Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 97

سورة الصافات

قَالُوا ابۡنُوۡا لَہٗ بُنۡیَانًا فَاَلۡقُوۡہُ فِی الۡجَحِیۡمِ ﴿۹۷﴾

They said, "Construct for him a furnace and throw him into the burning fire."

وہ کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس ( دھکتی ہوئی ) آگ میں اسے ڈال دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: Build for him a building (i.e., furnace) and throw him into the blazing fire! There happened what we have already discussed in our Tafsir of Surah Al-Anbiya', (21:68-70) and Allah saved him from the fire and caused him to prevail over them, making his proof supreme and supporting it. Allah says: فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الاْأَسْفَلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا : ” بُنْيَانًا “ کی تنوین تعظیم کی ہے۔ ” الْجَــحِيْمِ “ خوب بھڑکائی ہوئی آگ، یہ ” حَجَمَ فُلَانٌ النَّارَ “ (ف) (فلاں نے آگ خوب بھڑکائی) سے مشتق ہے۔ دلیل میں لاجواب ہونے پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ایک بڑی عمارت بناؤ، اسے ایندھن سے بھر کر آگ لگاؤ اور جب وہ خوب بھڑک اٹھے تو ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں پھینک دو ۔ اس چار دیواری یا عمارت کا بلند اور بڑا ہونا تو ” بُنْيَانًا “ کے لفظ اور اس کی تنوین سے ظاہر ہو رہا ہے، مگر اس کی پیمائش کسی معتبر ذریعے سے ہم تک نہیں پہنچی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْہُ فِي الْجَــحِيْمِ۝ ٩٧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧{ قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْْجَحِیْمِ } ” انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ایک عمارت بنائو ‘ پھر اس کو شعلے مارتی ہوئی آگ میں جھونک دو ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف فیصلہ۔ (قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا إِنَّہُ لَمِنَ الظَّالِمِیْنَ ۔ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہُ إِبْرَاہِیْمُ ۔ قَالُوْا فَأْتُوْا بِہِ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ ) [ الانبیاء : ٥٩ تا ٦١] ” کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ جس نے یہ زیادتی کی ہے واقعتا وہ بڑا ظالم شخص ہے (مجمع سے آواز آئی) ہم نے سنا ہے ایک نوجوان ان بتوں کے خلاف گفتگو کرتا ہے۔ اس کا نام ابراہیم ہے۔ سردار کہنے لگے اس کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ لوگ بھی اس کی شکل دیکھ لیں۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع میں بلانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام بھی گواہ اور مطمئن ہوجائیں کہ جو سزا اس کو دی جا رہی ہے واقعی یہ اسی سزا کا مستحق ہے۔ ” کہنے لگے اگر کچھ کر گزرنا چاہتے ہوتوا سے زندہ جلا دو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔۔ “ [ الانبیاء : ٦٨] امن عامہ کے تحت گرفتاری حکمران نے فوراً حکم دیا کہ امن عامہ کے تحت ابراہیم (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا جائے۔ چناچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر بادشاہ کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا بالفاظ دیگر عوام اور حکمران سب کے سب اس بات پر متفق ہوئے کہ اسکو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔” اس کے لیے ایک بڑا گہرا گڑھا بناؤ اور اس کو آگ سے بھر کر ابراہیم (علیہ السلام) کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو ۔ “ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ کو بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذ بات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھی۔ اگر میری فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں پھینکوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے۔ عراق میں آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جب آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی بڑی آگ میں کس طرح پھینکا جائے۔ شاہی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کس طرح پھینکا جائے ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی کرین تیار کی جائے جس کے ذریعے ابراہیم کو آگ کے درمیان میں پھینکا جائے لہٰذا اس طرح کیا گیا ( اس تجویز دینے والے کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین میں دھنستا جائے گا۔ ) (تفسیر ابن کثیر سورة الانبیاء : ٦٨) آز مائش کے آخری لمحات اُف خدا یا یہ کیسا منظر ہے جو آج تک تیرے فرشتوں نے بھی نہیں دیکھاہو گا نظر اٹھائی تو جبرا ئیل (علیہ السلام) نمو دار ہوئے۔ روح الا میں عرض کرتے ہیں جناب میں حا ضر ہوں کوئی خد مت ہو تو فرمائیں ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کو رب العزت کی طرف سے کوئی حکم ہے جبریل (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں کہ نہیں۔ فرمایا پھر جا میں مجھے آپ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر سورة الانبیاء : ٦٨) ابرا ہیم (علیہ السلام) نے ” حَسْبِیَ اللّٰہُ “ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا۔ اب کا رروائی زمین پر نہیں عرش پر ہوگی۔ (وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ )[ الطلاق : ٣]” جس نے اللہ پر توکل کیا اللہ اسے کافی ہوگا۔ “ اب دیکھیے ادھر حاکم وقت کا اشارہ ہوا کہ پھینک دو ، کرین کا بٹن دبادیا گیا۔ مجمع سے آواز آتی ہے اچھاہو تا اگر معافی مانگ لیتا خو اہ مخواہ جان گنوائی۔ انہیں کیا خبر آسما نوں میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بارش کافر شتہ ہمہ تن گوش تھا کہ کب حکم ہو اور میں اتنی بارش کروں کہ ایک لمحہ میں آگ بھسم ہو کر رہ جائے۔ لیکن فرشتے کی بجائے آج حکم بر اہ راست آگ کو پہنچتا ہے : (قُلْنَا یَا نَارُکُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیمَ )[ الانبیاء : ٦٩] ” ہم نے حکم دیا اے آگ ابر اہیم کے لئے ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا۔ “ تفسیر ابن ابی حا تم میں ہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) چا لیس دن تک آگ میں رہے۔ ابرا ہیم (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جتنا آرام میں نے چالیس دن آگ کے اندر پا یا ساری زندگی اتنا آرام میسر نہیں آیا۔ (تفسیر ابن کثیر سورة الانبیاء : ٦٩) یاد رہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو آگ میں برہنہ کرکے پھینکا گیا تھا۔ اسی لئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیمُ )[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی وَاتَّخَذَ اللَّہُ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلاً ] ” قیا مت کے دن جس خوش نصیب کو سب سے پہلے جنت کا لباس پہنا یا جائے گا وہ ابرا ہیم (علیہ السلام) ہوں گئے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا انبوا۔۔۔۔ الجحیم (97) ” “۔ یہ ہے قوت اور طاقت کا استدلال۔ اور آگ اور تشدد جس کے سوا سرکشوں کے پاس اور کوئی استدلال نہیں ہوتا۔ جب بھی دلیل ختم ہوتی ہے اور کوئی سرکش حجت پیش نہیں کرسکتا۔ وہ تشد کرتا ہے۔ خصوصاً جبکہ سرکشوں کے سامنے کلمہ حق پیش کیا جائے اور وہ اسے لاجواب کر دے۔ ان کی اس دھکمی کے بعد کیا ہوا ، یہاں قرآن مجید اس کی کوئی صراحت نہیں کرتا۔ اور یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اہل حق کو کامیابی نصیب ہوئی اور مکذبین گھاٹے میں رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ قالوا ابنوا لہ الخ : جب مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گفتگو سے لاجواب ہوگئے تو انہوں نے انتقام لینے اور عوام پر اثر ڈالنے کے لیے انہیں آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا۔ لما قہرہم بالحجۃ قصدوا تعذیبہ بذلک لئلا یظہر لعامۃ عجزھم (روح ج 23 ص 126) ، چناچہ انہوں نے ایک سو بیس گز (ذراع) مربع چار دیوار بنائی جس کی بلندی تیس گز تھی (مدارک) اور اسے ایندھن سے بھر کر آگ لگا دی، جب آگ سلگ کر خواب انگارے بن گئے اور آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس بھڑکتی آگ میں پھینکدیا۔ وارادوا بہ کیدا الخ، انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس تدبیر سے ہلاک کرنا چاہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے لیے سرد کر کے اور ان کو آگ سے صحیح سلامت بچا کر مشرکین کو اس مقصد میں ناکام، خائب و خاسر اور عوام کے سامنے ذلیل و رسوا کردیا۔ بلکہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سچائی پر ایک دلیل واضح اور برہان قاطع بن گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا اس وقت حسب ذیل کلمات ان کے ورد زبان تھے۔ حسبی اللہ و نعم الوکیل (قرطبی) ، اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خود ایک مصیبت میں گرفتار ہوئے۔ اور اس میں اللہ کو پکارا اور اس کی بارگاہ میں عاجزی کا اظہار کیا۔ اس لیے وہ کسی طرح شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(97) قوم کے لوگ کہنے لگے ایک عمارت یعنی چاردیواری بنائو پھر ابراہیم کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو ۔ یعنی ایک آتش کہ وہ بنائو اس چار دیواری کو آگ سے پر کردو اور اس میں ابراہیم کو ڈال دو تاکہ یہ جل کر راکھ ہوجائے۔ جیسا کہ سورة انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے۔ آگ میں ڈالتے وقت انہوں ے یہ کلمات کہے۔ اللھم انت الواحد فی السمآء واناالواحد فی الارض لیس فی الارض احد یعبدک غیری حسبی اللہ نعم الوکیل۔ یعنی تو جس طرح اللہ تعالیٰ بحیثیت معبود ہونے کے آسمانوں میں یکتا ہے اسی طرح میں بحیثیت عابد کے زمین میں اکیلا ہوں زمین اس وقت میرے سوا تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہے اللہ تعالیٰ مجھ کو کافی ہے اور وہی اچھا اور بہتر کارساز ہے۔