Commentary In these verses, an event relating to Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) has been mentioned. The gist of the well known Tafsir of this event is that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was so engrossed in the inspection of the horses that he missed to perform the Salah of Al-` Asr at his usual time. Later, when he was alerted to this loss, he slaughtered all those horses as the unfortunate interference in the remembrance of Allah took place because of them. This missed Salah could be a nafl salah. Given this situation, there should be no difficulty in understanding what Sulayman (علیہ السلام) did, for the noble prophets try to make amends for even this much of negligence. And it is also possible that the Salah concerned was obligatory (fard) and his engrossment in the inspection might have caused him to forget. Although if someone forgets to perform the fard (obligatory) Salah, it does not cause a sin to have been committed, but Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) ، in view of his high station, expiated for that too. This Tafsir of the cited verses has been reported from several leading authorities among the commentators. Even a great scholar of Ibn Kathir&s stature has preferred this Tafsir. Then, it is also supported by a marfu& Hadith (attributed to the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) reported by &Allamah Suyuti with reference to the Mu&jim of Tabarani, Ismaili and Ibn Marduwayh. عن ابی کعب (رض) عن النّبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہٖ فطفق مسحاً بالسّوق والاعناق قال قطع سوفھا و أعناقھا بالسیف From &Ubaiyy Ibn Ka&b , from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : About the word of Allah: (and he started passing his hands over the shanks and the necks.), he said: |"Cut their legs and necks with the sword.|" ` Allamah Suyuti has declared its rating as Hasan. (ad-Durr-ul-Manthur, p. 309, v. 5) and quoting this Hadith in Majma&-uz-Zawa&id, ` Allamah Haithami says: &Tabarani has reported this in al-Awsat. Said Ibn Bashir is one of the narrators there. He has been called trustworthy by Shu&bah and others. Ibn Ma&in and others call him weak. The rest of the men reporting are trustworthy.& (Majma&-uz-Zawa&id, p. 99, v. 7, Kitabu-t-Tafsir) Because of this Hadith, this Tafsir becomes fairly strong. But, it generally lends to the doubt that the horses were a gift of Allah and wasting one&s property in that manner does not seem to befit the station of a prophet. Commentators have answered it by saying that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) owned these horses, and the sacrifice of horses was also permissible in his code of law very similar to that of cows, goats and camels. Therefore, he never wasted the horses, in fact, sacrificed them in the name of Allah. Just as the act of sacrificing a cow or goat is not tantamount to wasting it, instead, it is an act of ` ibadah, the sacrifice of horses offered by him was nothing but an act of ` ibadah (Ruh-ul-Ma’ ani). Most commentators have explained this verse in this very manner. But, there is another Tafsir of these verses reported from Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) where the description of the event differs. A gist of the Tafsir is that the horses presented before Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) were specially prepared for Jihad. Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was pleased to see them while he also said that the attachment he had to those horses was not because he loved worldly life, rather it was because of his remembrance of Allah in that these were prepared for Jihad, and Jihad was an act of worship at its highest. In the meantime, that lineup of horses went out of his sight. He asked that they be brought back again. Accordingly, when they appeared before him once again, he started stroking and patting their necks and legs with affection. According to this Tafsir, the word: عَن (an: from or because) in: عَن ذِكْرِ رَبِّي ) ’ an dhikri-rabbi: from or because of the remembrance of my Lord) is the &an of cause& عَن سَببیّہ ( ‘an sababiyah), and the pronoun in: تَوَارَتْ (tawarat: disappeared) is invariably reverting to horses, and: مَسحُ (mash) does not mean to cut, instead, it means to pass or wipe hands (over the body of the horses) with affection. Classical commentators like Hafiz Ibn Jarir Tabari, Imam Razi and others have preferred this very Tafsir, because it is free from any possible doubt about property being wasted. In terms of the words of the noble Qur&an, there is room for both explanations. But, since a marfu& Hadith has appeared in favor of the first Tafsir, a Hadith that is hasan (good) as regards its authority, therefore, it has become weightier and more acceptable.
خلاصہ تفسیر اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو سلیمان (علیہ السلام فرزند) عطا کیا بہت اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہونے والے تھے (چنانچہ ان کا وہ قصہ یاد رکھنے کے لائق ہے) جبکہ شام کے وقت ان کے روبرو اصیل (اور) عمدہ گھوڑے (جو بغرض جہاد وغیرہ رکھے جاتے تھے) پیش کئے گئے (اور ان کے ملاحظہ کرنے میں اس قدر دیر ہوگئی کہ دن چھپ گیا اور کوئی معمول از قسم نماز فوت ہوگیا اور بوجہ ہیبت و جلالت کے کسی خادم کی جرأت نہ ہوئی کہ مطلع و متنبہ کرے، پھر جب خود ہی تنبہ ہوا) تو کہنے لگے کہ (افسوس) میں اس مال کی محبت کی خاطر (لگ کر) اپنے رب کی یاد سے (یعنی نماز سے) غافل ہوگیا، یہاں تک کہ آفتاب پردہ (مغرب) میں چھپ گیا (پھر خادموں کو حکم دیا کہ) ان گھوڑوں کو ذرا پھر تو میرے سامنے لاؤ (چنانچہ لائے گئے) سو انہوں نے ان (گھوڑوں) کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار سے) ہاتھ صاف کرنا شروع کیا (یعنی ان کو ذبح کر ڈالا) ۔ معارف ومسائل ان آیتوں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کی مشہور تفسیر وہی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں ذکر کی گئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کے معائنہ میں ایسے مشغول ہوئے کہ عصر کا وقت جو نماز پڑھنے کا معمول تھا وہ چھوٹ گیا، بعد میں متنبہ ہو کر آپ نے ان تمام گھوڑوں کو ذبح کر ڈالا کہ ان کی وجہ سے یاد الٰہی میں خلل واقع ہوا تھا۔ یہ نماز نفلی بھی ہو سکتی ہے۔ اور اس صورت میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اتنی غفلت کی بھی تلافی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرض نماز ہو، اور معائنہ میں لگ کر بھول طاری ہوگئی ہو، بھول جانے کی صورت میں فرض نماز کے قضا ہونے سے گناہ تو نہیں ہوتا۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بلند منصب کے پیش نظر اس کا بھی تدارک فرمایا۔ ان آیات کی یہ تفسیر متعدد ائمہ تفسیر سے منقول ہے، اور حافظ ابن کثیر جیسے محقق عالم نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ اور اس کی تائید ایک مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے جو علامہ سیوطی نے معجم طبرانی اسماعیلی اور ابن مردویہ کے حوالے سے نقل کی ہے :۔ عن ابی بن کعب عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہ فطفق مسحاً بالسوق والاعناق قال قطع سو تھا واھنا تھا بالسیف) علامہ سیوطی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (درمنثور ص ٩٠٣ ج ٥) اور علامہ ھثیمی مجمع الزوائد میں یہ حدیث نقل کر کے لکھتے ہیں۔ ” اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے اس میں ایک راوی سعید بن بشیر ہیں، جنہیں شعبہ وغیرہ نے ثقہ کیا ہے، اور ابن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے باقی رجال ثقہ ہیں “ (مجمع الزوائد ص ٩٩ ج ٧ کتاب التفسیر) اس حدیث مرفوع کی وجہ سے یہ تفسیر کافی مضبوط ہوجاتی ہے لیکن اس پر عموماً یہ شبہ ہوتا ہے کہ گھوڑے اللہ کا عطا کیا ہوا ایک انعام تھا، اور اپنے مال کو اس طرح ضائع کردینا ایک نبی کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ گھوڑے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ذاتی ملکیت میں تھے، اور ان کی شریعت میں گائے، بکری، اونٹ کی طرح گھوڑوں کی قربانی بھی جائز تھی، لہٰذا انہوں نے گھوڑوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کردیا۔ جس طرح گائے، بکری کی قربانی سے ان کو ضائع کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ یہ عبادت ہی کا ایک شعبہ ہے، اسی طرح یہاں بھی عبادت ہی کے طور پر ان کی قربانی پیش کی گئی۔ (روح المعانی) اکثر حضرات مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر کی ہے، لیکن ان آیات کی ایک اور تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے جس میں واقعہ بالکل مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے وہ گھوڑے معائنہ کے لئے پیش کئے گئے جو جہاد کے لئے تیار کئے گئے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) انہیں دیکھ کر مسرور ہوئے۔ اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں سے جو محبت اور تعلق خاطر ہے وہ دنیا کی محبت سے نہیں، بلکہ اپنے پروردگار ہی کی یاد کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ اور جہاد ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ اتنے میں گھوڑوں کی وہ جماعت آپ کی نگاہوں سے روپوش ہوگئی۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں دوبارہ سامنے لایا جائے۔ چناچہ جب وہ دوبارہ سامنے آئے تو آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس تفسیر کے مطابق عن ذکر ربی میں عن سبیہ ہے۔ اور تو ارت کی ضمیر گھوڑوں ہی کی طرف راجع ہے، اور مسح سے مراد کاٹنا نہیں، بلکہ محبت سے ہاتھ پھیرنا ہے۔ قدیم مفسرین میں سے حافظ ابن جریر طبری اور امام رازی وغیرہ نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، کیونکہ اس پر مال ضائع کرنے کا شبہ نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کے الفاظ کے لحاظ سے دونوں تفسیروں کی گنجائش ہے، لیکن پہلی تفسیر کے حق میں چونکہ ایک مرفوع حدیث آگئی ہے جو سند کے اعتبار سے حسن ہے، اسی لئے اس کی قوت بڑھ جاتی ہے۔