Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 82

سورة ص

قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۸۲﴾

[Iblees] said, "By your might, I will surely mislead them all

کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ٨٢ۙ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ { قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ” اس نے کہا : پس تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٢۔ ٨٨۔ مسند امام ٢ ؎ اور مستدرک حاکم میں معتبر سند کی ابو سعید (رض) خدری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ شیطان نے قسم کھا کر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ انسان کے جسم میں جس وقت تک جان رہے گی۔ اس وقت تک میں ہر ایک انسان کے بہکانے میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر اس ملعون کے جواب میں فرمایا کہ جب تک انسان کے جسم میں جان رہے گی۔ اور انسان گناہ کر کے توبہ استغفار کرتا رہے گا۔ میں بھی ہمیشہ اس کے گناہ معاف کرتا رہوں گا۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ کیونکہ آیت میں فقط شیطان کا قول ہے۔ اور حدیث میں شیطان کا قول بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس ملعون کے قول کا قسم کھا کر جو جواب دیا ہے وہ بھی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر مرض پیدا کر کے اس مرض کی دوا بھی پیدا کردی ہے۔ اسی طرح آزمائش کے طور پر شیطان کو پیدا کر کے خدا تعالیٰ نے اس کا علاج بھی پیدا کردیا ہے۔ جس علاج کی تاثیر کو قسم کھا کر اپنے بندوں کو اس نے سمجھایا ہے۔ اب جو شخص گناہ کرے اور توبہ پر آمادہ نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی سخت مرض میں گرفتار ہو اور دوا کرنے سے دم چرائے۔ اب اس طرح کے بیمار کا جو انجام ہونے والا ہے وہی اس گناہ گار کا حال ہونے والا ہے۔ چناچہ توبہ کرنے والے اور نہ کرنے والے لوگوں کی حالت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث میں بیان فرمائی ہے۔ صحیح سند سے ترمذی ٣ ؎ نسائی صحیح ابن حبان مستدرک حاکم اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑجاتا ہے۔ اگر یہ گناہ کرنے والا شخص خالص دل سے اور دوسرا گناہ کرنے سے پہلے توبہ استغفار کرلیتا ہے تو وہ سیاہ داغ مٹ جاتا ہے اور دل صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر بغیر توبہ استغفار کے آدمی گناہ پر گناہ کئے چلا جاتا ہے تو داغ پر داغ پڑتا جاتا ہے۔ اور ان داغوں کی سیاہی دل پر پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ تمام دل کو زنگ لگ جاتا ہے یہ فرما کر آپ نے یہ آیت پڑھی کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوایکسون۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر توبہ کے گناہ گاروں کے دلوں پر زنگ چھا جاتا ہے۔ اب بعضے لوگ تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل توبہ کرتے ہی نہیں اور گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور بعضے لوگ ایسے ہیں کہ توبہ تو کرتے ہیں مگر اوپری دل سے اس طرح کہ توبہ کرتے وقت بھی ان کے دل میں آئندہ گناہ کی جانب سے پوری نفرت اور بیزاری نہیں ہوتی۔ اس طرح کی توبہ کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہے۔ کیونکہ اوپر توبہ کے ذکر میں گزر چکا ہے کہ توبہ کرتے وقت آدمی کے دل میں آئندہ گناہ نہ کرنے کا قصد ضرور ہونا چاہئے۔ اگر فقط پچھلے گناہ پر آدمی کو ندامت ہوئی اور آئندہ گناہ پر دل للچاتا رہا تو شریعت کے موافق یہ پوری توبہ نہیں ہے۔ بہ نسبت بالکل توبہ نہ کرنے والوں اور اوپری دل سے توبہ کرنے والوں کے خاص دل سے توبہ کرنے والے اللہ کے بندے دنیا میں بہت کم ہیں اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت شیطان کے بہکانے کے مرض کا علاج قسم کھا کر فرما دیا ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس علاج کو حسب دل خواہ کام میں نہیں لاتے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے سورة سبا میں فرمایا ہے۔ ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فریقآ من المومنین جس کے حاصل معنی یہ ہیں کہ حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے کے دن اپنے راندھے جانے پر شیطان نے جو قسم کھائی تھی کہ جہاں تک ہو سکے گا وہ انسان کو بہکاوے گا۔ اس دن تو وہ قسم اس کی محض گمان کے طور پر تھی لیکن دنیا میں پیدا ہونے کے بعد اس کے بہکانے میں اکثر لوگ آگئے اور اس کا وہ گمان سچا ہوگا ترمذی ١ ؎ وغیرہ کے حوالہ سے حارث (رض) اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہتے ہیں شیطان ان کو نہیں بہکا سکتا شیطان ملعون کو بھی یہ بات معلوم تھی اس لئے اس نے اپنے بہکانے کی قسم میں سے ایسے لوگوں کو مستثنیٰ کردیا صحیح مسلم مسند ابی ٢ ؎ وغیرہ کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث سورة النسا میں گزر چکی ہے کہ جس شخص کے نامہ اعمال میں شرک نہ ہوگا۔ اور بغیر توبہ کے اور کبیرہ گناہ ہوں گے۔ تو ایسے شخص کی مغفرت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہے بلا کسی مواخذہ کے ایسے شخص کو جنت میں داخل کر دے چاہے کسی قدر مواخذہ کے بعد اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے وہی لوگ دوزخ میں رہیں گے جن کے نامہ اعمال میں بغیر توبہ کا شرک ہوگا۔ کبیرہ گناہوں والا کلمہ گو اگر بغیر توبہ کے مرجاوے گا۔ تو ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے گا۔ اپنے مذہب معتزل کی تائید کے لئے صاحب کشاف نے کبیرہ گناہ کے کلمہ گو کے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا مطلب جو ان آیتوں سے نکالا ہے۔ وہ جابر (رض) کی اوپر کی صحیح حدیث اور علاوہ اس کے اور صحیح حدیث کے برخلاف ہے۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے یہ بھی کہہ دو کہ میں اس قرآن کی نصیحت پر تم لوگوں سے کچھ مزدوری نہیں مانگتا جس کے بوجھ سے تم قرآن کی نصیحت کے سننے سے بھاگتے ہو اور ایک مدت سے میں تم لوگوں میں رہتا ہوں تم کو میری عادت معلوم ہے کہ میں اپنے دل سے بنا کر کوئی بات نہیں کہتا اور قرآن کے مضمون کو بھی رات دن سنتے ہو کہ اس میں کوئی بات شاعروں کی بناوٹ کی نہیں۔ بلکہ اس میں تو سارے جہاں کے لئے نصیت کی باتیں ہیں اس پر بھی تم لوگ مجھ کو جھوٹا شاعر اور قرآن کو شعر جو کہتے ہو یہ تمہاری زبردستی ہے اگر تم لوگ اپنی باتوں سے باز نہ آتے تو کچھ دنوں کے بعد اس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑے گا تفسیر سدی میں ہے کہ اس وعدہ کا ظہور بدر کی لڑائی کے وقت ہوا صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ مشرکین مکہ کے بڑے بڑے قرآن کے جھٹلانے والے بدر کی لڑائی میں نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے۔ جس عذاب کے جتانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ اس حدیث سے سدی کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکی سورتوں کے اس طرح کے وعدہ کا ظہور بدر کی لڑائی کو قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی عزت اور تعظیم تمام مخلوقات پر واجب ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہ مانا۔ اس نے اس کی عزت اور تعظیم کو نہ مانا۔ حاصل یہ ہے کہ شیطان نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور اسی جرم کی سزا میں وہ گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی کا سبب کیا ہے۔ وہی اللہ تعالیٰ کی عزت کی ناقدری اسی واسطے ان آیتوں میں ذکر ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم کھائی اور سورة الاعرف میں ذکر تھا کہ شیطان نے اپنی گمراہی کے سبب کی قسم کھائی۔ حقیقت میں دونوں جگہ کی قسموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی عزت ہے فرق اتنا ہی ہے کہ ایک جگہ عزت کے اثر کی قسم ہے اور دوسری جگہ خود عزت کی۔ غرض دونوں آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں۔ کیونکہ دونوں آیتوں کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اس عزت کی قسم ہے۔ جس کو نہ ماننا گمراہی کا سبب ہے۔ (٢ ؎ بحوالہ منکوۃ شریف باب الاستغفار والتوبہ ص ٤٠٤ ) (٢ ؎ بحوالہ منکوۃ شریف باب الاستغفار والتوبہ ص ٤٠٤ ) (٣ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة متففین ص ١٩١ ج ٢) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء مثل الصلوۃ الصیام و الصدقۃ ١٢٨ ج ٢) (٢ ؎ صحیح مسلم باب الدلیل علی من مات لایشرک بالللہ دخل الجنۃ ص ٦٦ ج ١)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:82) فبعزتک۔ الفاء للسببیۃ۔ (ابلیس کو مہلت مل جانا ہی عزم اغواء کا سبب ہے) ۔ باء قسمیہ ہے۔ عزتک مضاف مضاف الیہ۔ (جب تو نے مجھے مہلت دیدی) تو تیری عزت کی قسم ۔۔ لاغوینھم۔ لام تاکید کا ہے مضارع بانون ثقیلہ صیغہ واحد متکلم۔ اغواء (افعال) مصدر سے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب میں ان کو ضرور گمراہ کر دوں گا۔ اجمعین۔ سب کے سب کو۔ ساروں کو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 82 تا 83 اس نے اپنا منہاج کار بھی متعین کردیا ، وہ اللہ کی عزت کی قسم اٹھا کر اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ میں ان تمام انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ ہاں وہ صرف ان لوگون کو مستثنیٰ کرتا ہے جن پر اس کا بس نہیں چلتا۔ اس لیے نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ وہ کچھ مہربانی کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے دام میں آنے والے نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ شیطان کی دست درازیوں سے محفوظ ہیں۔ ان کے اور شیطان کے درمیان کیا پردہ ہوتا ہے ؟ وہ یہ کہ بندہ اللہ کی بندگی اخلاص کے ساتھ کرے تو وہ شیطان کی دسترس سے دور ہوجاتا ہے۔ یہی طریق نجات ہے اور یہی زندگی کی مضبوط رسی ہے۔ اور یہ بھی اللہ کے ارادے اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ کی مشیت کے دائرہ کے اندر ہلاکت یا نجات ملتی ہے۔ اس موقع پر اللہ نے بھی اپنے ارادے کا برملا اظہار کردیا اور اللہ نے بھی اپنے منہاج کا اعلان کردیا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(82) ابلیس نے کا تیری عزت کی قسم میں تمام اولاد آدم کو گمراہ کروں گا۔