Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 82
سورة الصافات
ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿۸۲﴾
Then We drowned the disbelievers.
پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا ۔
ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿۸۲﴾
Then We drowned the disbelievers.
پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا ۔
Then We drowned the others. means, `We destroyed them, and there was no trace whatsoever left of them, and they are only known by this unfavorable description.'
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ : پھر نوح (علیہ السلام) کو ملنے والی جزا میں سے ایک بہت بڑی جزا یہ ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے اہل کو نجات دی اور دوسرے تمام لوگوں کو غرق کردیا جو ان پر ایمان نہیں لائے اور انھیں عمر بھر ستاتے رہے، کیونکہ دشمنوں سے انتقام کے ساتھ دل اور آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ ٨٢ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔
آیت ٨٢{ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ } ” پھر ہم نے غرق کردیا باقی سب کو۔ “
15: حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا پورا واقعہ سورۂ ہود : 36 میں گذر چکا ہے۔
(37:82) ثم اغرقنا الاخرین ۔ اس جملہ کا عطف نجینہ (آیۃ 76) پر ہے ثم تراخی الذکر کے لئے ہے الاخرین اخر کی جمع۔ بمعنی دوسرے ۔ یعنی حضرت نوح اور ان کے پیروئون کو ہم نے نجات دی (ڈوبنے سے بچا لیا) پھر اور ون کو ہم نے ڈبو دیا۔
ثم اغرقنا الاخرین (37: 82) ” پھر دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کردیا “۔ لہٰذا انسانیت کے آغاز ہی سے سنت الہیہ یہی رہی ہے جس طرح ان قصص کے آغاز میں کہا گیا۔ ولقد ارسلنا ۔۔۔۔ المخلصین (37: 72 – 74) ” اور ان میں ہم نے تنبیہہ کرنے والے رسول بھیجے تھے۔ اب دیکھ لو کہ ان تنبیہہ کیے جانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس بد انجامی سے بس اللہ کے وہی بندے بچے ہیں جنہیں اس نے اپنے لیے خالص کرلیا ہے “۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم کا قصہ آتا ہے۔ اس قصے کی دو کڑیاں یہاں لائی گئی ہیں۔ پہلی کڑی میں آپ اپنی قوم کو دعوت دیتے ہیں۔ بتوں کو توڑتے ہیں ، لوگ آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کے حکم سے ان کے لیے آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور قصے کا یہ حصہ کئی دوسری سورتوں میں بھی آیا ہے۔ اور دوسری کڑی وہ ہے جو صرف اسی سورت میں آئی ہے ، یعنی خواب ، ذبح اور فدیہ۔ یہ کڑی نہایت ہی تفصیل کے ساتھ آئی ہے ، جس کے واقعات اور مراحل کو نہایر ہی تفصیلات کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اسلوب کلام نہایت موثر ، دلکش اور پر شوکت ہے۔ اس کڑی کے اندر تسلیم و رضا ، سمع وطاعت کا اعلیٰ معیار اور اعلیٰ مثال پائی جاتی ہے ۔ اسنانی نطریات کی تاریخ میں اس قسم کی کوئی مثال نہیں ہے۔
(ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ ) (پھر ہم نے دوسرے لوگوں کو غرق کردیا) یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) ، آپ کے اہل و عیال اور اہل ایمان کو نجات دے دی اور ان کے علاوہ کو غرق کردیا۔ کیا طوفان نوح سارے عالم کو محیط تھا ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) کو آدمی ثانی کہا جاتا ہے اور یہ بات مشہور ہے کہ ان کے بعد دنیا میں جو آبادی ہوئی وہ سب ان ہی کی اولاد سے ہے قرآن مجید کی آیت (وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ھُمُ الْبٰقِیْنَ ) سے بھی یہی متبادر ہوتا ہے کیونکہ یہ الفاظ حصر پر دلالت کرتے ہیں۔ حضرت سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ھُمُ الْبٰقِیْنَ ) کی تفسیر میں (حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے) یوں فرمایا کہ یہ حام اور سام اور یافث تھے۔ امام ترمذی (رض) نے اس کے بارے میں فرمایا : (ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ) پھر حضرت سمرہ (رض) ہی سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ سام عرب کا جد اعلیٰ اور حام حبشیوں کا جد اعلیٰ اور یافث رومیوں کا جد اعلیٰ تھا۔ (سنن ترمذی تفسیر سورة الصفت) اور معالم التنزیل میں حضرت سعید بن المسیب (رض) تابعی سے یوں نقل کیا ہے کہ سام عرب اور فارس اور روم کا جد اعلیٰ تھا۔ اور حام سوڈان یعنی کالے لوگوں کا جد اعلیٰ تھا۔ اور یافث ترکوں کا اور یاجوج ماجوج کا اور جو ان کے قریب اقوام رہتی ہیں ان کا جد اعلیٰ تھا۔ اگر طوفان پورے عالم میں آیا ہو اور زمین پر جتنی بھی آبادیاں تھیں ان سب کو غرق کردیا گیا ہو تو پھر یہی متعین ہوجاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد ہی سے آگے دنیا آباد ہوئی، لیکن اس میں یہ اشکال باقی رہ جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ جن اہل ایمان نے نجات پائی تھی کیا ان کی نسلیں نہیں چلیں ؟ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے لکھا ہے : وقدروی انہ مات کل من فی السفینۃ ولم یعقبوا عقبًا باقیًا غیر الثلث سام و حام ویافث وازواجھم فانھم بقوا متناسلین الی یوم القیمۃ (روایت ہے کہ کشتی میں جو تھے سب مرگئے سوائے حام، سام، یافث اور ان کی بیویوں کے اور کوئی نہیں بچا۔ قیامت تک انہیں تین کی نسل چلتی رہے گی) یعنی ” حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ جو لوگ کشتی میں تھے وہ لوگ غرق ہونے سے نجات پاکر کشتی سے اتر کر اپنی اپنی اجل کے مطابق مرگئے اور ان میں سے کسی کی نسل نہیں چلی صرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی بیویاں باقی رہیں جن کی قیامت تک نسل جاری رہے گی۔ “ صاحب روح المعانی نے لکھ تو دیا لیکن سند پیش نہیں کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ کس کا قول ہے۔ عام طور پر جو یہ مشہور ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ہی کی اولاد سے آگے نسل چلی، اس کے مقابل دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد کے علاوہ دوسری نسلیں بھی دنیا میں چلتی رہی ہیں۔ جن لوگوں نے یہ بات کہی ہے ان کا قول اس پر مبنی ہے کہ طوفان نوح (علیہ السلام) عام نہیں تھا، ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت تمام اقوام کے لیے عام نہیں تھی کیونکہ یہ صرف خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے، جب ان کی بعثت عام نہیں تھی تو جو لوگ ان کے مخاطب تھے انہوں نے ان کی نبوت کا انکار کیا اور انہی کے لیے بد دعا فرمائی اور وہی لوگ ہلاک ہوئے۔ اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کے الفاظ سے تو حصر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ہی کی ذریت کو باقی رکھا، اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حصر کشتی والوں سے متعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کشتی میں سوار تھے ان میں سے صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے نسل چلی، باقی دنیا جو اپنی جگہ آباد تھی اس میں بسنے والوں اور ان کی نسلوں کا تذکرہ نہیں ہے۔ (واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب) (راجع روح المعانی ج ٢٣: ص ٩٨) (وقد وقع فی قلبی اللّٰہِ تعالیٰ وکرمہ انہ یمکن ان یقال انّ الارض لم تکن معمورۃ ببنی اٰدم کانت اقطارھا کلھا یعیش فیھا الانسان وکان عمر انھا فی مناطق محدودۃ ولم تکن الاّ امۃ واحدۃ لعدم الامتداد الطویل من عھد اٰدم (علیہ السلام) مکان جمیع النّاس مخاطبین لہ فلمّا انکروا اُغْرِقُوْا وھذا لا ینافی کون بعثۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عامۃ لانھا عمت لجمیع افراد البشر ولسائر الاقوام والجمیع الامکنۃ والازمنۃ۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب) (اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے دل میں یہ بات آگئی ہے کہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت پوری زمین میں انسان آباد نہیں تھے فقط محدود علاقوں میں آبادی تھی۔ وہ محدود آبادی گویا بس ایک ہی امت تھی کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو کوئی لمبا عرصہ نہیں گذرا تھا، لہٰذا اس وقت کے سب لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے مخاطب تھے۔ جب انہوں نے انکار کیا تو سب غرق کیے گئے۔ اور یہ توجیہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمومی بعثت کے منافی نہیں ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تمام انسانی افراد، اقوام اور تمام ممالک و زمانوں کو عام ہے۔ )