Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 17

سورة ص

اِصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَیۡدِ ۚ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿۱۷﴾

Be patient over what they say and remember Our servant, David, the possessor of strength; indeed, he was one who repeatedly turned back [to Allah ].

آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد ( علیہ السلام ) کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ ... Be patient of what they say... They said this by way of mockery and disbelief, so Allah commanded His Messenger to be patient in the face of their insults, and He gave him the glad tidings that his patience would be rewarded with victory and success. Allah tells us that His servant and Messenger Dawud, peace be upon him, was endued with power Allah says: ... وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الاْاَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ ... And remember Our slave Dawud, endued with Al-Ayd. Verily, he was ever oft-returning in all matters and in repentance. Al-Ayd means strength in knowledge and action. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, As-Suddi and Ibn Zayd said, "Al-Ayd means strength." Mujahid said, "Al-Ayd means strength in obedience to Allah." Qatadah said, "Dawud, peace be upon him, was given strength in worship and the proper understanding of Islam." He told us that he, peace be upon him, used to spend a third of the night in prayer, and he fasted for half a lifetime. This was reported in the Two Sahihs, where it is recorded that the Messenger of Allah said: أَحَبُّ الصَّلَةِ إِلَى اللهِ تَعَالَى صَلَةُ دَاوُدَ وَأَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ صِيَامُ دَاوُدَ كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلاَ يَفِرُّ إِذَا لاَقَى وَأَنَّهُ كَانَ أَوَّابًا The most beloved of prayer to Allah is the prayer of Dawud, and the most beloved of fasting to Allah is the fasting of Dawud. He used to sleep for half of the night, stand in prayer for a third of the night, then sleep for a sixth of the night, and he used to fast alternate days. He never fled from the battlefield, and he always turned to Allah. which means that he turned to Allah with regard to all of his affairs.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 قوت و شدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔ اس قوت سے مراد دینی قوت و صلاحیت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے ' کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] وَاذْکُرْکا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا قصہ دوسروں سے بیان کیجئے۔ [٢٠] ید اور ذوالاید کا لغوی مفہوم :۔ ذَالاَیْدِ کا لفظی معنی ہاتھوں والا ہے اور تقریباً ہر زبان میں ایسے لفظ بول کر قوت اور طاقت مراد لی جاتی ہے۔ صاحب قوت سے مراد جسمانی قوت بھی ہوسکتی ہے۔ چناچہ آپ سے متعلق منقول ہے کہ بچپن میں جب آپ بکریوں کا ریوڑ چرایا کرتے تھے تو جب کوئی درندہ ان پر حملہ آور ہوتا آپ اس کے ایک جبڑے کو پکڑ کر دوسرے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر دیتے تھے پھر یہ بھی آپ کی جسمانی قوت ہی تھی کہ آپ نے میدان کارزار میں جالوت کو مار ڈالا تھا۔ اور فوجی اور سیاسی قوت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آپ نے گردوپیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کردی تھی۔ [٢١] آپ کے اعلیٰ درجہ کے اوصاف :۔ ان کے رجوع الی اللہ اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ آپ نے بادشاہی پر ہمیشہ فقیری کو ترجیح دی۔ آپ کی تعریف میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں۔ آپ نے اپنے ذاتی اخراجات کا بار بیت المال پر نہیں ڈالا تھا بلکہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنا خرچ چلاتے تھے۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے، دوسرے دن روزہ نہ رکھتے & زندگی بھر یہی دستور رہا۔ رات کا تہائی حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ آپ نے دن رات کے چوبیس گھنٹوں کو اپنے اور اپنے بال بچوں میں کچھ اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ گزرے جبکہ آل داود میں سے کوئی شخص اللہ کی عبادت میں مصروف و مشغول نہ ہو۔ آپ نے یہ التزام بھی کر رکھا تھا کہ ہر تین دنوں میں ایک دن اللہ کی عبادت کے لئے تھا۔ ایک دن لوگوں کے مقدمات کے فیصلہ کے لئے اور ایک دن امور سلطنت کے انتظام و انصرام میں صرف کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ : اس سورت میں یہاں تک کفار کی جو باتیں ذکر ہوئی ہیں، مثلاً آپ کو ساحر و کذّاب کہنا اور ان کا یہ اعتراض کہ کیا ہم سب میں سے رسول بنانے کے لیے یہی ایک شخص رہ گیا تھا ؟ اور یہ کہ اس دعوت کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی سازش ہے اور قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے انھوں نے جو کچھ کہا، اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سب باتوں پر صبر کا حکم دیا اور تسلی کے لیے داؤد (علیہ السلام) اور چند دوسرے پیغمبروں کو یاد کرنے کا حکم دیا۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ : ” الْاَيْدِ “ کا معنی قوت ہے۔ ” آد الرَّجُلُ یَءِیْدُ أَیْدًا “ (ض) جب کوئی آدمی قوی ہوجائے تو کہتے ہیں : ” فَھُوَ أَیِّدٌ“ جیسے فرمایا : (وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ) [ البقرۃ : ٨٧ ] ” اور ہم نے اسے روح القدس کے ساتھ قوت بخشی۔ “ داؤد (علیہ السلام) بڑی قوت والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی قوتوں سے نوازا تھا، مثلاً جسمانی قوت جس کے ساتھ انھوں نے جالوت کو قتل کیا، قلبی شجاعت و قوت جس کی وجہ سے وہ کبھی دشمن کے مقابلے میں پیٹھ نہیں دکھاتے تھے، عبادت کی قوت جس کا اظہار روزانہ تہائی رات کی نماز اور ہمیشہ ایک دن کے ناغے کے ساتھ روزے سے ہوتا ہے، فرماں روائی کی قوت جس کے ساتھ انھوں نے گرد و پیش کی تمام مشرک قوتوں کو زیر کرکے ایک مضبوط سلطنت قائم کی۔ صحیح فیصلے کی قوت (حکم) ، فیصلہ کن خطاب کی قوت، حُسن صوت کی نعمت جس کی وجہ سے پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح و تلاوت میں شریک ہوجاتے تھے، لوہے کو موم کرنے اور زرہیں بنانے کی قوت جس کے ذریعے سے وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ مزید تفصیل سورة بقرہ (٢٥١) ، انبیاء (٧٨، ٧٩) ، نمل (١٥، ١٦) اور سورة سبا (١٠ تا ١٣) میں ملاحظہ فرمائیں۔ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ : یعنی وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے، کوئی قدم اپنی مرضی سے نہیں اٹھاتے تھے۔ ہر وقت نماز، دعا، امید و خوف، ذکر و تلاوت اور جہاد کے ساتھ اسی کی طرف توجہ رکھتے، کبھی کوئی کمی ہوجاتی تو فوراً توبہ و استغفار کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was said in verse 17 وَاذْكُرْ‌ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْد (and remember Our servant, Dawud, the man of might). Nearly all commentators have explained it in the sense that he used to demonstrate great courage and strength during the course of his acts of worship (` ibadah), therefore, soon after it, comes the sentence: إِنَّهُ أَوَّابٌ (Surely, he was ever-turning to Allah - 38:17). Accordingly, in a Hadith of the Sahihayn (al-Bukhari and Muslim), the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"In sight of Allah, the most liked Salah is the Salah of Dawud (علیہ السلام) and the most liked fasts are the fasts of Dawud (علیہ السلام) . He would sleep half a night, worship a third of it, and then sleep during the sixth part, and would fast one day and remain without fast on the other; and when he confronted the enemy, he would never desert the battlefield; and, without any doubt, he turned to Allah sincerely and profusely.|" (Tafsir Ibn Kathir) This method of ` ibadah has been called most likeable for the initial reason that it is harder. A lifetime of fasting would make one used to it with the result that, after a passage of time, it does not remain that hard. But fasting by skipping a day in between is different. Here, the element of hardship continues. Then, there is another aspect of this method of fasting in that one who fasts in that manner becomes capable of combining his or her ` ibadah with the necessary fulfillment of the rights of one&s self, family and circle of acquaintances.

خلاصہ تفسیر آپ ان لوگوں کے اقوال پر صبر کیجئے اور ہمارے بندہ داؤد کو یاد کیجئے جو (عبادت میں جس میں صبر بھی داخل ہے) بڑی قوت (اور ہمت) والے تھے (اور) وہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہونے والے تھے (اور ہم نے ان کو یہ نعمتیں عطا فرمائی تھیں :۔ ایک یہ کہ) ہم نے پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ (شریک ہو کر) شام اور صبح (کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی تسبیح کے یہی اوقات تھے) تسبیح کیا کریں اور (اسی طرح) پرندوں کو بھی (یہی حکم دے رکھا تھا) جو کہ (تسبیح کے وقت ان کے پاس) جمع ہوجاتے تھے (اور یہ پہاڑ اور پرندے وغیرہ) سب ان کی (تسبیح کی) وجہ سے مشغول ذکر رہتے اور (دوسری نعمت یہ کہ) ہم نے ان کی سلطنت کو نہایت قوت دی تھی اور (تیسری نعمت یہ کہ) ہم نے ان کو حکمت (یعنی نبوت) اور فیصلہ کردینے والی تقریر (جو نہایت واضح اور جامع ہو) عطا فرمائی تھی۔ معارف ومسائل کفار کی تکذیب و استہزاء سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو صدمہ ہوتا تھا، اسے دور کر کے تسلی دینے کے لئے عموماً اللہ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات سنائے ہیں۔ چناچہ یہاں بھی آپ کو صبر کی تلقین فرما کر بعض انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے پہلا واقعہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ہے۔ (آیت) وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ ۔ (اور یاد کیجئے ہمارے بندے داؤد کو جو قوت والے تھے) تقریباً تمام مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ عبادت میں بڑی قوت وہمت کا ثبوت دیتے تھے اسی لئے اس کے بعد یہ جملہ ہے کہ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ (بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے) چناچہ صحیحین کی ایک حدیث میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داؤد (علیہ السلام) کی ہے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داؤد (علیہ السلام) کے ہیں وہ آدھی رات سوتے، ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر رات کے چھٹے حصہ میں سو جاتے تھے، اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے، اور جب دشمن سے ان کا مقابلہ ہوجاتا تو فرار اختیار نہ فرماتے تھے۔ اور بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ “ (تفسیر ابن کثیر) عبادت کے اس طریقہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ اس لئے قرار دیا گیا کہ ایک تو اس میں مشقت زیادہ ہے، ساری عمر روزہ رکھنے سے آدمی روزے کا عادی ہوجاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد اس میں زیادہ مشقت نہیں رہتی، لیکن ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے، دوسرے اس طریقہ سے انسان عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس، اہل و عیال اور متعلقین کے حقوق بھی پوری طرح ادا کرسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ۝ ٠ ۚ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ۝ ١٧ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ أوَّاب کالتوّاب، وهو الراجع إلى اللہ تعالیٰ بترک المعاصي وفعل الطاعات، قال تعالی: أَوَّابٍ حَفِيظٍ [ ق/ 32] ، وقال : إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 30] ومنه قيل للتوبة : أَوْبَة، والتأويب يقال في سير النهار وقیل : آبت يد الرّامي إلى السهم وذلک فعل الرامي في الحقیقة وإن کان منسوبا إلى الید، ولا ينقض ما قدّمناه من أنّ ذلک رجوع بإرادة واختیار، وکذا ناقة أَؤُوب : سریعة رجع الیدین . الاواب ۔ یہ تواب کی ( صیغہ مبالغہ ) ہے یعنی وہ شخص جو معاصی کے ترک اور فعل طاعت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ { لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ } ( سورة ق 32) ۔ یعنی ہر رجوع لانے اور حفاظت کرنے والے کے لئے (50 ۔ 320) ( سورة ص 17 - 44) بیشک وہ رجوع کرنے والے تھے ۔ اسی سے اوبۃ بمعنی توبہ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد آپ ان لوگوں کی تکذیب پر صبر کیجیے اور ان کے سامنے ہمارے بندہ داؤد کا ذکر کیجیے جو عبادت میں بڑی قوت والے تھے اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف بڑے رجوع کرنے والے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { اِصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ” (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ صبرکیجیے اس پر جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں “ { وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِج اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ} ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تذکرہ کیجیے ہمارے بندے دائود کا جو بہت قوت والا تھا ‘ بیشک وہ (اللہ کی طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 The allusion is to the absurd conversation of the disbelievers of Makkah, as narrated above, to the effect that the Holy Prophet was a sorcerer and a liar, and to their objection whether he was the only fit person in the sight of Allah to be appointed as a Messenger, and to their some accusation that he had vested interest in preaching the doctrine of Tauhid to the people and not any religious mission. 17 Another translation of this sentence can be: `Remember Our servant David." According to the first translation, it would mean: "There is a lesson in this story for these people," and according to the second: "The remembrance of this story will help you too, to have patience. " As the narrative is meant to serve both purposes, comprehensive words have been used as contain both meanings. (For the story of the prophet David, see AI-Baqarah :251, Bani Isra'il: 55, AIAnbiya': 78-81, An-Naml: 15 and the E.N.'s thereof; and E.N.'s 14 to 16 of Saba). 18 The words in the original are: dhal-ayd (possessor of the hands). The word "hand" is used metaphorically for strength and power not only in Arabic but in other languages also. When as an attribute of the Prophet David it is said that he was a "possessor of the hands", it will necessarily mean that he possessed great powers. These powers may mean the physical strength which he displayed during his combat against Goliath, military and political power by which he crushed the neighbouring idolatrous nations and established a strong Islamic empire, moral strength by which he ruled like a poor king and always feared Allah and observed the bounds set by Him, and the power of worship by virtue of which, besides his occupations in connection with rule and government and fighting in the cause of Allah, he fasted every alternate day and spent a third of the night in worship according to a tradition of Bukhari. Imam Bukhari in his History has related, on the authority of Hadrat Abu ad-Darda', that whenever the Prophet David was mentioned, the Holy Prophet used to say: "He was the greatest worshipper of God. "

سورة صٓ حاشیہ نمبر :16 اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے ، اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا ۔ اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :17 اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو ۔ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی ۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں ، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں ( حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول ، صفحہ 191 ۔ جلد دوم ، صفحات 597 و 624 ۔ جلد سوم ، صفحات 173 تا 176 و 560 ۔ 561 ۔ جلد چہارم ، حواشی سورہ صفحہ نمبر 14 تا 16 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد ، ہاتھوں والا ۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں ، دوسری زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ہاتھوں والے تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے ۔ ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جسمانی طاقت ، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا ۔ فوجی اور سیاسی طاقت ، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی ۔ اخلاقی طاقت ، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے ۔ اور عبادت کی طاقت ، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود ، صحیحین کی روایت کے مطابق ، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرداء کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَانَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ ، وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: سورت کے شروع میں کافروں کی وہ باتیں ذکر کر کے ان پر تردید فرمائی گئی تھی جن سے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی بے ہودہ باتوں پر صبر کر کے آپ اپنے کام میں لگے رہئے، اور اسی سلسلے میں کچھ پچھلے انبیائے کرام کے واقعات بیان فرمائے جا رہے ہیں جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو۔ ان میں سے پہلا تذکرہ حضرت داود (علیہ السلام) کا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:17) ذا الاید۔ مضاف مضاف الیہ۔ بہت ہاتھوں والا۔ مراد بہت طاقتور بڑی قوی۔ حالت نصب میں ہے بوجہ داؤد کی صفت ہونے کے۔ داؤد منصوب بوجہ عبدنا میں عبد کا بدل ہونے کی وجہ سے ہے اور عبدنا منصوب بوجہ اذکر کے مفعول ہونے کی وجہ سے ہے اور داؤد بوجہ عجمیت اور معرفت ہونے کے غیر منصرف ہے۔ اواب۔ بہت رجوع کرنے والا۔ بہت تسبیح خوان۔ اوب سے بروزن فعال مبالغہ کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7” اس جگہ ان کو یاد دلوایا کہ انہوں نے بھی طالوت کی حکومت میں بہت صبر کیا آخر حکومت ان کو ملی اور مخالفوں کو جہاد سے زیر کیا۔ یہی نقشہ ہوا ہمارے پیغمبر کا۔ ( کذافی المواضح)8 جسمانی قوت کے علاوہ علم و فضل و عبادت میں بھی بڑی طاقت تھی۔ ایک روایت میں ہے۔ (کان اعبدالبشر) کہ حضرت دائود بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔ ایک صحیح حدیث میں حضرت دائود ( علیہ السلام) کی نماز اور روزے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب قرار دیا گیا ہے۔ ( روح)9 یعنی وہ اپنے ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور کوئی قدم اپنی خواہش کی بناء پر نہیں اٹھاتے تھے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حالات سے دل گرفتہ ہونے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کرنے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ ذہن میں رکھنے اور ان کی طرح حوصلہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کفار مکہ نے عجب صورت حال اختیار کر رکھی تھی۔ ایک مجلس میں کہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادوگر ہیں۔ دوسری مجلس میں پروپیگنڈہ کرتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو ہوچکا ہے۔ آپ توحید کی دعوت دیتے تو کہتے کہ یہ شخص کذّاب ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس شخص کا جادو اور جادوگروں سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو۔ جس نے زندگی بھر جھوٹ بولنا تو دور کی بات کبھی مغالطہ دینے والی بات نہ کی ہو۔ اس کے خلاف گھر گھر اور ہر مقام پر الزامات لگائے جارہے ہوں بحیثیت انسان اس کی کیا حالت ہوگی۔ اس صورت حال میں یہ فرمان نازل ہوا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ کے ساتھی صبر کا دامن نہ چھوڑیں اور داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کریں جو ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اس کی قوت کا عالم یہ تھا کہ ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کردیا تھا ان کی زبان اس قدر پُر تاثیر تھی کہ جب وہ صبح شام زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ جھوم پڑتے ان کی تلاوت کے دوران اڑتے ہوئے پرندے رک کر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حکومت اور مملکت کو ہر اعتبار سے مضبوط کر رکھا تھا۔ بےمثال اقتدار اور اختیار کے ساتھ انہیں دانائی اور قوت فیصلہ کی صلاحیت سے بھی سرفراز کیا گیا۔ اس کے سامنے دم مارنے اور اس کے فیصلے کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ آپس میں جھگڑنے والے دو شخص بلا اجازت اور اچانک ان کی عبادت گاہ میں دیوار پھلانگ کر گھس گئے۔ ان کے دیوار پھلانگنے اور اچانک اندرگھس آنے پر داؤد (علیہ السلام) گھبرائے اور خوف زدہ ہوگئے۔ گھس آنے والوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہم سے خوف زدہ نہ ہوں۔ ہم تو آپ کی خدمت میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ صادر فرما دیں اور ہم میں سے کسی کیساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبر اور بہت بڑے حکمران تھے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے والوں نے زیادتی کی حد کردی تھی لیکن اس کے باوجود حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ان سے درگزر کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ان کی بات سنی اور ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ فرمایا اور اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا یہ میرا بھائی ہے جو مجھ پر زیادتی کرنے پر تلا ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے یہ مجھ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اپنی دنبی بھی میرے حوالے کردے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس کی بات سنکر فرمایا کہ اس کا تجھ سے دنبی کا مطالبہ کرنا سرا سر ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان دار اور صالح کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہ بات کرتے ہی داؤد (علیہ السلام) کو احساس ہوگیا کہ میرے رب نے مجھے اس مقدمہ میں آزمایا ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی داؤد (علیہ السلام) اپنے رب سے معافی کے خواستگار ہوئے اور نہایت ہی عاجزانہ انداز میں اپنے رب کے حضور گڑ گڑ انے لگے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اسے معاف کردیا۔ بلا شبہ وہ ہمارے ہاں بڑی شان اور بڑے مقام والا تھا۔ اس مقام پر داستان گوئی سے دلچسپی رکھنے والے مفسرین نے اسرائیلی روایات سے کچھ بےہودہ قسم کی باتیں درج کی ہیں۔ حالانکہ پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں سوچنا اور لکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسی لیے مشہور مفسرامام ابن کثیر نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خطا ذکر کیے بغیر انہیں معاف فرما دیا تو ہمیں بھی اس خطا کی کھوج میں نہیں پڑنا چاہیے۔ (عَنْ نَافِعٍ (رض) قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دُعِیَ فَلَمْ یُجِبْ فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَمَنْ دَخَلَ عَلَی غَیْرِ دَعْوَۃٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِیرًا۔ (قَالَ الْاَلْبَانِیُّ لَمْ تَتَمَّ دِرَاسَتُہٗ ) [ رواہ ابوداوٗد : باب مَا جَاءَ فِی إِجَابَۃِ الدَّعْوَۃِ ] ” نافع (رض) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی کی دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور جو بغیر اجازت کے دوسرے کے گھر میں داخل ہو اوہ چور بن کر داخل ہوا اور غاصب بن کر نکلا۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ )[ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ “ مسائل ١۔ ایک داعی اور مبلغ کو لوگوں کی ہرزہ سرائی پر صبر کرنا چاہیے۔ ٢۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) قوت والے ہونے کے باوجود ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ٣۔ حضرت داؤد کے ساتھ صبح، شام پہاڑ بھی اپنے رب کی حمد کرتے تھے۔ ٤۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے پرندے بھی حاضر ہوتے تھے۔ ٥۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حکومت بڑی مستحکم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دانائی عطا فرمائی تھی۔ ٦۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بہت ہی اچھا خطاب فرمانے والے اور صحیح فیصلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی فضیلت اور صابر کا مقام و مرتبہ : ١۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ : ١٥٢) ٢۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٤۔ بیشک جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اظہار کرتے ہوئے صبر و استقامت کا ثبوت دیا انھیں کوئی خوف اور حز ن وملال نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٦۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود : ١١) ٧۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٨۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢١٢ تشریح آیات یہ پورا سبق قصص اور رسولوں کی زندگیوں کی اعلیٰ مثالوں پر مشتمل ہے۔ یہ مثالیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس لیے پیش کی جارہی ہیں کہ آپ ذرا رسل سابقین کی زندگیوں پر غور کریں اور فریش کو تکذیب کررہے تھے۔ الزام تراشیاں کرتے تھے الزام لگاتے تھے اور آپ کی رسالت کو انوکھا سمجھتے تھے ، اس پر صبر کریں اور ان مشکلات کو برداشت کریں جن کی وجہ سے انسان کا جی بھر آتا ہے۔ یہ تمام قصص ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کے لیے رسولوں پر اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے واقعات پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کہ ان رسولوں پر اللہ نے کیا کیا کرم نوازیاں کیں ، بعض رسولوں کو اللہ نے حکومتیں اور بڑی بڑی سلطنتیں عطا کیں۔ اور ان پر بڑے بڑے انعامات کیے۔ یہ واقعات اس لیے بیان کیے کہ اہل قریش کو اس بات پر تعجب ہورہا تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منصب رسالت کیوں عطا کردیا گیا۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی پہلے رسول نہ تھے۔ رسولوں کو تو بڑی بڑی مملکتیں عطا ہوئی ہیں۔ بعض کے لیے تو پہاڑ بھی مسخر کردیئے گئے اور پرندے ان کے ساتھ مل کر تسبیح پڑھتے تھے۔ بعض کے لئے ہوائیں مسخر تھیں اور جن اور شیطان بھی ان کے تابع تھے مثلاً داؤد وسلیمان علیہما السلام۔ آخر یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ محمد ابن عبداللہ کو آخر الزمان کے منصب کے لیے منتخب کردیا گیا۔ ان قصص میں یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ اپنے رسولوں کی نگرانی ہر وقت کرتا رہتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر موڑ پر ہر وقت ہدایات دی جاتی ہیں ان کو تجربات کرائے جاتے ہیں۔ وہ بھی بشر تھے جس طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر ہیں۔ ان رسولوں میں بشری کمزوریاں بھی تھیں۔ چناچہ اللہ ہر وقت نگرانی کرکے ان کو بزری کمزوریوں سے بچاتا تھا۔ اللہ ہر وقت ان کو صحیح موقف بتاتا ہے۔ ان کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کو آزماتا ہے تاکہ ان کی لغزشوں پر مغفرت کردے۔ یہ باتیں بتانے سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو تسلی دینا مقصود ہے کہ آپ اپنے رب کی نگرانی میں کام کررہے ہیں اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگرانی اور حمایت کررہا ہے۔ آیت نمبر 17 تا 20 اصبرصبر کرو یہ تمام رسولوں کی زندگی کا اہم خاصہ ہے۔ وہ خاصہ جس کے کی بناء پر یہ سب لوگ ایک ہی گروہ قرار پاتے ہیں۔ سب اسی راہ پر چلے ، سب نے تکالیف برداشت کیں ۔ سب پر آزمائشیں آئیں اور سب نے ان پر صبر کیا۔ صبر سب کا زادہ تھا۔ انبیائی سلسلہ کے اندر سب نے درجہ بدرجہ مشکلات برداشت کیں۔ ان کی زندگی تجربہ تھی اور تجربہ مشقوں اور ابتلاؤں سے بھرا ہوا تھا۔ مصائب پر وہ صبر کرتے تھے اور ان کے لئے آزمائش تھی اور پھر اللہ کے فضل و کرم پر بھی وہ صبر کرتے تھے اور یہ بھی ابتلا تھی۔ دونوں حالات میں صبر حالات میں صبر ضروری ہوتا ہے اور انہوں نے صبر کیا۔ جس طرح قرآن نے رسولوں کی زندگی کی حکایات بیان کی ہیں اگر ہم ان سب کو پیش نظر رکھیں تو ان کی زندگی کی بنیاد اور ان کی زندگی کا اہم فیچر ہی صبر ہے۔ ان کی پوری زندگی عبارت ہے آزمائشوں مشقوں اور جدوجہد اور صبرو مصابرت سے۔ انبیاء کی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آزمائشوں پر مشتمل ایک برگزیدہ زندگی ہے۔ فی الواقع یہ ایک پر مشقت زندگی ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے جس کے اندر صرف ابتلاؤں اور صبر کے نغمے لکھے ہوئے ہیں۔ اور انسانیت کے لئے نچور نمونہ پیش کیے گئے ہیں تاکہ تاریخ کے اندر اس بات کو ریکارڈ کردیا جائے کہ روح انسان کس طرح مصائب اور زندگی کی ضروریات اور سہولیات کی خواہش پر غالب ہوجاتی ہے۔ اور انسانی روح کس طرح ان تمام اقدار سے برتر ہوجاتی ہیں جن پر دنیا فخر کرتی ہے اور کس طرح انسانی روح دنیا کی دھوکہ دینے والی چیزوں اور نفس کو مرغوب چیزوں سے لاتعلق ہوجاتی ہے۔ صرف اللہ کے لیے ہوجاتی ہے اور یوں آزمائشوں میں فلاح پالیتی ہے۔ وہ اللہ کو تمام ماسوا اللہ پر ترجیح دے دیتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر ہی پھر وہ انسانیت کو چیلنج کرکے کہہ سکتی ہے کہ یہ ہے طریق زندگی ۔ یہ ہے سربلندی کی راہ۔ اور یہ ہے وہ راہ جو نہایت ہی بلندیوں پر اللہ کی طرف جاتی ہے۔ اصبر علیٰ مایقولون (38: 17) ” یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو “۔ اور وہ کیا باتیں کرتے تھے ؟ اجعل الاٰلھة الٰھا واحدا (38: 5) ” کیا اس نے تمام الہوں کی جگہ ایک خدا ٹھہرایا ہے “۔ اور وہ یہ کہتے تھے۔ ء انزل علیه الذکر (38: 8) ” کیا خدا کے کلام کے لیے ہمارے درمیان میں سے صرف اسی کا انتخاب ہونا تھا “ وغیرہ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو متوجہ فرماتا ہے کہ بس آپ صبر کرتے چلے جائیں۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ ان کفار کے ماڈلوں کے مقابلے میں کچھ دوسرے ماڈلوں میں زندہ رہیں۔ پر خلوص اور شریف النفس ماڈلوں کے ساتھ۔ یہ ماڈل آپ کے بھائی انبیائے سابقہ کے ماڈل ہیں۔ آپ کے سامنے ان کے نمونے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ آپ ان کے ساتھ قریبی تعلق کا احساس کریں کہ یہ آپ کے بھائی ، آپ کے نسبی اور رشتہ دار۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ اللہ میرے فلاں بھائی پر رحم کرے۔۔۔ اور میں اس نبی کا زیادہ قریبی ہوں۔ اصبرعلیٰ ۔۔۔۔ اواب (38: 17) ” اے نبی صبر کرو ، ان باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں اور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو ، جو بڑی قوتوں کا مالک تھا اور ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا “۔ داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت قوتوں والے تھے لیکن ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اس قوم نوح ، قوم عاد اور فرعون ، قوم ثمود ، قوم لوط اور اصحاب ایکہ کا ذکر ہوا تھا۔ یہ سب اقوام نہایت ہی سرکش تھیں۔ وہ اپنی قوت کا اظہار یوں کیا کرتی تھیں کہ وہ لوگوں پر ظلم کرتی تھیں زیادتی کرتی تھیں اور حق کی تکذیب کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں داؤد (علیہ السلام) بھی بڑی قوتوں والے تھے ۔ لیکن وہ اواب تھے۔ ہر معاملے میں اللہ کیطرف رجوع کرتے تھے۔ اللہ کے مطیع عبادت گزار اور اسے یاد کرنے والے۔ حالانکہ وہ قوتوں والے اور مقتدر اعلیٰ تھے۔ حضرت داؤد کے قصے کا ابتدائی حصہ اور طالوت کے لشکر میں انکی نمایاں کارکردگی بیان ہوچکی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعد بنی اسرائیل کا یہ لشکر طالوت کی قیادت میں اٹھا تھا۔ اس روز میں بنی اسرائیل زوال پذیر تھے اور انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے لیے اللہ کیطرف سے بادشاہ اور قائد ریاست مقرر ہو ۔ یہ لشکر بنی اسرائیل کے جبار دشمن جالوت سے ٹکرایا۔ داؤد نے جالوت کو قتل کردیا۔ اس دور میں حضرت داؤد نوجوان تھے۔ یوں انکا ستارہ چمکا اور بالاخر وہ بادشاہ بن گئے ۔ لیکن ان کا رویہ یہ تھا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ کیطرف رجوع کرنے والے تھے۔ اطاعت شعار اور عبادت گزار تھے اور ہر وقت ذکر و استغفار میں لگے رہتے تھے۔ اس اقتدار وسلطنت کے ساتھ اللہ نے ان کو نبوت بھی عطا کی اور نہایت ہی خوبصورت آواز ان کو دی گئی تھی۔ یہ نہایت ہی خوش الحانی کے ساتھ اللہ کی ثنا کرتے تھے ۔ یہ ذکر میں اس قدر مستغرق تھے اور حمد وثنا کو اس قدر ترسیل سے پڑھتے تھے کہ ان کے اور اس کائنات کے درمیان کے تمام پردے اٹھ گئے تھے۔ یوں ان کے ساتھ پرندے ، اور پہاڑ بھی ثنا پڑھتے تھے اور اللہ کی تعریف وتمجید کرتے تھے ۔ پہاڑ ان کے ساتھ گنگناتے تھے اور پرندے ان کے اردگرد پھڑ پھڑاتے تھے۔ اور سب کے سب مولائے کریم کے ثنا خواں تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کی باتوں سے رنج ہوتا تھا، آیت بالا میں آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ہمارے بندۂ داؤد کو یاد کیجیے جو قوت والے تھے اور فرمایا کہ وہ اواب تھے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے، پھر ان کی تسبیح کا تذکرہ فرمایا کہ ہم نے ان کے ساتھ پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرو اور پرندوں کو بھی حکم دیا تھا جو جمع ہوجاتے تھے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے یعنی اس کے ذکر میں مشغول رہتے تھے سورة سبا کے دوسرے رکوع میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے اس کی مراجعت کرلی جائے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کا ملک مضبوط کردیا تھا اور انہیں حکمت یعنی نبوت دی تھی اور فصل الخطاب سے نوازا تھا یعنی وہ ایسی تقریر کرتے تھے جو خوب واضح ہوتی تھی، سننے والے اچھی طرح سمجھ لیتے تھے۔ اس کے بعد آئندہ آیات میں ان کا ایک واقعہ ذکر فرمایا جس میں ان کے صبر کا تذکرہ ہے اور اسی نسبت سے (اصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ) کے ساتھ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یاد کرنے کا حکم دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ اصبر الخ : یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ اور نفی شفاعت قہری پر پہلی نقلی دلیل ہے۔ آپ صبر و تحمل سے کام لیں۔ ہم ان کو ان کی گستاخانہ روش کی سخت سزا دینگے۔ اور ان کو داؤود (علیہ السلام) کا قصہ سنائی کہ اس قدر جلالت شان کے باوجود ایک خلاف اولی فعل پر ان کو بھی تنبیہہ کی گئی۔ بھلا یہ سرکش اور گستاخ کس طرح چھورے جاسکتے ہیں ( واذکر عبدنا داوٗد) وکرامتہ علی اللہ کیف زل تلک الزلۃ الیسیرۃ فلقی من عتاب اللہ مالقی (مدارک ج 4 ص 28) ۔ ساتھ ہی نفی شفاعت قہری پر یہ دلیل نقلی بھی ہے۔ یعنی داؤود (علیہ السلام) ایسے جلیل القدر پیغمبر جو نہایت ہی عابد و زاہد اور ساتھ ہی ایک عظیم بادشاہ بھی تھے لیکن بایں ہمہ ان سے ایک لغزش ہوگئی جس کی بنا پر انہیں تنبیہہ کی گئی۔ اس لیے وہ کسی طرح بھی خدا کی بارگاہ میں شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ دلیل نقلی از انبیاء دو قسم کی ہوتی ہے۔ اول یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) کے اقوال اور ان کی تعلیمات کو نقل کیا جائے۔ دوم یہ کہ ان کے احوال نقل کیے جائیں اور ان سے استشہاد کیا جائے۔ اس سورت میں دلیل نقلی کی قسم ثانی مراد ہے۔ 19:۔ ذا الاید الخ یہ حضرت داود (علیہ السلام) کی صفت ہے۔ اید بمعنی قوت و طاقت۔ حضرت داود (علیہ السلام) اللہ کی عبادت میں نہایت مضبوط اور چاک و چوبند رہتے تھے۔ ہر رات نصف شب اللہ کی عبادت میں گذارتے اور ہر دوسرے د روزہ رکھتے تھے۔ یہ ان کی ساری زندگی کا معمول تھا۔ اواب اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع رکھنے والا اور اس کی عبادت وطاعت میں لگا رہنے والا (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اے پیغمبر یہ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کیجئے اور سہار سے کام لیجئے اور ہمارے بندے دائود کو یاد کیجئے جو بڑا صاحب قوت تھا بلا شبہ وہ دائود اللہ تعالیٰ کی طرف بڑا رجوع ہونے والا تھا۔ دائود کا ذکر فرمایا شاید ان سے لغزش ہوگئی تھی اور ان پر عتاب ہوا تھا اس لئے اپنے پیغمبر کو فرماایا کہ تم صبر کرنے میں ذرا لغزش نہ کرنا۔ صاحب قوت سے مراد بعض سلف نے عبادت اور ان کی ریاضت لی ہے کہ وہ ایک دن افطار کرتے تھے اور ایک دن روزہ رکھا کرتے تھے رات کو آدھی رات سوتے تھے پھر ایک تہائی رات عبادت کرتے پھر رات کو چھٹے حصے میں سوتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت دائود کو اعبدالبشر فرمایا کرتے تھے یعنی انسانوں میں زیادہ عبادت گزار تھے سعید بن بلال نے کہا جب دائود اٹھتے تو فرماتے۔ اللھم تامت العیون و غارت النجوم وانت الحی القیوم لا تاخذک سنۃ ولا نوم۔ یا اللہ آنکھیں سو رہی ہیں اور تارے پست ہورہے ہیں اور تو زندہ اور سنبھالنے والا ہے نہ تجھ کو اونگھ آتی ہے نہ نیند آتی ہے۔ اس بنا پر ذالاید کا ترجمہ عبادت کی طاقت وہمت کیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کی طاقت اور لو ہے کو نرم کرنے کی طاقت یا ہاتھ کے بل سے کما کر کھانے کی طاقت مراد ہے اواب رجوع کرنے والا تسبیح کرنے والا یقین کرنے والا مفسرین نے کئی معنی کیے ہیں۔