Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 43

سورة ص

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنَّا وَ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۴۳﴾

And We granted him his family and a like [number] with them as mercy from Us and a reminder for those of understanding.

اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتنا ہی اور بھی اسی کے ساتھ اپنی ( خاص ) رحمت سے ، اور عقلمندوں کی نصیحت کے لئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We gave him (back) his family, and along with them the like thereof, as a mercy from Us, and a reminder for those who understand. Al-Hasan and Qatadah said, "Allah brought his family themselves back to life, and added others like them." ... رَحْمَةً مِّنَّا ... as a mercy from Us, means, in return for his patience, steadfastness, repentance, humility and constant turning to Allah. ... وَذِكْرَى لاُِوْلِي الاَْلْبَابِ and a reminder for those who understand. means, for those who understand that the consequence of patience is a solution and a way out.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 بعض کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ جو بطور آزمائش ہلاک کردیا گیا تھا، اسے زندہ کردیا گیا اور اس کی مثل اور مذید کنبہ عطا کردیا گیا۔ لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے، زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد سے انہیں نواز دیا جو پہلے سے دگنا تھا۔ 43۔ 2 یعنی ایوب (علیہ السلام) کو سب کچھ دوبارہ عطا کیا، تو اپنی رحمت خاص کے اظہار کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں اور وہ بھی ابتلاء و شدائد پر اسی طرح صبر کریں جس طرح ایوب (علیہ السلام) نے کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی جو بیویاں اور بچے بیماری کی حالت میں آپ کا ساتھ چھوڑ گئے وہ واپس آگئے۔ پھر اللہ نے مزید اولاد بھی عطا فرما دی۔ اور یہ بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے عطا فرمایا ہو، اولاد بھی اور مال و دولت بھی اور جس معجزانہ طریقے سے اللہ نے آپ کو مال و دولت عطا فرمایا اس کا اندازہ کچھ درج ذیل حدیث سے بھی ہوتا ہے۔ سیدنا ایوب پر اللہ کے انعامات :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب ایوب ننگے نہا رہے تھے تو آپ پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوئی جنہیں آپ اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پکارا کہ && اے ایوب ! کیا میں نے تمہیں ان ٹڈیوں سے بےنیاز نہیں کردیا ؟ && انہوں نے عرض کیا، ٹھیک ہے لیکن اے پروردگار ! میں تیری برکت سے کیسے بےنیاز ہوسکتا ہوں && (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب یریدون ان یبدلوا کلام اللہ) نیز کتاب الغسل۔ باب من اغتسل عریانا) [٥٠] صبر ایوب :۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ ہر ایماندار اور صاحب عقل کو چاہئے کہ وہ خوشحالی کے دور میں اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر ابتلا میں پڑجائے اور اس پر تنگی ترشی کا دور آئے تو سیدنا ایوب کی طرح صبر کا مظاہرہ کرے۔ اس طرح عین ممکن ہے کہ جس طرح سیدنا ایوب پر اللہ تعالیٰ نے انعامات کی بارش فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنے ایسے ہی انعامات سے نواز دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ۝ ٤٣ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کا وہ کنبہ جو ہلاک ہوگیا تھا وہ بھی اور اس کے برابر اور بھی آخرت میں اور کہا گیا ہے کہ دنیا میں ان کو دیا یہ ہماری طرف سے ان پر خصوصی فضل تھا اور عقل والوں کے لیے ایک نصیحت کی چیز تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ { وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ } ” اور ہم نے اسے اس کے اہل و عیال بھی عطا کردیے اور ان کے ساتھ ویسے ہی (اہل و عیال) مزید بھی دیے “ یعنی آپ ( علیہ السلام) کے اہل و عیال آپ ( علیہ السلام) کے پاس واپس آگئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کو مزید اولاد سے بھی نوازا۔ { رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } ” یہ سب ہماری طرف سے رحمت کا مظہر تھا ‘ اور یاددہانی تھی ہوش مند لوگوں کے لیے ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44 Traditions show that during this illness everyone except his wife had deserted the Prophet Job; even his children had turned away. To this Allah has alluded, saying: "When We granted him health, the whole family returned to him, and then We granted him even more children." 45 That is, in it there is a lesson for an intelligent man: "Neither should man forget God and become arrogant in good times nor despair of Him in bad times: Good fortune and misfortune are entirely in the Power of AIlah, the One. If He wills He can change the best times of man into the worst times and the worst into the best. Therefore, a wise person should trust in Him alone in alI sorts of circumstances and should pin all his hopes on Him."

سورة صٓ حاشیہ نمبر :44 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بیماری میں حضرت ایوب کی بیوی کے سوا اور سب نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا حتیٰ کہ اولاد تک ان سے منہ موڑ گئی تھی ۔ اسی چیز کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرما رہا ہے کہ جب ہم نے ان کو شفا عطا فرمائی تو سارا خاندان ان کے پاس پلٹ آیا ، اور پھر ہم نے ان کو مزید اولاد عطا کی ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :45 یعنی اس میں ایک صاحب عقل آدمی کے لیے یہ سبق ہے کہ انسان کو نہ اچھے حالات میں خدا کو بھول کر سرکش بننا چاہیے اور نہ برے حالات میں اس سے مایوس ہونا چاہیے ۔ تقدیر کی بھلائی اور برائی سراسر وحدہ لاشریک کے اختیار میں ہے ۔ وہ چاہے تو آدمی کے بہترین حالات کو بدترین حالات میں تبدیل کر دے ، اور چاہے تو برے سے برے حالات سے اس کو بخیریت گزار کر بہترین حالت پر پہنچا دے ۔ اس لیے بندہ عاقل کو ہر حالت میں اسی پر توکل کرنا چاہیے اور اسی سے آس لگانی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: بیماری میں ان کی وفادار اہلیہ کے سوا سب ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ صحت کے بعد نہ صرف واپس آگئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مزید پوتے پوتیاں عطا فرمائیں، اور اس طرح ان کے خاندان کی تعداد دوگنی ہوگئی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:43) وھبنا لہ۔ وھبنا ماضی جمع متکلم۔ وھب وھبۃ (باب فتح) سے مصدر ۔ ہم نے اسے بخشا۔ مثلہم معہم۔ ان کی طرح۔ ان کی مانند۔ یعنی ہم نے ان کو ان کے گھر والے بھی واپس کر دئیے (جو اگر مرچکے تھے تو دوبارہ زندہ کرکے واپس کر دئیے یا اگر وہ ان کی طویل علالت کی وجہ سے ان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے تو ان کی صحت یابی پر واپس پلٹ آئے) اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کئے۔ یعنی پہلی آل و اولاد کے علاوہ اتنے ہی اور بھی عطا کئے۔ اہلہ ومثلہم میں اہل اور مثل بوجہ مفعول ہے منصوب ہے۔ رحمۃ منا۔ ہماری طرف سے بطور رحمت (حضرت ایوب (علیہ السلام) پر رحمت کے طور پر) مفعول لہ ہے۔ اسی طرح ذکری مفعول لہ ہے۔ اور اہل عقل کی نصیحت کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی علاوہ پہلے اہل و عیال کے ہم نے انہیں مزید اولادعطا فرمائی۔11 کہ وہ بھی تکلیف و بیماری میں ان کی طرح صبر کریں اور ہماری رحمت و مہربانی کے متوقع رہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ووھبنا۔۔۔ الالباب (38: 43) ” اور ہم نے اسے اہل و عیال واپس کردیئے اور اپنی طرف سے رحمت کے طور پر ان کے ساتھ اتنے ہی اور دیئے اور عقل وفکر رکھنے والوں کے لئے درس کے طور پر “۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ نے ان کے وہ بچے زندہ کردیئے جو فوت ہوگئے تھے اور اسی تعداد میں اور اولاد بھی دے دی۔ قرآن کریم اس بات کی صراحت نہیں کرتا کہ مردوں کو زندہ کیا گیا۔ مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ان کو چھوڑ کر غایب ہوگئے تھے ، وہ اور ان کے اہل خانہ واپس کردیئے گئے اور پھر مزید اولاد دی گئی۔ مزید انعام اور رحمت و رعایت کے طور پر۔ اور یہ انعامات اس لیے کیے گئے کہ اہل عقل و دانش اس سے عبرت لیں۔ ان تمام قصص سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے اور آزمائشوں میں صبر کریں ان پر کرم نوازی کرتا ہے اور آخر کار ان پر کرم ہوتا ہے۔ یہ کہ ان کی قسم کا نتیجہ کیا ہوا تو اللہ کی رحمت نے ان کو اور ان کی بیوی کو ڈھانپ لیا۔ کیونکہ ان کی بیوی نے اس طویل آزمائش میں حضرت ایوب کی بہت خدمت کی تھی۔ اور اس نے بھی بہت ہی مصابرت سے کام لیا تھا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ انہوں نے جتنے کوڑے مارنے کی قسم اٹھائی ہے اتنی ہی شاخیں لیں اور ان تمام شاخوں سے ایک ہی وار اس پر کرلیں۔ اس طرح ان کی قسم پوری ہوجائے گی اور وہ حانث نہ ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) اور ہم نے اس کے اہل و عیال اور اس اہل و عیال کے ہمراہ اتنے ہی اور عیال اس کو عطا کئے یہ عطا ہم نے اپنی رحمت خاص کے سبب سے کی اور اس سب سے اور مقصد سے کہ اہل عقل و دانش کے لئے ایک یادگار ہے یعنی اہل عقل غور کریں کہ صبر کرنے والوں کو اس طرح بدلا دیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جب اللہ نے چاہا کہ ان کو چنگا کرے ایک چشمہ نکالا ان کے لات مارنے سے اسی سے نہایا کرتے اور پیتے رہے ان کو شفا ہوئی اور ان کے بیٹے بیٹیاں چھت کے نیچے دب مرے تھے ان کو چلایا اور اتنی اولاد اور دی۔ خلاصہ : یہ کہ ان کی اولاد فوت ہوچکی تھی بیوی ہر وقت خاوند کی خدمت میں رہتی مکان ا اور بچوں کا کوئی نگراں نہ تھا گائوں والوں نے ان کے مرض کی وجہ سے ان کو گائوں کے باہر ڈال دیا تھا اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد دوچند کرکے دی۔