Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 90

سورة الصافات

فَتَوَلَّوۡا عَنۡہُ مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۹۰﴾

So they turned away from him, departing.

اس پر وہ سب اس سے منہ موڑے ہوئے واپس چلے گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So they turned away from him and departed. Qatadah said, "The Arabs say of one who thinks deeply that he is looking at the stars." What Qatadah meant is that he looked at the heavens thinking of a way to distract his people. So he said, إِنِّي سَقِيمٌ (Verily, I am sick), meaning, weak. Ibn Jarir narrated here a Hadith from Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, stating that the Messenger of Allah said: لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ الصَّلَةُ وَالسَّلَمُ غَيْرَ ثَلَثَ كَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ فِي ذَاتِ اللهِ تَعَالَى قَوْلُهُ إِنِّى سَقِيمٌ : وَقَوْلُهُ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـذَا وَقَوْلُهُ فِي سَارَّةَ هِيَ أُخْتِي Ibrahim (peace and blessings be upon him) did not lie except in three cases. Two were for the sake of Allah: one is when he said, Verily, I am sick; and the second when he said, Nay, this one, the biggest of them (idols) did it. and the third when he said concerning (his wife) Sarah, "She is my sister." This Hadith is recorded in the books of the Sahih and Sunan with various chain of narrations. But this is not the kind of real lie for which a person is to be condemned -- Allah forbid! One calls it a lie for lack of a better word, because it is abstruse speech used for a legitimate religious purpose, and it was said that what was meant by the words, إِنِّي سَقِيم (Verily, I am sick) was, `I am sick at heart of your worshipping idols instead of Allah.' Al-Hasan Al-Basri said, "The people of Ibrahim went out to their festival and they wanted to make him go out too. So he lay down on his back and said, إِنِّي سَقِيمٌ (Verily, I am sick), and he started looking at the sky. When they had gone out, he turned to their gods and broke them." This was recorded by Ibn Abi Hatim. Allah said: فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ So they turned away from him and departed.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] قوم ابراہیم اور جشن نوروز :۔ جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا تو اس دن یہ قوم جشن نوروز مناتی تھی۔ اس پکنک کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع ہوگئیں۔ علی الصبح لوگوں نے اچھے اچھے کھانے پکائے کچھ کھائے کچھ مندروں میں بتوں کے سامنے نیاز کے طور پر رکھ دیئے۔ اور نور کے تڑکے میلہ میں شمولیت کے لئے روانہ ہونے لگے تو سیدنا ابراہیم کو اس میں شمولیت کی دعوت دی بلکہ ساتھ لے جانے پر اصرار کیا۔ سیدنا ابراہیم ان کی بےہودگیوں میں قطعا شامل نہ ہونا چاہتے تھے۔ آپ کو فوراً ایک ترکیب سوجھی جو قوم کے مزاج کے موافق تھی۔ آپ نے ستاروں میں نظر ڈالی پھر کہنے لگے کہ میں تو آج بیمار ہونے والا ہوں۔ قوم نے اپنے اعتقاد کے مطابق اس عذر کو معقول سمجھا اور انہیں چھوڑنے پر رضا مند ہوگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِيْنَ : تو وہ لوگ انھیں وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِيْنَ۝ ٩٠ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ، أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠{ فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ } ” تو وہ اس سے ِپھرگئے پیٹھ پھیرتے ہوئے۔ “ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چھوڑ کر وہ لوگ اپنی پوجا پاٹ کے لیے چلے گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50 This sentence by itself shows the real state of the affairs. It appears that the people might be going to sane fair of theirs. The family of the Prophet Abraham might have asked him also to accompany them. He might have excused himself, saying that he was indisposed, and therefore, could not go. Had it been something contrary to fact, the people of the house would have said: "You look perfectly normal: you are making a false excuse. But when they accepted his excuse and left him behind, it clearly shows that the Prophet Abraham must at that titre be suffering from cough and cold or sane other such visible illness on account of which the people of the house agreed to leave him behind.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :50 یہ فقرہ خود بخود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ صورت معاملہ دراصل کیا تھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے لوگ اپنے کسی میلے میں جا رہے ہوں گے ۔ حضرت ابراہیم کے خاندان والوں نے ان سے بھی ساتھ چلنے کو کہا ہو گا ۔ انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی ہو گی کہ میری طبیعت خراب ہے ، میں نہیں چل سکتا ۔ اب اگر یہ بات بالکل ہی خلاف واقعہ ہوتی تو ضرور گھر کے لوگ ان سے کہتے کہ اچھے خاصے بھلے چنگے ہو ، بلا وجہ بہانہ بنا رہے ہو ۔ لیکن جب وہ عذر کو قبول کر کے انہیں پیچھے چھوڑ گئے تو اس سے خود ہی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ضرور اس وقت حضرت ابراہیم کو نزلہ ، کھانسی ، یا کوئی اور ایسی ہی نمایاں تکلیف ہو گی جس کی وجہ سے گھر والے انہیں چھوڑ جانے پر راضی ہو گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:90) فتولوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے منہ موڑا۔ انہوں نے پشت پھیری تولی مصدر۔ المراد انہم ترکوہ وذھبوا انہوں نے اس کو چھوڑا۔ اور چلے گئے۔ مدبرین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب وجر۔ پیٹھ موڑنے والے ادبار (افعال) مصدر۔ ضمیر فاعل تولوا سے حال ہے۔ پیتھ موڑنے والے مطلب : پیٹھ دکھا کر چلتے بنے : راغ الی۔ راغ یروغ (نصر) روغ وروغان الی کے صلہ کے ساتھ۔ چپکے سے کسی طرف مائل ہونا۔ چپکے سے کسی کی طرف جانا اور علی کے صلہ کے ساتھ جملہ کرنا ٹوٹ پڑنا۔ راغ علیہ بالضرب مارنے کے لئے کسی پر ٹوٹ پڑنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یعنی انہیں وہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ فتولوا عنہ الخ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب سن کر مشرکین نے ان پر مزید اصرار نہ کیا۔ اور صبح اپنی عید میں شرکت کے لیے سب شہر سے باہر چلے گئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) جو ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھے ان کے ٹھاکر دوارے میں جا گھسے۔ دیکھا ٹھاکروں کے آگے مختلف کھانے رکھے ہیں جو ان کے پجاریوں نے رکھے تھے تاکہ وہ بابرکت ہوجائیں اور عید سے واپسی پر انہیں کھائیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور استہزاء ٹھاکروں سے خطاب کر کے فرمایا : یہ کھانے جو رکھے ہیں کھاتے کیوں نہیں ہو ؟ جب انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو بطور استہزاء دوسرا سوال کردیا، مالکم لا تنطقون، تمہیں کیا ہے۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ اور میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(90) غرض ! قوم کے لوگ ابراہیم کو چھوڑکرابراہیم کے پاس سے الٹے چلے گئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہ لوگ نجومی تھے ان کے دکھانے کو تاروں کی طرف دیکھ کر کہا یا نجوم کی کتاب دیکھ کر کہا میں بیمار ہوں یعنی ہوا چاہتا ہوں وہ شہر سے باہر نکلتے تھے ایک عید کو اور بت پوجنے کو ان کو چھوڑ کر چلے گئے یہ ایک جھوٹ ہے اللہ کی راہ میں عذاب نہیں ثواب ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ ایسا توریہ اور ذومعنی بات جو اسلام کے فائدے کے لئے کی جائے اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو تو ایسی بات وقت پر کہہ دینی جائز ہے اور اس سے انہ کان صدیقا بنیا پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔