Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 96

سورة الصافات

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾

While Allah created you and that which you do?"

حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

While Allah has created you and what you make! This may mean, `Allah has created you and what you do;' or it may mean, `Allah has created you and what you make.' Both views are synonymous. The former is more apparent because of the report recorded by Al-Bukhari in the Book Af`al Al-`Ibad from Hudhayfah, attributed to the Prophet: إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَصْنَعُ كُلَّ صَانِعٍ وَصَنْعَتَه Allah has created every doer of deeds and what he does. Thereupon he recited: وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (While Allah has created you and what you make!) When the proof had been established against them, they resolved to seize him by force and, قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

96۔ 1 یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسے اہل سنت کا عقیدہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] سیدنا ابراہیم سے قوم کا سوال و جواب :۔ میلہ سے واپسی پر قوم نے جب اپنے معبودوں کا یہ حشر دیکھا تو ان کا پارا بہت چڑھ گیا وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ ہمارے بتوں کی مخالفت صرف ابراہیم ہی کرتا رہتا تھا اور وہ پیچھے بھی رہ گیا تھا۔ لہذا یہ اسی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ چناچہ ان کے پاس دوڑتے آئے اور معبودوں سے اس طرح کی بدسلوکی کی وجہ پوچھی تو آپ نے کہا کہ بڑے بت سے کیوں نہیں پوچھتے۔ جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے۔ شاید اس نے ہی اپنے چھوٹوں سے ناراض ہو کر ان کا یہ حشر کردیا ہو۔ پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ پتھر کے بےجان جو اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تمہارا کیا سنوار سکتے ہیں اور تم لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے۔ پھر یہ بت تم نے خود ہی تراش رکھے ہیں علاوہ ازیں تم کو اور اس پتھر کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور عبادت کی مستحق تو وہ ہستی ہوسکتی ہے جو خالق ہو۔ یہ مخلوق در مخلوق کیسے مستحق ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ : ” مَا تَعْمَلُوْنَ “ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ” مَا “ موصولہ ہو تو مطلب یہ ہے کہ کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور ان چیزوں کو بھی جو تم بناتے ہو، یعنی تم اور تمہارے بت دونوں اللہ کی مخلوق ہیں، پھر خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ اور ” مَا “ مصدریہ ہو تو معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور جو عمل تم کرتے ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندے کے تمام افعال کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے، بندہ صرف کا سب اور عامل ہے، اس کے عمل کا خالق وہ خود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری (رض) نے اس مسئلے پر کتاب ” خَلْقُ أَفْعَالِ الْعِبَادِ “ لکھی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۝ ٩٦ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦{ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } ” جبکہ اللہ نے پیدا کیا ہے تمہیں بھی اور جو کچھ تم بناتے ہو (اس کو بھی) ۔ “ یہ آیت حکمت اور فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انسان ” کا سب ِعمل “ تو ہے مگر ” خالق عمل “ نہیں ہے۔ مثلاً میں ارادہ کرتا ہوں کہ اپنے سامنے پڑا ہوا پیالہ اٹھائوں۔ اس میں ارادے کی حد تک تو مجھے اختیار ہے مگر اللہ کے اذن کے بغیر اس پیالے کو اٹھانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ میرے اٹھانے سے پہلے اس پیالے پر کوئی دوسری قوت بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے میرا دماغ میرے ارادے یا فیصلے کو میرے ہاتھوں تک پہنچا بھی نہ پائے۔ بہر حال انسان کا عمل دخل اس حوالے سے صرف ارادے تک محدود ہے اور اسی ارادے کے مطابق ہی وہ سزا یا جزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی واقعہ یا کوئی عمل وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے ان لوگوں کو خاص طور پر بتایا گیا کہ تم نے ان بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے نا ! لیکن تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ تم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہو ‘ اور تمہارے جو بھی اعمال و اَفعال ہیں ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٦۔ ١٠١ فرقہ قدریہ معتزلہ اور اہل سنت میں جس طرح اور چند مسئلوں میں بحث ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی بڑی بحث کا ہے۔ فرقہ قدریہ کا یہ مذہب ہے کہ بندہ جو کچھ کام کرتا ہے۔ وہ خود بندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ کام بندہ میں پیدا نہیں کئے۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ بندہ کی ذات اور سب اچھے برے بندہ کے کام اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن برے کام جب بندہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتا ہے۔ اور اچھے کام کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی بحث ایک ایسی بڑی بحث ہے۔ کہ امام بخاری اور علم نے اس باب میں بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ یہ آیت بھی علمائے اہل سنت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے کیونکہ اس آیت سے بندہ کا اور بندے کے ہر ایک کام کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ صحیح سند سے رسالہ افعال عباد میں امام بخاری نے حذیفہ (رض) کی حدیث نقل کی ہے ١ ؎ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام والے اور اس کے ہر ایک کام کو پیدا کیا ہے۔ یہ حدیث آیت کے ٹکڑے واللہ خلقکم و ماتعملون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ ان بت پرستوں کی ذات اور اس ذات میں بت تراشی کی کاری گری یہ سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہے۔ اور اس کی مخلوق ہے۔ پھر ان بت پرستوں کو اتنی سمجھ نہیں۔ کہ مثلاً جس پتھر کے انہوں نے بت تراشے ہیں۔ بت تراشی سے پہلے تو وہ پتھر اللہ کی مخلوق میں داخل تھا۔ اب اس پتھر کی مورت بن گئی۔ تو اس میں یہ فوقیت کہاں سے آگئی۔ کہ اس کو مخلوقات کے دائرہ سے نکال کر خالق کا شریک ٹھہرایا جاوے۔ رہی یہ بات کہ جن اصلی صورتوں کی یہ مورتیں ہیں۔ ان کو خالق کا شریک ٹھہرا کر ان کی مورتوں کی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ سارے بت پرست جمع ہوجاویں۔ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کی پیدا کی ہوئی ادنیٰ سی چیز بھی نہیں دکھا سکتے۔ اس واسطے پہلے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یوں قائل کیا کہ تم لوگ اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہو۔ جو عقل کے خلاف ہے۔ پھر یوں قائل کیا کہ مخلوق کو مخلوق کی عبادت زیبا نہیں ہے۔ اس کے بعد اب وہی قصہ ہے جو سورة انبیاء میں گزرا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی باتوں سے نمردو اور اس کے دربار کے لوگ لاجواب ہوگئے۔ تو ان لوگوں نے یہ صلاح نکالی کہ تنور کی طرح کا ایک مکان بنا کر اس میں خوب آگ جلائی جاوے۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اس اس میں ڈالا جاوے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو ٹھنڈا کردیا جس سے اللہ کے رسول ابراہیم (علیہ السلام) کے مخالفوں کو بڑی شرمندگی ہوئی۔ اب ابراہیم (علیہ السلام) نے الہام الٰہی کے موافق ملک شام کی طرف ہجرت کی۔ اور ملک شام میں پہنچ کر نیک بیٹے کے عطا ہونے کی اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اور اس دعا کے اثر سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل کو تحمل والا اس لئے فرمایا کہ وہ اپنے صبر و تحمل سے اللہ کے نام پر ذبح ہوجانے کے لئے خوشی سے تیار ہوگئے۔ جس کا قصہ آگے آتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم ١ ؎ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ حصر کے دن سب لوگ قبروں سے ننگے اٹھ کر محشر کے میدان کو جاویں گے۔ صحیح بخاری و مسلم ٢ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ حشر کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جاویں گے۔ ان حدیثوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ننگا کرکے آگ میں ڈالا تھا۔ اس کا بدلہ یہ ہوگا۔ کہ حشر کے دن ساری مخلوقات سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جاویں گے۔ (١ ؎ بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص ١٣ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع نودی باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیمۃ ص ٣٨٤ ج ٢ و صحیح بخاری باب قولہ کما بدانا اول خلق نعیدہ ص ٦٩٣ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم مع نودی باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیمۃ ص ٣٨٤ ج ٢ و صحیح بخاری باب قولہ کما بدانا اول خلق نعیدہ ص ٦٩٣ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:96) واللہ خلقکم وما تعملون۔ یہ جملہ حالیہ ہے اور جملہ سابقہ اتعبدون۔ ما تنحتون جو جملہ انکاریہ ہے اس کی مزید تاکید کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یا ” جو عمل تم کرتے ہو انہیں بھی اللہ نے پیدا کیا ہے “۔ معلوم ہوا کہ بندہ کے تمام افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واللہ خلقکم وما تعملون (37: 96) ” اللہ تو وہ ہے جس نے تمہیں بھی بنایا اور تمہاری مصنوعات کو بھی بنایا “۔ یہ صانع مطلق اس قابل ہے کہ اس کی پوجا کی جائے۔ اس استدلال کی سادگی اور واضح ہونے کے باوجود ، لوگوں نے اپنی غفلت اور غلط روش کی وجہ سے اس پر کان نہ دھرا۔ باطل کی روش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ سچائی کے نہایت ہی سادہ اور منطقی الاستدلال پر کان نہیں دھرتا۔ اور اللہ کی جانب سے جن لوگوں کے ذمہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ اہل باطل کی طرف سے تشدد سہتے رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(96) حالانکہ تم اور جو کام تم کرتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس طرح تمہارا خالق ہے اسی طرح تمہارے افعال کا خالق بھی وہی ہے لہٰذا عبادت پر پرستش کا بھی وہی حقدار ہے جس کی ہمہ گیر خالقیت کے تمام اعراض اور جواہر محتاج ہیں۔ غرض ! حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گفتگو اور ان کے مناظرانہ انداز سے لاجواب ہو کر حضرت ابراہیم کے خلاف دوسری تدبیریں کرنے لگے جو عام طور سے ذی اقتدار لوگ کیا کرتے ہیں۔