Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 21

سورة الزمر

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیۡعَ فِی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ حُطَامًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿٪۲۱﴾  16

Do you not see that Allah sends down rain from the sky and makes it flow as springs [and rivers] in the earth; then He produces thereby crops of varying colors; then they dry and you see them turned yellow; then He makes them [scattered] debris. Indeed in that is a reminder for those of understanding.

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے پھر اسی کے ذریعہ سے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Parable of the Life of this World Allah says, أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء ... See you not that Allah sends down water from the sky, Allah tells us that water originates in the sky. This is like the Ayah: وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَأءِ مَأءً طَهُوراً and We send down pure water from the sky. (25:48) So, Allah sends down water from the sky, and it settles in the earth, then He causes it to flow wherever He wills, and He causes springs, great and small, to flow as needed. Allah says: ... فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الاَْرْضِ ... and causes it to penetrate the earth, as water springs, Sa`id bin Jubayr and `Amir Ash-Sha`bi said that all the water on earth has its origins in the sky. Sa`id bin Jubayr said, its origins lie in the snow, meaning that snow piles up in the mountains, then settles at the bottom (of the mountains) and springs flow from the bottom of them. ... ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ... and afterward thereby produces crops of different colors, means, then from the water which comes down from the sky or flows from springs in the earth, He brings forth crops of different colors, i.e., different kinds of forms, tastes, scents, benefits, etc. ... ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ... and afterward they wither and you see them turn yellow; means, after they have been ripe and fresh, they become old and you see them turn yellow when they have dried out. ... ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ... then He makes them dry and broken pieces. means, then they become brittle. ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لاُِوْلِي الاَْلْبَابِ Verily, in this is a reminder for men of understanding. means, those who are reminded by this and who learn the lesson from it, that this world is like this -- it is green and fresh and beautiful, then it will become old and ugly. The young man will become a weak, senile old man, and after all of that comes death. The blessed one is the one whose state after death will be good. Allah often likens the life of this world to the way He sends down water from the sky and crops and fruits grow thereby, then they become dry and brittle. This is like the Ayah: وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَأءٍ أَنْزَلْنَـهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الاٌّرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّياحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ مُّقْتَدِرًا And put forward to them the example of the life of this world: it is like the water (rain) which We send down from the sky, and the vegetation of the earth mingles with it, and becomes fresh and green. But (later) it becomes dry and broken pieces, which the winds scatter. And Allah is able to do everything. (18:45) The People of Truth and the People of Misguidance are not Equal Allah says,

زندگی کی بہترین مثال ۔ زمین میں جو پانی ہے وہ درحقیقت آسمان سے اترا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں یہ پانی زمین پی لیتی ہے اور اندر ہی اندر وہ پھیل جاتا ہے ۔ پھر حسب حاجت کسی چشمہ سے اللہ تعالیٰ اسے نکالتا ہے اور چشمے جاری ہو جاتے ہیں ۔ جو پانی زمین کے میل سے کھارہ ہو جاتا ہے وہ کھارہ ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح آسمانی پانی برف کی شکل میں پہاڑوں پر جم جاتا ہے ۔ جسے پہاڑ چوس لیتے ہیں اور پھر ان میں سے جھرنے بہ نکلتے ہیں ۔ ان چشموں اور آبشاروں کا پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے ۔ جس سے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جو مختلف قسم کے رنگ و بو کی اور طرح طرح کے مزے اور شکل و صورت کی ہوتی ہیں ۔ پھر آخری وقت میں ان کی جوانی بڑھاپے سے اور سبزی زردے سے بدل جاتی ہے ۔ پھر خشک ہو جاتی ہے اور کاٹ لی جاتی ہے ۔ کیا اس میں عقل مندوں کے لئے بصیرت و نصیحت نہیں؟ کیا وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ اسی طرح دنیا ہے ۔ آج ایک جوان اور خوبصورت نظر آتی ہے کل بڑھیا اور بد صورت ہو جاتی ہے ۔ آج ایک شخص نوجوان طاقت مند ہے کل وہی بوڑھا کھوسٹ اور کمزور نظر آتا ہے ۔ پھر آخر موت کے پنجے میں پھنستا ہے ۔ پس عقلمند انجام پر نظر رکھیں بہتر وہ ہے جس کا انجام بہتر ہو ۔ اکثر جگہ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے پیدا شدہ کھیتی کے ساتھ دے گئی ہے جیسے ( وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘاِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ 13۝ۚ ) 36-يس:13 ) میں ۔ پھر فرماتا ہے جس کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا ، ذرا سوچو! جس نے رب کے پاس سے نور پا لیا وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہو سکتا ہے ۔ حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہو سکتے ہیں؟ جیسے فرمایا ( اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٢٢؁ ) 6- الانعام:122 ) ، وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے نور عطا فرمایا جسے اپنے ساتھ لئے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے اور یہ اور وہ جو اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے جن سے چھٹکارا محال ہے ۔ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ پس یہاں بھی بطور نصیحت بیان فرمایا کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے احکام الٰہی کو ماننے کے لئے نہیں کھلتے رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگدل اور سخت دل ہیں ان کے لئے ویل ہے خرابی اور افسوس و حسرت ہے یہ بالکل گمراہ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی بارش کے ذریعے سے پانی آسمان سے اترتا ہے، پھر وہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے پھر چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا تالابوں اور نہروں میں جمع ہوجاتا ہے۔ 21۔ 2 یعنی شادابی اور ترو تازگی کے بعد وہ کھیتیاں سوکھ جاتی اور زرد ہوجاتی ہیں اور پھر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ جس طرح لکڑی کی ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] بارش کا کچھ پانی زمین میں جذب ہو کر زمین کو سیراب کرتا ہے۔ زائد پانی اور نیچے چلا جاتا ہے۔ جو کبھی چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے اور کبھی کنوئیں وغیرہ کھود کر نکالا جاتا ہے۔ اور زائد پانی ندی نالوں میں بہتا ہوا دریاؤں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ سب پانی کے منابع ہیں۔ اور جو بھی صورت ہو بارش کے پانی سے انسانوں، حیوانوں اور نباتات کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ [٣٢] دنیا کے کمال کو بھی زوال آکے رہے گا :۔ سبق یہ ہے کہ جو چیز بھی عروج کو پہنچے اسے زوال بھی ضرورآتا ہے۔ جب وہ جوبن پر ہو تو بڑی بہار دکھاتی اور اچھی لگتی ہے مگر اس کا انجام عبرت آموز ہوتا ہے۔ نباتات کی بھی یہی کیفیت ہے۔ پھر انسان کی اپنی زندگی کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ چیزیں تو ہر انسان کے مشاہدے میں آسکتی ہیں۔ مگر قوموں کے عروج وزوال کی بھی اگرچہ یہی کیفیت ہوتی ہے مگر وہ انسان کے مشاہدہ میں نہیں آتی۔ کیونکہ وہ صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔ اور اس کا ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ فلاں قوم پر فلاں وقت عروج کا دور تھا اور فلاں وقت انحطاط کا۔ پھر اس سے آگے اس دنیا کا بھی یہی حال ہے جو اس وقت اپنی بہاریں دکھا رہی ہے اور اکثر لوگ اسی پر ریجھ بیٹھے اور اسی میں مست اور مگن ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اس کا انجام بھی اللہ کی سنت کے مطابق وہی کچھ ہونے والا ہے جو دوسری چیزوں کا ہو رہا ہے۔ لہذا انسان کو ان مثالوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اس پر ریجھنے کے بجائے اس گھر کی فکر کرنا چاہئے جسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۔ : ’ يَنَابِيْعَ “ ” یَنْبُوْعٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی چشمہ بھی ہے اور بہت پانی والا نالہ بھی۔ (قاموس) ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ بتا رہے ہیں کہ زمین میں موجود پانی کا اصل آسمان ہی سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَهُوْرًا ) [ الفرقان : ٤٨ ] ” اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔ “ آسمان سے اترنے کے بعد یہ پانی زمین کی تہوں میں چلا جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ضرورت کے مطابق جس طرح چاہتا ہے چلاتا ہے اور چھوٹے یا بڑے چشموں کی صورت میں باہر نکالتا ہے، جس سے ندی نالے اور دریا بنتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ) ” پھر اسے چشموں کی صورت میں زمین میں چلایا۔ “ 3 آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ آگ کے عذاب اور ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کے ذکر کے ساتھ ہی دنیا کی زندگی کی زیب و زینت اور خوش حالی کے عارضی اور نا پائیدار ہونے کا ذکر فرمایا۔ آسمان سے اترنے والے پانی کے ساتھ پیدا ہونے والی کھیتی کا جو حال اس آیت میں بیان ہوا ہے یہی حال انسان کا ہے، وہ پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، پھر پختہ ہو کر بوڑھا ہوجاتا ہے، آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز کا یہی حال ہے، اس کی سب زینتیں عارضی اور چند روزہ ہیں، اس کے ہر کمال کو زوال ہے اور اس کی ہر چیز کو آخر کار فنا ہونا ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یونس (٢٤) ، کہف (٤٥) اور حدید (٢٠) ۔ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ : مختلف رنگوں سے مراد مختلف رنگ بھی ہیں، مثلاً سبز، سرخ، زرد وغیرہ اور مختلف قسمیں بھی، مثلاً گندم، جَو اور چنے وغیرہ۔ یہ دلیل ہے کہ ایک ہی پانی اور ایک ہی زمین سے مختلف رنگوں اور ذائقوں کی کھیتیاں پیدا کرنا اندھے بہرے مادے کا کام نہیں، بلکہ ایک قادر و مختار ہستی کا کام ہے۔ دیکھیے سورة رعد (٤) ۔ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا : ” ھَاجَ یَھِیْجُ ھَیْجًا وَ ھِیَاجًا وَ ھَیْجَانًا الشَّيْءُ “ کسی چیز کا ابھرنا، حرکت کرنا۔ ” ھَاج النَّبْتُ “ کھیتی کا خشک ہونا۔ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا :” حَطِمَ (س) الشَّيْءُ حَطَمًا “ کسی چیز کا ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجانا۔ ” حُطَامًا “ ” فُتَاتًا “ کا ہم وزن اور ہم معنی ہے، ریزہ ریزہ شدہ، چورا۔ اس آیت میں ” ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا “ (پھر وہ اسے چورا بنا دیتا ہے) فرمایا، جب کہ سورة حدید میں فرمایا : (ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا) [ الحدید : ٢٠ ] ” پھر وہ چورا بن جاتی ہے۔ “ یہ فرق اس لیے ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت و صنعت کی بات ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اسے چشموں کی صورت میں زمین میں چلایا، پھر یہاں مختلف رنگوں کی کھیتی اگانے اور اس کے پکنے کا ذکر ہے، اس لیے فرمایا، پھر وہ اسے چورا بنا دیتا ہے اور سورة حدید میں ’ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى“ (دنیا کی زندگی) سے بات کا آغاز ہوا ہے، اس لیے آخر میں فرمایا، پھر وہ چورا بن جاتی ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى۔۔ : ” لَذِكْرٰى“ میں تنکیر تعظیم کے لیے ہے، یعنی اس میں عقلوں والوں کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے کہ ان کی زندگی بھی اس کھیتی کی طرح نا پائیدار اور فنا ہونے والی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا انھیں دوبارہ اسی طرح زندہ کرے گا جس طرح وہ مردہ زمین کو پانی کے ذریعے سے زندہ کردیتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: يَنَابِيعَ (yanabi in verse 21: فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْ‌ضِ (made it penetrate into the earth [ and gush forth ] in the form of springs) is the plural form of: یَنبُوع (yanbu) which means springs that gush out from the soil. The sense is that the act of sending down water from the sky is by itself a great blessing, but also crucial was the arrangement to conserve it underground. But for this arrangement to save this blessing of water, its users would have derived benefit from it only at the time of rains, or for a few days following it. Although, on water depends their life, and it is the kind of need one cannot stay free from, even for a day. Therefore, Allah Ta’ ala did not consider it sufficient to just send down this blessing, instead, made elaborate and very unique arrangements for its conservation. Some of it gets deposited in ditches, ponds, tanks and reservoirs. Then a huge supply is turned into ice and made to sit on mountain peaks and its ridges, an arrangement that takes care of the danger of water going bad. Then ice melts and water travels through veins in the mountains until it reaches the land and gushes out in the form of streams, all over, on its own, without any human input, and finally finds its way through the land in the form of rivulets and rivers. Rest of the water keeps flowing underground which can be retrieved by digging a well almost anywhere. Details of this water supply system as they appear in the noble Qur&an have been given in the commentary of Surah Al-Mu&minan under the verse: (then We lodged it in the earth, and of course, We are able to take it away - Al-Mu&minun, 23:18). (Please see Ma ariful-Qur’ an, Volume VI, under 23:18, pages 311 to 313). Later in verse 21, it was said: مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ (the crops of different colours). At the time the crops grow and ripen, colors keep changing from one to the other. Since these colors change, therefore, the word: مُّخْتَلِفًا (mukhtalifan), in terms of its grammatical analysis, has been used in the form of: حَال (ha state, circumstantial condition) which denotes change. In the last sentence of verse 21, it was said: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَ‌ىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (Surely, in that, there is a lesson for the people of understanding), that is, in this process - when water is sent down, is conserved, is made available to human beings to grow all sorts of crops and trees the colors of which change following which they turn yellow and dry making grains separate from chaff - there is a great lesson for people of understanding, because they provide the proof of the infinite power and wisdom of Allah Ta’ ala. These are visible signs that could lead human beings to discover the reality behind their own creation, and that in turn, could become the means through which one succeeds in recognizing his or her own creator and master.

خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تو نے اس (بات) پر نظر نہیں کی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو زمین کے سوتوں میں (یعنی ان قطعات میں جہاں سے پانی ابل کر کنوؤں اور چشموں کے ذریعہ نکلتا ہے) داخل کردیتا ہے۔ پھر (جب وہ ابلتا ہے تو) اس کے ذریعہ سے کھیتیاں پیدا کرتا ہے جس کی مختلف قسمیں ہیں، پھر وہ کھیتی بالکل خشک ہوجاتی ہے سو اس کو تو زرد دیکھتا ہے پھر (اللہ تعالیٰ ) اس کو چورا چورا کردیتا ہے اس (نمونہ) میں اہل عقل کے لئے بڑی عبرت ہے (کہ یہی حالت بعینہ انسان کی دنیوی حیات کی ہے، آخر فنا آخر فنا تو اس میں منہمک ہو کر ابدی راحت سے محروم رہنا اور ابدی مصیبت کو سر پر لینا نہایت حماقت ہے، گو ہمارا بیان نہایت بلیغ ہے مگر پھر بھی سب سننے والے باہم متفاوت ہیں) سو جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام (کے قبول کرنے) کے لئے کھول دیا (یعنی اسلام کی حقیقت کا اس کو پورا یقین آ گیا) اور وہ اپنے پروردگار کے (عطا کئے ہوئے) نور (یعنی ہدایت کے مقتضا) پر (چل رہا) ہے (یعنی یقین لا کر اس کے موافق عمل کرنے لگا کیا وہ شخص اور اہل قساوت برابر ہیں جن کا ذکر آگے آتا ہے) سو جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے (اس میں احکام و مواعید سب آگئے) متاثر نہیں ہوتے (یعنی ایمان نہیں لاتے) ان کے لئے (قیامت میں) بڑی خرابی ہے (اور دنیا میں) یہ لوگ کھلی گمراہی میں (گرفتار) ہیں (آگے اس نور اور ذکر کا بیان ہے یعنی) اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام (یعنی قرآن) نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ (با عتبار اعجاز نظم و صحت معانی کے) باہم ملتی جلتی ہے (اور جس میں سمجھانے کے لئے بعض بعض بہت ضروری بات) بار بار دہرائی گئی (و ہذا کقولہ تعالیٰ (آیت) ولقد صرفنا الخ جس میں باوجود فائدہ تاکید و رسوخ مدعا کے قلب مخاطب میں ہر جگہ خاص خاص لطائف کا بھی لحاظ ہوتا ہے جس سے خالی تکرار نہیں رہتا اور مثانی ہونا یعنی بار بار دھرایا جانا دلیل ہے، ہدایت پر مشتمل ہونے کی) جس سے ان لوگوں کے جو کہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں (یہ کنایہ ہے خوف سے گو قلب ہی میں رہے بدن پر اثر نہ آوے اور گو وہ خوف عقلی و ایمانی ہو، طبعی وحالی نہ ہو) پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر (یعنی کتاب اللہ پر عمل کرنے) کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں (یعنی ڈر کر اعمال جوارح و اعمال قلب کو انقیاد اور توجہ سے بجا لاتے ہیں اور) یہ (قرآن) اللہ کی ہدایت ہے جس کو وہ چاہتا ہے اس کے لئے ذریعہ ہدایت کرتا ہے (جیسا خائفین کا حال ابھی سنایا گیا) اور خدا جس کو گمراہ کرتا ہے اس کا کوئی ہادی نہیں (جیسا قاسین یعنی سخت دل کافروں کا حال ابھی سنایا گیا) معارف ومسائل (آیت) فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ۔ ینابیع ینبوع کی جمع ہے جس کے معنی زمین سے پھوٹنے والے چشمے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی نازل کردینا ہی ایک عظیم الشان نعمت ہے مگر اس نعمت کو آ کر زمین کے اندر محفوظ کردینے کا انتظام نہ کیا جاتا تو انسان اس سے صرف بارش کے وقت یا اس کے متصل چند دن تک فائدہ اٹھا سکتا۔ حالانکہ پانی اس کی زندگی کا مدار ایسی ضرورت ہے جس سے وہ ایک دن بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حق تعالیٰ نے صرف اس نعمت کے نازل کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس کے محفوظ کرنے کے عجیب عجیب سامان فرما دیئے۔ کچھ تو زمین کے گڑھوں، حوضوں اور تالابوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور بہت بڑا ذخیرہ برف بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ جس سے اس کے سڑنے اور خراب ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ پھر وہ برف آہستہ آہستہ پگھل کر پہاڑی رگوں کے ساتھ زمین میں اتر جاتا ہے اور جا بجا ابلنے والے چشموں کی صورت میں خود بخود بغیر کسی انسانی عمل کے پھوٹ نکلتا ہے اور ندیوں کی شکل میں زمین میں بہنے لگتا ہے اور باقی پانی پوری زمین کی گہرائی میں چلتا رہتا ہے جس کو کنواں کھود کر ہر جگہ نکالا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اس نظام آبپاشی کی پوری تفصیل کو سورة مومنون میں ( آیت) فاسکنہ فی الارض وانا علیٰ ذھاب بہ لقدرون کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ (آیت) مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ۔ کھیتی کے اگنے کے وقت اور پکنے کے وقت اس پر مختلف رنگ آتے جاتے رہتے ہیں اور چونکہ ان رنگوں میں انقلاب اور تجدد ہے۔ اس لئے مختلفاً کو ترکیب نحوی میں حال بنا کر منصوب کیا گیا ہے جو تجدد پر دلالت کرتا ہے۔ (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ ، یعنی پانی اتارنے اور اس کو محفوظ کر کے انسان کے کام میں لگانے پھر اس سے قسم قسم کی نباتات اور درخت اگانے اور ان درختوں پر مختلف رنگ آنے کے بعد آخر میں زرد خشک ہو کر غلہ الگ اور بھوسہ الگ ہوجانے میں بڑی نصیحت ہے عقل والوں کے لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت و حکمت کے دلائل ہیں۔ جن کو دیکھ کر انسان اپنی تخلیق کے معاملہ کی حقیقت کو بھی پہچان سکتا ہے جو ذریعہ ہو سکتی ہے اپنے خالق ومالک کے پہچاننے کا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَہٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُہٗ حُطَامًا۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ۝ ٢١ۧ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے سلك السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی: لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ. ( س ل ک ) السلوک ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔ نبع النَّبْعُ : خروج الماء من العین . يقال : نَبَعَ الماءُ يَنْبَعُ نُبُوعاً ونَبْعاً ، واليَنْبُوعُ : العینُ الذي يَخْرُجُ منه الماءُ ، وجمعه : يَنَابِيعُ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 21] والنَّبْعُ : شجر يُتَّخَذُ منه القِسِيُّ. ( ن ب ع ) النبع کے معنی چشمہ سے پانی پھوٹنے کے ہیں اور یہ نبع الماء ینبع ( ن ) نبوعا ونبعا کا مصدر ہے اور الینبوع اس چشمہ کو کہتے ہیں جس سے پانی اہل رہا ہو اس کی جمع بنا تیع آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 21] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا ہے النبع ایک قسم کا در خت جسکی کمانیں بنتی ہیں أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ لون اللَّوْنُ معروف، وينطوي علی الأبيض والأسود وما يركّب منهما، ويقال : تَلَوَّنَ : إذا اکتسی لونا غير اللّون الذي کان له . قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها [ فاطر/ 27] ، وقوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فإشارة إلى أنواع الألوان واختلاف الصّور التي يختصّ كلّ واحد بهيئة غير هيئة صاحبه، وسحناء غير سحنائه مع کثرة عددهم، وذلک تنبيه علی سعة قدرته . ويعبّر بِالْأَلْوَانِ عن الأجناس والأنواع . يقال : فلان أتى بالألوان من الأحادیث، وتناول کذا ألوانا من الطّعام . ( ل و ن ) اللون ۔ کے معنی رنگ کے ہیں اور یہ سیاہ سفید اور ان دونوں سے مرکب یعنی ہر قسم کے رنگ پر بولا جاتا ہے ۔ تلون کے معنی رنگ بدلنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها[ فاطر/ 27] اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کی دھار یاں ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف الوادع و اقسام کے رنگوں اور شکلوں کے مختلف ہونے کی طرف اشارہ ہے اور باوجود اس قدر تعداد کے ہر انسان اپنی ہیئت کذائی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز کذابی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے ۔ اس سے خدا کی وسیع قدرت پر تنبیہ کی گئی ۔ اور کبھی الوان سے کسی چیز کے لوادع و اقسام مراد ہوتے ہیں چناچہ محاورہ ہے اس نے رنگا رنگ کی باتیں کیں اور الوان من الطعام سے مراد ہیں قسم قسم کے کھانے ۔ هاج يقال : هَاجَ البقل يَهِيجُ : اصفرّ وطاب، قال عزّ وجلّ : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا [ الزمر/ 21] وأَهْيَجَتِ الأرضُ : صار فيها كذلك، وهَاجَ الدّم والفحل هَيْجاً وهَيَاجاً ، وهَيَّجَتِ الشّرّ والحرب، والْهَيْجَاءُ : الحرب وقد يقصر، وهَيَّجْتُ البعیرَ : أَثَرْتُهُ. ( ھ ی ج ) ھاج البقل ( ض ) کے معنی بقول کے پک کر زور پڑجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا [ الزمر/ 21] پھر وہ ( پک کر ) خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد ہوگئی ہے ۔ اور اھیجت اللارض کے معنی زمین کے خشک گھاس والی ہونے کے ہیں ۔ ھاج الدم والفحل ھیجا وھیاجا کے معنی خون یا نر اونٹ کے جوش مارنے کے ہیں اور ھیجت الشرو الحرب کے معنی شریا لڑائی بھڑکانے کے اسی سے الھیجاء ( بالمد والقصر ) ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں ۔ اور ھیجت البعیر کے معنی اونٹ کو بر انگیختہ کرنے کے ہیں ۔ صفر الصُّفْرَةُ : لونٌ من الألوان التي بين السّواد والبیاض، وهي إلى السّواد أقرب، ولذلک قد يعبّر بها عن السّواد . قال الحسن في قوله تعالی: بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة/ 69] ، أي : سوداء»، وقال بعضهم : لا يقال في السواد فاقع، وإنّما يقال فيها حالکة . قال تعالی: ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر/ 21] ، كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات/ 33] ، قيل : هي جمع أَصْفَرَ ، وقیل : بل أراد الصُّفْرَ المُخْرَجَ من المعادن، ومنه قيل للنّحاس : صُفْرٌ ، ولِيَبِيسِ البُهْمَى: صُفَارٌ ، وقد يقال الصَّفِيرُ للصّوت حكاية لما يسمع، ومن هذا : صَفِرَ الإناءُ : إذا خلا حتی يُسْمَعَ منه صَفِيرٌ لخلوّه، ثم صار متعارفا في كلّ حال من الآنية وغیرها . وسمّي خلوّ الجوف والعروق من الغذاء صَفَراً ، ولمّا کانت العروق الممتدّة من الکبد إلى المعدة إذا لم تجد غذاء امتصّت أجزاء المعدة اعتقدت جهلة العرب أنّ ذلک حيّة في البطن تعضّ بعض الشّراسف حتی نفی النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : «لا صَفَرَ» «4» أي : ليس في البطن ما يعتقدون أنه فيه من الحيّة، وعلی هذا قول الشاعرولا يعضّ علی شرسوفه الصَّفَرُ والشّهر يسمّى صَفَراً لخلوّ بيوتهم فيه من الزّاد، والصَّفَرِيُّ من النِّتَاجِ : ما يكون في ذلک الوقت . ( ص ف ر ) الصفرۃ ( زردی ) ایک قسم کا رنگ جو سیاہی اور سفیدی کے مابین ہوتا ہے مگر اس پر چونکہ سیاہی غالب ہوتی ہے اس لئے کبھی اس کے معنی سیاہی بھی آتے ہیں ۔ اسی بناپر حسن رضہ نے آیت ۔ بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة/ 69] اس کا رنگ گہرا زردہ ہو ۔ میں صفراء کے معنی سیاہی کے ہیں مگر بعض نے کہا ہے کہ اگر اس کے معنی سیاہ ہوتے تو اس کی صفت فاقع نہ آتی بلکہ صفراء کے بعد حالکتہ کہا جاتا ہے ۔ نیز فرمایا : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر/ 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد ہوگئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات/ 33] گو یا زرد رنگ کے اونٹ ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صفرا صفر کی جمع ہے اور بعض نے کہا جاتا ہے کہ صفر ایک دہات کا نام ہے جس کے ساتھ زردی میں تشبیہ دی گئی ہے اسی سے نحاس ( پتیل ) کو صفر اور خشک بھمی ( گھاس ) کو سفار کہا جاتا ہے اور کبھی صفیر کا لفظ ہر اس آواز کی حکایت پر بولا جاتا ہے جو ( دور سے ) سنائی دے اسی سے صفرالاناء کا محاورہ ہے جس کے اصل معنی تو اس خالی برتن کے ہیں جس سے صفیر کی سی آواز سنائی لگے ہیں خواہ وہ برتن ہو یا اور کوئی چیز اور پیٹ اور رگوں کے غزا سے خالی ہونے کی صفر کہا گیا ہے اور ان رگوں کو جو جگر اور معدہ کے مابین پھیلی ہوئی ہیں جب غزا میسر نہ ہو تو وہ معدہ کے اجزا کو چوسنے لگتی ہیں اس بنا پر جاہل عربوں نے یہ عقیدہ بنارکھا تھا کہ صفر پیٹ میں ایک سانپ کا نام ہے جو بھوک کے وقت پسلیوں کا کاٹتا ہے ۔ حتی کہ آنحضرت کو لاصفر کہہ کر اس عقیدہ کی نفی کرنا پڑی ( 5) یعنی پیٹ میں اس قسم کا سانپ نہیں ہوتا جس کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( ع بیط ) اور نہ اس کی پسلیوں کی صفر سانپ کاٹتا ہے ۔ اور ماہ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ( اس مہینہ میں ان کے گھر توشہ خالی ہوجاتے تھے اس لئے اسے صفر کہتے تھے اور جو بچہ ماہ صفر میں پیدا ہوا اسے صفری کہا جاتا ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ حطم الحَطْمُ : کسر الشیء مثل الهشم ونحوه، ثمّ استعمل لكلّ کسر متناه، قال اللہ تعالی: لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وحَطَمْتُهُ فانحطم حَطْماً ، وسائقٌ حُطَمٌ: يحطم الإبل لفرط سوقه، وسمیت الجحیم حُطَمَة، قال اللہ تعالیٰ في الحطمة : وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة/ 5] ، وقیل للأكول : حطمة، تشبيها بالجحیم، تصوّرا لقول الشاعر : كأنّما في جو فه تنّور ودرع حُطَمِيَّة : منسوبة إلى ناسجها أومستعملها، وحطیم وزمزم : مکانان، والحُطَام : ما يتكسّر من الیبس، قال عزّ وجل : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر/ 21] . ( ح ط م ) الحطم کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں جیسا ک الھشیم وغیرہ الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ پھر کسی چیز کو ریزہ زیزہ کردینے اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسا نہ ہوگہ سلیمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔ کہاجاتا ہے حطمتہ فانحطم میں نے اسے توڑا چناچہ وہ چیز ٹوٹ گئی ) سائق حطم بےرحم چر واہا ۔ جو اونٹوں کو سخت ہنگا کر ان پر ظلم کرے ۔ اور دوزخ کو حطمۃ کہا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة/ 5] حطیمہ میں ۔۔۔ اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بہت زیادہ کھانے والے کو بھی حطمۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے پیٹ کو تنور کے ساتھ ، تشبیہ دی ہے ۔ ع ؎ گو یا اس کے پیٹ میں تنور ہے ۔ درع حطمیۃ زرہ بننے والے یا ستعمال کرنے والے کی طرف منسوب ہے اور حطیم وزمزم ( حرم میں ) دو جگہوں کے نام ہیں ۔ الحطام جو خشک ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر/ 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو ( کہ زرد ہوگئ ہے ) پھر اسے چورا چورا کردیتا ہے ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا بذریعہ قرآن کریم یہ نہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس سے زمین میں چشمے اور نہریں بنائیں اور پھر اس پانی سے مختلف قسموں کے غلے پیدا کرتا ہے پھر وہ سبزی کے بعد خشک ہو کر زرد نظر آنے لگتی ہے پھر اس کے بعد اس کو چورا چورا کردیتا ہے اسی طرح دنیا بھی فنا ہوجائے گی۔ اس کا کوئی بھی نام و نشان باقی نہیں رہے گا اس فنا دنیا کی مثال میں عقل مندوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ } ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی ‘ پھر اس کو چلا دیا چشموں کی شکل میں زمین میں “ { ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ } ” پھر اس کے ذریعے سے وہ نکالتا ہے کھیتی جس کے مختلف رنگ ہیں “ { ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰٹہُ مُصْفَرًّا } ” پھر وہ پک کر تیار ہوجاتی ہے ‘ پھر تم اسے دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی ہے “ { ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًاط } ” پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے۔ “ کچھ عرصہ پہلے جس کھیت میں فصل لہلہا رہی تھی اب وہاں خاک اڑ رہی ہے اور خشک بھوسے کے کچھ تنکے ہیں جو ادھر ادھر بکھرے نظر آ رہے ہیں۔ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } ” یقینا اس میں یاد دہانی (اور سبق) ہے ہوشمند لوگوں کے لیے۔ “ یعنی اگر غور سے دیکھا جائے تو فصل کے اگنے ‘ نشوونما پا کر پوری طرح تیار ہونے ‘ پک کر سوکھ جانے اور پھر کٹ کر چورا چورا ہوجانے میں انسانی زندگی ہی کے مختلف مراحل کا نقشہ نظر آتا ہے۔ جس طرح فصل کے اپچنے پر کسان خوش ہوتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں بچے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ پھر وہ بچہ پرورش پا کر جوان ہوتا ہے ‘ اس کے بعد آہستہ آہستہ بالوں میں سفیدی آنے لگتی ہے۔ جوانی کی طاقت گھٹنا شروع ہوجاتی ہے ‘ قویٰ کمزور پڑنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن اسے قبر میں اتار دیا جاتا ہے ‘ جہاں وہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ چناچہ موسمی فصلوں اور انسانوں کا life cycle ایک سا ہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ فصل کے اگنے سے لے کر کٹنے تک چند ماہ کا عرصہ درکار ہے جبکہ انسانی زندگی میں یہ دورانیہ پچاس ساٹھ سال کا ہے۔ بہر حال ” زندگی “ دونوں جگہ مشترک ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو نباتاتی زندگی (Botany) اور حیوانی زندگی (Zoology) دونوں حیاتیات (Biology) ہی کی شاخیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 The word yanabi`in the Text is comprehensive and applies to all the three sources of water. 39 That is, "A man of understanding learns this lesson from it that the life of this world and its adornments are all transitory: the end of every spring is autumn; the fate of every youth is weakness and death; and every rise has a fall. Therefore, this world is not something of which one should be charmed and enamoured so as to forget God and the Hereafter and should conduct himself here in a manner as to nun his Hereafter, only for the sake of enjoying the short lived pleasures of this world. Then a man of understanding also learns this lesson from these phenomena that the spring and autumn of this world are only under Allah's control: Allah allows to grow and prosper whomever He wills and ruins and lays waste whomever He wills. Neither it is in anybody's power to stop the growth of someone whom Allah wills to grow, nor has anyone the power to save him from destruction whom Allah wills to destroy.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :38 اصل میں لفظ ینابیع استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ان تینوں چیزوں پر ہوتا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :39 یعنی اس سے ایک صاحب عقل آدمی یہ سبق لیتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کی زینتیں سب عارضی ہیں ۔ ہر بہار انجام خزاں ہے ۔ ہر شباب کا انجام ضعیفی اور موت ہے ۔ ہر عروج آ خر کار زوال دیکھنے والا ہے ۔ لہٰذا یہ دنیا وہ چیز نہیں ہے جس کے حسن پر فریفتہ ہو کر آدمی خدا اور آخرت کو بھول جائے اور یہاں کی چند روزہ بہار کے مزے لوٹنے کی خاطر وہ حرکتیں کریں جو اس کی عاقبت برباد کر دیں ۔ پھر ایک صاحب عقل آدمی ان مناظر سے یہ سبق بھی لیتا ہے کہ اس دنیا کی بہار اور خزاں اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے پروان چڑھاتا ہے اور جسے چاہتا ہے خستہ و خراب کر دیتا ہے ۔ نہ کسی کے بس میں یہ ہے کہ اللہ جسے پروان چڑھا رہا ہو اس کو پھلنے پھولنے سے روک دے ۔ اور نہ کوئی یہ طاقت رکھتا ہے کہ جسے اللہ غارت کرنا چاہے اسے وہ خاک میں ملنے سے بچا لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آسمان سے پانی پہاڑوں پر برستا ہے، پھر وہاں سے پگھل پگھل کر دریاؤں اور ندیوں کی شکل اختیار کرتا ہے، اور زمین کی تہہ میں سوتوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے شروع میں پانی پیدا کیا، اور اسے آسمان سے اتار کر براہ راست زمین کے سوتوں تک پہنچا دیا (روح المعانی)۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:21) الم تر۔ اس میں ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے۔ نفی کی نفی اثبات ہوتی ہے کیا تو نے نہیں دیکھا۔ یعنی تو نے ضرور دیکھا ہے فسل کہ : سلک ماضی واحد مذکر غائب۔ باب نصر۔ اس نے داخل کیا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ اس نے اس کو داخل کیا۔ یہاں ماضی بمعنی حال ہے یعنی وہ اس کو (یعنی اس پانی کو) داخل کرتا ہے۔ ینابیع۔ اسم جمع۔ ینبوع واحد۔ چشمے۔ زمین وہ سوت جن میں سے پانی پھوٹ کر نکلتا ہے۔ نبع ونبوع مصدر (باب نصر۔ فتح۔ ضرب) کنویں یا چشمے سے پانی پھوٹ کر نکلنا۔ سل کہ ینابیع : ای ادخلہ ینابیع۔ وہ اسے زمین کے سوتوں میں داخل کرتا ہے۔ یخرج۔ فعل مضارع واحد مذکر غائب اخراج (افعال) مصدر وہ نکالتا ہے وہ پیدا کرتا ہے ۔ وہ اگاتا ہے۔ زرعا : زرع کھیتی۔ زروع کھیتیاں۔ منصوب بوجہ مفعول۔ ثم یخرج بہ زرعا مختلفا الوانہ۔ پھر اس پانی کے ذریعہ سے مختلف رنگوں کی کھتیاں اگاتا ہے الو ان بمعنی اقسام بھی ہے۔ یھیج۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ ھیج مصدر (باب ضرب) وہ خشک ہوجاتی ہے وہ سوکھ جات ہے۔ ھایجۃ وہ زمین جس کی گھاس سوکھ گئی ہو۔ ھاج البقل کھیتی کا پک کر زرد پڑجانا۔ ھوج مادہ۔ تراہ۔ مضارع واحد مذکر حاضر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر جس کا مرجع زرعا ہے پھر تو اس کھیتی کو (زرد) دیکھتا ہے۔ مصفرا۔ ام مفعول واحد مذکر اصفرار افعلال مصدر سے۔ صفر مادہ۔ حطاما۔ ریزہ ریزہ ۔ چورا چورا۔ بھوسہ۔ الحطم کے اصل معنی کسی چیز کو ریزہ ریزہ کر دینت اور روندنے پر بھی حطم بولا جاتا ہے حطام جو خشک ہوکر ریزہ ریزہ ہوجائے۔ قرآن مجید میں ہے : لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ (27:18) ایسا نہ ہو کہ (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر تم کو کچل ڈالے۔ فی ذلک۔ یعنی مندرجہ بالا تفصیل میں۔ کہ اس کا اوپر سے پانی برسانا۔ پھر اس کے ذریعہ سے مختلف النوع کھیتیاں اگانا۔ پھر ان کو پکانا۔ کہ وہ زرد رنگ پکڑ جائیں پھر ان کو خشک کرکے ریزہ ریزہ کردینا۔ ذکری نصیحت ۔ پند۔ موعظت۔ یہاں بمعنی تذکیر (یاد دہانی) بھی ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ حیات دنیا کھیتی کی طرح ہے جس کا مال نوبہ نو تغیرات کے بعد فناء ہے (اس پر فریفتہ نہ ہونا چاہیے) اولی الالباب۔ صاحب عقل۔ دانشمند۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 کیونکہ یہی حال انسان کا ہے۔ پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہو کر بوڑھا ہوجاتا ہے اور آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے اور یہی حال دنیا کا ہے۔ اس کی سب زمینیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخر کار اس کی ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ اس کے ہر کمال کو انحطاط اور ہر عروج کو زوال ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 21 تا 23 :۔ سلک ( وہ چلا) ینابیع ( چشمے) زرع ( کھیتی) الوان (لون) (رنگ) یھیج (وہ خشک کرتا ہے) مصفر ( زرد) حطام (چورہ چورہ) شرح (اس نے کھول دیا) صدر ( سینہ) قسیۃ ( سخت) احسن الحدیث ( بہترین کلام) مثانی ( بار بار) تقشعر (وہ رونگٹے کھڑے کرتا ہے) جلود ( جلد) ( کھالیں) تلین ( نرم پڑجانا) ھاد (ہدایت دینے والا ، رہنما) تشریح : آیت نمبر 21 تا 23 :۔ ان آیات میں خاص طور پر تین باتوں کو بیان کیا گیا ہے ٭دنیا کی بےثباتی اور اس میں دن رات کے انقلابات ٭ شرح صدر کی حقیقت٭کلام اللہ کی عظمت اور اس کی صفات ٭اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بےثباتی اور آئے دن کے انقلابات کو اس مثال سے ذہن نشین فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تم دن رات دیکھتے ہو کہ بلندیوں سے پانی برستا ہے پھر اس میں سے کچھ تو زمین کے اندر چلا جاتا ہے اور کچھ ندل نالوں اور چشموں کی شکل میں بہہ کر خشک زمین کو سیراب کرتا اور جان داروں کی پیاس کو بچھاتا ہے ۔ جب یہ پانی کھیتوں اور باغات میں پہنچتا ہے تو اس سے طرح طرح کا غلہ اور پھل پھول پیدا ہوتا ہے۔ جب کھیتاں پک جاتی ہیں اور ان کے رنگ زرد ہوجاتے ہیں تو پھر ان کھیتوں کو کاٹ لیا جاتا ہے۔ اور پھر وہی سر سبز و شاداب کھیتاں زرد اور خشک ہو کر چورہ چورہ ہوجاتی ہیں ۔ دانہ گندم اور اس کے غلے کو نکال کر انسانوں کی غذا بنا دی جاتی ہے اور بھوسہ جانوروں کی غذا بن جاتا ہے۔ یہی حال انسان کا بھی ہے کہ وہ نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں رہنے کے بعد بچپن ، جوانی اور بڑھاپے تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں کسی چیز کو قرار نہیں ہے۔ یہ انقلابات اس بات کی علامت ہیں کہ اس پورے نظام کائنات کو کوئی ہستی کنٹرول کر کے چلا رہی ہے اور وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے ۔ اب یہ انسان کی بےعقلی ہے کہ وہ وقتی سج دھج اور رونق کو حقیقی سمجھ کر اپنے خالق ومالک اللہ سے غافل ہوجاتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ اس کے ہاتھ میں جو بھی چیزیں ہیں ایک وقت آنے پر ختم ہوجائیں گی ۔ حالانکہ اگر وہ پانی کے برسنے ، کھیتوں کے با رونق ہو کر کٹنے تک کی تمام تفصیلات کو ذہن میں رکھ کر سوچے تو اس کی عقل خود فیصلہ کر دے گی کہ وقتی اور عارضی چیزوں پر مر مٹنا اور ان تمام چیزوں کے مالک اللہ رب العالمین کو بھول جانا سب سے بڑی غلطی ہے جو اس کو آخرت میں رسوا اور ذلیل کر کے رکھ دی گی۔ ٭فرمایا کہ جن لوگوں کو صحیح رہنمائی اور شرح قلب نصیب ہوجاتا ہے اور ان کے دل نور ایمانی سے جگمگا اٹھے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔ شرح قلب کیا ہے اس کی صحیح وضاحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) کی یہ روایت ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت ” افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام “ تلاوت فرمائی تو ہم نے آپ سے شرح صدر کا مطلب پوچھا آپ نے فرمایا کہ جب ایمان کا نور قلب میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کا قلب بڑا وسیع ہوجاتا ہے ( جس سے احکامات الٰہی کو قبول کرنے کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے ) پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شرح صدر کی علامت کیا ہے تو آپ نے فرمایا ہمیشہ رہنے والے گھر ( جنت ، آخرت) کی طرف پوری طرح رغبت پیدا ہوجانا اور دھوکے کے گھر ( دنیا) سے دور رہنا اور موت کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو یہ شرح صدر حاصل ہوگیا وہ اور جن لوگوں نے اپنے دلوں کو پتھر دل بنا لیا ہے وہ ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں اللہ سے ڈرنے والوں اور نادانوں کا انجام یکساں کیسے ہو سکتا ہے ؟ ٭در حقیقت وہی لوگ خوش نصیب ہیں جو اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون اور احکامات کی پابندی کرتے ہیں یعنی اللہ کے اس کلام ( قرآن مجید) پر عمل کرتے ہیں جو کلاموں میں سب سے بہتر کلام ہے جسے اللہ نے احسن الحدیث ( یعنی جس سے بہتر کوئی کلام نہیں ہے) فرمایا ۔ جس کے مضامین میں کوئی اختلاف نہیں ہے ایک مضمون دوسرے مضمون کی تائید و تصدیق کرتا ہے ۔ بار بار بیان کئے جانے کے باوجود مضامین قرآن میں دلچسپی اور دلکشی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہ کلام ہے جس کی تلاوت سے اور اس کلام کی عظمت کی وجہ سے مومنوں کے دل کانپ اٹھتے ہیں ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان پر رعب اور خوف طاری ہوجاتا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کا قلب اور ان کا ظاہر و باطن دونوں اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ہدایت کے نور کو بڑھاتا چلا جاتا ہے لیکن اس کلام کی عظمت اور شان کے باوجود اگر کوئی پھر بھی آنکھیں بند کر کے چلتا ہے تو اس کو راہ ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ اور سچ ہے کہ جس کو اللہ ہی راہ سے بھٹکا دے اسے کوئی راستہ نہیں دکھا سکتا ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس اچھے قول کی متقی پیروی کرتے ہیں اس کی مثال بارش کی مانند ہے : اچھے قول سے مراد ” اللہ “ کا دین ہے جسے ” اللہ “ نے وحی کے ذریعے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ اس کی مثال یہاں اور سورة البقرہ کی آیت ١٩ میں بارش کے ساتھ دی گئی ہے۔” اس کی مثال آسمان سے بارش کی طرح جس میں اندھیرے گرج ‘ اور بجلی ہے لوگ موت سے اور کڑک سے ڈر کر اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ “ (البقرۃ : ١٩) اس مقام پر ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے جسے زمین کے سوتوں میں پہنچاتا اور چشمے جاری کرتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کی فصلیں اگاتا ہے۔ ان میں ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں جو صرف بارش سے اگتی ہیں اور کچھ مدّت کے لیے لہلاتی ہیں او پھر گل سڑ جاتی ہیں۔ بارش کے نزول اور اس کے ذریعے اگنے والی مختلف قسم کی نباتات میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں۔” لُبّ “ کا معنٰی عقل، فہم، فراست، دانائی اور سمجھ وغیرہ ہے۔ ” حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر برسنے والی موسلا دھار بارش کی طرح ہے جو زمین کا قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزہ خوب اگایا۔ جو زمین سخت تھی پانی اس میں جذب ہونے کی بجائے کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی بھی کی۔ زمین کا تیسرا ٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی سکھلایا۔ دوسری زمین کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے دین کے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم ] مسائل ١۔ ” اللہ “ ہی آسمان سے بارش نازل کرنے والا ہے۔ ٢۔” اللہ “ ہی بارش کے ذریعے مختلف قسم کی نباتات اگاتا ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ ہی بارش کے پانی کو زمین میں داخل کرتا اور چشمے جاری کرتا ہے۔ ٤۔ بارش اور اس سے اگنے والی نباتات میں عقل والوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی بارش نازل کرنیوالا ہے : ١۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ “ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ ” اللہ “ وہ ذات ہے جو ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے جو بھاری بادل اٹھاتی ہیں۔ (الاعراف : ٥٧) ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل کرنے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٤۔ قیامت برپا ہونے، بارش کے نازل ہونے، جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی انہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٥۔ تم ” اللہ “ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود : ٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 218 ایک نظر میں یہ سبق عالم نباتات کی ایک جھلک دکھاتا ہے کہ کس طرح اللہ پانی آسمانوں سے اتارتا ہے اور پھر زمین سرسبز ہو کر فصلیں اگتی ہیں اور یہ فصلیں اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ مثال قرآن میں زمین کی بےثباتی اور حیات دنیا کے اختصار کے لیے دی جاتی ہے۔ اور اہل فکر ونظر کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر غور و فکر کریں۔ پھر آسمانوں سے پانی کے نزول کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ کتاب بھی ایک قسم کا باران رحمت ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے خشک دل سرسبز ہوجاتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ اس موقعہ پر ایک نہایت ہی اشاراتی تصویر بھی پیش کی جاتی ہے کہ کھلے دل اس کتاب سے کس طرح استفادہ کرتے ہیں۔ وہ اس سے ڈرتے ہیں ، ان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ، رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور نرم ہوکر ان کے اندر قبولیت پیدا ہوتی ہے اور پھر ہدایت قبول کرکے وہ خوب مطمئن ہوجاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کی تصویر جو ذکر الہٰی کی طرف لبیک کہتے ہیں اور ان کی تصویر جنکے دل پتھر ہوگئے ہیں۔ آخر میں توحید کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور ایک مثال دی جاتی ہے کہ الٰہ واحد کی بندگی کرنے والوں اور متعدد الہوں کی بندگی کرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے۔ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا ایک حال نہیں ہوسکتا ، مثلاً ایک غلام جسکے مختلف اور باہم لڑنے جھگڑنے والے مالک ہوں اور دوسرا غلام جو صرف ایک ہی سنجیدہ مالک کا غلام ہو۔ درس نمبر 218 تشریح آیات آیت نمبر 21 یہ منظر جس کی طرف یہاں قرآن کریم ہماری توجہ مبذول کراتا ہے ، ایک ایسا منظر ہے جو اس کرۂ ارض پر ہر جگہ دہرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس منظر میں جو عبائبات ہیں ان کی تعجب خیزی بوجہ بار وہرائے جانے کے ، ختم ہوجاتی ہے اور انسان ان سے مانوس ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم انہی مناظر کو دوبارہ گہرے غوروفکر کے لیے پیش کرتا ہے کہ انسان اس منظر کی ترقی پر مرحلہ وار غور کرے۔ دیکھو ، آسمانوں سے پانی نازل ہورہا ہے۔ یہ پانی کیا ہے اور کس طرح یہ آرہا ہے۔ یہ چونکہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر سے یوں ہی گزر جاتے ہیں۔ یہ پانی اور اس کی تخلیق بذات خود ایک معجزہ ہے۔ اگرچہ ہمیں اس قدر معلوم ہوگیا ہے کہ یہ ایک متعین انداز میں ہائیڈروجن کے دو ذروں کا آکسیجن کے ایک ذرے کے ملاپ کا نام ہے۔ لیکن ہمارا یہی علم ہے کہ اللہ نے کائنات کے اندر ہائیڈروجن اور آکسیجن کو پیدا کیا اور پھر ایسے حالات پیدا کیے۔ کہ یہ ذرے آپس میں مل گئے اور اس اتحاد کے نتیجے میں پانی وجود میں آگیا۔ اور اس کے بعد اس زمین پر حیات کا پیدا کیا جانا ممکن بنا دیا گیا اور اللہ کا دست قدرت ان تمام امور کے پیچھے ہے۔ اور یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی صنعت کاریاں ہیں۔ پھر اسمانوں سے اس پانی کا نازل کرنا ، اس مخصوص انداز میں ایک دوسرا معجزہ ہے کہ اس زمین اور اس کائنات کو اس انداز میں بنایا کہ پانیوں کا برسنا ممکن ہوگیا۔ پھر اس کے بعد جو مرحلہ آتا ہے وہ یہ کہ فسلکه ینابیع فی الارض (39: 21) ” پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا “۔ اس میں وہ دریا بھی شامل ہیں جو زمین پر بہتے ہیں۔ اس میں وہ ذخیرے بھی شامل ہیں جو سطح زمین کے نیچے ادھر ادھر چلتے ہیں۔ اور سورتوں اور چشموں کی شکل میں نکلتے ہیں۔ یا اس سطح زمین کے اندر کنویں نکال کر جاری کیے جاتے ہیں اس طرح کہ اللہ اس پانی کو سطح کے قریب رکھتا ہے اور یہ پانی دور تک نہیں جاتے کہ کبھی واپس ہی نہ ہوسکیں۔ ثم یخرج به زرعا مختلفا الوانه (39: 21) ” پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جس کی قسمیں مختلف ہیں “۔ نباتاتی زندگی جو بارش کے نتیجے میں نمودار ہوتی ہیں اور بارش سے پیدا ہوتی ہے ایک ایسا معجزہ ہے جس کا مقابلہ انسانی جدوجہد نہیں کرسکتی ۔ ایک چھوٹی سی کونپل جو زمین سے سر نکالتی ہے ، زمین کے بھاری بوجھ کو پھاڑ کر اور سر نکال کو کھلی فضا مٰن سانس لیتی ہے اور روشنی اور ہوا سے لطف اندوز ہوتی ہے اور آزاد فضا میں آزادی سے لہلہاتی ہے اور پھر یہ فضا میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی ہے۔ صرف اس کو نپل کا ملاحظہ ہی انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہٰی سے بھر دیتا ہے۔ اور اللہ خالق کائنات کے احساس کی ایک لہر انسان کے ذہین میں اٹھا دیتا ہے وہ اللہ جس نے ہر چیز کو اس کا وجود بخشا اور پھر اسے ہدایت دی پھر ایک ہی قطعہ زمین میں مختلف قسم کے پھل ، مختلف پھل نہیں بلکہ ایک چھوٹا سا پودا بلکہ ایک چھوٹا سا پھول بھی قدرت باری تعالیٰ کی ایک عظیم نمائش گاہ ہے۔ انسان صرف ایک پھول کا تجزیہ کرکے ہی اپنے عجز کا اظہار کردیتا ہے۔ اور پھر یہ سرسبز فصل اپنی سر سبزی ختم کرکے پک جاتی ہے اور اپنے دن پورے کرکے۔ ثم یھیج فترہ مصفرا (39: 21) ” پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑگئیں “۔ اور اس کائنات کے ناموس فطرت میں اس کے لیے جو انجام مقرر ہے اس تک وہ پہنچ جاتی ہے اور مراحل حیات طے کرکے پک جاتی ہے۔ ثم یجعله حطاما (39: 21) ” پھر آخر کار اللہ ان کو ان کو بھس بنا دیتا ہے “۔ اس کا وقت مقرر آپہنچتا ہے۔ وہ اپنا کردار ادا کردیتی ہے۔ اور اس کا دور ختم ہوتا ہے جو زندگی بخشنے والے اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ ان فی ذٰلک لذکرٰی لاولی الالباب (39: 21) ” درحقیقت اس میں سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے “۔ وہ عقل رکھنے والے جو غور کرتے ہیں ، سبق لیتے ہیں اور اللہ ان کو جو صلاحیتیں دی ہیں اور جو عقل وخرد دی ہے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” الم تر ان اللہ الخ “ یہ تیسری عقلی دلیل ہے یہ پہلی دونوں دلیلوں سے بطور ترقی ہے ان دونوں میں زمین و آسمان اور خود حضرت انسان کی پیدائش کا ذکر تھا اور اس میں پیدائش کے بعد انسان کی تربیت اور ضروریات زندگی مہیا کرنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مینہ برسا کر پانی کو ندی نالوں اور دریاؤں کی صورت میں زمین پر بہا دیا جس سے زمینیں سیراب ہو کر مختلف الوان و اقسام کے غلے پیدا کرتی ہے۔ سرسبز و شاداب کھیت پکنے پر آتے ہیں تو زرد پڑجاتے ہیں اور جب بالکل تیار ہوجاتے ہیں تو خشک ہو کر ٹوٹنے لگتے ہیں۔ اصحاب عقل و بصیرت کے لیے اس میں بہت بڑی عبرت ہے وہ اس سے ایک طرف اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت پر استدلال کرتے ہیں اور دوسری طرف اس حیات دنیا کی بےثباتی کا سبق سیکھتے ہیں۔ الذین یتذکرون بھذا فیعتبرون الی ان الدنیا ھکذا تکون خضرۃ نضرۃ حسناء ثم تعود عجوزا شوھاء (ابن کثیر جلد 4 ص 50) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) کیا اے مخاطب تونے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی جانب سے پانی نازل فرمایا پھر اس پانی کو زمین کے ان مقامات میں داخل کردیا جو پانی بہنے اور نکلنے کے مقامات ہیں یعنی ان سوتوں میں پانی کو پہنچا دیتا ہے جن سوتوں سے وہ پانی کنویں یاچشموں سے بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے پھر اس پانی سے مختلف اور گوناگوں رنگوں کی کھیتیاں پیدا کرتا اور نکالتا ہے پھر وہ کھیتی خشک ہوجاتی ہے پس اے مخاطب تو اس کو زرد رنگ دیکھتا ہے پھر وہ اس کھیتی کو چورا کر ڈالتا ہے بیشک کھیتی کی اس مذکورہ حالت میں اہل عقل وخرد کے نصیحت و عبرت ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ دنیا کی بےثباتی اور اس کی فنا کی دلیل ہے یا یہ انسانی زندگی کی مثال ہے۔ بہرحال ایک چیز کو بنانا اور ایک وقت تک اس کو قائم رکھنا پھر اس کو فنا کردینا یہ ہر ایسی چیز کی مثال ہے انسانی زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ بڑھے پلے جوانی آئی بڑھاپے کی سفیدی آئی اور موت نے ٹھکانے لگایا۔ مختلفا الوانہ کی تفسیر بعض حضرات نے کھیتی کے مختلف اقسام کے ساتھ کی ہے اقسام سے مراد جیسے چنے جو گیہوں وغیرہ سورة کہف میں گزر چکا ہے۔ فاصبح ھشیما تذروہ الریاح وکان اللہ علیٰ کل شیء مقتدرا۔