Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 9

سورة الصافات

دُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۙ﴿۹﴾

Repelled; and for them is a constant punishment,

بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

دُحُورًا ... Outcast, means, they are rejected, and are repelled and prevented from reaching it, and they are pelted. ... وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ and theirs is a constant torment. means, in the Hereafter, they will have an ongoing, everlasting and painful torment, as Allah says: وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ and (We) have prepared for them the torment of the blazing Fire. (67:5)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ:” دَحَرَ یَدْحَرُ دَحْرًا وَ دُحُوْرًا “ (ف) بھگانا، دفع کرنا۔ ” وَّاصِبٌ“ ” وَصَبَ یَصِبُ وُصُوْبًا “ (ض) دائمی ہونا۔ یعنی ان کے لیے دائمی عذاب ہے، کیونکہ دنیا میں بھگانے کے لیے ان پر شہاب پھینکے جاتے ہیں اور آخرت میں جہنم کا عذاب اس کے علاوہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

دُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۝ ٩ۙ دحر الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] . ( د ح ر ) الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف/ 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینگے جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا وصب الوَصَبُ : السّقمُ اللّازم، وقد وَصِبَ فلانٌ فهو وَصِبٌ ، وأَوْصَبَهُ كذا فهو يَتَوَصَّبُ نحو : يتوجّع . قال تعالی: وَلَهُمْ عَذابٌ واصِبٌ [ الصافات/ 9] ، وَلَهُ الدِّينُ واصِباً [ النحل/ 52] . فتوعّد لمن اتّخذ إلهين، وتنبيه أنّ جزاء من فعل ذلک عذاب لازم شدید، ويكون الدّين هاهنا الطّاعة، ومعنی الوَاصِبِ الدّائم . أي : حقّ الإنسان أن يطيعه دائما في جمیع أحواله، كما وصف به الملائكة حيث قال : لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [ التحریم/ 6] ويقال : وَصَبَ وُصُوباً : دام، ووَصَبَ الدّينُ : وجب، ومفازةٌ وَاصِبَةٌ: بعیدة لا غاية لها . ( و ص ب ) الواصب کے فلاں ( س ) فھوا وصیب کے معنی دائمی مرض میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ او صبہ کذا فھوا یتو صب اسے فلاں بیماری لگ گئی چناچہ وہ بیمار پڑگیا جیسے او جعۃ فھوا یتو جع قرآن میں ہے : ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ واصِبٌ [ الصافات/ 9] اور ان کے لئے عذاب دائمی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَهُ الدِّينُ واصِباً [ النحل/ 52] اور اسی کی عبادت لازم ہے ۔ میں اس شخص کے لئے وعید ہے جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرتا ہے کہ ایسے شخص کو دائمی عذاب کی سزا ملے گی ۔ اور یہاں دین بمعنی طاعت ہے اور واصب بمعنی دائم اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو ہر حالت میں ہمیشہ اسی کی عبادت کرنے چاہیئے جیسا کہ فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [ التحریم/ 6] جو ارشاد خدا ن کو فرماتا ہے اس کی نافر مانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں ۔ وصب وصوبا کسی چیز کا دائم اور ثابت رہنا ۔ وصب الدین قرض کا واجب اور لازم ہوجانا مفازۃ واصبۃ دور تک پھیلا ہوا بیابان جس کی انتہا نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ دُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۔ ” بھگانے کے لیے ‘ اور ان کے لیے (پھر) ایک دائمی عذاب ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:9) دحورا۔ دحر یدحر (فتح) کا مصدر ہے ، بھگانا۔ ہانکنا۔ دھتکارنا۔ یقذفون کا مفعول لہ ہے وقذف کی علت، ای یقذفون للدحور۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے۔ اخرج منھا مذء وما مدحورا (7:18) نکل جا یہاں سے ذلیل اور دھتکارا ہوا۔ عذاب واصب۔ موصوف وصفت واصب اسم فاعل واحد مذکر وصب یصب (ضرب) وصوبا مصدر سے جس کے معنی ہیں دائم رہنا۔ یعنی ہمیشہ رہنے والا۔ عذاب، دائمی عذاب۔ اسی مادہ سے وصب یوصب وصبا (سمع ) بمعنی بیمارہونا ہے۔ فائدہ : آیات 8 ۔ 9 ۔ میں لا یسمعون۔ یقذفون اور ولہم میں ضمیر جمع مذکر غائب کل شیطان (بمعنی الشطین) آیت 7) کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) ہنکانے کو اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ یعنی اول تو شیاطین کی یہ ہمت نہیں کہ وہ ملاء اعلیٰ یعنی فرشتوں کی باتیں سننے کو اوپر جاسکیں اور اگر جاتے ہیں تو ان کو ہنکانے کی غرض سے مار کر دھکے دیئے جاتے ہیں اور ان پر شعلے پھینکے جاتے ہیں یہ سلوک تو ان کے ساتھ اس عالم میں کیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے دائمی عذاب مقرر ہے۔ غرض ! ان کو یہ موقع حاصل نہیں کہ کچھ خبریں آسمانی فرشتوں کو حاصل کرسکیں اور کاہنوں کو بتاسکیں جو لوگ شیاطین کی بندگی کرتے ہیں ان کے لئے شیاطین کی یہ بےبسی اور بےچارگی موجب عبرت اور موجب غیرت ہے ۔ غرض ! یہ ہے کہ جب یہ اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو فرشتے ان کو دھکے دے کر ہنکادیتے ہیں یا تاروں کی روشنی اور گرمی سے مردود ومطرود کردیاجاتا ہے۔