Commentary The word: يَنَابِيعَ (yanabi in verse 21: فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ (made it penetrate into the earth [ and gush forth ] in the form of springs) is the plural form of: یَنبُوع (yanbu) which means springs that gush out from the soil. The sense is that the act of sending down water from the sky is by itself a great blessing, but also crucial was the arrangement to conserve it underground. But for this arrangement to save this blessing of water, its users would have derived benefit from it only at the time of rains, or for a few days following it. Although, on water depends their life, and it is the kind of need one cannot stay free from, even for a day. Therefore, Allah Ta’ ala did not consider it sufficient to just send down this blessing, instead, made elaborate and very unique arrangements for its conservation. Some of it gets deposited in ditches, ponds, tanks and reservoirs. Then a huge supply is turned into ice and made to sit on mountain peaks and its ridges, an arrangement that takes care of the danger of water going bad. Then ice melts and water travels through veins in the mountains until it reaches the land and gushes out in the form of streams, all over, on its own, without any human input, and finally finds its way through the land in the form of rivulets and rivers. Rest of the water keeps flowing underground which can be retrieved by digging a well almost anywhere. Details of this water supply system as they appear in the noble Qur&an have been given in the commentary of Surah Al-Mu&minan under the verse: (then We lodged it in the earth, and of course, We are able to take it away - Al-Mu&minun, 23:18). (Please see Ma ariful-Qur’ an, Volume VI, under 23:18, pages 311 to 313). Later in verse 21, it was said: مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ (the crops of different colours). At the time the crops grow and ripen, colors keep changing from one to the other. Since these colors change, therefore, the word: مُّخْتَلِفًا (mukhtalifan), in terms of its grammatical analysis, has been used in the form of: حَال (ha state, circumstantial condition) which denotes change. In the last sentence of verse 21, it was said: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (Surely, in that, there is a lesson for the people of understanding), that is, in this process - when water is sent down, is conserved, is made available to human beings to grow all sorts of crops and trees the colors of which change following which they turn yellow and dry making grains separate from chaff - there is a great lesson for people of understanding, because they provide the proof of the infinite power and wisdom of Allah Ta’ ala. These are visible signs that could lead human beings to discover the reality behind their own creation, and that in turn, could become the means through which one succeeds in recognizing his or her own creator and master.
خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تو نے اس (بات) پر نظر نہیں کی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو زمین کے سوتوں میں (یعنی ان قطعات میں جہاں سے پانی ابل کر کنوؤں اور چشموں کے ذریعہ نکلتا ہے) داخل کردیتا ہے۔ پھر (جب وہ ابلتا ہے تو) اس کے ذریعہ سے کھیتیاں پیدا کرتا ہے جس کی مختلف قسمیں ہیں، پھر وہ کھیتی بالکل خشک ہوجاتی ہے سو اس کو تو زرد دیکھتا ہے پھر (اللہ تعالیٰ ) اس کو چورا چورا کردیتا ہے اس (نمونہ) میں اہل عقل کے لئے بڑی عبرت ہے (کہ یہی حالت بعینہ انسان کی دنیوی حیات کی ہے، آخر فنا آخر فنا تو اس میں منہمک ہو کر ابدی راحت سے محروم رہنا اور ابدی مصیبت کو سر پر لینا نہایت حماقت ہے، گو ہمارا بیان نہایت بلیغ ہے مگر پھر بھی سب سننے والے باہم متفاوت ہیں) سو جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام (کے قبول کرنے) کے لئے کھول دیا (یعنی اسلام کی حقیقت کا اس کو پورا یقین آ گیا) اور وہ اپنے پروردگار کے (عطا کئے ہوئے) نور (یعنی ہدایت کے مقتضا) پر (چل رہا) ہے (یعنی یقین لا کر اس کے موافق عمل کرنے لگا کیا وہ شخص اور اہل قساوت برابر ہیں جن کا ذکر آگے آتا ہے) سو جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے (اس میں احکام و مواعید سب آگئے) متاثر نہیں ہوتے (یعنی ایمان نہیں لاتے) ان کے لئے (قیامت میں) بڑی خرابی ہے (اور دنیا میں) یہ لوگ کھلی گمراہی میں (گرفتار) ہیں (آگے اس نور اور ذکر کا بیان ہے یعنی) اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام (یعنی قرآن) نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ (با عتبار اعجاز نظم و صحت معانی کے) باہم ملتی جلتی ہے (اور جس میں سمجھانے کے لئے بعض بعض بہت ضروری بات) بار بار دہرائی گئی (و ہذا کقولہ تعالیٰ (آیت) ولقد صرفنا الخ جس میں باوجود فائدہ تاکید و رسوخ مدعا کے قلب مخاطب میں ہر جگہ خاص خاص لطائف کا بھی لحاظ ہوتا ہے جس سے خالی تکرار نہیں رہتا اور مثانی ہونا یعنی بار بار دھرایا جانا دلیل ہے، ہدایت پر مشتمل ہونے کی) جس سے ان لوگوں کے جو کہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں (یہ کنایہ ہے خوف سے گو قلب ہی میں رہے بدن پر اثر نہ آوے اور گو وہ خوف عقلی و ایمانی ہو، طبعی وحالی نہ ہو) پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر (یعنی کتاب اللہ پر عمل کرنے) کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں (یعنی ڈر کر اعمال جوارح و اعمال قلب کو انقیاد اور توجہ سے بجا لاتے ہیں اور) یہ (قرآن) اللہ کی ہدایت ہے جس کو وہ چاہتا ہے اس کے لئے ذریعہ ہدایت کرتا ہے (جیسا خائفین کا حال ابھی سنایا گیا) اور خدا جس کو گمراہ کرتا ہے اس کا کوئی ہادی نہیں (جیسا قاسین یعنی سخت دل کافروں کا حال ابھی سنایا گیا) معارف ومسائل (آیت) فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ۔ ینابیع ینبوع کی جمع ہے جس کے معنی زمین سے پھوٹنے والے چشمے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی نازل کردینا ہی ایک عظیم الشان نعمت ہے مگر اس نعمت کو آ کر زمین کے اندر محفوظ کردینے کا انتظام نہ کیا جاتا تو انسان اس سے صرف بارش کے وقت یا اس کے متصل چند دن تک فائدہ اٹھا سکتا۔ حالانکہ پانی اس کی زندگی کا مدار ایسی ضرورت ہے جس سے وہ ایک دن بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حق تعالیٰ نے صرف اس نعمت کے نازل کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس کے محفوظ کرنے کے عجیب عجیب سامان فرما دیئے۔ کچھ تو زمین کے گڑھوں، حوضوں اور تالابوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور بہت بڑا ذخیرہ برف بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ جس سے اس کے سڑنے اور خراب ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ پھر وہ برف آہستہ آہستہ پگھل کر پہاڑی رگوں کے ساتھ زمین میں اتر جاتا ہے اور جا بجا ابلنے والے چشموں کی صورت میں خود بخود بغیر کسی انسانی عمل کے پھوٹ نکلتا ہے اور ندیوں کی شکل میں زمین میں بہنے لگتا ہے اور باقی پانی پوری زمین کی گہرائی میں چلتا رہتا ہے جس کو کنواں کھود کر ہر جگہ نکالا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اس نظام آبپاشی کی پوری تفصیل کو سورة مومنون میں ( آیت) فاسکنہ فی الارض وانا علیٰ ذھاب بہ لقدرون کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ (آیت) مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ۔ کھیتی کے اگنے کے وقت اور پکنے کے وقت اس پر مختلف رنگ آتے جاتے رہتے ہیں اور چونکہ ان رنگوں میں انقلاب اور تجدد ہے۔ اس لئے مختلفاً کو ترکیب نحوی میں حال بنا کر منصوب کیا گیا ہے جو تجدد پر دلالت کرتا ہے۔ (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ ، یعنی پانی اتارنے اور اس کو محفوظ کر کے انسان کے کام میں لگانے پھر اس سے قسم قسم کی نباتات اور درخت اگانے اور ان درختوں پر مختلف رنگ آنے کے بعد آخر میں زرد خشک ہو کر غلہ الگ اور بھوسہ الگ ہوجانے میں بڑی نصیحت ہے عقل والوں کے لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت و حکمت کے دلائل ہیں۔ جن کو دیکھ کر انسان اپنی تخلیق کے معاملہ کی حقیقت کو بھی پہچان سکتا ہے جو ذریعہ ہو سکتی ہے اپنے خالق ومالک کے پہچاننے کا۔