Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 30

سورة ص

وَ وَہَبۡنَا لِدَاوٗدَ سُلَیۡمٰنَ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ؕ۳۰﴾

And to David We gave Solomon. An excellent servant, indeed he was one repeatedly turning back [to Allah ].

اور ہم نے داؤد کو سلیمان ( نامی فرزند ) عطا فرمایا ، جو بڑا اچھا بندہ تھا اور بےحد رجوع کرنے والا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Suleiman the Son of Dawud Allah tells, وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ... And to Dawud We gave Suleiman. How excellent a servant! Verily, he was ever turning in repentance (to Us)! Allah tells us that he gave Suleiman to Dawud as a Prophet, as He says elsewhere: وَوَرِثَ سُلَيْمَـنُ دَاوُودَ And Suleiman inherited Dawud, (27:1) meaning, he inherited Prophethood from him. Dawud had other sons besides Suleiman, for he had one hundred free wives. ... نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ How excellent a servant! Verily, he was ever oft-returning in repentance (to Us)! This is praise for Suleiman, because he was very much obedient, worshipping Allah much and always turning to Allah in repentance. إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ

حضرت سلیمان حضرت داؤد کے وارث ۔ اللہ تعالیٰ نے جوا یک بڑی نعمت حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ ان کی نبوت کا وارث ان کے لڑکے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بنا دیا ۔ اسی لئے صرف حضرت سلیمان کا ذکر کیا ورنہ ان کے اور بچے بھی تھے ۔ ایک سو عورتیں آپ کی لونڈیوں کے علاوہ تھیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ 16؀ ) 27- النمل:16 ) یعنی حضرت داود کے وارث حضرت سلیمان ہوئے یعنی نبوت آپ کے بعد انہیں ملی ۔ یہ بھی بڑے اچھے بندے تھے یعنی خوب عبادت گذار تھے اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے ۔ مکحول کہتے ہیں کہ جناب داؤد نبی نے ایک مرتبہ آپ سے چند سوالات کئے اور ان کے معقول جوابات پا کر فرمایا کہ آپ نبی اللہ ہیں ۔ پوچھا کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ کی طرف سکینت اور ایمان پوچھا کہ سب سے زیادہ میٹھی چیز کیا ہے؟ جواب ملا اللہ کی رحمت پوچھا سب سے زیادہ ٹھنڈک والی چیز کیا ہے؟ جواب دیا اللہ کا لوگوں سے درگذر کرنا اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دینا ( ابن ابی حاتم ) حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے گھوڑے پیش کئے گئے ۔ یہ بہت تیز رفتار تھے جو تین ٹانگوں پر کھڑے رہتے تھے اور ایک پیر یونہی سا زمین پر ٹکتا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پردار گھوڑے تھے تعداد میں بیس تھے ۔ ابراہیم تمیمی نے گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار بتلائی ہے ۔ واللہ اعلم ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک یا خیبر کے سفر سے واپس آئے تھے گھر میں تشریف فرما تھے جب تیز ہوا کے جھونکے سے گھر کے کونے کا پردہ ہٹ گیا وہاں حضرت عائشہ کی کھیلنے کی گڑیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بھی پڑ گئی ۔ دریافت کیا یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں آپ نے دیکھا کہ بیچ میں ایک گھوڑا سا بنا ہوا ہے جس کے دو پر بھی کپڑے کے لگے ہوئے ہیں ۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گھوڑا ہے فرمایا اور یہ اس کے اوپر دونوں طرف کپڑے کے کیا بنے ہوئے ہیں؟ کہا یہ دونوں اس کے پر ہیں ۔ فرمایا اچھا گھوڑا اور اس کے پر بھی؟ صدیقہ نے عرض کیا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے پردار گھوڑے تھے ، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے آخری دانت دکھائی دینے لگے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے دیکھنے بھالنے میں اس قدر مشغول ہوگئے کہ عصر کی نماز کا خیال ہی نہ رہا بالکل بھول گئے ۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام جنگ خندق والے دن لڑائی کی مشغولیت کی وجہ سے عصر کی نماز نہ پڑھ سکے تھے اور مغرب کے بعد ادا کی ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سورج ڈوبنے کے بد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا ۔ آپ نے فرمایا میں بھی اب تک ادا نہیں کر سکا ۔ چنانچہ ہم بطحان میں گئے وہاں وضو کیا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور پھر مغرب پڑھی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دین سلیمان میں جنگی صالح کی وجہ سے تاخیر نماز جائز ہو اور یہ جنگی گھوڑے تھے جنہیں اسی مقصد سے رکھا تھا ۔ چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا بھی ہے کہ صلوۃ خوف کے جاری ہونے سے پہلے یہی حال تھا ۔ بعض کہتے ہیں جب تلواریں تنی ہوئی ہوں لشکر بھڑ گئے ہوں اور نماز کے لئے رکوع و سجود کا امکان ہی نہ ہو تب یہ حکم ہے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیستر کی فتح کے بعد موقعہ پر کیا تھا لیکن ہمارا پہلا قول ہی ٹھیک ہے اس لئے کہ اس کے بعد ہی حضرت سلیمان کا ان گھوڑوں کو دوبارہ طلب کرنا وغیرہ بیان ہوا ہے ۔ انہیں واپس منگوا کر ان کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا میرے رب کی عبادت سے مجھے اس چیز نے غافل کر دیا میں ایسی چیز ہی نہیں رکھنے کا ۔ چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں اور ان کی گردنیں ماری گئیں ۔ لیکن حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آپ نے گھوڑوں کے پیشانی کے بالوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرا ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں کہ بلا وجہ جانوروں کو ایذاء پہنچانی ممنوع ہے ان جانوروں کا کوئی قصور نہ تھا جو انہیں کٹوا دیتے لیکن میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات ان کی شرع میں جائز ہو خصوصاً ایسے وقت جبکہ وہ یاد اللہ میں حارج ہوئے اور وقت نماز نکل گیا تو دراصل یہ غصہ بھی اللہ کے لئے تھا ۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان گھوڑوں سے بھی تیز اور ہلکی چیز اللہ نے اپنے نبی کو عطا فرمائی یعنی ہوا ان کے تابع کر دی ۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو دھما اکثر حج کیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں ہماری ایک بدوی سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہت کچھ دینی تعلیم دی اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر تو جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائیگا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] بات یہاں سے چلی تھی کہ خواہش نفس کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو روز آخرت کے محاسبہ کا خیال نہیں رکھتے۔ پھر روز آخرت پر دو دلائل دینے کے بعد اسی قصہ کی طرف رجوع کیا جارہا ہے۔ کہ ہم نے داؤد کو سلیمان (جیسا بیٹا) عطا فرمایا جو انہی کی طرح نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اور انہی کی طرح اللہ کے عبادت گزار بھی تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَوَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمٰنَ : داؤد (علیہ السلام) پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے انھیں سلیمان جیسا بلند مرتبے والا بیٹا عطا کیا۔ جو ان کی طرح نبی تھا اور ایسا بادشاہ تھا کہ اس کے بعد ایسا بادشاہ نہیں ہوا۔ سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٧٨ تا ٨١) ، نمل (١٥ تا ٤٤) اور سبا (١٢) ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ : ” اَوَّابٌ“ آبَ یَؤُوْبُ أَوْبًا (ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت رجوع کرنے والا۔ یعنی وہ اللہ کے بہت اچھے بندے تھے اور اپنے ہر معاملے میں اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے اور کوئی قدم اپنی خواہش کی بنا پر نہیں اٹھاتے تھے۔ آگے ان کے اللہ تعالیٰ کا اچھا بندہ اور اس کی طرف بہت رجوع کرنے والا ہونے کی مثال کے طور پر ان کے دو واقعات بیان فرمائے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In these verses, an event relating to Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) has been mentioned. The gist of the well known Tafsir of this event is that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was so engrossed in the inspection of the horses that he missed to perform the Salah of Al-` Asr at his usual time. Later, when he was alerted to this loss, he slaughtered all those horses as the unfortunate interference in the remembrance of Allah took place because of them. This missed Salah could be a nafl salah. Given this situation, there should be no difficulty in understanding what Sulayman (علیہ السلام) did, for the noble prophets try to make amends for even this much of negligence. And it is also possible that the Salah concerned was obligatory (fard) and his engrossment in the inspection might have caused him to forget. Although if someone forgets to perform the fard (obligatory) Salah, it does not cause a sin to have been committed, but Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) ، in view of his high station, expiated for that too. This Tafsir of the cited verses has been reported from several leading authorities among the commentators. Even a great scholar of Ibn Kathir&s stature has preferred this Tafsir. Then, it is also supported by a marfu& Hadith (attributed to the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) reported by &Allamah Suyuti with reference to the Mu&jim of Tabarani, Ismaili and Ibn Marduwayh. عن ابی کعب (رض) عن النّبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہٖ فطفق مسحاً بالسّوق والاعناق قال قطع سوفھا و أعناقھا بالسیف From &Ubaiyy Ibn Ka&b , from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : About the word of Allah: (and he started passing his hands over the shanks and the necks.), he said: |"Cut their legs and necks with the sword.|" ` Allamah Suyuti has declared its rating as Hasan. (ad-Durr-ul-Manthur, p. 309, v. 5) and quoting this Hadith in Majma&-uz-Zawa&id, ` Allamah Haithami says: &Tabarani has reported this in al-Awsat. Said Ibn Bashir is one of the narrators there. He has been called trustworthy by Shu&bah and others. Ibn Ma&in and others call him weak. The rest of the men reporting are trustworthy.& (Majma&-uz-Zawa&id, p. 99, v. 7, Kitabu-t-Tafsir) Because of this Hadith, this Tafsir becomes fairly strong. But, it generally lends to the doubt that the horses were a gift of Allah and wasting one&s property in that manner does not seem to befit the station of a prophet. Commentators have answered it by saying that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) owned these horses, and the sacrifice of horses was also permissible in his code of law very similar to that of cows, goats and camels. Therefore, he never wasted the horses, in fact, sacrificed them in the name of Allah. Just as the act of sacrificing a cow or goat is not tantamount to wasting it, instead, it is an act of ` ibadah, the sacrifice of horses offered by him was nothing but an act of ` ibadah (Ruh-ul-Ma’ ani). Most commentators have explained this verse in this very manner. But, there is another Tafsir of these verses reported from Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) where the description of the event differs. A gist of the Tafsir is that the horses presented before Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) were specially prepared for Jihad. Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was pleased to see them while he also said that the attachment he had to those horses was not because he loved worldly life, rather it was because of his remembrance of Allah in that these were prepared for Jihad, and Jihad was an act of worship at its highest. In the meantime, that lineup of horses went out of his sight. He asked that they be brought back again. Accordingly, when they appeared before him once again, he started stroking and patting their necks and legs with affection. According to this Tafsir, the word: عَن (an: from or because) in: عَن ذِكْرِ‌ رَ‌بِّي ) ’ an dhikri-rabbi: from or because of the remembrance of my Lord) is the &an of cause& عَن سَببیّہ ( ‘an sababiyah), and the pronoun in: تَوَارَ‌تْ (tawarat: disappeared) is invariably reverting to horses, and: مَسحُ (mash) does not mean to cut, instead, it means to pass or wipe hands (over the body of the horses) with affection. Classical commentators like Hafiz Ibn Jarir Tabari, Imam Razi and others have preferred this very Tafsir, because it is free from any possible doubt about property being wasted. In terms of the words of the noble Qur&an, there is room for both explanations. But, since a marfu& Hadith has appeared in favor of the first Tafsir, a Hadith that is hasan (good) as regards its authority, therefore, it has become weightier and more acceptable.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو سلیمان (علیہ السلام فرزند) عطا کیا بہت اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہونے والے تھے (چنانچہ ان کا وہ قصہ یاد رکھنے کے لائق ہے) جبکہ شام کے وقت ان کے روبرو اصیل (اور) عمدہ گھوڑے (جو بغرض جہاد وغیرہ رکھے جاتے تھے) پیش کئے گئے (اور ان کے ملاحظہ کرنے میں اس قدر دیر ہوگئی کہ دن چھپ گیا اور کوئی معمول از قسم نماز فوت ہوگیا اور بوجہ ہیبت و جلالت کے کسی خادم کی جرأت نہ ہوئی کہ مطلع و متنبہ کرے، پھر جب خود ہی تنبہ ہوا) تو کہنے لگے کہ (افسوس) میں اس مال کی محبت کی خاطر (لگ کر) اپنے رب کی یاد سے (یعنی نماز سے) غافل ہوگیا، یہاں تک کہ آفتاب پردہ (مغرب) میں چھپ گیا (پھر خادموں کو حکم دیا کہ) ان گھوڑوں کو ذرا پھر تو میرے سامنے لاؤ (چنانچہ لائے گئے) سو انہوں نے ان (گھوڑوں) کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار سے) ہاتھ صاف کرنا شروع کیا (یعنی ان کو ذبح کر ڈالا) ۔ معارف ومسائل ان آیتوں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کی مشہور تفسیر وہی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں ذکر کی گئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کے معائنہ میں ایسے مشغول ہوئے کہ عصر کا وقت جو نماز پڑھنے کا معمول تھا وہ چھوٹ گیا، بعد میں متنبہ ہو کر آپ نے ان تمام گھوڑوں کو ذبح کر ڈالا کہ ان کی وجہ سے یاد الٰہی میں خلل واقع ہوا تھا۔ یہ نماز نفلی بھی ہو سکتی ہے۔ اور اس صورت میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اتنی غفلت کی بھی تلافی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرض نماز ہو، اور معائنہ میں لگ کر بھول طاری ہوگئی ہو، بھول جانے کی صورت میں فرض نماز کے قضا ہونے سے گناہ تو نہیں ہوتا۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بلند منصب کے پیش نظر اس کا بھی تدارک فرمایا۔ ان آیات کی یہ تفسیر متعدد ائمہ تفسیر سے منقول ہے، اور حافظ ابن کثیر جیسے محقق عالم نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ اور اس کی تائید ایک مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے جو علامہ سیوطی نے معجم طبرانی اسماعیلی اور ابن مردویہ کے حوالے سے نقل کی ہے :۔ عن ابی بن کعب عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہ فطفق مسحاً بالسوق والاعناق قال قطع سو تھا واھنا تھا بالسیف) علامہ سیوطی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (درمنثور ص ٩٠٣ ج ٥) اور علامہ ھثیمی مجمع الزوائد میں یہ حدیث نقل کر کے لکھتے ہیں۔ ” اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے اس میں ایک راوی سعید بن بشیر ہیں، جنہیں شعبہ وغیرہ نے ثقہ کیا ہے، اور ابن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے باقی رجال ثقہ ہیں “ (مجمع الزوائد ص ٩٩ ج ٧ کتاب التفسیر) اس حدیث مرفوع کی وجہ سے یہ تفسیر کافی مضبوط ہوجاتی ہے لیکن اس پر عموماً یہ شبہ ہوتا ہے کہ گھوڑے اللہ کا عطا کیا ہوا ایک انعام تھا، اور اپنے مال کو اس طرح ضائع کردینا ایک نبی کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ گھوڑے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ذاتی ملکیت میں تھے، اور ان کی شریعت میں گائے، بکری، اونٹ کی طرح گھوڑوں کی قربانی بھی جائز تھی، لہٰذا انہوں نے گھوڑوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کردیا۔ جس طرح گائے، بکری کی قربانی سے ان کو ضائع کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ یہ عبادت ہی کا ایک شعبہ ہے، اسی طرح یہاں بھی عبادت ہی کے طور پر ان کی قربانی پیش کی گئی۔ (روح المعانی) اکثر حضرات مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر کی ہے، لیکن ان آیات کی ایک اور تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے جس میں واقعہ بالکل مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے وہ گھوڑے معائنہ کے لئے پیش کئے گئے جو جہاد کے لئے تیار کئے گئے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) انہیں دیکھ کر مسرور ہوئے۔ اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں سے جو محبت اور تعلق خاطر ہے وہ دنیا کی محبت سے نہیں، بلکہ اپنے پروردگار ہی کی یاد کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ اور جہاد ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ اتنے میں گھوڑوں کی وہ جماعت آپ کی نگاہوں سے روپوش ہوگئی۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں دوبارہ سامنے لایا جائے۔ چناچہ جب وہ دوبارہ سامنے آئے تو آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس تفسیر کے مطابق عن ذکر ربی میں عن سبیہ ہے۔ اور تو ارت کی ضمیر گھوڑوں ہی کی طرف راجع ہے، اور مسح سے مراد کاٹنا نہیں، بلکہ محبت سے ہاتھ پھیرنا ہے۔ قدیم مفسرین میں سے حافظ ابن جریر طبری اور امام رازی وغیرہ نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، کیونکہ اس پر مال ضائع کرنے کا شبہ نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کے الفاظ کے لحاظ سے دونوں تفسیروں کی گنجائش ہے، لیکن پہلی تفسیر کے حق میں چونکہ ایک مرفوع حدیث آگئی ہے جو سند کے اعتبار سے حسن ہے، اسی لئے اس کی قوت بڑھ جاتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمٰنَ۝ ٠ ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ۝ ٣٠ۭ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ أوَّاب کالتوّاب، وهو الراجع إلى اللہ تعالیٰ بترک المعاصي وفعل الطاعات، قال تعالی: أَوَّابٍ حَفِيظٍ [ ق/ 32] ، وقال : إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 30] ومنه قيل للتوبة : أَوْبَة، والتأويب يقال في سير النهار وقیل : آبت يد الرّامي إلى السهم وذلک فعل الرامي في الحقیقة وإن کان منسوبا إلى الید، ولا ينقض ما قدّمناه من أنّ ذلک رجوع بإرادة واختیار، وکذا ناقة أَؤُوب : سریعة رجع الیدین . الاواب ۔ یہ تواب کی ( صیغہ مبالغہ ) ہے یعنی وہ شخص جو معاصی کے ترک اور فعل طاعت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ { لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ } ( سورة ق 32) ۔ یعنی ہر رجوع لانے اور حفاظت کرنے والے کے لئے (50 ۔ 320) ( سورة ص 17 - 44) بیشک وہ رجوع کرنے والے تھے ۔ اسی سے اوبۃ بمعنی توبہ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے داؤد کو حضرت سلیمان فرزند عطا کیے بہت ہی زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کی تابعداری کی طرف رجوع ہونے والے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَ } ” اور ہم نے دائود ( علیہ السلام) کو سلیمان ( علیہ السلام) (جیسا بیٹا) عطا کیا۔ “ { نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ ۔ } ” وہ بہت ہی اچھا بندہ تھا۔ بیشک وہ (ہماری طرف) بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 The Prophet Solomon has been mentioned already at the followings places: AI-Baqarah: 102, Bani Isra'il: 5, AI-Anbiya': 78-82, An-Naml: 15-44, Saba: 12-14.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :32 حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول ، ص 97 ۔ جلد دوم ، ص ، 597 ۔ 598 ۔ جلد سوم ، ص 173 تا 178 ۔ 560 تا 582 ۔ سورہ سبا ، آیات 12 ۔ 14 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣٣۔ ناقابل اعتراض سند سے تفسیر ابن جریر اور تفسیر ٢ ؎ ابن منذر میں حضرت علی سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دریائی گھوڑے تھے جن کے دیکھنے کے شغل میں سلیمان (علیہ السلام) کی عصر کی نماز کو دیر ہوگئی اوسط ٣ ؎ طبرانی میں ابی بن کعب سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عصر کی نماز میں دیر ہوجانے کے رنج سے سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کی پنڈلیاں کاٹ ڈالیں اور پھر ان کو ذبح کر ڈالا۔ دین الٰہی کے جوش میں سلیمان (علیہ السلام) کا یہ کام ایسا ہی ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کے بال پکڑ کر کھینچے تھے۔ ابی بن کعب کی حدیث جو اوپر بیان کی گئی اس کی سند میں سعید بن بشیر راوی ہے۔ جس کو بعضے علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن شعبہ اور عبد الرحمن بن ابراہیم نے سعید بن بشیر کو ثقہ قرار دیا ہے۔ شعبہ اس فن میں امیر المومنین مشہور ہیں اور عبد الرحمن رحیم دمشق کے علما میں ہیں کہ امام احمد اور ابن معین ان کو اپنے سے بہتر شمار کرتے اور ان کی مجلس میں شاگردوں کی شان سے بیٹھا کرتے تھے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کی سند معتبر ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر دائود (علیہ السلام) کی خلافت کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ اس خلافت نبوت اور نیابت بادشاہت کو اللہ تعالیٰ نے فقط دائود (علیہ السلام) پر ختم نہیں کیا۔ بلکہ ان کی اولاد میں سلیمان (علیہ السلام) کو بھی وہی مرتبہ عنایت فرمایا۔ کہ وہ نبی بھی ہوئے۔ بادشاہ بھی ہوئے اور باوجود بادشاہت کے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے مرضی کے کاموں میں لگے رہے۔ اب آگے ان کے جوش دینی اور مرضی الٰہی کے کاموں کی امنگ کی مثال میں وہی دریائی گھوڑوں کا قصہ بیان فرمایا جس کا ذکر حضرت علی (رض) اور ابی بن کعب کی روایتوں کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے۔ اگر حافظ ابو جعفر ١ ؎ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے حوالہ سے مسحا بالسوق والاعناق کی یہ تفسیر کی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کو دوبارہ اپنے سامنے منگوا کر ان کو پیار کیا۔ لیکن جب ابی بن کعب کی معتبر روایت میں خود صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کے ٹکڑے کی یہ تفسیر فرما دی ہے جو اوپر بیان کی گئی تو اب اس کے مقابل میں اور کوئی دوسری تفسیر صحیح نہیں قرار پا سکتی۔ اسی واسطے عماد الدین حافظ ابن کثیر نے حافظ ابو جعفر ابن جریر کے پیار کرنے کی تفسیر کو پسند نہیں کیا۔ صحیح سند سے ابن حبان میں ابوہریرہ (رض) سے اور معتبر سند سے طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ٢ ؎ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی پر رکھا تھا کہ اگر آپ دائود (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کی طرح نبوت اور بادشاہت دونوں چیزوں کو پسند کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں چیزیں عطا فرما دے گا۔ لیکن آپ نے خالص نبوت کو پسند کیا۔ ان حدیثوں کو اوپر کی آیتوں اور ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام عمر تنگ دستی سے جو گزاری وہ آپ کی مرضی کے موافق ایک بات تھی ورنہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ بادشاہت کی درخواست کو بھی ان کی مرضی پر منحصر رکھا تھا۔ (٢ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٣٠٩ ج ٥۔ ) (٣ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٣٠٩ ج ٥۔ ) (١ ؎ بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤ ج ٤۔ ) (٢ ؎ بحوالہ الترغیب والترہیب ابواب الزھد ص ٣٦٠‘ ٣٦١ ج ٤)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:30) وھبنا۔ ماضی جمع متکلم وھب وھبۃ مصدر باب فتح ۔ ہم نے بخشا۔ ہم نے عطا کیا۔ وھب المال فلانا اولفلان۔ اس نے فلاں کو مال بخشا۔ عمومال کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ ھب لی۔ ھب لنا۔ وھب لہ۔ سلیمن۔ (نام پیغمبر) مفعول وھبنا کا۔ ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا۔ نعم العبد ۔ نعم فعل ہے۔ مدح کے لئے آیا ہے۔ اس کی گردان نہیں آتی۔ بمعنی بہت اچھا۔ بہت خوب آتا ہے جیسے فنعم اجر العلمین (3:136) اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے یا نعم المولی ونعم النصیر (8:40) وہ بہت خوب حمایتی اور بہت خوب مددگار ہے۔ نعم العبد بہت اچھا بندہ یہاں ممدوح محذوف ہے ای نعم العبد ھو۔ وہ بہت خوب بندے تھے یہ مدح حضرت داؤد (علیہ السلام) کی بھی ہوسکتی ہے لیکن ترجیح اسی قول کو ہے کہ یہ مدح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ہے۔ انہ اواب : اواب بہت رجوع کرنے والا۔ ملاحظہ ہو 38:17 متذکرہ بالا۔ یہ پہلے کلام کی علت ہے یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس لئے اچھے بندے تھے کہ وہ توبہ کی صورت میں یا تسبیح کی شکل میں بہر طور اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 40 :۔ نعم ( بہترین) الصافنات ( صافنۃ) (اصیل اور عمدہ گھوڑے) الجیاد (نہایت عمدہ ، بہترین) الخیر (مال ، دولت ، بھلائی) تورات ( چھپ گئی ( چھپ گیا) ردوا ( لوٹائو) طفق (وہ شروع ہوگیا) مسح ( ہاتھ پھیرنا ، ہاتھ صاف کرنا) السوق (پنڈلیاں) الاعناق ( عنق) (گردنیں) جسد ( جسم ، دھڑ) لا ینبغی (سزا اور نہ ہو ، میسرنہ ہو) رخائ (نرمی) بنائ (معمار ، تعمیر کرنے وال) غواص ( پانی میں) غوطہ لگانے والا) مقرنین ( جکڑے ہوئے) الاصفاد (زنجیریں) امنن (تو احسان کر) امسک (روک لے) زلفی (قرب ، قریب ہونا) حسن ماب ( بہترین ٹھکانہ) تشریح : آیت نمبر 30 تا 40 :۔ حضرت دائود (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے پیغمبر ہیں جنہیں اللہ نے ایک عظیم الشان حکومت و سلطنت سے نوازا تھا ۔ جس کا مقصد ساری دنیا میں اللہ کا دین پہنچانا تھا ۔ اللہ نے ان کے خلوص کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر انہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسا نیک ، پارسا بیٹا عطاء فرمایا جو اللہ کے نبی ، حسن انتظام کے مالک حکمران ، ہر بات میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور جذبہ جہاد سے سر شار تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ ایک دن جہاد کے لئے تیار کئے گئے بہترین پلے ہوئے ، سبک رفتار اصیل گھوڑوں کی پریڈ کا معائنہ کر رہے تھے تو آپ نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں سے جو تعلق ، انسیت اور محبت ہے وہ دنیا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنے پروردگار کی وجہ سے ہے۔ اس ارشاد کے درمیان جب وہ گھوڑے نظروں سے ذرا اوجھل ہوئے تو آپ نے ان کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جب وہ گھوڑے دوبارہ قریب آئے تو آپ نے آگے بڑھ کر ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پیار سے ہاتھ پھیر کر چمکارنا شروع کردیا ( ابن جریر طبری ، امام رازی) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں نہایت عاجزی کے ساتھ یہ درخواست پیش کی ۔ الٰہی مجھے ایک ایسی حکومت و سلطنت عطاء فرما جو اس سے پہلے کسی کو نہ دی گئی ہو اور نہ آئندہ دی جائے گی ، چناچہ اللہ نے ان کی دعا کو قبول کر کے ایسی سلطنت عطاء کی جو اس سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھی اور آئندہ بھی نہ دی جائے گی ۔ ہوا کو ان کے حکم کے تابع کردیا ۔ طوفانی ہوا جب ان کے تخت کو لے اڑتی تو اس تخت پر بیٹھنے والوں کے لئے ایسی نرم اور خوش گوار رفتار سے چلنے والی ہوا ہوتی تھی کہ بیٹھنے والوں کو اس کی برق رفتاری کا احساس تک نہ ہوتا تھا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام جنات کو ان کے حکم کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے بڑی سے بڑی عمارتیں تعمیر کرتے تھے چناچہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نگرانی میں ان جنات ہی نے کی تھی ۔ وہ جنات بھی آپ کے تابع تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کر قیمتی موتی اور جواہرات نکالتے تھے۔ اگر ان جنات میں سے کسی سے کوئی غلطی اور کوتاہی ہوجاتی تو وہ ان کو قید کرلیا کرتے تھے اور پھر جب چاہتے ان سے کام لے لیتے تھے۔ غرضیکہ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) بن دائود (علیہ السلام) کو بیشمار نعمتوں سے نواز کر فرما دیا تھا کہ جو نعمتیں ہم نے تمہیں عطاء کی ہیں ان میں تمہیں پورا پورا اختیار ہے جس کو جتنا دینا چاہیں دیدیں روکنا چاہیں روک لیں ان سے اس کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا کیونکہ اللہ نے ان کو اپنا قرب اور ہر کام کے بہترین انجام سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطاء کیا لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا بیٹا ان کا جانشینی کا حق ادا نہ کرسکا بلکہ وہ تخت سلیمانی پر ایک بےجان لاشہ کی طرح سے تھا۔ تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا بیٹا ان کا جانشینی کا حق ادا نہ کرسکا اور اتنی عظیم سلطنت چند برسوں میں بکھر کر رہ گئی۔ ٭حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات زندگی بیان کرنے کے لئے اسرائیلی روایات کو جس طرح پیش کیا گیا ہے ان کو اس لئے یہاں نقل نہیں کیا گیا کہ جب ان واقعات کے پیچھے قرآن حکیم اور احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی وضاحت نہیں ہے تو ان اسرائیلی روایات کو نقل کرنا ذہنوں کو منتشر کرنا ہے۔ ٭ان آیات سے ثابت ہوا کہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا ہر کام محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتا ہے ۔ اس میں ان کی اپنی ذاتی غرض نہیں ہوتی۔ ٭جہاد انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ جہاد کے لئے اس کے اسباب کی تیاری اور اس میں دلچسپی کا اظہار حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جہاد کے لئے تیار کئے گئے گھوڑوں کو ایک دفعہ دیکھنے کے بعد دوبارہ طلب کیا در حقیقت عام لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ وہ بھی جذبہ جہاد زندہ و تابندہ رکھیں۔ بالکل اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھنٹوں کھڑے ہو کر نیزہ بازی اور جہاد کے لئے تیار کئے گئے گھوڑوں کی دوڑ کو دیکھا کرتے تھے۔ اصل میں جس چیز میں بڑے اور بزرگ دلچسپی لیتے ہیں اس میں ان کے بچے اور نوجوان بھی دلچسپی لیتے ہیں ۔ ہمارے دین نے یہ بتایا ہے کہ ہر وقت جہاد کے لئے تیار رہنا اور اس کی تیاری کرتے رہنا بہت بڑی عبادت ہے ۔ جو قوم جہاد کا راستہ چھوڑ دیتی ہے وہ درحقیقت اپنی موت کے پروانے پر دستخط کردیتی ہے۔ جہاد کے جذبوں کو زندہ رکھنے سے ہی اس امت کی زندگی ہے ، آج کفار و مشرکین اس خوف سے سخت پریشان ہیں کہ کہیں ان میں پھر سے کوئی خالد بن ولید اور طارق بن زیاد پیدا نہ ہوجائے جو ان کی صفوں کو الٹ دے اور اپنی کشتیوں کو جلا کر جذبہ جہاد کو زندہ اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھتا چلا جائے ۔ اس خوف سے انہوں نے جہاد کو دہشت گردی کا نام دے کر اسلامی جہاد کو بد نام کرنے کی بھر پور مہم شروع کر رکھی ہے تا کہ اقتدار سے چمٹی ہوئی طاقتیں خوف کے ما رے ” دین فروشی “ تک پر راضی ہوجائیں اور ہر اس طاقت کو کچل ڈالیں جہاں جذبہ جہاد کا شائبہ بھی موجود ہو ۔ ہمیں یقین ہے کہ کفر کی یہ طاقتیں جہاد کو اور اس کے جذبے کو تو مٹا نہ سکیں گی بلکہ خود ہی مٹ جائیں گی اور اللہ کا دین ہر مذہب پر غالب آ کر رہے گا ۔ انشاء اللہ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اولوالباب میں سے دو عظیم عقل مندوں کا کردارپیش کیا جاتا ہے۔ اسی سورة میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد فرمائیں جو طاقت ورہونے کے باوجود ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ ہم نے اس کے لیے پہاڑ اور پرندے مسخر کیے تھے۔ ہم نے اس کی مملکت کو مضبوط کیا اور اسے فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا۔ ہم نے ہی اسے سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ سلیمان (علیہ السلام) بھی بہترین بندہ اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا، اس کا اہم واقعہ یہ ہے کہ جب شام کے وقت اس کے سامنے سکھلائے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے تو اس نے کہا کہ میں نے اللہ کے لیے ان گھوڑوں سے محبت کی ہے۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے اس کی نگاہ سے اوجھل ہوگئے۔ حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ گھوڑے ان کے سامنے پیش کیے گئے تو سلیمان (علیہ السلام) پیار سے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح میں مفسرین نے دو آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کی دوڑ لگوائی۔ دوڑ کے بعد حکم دیا کہ گھوڑے میرے سامنے پیش کیے جائیں۔ جب گھوڑے ان کی خدمت میں پیش کیے گئے تو وہ پیار کرتے ہوئے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی عصر کی نماز یا خاص ذکر جو غروب آفتاب سے پہلے کرتے تھے وہ بھول گئے۔ اس مصروفیت میں نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ اس پر انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ پر افسوس ! کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اللہ کا ذکر بھول گیا ہوں۔ اس پر انہوں نے تمام گھوڑوں کی ٹانگیں اور گردنیں کاٹ دیں۔ یہ تفسیر کرنے والے حضرات میں سے کچھ کا خیال ہے کہ گردنیں اور ٹانگیں کاٹنے سے مراد انہوں نے تمام گھوڑے اللہ کی راہ میں ذبح کردئیے۔ یاد رہے کہ گھوڑا ہماری شریعت میں بھی حلال ہے آج بھی انڈونیشیا، قازقستان، ترکستان اور وسطی ریاستوں میں گھوڑے اس طرح ہی ذبح کیے جاتے ہیں جس طرح پاکستان اور دوسرے ممالک میں گائے، اونٹ، دبنے، چھترے اور بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔ جن بزرگوں نے اس آیت کا ترجمہ درج ذیل کیا ہے ان میں ماضی قریب کے مفسر شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ اور مفکرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل ہیں۔ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ عربی گرائمر کے لحاظ سے یہ ترجمہ کیا جائے کہ ” میں نے اس مال یعنی گھوڑوں سے محبت اپنے رب کے ذکر کے لیے کی ہے “ تاکہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاد کیا جائے جس سے دین کو غلبہ حاصل ہو اس لیے انہوں نے گھوڑوں کی دوڑلگوائی۔ یہاں تک کہ وہ دور نکل گئے اور سلیمان (علیہ السلام) کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ تب انہوں نے حکم دیا کہ گھوڑوں کو واپس لایا جائے۔ جب گھوڑے ان کے حضور پیش کیے گئے تو پیار کرتے ہوئے گھوڑوں کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مغرب ہوگئی اور عصر کی نماز یا خاص ذکر بھول گئے۔ اس تفسیر کے مطابق اس آیت مبارک کا ترجمہ یوں ہوگا ” انہوں نے کہا میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے۔ “ (ص : ٣٢، ٣٣) مسائل ١۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی اور محبوب ترین بندے تھے۔ ٢۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اپنے باپ کی طرح ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے : ١۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٢۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بےقراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف : ٨٦) ٣۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء : ٨٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 30 تا 40 یہاں دو اشارات ہیں۔ ایک الصافنات المجیاد ہے یعنی اچھے سدھے ہوئے قیمتی گھوڑے ۔ اور دوسرا اشارہ یہ کہ حضرت سلیمان کی کرسی پر ایک حسد ڈال دیا۔ ہمارے تفسیری ذخیرے میں قدد روایات یا تاویلات وارد ہیں۔ ان میں سے ان اشارات کی تفسیر میں کسی ایک تفسیر اور روایت پر میرا دل مطمئن نہیں ہے۔ جہاں تک روایات کا تعلق ہے ، ان میں سے بہت تو اسرائیلیلت سے متعلق ہیں اور تفاسیر جو بھی کی گئی ہیں وہ ایسی تاویلات ہیں جن کے اوپر کوئی سند نہیں ہے۔ یہ دو واقعات اصل میں کیا ہیں ؟ ان کے بارے میں کوئی اطمینان بخش چیز سامنے نہیں آئی تاکہ اس پر غور کرکے میں یہاں نقل کردوں ۔ ماسوائے ایک حدیث کے اور کوئی صحیح حدیث بھی منقول نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ ایک صحیح حدیث ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا تعلق ان واقعات کے ساتھ ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے۔ امام بخاری نے یہ حدیث مرفوعاً نقل کی ہے۔ ” حضرت سلیمان نے کہا میں آج رات اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ہر ایک سے ایک جوان پیدا ہوگا۔ جو کہاد فی سبیل اللہ کرے گا۔ لیکن انہوں نے انشاء اللہ نہ کہا ۔ وہ ان بیویوں کے پاس گئے ۔ ان میں سے صرف ایک کا حمل ٹھہرا اور جب بچہ پیدا ہوا تو ناتمام تھا۔ خدا کی قسم اگر حضرت سلیمان انشاء اللہ کہتے تو یقیناً یہ سب اللہ کی راہ میں جہاد کرتے “۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ان آیات میں جس فتنے کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ یہی ہو اور ان کی کرسی پر یہی جسد ناتمام پھینکا گیا ہو۔ لیکن یہ بھی احتمال درجے میں ہے۔ گھوڑوں کا قصہ یہ بیان کیا گیا ہے شام کے وقت ان کے سامنے گھوڑے پیش کیے گئے اور غروب سے قبل وہ جو عبادت کرتے تھے وہ قضا ہوگئی تو حضرت نے کہا ان سب گھوڑوں کو واپس کرو چناچہ انہوں نے ان کی گردنوں اور پنڈلیوں کو تلوار سے کاٹنا شروع کیا۔ کیونکہ ان کی وجہ سے ان کی نماز قضا ہوئی اور وہ ذکر رب سے غافل ہوگئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ ان کے پاؤں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر کر ان کو تھپکی دیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ کہ یہ اللہ کی راہ میں لڑنے والے گھوڑے ہیں۔ دونوں روایتوں پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اس کے بارے میں کوئی فرضی بات نہیں کرسکتے ۔ لہٰذا کوئی محقق ان دونوں واقعات کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کرسکتا۔ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی آزمایا گیا۔ اور یہ آزمائش امور مملکت کے بارے میں تھی اور اسی نوعیت کی تھی جس طرح تمام انبیاء کو راہ حق دکھانے کے لیے آزمایا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس راہ میں ان سے کوئی لغزش سرزدنہ ہوجائے۔ اس آزمائش کے بعد حضرت سلیمان نے اپنے رب کی طرف انابت اور رجوع کرلیا اور مغفرت طلب کی۔ اور اللہ کی طرف مڑکر دست بدعا ہوئے : قال رب۔۔۔۔ انت الوھاب (38: 35) ” کہا اے میرے رب مجھے معاف کر اور مجھے بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو بیشک تو ہی اصل داتا ہے “۔ حضرت سلیمان کی مذکورہ بالا دعا کا مطلب جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسی خصوصیات چاہتے تھے جو معجزانہ ہو۔ یعنی ان کو حکومتی اقتدار چلانے کے لیے معجزانہ قوتیں دی جائیں اور تمام دوسرے ذی اقتدار لوگوں سے یہ اعجاز مختلف ہو۔ اس کی متعین شکل ہو ، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہ ہو۔ یعنی عوام الناس کے ہاں جس طرح کی حکومتیں متعارف ہیں۔ رب تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول کرنے میں دیر نہیں فرمائی ۔ چناچہ جیسی حکومت انہوں نے چاہی تھی وہ ان کو دے دی ۔ ایسی حکومت جو آئندہ کسی کو نہ دی جائے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تذکرہ وہ اچھے بندہ تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بیٹے تھے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ مال اور دولت اور ملک اور حکومت سے نواز تھا اول ان کے بارے میں فرمایا (نِعْمَ الْعَبْدُ ) کہ وہ اچھے بندے تھے اور ساتھ ہی (اِنَّہٗ اَوَّابٌ) بھی فرمایا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ گھوڑوں کا پیش کیا جانا آخر میں متنبہ ہونا اس کے بعد سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ بیان فرمایا اور وہ یہ کہ ان کے پاس گھوڑے بندھے ہوئے تھے اندازہ یہی ہے کہ یہ گھوڑے جہاد کی ضرورت کے لیے پال رکھے تھے گھوڑے بھی اصیل تھے، اور عمدہ تھے صافناتٌ یہ صافنٌ کی جمع ہے صافن اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو سامنے کے ایک پاؤں کو موڑ کر باقی تین پاؤں پر کھڑا ہو، اصیل گھڑوں کی یہ صفت بتائی جاتی ہے۔ ایک دن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے معائنہ فرمانے کے لیے گھوڑوں کو طلب کیا آپ ان کے دیکھنے میں اتنے مشغول ہوئے کہ سورج چھپ گیا اس سے پہلے جو فرض یا نفل نماز پڑھا کرتے تھے وہ رہ گئی (اگر فرض نماز تھی تو بھولنے کی وجہ سے گناہ میں شمار نہیں ہوتی خصوصاً جبکہ حاضرین میں سے کسی نے یاد بھی نہ دلایا ہو، اور اگر نفل نماز تھی تب تو اس کے چھوٹ جانے میں گناہ ہی نہیں) لیکن انہوں نے ہر حال میں اس نماز کے چھوٹنے کو اچھا نہ سمجھا ہو اور گو کہ گھوڑوں کی مشغولیت بھی اللہ تعالیٰ کے لیے تھی لیکن پھر بھی چونکہ ذکر بالواسطہ ذکر حقیقی یعنی ذکر بالواسطہ سے غافل ہونے کا سبب بن گیا اس لیے جب مذکورہ نماز کے فوت ہوجانے کا احساس ہوا تو فرمایا کہ ان گھوڑوں کو واپس کرو جب گھوڑے واپس لوٹائے گئے تو انہیں ذبح کرنا شروع کردیا ان کی گردنیں تو کاٹی ہی تھیں پنڈلیاں بھی کاٹ دیں اور فرمایا کہ مال کی محبت نے مجھے اپنی طرف اتنا لگایا کہ اپنے رب کی طرف سے غافل ہوگیا یہ ذبح کرنا مال ضائع کرنے کے طور پر نہیں تھا بلکہ بطور قربانی کے تھا البتہ یہ اشکال رہ جاتا ہے کہ پنڈلیوں کو کیوں کاٹا ؟ یہ تو جانور کو بلاوجہ تکلیف دینا ہے اور احقر کے خیال میں یوں آتا ہے کہ گردنیں کاٹنے کے بعد پنڈلیاں کاٹی ہوں گی جب کہ ان کی جان نکل چکی ہوگی اور گھڑے میں چونکہ پنڈلی ہی اصل چیز ہے اس سے گھوڑا دوڑتا ہے اس لیے غیرت کے جوش میں پنڈلیاں بھی کاٹ دیں یعنی اس کام میں جلدی کردی ورنہ کھانے پینے کے لیے تو کاٹنا ہی تھا چونکہ تقدم ذکری تقدم عملی کو مستلزم نہیں ہے اس لیے یہ اشکال پیدا نہیں ہوتا کہ آیت شریفہ میں پہلے پنڈلیوں کا ذکر ہے یہاں رعایت فواصل کے لیے لفظ الاعناق کو مؤخر کردیا گیا ہے یہ بلاغت میں ہوتا رہتا ہے جیسا کہ سورة طٰہٰ میں (رَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی) فرمایا ہے اور دوسری جگہ (رَبِّ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ ) فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ووھبنا الخ : یہ دوسری نقلی دلیل ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بڑے پائے کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ ان پر بھی اللہ کی طرف سے ابتلاء آگیا آخر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور توبہ کی۔ وہ تو خود اللہ کے سامنے ایسے عاجز تھے اس لیے وہ شفیع غالب نہیں ہوسکتے داوٗد (علیہ السلام) کو ہم نے سلیمان (علیہ السلام) ایسا نیک اور لائق فرزند عطا کیا جو اللہ تعالیٰ نہایت فرمانبردار بندہ تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اور ہم نے داود کو سلیمان عطا کیا سلیمان اچھا بندہ تھا بلا شبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع ہونے والا تھا۔ یعنی دائود (علیہ السلام) کو سلیمان نامی بیٹا ہم نے عطا کیا وہ سلیمان اچھا بندہ تھا وہ خدا کی طرف بہت رجوع رہا کرتا تھا۔