Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 62

سورة ص

وَ قَالُوۡا مَا لَنَا لَا نَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّہُمۡ مِّنَ الۡاَشۡرَارِ ﴿ؕ۶۲﴾

And they will say, "Why do we not see men whom we used to count among the worst?

اور جہنمی کہیں گے کیا یہ بات ہے کہ وہ لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الاَْبْصَارُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 اَ شْرَار سے مراد فقراء مومنین ہیں، جیسے عمار، جناب، بلالو سلیمان وغیرہم (رض) ، انہیں رؤسائے مکہ ازراہ خبث برے لوگ کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] یہاں برے لوگوں سے مراد وہ کمزور مسلمان ہیں جنہیں سرداران قریش حقیر اور کمتر درجہ کے لوگ سمجھتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ سے کہتے تھے کہ اگر لوگوں کو اپنے ہاں سے اٹھا دو ۔ تو ہم آپ کی بات توجہ سے سنیں گے۔ اور وہ تھے سیدنا بلال حبشی (رض) ، صہیب رومی (رض) ، سلمان فارسی (رض) خباب بن ارتّ (رض) ، عمار بن یاسر (رض) اور اسی طرح کے دوسرے مخلص مسلمان۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰى : ” الْاَشْرَارِ “ ” شَرٌّ“ کی جمع ہے، جو اصل میں ” أَشَرُّ “ اسم تفضیل ہے، بدترین لوگ۔ یعنی جہنمی آگ میں چاروں طرف نگاہ ڈالیں گے تو انھیں اپنے چودھری، سردار اور پیشوا تو نظر آئیں گے مگر وہ مومن نظر نہیں آئیں گے جنھیں وہ دنیا میں مذاق کیا کرتے تھے۔ اس پر وہ حسرت و افسوس اور تعجب سے کہیں گے، ہمیں کیا ہے کہ ہم جہنم میں اپنے ساتھ ان ایمان والوں کو نہیں دیکھ رہے جنھیں ہم دنیا میں بد ترین لوگوں میں شمار کرتے تھے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّہُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ۝ ٦٢ۭ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

پھر دوزخی کہیں گے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو دوزخ میں نہیں دیکھ رہے ہیں جن کو ہم کمزور اور برے سمجھا کرتے تھے یعنی غریب مسلمان۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ { وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّہُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ } ” اور وہ کہیں گے : کیا بات ہے ہم یہاں ان کو نہیں دیکھ رہے جنہیں ہم (دنیا میں) برے لوگوں میں شمار کرتے تھے ؟ “ دنیا میں ہمارے ساتھ کچھ گھٹیا اور کم حیثیت لوگ بھی تو تھے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے۔ وہاں ہم انہیں تنگ کیا کرتے تھے اور ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج وہ لوگ یہاں جہنم میں نظر نہیں آرہے ‘ معلوم نہیں کہاں چلے گئے ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 This implies the believers whom the disbelievers used to look down upon as bad people in the world. It means: They will look around bewildered and will find only themselves and their guides in Hell but will find no trace of those people of whom they used to talk disparagingly in the world, and whom they used to mock in their meetings for talking about God, the Messenger and the Hereafter.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :55 مراد ہیں وہ اہل ایمان جن کو یہ کفار دنیا میں برا سمجھتے تھے ۔ مطلب یہ کہ وہ حیران ہو ہو کر ہر طرف دیکھیں گے کہ اس جہنم میں ہم اور ہمارے پیشوا تو موجود ہیں مگر ان لوگوں کا یہاں کہیں پتہ نشان تک نہیں ہے جن کی ہم دنیا میں برائیاں کرتے تھے اور خدا ، رسول ، آخرت کی باتیں کرنے پرجن کا مذاق ہماری مجلسوں میں اڑایا جاتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: اس سے مراد مسلمان ہیں جن کو یہ کافر لوگ دنیا میں برا سمجھتے تھے، اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ ان کو جہنم میں نظر نہیں آئیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:62) قالوا۔ اس میں ضمیر فاعل کا مرجع کون ہے اس میں مختلف قول ہیں :۔ (1) یہ ضمیر سرکش جہنمیوں کے لئے ہے یعنی سردار ان اور ان کے پیروکاروں سب کے لئے۔ الضمیر للطاغین عند جمع (روح المعانی) ۔ الضمیر للطاغین (کشاف) قالوا ای الطاغوت (بیضاوی) آپس میں خوب الجھنے کے بعد وہ ادھر ادھر دیکھیں گے تو ایک دوسرے سے دریافت کریں گے۔ (ضیاء القرآن) (2) ضمیر سرداران کے لئے ہے جنہوں نے کہا تھا ھذا فوج مقتحم ۔۔ الخ وقالوا۔ یعنی کفار قریش وصنا دیدھم واشراقھم وہم فی النار۔ یعنی کفار قریش۔ ان کے سرداران اور ان کے اشراف کہیں گے۔ (الخازن) الضمیر لرؤساء الکفرۃ۔ ضمیر رؤسائے کفار کے لئے ہے ۔ (مدارک التنزیل) (3) یہ ضمیر پیروکاروں کے لئے ہے۔ وقالوا ۔۔ وہ لوگ (یعنی متبوعین یا سب دوزخی آپس میں کہیں گے ) ۔ (بیان القرآن) مطلب یہ ہے کہ وہ حیران ہو ہوکر ہر طرف دیکھیں گے کہ اس جہنم میں ہم اور ہمارے پیشوا تو موجود ہیں مگر ان لوگوں کو یہاں کہیں پتہ نشان تک نہیں ہے جن کی ہم دنیا میں برائیاں بیان کرتے تھے ۔۔ الخ۔ تفہیم القرآن۔ ما لنا ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم ۔۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ۔۔ کیا بات ہے کہ ہم ۔۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ مال ھذا الرسول ۔۔ (25:7) یہ کیسا رسول ہے کہ ۔۔ کیا وجہ ہے کہ یہ رسول ۔۔ کیا بات ہے کہ یہ رسول ۔۔ (کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ مالنا لا نری ۔۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دیکھ نہیں رہے ۔۔ کنا نعدہم ۔۔ ماضی استمراری جمع متکلم۔ عد (باب نصر) سے مصدر۔ عدو مادہ۔ شمار کرنا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ جس کا مرجع رجالا ہے۔ جنہیں ہم شمار کیا کرتے تھے (دنیا میں) اشرار۔ برے لوگ شریر کی جمع ۔ شرارت کرنے والے۔ برے لوگ۔ کنا نعدہم من الاشرار۔ یہ صفت ہے رجالا کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی مسلمانوں کو بد راہ اور حقیر سمجھا کرتے تھے، وہ کیوں نظر نہیں آتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقالوا۔۔۔ الابصار (38: 62 تا 63) ” وہ آپس میں کہیں گے ” کیا بات ہے ، ہم ان لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں برا سمجھتے تھے اور ہم نے یونہی ان کا مذاق بنالیا تھا ، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں ؟ “ یہ لوگ ان کے بارے میں جہنم میں اتہ پتہ دریافت کررہے ہیں حالانکہ وہ لوگ جنتوں کے مزوں میں ہیں۔ یہ منظر اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ اہل دوزخ میں یہ جھگڑے یونہی چلتے رہیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل دوزخ کو حیرت ہوگی جب اہل ایمان کو اپنے ساتھ نہ دیکھیں گے اہل دوزخ کہیں گے کہ ہم دنیا میں تھے تو اہل ایمان کو اور خاص کر فقرائے مومنین کو ذلیل سمجھتے تھے اور یوں بھی کہتے تھے کہ یہ اشرار ہیں یعنی برے لوگ ہیں ان میں کوئی خیر نہیں اور بعض مرتبہ ان سے یوں بھی کہہ دیتے تھے کہ تم دوزخ میں جاؤ گے ہم جنتی ہوں گے (جیسا کہ یہود اور نصاریٰ اور اہل ہنود سمجھتے ہیں) لیکن جب یہ کفار دوزخ میں پہنچیں گے اور ادھر ادھر نظر ڈالیں گے تو انہیں اہل ایمان میں سے کوئی بھی نظر نہ آئے گا نظروں کے سامنے سب کافر ہی ہوں گے اس وقت یوں کہیں گے کیا بات ہے ہم ان آدمیوں کو نہیں دیکھ رہے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کیا کرتے تھے کیا ہم نے ناحق ان کی ہنسی کر رکھی تھی کہ انہیں دوزخی سمجھتے تھے (اور حقیقت میں وہ ایسے نہ تھے جیسا ہم نے سمجھا تھا) یا یہ بات ہے کہ وہ لوگ یہاں موجود تو ہیں لیکن ہماری آنکھیں چکرا رہی ہیں کہ ان پر نظر نہیں پڑتی اس بات کو یاد کرکے انہیں حیرت بھی ہوگی اور حسرت بھی کہ جن کا ہم نے مذاق بنایا تھا وہ تو یہاں نہ پہنچے اور ہمیں یہاں آنا پڑا۔ (اِِنَّ ذٰلِکَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَھْلِ النَّارِ ) یعنی دوزخیوں کا آپس میں جھگڑنا بالکل سچی بات ہے ایسا ضرور ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اور اہل جہنم آپس میں کہیں گے یا ووہ تابع ہی کہیں گے ہم کو کیا ہوگیا کہ ہم یہاں ان مردوں کو نہیں دیکھتے جن کو ہم برے اور بدلوگوں میں شمار کیا کرتے تھے۔ یعنی ایک دم فقراء مسلمین کا خیال آئے گا تو سب مل کر کہیں گے یا صرف تابع کہیں گے کہ اس عذاب میں ہم ان کو نہیں دیکھتے جن کو ہم شرارت پسندوں میں سے گنا کرتے تھے اور بروں میں شمار کرتے تھے وہ مسلمان کدھر گئے اور کہاں گئے یہ خیال کرکے کہیں گے۔