Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 83

سورة الصافات

وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾

And indeed, among his kind was Abraham,

اور اس ( نوح علیہ السلام کی ) تابعداری کرنے والوں میں سے ( ہی ) ابراہیم ( علیہ السلام بھی ) تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Ibrahim and His People Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him said that: وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لاَإِبْرَاهِيمَ And verily, among those who followed his ways was Ibrahim. means, he was one of the followers of his religion. Mujahid said, "He was following his path and his way." إِذْ جَاء رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

اب بھی سنبھل جاؤ ۔ ابراہیم علیہ السلام بھی نوح کے دین پر تھے ، انہی کے طریقے اور چال چلن پر تھے ۔ اپنے رب کے پاس سلامت دل لے گئے یعنی توحید والا جو اللہ کو حق جانتا ہو ۔ قیامت کو آنے والی مانتا ہو ۔ مردوں کو دوبارہ جینے والا سمجھتا ہو ۔ شرک وکفر سے بیزار ہو ، دوسروں پر لعن طعن کرنے والا نہ ہو ۔ خلیل اللہ نے اپنی تمام قوم سے اور اپنے سگے باپ سے صاف فرمایا کہ یہ تم کس کی پوجا پاٹ کررہے ہو؟ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت چھوڑ دو اپنے ان جھوٹ موٹھ کے معبودوں کی عبادت چھوڑ دو ۔ ورنہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا کچھ نہ کریگا اور تمہیں کیسی کچھ سخت ترین سزائیں دیگا ؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 شِیْۃً کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) بھی اہل دین و اہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (علیہ السلام) ہی کی طرح قائم مقام الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] شیعہ کا لغوی مفہوم :۔ یہاں لفظ شیعہ استعمال ہوا ہے۔ شیعہ ایسے فرقہ یا پارٹی کو کہتے ہیں جن کے عقائد آپس میں ملتے جلتے ہوں مگر دوسروں سے مختلف ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ توحید اور معاد کے بارے میں سیدنا ابراہیم کے بھی وہی عقائد تھے جو سیدنا نوح کے تھے۔ اور یہ تو واضح سی بات ہے کہ تمام انبیاء کی اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ اور اسی اصولی تعلیم کا نام دین ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ : ” شِیْعَۃٌ“ ” شَاعَ یَشِیْعُ شِیَاعًا “ (ض) سے مشتق ہے، جس کا معنی ساتھ دینا ہے، ایسی جماعت جو کسی کا ساتھ دے۔ یعنی نوح (علیہ السلام) کا ساتھ دینے والے گروہ میں سے ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہیں، کیونکہ وہ بھی توحید، آخرت اور دین کی تمام بنیادی چیزوں کے متعلق وہی عقائد و اعمال رکھتے تھے جو نوح (علیہ السلام) کے تھے، بلکہ تمام انبیاء کا اصل دین ایک ہی ہے جس کا نام اسلام ہے اور سب کی امتیں ایک امت ہیں جس کا نام امت مسلمہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ ) [ المؤمنون : ٥٢ ] ” اور بیشک یہ تمہاری امت ہے، جو ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو مجھ سے ڈرو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary After having related the event concerning Sayyidna Nuh (علیہ السلام) the Qur&an mentions two events from the blessed life of Sayyidna Ibrahim ill. Both events highlight the great sacrifices Sayyidna Ibrahim offered for the sake of Allah alone. Out of these, the first event mentioned in the verses cited above relates to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) being thrown into the fire. Its details have already appeared in Surah Al-Anbiya& (21: 51-70). Yet, the way it has been described at this place, it needs some explanatory notes that appear below. The word: شِيعَتِهِ (shi&ah) in verse 83: وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَ‌اهِيمَ (And certainly from his adherents was Ibrahim.) is used in the Arabic language for a group or party the individuals from which are similar to each other in basic concepts and methods - and here it is obvious that the pronoun in: شِيعَتِهِ (shi&atihi) is reverting to Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . Therefore, it would mean that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) adhered to the way of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) the prophet preceding him, and that there was a perfect agreement between them on the basic principles of faith - and it is also possible that the religious codes they had could also be the same, or similar. Let us bear in mind that, according to some historical narratives, there is a gap of two thousand six hundred and forty years between them, and there was no prophet except Sayyidna Hud and Sayyidna Salih (علیہ السلام) during this period. (Kashshaf, p. 48, v. 4)

خلاصہ تفسیر اور نوح (علیہ السلام) کے طریقہ والوں میں سے (یعنی ان لوگوں میں سے جو اصولی عقائد میں نوح (علیہ السلام) کے ساتھ متفق تھے) ابراہیم بھی تھے (ان کا وہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے) جب کہ وہ اپنے رب کی طرف صاف دل سے متوجہ ہوئے (صاف دل کا مطلب یہ کہ ان کا دل بد عقیدگی اور دکھلاوے کے جذبہ سے پاک تھا) جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے (جو بت پرست تھی) فرمایا کہ تم کس (واہیات) چیز کی عبادت کیا کرتے ہو ؟ کیا جھوٹ موٹ کے معبودوں کو اللہ کے سوا (معبود بنانا) چاہتے ہو تو تمہارا رب العالمین کے ساتھ کیا خیال ہے، (یعنی تم نے جو اس کی عبادت ترک کر رکھی ہے تو کیا اس کے معبود ہونے میں کوئی شبہ ہے ؟ یعنی اول تو ایسا نہ ہونا چاہئے اور اگر کوئی شبہ ہے تو اسے رفع کرلو۔ غرض یوں ہی بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا، ایک بار کا واقعہ ہے کہ ان کا کوئی تہوار آیا، قوم نے ان سے بھی درخواست کی کہ ہمارے میلہ میں چلو) سو ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کو ایک نگاہ بھر کر دیکھا اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہونے کو ہوں (اس لئے میلہ میں نہیں جاسکتا) غرض وہ لوگ (ان کا یہ عذر سن کر) ان کو چھوڑ کر چلے گئے (کہ ناحق بیماری میں ان کو اور ان کی وجہ سے اوروں کو تکلیف ہوگی) تو یہ (یعنی ابراہیم علیہ السلام) ان کے بتوں میں جا گھسے اور (استہزاء کے طور پر ان سے) کہنے لگے کیا تم (یہ چڑھاوے جو تمہارے سامنے رکھے ہیں) کھاتے نہیں ہو (اور) تم کو کیا ہوا تم بولتے بھی نہیں ؟ پھر ان پر قوت کے ساتھ جا پڑے اور مارنے لگے (اور کلہاڑی وغیرہ سے ان کو توڑ پھوڑ دیا) سو (ان لوگوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو) وہ لوگ ان کے پاس دوڑتے ہوئے (گھبرائے ہوئے غصہ میں) آئے اور (گفتگو شروع ہوئی) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جن کو خود (اپنے ہاتھ سے) تراشتے ہو (تو جو تمہارا محتاج ہو وہ خدا کیا ہوگا ؟ ) حالانکہ تم کو اور تمہاری بنائی ہوئی ان چیزوں کو (سب کو) اللہ ہی نے پیدا کیا ہے (سو عبادت اسی کی کرنا چاہئے) وہ لوگ (جب مناظرہ میں مغلوب ہوئے تو جھلا کر باہم) کہنے لگے کہ ابراہیم کے لئے ایک آتش خانہ تعمیر کرو (اور اس میں آگ دہکا کر) ان کو اس دہکتی آگ میں ڈال دو ، غرض ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ برائی کرنی چاہی تھی (کہ یہ ہلاک ہوجائیں گے) سو ہم نے انہی کو نیچا دکھایا (جس کا قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے) ۔ معارف ومسائل حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے دو واقعے ذکر کئے ہیں، دونوں واقعے ایسے ہیں جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے محض اللہ کے واسطے عظیم قربانیاں پیش کیں۔ ان میں سے پہلا واقعہ جو مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا واقعہ ہے، اور اس کی تفصیلات سورة انبیاء میں گزر چکی ہیں، البتہ یہاں جس انداز میں اس کو بیان کیا گیا ہے اس میں چند باتیں تشریح طلب ہیں۔ وان من شیعتہ لابرھیم، شیعة عربی زبان میں اس گروہ یا جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد بنیادی نظریات اور طور طریق میں یکساں ہوں۔ اور یہاں ظاہر یہی ہے کہ شیعتہ کی ضمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پیش رو نبی حضرت نوح (علیہ السلام) کے طریقے پر تھے، اور بنیادی اصول دین میں دونوں کا مکمل اتفاق تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کی شریعتیں بھی یکساں یا ملتی جلتی ہوں۔ واضح رہے کہ بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس سال کا وقفہ ہے، اور دونوں کے درمیان حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہما السلام) کے سوا کوئی اور نبی نہیں ہوا۔ (کشاف، ص ٨٤ ج ٤)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِہٖ لَاِبْرٰہِيْمَ۝ ٨٣ۘ شيع الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] . ( ش ی ع ) الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣{ وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰہِیْمَ } ” اور اسی کی جماعت میں سے ابراہیم (علیہ السلام) بھی تھا۔ “ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسی دین حق اور نظریہ توحید کے پیروکار تھے جس پر حضرت نوح (علیہ السلام) کاربند تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت سام کی نسل سے تھا۔ اسی طرح قوم عاد اور قوم ثمود بھی سامی النسل تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش شہر اُر میں ہوئی جو موجودہ عراق کے جنوبی علاقے میں اپنے وقت کا مشہور شہر تھا۔ اس شہر کے کھنڈرات دریافت ہوچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ ٩٥۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے من شیعۃ کی تفسیر میں من اھل دینہ ٢ ؎ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے دین والوں میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم کو حنیف اور ملت ابراہیمی کو حنیفی کہتے ہیں۔ حنیف کے معنی ایک طرف کا ہوجانا حضرت ابراہیم نے شرک سے بیزار ہو کر اپنے وطن کو، باپ کو اور قوم کو چھوڑا اور اللہ کی وحدانیت کو ہاتھ سے نہ دیا۔ اس لئے حضرت ابراہیم کا یہ لقب ہو۔ حضرت ابراہیم اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصہ ملتا جلتا ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم کی طرح نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی توحید کی حفاظت میں وطن کو قوم کو سب کو چھوڑنا پڑا۔ اور پھر جس طرح ہجرت کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کا بول بالا ہوا۔ وہی حال ہجرت کے بعد نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ قلب سلیم کا بھی وہی مطلب ہے جو حنیف کا ہے۔ کہ حضرت ابراہیم کا دل شرک کے دھبہ سے بالکل پاک صاف تھا صحیح بخاری ٣ ؎ میں نعمان (رض) بن بشیر سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آدمی کے بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جس کو دل کہتے ہیں۔ اگر وہ درست ہے تو آدمی کے سب کام درست ہیں۔ نہیں تو کچھ بھی نہیں مطلب یہ ہے۔ کہ شریعت میں نیک عمل کا ثواب نیت پر موقوف ہے اور نیت دلی ارادہ کا نام ہے۔ اس واسطے جس شخص کا دلی ارادہ درست نہیں۔ اس کا کوئی نیک عمل بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں جس طرح مثلاً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے منافق دکھاوے کے لئے سب نیک عمل کرتے تھے۔ لیکن ان کے دل میں کھوٹ تھی۔ اس لئے قرآن شریف میں جگہ جگہ ان کی مذمت آئی ہے۔ غرض شریعت میں قلب سلیم کی جس قدر ضرورت ہے۔ اس کا حال اس حدیث سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا قصہ مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔ سورة الانبیاء میں اس قصہ کی زیادہ تفصیل گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر اور قوم کے لوگوں کے رو برو بت پرستی کی مذمت بیان کی جب ان لوگوں پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دبی ہوئی آواز سے یہ قسم کھائی کہ کبھی موقعہ پا کر میں ان بتوں کا پورا علاج کروں گا۔ اب سال بھر میں ایک میلہ بستی کے باہر ہوا کرتا تھا۔ جس میں بستی کے سب لوگ جاتے تھے اور میلہ میں جاتے وقت کچھ کھانا پکا کر بت خانہ میں رکھ جاتے تھے۔ اور میلہ میں سے پلٹ کر جب آیا کرتے تو وہ کھانا کھالیتے۔ اس قصہ کے سال جب یہ لوگ جانے لگتے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیماری کا عذر کرکے بستی میں رہ گئے اور ان لوگوں کے بستی کے باہر چلے جانے کے بعد بت خانہ کو اکیلا پا کر بت خانہ میں گئے۔ اور بتوں کے سامنے کہاں دھرا ہوا دیکھ کر پہلے تو دل لگی کے طور پر بتوں سے یہ کہا کہ تم یہ کھانا کیوں نہیں کھاتے۔ جب بتوں نے اس کا جواب کچھ نہیں دیا۔ تو پھر ان بتوں سے یہ کہا کہ تم بولتے کیوں نہیں۔ اس کے بعد سب میں بڑے بت کو تو ثابت چھوڑ دیا۔ اور باقی سب چھوٹے بتوں کو توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جب یہ لوگ میلہ سے پلٹ کر آئے۔ اور بت خانہ میں عادت کے موافق کھانا لینے گئے تو بتوں کو ٹوٹا ہوا پا کر آپس میں چرچا کرنے لگے۔ کہ یہ کام کس نے کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے جب دبی ہوئی آواز سے وہ قسم کھائی تھی جس کا ذکر اوپر گزرا تو ان میں کے بعضے لوگوں نے حضرت ابراہیم کی وہ آواز سن لی تھی۔ اس واسطے ان لوگوں نے اس کام کا شبہ حضرت ابراہیم کی نسبت ظاہر کیا۔ اس پر ان لوگوں نے اس کی فریاد نمرود سے کی اور حضرت ابراہیم جب نمرود کے سامنے بلائے گئے تو انہوں نے یہ کہا کہ تم لوگ بڑے بت کے ساتھ ملا کر ان چھوٹے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اس لئے بڑے بت نے اس بات کو ناپسند کیا۔ اور چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا۔ اگر یہ بت کچھ بات کرسکتے ہیں تو ان سے پوچھ لیا جاوے۔ کہ ان کو کس نے توڑ ڈالا حضرت ابراہیم کی اس بات سے جب وہ لوگ قائل ہوئے۔ تو حضرت ابراہیم نے ان کو یوں بھی قائل کیا۔ کہ تم لوگ اپنے ہاتھ کے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہو۔ یہ کون سی عقل کی بات ہے اب آگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قلب سلیم کا بیان ہے۔ کہ انہوں نے شرک کی دلی بیزاری کے سبب سے اپنے باپ اور قوم کے لوگوں سے بت پرستی پر جھگڑا کیا اور کہا کہ اللہ نے تم کو تمہاری ضرورت کی سب چیزوں کو پیدا کیا پھر تم نے اس کو چھوڑ کر یہ جھوٹے معبود تراش رکھے ہیں۔ اس شرک کی حالت میں اگر تم مرگئے۔ تو اللہ کو کیا منہ دکھاؤ گے۔ اسی جھگڑے کے بعد ان لوگوں کا میلہ میں جانے کا وقت آگیا۔ اور ان لوگوں نے حضرت ابراہیم کو بھی میلے میں چلنے کو کہا۔ لیکن ان نجومی لوگوں کی زبان بند کرنے کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے تاروں کی طرف نگاہ کر کے بیمار ہوجانے کا عذر کیا۔ اور میلہ میں نہیں گئے۔ اب آگے وہی قصہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ کہ ان لوگوں کے میلے میں چلے جانے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) بت خانہ میں گئے اور ان لوگوں کے بتوں کو توڑ ڈالا اور بتوں کے توڑنے کا حال پوچھنے کے وقت ان لوگوں کو یوں قائل کیا کہ تم اپنے ہاتھ کے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہو۔ جو عقل سے بالکل بعید ہے۔ نجومی وہ فرقہ ہے جو تاروں میں برائی اور بھلائی پہنچانے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ قدیمی فلسفی لوگوں کا بھی یہی اعتقاد تھا۔ صحیح بخاری میں زید بن (رض) خالد جہنی سے اور صحیح مسلم ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تاروں میں کسی مستقل تاثیر کا اعتقاد رکھنا شرک ہے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی عمر میں دینی ضرورت سے یہ تین باتیں ایسی کی ہیں۔ جو ظاہر میں جھوٹ کی صورت کی ہیں ایک تو تاروں کو دیکھ کر انہوں نے بیماری کا عذر کیا۔ دوسرے انہوں نے یہ کہا کہ بڑے بت نے چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا۔ تیسرے انہوں نے ایک ظالم بادشاہ کے خوف سے اپنی بیوی سارہ کو اپنی بہن ظاہر کیا۔ یہ حدیث انی سقیم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات مناہی کے جھوٹ میں داخل نہیں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے وطن سے ہجرت کرکے ملک شام کو جا رہے تھے تو راستے میں ایک ظالم بادشاہ کی بستی ملی جو خوبصورت عورتوں کو بدکاری کی غرض سے پکڑوا لیا تھا۔ اور خوبصورت عورت کا شوہر ہو تو اسے قتل کرا دیتا تھا۔ خوبصورتی کے سبب سے جب اس ظالم بادشاہ کے آدمیوں نے حضرت سارہ کو پکڑا تو قتل کے صدمہ سے بچنے کے لئے ابراہیم نے اپنی بی بی کو اپنی دینی بہن ظاہر کیا۔ پورا قصہ یہ ہے کہ جب حضرت سارہ اس ظالم بادشاہ کے گھر پہنچیں اور اس نے بد ارادہ کیا تو وہ بےہوش ہو کر گر پڑا۔ اور اس نے حضرت سارہ سے تندرست ہوجانے کی دعا مانگنے کو کہا۔ جب ان کی دعا سے وہ ظالم اچھا ہوگیا تو اس نے حضرت سارہ کو چھوڑ دیا۔ اور حضرت ہاجرہ کو ان کی خدمت کے لئے دیا۔ ابوہریرہ (رض) کی جس روایت کا ذکر اوپر گزرا اس میں یہ قصہ تفصیل سے ہے۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٢ ج ٤‘ صحیح مسلم مع شرح نودی باب اخذالحلال و ترک الشبھات ص ٢٨ ج ٢۔ ) (٣ ؎ بخاری شریف کتاب الایمان فصل من استبراء لدنیہ ص ١٣ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی باب بیان کفر من قال مطرنا بنو کذا۔ ص ٥٩ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ عز و جل و اتخذا للہ ابراھیم خلیلا الخ۔ ص ٤٧٣ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:83) شیعتہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا گروہ ۔ اس کا فرقہ۔ شیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینے کے ہیں۔ مثلاً شاع الخبر۔ خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی اور شاع القوم قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی۔ الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے اردگرد پھیلے رہتے ہیں۔ یہاں آیت ہذا کا مطلب ہے :۔ کہ انہی (یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) ) کے پیروکاروں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے شیعہ کا اطلاق واحد، تثنیہ ، جمع، مذکر، مؤنث سب پر ہوتا ہے۔ اس کی جمع شیع اور اشیاع ہے۔ لابراہیم۔ لام تحقیق کے لئے ہے بمعنی بےشک۔ بلا شبہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 83 تا 98 : شیعۃ (کسی کے طریقے پر چلنے والا) قلب سلیم ( پاک صاف دل ) اء فکا (کیا تم گھڑتے ہو) النجوم (نجم) ( ستارے) سقیم (بیمار ، طبیعت کا خراب ہونا) مد برین ( پیٹھ پھیرنے والے) راغ ( وہ گھس گیا) لا تنطقون ( تم بات نہیں کرتے ہو) یمین (داہنا ہاتھ ، طاقت و قوت) یزقون (وہ دوڑتے ہیں) تنحتون (تم تراشتے ہو) بنیان ( عمارت ، جگہ) القوا (ڈالو) اسفلین (نیچے ہونے والے) تشریح : آیت نمبر 83 تا 98 :۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سال تک اپنی قوم کو کفر و شرک سے بچانے اور خالص توحید پر لانے کی دن رات جدوجہد کی ۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک ایک نسل سے دوسری نسل تک آپ نے اپنی قوم کو ہر طرح سمجھایا کہ وہ کفر و شرک اور خود اپنے ہاتھ سے گھڑے ہوئے معبودوں کی عبادت و بندگی نہ کریں ۔ لیکن سوائے کچھ لوگوں کے ساری قوم نے ان کا مذاق اڑایا ۔ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے رہے۔ آخر کار حضرت نوح (علیہ السلام) کے منہ سے اس قوم کے لئے بد دعا نکل گئی اور اس پوری قوم کو پانی کے زبردست طوفان کے ذریعہ غرق کردیا گیا ۔ فرمایا کہ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے پوری زندگی دین کی سچائیوں کو قائم کرنے کی جدوجہد کی اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ان ہی کے طریقے پر تھے جنہوں نے ایک خوش حال اور معاشرہ میں ایک باعزت گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے معبودوں اور چاند ، سورج اور ستاروں کی عبادت و بندگی کر رہے ہیں تو ان کے قلب سلیم سے یہی ایک آواز بلند ہوئی کہ یہ سب کچھ جو یہ لوگ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ ان سب چیزوں کو جس نے پیدا کیا ہے وہی معبود ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ جب یہی بات انہوں نے اپنے والد اور قوم کے لوگوں سے کہی تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور ان باتوں کو دیوانگی قرار دیا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس بات کو اور بتوں کی بےحقیقی کو ظاہر کرنے کے لئے بےچین رہا کرتے تھے ۔ پوری قوم شہر سے باہر جا کر اپنا سالانہ جشن منایا کرتی تھی جب سب لوگ جانے لگے تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی کہا کہ وہ ان کے ساتھ چلنے چلیں مگر آپ نے طبیعت کی نا سازی کا بہانہ بنا کر کہا کہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ جب پوری قوم کے لوگ اپنی بد مستیوں اور میلے کی رنگینوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک ہتھوڑا لے کر ان لوگوں کے بت خانے میں پہنچ گئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے بتوں کے سامنے طرح طرح کے کھانے رکھے ہوئے ہیں انہوں نے ان بتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تم کھاتے کیوں نہیں ؟ پھر ہتھوڑا لے کر بتوں کو توڑنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ تم بولتے کیوں نہیں ؟ اور اس طرح تمام چھوٹے بڑے بتوں کو مٹی میں ملا کر بڑے بت کے ہاتھ میں ہتھوڑا دے کر گھر آگئے۔ جب پوری قوم اپنے میلے اور جشن سے واپس آئی اور انہوں نے اپنے بتوں کا یہ حشر دیکھا تو وہ کانپ اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ان بتوں کی مخالفت کرنے والا تو ایک ہی شخص ہے اور وہ ہے آذر کا بیٹا ابراہیم ، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا گیا کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) تم نے ہمارے بتوں کا یہ حال کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مذاق اڑاتے ہوئے فرمایا کہ یہ بڑا بت جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے اس سے پوچھو ان کا مقصد یہ تھا کہ شاید اس بڑے بت کو چھوٹے بتوں پر کسی بات پر غصہ آگیا ہوگا ۔ اور اس نے چھوٹے بتوں کی گت بنا کر رکھ دی ۔ سچ تو سچ ہی ہوتا ہے یہ سن کر ان بتوں سے خود پوچھ لو کہ ان کو کس نے توڑا ہے تو وہ شرمندہ ہوگئے اور انہوں نے ایک ہنگامہ برپا کردیا اور کہا کہ اس کو پکڑو ۔ لکڑیاں جمع کر کے آگ لگائو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں جھونک دو تا کہ آئندہ کسی کو ہمارے بتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت و ہمت نہ ہو ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت فرمایا کہ تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں سے تم اپنے ہاتھوں سے اپنے معبود بناتے ہو اور پھر ان کے سامنے جھک جاتے ہو اور اپنی مرادیں پوری ہونے کی توقع رکھتے ہو حالانکہ یہ ساری قدرت اللہ کی ہے وہی سب کو دینے والا ہے۔ پھر پوری قوم نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لکڑیوں کا ڈھیر لگا دیا اور ان کو آگ لگا دی جب آگ خوب دھک اٹھی تو کسی طرح انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اٹھا کر اس آگ کے درمیان میں پھینک دیا ۔ ادھر انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا ادھر اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ” اے آگ ابراہیم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا “ ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب ان لوگوں نے مجھے آگ میں پھینکا تو وہ آگ میرے لئے ایک بہترین باغیچہ بن گئی اور مجھے ان سات دنوں میں جتنا آرام ، سکون اور دلی اطمینان نصیب ہوا اتنا زندگی میں کبھی حاصل نہ ہوسکا ۔ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے سورة الانعام ، سورة العنکبوت اور سورة الشعراء میں بھی بیان فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے پوری زندگی ایثار و قربانی کر کے دن رات دین اسلام کی سچائیوں کی جدوجہد کی اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ہر طرح کی کاوشیں کیں ۔ آگ سے خیر و عافیت سے نکل کر آپ نے عراق کو چھوڑ کر فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی اور پھر پوری زندگی اس قورے علاقے کے چپے چپے پر یہاں تک کہ حجاز مقدس تک آپ نے سفر کئے اور دنیا بھر کو توحید خالص کی تعلیم دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کے نقش قدم پر چلنے اور ساری دنیا میں اسی توحید کے پرچم کو بلند کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بقیہ واقعہ اور قربانیوں کی تفصیلات اس کے بعد کی آیات میں بیان کی گئی ہیں ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد کئی پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ ان میں سب سے نمایاں ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت گرامی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی دعوت کے ساتھ مبعوث کیے گئے جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے پیروکار انبیاء کرام دیا کرتے تھے۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف یوں کروایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اسی مقدس جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ جن کا تعلق حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ہے۔ حضرت ابراہیم کو جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم دیا یا کسی آزمائش میں ڈالا تو وہ دل وجان سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں خراج تحسین سے نوازا ہے جب ابر اہیم قلب سلیم کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جس میں اللہ کے سوا کسی کی محبت غالب نہ ہو اور وہ ہر حال میں بلا شرکت غیرے اپنے رب کی سمع و اطاعت کے لیے تیار رہے۔ قلب سلیم کی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ، قوم اور حکمرانوں کی مخالفت مول لی اور آگ میں جانا گوارا کرلیا۔ مگر اپنے رب کے ساتھ کسی قسم کا شرک گوارا نہ کیا قلب سلیم کی بدولت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا وطن چھوڑا۔ قلب سلیم کی بنیاد پر ہی انہوں اپنی رفیقہ حیات اور نونہال کو عرب کے ویرانے میں چھوڑا تھا اور اسی قلب سلیم کی بنیاد پر ہی انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے حل قوم نازک پر چھری چلائی۔ اسی قلب سلیم کی وجہ سے انہوں نے بتوں کو پاش پاش کیا تھا۔ (عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ قَلْبًا سَلِیمًا وَلِسَانًا صَادِقًا)[ روا النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَاءِ ] ” شدّاد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تجھ سے قلب سلیم، صدق لسان کا سوال کرتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے قلب سلیم کی دعا کرنی چاہیے۔ ٢۔ قلب سلیم والاشخص ہی جنت میں داخل ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان من شیعتہ ۔۔۔۔۔ ظنکم برب العلمین (83 – 87) یہ اس قصے کا آغاز ہے اور قصے کے اندر پہلا منظر ہے۔ نوح سے اب ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک آگئے۔ ان دونوں انبیاء کی دعوت ، نظریہ اور منہاج دعوت ایک ہے۔ اگرچہ دونوں کے درمیان زمان و مکان کے فاصلے ہیں لیکن دونوں ایک ہی گروہ کے لوگ ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کا دبا ہوا نظام زندگی ایک ہے۔ اور اس زاویہ سے یہ دونوں باہم مربوط ہیں اور ان کا تعلق ایک ہی سلسلہ سے ہے جس میں وہ باہم شریک ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینا اور بتوں کو توڑ دینا پھر آگ میں ڈالا جانا اور صحیح سالم محفوظ رہ جانا یہاں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے، ارشاد فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا اتباع کرنے والوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی تھے۔ اتباع کا مطلب کیا ہے ؟ اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان دونوں کی شریعتوں میں اصول دین میں تو اتفاق تھا ہی احکام میں بھی اکثر اتفاق تھا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعوت کے کام میں بہت محنت کی اور تکلیفیں برداشت کیں اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی جم کر دعوت کا کام کیا اور بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں، حتیٰ کہ آگ میں ڈالے گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ وان من الخ : یہ دوسرا قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے نہایت ہی مطیع اور فرمانبردار بندے تھے۔ ان پر زندگی میں ایک نہایت ہی کٹھن وقت آیا۔ جب وقت کے بادشاہ نے انہیں آگ میں ڈالدیا۔ اس نازک وقت میں انہوں نے اللہ ہی کے سامنے عاجزی کی۔ اور اللہ ہی سے اس مصیبت سے نجات کی دعا کی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا لیا اور آگ کو ان پر سرد کردیا اس لیے وہ بھی خدا کے یہاں شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ من شیعتہ یعنی وہ اصول دین میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے ہمنوا اور تابع تھے۔ قال ابن عباس ای من اھل دینہ (قرطبی ج 15 ص 91) ای ممن شایع نوحا و تابعہ فی اصول الدین (روح ج 23 ص 99) درمیان میں ان کی فرمانبرداری کا قصہ بیان کیا کہ وہ اس قدر اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے کہ اس کی راہ میں بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہوگئے۔ قلب سلیم۔ جو دل کے عقیدے اور اخلاق کی خرابی سے محفوظ ہو۔ اور اس کا اصل رشتہ دنیا کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو، وہ قلب سلیم ہے۔ سلیم ای مخلص من الشرک والشک (قرطبی) ای سالم من جمیع الافات کفساد العقائد والنیات السیئۃ والصفات القبیحۃ کالحسد والغل وغیر ذلک (روح ج 23 ص 100) سلیم من الاشتغال بغیر اللہ تعالیٰ خالیا عن الغیر و حبہ کما یدل علیہ قصۃ ذبح ابنہ لامتثال امر ربہ (مظہری ج 8 ص 121) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(83) اورنوح کے طریقے پر چلنے والوں میں سے ابراہیم بھی تھا۔ یعنی جس طرح تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام عقائد دینیہ کے اصول میں ایک دوسرے کے موافق ہوتے ہیں اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی عقائد میں انہی عقائد کے پابند تھے جو عقائد حضرت نوح (علیہ السلام) کے تھے یعنی توحید، بعثت قیامت وغیرہ میں وہی خیالات حضرت ابراہیم کے بھی تھے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت نوح کے درمیان حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہم السلام) دومشہور پیغمبر گزرے ہیں حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے مابین کہتے ہیں کہ دو ہزار چھ سو چھیالیس برس کا زمانہ گزرا ہے۔ (واللہ اعلم)