہ دوسرے اجزا غذا کے ذریعے فراہم کئے جائیں کیونکہ اس ابدی زندگی میں سرے سے اجزائے جسم تحلیل ہی نہ ہوں گے ! نہ آدمی کو بھوک لگے گی جو اس دنیا میں تحلیل کے عمل کی وجہ سے لگتی ہے اور نہ جسم اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے غذا مانگے گا۔ اسی بنا پر جنت کے ان کھانوں کے لئے ” فواکہ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مفہوم میں تغدیہ کے بجائے تلذذ کا پہلو نمایاں ہے :۔ مکرمون۔ اسم فاعل ۔ جمع مذکر۔ مرفوع اکرام (افعال) مصدر سے معزز۔ ان کی عزت کی جائے گی ! ان کی تعظیم و تکریم کی جائے گی۔ اس عزت و تکریم کی یہ صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین ثواب اور ان گنت نعمتون کی شکل میں۔ (2) رزق (جس کا ذکر اوپر ہوچکا ) کا بغیر کسی کسب وکد وبغیر کسی تگ ودو، اور بغیر کسی سوال کے حاصل ہوجانے کی صورت میں۔ (3) روحانی نعمتوں کی عطائیگی سے۔ لعل ھذا اشارۃ الی النعم الروحانی بعد النعیم الجسمانی۔