Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 62

سورة الصافات

اَذٰلِکَ خَیۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَۃُ الزَّقُّوۡمِ ﴿۶۲﴾

Is Paradise a better accommodation or the tree of zaqqum?

کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ ( زقوم ) کا درخت؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Tree of Zaqqum and its Companions Allah says: أَذَلِكَ خَيْرٌ نُّزُلاً ... Is that (Paradise) better entertainment or the tree of Zaqqum! Here Allah asks: `Is that which He has mentioned of the delights of Paradise with its food, drink, companions and other joys better entertainment, ... أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ or the tree of Zaqqum. which is in Hell.' The meaning here is a specific kind of tree which is called Zaqqum. This is like the Ayah: وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَأءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلَكِلِيِنَ And a tree that springs forth from Mount Sinai, that grows (produces) oil, and (it is a) relish for the eaters. (23:20) -- which is the olive tree. This is supported by the Ayah: ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّألُّونَ الْمُكَذِّبُونَ لااّكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ Then moreover, verily, -- you the erring-ones, the deniers! You, verily, will eat of the trees of Zaqqum. (56:51-52) إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِّلظَّالِمِينَ

زقوم اور طوبی ۔ جنت کی نعمتوں کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ اب لوگ خود فیصلہ کرلیں کہ وہ جگہ اور وہ نعمتیں بہتر ہیں؟ یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کا کھانا ہے ۔ ممکن ہے اس سے مراد خاص ایک ہی درخت ہو اور وہ تمام جہنم میں پھیلا ہوا ہو ، جیسے طوبیٰ کا ایک درخت ہے جو جنت کے ایک ایک محل میں پہنچا ہوا ہے ۔ اور ممکن ہے کہ مراد زقوم کے درخت کی جنس ہو اس کی تائید آیت ( لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ 52۝ۙ ) 56- الواقعة:52 ) ، سے بھی ہوتی ہے ۔ ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے ۔ حضرت فتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شجرہ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ ہوگیا وہ کہنے لگے لو اور سنو آگ میں اور درخت؟ آگ تو درخت جلا دینے والی ہے ۔ یہ نبی کہتے ہیں جہنم میں درخت اگے گا ۔ تو اللہ نے فرمایا ہاں یہ درخت آگ ہی سے پیدا ہوگا اور اس کی غذا بھی آگ ہی ہو گی ۔ ابو جہل ملعون اسی پر ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور مکھن کھاؤں گا اسی کا نام زقوم ہے ۔ الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو اس سے ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60۝ۧ ) 17- الإسراء:60 ) ، جو منظر ہم نے تجھے دکھایا تھا وہ صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے اور اسی طرح اس نامبارک درخت کا ذکر بھی ۔ ہم تو انہیں دھمکا رہے ہیں مگر یہ نافرمانی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ اس درخت کی اصل جڑ جہنم میں ہے ۔ اس کے خوشے اور شاخیں بھیانک ڈراؤنی لمبی چوڑی دور دور شیطانوں کے سروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں ۔ گوشیطان کو بھی کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کا نام سنتے ہی اس کی بد صورتی اور خباثت کا منظر سامنے آجاتا ہے ، یہی حال اس درخت کا ہے کہ دیکھنے اور چکھنے میں ظاہر اور باطن میں بری چیز ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانپوں کی ایک قسم ہے جو بدترین بھیانک اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نبات کی ایک قسم ہے جو بہت بری طرح پھیل جاتی ہے ۔ لیکن یہ دونوں احتمال درست نہیں ٹھیک بات وہی ہے جسے ہم نے پہلے ذکر کیا ۔ اسی بد منظر بد بو بد ذائقہ بد مزہ بد خصال تھور کو انہیں جبراً کھانا پڑے گا ۔ اور ٹھونس ٹھونس کر انہیں کھلایا جائے گا کہ یہ بجائے خود ایک زبردست عذاب ہے ۔ اور آیت میں ہے ( لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ Č۝ۙ ) 88- الغاشية:6 ) ، ان کی خوراک وہاں صرف کانٹوں دار تھور ہوگا جو نہ انہیں فربہ کرسکے نہ بھوک مٹاسکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آیت ( اتقوا اللہ حق تقاتہ ) کی تلاوت کرکے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں پڑ جائے توروئے زمین کے تمام لوگوں کی خوراکیں خراب ہوجائیں ۔ اس کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی یہی ہو گا ( ترمذی وغیرہ ) پھر اس زقوم کے کھانے کے ساتھ ہی انہیں اوپر سے جہنم کا کھولتا گرم پانی پلایا جائے گا ۔ یا یہ مطلب کہ اس جہنمی درخت کو جہنمی پانی کے ساتھ ملا کر انہیں کھلایا پلایا جائے گا ۔ اور یہ گرم پانی وہ ہوگا جو جہنمیوں کے زخموں سے لہو پیپ وغیرہ کی شکل میں نکلا ہو گا اور جو ان کی آنکھوں سے اور پوشیدہ راستوں سے نکلا ہوا ہوگا ۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ پانی ان کے سامنے لایا جائے گا ۔ انہیں سخت ایذاء ہوگی بڑی کراہیت آئے گی پھر جب وہ ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس کی بھاپ سے اس کے چہرے کی کھال جھلس کر جھڑ جائے گی اور جب اس کا گھونٹ پیٹ میں جائے گا تو ان کی آنتیں کٹ کر پاخانے کے راستے سے باہر آجائیں گی ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید بن جیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب جہنمی بھوک کی شکایت کریں گے تو زقوم کھلایا جائے گا جس سے ان کے چہر کی کھالیں بالکل الگ ہو کر پڑیں گی ۔ اس طرح انہیں پہچاننے والا اس میں ان کے منہ کی پوری کھال دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ فلاں ہے ۔ پھر پیاس کی شدت سے بیتاب ہو کر وہ ہائے وائے پکاریں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا گرم پانی دیا جائے گا جو چہرے کے سامنے آتے ہی چہرے کے گوشت کو جھلس دے گا اور تمام گوشت گر پڑے گا اور پیٹ میں جاکر آنتوں کو کاٹ دے گا ۔ اوپر سے لوہے کے ہتھوڑے مارے جائیں گے اور ایک ایک عضو بدن الگ الگ جھڑ جائے گا ، بری طرح چیختے پیٹتے ہوں گے ۔ فیصلہ ہوتے ہی ان کا ٹھکانا جہنم ہو جائے گا جہاں طرح طرح کے عذاب ہوتے رہیں گے جیسے اور آیت میں ہے ( يَطُوْفُوْنَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍ 44۝ۚ ) 55- الرحمن:44 ) جہنم اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت ( ثم ان مقیلھم لا الی الجحیم ) ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ واللہ آدھے دن سے پہلے ہی پہلے دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے اور وہیں قیلولہ یعنی دوپہر کا آرام کریں گے ، قرآن فرماتا ہے ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا 24؀ ) 25- الفرقان:24 ) جنتی با عتبار جائے قیام کے بہت اچھے ہوں گے اور باعتبار آرام گاہ کے بھی بہت اچھے ہوں گے ۔ الغرض قیلولے کا وقت دونوں کا اپنی اپنی جگہ ہوگا آدھے دن سے پہلے پہلے اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے ۔ اس بنا پر یہاں ثم کا لفظ خبر پر خبر کے عطف کے لیے ہوگا ۔ یہ اس کا بدلہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا ۔ لیکن پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے ۔ مجبوروں اور بیوقوفوں کی طرح ان کے پیچھے ہولئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 زَ قوْم تَزَقْم سے نکلا ہے، جس کے معنی بدبودار اور کر یہ چیز کے نکلنے کے ہیں۔ اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے کے لئے سخت ناگوار ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] ایسی مہمانی سے مراد اہل جنت کی مہمانی ہے۔ جیسا کہ سابقہ آیات میں ان کی لذیذ خوراک، صاف اور پاکیزہ مشروب اور نہایت خوبصورت عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کفار مکہ سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ آیا اہل جنت کی ایسی مہمانی بہتر ہے یا اہل دوزخ کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ [٣٧] اہل جنت کی خوراک لذید پھل تھے اور اہل دوزخ کی خوراک تھوہر کا درخت ہوگا، جس کے پتے چوڑے اور خاردار ہوتے ہیں۔ بوناگوار اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اور اس میں سے جو سفید قسم کا سیال مادہ یا دودھ نکلتا ہے وہ اگر انسان کے جسم پر لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ : ” نُّزُلًا “ کھانے پینے کی چیزیں اور آرام کی جگہ جو مہمان کے آنے کے وقت کے لیے تیار کی جائیں۔ ” الزَّقُّوْمِ “ اسی سے ” تَزَقُّمٌ“ ہے، جس کا معنی کسی ناگوار چیز کو نہایت مشکل سے نگلنا ہے۔ اس درخت کا دنیا میں وجود نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے آگ میں پیدا فرمائے گا۔ صرف لفظی مشابہت کی حد تک ایک زہریلا پودا ہے جو ” زقوم “ کہلاتا ہے، جس کا دودھ جسم کو لگ جائے تو جسم سوج جاتا ہے اور آدمی مرجاتا ہے۔ صحرا کے قریب کی خشک زمینوں میں پایا جاتا ہے۔ (الوسیط) اہل جنت کے لیے ” رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ 41؀ۙفَوَاكِهُ ۚ وَهُمْ مُّكْـرَمُوْنَ 42؀ۙفِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ “ کی مہمانی کے ذکر کے بعد اہل جہنم کی مہمانی کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ بہتری میں دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں، مگر کفار اپنے اعمال کو مسلمانوں کے اعمال سے بہتر سمجھتے تھے، اس لیے ان کا نتیجہ ذکر کر کے فرمایا کہ بتاؤ، دونوں میں سے بہتر کیا ہے ؟ علاوہ ازیں اس میں کفار پر طنز بھی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary After having described the conditions prevailing in Jahannam and Jannah briefly, Allah Ta’ ala has invited every human being to compare and decide as to which of the two conditions is better. It was said: أَذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ نُّزُلًا أَمْ شَجَرَ‌ةُ الزَّقُّومِ that is, &there are these blessings of Jannah mentioned here - are they better? Or, is it the tree of Zaqqum the fruits of which will be fed to the people of Jahannam? The reality of Zaqqum A tree by the name of Zaqqum is found in the territory of Tihamah, a part of the Arabian Peninsula, and ` Allamah ` Alusi has written that it is also found in other barren deserts. Some say that this is the same tree known as تھوھڑ thohar (Euphorbia neriifolia or antiquorum) in Urdu and Hindi. Some others point out to another tree known as nagphan (hood of serpent) found in India as being the zaqqum that appears to be more likely. Now, commentators differ in this matter. What tree is it the fruit from which the people of Jahannam will be given to eat? Is it one of the trees found somewhere in this world, or is it some other tree? Some support the view that it is what is found growing in this world. Some others say that the zaqqum of Jahannam is an entirely different thing. It has nothing to do with the earthly zaqqum. Apparently, the way there are snakes and scorpions in the mortal world, it seems they are there in Jahannam as well. But, it goes without saying, that the snakes and scorpions of the Jahannam will be far ferocious than their counterparts here. Similarly, the zaqqum of Jahannam will, though, be like the zaqqum of this world in terms of its genus, but it will be far too gruesome to look at, and far too unpalatable to eat. And Allah is pure and high who knows best.

خلاصہ تفسیر (عذاب اور ثواب دونوں کا موازنہ کر کے اب اہل ایمان کو ترغیب اور کفار کو ترہیب فرماتے ہیں کہ بتلاؤ) بھلا یہ دعوت (جنت کی نعمتوں کی) بہتر ہے (جو اہل ایمان کے لئے ہے) یا زقوم کا درخت (جو کفار کے لئے ہے) ہم نے اس درخت کو (آخرت کی سزا بنانے کے علاوہ دنیا میں بھی ان) ظالموں کے لئے موجب امتحان بنایا ہے (کہ اس کو سن کر تصدیق کرتے ہیں، یا تکذیب و استہزاء کرتے ہیں، چناچہ کفار تکذیب و استہزاء سے پیش آئے، کہنے لگے کہ زقوم تو مسکہ اور خرما کو کہتے ہیں، وہ تو خوب لذیذ چیز ہے۔ اور کہنے لگے کہ زقوم اگر درخت ہے تو دوزخ میں جو آگ ہی آگ ہے درخت کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ) وہ ایک درخت ہے جو قعر دوزخ میں سے نکلتا ہے (یعنی مسکہ اور خرما نہیں ہے، اور چونکہ وہ خود آگ ہی میں پیدا ہوتا ہے اس لئے وہاں رہنا بعید نہیں، جیسے سمندر نامی جانور آگ میں پیدا ہوتا ہے، اور آگ ہی میں رہتا ہے) اس سے دونوں باتوں کا جواب ہوگیا۔ آگے زقوم کی ایک کیفیت مذکور ہے، کہ) اس کے پھل ایسے (کریہہ المنظر) ہیں جیسے سانپ کے پھن (پس ایسے درخت سے ظالموں کی دعوت ہوگی) تو وہ لوگ (بھوک کی شدت میں جب اور کچھ نہ ملے گا تو) اس سے کھاویں گے اور (چونکہ بھوک سے بےچین ہوں گے) اسی سے پیٹ بھریں گے، پھر (جب پیاس سے بےقرار ہو کر پانی مانگیں گے تو) ان کو کھولتا ہوا پانی (غساق یعنی پیپ میں) ملا کردیا جائے گا اور (یہ نہیں کہ اس مصیبت کا خاتمہ ہوجاوے بلکہ اس کے بعد) پھر اخیر ٹھکانا ان کا دوزخ ہی کی طرف ہوگا (یعنی اس کے بعد بھی وہیں ہمیشہ کے لئے رہنا ہوگا، اور انہیں یہ سزا اس لئے دی گئی کہ) انہوں نے (ہدایت آلٰہیہ کا اتباع نہیں کیا تھا بلکہ) اپنے بڑوں کو گمراہی کی حالت میں پایا تھا، پھر یہ بھی انہی کے قدم بقدم تیزی کے ساتھ چلتے تھے (یعنی شوق اور رغبت سے ان کی بےراہی پر چلتے تھے) اور ان (موجودہ کفار) سے پہلے بھی اگلے لوگوں میں اکثر گمراہ ہوچکے ہیں اور ہم نے ان میں بھی ڈرانے والے (پیغمبر) بھیجے تھے سو دیکھ لیجئے ان لوگوں کو کیسا (برا) انجام ہوا جن کو ڈرایا گیا تھا (اور انہوں نے نہ مانا تھا، کہ ان پر دنیا ہی میں کیا کیا عذاب نازل ہوا) ہاں مگر جو اللہ کے خاص کئے ہوئے (یعنی ایمان والے) بندے تھے (وہ اس دنیوی عذاب سے بھی محفوظ رہے) ۔ معارف ومسائل دوزخ اور جنت دونوں کے تھوڑے تھوڑے حالات بیان فرمانے کے بعد باری تعالیٰ نے ہر انسان کو موازنہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ غور کرو ان میں سے کون سی حالت بہتر ہے ؟ چناچہ فرمایا : اذلک خیر نزلاً ام شجرة الزقوم ؟ جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا وہ بہتر ہیں یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کو کھلایا جائے گا ؟ زقوم کی حقیقت : زقوم نام کا ایک درخت جزیرہ عرب کے علاقہ تہامہ میں پایا جاتا ہے، اور علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ یہ دوسرے بنجر صحراؤں میں بھی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے یہ وہی درخت ہے جسے اردو میں ” تھوہڑ “ کہتے ہیں، اسی کے قریب قریب کا ایک اور درخت ہندوستان میں ” ناگ پھن “ کے نام سے معروف ہے۔ بعض حضرات نے اس کو زقوم قرار دیا ہے اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ اب حضرات مفسرین کی رائیں اس میں مختلف ہیں کہ جہنمیوں کو جو درخت کھلایا جائے گا وہ یہی دنیا کا زقوم ہے، یا کوئی اور درخت ہے ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہی دنیا کا زقوم مراد ہے، اور بعض نے کہا کہ دوزخ کا زقوم بالکل الگ چیز ہے، دنیا کے زقوم سے اس کا کوئی تعلق نہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سانپ بچھو وغیرہ دنیا میں بھی ہوتے ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی ہوتے ہیں، لیکن دوزخ کے سانپ بچھو یہاں کے سانپ بچھوؤں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے، اسی طرح دوزخ کا زقوم بھی اپنی جنس کے لحاظ سے تو دنیا ہی کے زقوم کی طرح ہوگا، لیکن یہاں کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور کھانے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ۝ ٦٢ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ نزل ( ضيافت) النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. والنُّزُلُ : ما يُعَدُّ للنَّازل من الزَّاد، قال : فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا [ السجدة/ 19] وأَنْزَلْتُ فلانا : أَضَفْتُهُ. ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں النزل ( طعام مہمانی ) وہ کھان جو آنے والے مہمان کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا[ السجدة/ 19] ان کے رہنے کے لئے باغ میں یہ مہمانی ۔ انزلت فلانا کے معنی کسی کی مہمانی کرنے کے ہیں شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ زقم إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 43- 44] ، عبارة عن أطعمة كريهة في النار، ومنه استعیر : زَقَمَ فلان وتَزَقَّمَ : إذا ابتلع شيئا كريها . ( ز ق م ) الزقوم تھوہر کا درخت ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 43- 44] بیشک سینڈھ کا درخت ۔ میں زقوم سے دوزخ کے کریہہ کھانے مراد ہیں اور اس سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ زقم فلان وتزقم اس نے کوئی کریہہ چیز نگل لی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢{ اَذٰلِکَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ ۔ ” بھلا مہمانی کے طور پر یہ بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ “ جنت کی مذکورہ نعمتوں کے مقابلے میں اہل جہنم کی ابتدائی مہمان نوازی زقوم (تھوہر) کے درخت سے کی جائے گی۔ اس ابتدائی مہمان نوازی کی نوعیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد اہل جہنم کو کن حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اب اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو جنت کی دائمی نعمتوں کے حصول کو اپنا ہدف بنا لے یا جہنم اور اس کے خوفناک عذابوں کے ساتھ اپنی عاقبت کو وابستہ کرلے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 Zaqqum is a tree of the cactus species found in Tihamah. It is bitter in taste, obnoxious in smell and sheds a milk like juice when cut or broken.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :34 زَقّوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے ۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے ، بو ناگوار ہوتی ہے ، اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہو جاتا ہے ۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ ٧٤۔ اوپر جنت کی نعمتوں کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا۔ کہ یہ جنت کی نعمتیں بہتر ہیں۔ یا دوزخیوں کی خوراک سینڈھ کا درخت بہتر ہے۔ ترمذی ١ ؎ نسانی ابن ماجہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے صحیح روایت ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس دوزخ کے سینڈھ کے عرق کا ایک قطرہ بھی اگر زمین پر ٹپک پڑے تو تمام دنیا کے لوگوں کی زندگی دشوار ہوجاوے۔ اور اگر دنیا کے دریاؤں میں وہ قطرہ پڑجاوے۔ تو دریاؤں کا پانی بالکل بگڑ جاوے۔ پھر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افسوس ہے۔ ان لوگوں کے حال پر جن کی خوراک یہ سینڈھ کا پھل ہوگا۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ کہ وہ سینڈھ دنیا کے سینڈھ جیسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایسی بری بلا ہے۔ جس کی حالت حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ٢ ؎ ابن جریر میں قتادہ کا فول ہے کہ قرآن شریف میں جب سینڈھ کے درخت کا ذکر آیا تو مشرکین مکہ تعجب سے کہنے لگے۔ کہ سبز درخت دوزخ کی آگ میں کیوں کر ہوگا۔ اس پر فرمایا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے۔ کہ دوزخ کے کنارہ پر نہیں۔ بلکہ بیچ دوزخ کی جڑ میں یہ درخت نکلے گا۔ اور منکروں کو اس خرابی میں ڈالے گا۔ کہ اس کے پھل پیٹ بھر کر ان کو کھانے پڑیں گے اور جب وہ پھل ان کے حلق میں پھنسیں گے۔ تو ایسا کھولتا ہوا پانی ان کو پلایا جاوے گا۔ کہ ان کی انتڑیاں نکل پڑیں گی۔ زقوم کے علاوہ دوزخیوں کو کبھی ایک کانٹوں دار گھاس بھی کھلائی جاوے گی۔ جس کا ذکر سورة الغاشیہ میں آوے گا۔ حاصل یہ ہے کہ دوزخ کے درجے الگ الگ ہیں۔ بعض درجوں میں دوزخیوں کی خوراک زقوم ہوگی۔ اور بعض میں کانٹوں دار گھاس عرب کے لوگ خوفناک چیز کو شیطان سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔ اس واسطے سینڈھ کے پھل کو شیطان کے سر سے مشابہت دی۔ مسند امام احمد ترمذی ٣ ؎ صحیح ابن حبان مستدرک حاکم اور بیہقی میں ابوسعید (رض) خدری اور ابوہریرہ (رض) سے معتبر روایتیں ہیں، میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب وہ کھولتا ہوا پانی دوزخیوں کے منہ کے پاس لایا جاوے گا۔ تو ان کے منہ کی کھال جل کر اتر جاوے گی۔ اور جب وہ پانی ان کو پلایا جاوے گا۔ تو کٹ کر انتڑیاں نکل پڑیں گی۔ اس کھولتے ہوئے پانی کو ملونی کا پانی جو فرمایا۔ اس کی تفسیر سورة ابراہیم میں گزر چکی ہے۔ کہ زیادہ بدمزہ کرنے کے لئے اس پانی میں پیپ بھی ملائی جائے گی۔ تفسیر عبد الرحمن بن زید میں ملونی کی یہ تفسیر کی گئی ہے۔ جو اوپر بیان کی گئی۔ یہ عبد الرحمن بن زید سفیان بن عیینہ کے مرتبہ کے تبع تابعین میں ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں ان سے روایتیں ہیں۔ حدیث کی روایت میں اگرچہ علما نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مگر تفسیر کے باب میں یہ اپنے باپ زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں۔ اس تفسیر کے باب میں ان کے قول کا اعتبار ہے۔ کیونکہ ان کے باپ حسن بصری کے مرتبہ کے ثقہ تابعیوں میں ہیں۔ اکثر سلف کا قول ہے کہ یہ کھولتے پانی کا چشمہ دوزخ کے کنارہ پر ہے۔ وہاں فرشتے دوزخیوں کو پانی پلانے لاویں گے اور پھر دوزخ میں دھکیل دیویں گے ثم ان مرجعہم لا الی الحجیم۔ کا یہی مطلب ہے اب آگے فرمایا قریش کے اور پچھلی امتوں کے نافرمان لوگ اس واسطے عذاب میں پکڑے گئے۔ کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی نصیحت کو نہ مانا اور سرکشی کر کے اپنے بڑوں کی لکیر کے فقیر رہے ہاں اللہ کے چنے ہوئے جن بندوں نے اللہ کے رسولوں کی نصیحت کو مان لیا۔ وہ اس عذاب سے بچ کر جنت میں داخل ہوئے۔ ترمذی ١ ؎‘ ابو داؤد ‘ موطا مسند ‘ امام احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آدم (علیہ السلام) کی پشت سے قیامت تک کی روحوں کو نکال کر عالم ارواح ہی میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا تھا۔ کہ اتنی روحوں کے بنی آدم دنیا میں پیدا ہونے کے بعد جنتیوں کے سے کام کریں گے اور اتنی روحوں کے بنی آدم دوزخیوں کے سے کام کریں گے۔ اگرچہ منذری نے اس حدیث کی سند پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث کو مسلم بن یسار نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے۔ حالانکہ مسلم بن بسار کو حضرت عمر (رض) کی ملاقات کا موقع نہیں ملا۔ اس واسطے اس حدیث کی سند پوری نہیں ہے۔ لیکن موطا مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کی سند میں مسلم بن یسار نہیں ہے اور یہ سندیں پوری ہیں۔ اسی واسطے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ سب سندوں کے ملانے سے یہ حدیث معتبر ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ اگرچہ جنتی اور دوزخی عالم ارواح میں بھی اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق چنے جا چکے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے انصاف سے جزا و سزا کا دار و مدار دنیا کے پیدا ہونے کے بعد رکھا۔ جب اس علم غیب کا ظہور ہوگیا۔ تو اس کے موافق قیامت کے دن جزا و سزا کا فیصلہ کیا جاوے گا۔ یہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔ کہ دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ اس لئے جو لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل ٹھہر چکے تھے۔ زبردستی ان کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف تھا۔ اس واسطے ان کو اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء صفۃ شراب اھل النار ص ٩٥ ج ٢) (٢ ؎ ترمذی شریف باب مآجاء فی صفۃ شراب اھل النار ص ٩٥ ج ٢۔ ) (٣ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٢٧٧ ج ٥ تفسیر ابن کثیر ص ١٠ ج ٤۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة اعراف ص ١٥٥ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:62) ذلک۔ جنت کی نعمتیں۔ ان کی فراوانی، وہاں ہمیشہ ہمیشہ کا قیام، ابدی زندگی۔ ہر قسم کے عذاب سے خلاصی اور جملہ نعتیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔ آیات 41:49) میں۔ نزلا۔ بطور مہمانی، مہمانی کا کھانا۔ طعام ضیافت، ذلک کی تمیز ہے ۔ یعنی نعمتیں جنتیوں کو بطور ضیافت ملیں گی ! النزل (طعام مہمانی) جو آنے والے مہمان کے لئے تیار کیا جائے (راغب) نزل۔ وہ چیز جو مہمان کے آتے ہی اس کے سامنے لائی جاتی ہے (ابتدائی پیش کش) ۔ اس لفظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ بالا نعمتیں تو اہل جنت کو ابتدائی پیشکش کے طور پر دی جائیں گی۔ اس کے بعد کیا کیا عطا ہوگا اس کو سمجھنے سے عقل قاصر ہے۔ (تفسیر مظہری) ۔ الزقوم۔ ایک درخت جسے حنظل یا تھوہر کہتے ہیں۔ ذائقہ میں تلخ، دیکھنے میں بدنما۔ اثر میں زہریلا ہوتا ہے۔ اس سے استعارہ کے طور پر کہتے ہیں زقم فلان وتزقم۔ اس نے کوئی کریہہ چیز نگل لی۔ دوزخ میں جو یہ درخت آگ سے پیدا ہوگا اس کے ذائقہ ، صورت، اثر کو خیال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ذکر دوزخ میں پیدا ہونے والے اس درخت کا ہے ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 جس سے دو زخیوں کی ضیافت کی جائے گی۔ جنتیوں کی ضیافت کا ذکر کرنے کے بعد اس کے مقابلے میں یہاں دوزخیوں کی ضیافت کا ذکر کیا گیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت کی نعمتوں اور عیش و عشرت کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزا اور ان کی بدترین خوراک۔ جنتیوں کی تکریم و تعظیم اور اس کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم کی بدترین خوراک بتلا کر استفسار فرمایا ہے کہ بتاؤ ! جنت کے انواع و اقسام کے کھانے اور پھل بہتر ہیں یا کہ تھوہر کا درخت ؟ جسے اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے یہ درخت جہنم کی تہہ سے اگے گا اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہوں گے۔ جہنمی اس کو کھائیں گے اور اپنے پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کو نگلنے کے لیے ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا اور پھر انہیں جہنم کے ایک اور گڑھے کی طرف دھکیلا جائے گا۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے اپنے گمراہ آباء و اجداد کی پیروی کرتے رہے اور اسی طرح نسل در نسل گمراہ ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ انہیں انتباہ کرنے کے لیے ان کی طرف رسول بھیجے تھے لیکن مخلص بندوں کے سوا باقی تمام لوگ گمراہ ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں ان کا دنیا میں بھی انجام بدتر ہوا۔ اگر دیکھنا چاہو تو تاریخ کے اوراق اور جغرافیائی نشانات سے ان کا انجام دیکھ سکتے ہو۔ جہنم کی تہہ سے اگنے والے شجرۃ الزّقوم جسے اردو زبان میں تھوہر کا درخت کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ درخت قبرستانوں میں پایا جاتا ہے جس کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جو بالکل شیطان کے سر دکھائی دیتے ہیں۔ شیطان کا سر ایک محاورہ بھی ہے۔ لوگ ہر اس بری اور پراگندہ چیز کو شیطان کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں جسے دیکھتے ہی آدمی کی طبیعت میں کراہت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ” شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ “ اسی قسم کا درخت ہوگا جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوگا جسے کفار مکہ نے یہ کہہ کر مذاق کا نشانہ بنایا کہ آگ میں درخت کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔ در حقیقت یہ ان کے دماغ کا فتور اور قرآن مجید کے انکار کرنے کا انداز تھا ورنہ وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ مشکل کام نہیں کہ وہ آگ کی تہہ سے درخت پیدا کرے۔ کیونکہ ان کا یہ ایمان تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نمرود کی آگ سے محفوظ رکھا تھا۔ ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ جنتیوں کو فرمائے گا کہ اے جنتیو ! جنتی عرض کریں گے اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو ؟ جنتی کہیں گے ہم کیوں راضی نہ ہوں۔ کیونکہ آپ نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز دینا چاہتا ہوں۔ جنتی کہیں گے اے ہمارے رب ! اس سے افضل چیز کون سی ہوسکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تم پر راضی ہوگیا ہوں اور اس کے بعد تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ “ [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ جہنمیوں کو کھانے کے لیے تھوہر کا درخت اور پینے کے لیے ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنمیوں کا جہنم میں جانے کا ایک بنیادی سبب یہ ہوگا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنے آباء اجداد کے رسم و رواج کو دین سمجھتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کے اور جہنمیوں میں فرق : ١۔ قیامت کے دن جنتیوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ جنتیوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٣۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٧٣) ٤۔ جنتیوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٥۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥) ٦۔ جہنمیوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٧۔ جہنمیوں کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٨۔ جہنمیوں کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٩۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧) ١٠۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اور اوندھے ہوں گے۔ (الغاشیۃ : ٢) ١١۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامۃ : ٢٤) ١٢۔ جہنمیوں پر ملائکہ لعنت کرینگے۔ (لزمر : ٧٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں فریق مخالف کے انجام کا منظر بھی دے دیا جاتا ہے جو قیامت اور حشرو نشر کا منکر تھا تا کہ اہل جنت کے اچھے ، دائمی ، پرامن اور ہمہ گیر عیش اور اچھے انجام کی اہمیت اور اجاگر ہوجائے اہل جہنم کا انجام یہ ہوگا۔ اذٰلک خیر۔۔۔۔۔ الی الجحیم (62-68) ” ۔ وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے ۔ اس کے شگونے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔ جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے ، پھر اس پر پینے کے لیے ان کو کھولتا ہوا غیرخالص پانی ملے گا اور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی “۔ یہ قائم اور دائم نعمتیں بہتر ہیں اور جنت بہتریں جائے قیام ہے ۔ یازقوم کا درخت بطور خوراک اور جہنم جائے قیام بہتر ہے اور زقوم ہے کیا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شجرۃ الزقوم کا تذکرہ جسے اہل جہنم کھائیں گے اوپر اہل جنت کی نعمتوں کا اور وہاں کی کامیابیوں کا تذکرہ فرمایا ہے، اور ان آیتوں میں اہل دوزخ کے کھانے کی چیزوں میں سے ایک چیز یعنی زقوم کا تذکرہ فرمایا، اہل جنت کے بارے میں فرمایا (اُولٰٓءِکَ لَھُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمُ ) اور یہاں یوں فرمایا (اَذٰلِکَ خَیْرٌ نُزُلًا اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّومِ ) (کیا اہل جنت کا رزق بہتر ہے جو بطور مہمانی ان کو دیا جائے گا یا زقوم کا درخت بہتر ہے) زقوم کا درخت بہت ہی زیادہ بدمزہ اور کڑوا ہوگا جو دوزخ کی گہرائی میں سے نکلے گا، اس کے پھل ایسے ہوں گے جیسے سانپوں کے پھن ہوں۔ اس میں درخت کی بدصورتی بیان فرمائی، مزہ بھی بہت زیادہ مکروہ ہوگا اور صورت بھی بہت زیادہ مکروہ ہوگی جس کے دیکھنے ہی سے ڈرنے لگے گا، یہ درخت گو بہت زیادہ کڑوا اور بدصورت ہوگا لیکن دوزخی بھوک کی وجہ سے اتنا کھائیں گے اتنا کھائیں گے کہ پیٹ بھر لیں گے۔ سورۂ محمد میں فرمایا کہ ان کو سخت گرم پانی پلایا جائے گا۔ (وَسُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَ ھُمْ ) (اور انہیں گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ ) سورۂ واقعہ میں فرمایا (ثُمَّ اِِنَّکُمْ اَیُّہَا الضَّاتُوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ لاَٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّومٍ فَمَالِوءٗ نَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ فَشَارِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ فَشَارِبُوْنَ شُرْبَ الْہِیْمِ ھٰذَا نُزُلُہُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ ) (پھر اے جھٹلانے والے گمراہ لوگو ! تم زقوم کے درخت سے کھاؤ گے اور اس سے پیٹ بھرلو گے پھر اوپر سے کھولتا ہوا پانی پیو گے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں، قیامت کے روز اس طرح ان کی مہمانی ہوگی۔ ) وہ کیا ہی برا منظر ہوگا جب دوزخی اس درخت سے کھائیں گے اور پھر اوپر سے کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور وہ بھی تھوڑا بہت نہیں بلکہ پیاسے اونٹوں کی طرح خوب زیادہ پئیں گے۔ (اعاذنا اللّٰہ تعالیٰ من الزقوم والحمیم وسائر انواع عذاب الجحیم) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو وہ یقیناً تمام دنیا والوں کی غذائیں بگاڑ ڈالے، اب بتاؤ اس کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی زقوم ہوگی۔ (الترغیب و الترہیب جلد ٤: ص ٤٨٠ از ترمذی و ابن ماجہ و ابن حبان)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ اذلک خیر الخ :۔ یہ بشارت و تخویف اخروی ہے۔ اذلک خیر نزلا، بشارت اور ام شجرۃ الزقوم تا ثم ان مرجعہم لا الی الجحیم تخویف اخروی ہے۔ ذلک سے نعیم جنت کی طرف اشارہ ہے جو اس سے قبل اولئک لہم رزق معلوم (الایات) میں مذکور ہیں۔ و ھو متعلق بقولہ تعالیٰ (اولئک لہم رزق معلوم) (روح ج 23 ص 94) ۔ المعنی نعیم الجنۃ خیر نزلا (قرطبی ج 15 ص 85) ۔ شجرۃ الزقوم، یہ نہایت ہی خبیث اور زہر قاتل درخت جہنم میں دوزخیوں کی خوراک ہوگا۔ یہ درخت دنیا کے درخت تھوہر کے مشابہ ہوگا۔ فتنۃ، عذاب، آتش دوزخ کے علاوہ اس درخت کے کھانے سے بھی دوزخی سخت اذیت اور عذاب محسوس کریں گے، یہ درخت جہنم کی تہ میں پیدا ہوگا، اس درخت کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح نہایت قبیح اور کر یہ المنظر ہوں گے۔ شیاطین کی شناعت و کراہیت منظر دلوں میں مرکوز ہے۔ اس لیے ان سے تشبیہہ دی گئی۔ وانما شبہہا برؤوس الشیاطین وان لم تکن معروفۃ عند المخاطبین لانہ قد استقر فی النفوس ان الشیاطین قبیحۃ المنظر ( ابن کثیر ج 4 ص 10) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) بھلا یہ نعمتیں بطور مہمانی کے بہتر ہیں یا درخت زقوم کا یعنی سینڈھ یا تھور کا درخت۔ یعنی اوپر اہل جنت کی مہمان نوازی کا ذکر تھا اب اہل جہنم سے اس کا موازنہ فرماتے ہیں آگے زقوم کے درخت کی تفصیل ہے۔