Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 42

سورة الزمر

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾

Allah takes the souls at the time of their death, and those that do not die [He takes] during their sleep. Then He keeps those for which He has decreed death and releases the others for a specified term. Indeed in that are signs for a people who give thought.

اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے ، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری ( روحوں ) کو ایک مقرر وقت تک کے لئیے چھوڑ دیتا ہے ۔ غور کرنے والوں کے لئیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اللَّهُ يَتَوَفَّى الاَْنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الاُْخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ... It is Allah Who takes away the souls at the time of their death, and those that die not during their sleep. He keeps those (souls) for which He has ordained death and sends the rest for a term appointed. This indicates that they (the souls) meet in the higher realm, as was stated in the Hadith attributed to the Prophet which was narrated by Ibn Mandah and others. In the Two Sahihs of Al-Bukhari and Muslim, it is reported that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلى فِرَاشِهِ فَلْيَنْفُضْهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ فَإِنَّهُ لاَ يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ ثُمَّ لِيَقُلْ بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِين When anyone of you goes to bed, let him brush down the bed with his garment, for he does not know what has come on his bed since he left it. Then let him say, "In Your Name, O Lord, I lay down my side and in Your Name I raise it up; if You take my soul, have mercy on it, and if You send it back, protect it with that which You protect Your righteous servants." فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (He keeps those (souls) for which He has ordained death), means, those which have died, and He returns the others back for an appointed term. As-Suddi said, "For the rest of their lives." Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "He keeps the souls of the dead and sends back the souls of the living, and He does not make any mistakes." ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ Verily, in this are signs for a people who think deeply.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یہ وفات کبریٰ ہے کہ روح قبض کرلی جاتی ہے، واپس نہیں آتی۔ 42۔ 2 یعنی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا، تو سونے کے وقت ان کی روح بھی قبض کر کے انہیں وفات صغریٰ سے دو چار کردیا جاتا ہے۔ 42۔ 3 یہ وہی وفات کبریٰ ہے، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں روح روک لی جاتی ہے۔ 42۔ 4 یعنی جب تک ان کا وقت نہیں آتا، اس وقت تک کے لئے روحیں واپس ہوتی رہتی ہیں، یہ وفات صغریٰ ہے، یہی مضمون سورة الانعام میں بیان کیا گیا ہے تاہم وہاں وفات صغری کا ذکر پہلے اور وفات کبری کا بعد میں ہے جب کہ یہاں اس کے برعکس ہے۔ 42۔ 5 یعنی روح کا قبض اور اس کا ارسال، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور قیامت والے دن وہ مردوں کو بھی یقینا زندہ فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] اس آیت سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے بالفاظ دیگر اس میں مندرجہ ذیل نشانیاں موجود ہیں۔ ١۔ روح حیوانی اور روح نفسانی :۔ روح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک روح حیوانی جس کا تعلق دوران خون سے ہوتا ہے۔ اور یہ نیند کی حالت میں بھی جسم کے اندر موجود رہتی ہے۔ دوسری روح نفسانی یا نفس ناطقہ ہے جو نیند یا خواب کی حالت میں بدن کو چھوڑ کر سیر کرتی پھرتی ہے اور ہر طرح کے واقعات سے خواب میں ہی دوچار ہوتی رہتی ہے۔ اسی روح کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرماتے ہیں۔ خ دوام روح نفسانی کو ہے :۔ اور اسی روح کو دوام ہے یہ روح جب بدن کو چھوڑ دیتی ہے تو انسان کے حواس خمسہ میں نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ نیند کے دوران انسان کی قوت باصرہ، لامسہ اور ذائقہ کی کارکردگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوت سامعہ بھی ماند پڑجاتی ہے۔ ہاں اگر غل غپاڑا ہو یا کوئی دوسرا آدمی سوئے ہوئے کو بلند آواز سے پکار کر جگا دے تو روح نفسانی دوبارہ اپنے جسم میں لوٹ آتی ہے۔ اس روح کو اپنے جسم سے عشق کی حد تک محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی جسم اس روح کی آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ ٢۔ عذاب قبر کی ماہیت :۔ ان دونوں قسم کی روحوں کا آپس میں نہایت گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ہی اکائی کے دو جزو ہوتے ہیں۔ روح نفسانی اگر خواب میں کسی بات پر یا کسی چیز سے لطف اندوز ہوتی ہے تو انسان جاگنے پر ہشاش بشاش نظر آتا ہے۔ اور اگر اس روح نفسانی کو خواب میں کوئی ناگوار حادثہ پیش آجائے تو بعض دفعہ انسان سوتے میں ہی چیخنے چلانے لگتا ہے اور جاگتا ہے تو سخت اندوہناک ہوتا ہے اور کہیں مار پٹے تو حیرت کی بات ہے کہ اس مار پٹائی کے اثرات اور نشانات بعض دفعہ انسان کے جسم پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ جنہیں جاگنے کے بعد انسان خود بھی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے عذاب قبرر یا عالم برزخ کے عذاب کی ماہیت کو کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ ٣۔ روح حیوانی موت کے ساتھ ہی فنا ہوجاتی ہے :۔ روح حیوانی کا تعلق محض بدن سے ہے۔ بدن نہ ہو تو اس روح کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ بلکہ یہ روح تو بدن کے بوسیدہ ہونے یا فنا ہونے کا بھی انتظار نہیں کرتی بلکہ موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ختم ہونے سے بدن بدن نہیں کہلاتا ہے بلکہ جسد، میت، لاش اور نعش کہلاتا ہے۔ ٤۔ ان دونوں قسم کی روحوں میں سے کسی بھی ایک قسم کی روح کے خاتمہ سے دوسری قسم کی روح کا از خود جسم سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص سوتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہے کہ کسی دوسرے شخص نے اسے سوتے میں قتل کردیا۔ تو اب روح نفسانی خواہ کہیں بھی سیر کرتی ہوگی، دوبارہ اس جسم میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اسے وہیں قبض کرلے گا۔ اس کے برعکس صورت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کی روح نفسانی کو خواب میں قبض کرلیں تو بستر پر سونے والا آدمی بغیر کسی حادثہ یا بیماری کے مرجائے گا۔ ٥۔ نیند آدھی موت ہوتی ہے :۔ اللہ تعالیٰ موت کی حالت میں بھی روح نفسانی کو قبض کرتا ہے۔ اور نیند کی حالت میں بھی۔ اور یہی وہ روح ہے جسے انا یا (eGO) کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے نیند بھی بہت حد تک موت کے مشابہ ہوتی ہے۔ اسی لئے سوتے وقت ہمیں جو دعا سکھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے۔ (اللّٰھُمَّ باسْمِکَ أمُوْتُ وَأحْیٰی) #&& یعنی اے اللہ ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوجاؤں گا && اور بیدار ہوتے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ (ألْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانَا بَعْدَمَا أمَاتَنَا وَإلَیْہِ النُّشُوْرُ ) && سب طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھا دیا اور اسی کے حضور حاضر ہونا ہے && خ ٦۔ نیند سے اٹھنے اور دوبارہ اٹھنے میں مماثلت :۔ وہ اللہ جو ہمیں ہر روز سلا کر موت کا نمونہ دکھاتا اور پھر اس کے بعد زندہ کرتا رہتا ہے وہ اس بات پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے کہ حقیقی موت کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آدمی کی جان موت کے وقت بھی قبض کرتا ہے اور نیند کے وقت بھی۔ گویا نیند بھی ایک طرح کی موت ہے، مگر اس میں روح قبض ہونے کے باوجود جسم کے ساتھ اس کا ایسا تعلق باقی رہتا ہے جس سے نبض چلتی، کھانا ہضم ہوتا اور سانس جاری رہتا ہے۔ اس تعلق کی پوری حقیقت ہم نہیں جانتے، کیونکہ روح کے معاملات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، فرمایا : (وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ) [ بني إسرائیل : ٨٥ ] ” اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔ “ مگر اس کی ایک ادنیٰ سی مثال، جو پوری مثال نہیں ہے، بجلی کا کرنٹ ہے کہ اس کا مرکز کسی جگہ ہوتا ہے مگر ہزاروں میل دور اس کا تعلق کسی اور چیز سے بھی ہوتا ہے، جیسے ریڈیو، ٹیلی وژن، ریموٹ وغیرہ۔ اس سے عذاب قبر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ موت کے بعد روح قبض ہونے کے باوجود اس کا جسم کے ساتھ اللہ کے حکم سے کوئی ایسا تعلق رہتا ہے کہ اس پر قبر میں عذاب و ثواب کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے بعض لوگوں نے عذاب قبر کا انکار ہی کردیا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے صاف دلائل موجود ہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات ہر حال میں مانے، خواہ اس کی کیفیت اسے بتائی جائے یا نہ بتائی جائے۔ نیند کی حالت میں جان قبض ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر موت کا لفظ استعمال فرمایا، اگرچہ یہ بڑی اور آخری موت سے پہلے موت کی ایک قسم ہے، جو زندگی میں آدمی پر بار بار آتی اور جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأنعام : ٦٠ ] ” اور وہی ہے جو تمہیں رات کو قبض کرلیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا۔ “ حذیفہ (رض) فرماتے ہیں : ( کَان النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِہِ قَال باسْمِکَ أَمُوْتُ وَ أَحْیَا وَ إِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَیْہِ النُّشُوْرُ ) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ٦٣١٢ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر جاتے تو کہتے : ” تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔ “ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے : ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی، اس کے بعد کہ اس نے ہمیں موت دی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ “ بعض اہل علم نے یہاں روح کی دو قسمیں بنائی ہیں، ایک روح حیوانی اور ایک روح نفسانی اور بعض نے نفس کو الگ اور روح کو الگ قرار دیا ہے، مگر یہ بات قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ جس طرح قرآن مجید میں نیند کے وقت نفسوں کو قبض کرنے کا ذکر ہے اسی طرح بخاری، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں نیند کے وقت ارواح کو قبض کرنے کا ذکر ہے۔ چناچہ ابوقتادہ (رض) نے ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام صحابہ (رض) کے رات کے سفر کے دوران سو جانے کا اور سورج نکلنے کے بعد بیدار ہونے کا ذکر کیا ہے، اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ قَبَضَ أَرْوَاحَکُمْ حِیْنَ شَاءَ ، وَ رَدَّہَا عَلَیْکُمْ حِیْنَ شَاءَ ) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذھاب الوقت : ٥٩٥ ] ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری ارواح کو قبض کرلیا جب چاہا اور انھیں تمہیں واپس کردیا جب چاہا۔ “ اس بحث سے معلوم ہوا نیند کے وقت قبض ہونے والی چیز نفس بھی کہلاتی ہے اور روح بھی۔ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ : مقرر وقت سے مراد بڑی اور آخری موت ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، جن میں سب سے پہلی تو اللہ کا وحدہ لا شریک لہ ہونا ہے کہ موت و حیات اور سلانے اور جگانے کا سلسلہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے، اگر اس کا کوئی شریک ہوتا تو یہ اختیار یا اس کا کچھ حصہ اس کے پاس بھی ہوتا، اس لیے ہر طرح کی عبادت کا حق دار اللہ تعالیٰ ہے، یہی دلیل اللہ کے خلیل (علیہ السلام) نے پیش فرمائی تھی : (رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ) [ البقرۃ : ٢٥٨ ] ” میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔ “ دوسری نشانی یہ ہے کہ جو پروردگار ہر روز موت دیتا ہے اور مرنے کے بعد زندگی عطا کرتا ہے وہ قیامت کے دن بھی تمام مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور یقیناً انھیں زندہ کرے گا اور وہی اکیلا سب کا فیصلہ کرے گا، کوئی اس کی مرضی کے بغیر سفارش بھی نہیں کرسکے گا، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The time to sleep and the time to die: How is the soul exacted and what is the difference between the two In verse 42, it was said: اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا (Allah fully takes away the souls [ of the people ] at the time of their death, and [ of ] those who do not die, in their sleep.). The word: تَوَفَّی (tawaffa) literally means to receive, to take back, exact. In this verse, Allah Ta’ ala has stated very clearly and emphatically that the spirits or souls (arwah) of living beings are under the free will and discretionary dispensation of Allah Ta’ ala at all times and under all conditions. He can seize, exact and take them back at will. And there is at least one manifestation of this absolutely autonomous dispensation that every living being sees and feels everyday when, once asleep, the ruh (spirit, soul) of a person is, so to say, taken away from the body, then, returned on rising from sleep, and ultimately, one such time is bound to come when this ruh stands seized, absolutely and conclusively, following which, this will never be returned. According to Tafsir Mazhari, the sense of &taking the ruh away& is to sever its connection with the human body. There are occasions when it is totally severed, both outwardly and inwardly. This is what death is. Then, there are occasions when it is severed only outwardly while it remains active inwardly, the effect of which is that it is only the sense and volitional movement - being obvious signs of life - that are severed, however, the connection of ruh with the body remains active inwardly. Under this arrangement, one breathes and stays alive, however, the form it takes is that the human spirit (ruh) is made to turn its attention to a (panoramic) study of the universe of images (&Alam-ul-mithal), and whereby it is made to pass into a state of forgetfulness and suspension away from this universe, so that one can become fully at rest. And then, at times, even this inward connection is severed because of which the life of the body goes extinct, totally. In the verse cited above, the word: يَتَوَفَّى (yatawaffa) in the sense of &takes in full& (qabd) is used by way of ` umum-ul- majaz which covers both meanings. This difference of ruh (spirit, soul) being taken away both in death and sleep delineated earlier also finds support in a saying of Sayyidna ` Ali (رض) . He said that, at the time of sleep, the ruh of a person goes away from his body, but a beam or ray of ruh stays behind in the body due to which one remains alive - and it is through this &beamed& connection that one sees a dream. Then this dream, in the event that it has been seen in the state the attention of the ruh was raptly turned towards the universe of images, is a true dream. But, if it was seen in a state when the ruh was returning back to the body, then, it becomes polluted with Shaitanic inputs, and that dream no more remains a true dream. And he also said that the ruh that comes out of the body of a person during the state of sleep returns to the body when one wakes up within a time that is much less than an eye would take to wink.

خلاصہ تفسیر اللہ ہی قبض (یعنی معطل) کرتا ہے ان جانوں کو (جن کا وقت موت آ گیا ہے) ان کی موت کے وقت (مکمل طور پر کہ زندگی بالکل ختم ہوجائے) اور ان جانوں کو بھی جن کو موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت (یہ تعطل بالکلیہ نہیں ہوتا ایک حیثیت حیات کی باقی رہ جاتی ہے مگر ادراک نہیں رہتا اور موت کی صورت میں نہ ادراک رہتا ہے نہ حیات) پھر (اس معطل کرنے کے بعد) ان جانوں کو تو (بدن کی طرف عود کرنے سے) روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو (جو نیند کی وجہ سے معطل ہوگئی تھیں اور ابھی ان کی موت کا وقت نہیں آیا) ایک میعاد معین (یعنی مدت) تک کیلئے آزاد کردیتا ہے (کہ پھر واپس جا کر بدن میں بدستور سابق تصرفات کرنے لگیں) اس (مجموعہ تصرفات آلٰہیہ) میں ان لوگوں کے لئے جو سوچنے کے عادی ہیں (خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور بلا شرکت غیرے تمام عالم کے انتظامات کرنے پر) دلائل ہیں (جن سے اللہ کی توحید پر استدلال کرتے ہیں) ہاں کیا (توحید کے دلائل واضحہ قائم ہوتے رہے) ان لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو (معبود) قرار دے رکھا ہے جو (ان کی) سفارش کریں گے (جیسا کہ مشرکین اپنے بتوں کے متعلق کہا کرتے تھے (آیت) ھولاء شفعاؤنا عند اللہ) آپ کہہ دیجئے کہ اگرچہ یہ (تمہارے گھڑے ہوئے شفعاء) کچھ بھی قدرت نہ رکھتے ہوں اور کچھ بھی علم نہ رکھتے ہوں (کیا پھر بھی تم یہی سمجھتے چلے جاؤ گے کہ یہ تمہاری سفارش کریں گے۔ کیا اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ شفاعت کے لئے علم اور اس کے مناسب قدرت تو ضروری ہے جو ان میں مفقود ہے۔ یہاں بعض مشرک یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ پتھر کے تراشے ہوئے بت ہمارا مقصود نہیں بلکہ یہ مجسمے اور شکلیں فرشتوں کی یا جنات کی ہیں وہ تو ذی روح بھی ہیں قدرت اور علم بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے اس کے جواب کی یہ تعلیم دی گئی کہ) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ سفارش تو تمام تر خدا ہی کے اختیار میں ہے (بدون اس کی اجازت کے کسی فرشتے یا بشر کی مجال نہیں کہ کسی کی سفارش کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی اجازت شفاعت کے لئے دو شرطیں ہیں ایک شفاعت کرنے والے کا عند اللہ مقبول ہونا، دوسرے جس کی شفاعت کی جائے اس کا قابل مغفرت ہونا۔ اب سمجھ لو کہ مشرکین نے بتوں کو جن کی شکلیں سمجھ کر اختیار کیا ہے اگر وہ جنات و شیاطین ہیں تو دونوں شرطیں مفقود ہیں، نہ شفاعت کرنے والے مقبول عند اللہ ہیں نہ یہ مشرک قابل مغفرت ہیں اور اگر ان شکلوں کو ملائکہ یا انبیاء کی شکلیں قرار دے رکھا ہے تو شفاعت کرنے والوں کے مقبول ہونے کی شرط تو موجود ہوئی، مگر دوسری شرط مفقود ہے کہ ان مشرکین میں صلاحیت مغفرت کی نہیں ہے۔ آگے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ) تمام آسمان و زمین کی سلطنت اسی کی ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ (اسی لئے سب کو چھوڑ کر اسی سے ڈرو اسی کی عبادت کرو) اور (توحید کے دلائل واضحہ قائم ہونے کے باوجود کفار و مشرکین کا حال یہ ہے کہ) جب فقط اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (کہ وہ بلاشرکت غیرے تمام عالم کے سیاہ وسفید کا مالک مختار اور متصرف ہے) تو ان لوگوں کے دل منقبض ہوتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر آتا ہے (خواہ صرف انہیں کا ذکر ہو یا اللہ کے ذکر کے ساتھ، ان کا بھی ذکر ہو) تو اسی وقت وہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔ معارف و مسائل موت اور نیند کے وقت قبض روح اور دونوں میں فرق کی تفصیل : (آیت) اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا۔ توفی کے لفظی معنے لے لینے اور قبض کرلینے کے ہیں۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جانداروں کی ارواح ہر حال ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیر تصرف ہیں، وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرف خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جاندار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہوجاتی ہے، پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بالکل قبض ہوجائے گی پھر واپس نہ ملے گی۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدن انسانی سے قطع کردینے سے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اس کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے۔ باطناً باقی رہتا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حس اور حرکت ارادیہ جو ظاہری علامت زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً تعلق روح کا جسم کے ساتھ باقی رہتا ہے جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ روح انسانی کو عالم مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کر کے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ آیت مذکور میں لفظ توفی، بمعنی قبض بطور عموم مجاز کے دونوں معنی پر حاوی ہے۔ موت اور نیند دونوں میں قبض روح کا یہ فرق جو اوپر بیان کیا گیا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ایک قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے مگر ایک شعاع روح کی بدن میں رہتی ہے جس سے وہ زندہ رہتا ہے اور اسی رابطہ شفاعی سے وہ خواب دیکھتا ہے۔ پھر یہ خواب اگر روح کے عالم مثال کی طرف متوجہ رہنے کی حالت میں دیکھا گیا تو وہ سچا خواب ہوتا ہے اور اگر اس طرف سے بدن کی واپسی کی حالت میں دیکھا تو اس میں شیطانی تصرفات ہوجاتے ہیں وہ رویاء صادقہ نہیں رہتا۔ اور فرمایا کہ نیند کی حالت میں جو روح انسانی اس کے بدن سے نکلتی ہے تو بیداری کے وقت آنکھ جھپکنے سے بھی کم مقدار وقت میں بدن میں واپس آجاتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْہَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝ ٤٢ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف/ 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے نوم النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه . ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نووم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔ مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ ہی انسانوں کی روحوں کو قبض کرتا ہے ان کے سونے کی حالت میں جانوں کو بھی معطل کرتا ہے ان کے سونے کے وقت جن کی ابھی موت کا وقت نہیں آیا پھر جن کی موت کا وقت آجاتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور جن کا سونے کی حالت میں وقت نہیں آیا ان کو ایک وقت مقررہ کے لیے رہا کردیتا ہے اس روکنے اور چھوڑنے میں سوچنے والوں کے لیے قدرت کی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ { اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا } ” اللہ قبض کرلیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت “ { وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا } ” اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں۔ “ یَتَوَفَّی (فعل مضارع) وفی مادہ سے باب تفعّل ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا قبضے میں لے لینا۔ سورة آل عمران کی آیت ٥٥ میں یہ لفظ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے آیا ہے اور وہاں لغوی اعتبار سے اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد قرآن حکیم کے اس مطالعہ کے دوران جہاں بھی اس مادہ سے کوئی لفظ آیا میں نے خصوصی طور پر اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس لفظ کی بنیاد پر قادیانیوں نے لوگوں کے ذہنوں میں جو اشکالات پیدا کر رکھے ہیں ان کا منطقی جواب مل سکے۔ چناچہ اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت ان کی جانوں اور ان کے شعور کو قبض کرلیتا ہے۔ نیند کی کیفیت میں انسان کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ سلب کرلیا جاتا ہے مگر روح موجود رہتی ہے۔ جبکہ موت کی حالت میں روح اور شعور دونوں چلے جاتے ہیں ‘ صرف جسم پیچھے رہ جاتا ہے۔ چونکہ اس مادے میں کسی چیز کو مکمل اور پورے کا پورا لینے کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لیے لفظ تَوفِیّ کا بتمام و کمال اطلاق تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے (روح ‘ شعور اور جسم سمیت) رفع آسمانی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جبکہ نیند کے حوالے سے یہ لفظ استعارۃً بولا جاتا ہے۔ { فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی } ” تو جس کی موت کا وہ فیصلہ کرچکا ہو اس کو اپنے پاس روکے رکھتا ہے اور دوسروں کو واپس بھیج دیتا ہے ایک وقت ِمعین ّ تک کے لیے۔ “ یعنی سونے والا جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ واپس آجاتا ہے اور ایک وقت معین یعنی اس کی موت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کو ہر روز موت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مشاہدہ کراتا رہتا ہے۔ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّـتَفَکَّرُوْنَ } ” یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60 "Taking the souls during sleep" implies the suspension of the powers of feeling and consciousness, understanding and will.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :60 نیند کی حالت میں روح قبض کرنے سے مراد احساس و شعور ، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں کو معطل کر دینا ہے ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر اردو زبان کی یہ کہاوت فی الواقع راست آتی ہے کہ سویا اور موا برابر ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :61 اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت اور زیست کس طرح اس کے دست قدرت میں ہے ۔ کوئی شخص بھی یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح لازماً زندہ ہی اٹھے گا ۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ایک گھڑی بھر میں اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا لمحہ ہوتا ہے یا موت کا ۔ ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں ، گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کی کوئی اندرونی خرابی ، یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کر سکتی ہے جو اس کے لیے پیام موت ثابت ہو ۔ اس طرح جو انسان خدا کے ہاتھ میں بے بس ہے وہ کیسا سخت نادان ہے اگر اسی خدا سے غافل یا منحرف ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: نیند کی حالت میں بھی کسی درجے میں روح قبض ہوتی ہے، لیکن اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، واپس آجاتی ہے اور اگر موت کا وقت آچکا ہو تو اسے پوری طرح قبض کرلیا جاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ شاہ صاحب نے اپنے اردو فائدہ میں یہ جو لکھا ہے کہ نیند میں جو جان کھینچتی ہے یہ جان وہ ہے جس کو ہوش کہتے ہیں اور ایک جان جس سے سانس چلتا ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی مفسرین میں سے یہ قول ابراہیم بن سری زجاج کا ہے قشیری اور بعضے اور مفسروں نے اس قول پر اعتراض کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ آیت کے مضمون سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیند اور موت کے وقت ایک ہی چیز ہے جو کھچنتی ہے۔ اگر نیند کی حالت میں وہ کھنچ کر پھر جسم میں نہ آئے تو مردہ ہے اور اگر پھر جسم میں آگئی تو زندہ ہے صحیحین ١ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی وسنے کے وقت کی دعا کی بڑی ایک حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ اگر سونے کی حالت میں جان جو جسم سے الگ ہوتی ہے اس کو تو روک رکھے تو اس جان پر اپنا رحم کر اور اگر وہ جان پھر جسم میں آئے تو اس کو نیک کام کرنے کی توفیق عنایت فرما اسی طرح صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں برائ بن العازب سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا سوتے وقت یوں کہنا چاہئے یا اللہ اپنی جان تجھ کو سونپتا ہوں اس صحیح حدیثوں سے قشیری کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے کہ ایک ہی جان ہے جو نیند میں کھنچ جاتی ہے اور پھر جسم میں وہ نہ آئے تو آدمی مردہ ہوجاتا ہے رہی یہ بات کہ سوتے آدمی اور مردہ میں تو فرق ہے سوتے آدمی کی نبضیں چلتی رہتی ہیں سانس چلتا رہتا ہے کھانا ہوتا ہے سوتے وقت جان کنی کی تکلیف آدمی کو نہیں ہوتی موت اور نیند کے جان کے کھنچنے میں کیا فرق ہے اس کا جواب حضرت علی (رض) نے یہ دیا ہے کہ نیند کے وقت روح کا تعلق جسم سے موت کے وقت کی طرح بالکل الگ نہیں ہوتا بلکہ جس طرح آفتاب آسمان پر ہے اس کی شعاع زمین پر ہے نیند کی حالت کی جسم اور روح کی جدائی اسی طرح کی ہے اور موت کے وقت جسم اور روح کی جدائی ایسی ہے جس طرح قیامت میں آفتاب کا نور آفتاب کے جرم سے بالکل الگ کردیا جائے گا حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے اس باب میں مختلف روایتیں ہیں تفسیر ابراہیم میں منذر اور تفسیر ابن ٣ ؎ ابی حاتم میں جو حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے روایت ہے اس کا حاصل یہ کہ انسان کے بدن میں روح اور نفس دو چیزیں ہیں سونے کی حالت میں روح بدن میں رہتی ہے اور نفس نکل جاتا ہے مسند عبد بن حمید ٤ ؎ میں جو روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک ہی چیز جس کو روح کہتے ہیں انسان کے بدن میں ہے اور مرنے کے وقت وہی جسم سے نکل جاتی ہے اور خواب میں مردوں کی روح سے ملتی ہے اور بات چیت کرتی ہے مسند عبد بن حمید کی روایت اوپر کی صحیح حدیثوں کے موافق ہے اس واسطے یہی قول صحیح ہے۔ بعضے متکلمین نے کہا ہے ہر نبی کے جسم میں پانچ روحیں ہوتی ہیں اور ہر مومن کی جسم میں تین روحیں لیکن یہ قول دلیل شرعی کا محتاج ہے۔ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون اس کا مطلب یہ ہے کہ نیند میں جان کا جسم سے الگ ہوجانا اور جاگنے کے وقت پر اس کا جسم میں آجانا دھیان کرنے والوں کے لئے حشر کے ایک ایسی بڑی نشانی ہے جو بہت سی نشانیوں کے برابر ہے صحیح بخاری ٥ ؎ میں حذیفہ (رض) بن الیمان ہے اور صحیح مسلم میں براء بن العازب سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے سے اٹھ کر یہ فرمایا کرتے تھے سب تعریف اسی اللہ کے لئے شایان ہے جس نے ہم کو نیند کی مردنی سے جس طرح زندہ کیا اسی طرح وہ ہم کو قبروں سے اٹھائے گا۔ ان روایتوں کو آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ نیند کی حالت میں جان کا جسم سے الگ ہوجانا اور جاگنے کی حالت میں اس کا پھر جسم میں آجانا حشر کا پورا نمونہ ہے۔ (١ ؎ بخاری شریف باب التچوذ والقراء ۃ عند النوم ص ٩٣٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب مایقول اذا نام ص ٩٣٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٣٢٩ ج ٥۔ ) (٤ ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص ٣٢٩ ج ٥۔ ) (٥ ؎ صحیح بخاری باب مایقول اذا نام۔ ص ٩٣٤ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:42) یتوفی الانفس : یتوفی مضارع واحد مذکر غائب توفی (تفعل) مصدر سے۔ لے لیتا ہے قبض کرلیتا ہے۔ وفی مادہ۔ اسی سے ایفاء (افعال) وعدہ۔ عہد یا نزرانہ نہ پورا کرنا۔ جیسے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم (2:40) اور اس عہد کو پورا کرو۔ جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ میں بھی اس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا۔ الانفس۔ مفعول ہے یتوفی کا۔ جانیں۔ یعنی (اللہ قبض کرلیتا ہے جانوں کو) لم تمت۔ مضارع نفی جحد بلم۔ مجزوم بوجہ عمل لم ۔ تمت اصل میں تموت تھا۔ ت بوجہ عمل لم ساکن ہوگیا۔ پھر واؤ بوجہ اجتماع ساکنین کے گرگئی۔ لم تمت ہوگیا۔ اور معنی ماضی منفی کے دینے لگا۔ یعنی جو ابھی نہیں مری۔ جس کی موت کا ابھی وقت نہیں آیا۔ موت کے وقت قبض روح من کل الوجوہ ہوتا ہے۔ جس کے بعد نہ حیات جسمانی باقی رہتی ہے نہ شعور ادراک : لیکن نیند کی حالت میں یہ سلب روح صرف جزئی حیثیت سے ہوتا ہے۔ جس سے حیات جسمانی جوں کی توں رہتی ہے لیکن شعور و ادراک باقی نہیں رہتا۔ نیند کے وقت سلب صرف حیات شعوری کا ہوتا ہے۔ یمسک۔ مضارع واحد مذکر غائب ۔ امساک مصدر افعال سے وہ روک لیتا ہے۔ التی : ای الانفس التی۔ وہ جانیں جو۔ قضی علیہا : قضی علی۔ کسی کے لئے کسی چیز کا حکم دینا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الانفس ہے۔ قضی علیھا الموت اس نے ان جانوں کی موت کا حکم دیا۔ فیمسک التی قضی علیہا الموت۔ پھر وہ روک لیتا ہے ان جانوں کو جن کی موت کا وہ فیصلہ کردیتا ہے ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فلما قضینا علیہ الموت (34:14) پھر جب ہم نے اس کے لئے موت کا حکم دیا۔ ویرسل الاخری الی اجل مسمی : یرسل مضارع واحد مذکر غائب ارسال افعال مصدر وہ (واپس) بھیج دیتا ہے الاخری سے مراد وہ جانیں جو نیند کی حالت میں قبض کی گئی تھیں۔ اور جن کی موت کا ابھی حکم نہیں ہوا تھا۔ اجل مسمی موصوف و صفت مقررہ میعاد۔ الی اجل مسمی مقررہ میعاد تک کے لئے۔ یتفکرون۔ مضارع جمع مذکر غائب تفکر (تفعیل) مصدر۔ وہ فکرو غور کرتے ہیں ۔ یہ آیت علت ہے آیت علیہ یتوکل المتوکلون (آیت 38: متذکرہ بالا کی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5” جان دو طرح کی ہے ایک ” نفس الحیاۃ “ یعنی وہ جان جس سے زندگی قائم ہے اور دوسری ” نفس التمیز “ یعنی وہ جان جس سے فہم و ادراک اور احساس و شعور قائم رہتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ مرنے والے کی ” نفس الحیاۃ “ اور سونے والے کی نفس التمیز اپنی طرف اٹھا لیتا ہے “۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس (رض) کی طرف منسوب ہے جسے زجاج نے اختیار کیا ہے۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح میں اسی کو اختیار کیا ہے لکھتے ہیں : کہ نیند میں جو جان کھینچتی ہے۔ یہ جان وہ ہے جسے ہوش ( نفس التمیز) کہتے ہیں اور ایک جان جس سے دم چلتا ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی۔ الغرض اس تفسیر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ نفس اور روح دو چیزیں ہیں۔ مگر اس آیت اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں کیونکہ قبض کا لفظ روح اور نفس دونوں کے لئے آیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ نیند کی حالت میں بھی تو فی ہوتی ہے اور موت کے وقت بھی حالانکہ موت کے وقت آدمی میں جان نہیں رہتی اور نیند کی حالت میں جان باقی رہتی ہے تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے ؟ اس کے جواب حضرت علی (رض) فرماتے ہیں :” نیند کی حالت میں روح کا تعلق جسم سے قائم رہتا ہے جیسے سورج کی شعاع کہ وہ زمین پر بھی پڑتی ہے اور سورج کے ساتھ بھی قائم ہے مگر موت کے وقت وہ تعلق قائم نہیں رہتا جیسا کہ قیامت کے دن سورج کے دم و بےنور کردیا جائے گا “۔ (از احسن)6 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر بھیجتا ہے۔ یہی نشان ہے آخرت کا ( موضح) مطلب یہ ہے کہ جو خدا سونے والے کی جان قبضے کر کے دوبارہ اس کے بدن میں لوٹا دیتا ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ایک دن مرنے والے کی جان بھی اس کے بدن میں لوٹا دے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 5 ۔ آیات 42 ۔ تا۔ 52: اسرار و معارف : یہ سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں کہ جس کی موت آتی ہے اللہ ہی اس کی روح قبض فرما لیتا ہے یعنی اس کا تعلق بدن اور اس میں تصرفات سے اللہ کے حکم سے توڑ دیا جاتا ہے اور جس کی موت نہیں آتی اس کے لیے نیند کی حالت کو سمجھنا ہی کافی ہے کہ اس میں بھی روح بدن میں تصرفات سے روک دی جاتی ہے ہاں اس کا ایک گونہ تعلق باقی رکھا جاتا ہے پھر جس کا وقت پورا ہوچکا ہو اسے بدن میں واپسی سے روک دیا جاتا ہے اور جن کا ابھی وقت باقی ہے انہیں اس خاص مدت تک لوٹا دیا جاتا ہے یعنی انسان کا عجز اور اللہ کے دست قدرت کی گرفت میں ہونا نیند اور موت سے واجح ہے اور یہ بہت بڑی دلیل ہے اگر کوئی سوچے اور سمجھے تو یا پھر ان کا دعوی کہ ہم تو ان کی پوجا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ معبودان باطلہ ہماری سفارش کریں گے یہ اور بھی جاہلانہ عقیدہ ہے بھلا جن کا کوئی اختیار ہی نہیں خود محتاج ہیں اور کسی کی حاجات کو جان ہی نہیں سکتے رہ کیسے سفارش کرسکتے ہیں یاد رکھو یہ ایسی بارگاہ ہے کہ یہاں سفارش بھی اس کی مرضی کے تابع ہے کہ کس کو سفارش کرنے کی اجازت دیتا ہے یا کس کے لیے اذن شفاعت دیتا ہے اس لیے کہ ارض و سما کی حکومت و سلطنت اس کو سزاوار ہے اور ہر ایک نے اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جواب دینا ہے مگر یہ لوگ گمراہی میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اگر اللہ کی توحید کا ذکر کیا جائے تو ان کی دھڑکنیں رکنے لگتی ہیں کہ یہ آخرت کے منکر ہیں لیکن اگر غیر اللہ کی تعریف کی جائے یا کوئی ان کے سامنے کرے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اپ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) یوں دعا کیجیے کہ اے اللہ اے وہ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور تمام چھپے ہوئے بھیدوں اور سب ظاہر باتوں کو جانتا ہے تو ہی اپنے بندوں کے اختلافات یعنی ایمان و کفر کا فیصلہ فرمائے گا لہذا آپ ہی سے کرم کا طالب ہوں رہے یہ کفار تو فیصلے کے روز اگر ان میں سے ایک ایک کے پاس سارے جہان کی دولت ہو بلکہ اس سے دوچند ہو اور وہ یہ مال و زر دے کر جان چھڑانا چاہے تو ہرگز ایسا نہ کرسکے گا بلکہ ان پر اللہ کی طرف سے وہ عذاب شروع ہوجائے گا جس کی انہیں کوئی امید نہ تھی کہ آخرت کو قبول ہی نہ کرتے تھے ان کی بد اعمالی کی سزا ان کے گلے پڑے گی اور وہ عذاب بھگتنا پڑجائیں گے دنیا میں جن کی بات سن کر مذاق اڑایا کرتے تھے اور یہ تو دنیا میں بھی ظاہر ہے کہ انسان جب مصیبت میں گھر جائے اور کوئی راستہ نظر نہ آتا ہو تو ہمیں کو پکارتا ہے پھر سب اللہ ہی سے دعا کرتے ہیں اگرچہ جب اللہ مصیبت کو راحت سے بدل دے تو یہ کفار اسے اپنا کمال ظاہر کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں مجھے علم تھا کہ اس کا حل کیا ہے لہذا میں نے اس سے نجات حاصل کرلی یہ میری کوششوں کا ثمر ہے اور یہی انسان کی پرکھ ہے کہ کیا اللہ کا احسان مانتا ہے یا اپنے کمالات کا ثر مگر ان میں اس بات کا علم ہی نہیں اسی طرح کے دعوے ان سے پہلے کفار بھی کیا کرتے تھے لیکن جب ان کی بد اعمالی کی سزا میں اللہ کا عذاب آیا تو پھر ان کی دانشمندی کے دعوے اسے نہ روک سکے۔ اور ان کے کرتوتوں کی سزا ان پر وارد ہوگئی ایسے ہی یہ بھی بھگتیں گے اور ان لوگوں نے بھی جب ظلم کی راہ اپنائی ہے تو وہ خود انہیں پر پلٹ گا اور یہ اسے وارد ہونے سے روک نہ سکیں گے بھلا اسی بات میں دیکھ کہ اللہ جسے چاہتا ہے دولت دنیا زیادہ عطا کردیتا ہے اور کوئی اس کی روزی کم نہیں کرسکتا اور جسے چاہے اسے کم رزق عطا کرے ساری عقل فراست اور تدبیر سے وہ بڑھا نہیں سکتا اس بات میں بھی صاحب ایمان کے لیے بہت بڑی دلیل ہے۔ حصول روزق کے لیے وسائل اختیار کرنا اور دانشمندی سے محنت کرنا اللہ کی اطاعت اور عبادت ہے مگر ملے گا وہی جو اس نے مقرر فرما دیا ہے اسی طرح ناجائز ذرائع اکتیار کرکے گناہگار ہوگا۔ رزق اپنے ہی حصے کا پاسکے گا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 42 :۔ یتوفی ( وہ موت دیتا ہے) حین ( اس وقت ، جس وقت) لم تمت (نہیں مرا) منام ( نیند ، خواب ) قضی (فیصلہ کرلیا) یرسل ( وہ بھیجتا ہے) یتفکرون (وہ غور و فکر کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 42 :۔ یہ تو ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد آدمی نیند کی طرف مائل ہوتا ہے تا کہ وہ ایک نیند لے کر تازہ دم ہوجائے اور اگلے دن کام کاج کے قابل ہو سکے لیکن اس جگہ اللہ نے نیند کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ یہ نیند درحقیقت موت ہی کا ایک حصہ ہے جو اس پر ہر روز طاری کی جاتی ہے۔ جس طرح کوئی شخص اس سے ناواقف ہے کہ اس کی موت کب اور کہاں آئے گی اسی طرح ایک آدمی سو جانے کے بعد اس سے قطعاً بیخبر ہے کہ وہ جس نیند کے مزے لے رہا ہے وہ اس نیند سے بیدار ہوگا یا ہمیشہ کی نیند سو جائے گا۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ سوتے ہوئے ہی اس دنیا سے گزر جاتے ہیں اور ان کو اس کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی کی یہ آخری نیند ہے۔ اصل میں انسان زندگی اور موت کے بارے میں قطعاً بےبس اور عاجز ہے۔ یہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اس نے جس انسان کی جتنی زندگی کا فیصلہ کیا ہے وہ اس سے ایک لمحہ بھی زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ جب انسان سو جاتا ہے تو اس کا فہم و ادراک اور ارادہ و اختیار سب معطل ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن اس کا شعور اور لا شعور دونوں جاگ پڑتے ہیں اور انسان جس ماحول میں زندگی گزارتا ہے اسی کے تجربات کی روشنی میں وہ خواب دیکھتا ہے یہ خواب کبھی تو سچے ہوتے ہیں اور کبھی فضول اور بیکار خواب ہوتے ہیں انبیاء کرام (علیہ السلام) کے خواب تو وحی کا ایک حصہ ہوتے ہیں اس لئے ان کے خواب تو بالکل صحیح اور سچے ہوتے ہیں لیکن عام آدمی کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے سارے خواب سچے ہوں۔ ایک دن حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تعجب ہے کہ کچھ لوگ سوتے ہوئے خواب میں کچھ ایسی چیزیں دیکھ لیتے ہیں جو ان کے تصور میں بھی نہیں ہوتیں ( اور پھر بیدار ہوتے ہی سامنے آجاتی ہیں) ان کا خواب اس قدر صحیح اور واقعی ہوتا ہے جیسے ہاتھ سے کسی چیز کو پکڑ لیا ہے اور بعض لوگوں کے خواب کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے۔ حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے کہا اے امیر المومنین میں آپ کو اس کی وجہ بتاتا ہوں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا النح “ یعنی اللہ روحوں کو قبض کرلیتا ہے ۔ جب یہ روحیں اللہ کے قرب میں آسمان پر ہوتی ہیں تو جو کچھ دیکھتی ہیں وہ سچاخواب ہوتا ہے اور جب ان کو جسموں کی طرف چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس میں ان کا سامنا شیطانوں سے ہوتا ہے تو شیطان ان سے کچھ چھوٹی باتیں کہہ دیتے ہیں بس یہ جھوٹا خواب کہلاتا ہ۔ حضرت عمر (رض) کو حضرت علی (رض) کی یہ بات سن کر تعجب ہوا ۔ ایک جگہ حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسانی جسم سے روح نکل جاتی ہے صرف اس کی ایک شعاع جسم کے اندر باقی رہتی ہے اس وجہ سے وہ خواب دیکھتا ہے پھر جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح ایک پل بھر سے بھی پہلے بدن کی طرف لوٹ آتی ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت انسانوں کی جان کو نکالتا ہے اور جو شخص ابھی زندہ ہے اس کی روح کو وہ نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ پھر جس پر وہ موت طاری کرتا ہے تو اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک مقرر وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے ، یقینا اس میں ان لوگوں کے لئے عبرت و نصیحت کا سامان موجود ہے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی شخص کی ہدایت کا ذمہ دار نہیں بنایا۔” اللہ “ ہی ہدایت اور گمراہی کا مالک ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ ہدایت و گمراہی کا مالک ہے اسی طرح ہی وہ لوگوں کی موت وحیات پر بھی اختیار رکھتا ہے۔ اس نے موت وحیات کا سلسلہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگ اپنے انجام کے بارے میں غوروفکر کریں۔ اللہ ہی روحوں کو موت دیتا ہے۔ جن کی موت کا وقت نہیں آتا ان کو ان کی نیند کے بعد لٹا دیتا ہے۔ نیند اور بیداری کے عمل سے گزرتے ہوئے انسان کی زندگی پوری ہوجاتی ہے۔ جب اس کی زندگی پوری ہوجاتی ہے یعنی اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کی روح کو قبض کرلیا جاتا ہے۔ اگر انسان نیند اور بیداری کے عمل پر غور کرے تو رب تعالیٰ کو پہنچاننے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ غور کرنے والوں کے لیے اس میں راہنمائی کے بہت سے دلائل ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ہدایت اور گمراہی کی بات کی ہے اس لیے یہاں جسمانی موت کے ذکر میں روحانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ہدایت یافتہ انسان روحانی یعنی ایمانی پر زندہ ہے اور گمراہ شخص روحانی طور پر مردہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نیند کو موت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ نیند اور موت میں کافی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔ 1 جس طرح موت کے بعد انسان کو اپنے آپ اور گردوپیش کا علم نہیں ہوتا اسی طرح گہری نیند سونے والے کو اپنے آپ اور اردگرد کے ماحول کی خبر نہیں ہوتی۔ 2 جس طرح موت کے بعد انسان کا عمل ختم ہوجاتا ہے اسی طرح سونے والے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ 3 جس طرح موت کے بعد انسان اپنا دفاع نہیں کرسکتا اسی طرح نیند کے دوران آدمی اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ 4 جس طرح موت کے بعد آدمی سننے، دیکھنے اور پکڑنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گہری نیند میں آدمی ایک حد تک سننے، دیکھنے اور پکڑنے کی طاقت سے محروم ہوجاتا ہے۔ 5 جس طرح فوت شدہ آدمی بےبس اور دنیا سے لاتعلق ہوتا ہے اسی طرح گہری نیند سونے والا بھی بےبس اور کچھ وقت کے لیے دنیا سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ 6 جس طرح مرنے والے کیر وح کو کوئی واپس نہیں لاسکتا اسی طرح سونے والے کی روح کو بھی اللہ کے سوا کوئی واپس نہیں لٹا سکتا۔ اسی لیے نیند کے لیے ” یَتَوَفَّی “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی ہے پورا پورا لینا۔ ان وجوہات کی بنا پر نیند کو موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ میڈیکل سانئس اس نقطہ پر نہیں پہنچ پائی لیکن قرآن مجید اور حدیث شریف کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔ کہ نیند کے دوران ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب انسان کی روح حقیقتاً اس کے جسم سے نکلتی جاتی ہے۔ (اللہ اعلم) نیند کے بیشمار فوائد میں ایک فائدہ کی طرف توجہ فرمائیں اور غور کریں کہ انسان کا جسم تھکاوٹ سے چکنا چور ہوچکا ہو۔ جوں ہی نیند اسے اپنی آغوش میں لیتی ہے تو تھکاوٹ دور اور طبیعت تازہ ہی نہیں بلکہ پہلے کی طرح آدمی کی انرجی بحال ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی حقیقت سمجھنے والی یہ ہے۔ جو رب انسان کو نیند سے اٹھاتا ہے وہی قیامت کے دن اسے اٹھائے گا۔ سونے کی دعا عَنْ حُذَےْفَۃَ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا اَخَذَ مَضْجِعَہُ مِنَ اللَّےْلِ وَضَعَ ےَدَہُ تَحْتَ خَدِّہٖ ثُمَّ ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْےٰی وَاِذَا اسْتَےْقَظَ قَالَ (الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْےَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَےْہِ النُّشُوْرُ ) [ بخاری ومسلم عن البراء ] حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں جب رات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا کرتے۔” الٰہی ! تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور اسی کے ساتھ زندہ ہوتا ہوں۔ “ اٹھنے کے بعد پڑھتے ” تمام تعریفوں اور شکرانوں کے لائق اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ “ (بخاری) مزید دعائیں حدیث کی کتب میں ملاحظہ فرمائیں اور یاد کریں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو موت دینے والا ہے۔ ٢۔ نیند میں موت کا سبق پوشیدہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو نیند کی صورت میں مارتا اور بیداری کی صورت میں زندگی دیتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ جانوں کو قبض فرماتا ہے، سفارش کے بارے میں صرف اسی کو ختیار ہے، مشرکین کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل منقبض ہوتے ہیں یہ تین آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں اللہ جل شانہٗ نے اپنے ان تصرفات کا تذکرہ فرمایا جو انسانوں کی جانوں سے متعلق ہیں، ارشاد فرمایا کہ انسانوں کی جانوں کو اللہ تعالیٰ ان کی موت کے وقت قبض فرما لیتا ہے اور یہ قبض کامل ہوتا ہے اس کے بعد جسم انسانی میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہتی، اور جب بنی آدم سو جاتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ ان کی جانوں کو قبض فرما لیتا ہے لیکن چونکہ قبض کامل نہیں ہوتا روح باقی رہتی ہے (اگرچہ افعال و حرکات پر ارواح کا قبضہ نہیں رہتا) اس لیے ان کی موت کا مقررہ وقت آنے تک سونے والوں کی جانوں کو اللہ تعالیٰ چھوڑ دیتا ہے یعنی جو ہوش گوش اور حس و حرکت اور اختیار والی زندگی عارضی طور پر جاچکی تھی اسے واپس لوٹا دیتا ہے، ان تصرفات میں اللہ بالکل مختار مطلق ہے کسی کو اس میں کوئی دخل نہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں اور روزانہ اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے، اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں انسان کو ہر سونے اور جاگنے کے وقت سوچنا چاہیے کہ میں ایسا ضعیف ہوں کہ سونے جاگنے تک پر مجھے قدرت نہیں اگر انسان اپنی عاجزی پر غور کرے تو سمجھ میں آجائے گا کہ واقعی مجھے جس نے پیدا فرمایا ہے میں صرف اسی کا بندہ ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ ” اللہ یتوفی الخ “ یہ پانچویں عقلی دلیل ہے یہ ادلہ سابقہ سے بطور ترقی ہے۔ پہلے انسان کے ابتدائی حالات کا ذکر تھا۔ یعنی اس کی پیدائش کا اس کے بعد پیدائش سے بعد کے حالات یعنی اس کی پرورش اور روزی رسانی کا ذکر کیا گیا۔ اور یہاں اس کی زندگی کے آخری حالات کا تذکرہ ہے۔ حاصل یہ کہ انسان ہر حال میں اللہ کا محتاج ہوتا ہے یا ظاہراً و باطنًا ہو جیسا کہ موت کی حالت میں ہوتا ہے (مظہری). یعنی اللہ تعالیٰ موت کے وقت روحوں کو قبض کرتا ہے اس طرح کہ ارواح کا ابدان سے بالکلیہ تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ ظاہراً و باطناً اور جن کی موت کا ابھی وقت نہیں آیا۔ نیند کی حالت میں بظاہر ان کی روحیں بھی قبض کرلیتا ہے یہاں تک کہ اس حالت میں سونے والے سے ارادی حسن و حرکت سلب ہوجاتی ہے۔ ای یقبضہا عن الابدان اما بان یقطع تعلقہا عنہا بالکلیۃ فلا یمکن لہا التصرف فیہا ظاھرا ولا باطنا و ذلک حین موتھا ونزعھا عنہا واما بان یقبضہا ظاہرا بعض القبض بان یسلب عنہا الھسن و حرکتہ الارادیۃ الخ (مظہری ج 8 ص 217) ۔ 43:۔ ” فیمسک التی الخ “ نیند کی حالت میں ہی جس کے لیے موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح روک لی جاتی ہے۔ اور جس کی موت کا فیصلہ نہ ہو اس کی روح آزاد کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی موت کا معین وقت آجائے۔ اس توفی وارسال میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کے نشانات موجود ہیں۔ جو شخص ضد وعناد سے بالا تر ہو کر اس میں غور و فکر کرے گا اسے یقین ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر علی الاطلاق اور معبود برحق نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کے مرنے کے وقت کھینچ لیتا ہے اور قبض کرلیتا ہے جب وقت ہو ان کے مرنے کا یعنی مرتے وقت جانوں کو قبض کرلیتا ہے اور جن کے مرنے کا وقت نہیں آیا ان کو بھی سوتے وقت قبض کرلیتا ہے اور کھینچ لیتا ہے پھر ان جانوں کو جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے روک لیتا ہے یعنی ان کو تصرف فی الابدان سے روک لیتا ہے اور ان کو واپس نہیں کرتا اور دوسری جانوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس کردیتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے ، بلا شبہ اس تصرف خداوندی میں ان لوگوں کے لئے بڑے دلائل ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے یہی نشان ہے آخرت کا معلوم ہوا نیند بھی جان کھینچتی ہے جیسے موت میں اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئی وہی موت ہے مگر یہ جان وہ ہے جس کو ہوش کہتے ہیں اور ایک جان جس سے دم چلتا ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوجاتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی۔ خلاصہ : یہ کہ حضرت عبداللہ (رض) بن عباس (رض) کا قول یہی ہے وہ فرماتے ہیں ابن آدم میں نفس ہے اور روح ہے ان دونوں کے درمیان ایسا ہی تعلق ہے جیسا آفتاب کا تعلق شعاع سے پس نفس تو وہ ہے کہ بسبب اس کے عقل وتمیز ہے اور روح وہ ہے کہ بسبب اس کے سانس لیتا ہے اور حرکت کرتا ہے پس جب سو جاتا ہے بندہ تو قبض کرتا ہے اللہ تعالیٰ نفس اس کا اور نہیں قبض کرتا روح اس کی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ (رض) فرماتے ہیں نکل جاتی ہے روح اور باقی رہتی شعاع اس کی بدن میں پس ساتھ اس کے خواب دیکھتا ہے پس جب جاگنے لگتا ہے نیند سے پھر آتی ہے روح اس کے بدن کی طرف جلد تر پلک مارنے سے بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ نیند موت کی بہن ہے نیند میں بھی کوئی چیز قبض ضرور ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا ھوالذی یتوفکم بالیل۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آدمی رات کو سویا اور سویا کا سویا رہ گیا جیسا کہ پچھلے دنوں انگلستان کا بادشاہ سویا کا سویا رہ گیا تھا اور لاکھوں مخلوق رات کو سو کر صبح اٹھ بیٹھتی ہے۔ اگر من کل الوجوہ موت نہیں آتی تو من بعض الوجوہ حیات رہتی ہے اور اسی حیات کو شعاع سے صحابہ (رض) نے تعبیر کیا ہے سونے میں جو تصرف ہوتا رہتا ہے وہ شعاعوں کا اثر ہوتا ہے اور من کل الوجوہ موت وہ ہے جس میں حیات کا کوئی اثر نہ رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے وقت فرمایا کرتے تھے باسمک ربی وضعت جنبی وباسمک ارفعہ ان امسکت نفسی فار حمھا وان ارسل تھا فاحفظھا مما تحفظ بہ الصالحین۔ یعنی تیرے ہی نام کے ساتھ اے پروردگار اپنا پہلو رکھتا ہوں اور تیرے ہی نام کے ساتھ اس کو اٹھاتا ہوں اگر آپ میرے نفس کو روک لیں تو اس پر رحم فرمائیں اور اگر اس کو تو چھوڑ دے تو پھر نفس کی ان باتوں سے حفاظت کر جن باتوں سے نیک بندوں کی حفاظت کیا کرتا ہے۔