Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 89

سورة الصافات

فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ﴿۸۹﴾

And said, "Indeed, I am [about to be] ill."

اور کہا میں تو بیمار ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then he cast a glance at the stars, And he said: "Verily, I am sick." Ibrahim, peace be upon him, said this to his people so that he could stay behind in the city when they went out for their festival. The time was approaching for them to go out to celebrate a festival of theirs, and he wanted to be alone with their gods so that he could break them, so he told them something that was true, for he was indeed sick of the implications of what they believed in. فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 آسمان پر غور و فکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی ہی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں مؤثر مانتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ (یعنی توڑ پھوڑ دیا جاسکے) ۔ چناچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائیگی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کا ایک مستقل روگ تھا جسے دیکھ وہ کڑتے رہتے تھے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورة انبیاء۔ 63 میں گزر چکی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ : یہ ایسی بات تھی جو درحقیقت سچی تھی، کیونکہ عموماً آدمی کی طبیعت کچھ نہ کچھ خراب ہوتی ہے، مگر قوم نے اس کا مطلب کچھ اور سمجھا (کہ وہ جانے کے قابل نہیں ہیں) جس سے ابراہیم (علیہ السلام) اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایسی باتوں کو جن میں کہنے والے کی نیت کچھ ہو اور سننے والا کچھ اور سمجھے ” معاریض “ کہتے ہیں، جن کے ساتھ آدمی صریح جھوٹ سے بچ جاتا ہے۔ صحیح بخاری (٣٣٥٨) میں ابراہیم (علیہ السلام) کی ” ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ “ والی حدیث پر مفصل بحث کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٦٢، ٦٣) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ۝ ٨٩ سقم السَّقَمُ والسُّقْمُ : المرض المختصّ بالبدن والمرض قد يكون في البدن وفي النّفس، نحو : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [ البقرة/ 10] ، وقوله تعالی: إِنِّي سَقِيمٌ [ الصافات/ 89] فمن التّعریض، أو الإشارة إلى ماض، وإمّا إلى مستقبل، وإمّا إلى قلیل ممّا هو موجود في الحال، إذ کان الإنسان لا ينفكّ من خلل يعتريه وإن کان لا يحسّ به، ويقال : مکان سَقِيمٌ ، إذا کان فيه خوف . ( س ق م ) السقم والسقم خاص کر جسمانی بیماری کو کہتے ہیں بخلاف مرض کے کہ وہ جسمانی اور قلبی دونوں قسم کی بیماریوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي سَقِيمٌ [ الصافات/ 89] اور کہا میں تو بیمار ہوں ۔ میں سقیم کا لفظ یا تو تعریض کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یا زمانہ ماضی یا مستقبل کی طرف اشارہ کے لئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس ہلکی سی بدنی تکلیف کی طرف اشارہ ہو جو اس وقت ان کو عارض تھی ۔ کیونکہ انسان بہر حال کسی نہ کسی عارضہ میں مبتلا رہتا ہے اگر چہ وہ اسے محسوس نہ کرے اور خوف ناک جگہ کو مکان سقیم کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩{ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ } ” پھر کہا کہ میں تو بیمار ہوں۔ “ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ‘ یا یہ کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ مجھ پر بیماری آنے والی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم میں بت پرستی بھی عام تھی اور ستارہ پرستی بھی۔ ان کے ہاں ہندوئوں کے جنم اشٹمی کے میلے کی طرز پر سالانہ ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس موقع پر شہر کے تمام لوگ باہر کھلے میدان میں جا کر کسی ستارے کی پرستش کیا کرتے تھے۔ چناچہ جب جشن کا دن آیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میری تو طبیعت خراب ہے ‘ میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ اس طرح آپ ( علیہ السلام) پیچھے رہ گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49 This is one of those three things concerning which it is said that the Prophet Abraham had told three lies in his life, whereas it should be ascertained before declaring it a lie, or anything contrary to fact, whether the Prophet Abraham at that time was not suffering from any illness, and therefore, he had trade this excuse only as a pretence. If there is no proof, there is no reason why it should be regarded as a lie. For a detailed discussion, please refer to E.N. 60 of Surah Al-Anbiya`and Rasa 'il-o-Masa'il, vol. II, pp. 35 to 39.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :49 یہ ان تین باتوں میں سے ایک ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں یہ تین جھوٹ بولے تھے ۔ حالانکہ اس بات کو جھوٹ ، یا خلاف واقعہ کہنے کے لیے پہلے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ تھی اور انہوں نے محض بہانے کے طور پر یہ بات بنا دی تھی ۔ اگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو خواہ مخواہ اسے جھوٹ آخر کس بنا پر قرار دے دیا جائے ۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہم تفہیم القرآن جلد سوم ( صفحہ 167 ۔ 168 ) میں کر چکے ہیں ، اور مزید بحث رسائل و مسائل ، جلد دوم ( صفحہ 35 تا 39 ) میں کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: ان کی قوم کے لوگ انہیں اپنے ایک میلے میں لے جانا چاہتے تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک تو میلے میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے، دوسرے ان کے دل میں یہ ارادہ تھا کہ جب یہ سارے لوگ میلے میں چلے جائیں گے، اور مندر خالی ہوگا تو وہ وہاں جا کر بتوں کو توڑ پھوڑ دیں گے، تاکہ یہ لوگ آنکھوں سے ان بتوں کی بے بسی کا منظر دیکھیں جنہیں انہوں نے خدا بنا رکھا ہے۔ اس لیے انہوں نے عذر کیا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ واقعی ان کے مزاج ناساز ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ تمہارے کفر و شرک کی حرکتیں دیکھ کر میری طبیعت روحانی طور پر خراب ہوتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:89) انی سقیم۔ میں سقیم سقم سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ دکھی، بیمار۔ مضمحل، ناساز، محاورۃ بیزار کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ السقم والسقم خاص کر جسمانی بیماری کو کہتے ہیں۔ بخلاف مرض کے کہ وہ جسمانی وقلبی دونوں قسم کی بیماریوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فی قلوبہم مرض (2:10) ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ فقال انی سقیم میں لفظ سقیم یا تو تعریض کے طور پر (کنایۃ) استعمال ہوا ہے یا زمانہ ماضی یا مستقبل کی طرف اشارہ کے لئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ہلکی سی بدنی تکلیف کی طرف اشارہ ہو جو اس وقت ان کو عارض تھی کیونکہ انسان بہرحال کسی نہ کسی عارجہ میں مبتلا ہی رہتا ہے اگرچہ وہ اسے محسوس نہ کرے۔ انی سقیم کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ میں بیزار ہوں جیسا کہ انگریزی کہتے ہیں میں اس سے بیزار ہوں۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مطلب یہ ہو کہ میں تمہارے غلط عقائد سے بیزار ہوں لیکن مخاطبین نے اس سے علیل کا مطلب لے لیا ہو۔ الفاظ کا اس طرح ذومعنی استعمال عام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 یا ” میں بیمار ہونے والا ہوں “ یا ” میں بیمارہوں “ کیونکہ دنیا میں ہر شخص کو کوئی نہ کوئی عارضہ ہوتا ہی ہے اور قوم کی حالت دیکھ کر جو کڑھتے تھے وہ بھی اپنی جگہ ایک تکلیف تھی۔ بہرحال حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے توریہ کیا جو اگرچہ جائز ہے مگر اپنی ظاہری صورت میں چونکہ جھوٹ ہوتا ہے اس لئے حدیث میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے اس قول ( انی سقیم) کو تین جھوٹوں میں سے ایک شمار کیا ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں اللہ کی خاطر ایک عظیم تر مقصد کے لئے بولے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ ایک جھوٹ ہے اللہ کی راہ میں عذاب نہیں ثواب ہے۔ ) (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ ستاروں کا دیکھنا بطور ایہام و توریہ کے تھا کہ وہ تو بوجہ اس کے کہ کواکب کو متصرف فی الحوادث سمجھتے تھے یوں سمجھے کہ کوئی فائدہ نجوم کے آتا ہوگا جس سے رفتار ستاروں کی دیکھ کر ان کو معلوم ہوگیا کہ میں تھوڑی دیر میں بیمار ہوجاوں گا۔ اور چونکہ وہ نجوم کے معتقد تھے اس لئے اصرار نہیں کیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(89) اور فرمایا میں بیمار ہونے والا ہوں۔