Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 50

سورة ص

جَنّٰتِ عَدۡنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الۡاَبۡوَابُ ﴿ۚ۵۰﴾

Gardens of perpetual residence, whose doors will be opened to them.

۔ ( یعنی ہمیشگی والی ) جنتیں جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

جَنَّاتِ عَدْنٍ ... `Adn Gardens), meaning, eternal gardens (of Paradise), ... مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الاَْبْوَابُ whose doors will be opened for them. means, when they come to them (these gardens), their gates will open for them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] جنت کے کھلے ہوئے دروازے :۔ یعنی اہل جنت بلاروک ٹوک اپنے اپنے گھروں میں آجاسکیں گے اور دروازوں کے کھلے ہونے یا رہنے کی تین صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ دروازے ہر وقت کھلے رہیں دوسری یہ کہ دروازے بند ہوں مگر جب اہل جنت گزرنا چاہیں تو وہ از خود کھل جائیں۔ اور تیسری یہ کہ جب اہل جنت گزرنا چاہیں تو فرشتے فوراً دروازے کھول دیں۔ سورة الزمر کی آیت نمبر ٧٣ سے اسی تیسری صورت کی تائید ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جَنّٰتِ عَدْنٍ :” مَفْتُوْحَۃٌ“ کھولے ہوئے،” مُّفَتَّحَةً “ (تفعیل) میں مبالغہ کی وجہ سے ترجمہ ” پورے کھولے ہوئے “ کیا گیا ہے۔ متعدد صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ سورة زمر (٧١) میں ہے کہ جہنم کے دروازے کفار کے آنے پر کھولے جائیں گے اور آیت (٧٣) میں ہے کہ جنت کے دروازے متقین کی آمد پر پہلے سے کھولے ہوئے ہوں گے۔ ” مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ “ میں وہ بشارت بھی داخل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ ، فَیُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَ النَّارِ ، فَیُقَصُّ لِبَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَہُمْ فِي الدُّنْیَا، حَتّٰی إِذَا ہُذِّبُوْا وَ نُقُّوْا أُذِنَ لَہُمْ فِيْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ ، فَوَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ! لَأَحَدُہُمْ أَہْدٰی بِمَنْزِلِہِ فِي الْجَنَّۃِ مِنْہُ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِي الدُّنْیَا ) [ بخاري، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : ٦٥٣٥ ] ” مومن آگ سے گزر جائیں گے تو انھیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا تو وہ ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا بدلا لیں گے جو ان کے درمیان دنیا میں ہوئیں، حتیٰ کہ جب وہ خوب پاک صاف کردیے جائیں گے، تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! ان میں سے ہر ایک کو اپنے گھر کا راستہ اس سے زیادہ معلوم ہوگا جتنا اسے دنیا میں اپنے گھر کا راستہ معلوم تھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ۝ ٥٠ۚ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عدن قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» . ( ع د ن ) عدن ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ { جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ } ” (یعنی) رہنے والے باغات جن کے دروازے ان کے لیے کھلے رکھے جائیں گے۔ “ اہل ِجنت کے لیے جنت کے دروازے کھلے رکھے جانے کا ذکر سورة الزمر کے آخری رکوع میں بھی آیا ہے ‘ بلکہ وہاں اس حوالے سے اہل جنت اور اہل جہنم کے استقبال کا فرق اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ اہل جنت کے لیے تو جنت کے دروازے پہلے سے ہی کھلے ہوں گے۔ جیسے کسی مہمان کا انتظار کھلے دروازوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی جس مہمان کا باقاعدہ انتظار ہو اس کے لیے یوں نہیں ہوتا کہ پہلے دروازہ بند ہو اور اس کے آنے پر ہی اسے کھولا جائے۔ چناچہ جنتی مہمانوں کے لیے جنت کے دروازوں کو پہلے سے ہی کھول کر رکھا جائے گا۔ اس کے برعکس اہل جہنم کو ہانک کر جب جہنم کے دروازے پر لے جایا جائے گا تب دروازوں کو کھولا جائے گا۔ یہ اس لیے کہ جہنم کی مثال جیل کی سی ہے اور جیل کے دروازوں کو معمول کے مطابق بند رکھا جاتا ہے۔ البتہ جب کوئی نیا مجرم آتا سے تو اسے داخل کرنے کے لیے اس کے کھولنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 The words mufattahat-al-lahum-ul-abwab may have several meanings: (1) They will go about in the Gardens (Paradise) freely without any hesitation; (2) no effort will have to be made to open the gates of Paradise: they will open automatically as soon as they will have the desire to enter them; (3) the angels appointed for keeping Paradise will open the gates for them as soon as they see them. This third meaning has been expressed more clearly at another place in the Qur'an, thus: "When they arrive there, and its gates shall already have been opened, its keepers will say: Peace be upon you: you have fared well: enter here to dwell for ever. " (Az-Zumar: 73)

سورة صٓ حاشیہ نمبر :52 اصل الفاظ ہیں مُفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ ۔ اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان جنتوں میں وہ بے روک ٹوک پھریں گے ، کہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو گی ۔ دوسرے یہ کہ جنت کے دروازے کھولنے کے لیے کسی کوشش کی حاجت نہ ہو گی بلکہ وہ مجرد ان کی خواہش پر خود بخود کھل جائیں گے ۔ تیسرے یہ کہ جنت کے انتظام پر جو فرشتے مقرر ہوں گے وہ اہل جنت کو دیکھتے ہی ان کے لیے دروازے کھول دیں گے ۔ یہ تیسرا مضمون قرآن مجید میں ایک اور مقام پر زیادہ صاف الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : حَتّیٰ اِذَا جَآءُوْھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جاچکے ہوں گے تو جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ سلام علیکم ، خوش آمدید ، ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جایئے ۔ ( الزمر ۔ 73 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:50) جنت عدن : عدن کو بعض علماء علم قرار دیتے ہیں۔ اور اس کو جنت میں ایک خاص مقامکا نام دیتے ہیں۔ اور دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں۔ جنت عدن ن التی وعد الرحمن عبادہ بالغیب (19:61) کیونکہ یہاں معرفہ کو اس کی صفت لایا گیا ہے۔ اور بعض دوسرے اس کو جنت کی صفت بتاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ عدن کے اصل معنی استقرار و ثبات کے ہیں۔ محاورہ ہے عدن بالمکان اس نے اس جگہ قیام کیا ۔ اور عدن سے مراد دائمی طور پر رہنا بسنا ہے۔ لہٰذا جنت عدن ہمیشہ رہنے کے باغات۔ پہلی صورت میں عدن کے باغات۔ منصوب حسن ماب کا عطف بیان ہونے کی وجہ سے ہے۔ مفتحۃ۔ اسم مفعول ۔ واحد مؤنث کھولے گئے ۔ کھلے ہوئے ۔ تفتیح (تفعیل) سے فتح مادہ۔ الابواب مفتحۃ کا نائب فاعل ہے۔ مفتحۃ لہم الابواب ای مفتحۃ لہم ابوابھا (ای ابواب الجنۃ) جملہ حالیہ ہے درآں حالیکہ جنت عدن کے دروازے ان (متقین) کے لئے کھلے ہوئے ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5” عدن “ کے معنی رہنے کے بھی ہیں اور یہ جنت میں ایک محل کا نام بھی ہے اس لئے جنات عدن کا مطلب ہمیشہ رہنے کے باغ بھی ہوسکتا ہے اور عدن کے باغ بھی۔ ( شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : متقین کو جہاں رکھا جائے گا اس کی سہولیات اور انعامات کا مختصر بیان۔ متقین کے لیے ہمیشہ ہمیش کے باغات اور محلات ہوں گے۔ جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہوں گے۔ یعنی جنت کی حوریں اور نعمتیں ان کے انتظار میں ہوں گی۔ یہ ہر زبان میں ایک محاورہ بھی ہے۔ جو مہمان کے لیے میزبان کی طرف سے بولا جاتا ہے کہ آپ جب آنا چاہیں ہمارے دروازے ہر وقت آپ کے لیے کھلے ہیں اور ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ جنتی جنت میں ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے تشریف فرما ہوں گے اور ان کے کھانے پینے کے لیے کثیر تعداد میں ہر قسم کے پھل اور مشروبات ہوں گے جس میں شراب طہور بھی ہوگی، جنہیں جنتی طلب فرمایں گے جو فی الفور ان کے سامنے پیش کر دئیے جائیں گے ان کے پس ان کی ہم عمر اور ہم مزاج بیویاں ہوں گی جن کی حیا کا عالم یہ ہوگا کہ وہ اپنے خاوندوں کو اس طرح دیکھیں گی جس طرح ایک باحیا بیوی سہاگ کی رات اپنے خاوند کو دیکھتی ہے۔ اسی طرح ہی نیک عورتوں کو ان کے ہم عمر اور ہم مزاج خاوند ملیں گے۔ لیکن قرآن مجید حیا دارانہ اسلوب کی وجہ سے عورتوں کے لیے کھلے الفاظ میں یہ بات بیان نہیں کرتا ہے کہ انہیں ان کی پسند کے خاوند دیئے جائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے) ۔ “ مسائل ١۔ جنتیوں کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ٢۔ جنتی جنت میں تکیوں پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے کھانے پینے میں مصروف ہوں گے۔ ٣۔ جنت کی عورتیں بےانتہا حیادار ہوں گی۔ ٤۔ جنت میں میاں بیوی ہم عمر اور ہم مزاج ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی بیویاں اور نعمتیں : ١۔ جنت کی بیویاں پاک ہونگی۔ (البقرۃ : ٢٥) ٢۔ خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والیاں ہونگی۔ (الصّٰفّٰت : ٤٨، ٤٩) ٣۔ جنتیوں کی ہم عمر ہوں گی۔ (ص ٓ: ٥٢) ٤۔ یاقوت و مونگے کی طرح خوبصورت ہونگی۔ (الرّحمن : ٥٨) ٥۔ چھپائے ہوئے موتی کی طرح ہونگی۔ (الواقعہ : ٢٣) ٦۔ کنواری اور ہم عمر ہوں گی۔ (الواقعہ : ٣٦، ٣٧) ٧۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٨۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٩۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ١٠۔ جنت میں جنتیوں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ١١۔ جنت میں تمام پھل دو ، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرّحمن : ٥٢) ١٢۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ١٣۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرّحمن : ٧٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) وہ اچھا ٹھکانا دائمی باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہوں گے۔ یعنی ان یاغات کے دروازے پہلے ہی سے کھلے ہوئے ہوں گے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ حتیٰ اذا جائوھا وفتحت ابوابھا یا گھروں کے دورازے کھلے ملیں گے۔