Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 26

سورة ص

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا یَوۡمَ الۡحِسَابِ ﴿٪۲۶﴾  11

[We said], "O David, indeed We have made you a successor upon the earth, so judge between the people in truth and do not follow [your own] desire, as it will lead you astray from the way of Allah ." Indeed, those who go astray from the way of Allah will have a severe punishment for having forgotten the Day of Account.

اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Advice to Rulers and Leaders This is advice from Allah, may He be exalted, to those who are in positions of authority. They should rule according to the truth and justice revealed from Him, they should not turn away from it and be led astray from the path of Allah. Allah has issued a stern warning of a severe punishment to those who go astray from His path and forget the Day of Resurre... ction. Ibn Abi Hatim recorded that Ibrahim Abu Zur`ah, who read the Scripture, reported that Al-Walid bin Abd Al-Malik said to him: "Does anyone have the right to question the Khalifah? You have read the first Scripture and the Qur'an, and you have understood them." He replied, "May I speak, O Commander of the faithful?" He said, "Speak, for you are under the protection of Allah." I said, "O Commander of the faithful, are you more dear to Allah, or Dawud, peace be upon him, For Allah gave him both Prophethood and rulership, then He warned him in His Book: يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الاْاَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ... O Dawud ! Verily, We have placed you as a successor on the earth; so judge you between men in truth (and justice) and follow not your desire -- for it will mislead you from the path of Allah." ... إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ... Verily, those who wander astray from the path of Allah, Ikrimah said: ... لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ (Those shall) have a severe torment, because they forgot the Day of Reckoning. "They will have a severe punishment on the Day of Reckoning because of what they forgot. " As-Suddi said, "They will have a severe punishment because of what they neglected to do for the sake of the Day of Reckoning." This interpretation is more in accordance with the apparent meaning of the Ayah. And Allah, may He be glorified and exalted, is the Guide to the Truth.   Show more

صاحب اختیار لوگوں کے لئے انصاف کا حکم ۔ اس آیت میں بادشاہ اور ذی اختیار لوگوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کریں ورنہ اللہ کی راہ سے بھٹک جائیں گے اور جو بھٹک کر اپنے حساب کے دن کو بھول جائے وہ سخت عذابوں میں مبتلا ہو گا ۔ حضرت ابو زرعہ رحمتہ اللہ علیہ سے...  بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ کیا خلیفہ وقت سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب لیا جائے گا آپ نے فرمایا سچ بتا دوں خلیفہ نے کہا ضرور سچ ہی بتاؤ اور آپ کو ہر طرح امن ہے ۔ فرمایا اے امیر المومنین اللہ کے نزدیک آپ سے بہت بڑا درجہ حضرت داؤد علیہ السلام کا تھا انہیں خلافت کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی دے رکھی تھی لیکن اس کے باوجود کتاب اللہ ان سے کہتی ہے ( يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ 26؀ۧ ) 38-ص:26 ) عکرمہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے یوم الحساب کو سخت عذاب ہیں اس کے بھول جانے کے باعث سدی کہتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے یوم الحساب کے لئے اعمال جمع نہیں کئے ۔ آیت کے لفظوں سے اسی قول کو زیادہ مناسبت ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] یعنی تمہارا مقام عام لوگوں سے بہت بلند ہے کیونکہ تم ہمارا نائب ہونے کی حیثیت سے لوگوں میں فیصلے کرتے ہو۔ لہذا تمہارے کسی بھی معاملہ میں یا فیصلہ میں اپنی خواہش نفس کا شائبہ تک نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہی چیز اللہ کی راہ سے بہکانے والی ہوتی ہے۔ [٣٤] یعنی انسان بہکتا اس وقت ہے جب اپنی خواہش نفس کے ... پیچھے لگ جائے اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے اس وقت لگتا ہے جب اللہ کے حساب کا دن یاد نہ رہے۔ اگر اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور آنکھوں کے سامنے رہے تو انسان خواہش نفس کی قطعاً پروا نہیں کرتا۔ اور جو شخص یوم الحساب کو بھول گیا تو لازماً اپنی زندگی شتر بےمہار کی طرح گزار دے گا جس کا لازمی نتیجہ اسے عذاب شدید کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ : یہاں لفظ ” قُلْنَا “ (ہم نے کہا) محذوف ہے، یعنی ہم نے کہا اے داؤد ! تمہارا مقام دوسرے لوگوں سے بہت بلند ہے، تم خلیفہ ہو اور وہ رعایا ہیں، تم حاکم ہو اور وہ محکوم ہیں۔ اس لیے لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور اس میں اپنی یا کسی دوسرے کی خو... اہش کا دخل نہ آنے دو ، کیونکہ یہی چیز اللہ کی راہ سے بہکانے والی ہوتی ہے۔ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ : یعنی انسان بہکتا اسی وقت ہے جب اپنی یا کسی کی خواہش نفس کے پیچھے لگتا ہے اور یہ کام وہ تبھی کرتا ہے جب اسے حساب کا دن یاد نہ رہے۔ اگر اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور آنکھوں کے سامنے رہے تو انسان اپنی یا کسی کی خواہش کی پروا نہیں کرتا اور جو شخص یوم حساب کو بھول جائے وہ اپنی ہر جائز و ناجائز خواہش کے پیچھے چلے گا اور شتر بےمہار کی طرح زندگی گزارے گا۔ جس کا نتیجہ اسے شدید عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے داؤد (علیہ السلام) سے خطاب ” وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى“ (خواہش کی پیروی نہ کر) سے نکالا ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کسی خواہش کی پیروی کر بیٹھے تھے، اس پر یہ حکم ہوا۔ حالانکہ خواہش کی پیروی سے تو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی منع کیا گیا ہے، تو کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی خواہش کی پیروی کر بیٹھے تھے۔ کسی کام سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مخاطب وہ کام کرچکا ہے یا کر رہا ہے، بلکہ آئندہ محتاط رہنے کی تاکید کے لیے بھی حکم ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : (وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ ) [ المائدۃ : ٤٩ ] ” اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر۔ “ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : (اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ) [ البقرۃ : ١٤٧ ] ” یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے، پس تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ “ اور فرمایا : ( فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ) [ الأنعام : ٣٥ ] ” پس تو جاہلوں میں سے ہرگز نہ ہو۔ “ سورة قصص میں ہے : (فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ ) [ القصص : ٨٦ ] ” سو تو ہرگز کافروں کا مددگار نہ بن۔ “ اور اس سے اگلی آیت میں ہے : (وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) [ القصص : ٨٧ ] ” اور ہرگز مشرکوں سے نہ ہو۔ “ تو کیا ان آیات سے یہ سمجھا جائے کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کاموں سے اس لیے روکا گیا کہ آپ یہ سب کچھ کر رہے تھے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Not only that Allah Ta’ ala had made Sayyidna Dawud (علیہ السلام) a prophet, He had also placed a government and state at his command. Accordingly, in this verse, he has been entrusted with a basic guideline for the conduct of governance and politics. Three things have been said in this guideline 1. We have made you Our khalifah (caliph, deputy, successor, vicar, vicegerent) on the ear... th. 2. In this capacity, your basic duty is to decide matters in accordance with the truth. 3. And to accomplish this mission, abstention from following personal desires is a binding condition. As for the sense of making someone a khalifah on the earth, it has been discussed in the commentary on Surah Al-Baqarah (please see Ma` ariful-Qur&an, English, Volume I, pages 158-171) and from it emerges the essential principle of Islamic political theory that |"Sovereignty belongs to Allah Ta’ ala.|" All rulers of the earth are bound to operate in accordance with His injunctions alone. They cannot go out of it. Therefore, the ruler of Muslims, the consultative body or assembly might explain or codify Islamic law as such, but the reality is that they are not lawgivers, instead, are introducers of the law of Allah. The basic function of an Islamic state is to establish truth Secondly, it has been made very clear here that the basic function of an Islamic state is to establish truth. It is incumbent on the government that it should establish the rule of truth and justice in all its matters from administration to resolution of disputes. Since Islam is a religion for all times to come, it has not fixed such administrative details as would have to be changed with changing circumstances. Instead of that, it has blessed its followers with the basic guidelines in the light of which administrative details can be settled according to the needs of every period of time. Therefore, no doubt, this much has been made clear here that the essential function of the government is to establish truth, but along with it, its administrative details have been left in the safe hands of sound thinking Muslims of every period. The relationship of the Judiciary and the Executive Accordingly, no such fixed injunction as would stand unalterable in every period of time has been given on the issue of whether the Judiciary remains separate from the Executive or remains part of it. If, in some period of time, full trust can be placed in the honesty and trustworthiness of the rulers, the duality of the judiciary and the executive branches of the government can be eliminated - and if, in a certain period, full trust cannot be placed in the honesty and trustworthiness of the rulers, the Judiciary can also be kept totally independent of the Executive. Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was a great prophet of Allah. Who could have claimed to be as honest and trustworthy as he was? Therefore, he was simultaneously made the head of both the Executive and the Judiciary who also had the responsibility of delivering a verdict in disputes. In addition to the noble prophets (علیہم السلام) ، the same practice continued among the rightly guided khulafa& of the Muslim community (al-khulafa& ar-rashidun) when the amirul-mu&minin (the leader of Muslims or head of the Muslim state) used to be the Qadi (judge) as well. This practice was discontinued by later Islamic governments when the amirul-mu&minin was made the head of the Executive, and the qadi-l-qudat (Chief Justice) that of the Judiciary. The third guideline on which the heaviest stress has been laid in this verse simply says: Do not follow the desires of yourself and keep the day of Reckoning in sight all the time. The reason for such a stress is that this thing is the very foundation of any effort to establish the supremacy of truth. Only a Hakim (ruler) or Qadi (judge) who has the fear of Allah and the concern of Hereafter in his heart can establish the supremacy of truth and justice in the real sense of the term. Nothing short of this would work. You are welcome to make laws, the best you can. The ability of the desiring human self to conceal its stratagems and carve out an operational outlet through any law or system is virtually unbeatable. As long as this thing is there, the best of law and system cannot establish the rule of law, truth and justice. The history of the world and the current scenario of our time bear witness to this submission. The first thing to watch around offices charged with responsibility is the character of the human being sitting there Right from here we also learn that in order to place someone in a position of authority, such as an official of the government, or a judge of the judiciary (or someone in any other role of public or private responsibility), the first thing one has to look for is whether or not this person has the fear of Allah in his heart, the concern for &Akhirah, the life to come on his mind and, of course, the state of his morals and character. If it is realized that he has nothing of the sort as the fear of Allah in his heart, instead, his desiring self sits there as the monarch of all it surveys, then, no matter how high his degrees in education, and no matter how superb his expertise and experience in the field, he is not deserving of any high office of responsibility in the sight of Islam.  Show more

خلاصہ تفسیر اے داؤد، ہم نے تم کو زمین پر حاکم بنایا ہے، سو (جس طرح اب تک کرتے رہے ہو، اسی طرح آئندہ بھی) لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا اور (جس طرح اب تک کبھی نفسانی خواہش کی پیروی نہیں کی، اسی طرح آئندہ بھی) نفسانی خواہش کی پیروی مت کرنا کہ (اگر ایسا کرو گے تو) وہ خدا کے رستہ سے تم کو بھ... ٹکا دے گی (اور) جو لوگ خدا کے رستہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہوگا اس وجہ سے کہ وہ روز حساب کو بھولے رہے۔ معارف ومسائل حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ حکومت و سلطنت بھی عطا فرمائی تھی، چناچہ اس آیت میں حکومت وسیاست کے لئے آپ کو ایک بنیادی ہدایت نامہ عطا کردیا گیا ہے۔ اس ہدایت نامہ میں تین بنیادی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں :۔ (١) ہم نے آپ کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ (٢) اس حیثیت سے آپ کا بنیادی کام حق کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ (٣) اور اس کام کے لئے خواہشات نفسانی کی پیروی سے بچنا ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک زمین میں خلیفہ بنانے کا تعلق ہے، اس کا مفہوم سورة بقرہ میں گزر چکا ہے (دیکھئے معارف القرآن جلد اول ص ٤٢١) اور اسی سے اسلامی سیاست کا یہ اصل الاصول واضح ہوتا ہے کہ ” اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے “ زمین کے حکمران اسی کے احکام کے مطابق چلنے کے مجاز ہیں اس سے باہر نہیں جاسکتے۔ لہٰذا مسلمانوں کا حاکم، شوریٰ یا اسمبلی اسلامی قانون کی تشریح یا تدوین تو کرسکتی ہے، لیکن درحقیقت وہ واضح قانون نہیں بلکہ اللہ کے قانون کو پیش کرنے والے ہیں۔ اسلامی ریاست کا بنیادی کام اقامت حق ہے : دوسری بات یہاں واضح کردی گئی ہے کہ اسلامی ریاست کا بنیادی کام اقامت حق ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنے انتظامی معاملات اور تنازعات کے تصفیہ میں حق و انصاف قائم کرے۔ اسلام چونکہ ایک ابدی دین ہے، اس لئے اس نے سیاست و حکمرانی کے لئے ایسے انتظامی جزئیات کی تعیین نہیں فرمائی، جو حالات اور زمانے کے بدلنے سے قابل تبدیل ہوجائیں۔ بلکہ کچھ ایسی بنیادی ہدایات عطا فرما دی ہیں جن کی روشنی میں ہر زمانے کے مطابق انتظامی جزئیات خود طے کی جاسکتی ہیں۔ اسی لئے یہاں یہ بات تو بتادی گئی ہے کہ حکومت کا اصل کام اقامت حق ہے، لیکن اس کی انتظامی تفصیلات ہر دور کے اہل رائے مسلمانوں پر چھوڑی گئی ہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کا رشتہ : چنانچہ یہ بات کہ عدلیہ انتظامیہ سے بالکل الگ رہے یا اس کے ساتھ وابستہ ؟ اس مسئلہ میں کوئی ایسا متعین حکم نہیں دیا گیا جو ہر دور میں ناقابل تبدیل ہو۔ اگر کسی زمانہ میں حکمرانوں کی امانت و دیانت پر پورا اعتماد کیا جاسکتا ہو تو عدلیہ اور انتظامیہ کی دوری کو مٹایا جاسکتا ہے اور اگر کسی دور میں حکمرانوں کی امانت و دیانت پر پورا بھروسہ نہ ہو تو عدلیہ کو انتظامیہ سے بالکل آزاد بھی رکھا جاسکتا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ پیغمبر تھے ان سے زیادہ امانت و دیانت کا کون دعویٰ کرسکتا تھا ؟ اس لئے انہیں بیک وقت انتظامیہ اور عدلیہ دونوں کا سربراہ بنا کر تنازعات کے فیصلے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ خلفاء راشدین میں بھی یہی طرز رہا کہ امیر المومنین خود ہی قاضی بھی ہوتا تھا۔ بعد کی اسلامی حکومتوں میں اس طریقے کو بدلا گیا اور امیر المومنین کو انتظامیہ کا اور قاضی القضاة کو عدلیہ کا سربراہ بنایا گیا۔ تیسری ہدایت جس پر اس آیت میں سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی پیروی مت کرو، اور روز حساب کو ہر وقت پیش نظر رکھو۔ اس ہدایت پر سب سے زیادہ زور اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ چیز اقامت حق کی بنیاد ہے۔ جس حاکم یا قاضی کے دل میں خدا کا خوف اور آخرت کی فکر ہے وہی صحیح معنی میں حق و انصاف قائم کرسکتا ہے۔ اور اگر یہ نہیں ہے تو آپ اچھے سے اچھا قانون بنا لیجئے۔ نفس انسانی کی دسیسہ کاریاں ہر جگہ اپنا راستہ خود بنا لیتی ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی بہتر سے بہتر نظام قانون بھی حق و انصاف قائم نہیں کرسکتا۔ دنیا کی تاریخ اور موجودہ زمانے کے حالات اس پر گواہ ہیں۔ ذمہ داری کے عہدوں میں سب سے پہلے دیکھنے کی چیز انسان کا کردار ہے : یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی شخص کو حاکم، قاضی یا کسی محکمے کا افسر بنانے کے لئے سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں خدا کا خوف اور آخرت کی فکر ہے یا نہیں اور اس کے اخلاق و کردار کی کیا حالت ہے ؟ اگر یہ محسوس ہو کہ اس کے دل پر خوف خدا کے بجائے خواہشات نفسانی کی حکمرانی ہے تو خواہ وہ کیسی اعلیٰ ڈگریاں رکھتا ہو اور اپنے فن میں کتنا ہی ماہر اور پختہ کار ہو، اسلام کی نظر میں وہ کسی اونچے منصب کا مستحق نہیں ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَۃً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ۝ ٢٦ۧ داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد...  ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (یا دائود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض ناحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ۔ اے دائود (علیہ السلام) ! ہمنے آپ کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے سو لوگوں کے درمیان انصاف فیصلہ کرتے رہیے اور نفسانی خواہش کی پیروی نہ کیجئے کہ وہ اللہ کے راستے سے آپ کو بھٹکادے گی) ہمیں عبدالباقی بن ق... انع نے روایت بیان کی، انہیں حارث بن ابی اسامہ نے، انہیں ابو عبید قاسم بن سلام نے، انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن سلمہ سے، انہوں نے حمید سے اور انہوں نے حسن سے کہ اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا وعدہ لیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ نفسانی خواہش کی پیروی نہ کریں، اللہ سے ڈرتے رہیں اور انسانوں سے نہ ڈریں، اور اللہ کی آیات کے عوض تھوڑی قیمت نہ لیں۔ پھر انہوں نے درج بالا آیات کی تلاوت کی۔ نیز یہ بھی تلاوت کی (انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا۔ ہم نے تورات نازل کی اس میں ہدایت اور روشنی ہے اس کے مطابق وہ ابنیاء فیصلے کرتے تھے جو فرمانبردار تھے) تا قول باری (فلا تخشوالناس واخشون۔ لوگوں سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو) سلیمان بن حرب نے حماد بن ابی سلمہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حمید سے کہ ایاس بن معاویہ کو جب عہدہ قضا سپرد ہوا تو حسن بصری ان کے پاس گئے، انہیں دیکھ کر ایاس رونے لگے ، حسن نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا۔” مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ قاضیوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں ان میں دو قسمیں جہنم میں جائیں گی اور صرف ایک قسم جنت کی مستحق ہوگی۔ جو قاضی کسی مسئلے میں اجتہاد کرے گا لیکن اجتہاد میں اس سے غلطی ہوجائے وہ جہنم میں جائے گا۔ جو قاضی خواہش نفسانی کے تحت غلط فیصلے کی طرف مائل ہوجائے گا وہ بھی جہنم میں پڑے گا اور جو قاضی اجتہاد کرے گا اور اجتہاد کے ذریعے درست فیصلہ کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ “ حسن نے یہ سن کر کہا۔ ” اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہم سے حضرت دائود (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ بیان کیا ہے جو انہوں نے ایک فصل کے جھگڑے کے سلسلے میں کیا تھا۔ پھر فرمایا (وکلا اتیناہ حکما وعلما۔ اور حکمت وعلم تو ہم نے ہر ایک کو دیا تھا) اس کے ذریعے اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تعریف کی لیکن حضرت دائود (علیہ السلام) کی مذمت نہیں کی۔ “ پھر حسن نے یہ فرمایا۔ ” اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا وعدہ لیا ہے۔ “ انہوں نے یہاں اپنی پوری بات بیان کی جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت بریدہ (رض) کی روایت میں وہ بات بیان کی گئی ہے جس کا ذکر ایاس بن معاویہ نے اپنی روایت میں کیا ہے کہ قاضی جب فیصلہ کرنے میں غلطی کرے گی تو وہ جہنم میں جائے گا۔ یہ روایت محمد بن بکرالبصری نے سنائی ہے ، انہیں ابودائود سبحستانی نے، انہیں محمد بن حسان السمنی نے، انہیں خلف بن خلیفہ نے ابو ہاشم سے، انہوں نے حضرت بریدہ (رض) کے ایک بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (القضاۃ ثلاثۃ واحد فی الجنۃ واثنان فی النار فاما الذی فی الجنۃ فرجل عرف الحق وقضی بہ۔ ورجل عرف الحق فجار فی الحکم فھوفی النار ورجل قضی للناس عن جھل فھو فی النار۔ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں پڑیں گے۔ جنت میں جانے والا قاضی وہ ہوگا جسے حق کی معرفت حاصل ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے اور جسے حق کی معرفت حاصل ہو لیکن فیصلہ کرنے میں ظلم اور ناانصافی سے کام لے وہ جہنم میں جائے گا اور جو شخص علم کے بغیر ہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا وہ بھی جہنم میں جائے گا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ جو شخص علم کے بغیر جہالت کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان غلط فیصلے کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے داؤد علیہ السلام، ہم نے تمہیں بنی اسرائیل پر حاکم اور نبی بنایا ہے سو لوگوں کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا اور آئندہ بھی نفسانی خواہش کی پیروی مت کرنا کہ کہیں وہ تمہیں اطاعت خداوندی سے ہٹا دے جو لوگ اللہ کے رستہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہوگا اس وجہ سے کہ انہوں نے روز حساب کے لیے نیکیاں کرنا چھوڑ...  دیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ } ” (ہم نے کہا : ) اے دائود ( علیہ السلام) ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے ‘ لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو “ { وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ” او... ر دیکھو ! اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ “ { اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ } ” یقینا وہ لوگ جو بھٹک جاتے ہیں اللہ کے راستے سے ان کے لیے بڑا سخت عذاب ہے ‘ بسبب اس کے کہ وہ بھول گئے حساب کے دن کو۔ “ اگر حساب کا دن یاد رہے اور آخرت کی زندگی کا یقین دل میں موجود ہو تو انسان راہ راست پر رہتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 This is the warning that AIlah gave the Prophet David on accepting his repentance along with giving him the good news of exalting his rank. This by itself shows that the error that he had committed contained an clement of the desires of the flesh; it also pertained to the abuse of power and authority; and it was an act which was unworthy of a just and fair-minded ruler. We are confronted with ... three questions here: (1) What was the error that the Prophet David committed? (2) Why has Allah made only tacit allusions to it instead of mentioning it openly and directly? (3) What is its relevance to the present context? The people who have studied the Bible (the Holy Book of the Jews and Christians) are not unaware that in this Book the Prophet David has been accused clearly of committing adultery with the wife of Uriah the Hittite and then marrying her after having Uriah intentionally slain in a battle. It has also been alleged that this same woman, who had surrendered herself to the Prophet David, while being another man's wife, was the mother of the Prophet Solomon. This story is found with all its details in chapters 11 and 12 of the Second Book of Samuel in the Old Testament. It had been included in it centuries before the revelation of the Qur'an. Any Jew or Christian who read his Holy Book anywhere in the world, or heard it read, was not only aware of this story but also believed in it as true. It spread through them, and even in the present time no book is written in the West on the history of the Israelites and the Hebrew religion, in which this charge against the Prophet David is not repeated. This well known story also contains the following: And the Lord sent Nathan onto David. And he came unto him, and said unto him, There were two men in one city; the one rich, and the other poor. The rich man had exceeding many flocks and herds: But the poor man had nothing, save one little ewe Iamb, which he had bought and nourished up: and it grew up together with him, and with his children; it did eat of his own meat, and drank of his own cup, and lay in his bosom, and was unto him as a daughter. And there Came a traveller Unto the rich man, and he spared to take of his own flock and of his own herd, to dress for the wayfaring man that was comc unto him; but took the poor man' Iamb, and dressed it for the man that was comc to him. And David's anger was greatly kindled against the man; and he said to Nathan, As the Lord liveth, the man that hath done this thing shall surely die: And he shall restore the lamb fourfold, because he did this thing, and because he had no pity. And Nathan said to David, Thou art the man. Thus saith the Lord God of Israel, I anointed thee king over Israel, and I delivered thee out of the hand of Saul; And I gavc thee thy master's house, and thy master's wives into thy bosom, and gavc thee the house of Israel and of Judah; and if that had been too little, I would moreover have given unto thee such and such things. Wherefore hast thou despised the canmandment of the Lord, to do evil in his sight? Thou hast killed Uriah the Hittite with the sword, and hast taken his wife to be thy wife, and hast slain him with the sword of the children of Ammon." (2 Samuel, ch 12: 1-9). When this story was so well known among the people there was no need that a detailed account of it should have been given in the Qur'an, nor is it the way of Allah to mention such things openly in His Holy Book. That is why only tacit allusions have been made to it here as well as pointed out what the actual event was and what the people of the Book have turned it into. The actual event as one clearly understands from the aforesaid statement of the Qur'an was: The Prophet David peace be upon him) had only expressed this desire before Uriah (or whatever be the name of the man) that he should divorce his wife; as this desire had been expressed not by a common man but by an illustrious king and a great Prophet before a member of the public, the man was finding himself constrained to yield to it even in the absence of any compulsion. On this occasion, before the man could act as the Prophet David had desired, two righteous men of the nation suddenly made their appearance before David and presented before him this matter in the form of an imaginary case. At first, the Prophet David thought it was a real case, and so gave his decision after hearing it. But as soon as he uttered the words of the decision, his conscience gave the warning that the parable precisely applied to the case between him and the person, and that the act which he was describing as an injustice had issued forth from his own person. As soon as he realized this, he fell down prostrate, repented and reversed his decision. " The question, as to how this event took the ugly shape as related in the Bible, also becomes obvious after a little consideration. It appears that the Prophet David had come to know of the unique qualities of the woman through some means and had started thinking that she should be the queen of the country instead of being the wife of an ordinary officer, Overwhelmed by the thought he expressed the desire before her husband that he should divorce her. He did not see any harm in it because it was not looked upon as anything improper among the Israelites. It was an ordinary thing among them that if a person happened to like the wife of another, he would freely request him to give her up for him. Nobody minded such a request, and often it so happened that friends would divorce their wives for each other's sake of their own accord, so that the other may marry her. However, when the Prophet David expressed this desire, he did not realize that the expression of such a desire could be without compulsion and coercion when expressed by a common Tnan, but it could never be so when expressed by a king. When his attention was drawn to this aspect of the matter through a parable, he gave up his desire immediately, and the thing was forgotten. But afterwards when, without any desire or planning on his part, the woman's husband fell martyr on the battlefield, and he married her, the evil genius of the Jews started concocting stories and this mischievous mentality became even more acute after a section of the Israelites turned hostile to the Prophet . Solomon. (Please see E. N . 56 of An-Naml). Under these motives the story was invented that the Prophet David, God forbid, had seen Uriah's wife washing herself from the roof of his palace. He had her called to his house and committed adultery with her and she had conceived. Then he had sent Uriah on the battle-front to fight the children of Ammon, and had commanded Joab, the army commander, to appoint him in the forefront of the battle where he should be killed. And when he was killed, he married his widow, and from the same woman the Prophet Solomon (peace be upon him) was born. The wicked people described all these false accusations in their "Holy Book", so that they should go on reading it generation after generation and slandering the two most illustrious men of their community, who were their greatest benefactors after the Prophet Moses. A section of the commentators of the Qur'an has almost entirely accepted these tales that have reached them through the Israelites. They have dropped only that pan of these traditions in which mention has been made of the accusation of adultery against the Prophet David and the woman's having conceived. The rest of the story. as found in the traditions reproduced by them is the same as it was well known among the Israelites. Another group of the commentators has altogether denied that any such act was ever committed by the Prophet David, which bore any resemblance with the case of the ewes. Instead of this, they have put forward such interpretations of this story as are wholly baseless, unauthentic and without relevance to the context of the Qur'an itself. But among the Muslim commentators themselves there are some who have accepted the truth and the facts of the story through the clear references made to it in the Qur'an. Here are, for instance, some of their views: Both Masruq and Said bin Jubair have related this saying of Hadrat 'Abdullah bin 'abbas. "The only thing that the Prophet David did was that he expressed his desire before the woman' husband that he should give up his wife for him. " lbn Jarir). 'Allama Zamakhshari writes in his commentary Al-Kashshaf. 'The way Allah has narrated the story of the Prophet David indicates that he had only expressed his desire before the man that he should leave his wife for him. " 'Allama Abu Bakr al-Jassas has expressed the opinion that the woman was not the other man's wedded wife but was only his betrothed. The Prophet David had also asked for the same woman's hand in marriage. This earned him Allah's displeasure, for he had asked for her hand in spite of the fact that another Muslim had already asked for her hand, and the Prophet David had several wives already with him in his house. (Ahkam al-Qur an). Some other commentators also have expressed the same opinion, but this dces not entirely conform to what the Qur'an has said. The words of the suitor as related in the Qur'an are to the effect: "I have only one ewe; he says: Give this ewe also in my charge." The Prophet David also said the same thing in his decision: "This person has certainly wronged you in demanding your ewe to be added to his ewes." This parable could apply to the case between the Prophet David and Uriah only in case the woman was the latter's wife. Had it been the cast of asking for the woman's hand when another Muslim had already asked for her hand, the parable would have been like this: "I desired to have an ewe, ard this man said: Icave this also for me." Qadi Abu Bakr Ibn al-'Arabi has discussed this question in detail in his Ahkam al-Qur an and concluded: "What actually happened was just that the Prophet David asked one of his men to Icave his wife for him and made this demand seriously ...The Qur'an does not say that the man gave up his wife on this demand and the Prophet David then married her and the Prophet Solomon was born of her womb . . . W hat displeased Allah was that he asked the woman's husband to leave her for him. This act, even if otherwise lawful, was unworthy of the office of Prophethood; that is why he earned Allah's displeasure and was admonished. " This commentary fits in well with the context in which this story has been told. A little consideration of the context shows that it has been related in the Qur'an on this occasion for two objects. The first object is to exhort the Holy Prophet to patience, and for this purpose he has been addressed and told: °Have patience on what these people say against you, and remember Our servant David." That is, 'You are being accused only of sorcery and lying, but Our servant David was even accused of adultery and having a person killed wilfully, by the wicked people: therefore, bear up against what you may have to hear from these people." The other object is to warn the disbelievers to the effect: °You are committing all sorts of excesses in the world with impunity, but the God in Whose Godhead you are committing these misdeeds dces not spare anyone from being called to account. Even if a favourite and beloved servant of His happens to commit but a minor error, He calls him to strict accountability. For this very object the Holy Prophet has been asked: 'Tell them the story of Our servant David, who was a man of high character, but when he happened to commit sin, We did not even spare him but condemned him severely' . " In this regard, there is another misunderstanding which mast also be removed. The suitor in his parable said that his brother had 99 ewes and he had only one ewe, which he was demanding from him. From this one gets the idea that perhaps the Prophet David had 99 wives, and by having another he wanted to make their number 100. But, in fact, it is not necessary that every minor part of the parable should be literally applicable to the case between the Prophet David and Uriah the Hittite. In common idiom the numbers ten, twenty, fifty, etc. are mentioned to express plurality and not to indicate the exact number of something. When a man tells another that he has told him something ten times over, he only means to stress that he has been told that thing over and over again. The same is also true here. By means of the parable the suitor wanted the Prophet David to realize that he already had several wives with him, and even then he desired to have the only wife of the other man. This same thing has been cited by the commentator Nisaburi from Hadrat Hasan Basri: `The Prophet David did not have 99 wives: this is only a parable." (For a detailed and well-reasoned discussion of this story, see our book Tafhimat, vol. II, pp. 29.44).  Show more

سورة صٓ حاشیہ نمبر :28 یہ وہ تنبیہ ہے جو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے اور بلندی درجات کی بشارت دینے کے ساتھ حضرت داؤد کو فرمائی ۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا ، اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئ... ی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرمانروا کو زیب نہ دیتا تھا ۔ یہاں پہنچ کر تین سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ اول یہ کہ وہ فعل کیا تھا ؟ دوسرے یہ کہ اس سیاق و سباق میں اس کا ذکر کس مناسبت سے کیا گیا ہے؟ جن لوگوں نے بائیبل ( عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب مقدس ) کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں حضرت داؤد پر اُوریاہ حِتّی ( Orian the Hittite ) کی بیوی سے زنا کرنے ، اور پھر اور یاہ کو ایک جنگ میں قصداً ہلاک کروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لینے کا صاف صاف الزام لگایا گیا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہی عورت ، جس نے ایک شخص کی بیوی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو داؤد کے حوالے کیا تھا ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں تھی ۔ یہ پورا قصہ بائیبل کی کتاب سموئیل دوم ، باب 11 ۔ 12 میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔ نزول قرآن سے صدیوں پہلے یہ بائیبل میں درج ہو چکا تھا ۔ دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو بھی اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کرتا ، یا اسے سنتا تھا ، وہ اس قصے سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اس پر ایمان بھی لاتا تھا ۔ انہی لوگوں کے ذریعہ سے یہ دنیا میں مشہور ہوا اور آج تک حال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بنی اسرائیل اور عبرانی مذہب کی تاریخ پر کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جاتی جس میں حضرت داؤد کے خلاف اس الزام کو دہرایا نہ جاتا ہو ۔ اس مشہور قصے میں یہ بات بھی ہے کہ: خداوند نے نَاتَن کو داؤد کے پاس بھیجا ۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے ۔ ایک امیر ، دوسرے غریب ۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلے تھے ۔ پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالا تھا ۔ اور وہ اس کے اور اس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی ۔ وہ اسی کے نوالے میں کھاتی اور اسکے پیالہ سے پیتی اور اس کی گود میں سوتی تھی اور اس کے لیے بطور بیٹی کے تھی ۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا ۔ سو اس نے مسافر کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلے میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی ۔ تب داؤد کا غضب اس شخص پر بشدت بھڑکا اور اس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم ، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے ۔ اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا ۔ تب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے ـــــــ تو نے حتّی اور یاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی غمّون کی تلوار سے قتل کروایا ۔ ( 2 ۔ سموئیل ، باب 12 ۔ فقرات 1 تا 11 ) اس قصے اور اس کی اس شہرت کی موجودگی میں یہ ضرورت باقی نہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی تفصیلی بیان دیا جاتا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنی کتاب پاک میں ایسی باتوں کو کھول کر بیان کرے ۔ اس لیے یہاں پردے پردے ہی میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اہل کتاب نے اسے بنا کیا دیا ہے ۔ اصل واقعہ جو قرآن مجید کے مذکورہ بالا بیان سے صاف سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اور یاہ ( یا جو کچھ بھی اس شخص کا نام رہا ہو ) سے محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ اور چونکہ یہ خواہش ایک عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جلیل القدر فرمانروا اور ایک زبردست دینی عظمت رکھنے والی شخصیت کی طرف سے رعایا کے ایک فرد کے سامنے ظاہر کی گئی تھی ، اس لیے وہ شخص کسی ظاہری جبر کے بغیر بھی اپنے آپ کو اسے قبول کرنے پر مجبور پا رہا تھا ۔ اس موقع پر قبل اس کے کہ وہ حضرت داؤد کی فرمائش کی تعمیل کرتا ، قوم کے دو نیک آدمی اچانک حضرت داؤد کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ایک فرضی مقدمے کی صورت میں یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیا ۔ حضرت داؤد ابتداء میں تو یہ سمجھے کہ یہ واقعی کوئی مقدمہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اسے سن کر اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ لیکن زبان سے فیصلہ کے الفاظ نکلتے ہی ان کے ضمیر نے تنبیہ کی کہ یہ تمثیل پوری طرح ان کے اور اس شخص کے معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے ، اور جس فعل کو وہ ظلم قرار دے رہے ہیں اس کا صدور خود ان سے اس شخص کے معاملہ میں ہو رہا ہے ۔ یہ احساس دل میں پیدا ہوتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور توبہ کی اور اپنے اس فعل سے رجوع فرما لیا ۔ بائیبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی؟ یہ بات بھی تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ میں آجاتی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونی چاہیے ۔ اس خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی ۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تو بے تکلف اس سے درخواست کر دیتا تھا کہ اسے میرے لیے چھوڑ دے ۔ ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا ۔ بلکہ بسا اوقات دوست ایک دوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دوسرا اس سے شادی کر لے ۔ لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو اس امر کا احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ہے ، مگر ایک فرمانروا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جائے تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی ۔ اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامل اپنی اس خواہش سے دست بردار ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی ۔ مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش اور کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا ، اور انہوں نے اس سے نکاح کر لیا ، تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کر دی ، اور یہ خبیث نفس اس وقت اور زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دشمن ہو گیا ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 582 ) ۔ ان محرکات کے زیر اثر یہ قصہ تصنیف کر ڈالا گیا کہ حضرت داؤد نے معاذاللہ اور یاہ کی بیوی کو اپنے محل کی چھت پر سے اس حالت میں دیکھ لیا تھا کہ وہ برہنہ نہا رہی تھی ۔ انہوں نے اس کو اپنے ہاں بلوایا اور اس سے زنا کا ارتکاب کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئی ۔ پھر انہوں نے اور یاہ کو بنی عمون کے مقابلہ پر جنگ میں بھیج دیا اور فوج کے کمانڈر ہوآب کو حکم دیا کہ اسے لڑائی میں ایسی جگہ مقرر کر دے جہاں وہ لازماً مارا جائے ۔ اور جب وہ مارا گیا تو انہوں نے اس کی بیوی سے شادی کر لی ، اور اسی عورت کے پیٹ سے سلیمان ( علیہ السلام ) پیدا ہوئے ۔ یہ تمام جھوٹے الزامات ظالموں نے اپنی کتاب مقدس میں ثبت کر دیے ہیں تاکہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے رہیں اور اپنی قوم کے ان دو بزرگ ترین انسانوں کی تذلیل کرتے رہیں جو حضرت موسیٰ کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔ قرآن مجید کے مفسرین میں سے ایک گروہ نے تو ان افسانوں کو قریب قریب جوں کا توں قبول کر لیا ہے جو بنی اسرائیل کے ذریعہ سے ان تک پہنچے ہیں ۔ اسرائیلی روایات کا صرف اتنا حصہ انہوں نے ساقط کیا ہے جس میں حضرت داؤد پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور عورت کے حاملہ ہو جانے کا ذکر تھا ۔ باقی سارا قصہ ان کی نقل کردہ روایات میں اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح وہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا ۔ دوسرے گروہ نے سرے سے اس واقعہ ہی کا انکار کر دیا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا تھا جو دنبیوں والے مقدمہ سے کوئی مماثلت رکھتا ہو ۔ اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے اس قصے کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں ، جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور خود قرآن کے سیاق و سباق سے بھی وہ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں ۔ لیکن مفسرین ہی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک بات تک پہنچا ہے اور قرآن کے واضح اشارات سے قصے کی اصل حقیقت پا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں : مسروق اور سعید بن جبیر ، دونوں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ حضرت داؤد نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا کہ اس عورت کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اپنی بیوی کو میرے لیے چھوڑ دے ۔ ( ابن جریر ) علامہ زمخشری اپنی تفسیر کشا ف میں لکھتے ہیں کہ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شخص سے صرف یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ ان کے لیے اپنی بیوی کو چھوڑ دے ۔ علامہ ابوبکر جصاص اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں بلکہ صرف مخطوبہ یا منسوبہ تھی ، حضرت داؤد نے اسی عورت سے نکاح کا پیغام دے دیا ، اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے مومن بھائی کے پیغام پر پیغام دیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں پہلے سے کئی بیویاں موجود تھیں ( احکام القرآن ) ۔ بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔ لیکن یہ بات قرآن کے بیان سے پوری مطابقت نہیں رکھتی ۔ قرآن مجید میں مقدمہ پیش کرنے والے کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ لِیْ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا ۔ میرے پاس بس ایک ہی دنبی ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالہ کر دے ۔ یہی بات حضرت داؤد نے بھی اپنے فیصلہ میں ارشاد فرمائی کہ قَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ ۔ اس نے تیری دنبی مانگنے میں تجھ پر ظلم کیا ۔ یہ تمثیل حضرت داؤد اور اور یاہ کے معاملہ پر اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی ہے جبکہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو ۔ پیغام پر پیغام دینے کا معاملہ ہوتا تو پھر تمثیل یوں ہوتی کہ ایک دنبی لینا چاہتا تھا اور اس نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں اصل واقعہ بس یہی ہے کہ حضرت داؤد نے اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص سے کہا کہ میرے لیے اپنی بیوی چھوڑ دے ، اور سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا ــــــ قرآن میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ شخص ان کے اس مطالبہ پر اپنی بیوی سے دست بردار ہو گیا اور حضرت داؤد نے اس عورت سے اس کے بعد شادی بھی کر لی اور حضرت سلیمان علیہ السلام اسی بطن سے پیدا ہوئے ــــــ جس بات پر عتاب ہوا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے ایک عورت کے شوہر سے یہ چاہا کہ وہ ان کی خاطر اسے چھوڑ دے ــــــــ یہ فعل خواہ فی الجملہ جائز ہی ہو مگر منصب نبوت سے بعید تھا ، اسی لیے ان پر عتاب بھی ہوا اور ان کو نصیحت بھی کی گئی ۔ یہی تفسیر اس سیاق و سباق سے بھی مناسبت رکھتی ہے جس میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں اس مقام پر یہ قصہ دو اغراض کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان پر صبر کرو ، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو ۔ یعنی تمہیں تو ساحر اور کذاب ہی کہا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے بندے داؤد پر تو ظالموں نے زنا اور سازشی قتل تک کے الزامات لگا دیے ، لہٰذا ان لوگوں سے جو کچھ بھی تم کو سننا پڑے اسے برداشت کرتے رہو ۔ دوسری غرض کفار کو یہ بتانا ہے کہ تم لوگ ہر محاسبے سے بے خوف ہو کر دنیا میں طرح طرح کی زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہو ، لیکن جس خدا کی خدائی میں تم یہ حرکتیں کر رہے ہو وہ کسی کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا ، حتیٰ کہ جو بندے اس کے نہایت محبوب و مقرب ہوتے ہیں ، وہ بھی اگر ایک ذرا سی لغزش کے مرتکب ہو جائیں تو خداوند عالم ان سے سخت مواخذہ کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو ایسی اور ایسی خوبیوں کا مالک تھا ، مگر جب اس سے ایک بے جا بات سرزد ہو گئی تو دیکھو کہ ہم نے اسے کس طرح سرزنش کی ۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی اور باقی رہ جاتی ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔ تمثیل میں مقدمہ پیش کرنے والے نے یہ جو کہا ہے کہ اس شخص کے پاس 99 دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے جسے یہ مانگ رہا ہے ، اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید حضرت داؤد کے پاس 99 بیویاں تھیں اور وہ ایک عورت حاصل کر کے 100 کا عدد پورا کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن دراصل تمثیل کے ہر ہر جز کا حضرت داؤد اور اور یاہ حتّی کے معاملے لفظ بہ لفظ چسپاں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ عام محاورے میں دس ، بیس ، پچاس وغیرہ اعداد کا ذکر صرف کثرت کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ ٹھیک تعداد بیان کرنے کے لیے ۔ ہم جب کسی سے کہتے ہیں کہ دس مرتبہ تم سے فلاں بات کہہ دی تو اس کا مطلب یہ نہی ہوتا کہ دس بار گن کر وہ بات کہی گئی ہے ، مطلب یہ ہوتا ہے بارہا وہ بات کہی جاچکی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔ تمثیلی مقدمہ میں وہ شخص حضرت داؤد کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس متعدد بیویاں ہیں ، اور پھر بھی آپ دوسرے شخص کی بیوی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی بات مفسر نیسابوری نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے نقل کی ہے کہ لم یکن لداؤد تسع وتسعون امرأۃ وانما ھٰذا مثل ، حضرت داؤد کی 99 بیویاں نہ تھیں بلکہ یہ صرف ایک تمثیل ہے ۔ ( اس قصے پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی کتاب تفہیمات حصہ دوم میں کی ہے ۔ جو اصحاب ہماری بیان کردہ تاویل کی ترجیح کے مفصل دلائل معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب کے صفحات 29 تا 44 ملاحظہ فرمائیں ۔ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ ٢٩۔ اوپر گزر چکا ہے کہ طالوت بادشاہ کے انتقال کے بعد بادشاہت اور شمویل (علیہ السلام) نبی کی وفات کے بعد نبوت یہ دونوں نعمتیں اللہ تعالیٰ نے دائود (علیہ السلام) کو عطا فرمائیں۔ اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے دائود اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیا اور بادشاہوں کا تم کو نائب اس لئے ملک میں م... قرر کیا ہے۔ کہ بغیر دل کی چاہ کے لگائو کے خالص حکم الٰہی کے موافق نبوت اور حکومت کو چلائو اور دل کی چاہ کے لگائو سے تم کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ دل کی چاہ آدمی کو حکم الٰہی کی فرمانبرداری سے دور ڈال دیتی ہے۔ اور حکم الٰہی کی فرمانبرداری سے دور پڑجانا ایسے لوگوں کا کام ہے جو قیامت کے حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہونے کو بھولے ہوئے ہیں۔ اور اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے۔ یہ اتنا بڑا کارخانہ اللہ تعالیٰ نے بےفائدہ نہیں کیا بلکہ اسی فائدہ کے لئے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے۔ کہ اس جہان کے ختم ہوجانے کے بعد نیکی کی جزا و بدی کی سزا کے لئے ایک دوسرا جہان پیدا کیا جاوے۔ کیونکہ سب کی آنکھوں کے سامنے بہت سے نیک لوگ دنیا میں تنگ دستی سے اور بد لوگ خوشحالی سے گزر کرتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے حکمت الٰہی کے موافق نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کے لئے دوسرا جہان مقرر ہے کیونکہ نیک و بد کو ہمیشہ ایک حال میں رکھنا انصاف الٰہی کے بالکل برخلاف ہے۔ اب قریش کو تنبیہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ یہ سراپا عقبیٰ کی بہبودی کی نصیحت کا قرآن اے رسول اللہ کے اللہ نے تم پر اس لئے نازل فرمایا ہے کہ جو لوگ عقل سلیم رکھتے ہیں وہ اس سے یہ نصیحت حاصل کریں کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد دنیا کے نیک و بد کی جزا و سزا کا فیصلہ ضرور ہونے والا ہے۔ کیونکہ بغیر اس کے دنیا کا پیدا کرنا بالکل بےٹھکانے ٹھہرتا ہے جو اللہ کی شان سے بہت بعید ہے صحیح سند سے ابی ١ ؎ دائود نسائی ابن ماجہ اور صحیح ابن حباب میں آنحضرت کے پروردہ ابو عبد الرحمن سفینہ سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ نبوت کی خلافت میرے بعد تیس برس تک رہے گی بعد اس کے بادشاہ لوگ ہوں گے۔ یہ تیس برس خلفائے اربعہ کی خلافت کے زمانہ اور حضرت امام حسن (رض) کی چھ مہینے کی خلافت کو ملا کر پورے ہوجاتے ہیں۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے اور اس حدیث سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بڑا معجزہ نکلتا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت اور نبوت چلانے کے لئے ان آیتوں میں جو نصیحت دائود (علیہ السلام) کو کی تھی جب تک اس امت کے خلفا میں اس نصیحت کا اثر رہا اس وقت تک اس امت میں بھی خلافت چلی پھر بعد اس کے دنیوی بادشاہت کا طریقہ جاری ہوگیا۔ چناچہ حضرت معاویہ نے جب اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی بیعت شام اور مدینہ کے لوگوں سے لی تو عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق نے اعتراض کیا۔ کہ یہ طریقہ کسریٰ اور قیصر بادشاہوں کا ہے خلفائے نبوت کا یہ طریقہ نہیں ہے اور حدیث کے موافق معجزہ کا حاصل یہ ہے کہ پیشن گوئی کے طور پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلافت و نبوت کی جو مدت قرار دی تھی بالکل اسی کے موافق ظہور ہوا۔ یہ ابو عبد الرحمن سفینہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردہ ہیں ان کا نام مہران ہے ایک دفعہ انہوں نے سفر سامان بہت سا لے لیا تھا اس دن سے ان کا لقب سفینہ ہوگیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کشتی پر سامان لادتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے اوپر سامان لاد لیا قریش کے بارہ خلفا کی جابر بن سمرہ کی حدیث بہت صحیح ١ ؎ ہے لیکن وہ حدیث خلافت نبوت اور بادشاہت کو ملا ہے کیونکہ تیس برس میں قریش کے بارہ خلیفہ نہیں ہوئے یہ قریش میں کے بارہ خلفاء کی تعداد خلفائے بنی امیہ کے خلیفہ ولید بن یزید بن عبد الملک پر ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد پھر طرح طرح کے جھگڑے شروع ہوگئے جن کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں ہے۔ (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ شریف کا ب الفتن فیما تکون منھا الی قیام الساعۃ ص ٤٦٣) (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ شریف باب مناقب قریش ص ٥٥٠ و ابودائود باب المھدی ص ج ٢)  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:26) یداود : ای قلنا یا داؤد لا تتبع : فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تو اتباع نہ کر۔ تو پیروی نہ کر۔ اتباع (افتعال) مصدر ۔ الھوی۔ اسم ومصدر (باب سمع) ناجائز گفسانی خواہش، ناجائز رغبت۔ فیضلک۔ ف سببیہ ہے۔ یضل مضارع واحد مذکر کا صیغہ ہے اضلال (افعال) مصدر سے۔ اس کا نصب بوجہ جواب نہی ہے۔ ضمیر فاعل کا...  مرجع الھوی ہے۔ ای فیکون الھوی سببا لضلالک کہ یہ خواہش نفسانی تیری گمراہی کا سبب بن جائے ۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ یضلک وہ تجھے گمراہ کر دے گی۔ وہ تجھے بہکا دے گی۔ یضلون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ضل (باب ضرب) مصدر سے۔ وہ بھٹکتے ہیں۔ وہ بہکتے ہیں۔ راستہ کھو دیتے ہیں۔ بما میں باء سببیہ ہے اور ما مصدریہ۔ ای لہم عذاب شدید بنسیان یوم الحساب۔ یوم حساب کو بھلانے پر ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ نسوا ماضی جمع مذکر غائب نسیان (باب سمع) مصدر سے۔ وہ بھول گئے۔ انہوں نے بھلا دیا۔ یوم الحساب۔ مضاف مضاف الیہ ۔ حساب کا دن۔ یوم قیامت۔ یہ نسوا کا مفعول ہے اور بدیں وجہ منصوب ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ بات اوروں کو سنا جو ٹھیک رہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) دنیا میں بڑے مرتبے اور مقام کے حامل تھے اور قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے مقرب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں خلیفہ بنا کر خصوصی ہدایات فرمائیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بڑے بڑے حکمران اور ذیشان انبیائے کرام (علیہ السلام) ہوئے...  لیکن ان کی اولاد میں صرف حضرت داؤد (علیہ السلام) ایسی شخصیت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ فی الارض ہونے کا اعزاز بخشا۔ اس لیے انہیں ارشاد ہوا کہ اے داؤد (علیہ السلام) ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تیرا فرض بنتا ہے کہ تو لوگوں کے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلے کرے۔ تجھے کسی صورت بھی حق بات چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر تو اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑے گا۔ تو اللہ کے راستے سے بھٹک جائے گا جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہوگا کیونکہ انہوں نے آخرت کے حساب کو فراموش کردیا تھا۔ ” خَلِیْفَۃٌ“ کا معنٰی ہے ” دوسرے کے پیچھے آنے والا “ البقرۃ کی آیت ٣٠ کی تشریح میں عرض کیا جا چکا ہے کہ خلیفہ کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں بلکہ اس کا معنٰی حکمران کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین میں جنات رہتے تھے ان کے بعد دنیا کا نظام کے حوالے کیا گیا جس بنا پر آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ فی الارض کے لقب سے نوازا گیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بکریوں کے چرواہے تھے۔ اپنے دور کے ایک جرنیل طالوت کی فوج میں شامل ہوئے جن کا مقابلہ جالوت کے ساتھ ہوا۔ داؤدنے اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے جس کی وجہ سے فوج کے کمانڈر کے مقبول نظر ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن و جمال اور کمال صلاحیتوں سے سرافراز فرمایا تھا اس لیے بہت جلد اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز کیا اور بےمثال حکمران بنایا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خلیفہ فی الارض ہونے کا شرف بخشا۔ ٢۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) خلیفہ ہونے کے ساتھ عظیم حکمران بھی تھے۔ ٣۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن گمراہ لوگوں کو شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ زمین میں لوگوں کو ایک دوسرے کا خلیفہ بنا تا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ : ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے ضرور خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا۔ (النور : ٥٥) ٣۔ اللہ چاہے تو تمہیں اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا خلیفہ بنادے۔ (الانعام : ١٣٣) ٤۔ تمہارا رب جلد ہی تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) ٥۔ پھر ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس : ١٤) ٦۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود : ٥٧) اپنی یا لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے والے گمراہ ہوجاتے ہیں : ١۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٢۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٦) ٣۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : ٥٠) ٤۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو اِلٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٥۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المومنون : ٧١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس قصے پر جو تبصرہ آیا ہے ، وہ صاف صاف بتاتا ہے کہ حضرت داؤد کی آزمائش کی نوعیت کیا تھی۔ اللہ نے حضرت داؤد کو حکومت دی تھی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلے کریں ، اس لیے متعین ہوگیا کہ اس آزمائش و امتحان کا تعلق جو ڈیشل پر وسیڈنگز سے تھا۔ چناچہ کہا گیا : آیت نمبر 26 حضرت داؤد (علیہ ال... سلام) کو یہ کہا گیا کہ آپ کو زمین کا اقتدار اعلیٰ دیا گیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان حق پر مبنی فیصلے کریں اور ان فیصلوں میں اپنی ذاتی چاہت کا خیال نہ رکھیں ۔ جہاں تک نبی کا تعلق ہے وہ تو خواہشات نفس کی پیروی سے محفوظ ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ابتدائی میلان پر ہی فیصلہ نہ کردیا کریں۔ یہ نہ ہو کہ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیقات کیے ہی فیصلہ نہ کردیا کریں۔ کیونکہ اس طرح جلدی میں بغیر تحقیق کے فیصلے غلط ہوتے ہیں۔ آیت کے آخر میں حکم عام ہے۔ ان تمام لوگوں کیلیے جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوتے ہیں۔ جو اللہ کو بھول جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے دن شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔ خلافت ارضی میں سچائی پر چلنے کے اصول کے طے ہونے کے بعد اور لوگوں کے درمیان سچائی اور حق پر مبنی فیصلے کے احکام کے بعد اور قصہ داؤد (علیہ السلام) کے ختم ہونے سے پہلے اس سچائی کو اس عالم گیر سچائی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے جس کے اوپر زمین و آسمان قائم ہیں اور آسمان اور زمینوں کے درمیان پوری کائنات قائم ہے۔ یہ سچائی اس کائنات کے اندر بہت گہری ہے اور صرف خلاف فی الارض کی سچائی اور لوگوں کے درمیان عدل کی سچائی سے بہت عام ہے۔ یہ سچائی اس زمین سے بھی وسیع تر ہے جبکہ یہ صرف اس دنیا کی زندگی سے بھی آگے عالم آخرت تک پھیلی ہوئی ہے ۔ جس طرح یہ کائنات اس کی لپیٹ میں ہے اسی طرح عالم آخرت بھی اس کی لپیٹ میں ہے ۔ اس عالم گیر سچائی پر یہ آخری رسالت مبنی ہے اور اللہ کی یہ آخری کتاب اسی ہمہ گیر اور والم گیر سچائی کی مظہر اور مفسر ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خلافت کا اعلان اس آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کا خطاب ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کو فرمایا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا سو آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش نفس کا اتباع نہ کیجیے ورنہ یہ خواہش آپ کو اللہ کے راستہ سے ہٹا د... ے گی یوں تو ہر حاکم پر لازم ہے کہ فیصلہ کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے لیکن خاص طور پر جسے اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا اور نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اس کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ حق اور حقیقت اور عدل و انصاف پر قائم رہے۔ اتباع ہویٰ کی مذمت نیز یہ بھی خطاب فرمایا کہ آپ اتباع ہویٰ سے پرہیز کریں یعنی خواہش نفس کا اتباع نہ کریں ورنہ وہ آپ کو اللہ کے راستہ سے ہٹا دے گی، درحقیقت دو ہی چیزیں ہیں اتباع ہدیٰ اور اتباع ہویٰ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جو عمل کرنے کے لیے حکم ہو وہ ھدی یعنی ہدایت ہے اور اس کا اتباع کرنا لازمی ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نہ ہو اپنے نفس کے تقاضوں کے مطابق ہو، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کے خلاف ہو اس کا اتباع کرنا جائز نہیں ہے یہ نفس کا اتباع ہی تو ہے جو بندوں کو احکام شرعیہ سے روکتا ہے جو لوگ قاضی اور حاکم ہیں اور جج ہیں یہ لوگ خلاف شرع فیصلے کرجاتے ہیں، رشوت لے لیتے ہیں یا اپنے رشتے دار کی رشتہ داری کو دیکھ کر اس کے حق میں فیصلہ کردیتے ہیں یہ اتباع ہویٰ ہی تو ہے سورة النساء میں فرمایا : (یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا) (اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے رہو اگرچہ اپنی ہی ذات پر ہو یا والدین یا دوسرے رشتہ داروں کے مقابلہ میں ہو وہ شخص اگر امیر ہے تو اور غریب ہے تو دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو زیادہ تعلق ہے تو تم خواہش نفس کا اتباع مت کرنا کبھی تم حق سے ہٹ جاؤ) اور بہت سے حکام کسی کی دشمنی میں ظالمانہ فیصلہ دے دیتے ہیں سورة المائدہ میں اسی کو فرمایا (وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا) (اور کسی قوم کا بغض تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ ) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل کے سایہ کی طرف پہلے پہنچنے والے کون ہیں ؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں حق دیا جائے تو قبول کرلیں اور جب ان سے حق کا سوال کیا جائے تو پوری طرح دے دیں اور لوگوں کے لیے اسی طرح فیصلے کریں جیسے اپنے لیے فیصلہ کرتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٢٢) یہ اتباع ہویٰ ہی قرآن و حدیث کے احکام میں تاویل کرنے پر آمادہ کرتا ہے علماء سے بدظن کرتا ہے، زکوٰۃ نہ دینے کے لیے حیلے اور بہانے تراشتا ہے بےپردگی اور سود کو حلال کرنے کے لیے ایسے لوگوں کی تحریروں کی آڑ لیتا ہے جو اخلاص سے خالی ہیں تقویٰ سے دور ہیں بھرپور علم سے بعید ہیں، ننگے پہناوے، ناچ رنگ، نفس و نظر کی حرام لذت، جاہ و شہرت کی طلب اور مال کثیر کی رغبت شریعت کے خلاف عمل کرنے پر آمادہ کرنا اتباع ہویٰ ہی کا کام ہے، کسی بھی مرنے والے کی میراث شرعی وارثوں کو نہ دینا، بہنوں کو باپ کے ترکہ سے نہ دینا مزدور سے کام لے کر مزدوری نہ دینا یہ اور اسی طرح کی سینکڑوں چیزیں ہیں جنہیں انسان اتباع ہویٰ کی وجہ سے اختیار کرتا ہے اور احکام شرعیہ سے منہ موڑتا ہے جو لوگ ہدایت کا اتباع کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر چلنے ہی کو زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں اور جو حکم سنتے ہیں مان لیتے ہیں۔ خواہشوں کا اتباع گمراہ کردیتا ہے یہ جو فرمایا (فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) اس میں یہ بتادیا کہ خواہشوں کا اتباع کرنا اللہ تعالیٰ کے راستہ سے ہٹا دیتا ہے جس طرح دنیاوی احکام میں نفس کی خواہشوں کے پیچھے چلنے کی وجہ سے قوانین شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہے اسی طرح امور آخرت میں بھی اتباع ہویٰ اللہ کے راستہ سے ہٹا دیتا ہے نام دین کا اور بزرگی کا ہوتا ہے لیکن کام شریعت کے خلاف ہوتے ہیں، یہ جو قبر پرستی ہے جھوٹی پیری مریدی ہے عرسوں کے خرافات ہیں اپنی طرف سے تجویز کردہ نفل نمازوں کی بدعات ہیں یہ سب اتباع ہویٰ کی وجہ سے ہے ان لوگوں کو عموماً اتباع سنت سے زیادہ بدعات پر چلنا زیادہ مرغوب ہے کیونکہ وہ ان کی اپنی نکالی ہوئی ہیں اور شیطان بھی ان کو بدعات پر ابھارتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ ابلیس نے کہا کہ میں نے لوگوں کو گناہوں پر ڈال کر ہلاک کردیا اور انہوں نے مجھے استغفار کے ساتھ ہلاک کردیا، (یعنی میں گناہ کرواتا تھا وہ گناہ کرکے استغفار کرلیتے تھے جس سے میری محنت پر پانی پھرجاتا تھا) لہٰذا میں نے یہ کیا کہ ان کے لیے وہ چیزیں نکال لیں جو دین الٰہی میں نہیں ان کی خواہشوں کے مطابق انہیں وہ نیکی سمجھ کر کرتے ہیں لہٰذا وہ ان چیزوں سے توبہ نہیں کرتے (الترغیب والترہیب للحافظ المنذری) جب خواہشات نفس کا اتباع کریں گے اور ان اعمال کو نیکی سمجھ کر کریں گے تو توبہ نہ کریں گے لہٰذا عذاب میں مبتلا ہوں گے اور شیطان کا مقصد پورا ہوگا۔ گمراہ لوگ عذاب شدید کے مستحق ہیں (اِِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ) (بلاشبہ جو لوگ اللہ کی راہ سے ہٹتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے حساب کے دن کو بھول جانے کے سبب سے) اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹنے والوں کے لیے وعید بیان فرما دی اور یہ بھی بتادیا کہ یہ لوگ اس لیے مبتلا عذاب ہوں گے کہ دنیا میں رہتے ہوئے حساب کے دن کو بھول گئے تھے اس میں تعمیم ہے کہ اتباع ہویٰ کی وجہ سے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹا ہو یا اور کسی وجہ سے وہ عذاب شدید کا مستحق ہوا ہو ان گمراہیوں میں عام طور سے وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو قیامت کو نہیں مانتے، یا مانتے تو ہیں لیکن وہاں کی حاضری کا خیال نہیں رکھتے اور اسے بھول بھلیاں کیے رہتے ہیں اس لیے وہاں کے لیے تیاری نہیں کرتے اور اپنی جان کو مستحق عذاب بناتے رہتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ یا داود الخ : حضرت داود (علیہ السلام) کو دنیا میں جو شان و منزلت عطا کی گئی اس کا ذکر ہے اور ساتھ ہی ہدایت بھی ہیں۔ ہم نے آپ کو زمین میں حکومت عطا کی اور آپ کو لوگوں کے معاملات کا متولی بنایا ہے۔ اس لیے لوگوں کے باہمی تنازعات کا تصفیہ پوری چھان بین اور تحقیق سے کیا کریں اور عدل و انصاف کو اپنا ... شعار بنائیں۔ محکمات میں اور دیگر تمام امور میں خواہش نفس دخل انداز نہ ہونے پائے اور نہ وہ راہ حق اور جادہ عدل سے منحرف کردے گی۔ جو لوگ خواہش نفس کے تابع ہو کر راہ حق سے بھٹک جائیں گے، ان کے لیے سخت ترین عذاب ہے، کیونکہ انہوں نے قیامت کے دن کو بھلا دیا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اے دائود ہم نے تجھ کو زمین میں حکمران بنایا ہے پس تو لوگوں کے مابین انصاف کے فیصلے کیا کر اور اپنے نفس کی خواہش اور اپنے جی کی خواہش پر نہ چل کہ وہ خواہش پرچلنا تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکادے گا بلاشبہ جو لوگ اللہ کی راہ سے بےراہ ہوجاتے ہیں ان کو اس وجہ سے کہ انہوں نے حساب کے دن کو فراموش ک... ر رکھا تھا سخت عذاب ہوگا۔ حضرت دائود کو خطاب فرمایا کہ اے دائود ہم نے تم کو خلیفہ اور ملک میں حاکم بنایا ہے خلیفہ یعنی پچھلوں کے جانشین ہو۔ بہرحال ! نبوت کے ساتھ حکومت بھی عطا کی ہے لہٰذا ہمیشہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرتے رہنا اور نفسانی خواہش کو دخل نہ دینا ورنہ یہ جی کی خواہش پرچلنا اور ہوائے نفسانی کی اتباع کرنا تجھ کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بچلا دے گی اور بیشک جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کا برا حشر ہوتا ہے اور اس بنا پر کہ انہوں نے یوم حساب کو بھلا دیا ان کو سخت عذاب کا منہ دیکھنا ہوگا۔ یہ جو فرمایا کہ یوم حساب کو بھول جانے کے سبب اس سے معلوم ہوا یوم حساب کو فراموش کردینا تمام روحانی امراض کی جڑ ہے چونکہ اوپر سے توحید رسالت اور بعثت کا بیان تھا بیچ میں سعی کی تائید میں حضرت دائود کا ذکر کیا گیا تاکہ توحید الٰہی اور رسالت کے درجات کا اظہار ہوجائے۔ اب پھر چند آیتوں میں توحید رسالت اور بعثت کا ذکر ہے۔  Show more