Commentary After having related the event concerning Sayyidna Nuh (علیہ السلام) the Qur&an mentions two events from the blessed life of Sayyidna Ibrahim ill. Both events highlight the great sacrifices Sayyidna Ibrahim offered for the sake of Allah alone. Out of these, the first event mentioned in the verses cited above relates to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) being thrown into the fire. Its details have already appeared in Surah Al-Anbiya& (21: 51-70). Yet, the way it has been described at this place, it needs some explanatory notes that appear below. The word: شِيعَتِهِ (shi&ah) in verse 83: وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ (And certainly from his adherents was Ibrahim.) is used in the Arabic language for a group or party the individuals from which are similar to each other in basic concepts and methods - and here it is obvious that the pronoun in: شِيعَتِهِ (shi&atihi) is reverting to Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . Therefore, it would mean that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) adhered to the way of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) the prophet preceding him, and that there was a perfect agreement between them on the basic principles of faith - and it is also possible that the religious codes they had could also be the same, or similar. Let us bear in mind that, according to some historical narratives, there is a gap of two thousand six hundred and forty years between them, and there was no prophet except Sayyidna Hud and Sayyidna Salih (علیہ السلام) during this period. (Kashshaf, p. 48, v. 4)
خلاصہ تفسیر اور نوح (علیہ السلام) کے طریقہ والوں میں سے (یعنی ان لوگوں میں سے جو اصولی عقائد میں نوح (علیہ السلام) کے ساتھ متفق تھے) ابراہیم بھی تھے (ان کا وہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے) جب کہ وہ اپنے رب کی طرف صاف دل سے متوجہ ہوئے (صاف دل کا مطلب یہ کہ ان کا دل بد عقیدگی اور دکھلاوے کے جذبہ سے پاک تھا) جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے (جو بت پرست تھی) فرمایا کہ تم کس (واہیات) چیز کی عبادت کیا کرتے ہو ؟ کیا جھوٹ موٹ کے معبودوں کو اللہ کے سوا (معبود بنانا) چاہتے ہو تو تمہارا رب العالمین کے ساتھ کیا خیال ہے، (یعنی تم نے جو اس کی عبادت ترک کر رکھی ہے تو کیا اس کے معبود ہونے میں کوئی شبہ ہے ؟ یعنی اول تو ایسا نہ ہونا چاہئے اور اگر کوئی شبہ ہے تو اسے رفع کرلو۔ غرض یوں ہی بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا، ایک بار کا واقعہ ہے کہ ان کا کوئی تہوار آیا، قوم نے ان سے بھی درخواست کی کہ ہمارے میلہ میں چلو) سو ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کو ایک نگاہ بھر کر دیکھا اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہونے کو ہوں (اس لئے میلہ میں نہیں جاسکتا) غرض وہ لوگ (ان کا یہ عذر سن کر) ان کو چھوڑ کر چلے گئے (کہ ناحق بیماری میں ان کو اور ان کی وجہ سے اوروں کو تکلیف ہوگی) تو یہ (یعنی ابراہیم علیہ السلام) ان کے بتوں میں جا گھسے اور (استہزاء کے طور پر ان سے) کہنے لگے کیا تم (یہ چڑھاوے جو تمہارے سامنے رکھے ہیں) کھاتے نہیں ہو (اور) تم کو کیا ہوا تم بولتے بھی نہیں ؟ پھر ان پر قوت کے ساتھ جا پڑے اور مارنے لگے (اور کلہاڑی وغیرہ سے ان کو توڑ پھوڑ دیا) سو (ان لوگوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو) وہ لوگ ان کے پاس دوڑتے ہوئے (گھبرائے ہوئے غصہ میں) آئے اور (گفتگو شروع ہوئی) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جن کو خود (اپنے ہاتھ سے) تراشتے ہو (تو جو تمہارا محتاج ہو وہ خدا کیا ہوگا ؟ ) حالانکہ تم کو اور تمہاری بنائی ہوئی ان چیزوں کو (سب کو) اللہ ہی نے پیدا کیا ہے (سو عبادت اسی کی کرنا چاہئے) وہ لوگ (جب مناظرہ میں مغلوب ہوئے تو جھلا کر باہم) کہنے لگے کہ ابراہیم کے لئے ایک آتش خانہ تعمیر کرو (اور اس میں آگ دہکا کر) ان کو اس دہکتی آگ میں ڈال دو ، غرض ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ برائی کرنی چاہی تھی (کہ یہ ہلاک ہوجائیں گے) سو ہم نے انہی کو نیچا دکھایا (جس کا قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے) ۔ معارف ومسائل حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے دو واقعے ذکر کئے ہیں، دونوں واقعے ایسے ہیں جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے محض اللہ کے واسطے عظیم قربانیاں پیش کیں۔ ان میں سے پہلا واقعہ جو مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا واقعہ ہے، اور اس کی تفصیلات سورة انبیاء میں گزر چکی ہیں، البتہ یہاں جس انداز میں اس کو بیان کیا گیا ہے اس میں چند باتیں تشریح طلب ہیں۔ وان من شیعتہ لابرھیم، شیعة عربی زبان میں اس گروہ یا جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد بنیادی نظریات اور طور طریق میں یکساں ہوں۔ اور یہاں ظاہر یہی ہے کہ شیعتہ کی ضمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پیش رو نبی حضرت نوح (علیہ السلام) کے طریقے پر تھے، اور بنیادی اصول دین میں دونوں کا مکمل اتفاق تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کی شریعتیں بھی یکساں یا ملتی جلتی ہوں۔ واضح رہے کہ بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس سال کا وقفہ ہے، اور دونوں کے درمیان حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہما السلام) کے سوا کوئی اور نبی نہیں ہوا۔ (کشاف، ص ٨٤ ج ٤)