Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 64

سورة الصافات

اِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخۡرُجُ فِیۡۤ اَصۡلِ الۡجَحِیۡمِ ﴿ۙ۶۴﴾

Indeed, it is a tree issuing from the bottom of the Hellfire,

بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, it is a tree that springs out of the bottom of Hell-fire. meaning, it is nourished by the fire, for it was created from fire." Mujahid said: إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِّلظَّالِمِينَ (Truly, We have made it (as) a trial for the wrongdoers). Abu Jahl, may Allah curse him, said, "Zaqqum means dates and butter which I eat (Atazaqqamuhu)." I say that the meaning of the Ayah is, "We have told you, O Muhammad, of the tree of Zaqqum as a trial with which We test the people to see who will believe and who will disbelieve." This is like the Ayah: وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِى أَرَيْنَـكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِى القُرْءَانِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَانًا كَبِيرًا And We made not the vision which we showed you but a trial for mankind, and the accursed tree in the Qur'an. We warn and make them afraid but it only increases them in naught save great disbelief, oppression and disobedience to Allah. (17:60) إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيم Verily, it is a tree that springs out of the bottom of Hell-fire. means, its roots grow at the bottom of Hell. طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُوُوسُ الشَّيَاطِينِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 یعنی اس کی جڑ جہنم کی گہرائی میں ہوگی البتہ اس کی شاخیں ہر طرف پھیلی ہوں گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] اللہ کی محیر العقول مخلوق :۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کافروں نے خوب مذاق اڑایا کہ بھلا آگ میں درخت کیسے پیدا ہوسکتا یا برقرار رہ سکتا ہے۔ اور یہ اعتراض محض ان کی کم عقلی اور کم عملی کی بنا پر تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی صورتیں بعض دفعہ بڑی نرالی اور حیران کن ہوتی ہیں۔ مثلاً جس فصل کے اوپر سے پانی گزر جائے۔ خواہ وہ پانی سیلاب کا ہو اور زیادہ بارش کا وہ فصل برباد ہوجاتی ہے۔ پودوں اور درختوں کا بھی یہی حال ہے مگر سمندر کی تہہ میں درخت اگتے ہیں۔ پھر ایسی جمادات بھی ہیں جو درختوں کی طرح پھلتی پھولتی ہیں۔ اور ان کی نشوونما پانی میں ہوتی ہے۔ جیسے مرجان۔ اور یہاں تو آگ میں صرف تھوہر کا درخت یعنی نباتات اگنے کا ذکر ہے۔ جبکہ آگ میں جاندار بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ جیسے آگ کا کیڑا سمندر جو آگ میں ہی زندہ رہ سکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّهَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِيْٓ اَصْلِ الْجَحِيْمِ : یعنی زقوم ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہ میں اگتا ہے اور آگ کی حرارت سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا، جیسے پانی جن پودوں پر چڑھ جائے وہ مرجاتے ہیں، مگر سمندر کی تہ میں بیشمار درخت اور پودے اگتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Allah Ta&ala gave an answer in a single sentence by saying: إِنَّهَا شَجَرَ‌ةٌ تَخْرُ‌جُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (That is a tree that comes out in the bottom of Jahannam - 37:64). Thus, neither does it mean date and butter, nor the objection as to how could a tree survive in fire hold valid - particularly when that tree owes its very origin to the fire itself. Hence, Allah Ta ala has placed such properties in it that instead of getting burnt in fire, it is actually nurtured by it. For example, there are many life forms that would survive only in fire that does not burn them, in fact, makes them grow.

(آیت) انھا شجرة تخرج فی اصل الجحیم، یعنی ” زقوم تو جہنم کی تہہ میں اگنے والا ایک درخت ہے “ لہٰذا نہ تو اس سے مراد کھجور اور مکھن ہے اور نہ یہ اعتراض معقول ہے کہ آگ میں درخت کیسے ہوسکتا ہے ؟ جب وہ درخت پیدا ہی آگ میں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی خصوصیات رکھ دی ہیں کہ وہ آگ سے جلنے کی بجائے اس سے نشوونما پاتا ہے، نمونے کے طور پر ایسے کئی حیوانات موجود ہیں جو آگ ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں، آگ انہیں جلانے کے بجائے اور نشوونما عطا کرتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہَا شَجَــرَۃٌ تَخْرُجُ فِيْٓ اَصْلِ الْجَحِيْمِ۝ ٦٤ۙ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

شان نزول : اِنَّهَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِيْٓ اَصْلِ الْجَحِيْمِ (الخ) ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے ابو جہل کہنے لگا کہ تمہارا ساتھی (یعنی حضور اکرم) کہتا ہے کہ دوزخ میں ایک درخت ہوگا حالانکہ آگ تو درخت کو کھا جاتی ہے میرے خیال میں تو زقوم کا درخت مکھن اور کھجور کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ چناچہ جب کفار دوزخ میں درخت ہونے کے بارے میں تعجب ہوا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی وہ ایک درخت ہے جو دوزخ کی گہرائی میں سے نکلتا ہے اور اسی طرح سدی سے روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤{ اِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخْرُجُ فِیْٓ اَصْلِ الْجَحِیْمِ } ” وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہہ میں سے نکلے گا۔ “ یہی بات کافروں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش بن گئی ‘ جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کی آیت ٦٠ میں بھی آچکا ہے۔ اس میں ان کے لیے آزمائش کی وجہ دراصل ان کی یہ سوچ تھی کہ جہنم کی آگ کے اندر آخر درخت کیسے اگیں گے ؟ ایسی سوچ دراصل ان لوگوں کو پریشان کرتی ہے جو آخرت کے معاملات کو بھی اس دنیا کے قوانین و ضوابط پر قیاس کرنے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قیامت کے بعد ایک ایسے عالم کا ظہور ہوگا جس کے قوانین کا اس دنیا کے قوانین سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس دنیا میں تو انسان آگ میں جل کر مرجاتا ہے ‘ مگر جہنم کی آگ جلائے گی بھی اور مرنے بھی نہیں دے گی ( الاعلیٰ : ١٣) ۔ اس دنیا میں انسان کی جلد اگر ایک دفعہ آگ سے جھلس جائے تو پھر درست نہیں ہوسکتی ‘ مگر وہاں جہنمیوں کی ِجلدیں جل جانے کے بعد کپڑوں کی طرح تبدیل کردی جائیں گی ( النساء : ٥٦) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:64) اصل الجحیم۔ مضاف مضاف الیہ۔ اصل ۔ جڑ، تہ، گہرائی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جیسے سمندر کی تہہ میں بہت سے درخت پیدا ہوتے ہیں اور وہیں بڑھتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس درخت زقوم کی یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ دوزخ کی تہہ میں اگتا اور بڑھتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انھا شجرۃ۔۔۔۔۔ الشیطین (37: 64-65) ” ۔ “۔ اور لوگ شیطانوں کے سروں کو نہیں جانتے ۔ لہٰذا ان کی سمجھ میں کیا ۔۔۔َ ؟ یہ دراصل ایک خوفناک صورت حال ہے ۔ اس کا محض تصور ہی خوفناک ہے ۔ چہ جائیکہ وہ اسے کھائیں گے اور اس سے اپنے پیٹ بھریں گے ۔ اللہ نے اس درخت کو ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنادیا ہے وہ زقوم کا نام سنتے تھے تو اس کے بارے میں مذاق کرتے تھے کہ کس طرح یہ درخت جہنم میں اگ سکے گا ۔ کیا جلے گا نہیں ؟ بعض لوگوں نے کہا ، مثلاً ابوجہل ابن ہشام نے نہایت ہی مزاجیہ انداز میں ” اے اہل قریش تمہیں معلوم ہے کہ زقوم کا درخت کیا ہے ؟ محمد تمہیں اس سے ڈراتا ہے تو انہوں نے کہا : ہمیں تو معلوم نہیں ۔ اس نے کہا یہ یثرب کے عمدہ کھجور اور مکھن ہوگا اور اگر یہ ہمیں دستیاب ہواتو ہم اسے ضرور نگل جائیں گے “۔ لیکن اسے کیا معلوم کہ یہ زقوم کا درخت ایک دوسری چیز ہے جسے انسانوں نے نہیں چکھا۔ اور نہ جانتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(64) وہ زقوم ایک درخت ہے جو قعر جہنم اور جہنم کی تہہ میں سے نکلتا ہے۔ یعنی دوزخ کی گہرائی میں سے اگتا ہے۔