Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 95

سورة الصافات

قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَ ﴿ۙ۹۵﴾

He said, "Do you worship that which you [yourselves] carve,

تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں ( خود ) تم تراشتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He said: Worship you that which you carve, meaning, `do you worship instead of Allah idols which you yourselves carve and fashion with your own hands?' وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ : کیا تم اپنے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہو ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ۝ ٩٥ۙ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ نحت نَحَتَ الخَشَبَ والحَجَرَ ونحوهما من الأجسام الصَّلْبَة . قال تعالی: وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء/ 149] والنُّحَاتَةُ : ما يسقط من المَنْحُوتِ ، والنَّحِيتَة : الطّبيعة التي نُحِتَ عليها الإنسان کما أنّ الغریزة ما غُرِزَ عليها الإنسانُ ( ن ح ت ) نحت ( ض ) کے معنی لکڑی پتھر یا اس قسم کی سخت چیزوں کو تراشنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء/ 149] اور تکلیف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ نحاتۃ تراشہ ۔ وہ ریزے جو کاٹنے سے گریں اور انسانی فطرت کو اس لحاظ سے کہ انسان کی ساخت اس کے مطابق بنائی گئی ہے نحیتہ کہا جاتا ہے اور اس لحاظ سئ کہ وہ انسان کے اندر پیوست کی گئی ہے غریزہ کہلاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥{ قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ } ” اس نے کہا : کیا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں تم خود تراشتے ہو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:95) ما تنحتون۔ ما موصولہ ہے تنحتون صیغہ جمع مذکر حاضر نحت (ضرب) سے مصدر۔ تم تراشتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال اتعبدون۔۔۔۔۔ وما تعملون (95 – 96) “۔ یہ ایک فطری استدلال تھا ، حضرت ابراہیم نے یبانگ دبل ان کے سامنے رکھ دیا کہ تم اپنی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو ، معبود حق تو وہ ہوسکتا ہے جو سب چیزوں کا بنانے والا ہو نہ کہ اسے کسی سنگ تراش نے تراشا ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ قال اتعبدون الخ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا : کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے، جن ٹھاکروں کو اپنے ہاتھوں سے تراش کر بناتے ہو۔ اور جن کی شکل و صورت تمہاری تراش خراش اور تمہارے اوزاروں کی محتاج ہے پھر انہی کی عبادت کرتے ہو۔ حالانکہ عبادت تو اپنے خالق کی کرنی چاہئے اور خالق سب کا (تمہارا اور تمہارے ٹھاکروں کا) اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے ہر قسم کی عبادت کا مستحق بھی وہی ہے۔ ٹھاکروں کو تراشنے والے اگرچہ مشرکین ہیں، لیکن ان کے مادے کا خالق اللہ ہی ہے۔ اور ان کی اشکال و اوضاع جو مشرکین کے فعل و قوت سے حاصل ہوئی ہیں۔ اس فعل و قوت کا خالق بھی اللہ ہی ہے فان جو ھرھا بخلقہ و شکلہا وان کان بفعلہم و لذلک جعل من اعمالہم فباقدارہ ایاھم علیہ وخلقہ ما یتوقف فعلہم من الدواعی والعدد (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(95) ابراہیم نے کہا کیا تم ان بتوں کو پوجتے ہو جن کو خود تراشتے ہو۔ یعنی خودہی تراشو اور اپنے ہی تراشوں کو پوجو جو تمہارے خود محتاج ہیں وہ کیا تمہارے کام آئیں گے۔