Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 55

سورة الزمر

وَ اتَّبِعُوۡۤا اَحۡسَنَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ الۡعَذَابُ بَغۡتَۃً وَّ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

And follow the best of what was revealed to you from your Lord before the punishment comes upon you suddenly while you do not perceive,

اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف تمہارےپروردگارکی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم ... And follow the best of that which is sent down to you from your Lord, means, the Qur'an. ... مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ العَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لاَ تَشْعُرُونَ before the torment comes on you suddenly while you perceive not! means, without you realizing it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 یعنی عذاب آنے سے قبل توبہ اور عمل صالح کا اہتمام کرلو، کیونکہ جب عذاب آئے گا تو اس کا علم و شعور بھی نہیں ہوگا، اس سے مراد دنیاوی عذاب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] اتباع احسن سے کیا مراد ہے ؟ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی احسن الحدیث ہے۔ لہذا اس میں جو اوامر ہیں ان کی تعمیل کرے، نواہی سے اجتناب کرے & امثال اور قصوں میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔ اس کے برعکس جو شخص جو نہ اوامر کی تعمیل کرے نہ نواہی سے اجتناب کرے اور نہ وعظ و نصیحت سے کوئی اثر قبول کرے۔ ایسا شخص وہ پہلواختیار کرتا ہے جسے کتاب اللہ بدترین پہلو قرار دیتی ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوامر کو اچھی سے اچھی شکل میں بجا لائے۔ نواہی سے پوری طرح اجتناب کرے بلکہ جس بات میں شک ہو اسے بھی چھوڑ دے اور پندو نصیحت سے بھی وہ مطلب لے اور اثر قبول کرے جو ایک قلب سلیم کا تقاضا ہوتا ہے۔ اپنے نظریات اور خواہشات کو قرآن سے کشید کرنے کی کوشش نہ کرے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ ۔۔ : یہاں ” اَحْسَنَ “ کی اضافت ” مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ “ کی طرف اضافت بیانیہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی قرآن و حدیث کی پیروی کرو، جو ساری کی ساری ہی احسن اور دوسرے ہر کلام سے اچھی ہے، فرمایا : (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ) [ الزمر : ٢٣ ] ” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے۔ “ مزید تفصیل سورة زمر کی آیات (١٧، ١٨) کی تفسیر میں دیکھیے۔ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً : اچانک عذاب سے اس لیے ڈرایا کہ اس میں نہ سنبھلنے کی مہلت ملے گی نہ توبہ کی، اس لیے جلد از جلد اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی اختیار کرلو، اس سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت تم پر اچانک آجائے، جب کہ تم سوچتے بھی نہ ہو، کیونکہ عذاب آنے کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہ ہوگی۔ مزید دیکھیے سورة نساء (١٨) ، یونس (٥١ اور ٩٠، ٩١) اور سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 55, it was said: وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم (and follow the best of what has been sent down to you). The second phrase أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ (the best of what has been sent down) means the Qur&an, and the whole Qur&an is but ahsan, the best - and the Qur&an can be called: اَحسَںَ و اکمل (best) also in the sense that out of all scriptures - Torah, Injil, Zabur - revealed from Allah Ta’ ala, the Qur&an is the best and the most perfect. (Qurtubi)

(آیت) وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ ۔ اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ سے مراد قرآن ہے اور پورا قرآن احسن ہی ہے اور قرآن کو اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اس اعتبار سے بھی کہا جاسکتا ہے کہ جتنی کتابیں تورات، انجیل، زبور، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں۔ ان سب میں احسن واکمل قرآن ہے۔ (قرطبی) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۝ ٥٥ۙ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تم قرآن کریم پر چلو اس کے حلال کردہ امور کو حلال اور حرام کردہ باتوں کو حرام سمجھو اور محکمات پر عمل کرو اس کے متشابہات پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آپڑے اور تمہیں اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ } ” اور پیروی کرو اس کے بہترین پہلو کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے “ یہ مضمون اس سے پہلے آیت ١٨ میں بھی آچکا ہے ‘ وہاں پر { فَـیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗط } کے الفاظ آئے ہیں۔ گویا قرآن جو راستہ تم لوگوں کو دکھا رہا ہے اس میں بھی مختلف درجات ہیں۔ ان درجات کا ذکر سورة التوبہ کی اس آیت میں بھی ہوا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ } (آیت ١٠٠) ” اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکی کے ساتھ “۔ سورة النساء کی آیت ٦٩ میں بھی چار مدارج کا ذکر ہے۔ ان میں پہلا درجہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ہے ‘ دوسرے درجے پر صدیقین ہیں ‘ تیسرے درجے پر شہداء اور چوتھے پر صالحین۔ سورة الحدید میں یہ مضمون زیادہ واضح انداز میں بیان ہوا ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں قرآن کے اتباع میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کو پانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ { مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ } ” اس سے پہلے کہ تم پر عذاب اچانک آدھمکے اور تمہیں اس کا گمان تک نہ ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72 "To follow the best aspect of the Book of Allah" means that one should carry out the Commands Allah has given and refrain from what He has forbidden, and learn lessons from what He has brought out in the parables and narratives. As against this, the one who turns away from Allah's Commands, indulges in the forbidden things, and dces not heed His admonitions, follows the worst aspect of the Book of AIlah, i.e. that aspect which the Divine Book has declared as the most evil.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :72 کتاب اللہ بہترین پہلو کی پیروی کرنے کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا ہے آدمی ان کی تعمیل کرے ، جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے بچے ، اور امثال اور قصوں میں جو کچھ اس نے ارشاد فرمایا ہے اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے ۔ بخلاف اس کے جو شخص حکم سے منہ موڑتا ہے ، منہیات کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ کے وعظ و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لیتا وہ کتاب اللہ کے بدترین پہلو کو اختیار کرتا ہے ، یعنی وہ پہلو اختیار کرتا ہے جسے کتاب اللہ بدترین قرار دیتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39ـ:55) واتبعوا، جملہ ہذا معطوف ہے۔ جس کا عطف یا لاتقنطوا پر ہے یا و انیبوا پر ہے۔ اور تم پیروی کرو۔ اتبعوا فعل امر، جمع مذکر حاضر اتباع (افتعال) مصدر پیروی کرنا ۔ اتباع کرنا۔ احسن ما انزل الیکم من ربکم۔ احسن مضاف۔ ما انزل الیکم من ربکم مضاف الیہ جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کا بہتر ۔ یعنی اس کے بہترین پہلو۔ اور اس سے مراد صریحا القرآن ہے اور قرآن کے بہترین پہلو کی پیروی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اوامر کی تعمیل کرے اور نواہی سے بچتا رہے احکام کی پیروی کرے اور خصتوں کی طرف نہ جکھے۔ بعض نے اسے صفت و موصوف کے معنی میں لیا ہے اور جملہ کا ترجمہ کیا ہے کہ :۔ ” بہترین کلام جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے “ اور بہترین کلام القرآن ہے ۔ بغتۃ اچانک، یک دم ۔ یکایک۔ ناگہاں ۔ بغت یبغت (فتح) سے جس کے معنی کسی چیز کے یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانے کے ہیں جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو۔ وانتم لا تشعرون ۔ واؤ حالیہ ہے۔ لا تشعرون مضارع منفی جمع مذکر حاضر دراں حالیکہ تم کو اس کا خیال تک نہ ہو۔ تم کو (اس کی) خبر تک نہ ہونے پائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد اس سے عذاب آخرت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ اِِلَیْکُمْ مِّنْ رَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ ) (اور اپنے رب کے پاس سے آئے ہوئے اچھے اچھے حکموں پر چلو قبل اس کے تم پر اچانک عذاب آپڑے اور تم کو خیال بھی نہ ہو) اس آیت میں قرآن کریم کا اتباع کرنے کا حکم دیا ہے لفظ احسن اسم تفضیل کا صیغہ ہے اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حسن کے معنی ہیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے عزائم مراد ہیں جو رخصتوں اور اجازتوں کے مقابلے میں اختیار کیے جاتے ہیں اور ان کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر عبادت میں جو افضل ترین اعمال ہیں ان پر عمل کرکے ثواب حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ جو احکام منسوخ ہیں ان کی جگہ اس حکم پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو منسوخ نہیں ہے حضرت عطا بن یسار (رض) نے بیان فرمایا کہ قُلْ یٰعِبٰدِیَ سے لے کر وَّاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ تک تینوں آیات مدینہ منورہ میں وحشی بن حرب (رض) اور ان کے جیسے افراد کے بارے میں نازل ہوئیں (وحشی بن حرب (رض) وہی ہیں جنہوں نے بحالت کفر غزوۂ احد کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب (رض) کو شہید کیا تھا۔ ) آیات بالا کا مضمون سامنے رکھنے سے معلوم ہوا کہ کتنا بھی کوئی بڑا گناہ کرے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اس کی رحمت اور مغفرت کا یقین رکھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو۔ احکام قرآنیہ پر عمل کرتے رہیں اور اس بات سے ڈرتے رہیں کہ گناہوں کی وجہ سے عذاب نہ آجائے انیبوا واسلموا میں بتادیا کہ باوجود وعدہ مغفرت کے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور اعمال خیر میں لگے رہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ ” واتبعوا الخ “ یہ پانچویں دلیل وحی ہے علی سبیل الترقی من الادنی الی الاعلی۔ پہلے فرمایا اعلان کرو میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا جو کچھ کہتا ہوں اللہ کی وحی سے کہتا ہوں۔ پھر فرمایا یہ کیسی عمدہ اور پر تاثیر کتاب ہے (دلیل وحی سوم) یہاں رمایا اس احسن واعلیٰ کتاب کی دل و جان سے پیروی کرو جو تمہارے خالق ومالک کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ قبل اس کے کہ اس کتاب کے احکام کی خلاف ورزی کی وجہ سے اچانک ہی تم پر اللہ کا عذاب آپہنچے اور تمہیں پتہ بھی نہ ہو۔ ” ان تقول الخ ای لئلا تقول الخ “ (روح) ۔ ” فی جنب اللہ “ اللہ کی جانب میں یعنی اس کی اطاعت اور توحید میں۔ یعنی اس احسن و اعلیٰ کتاب کی پیروی کرو تاکہ اس کی مخالفت کی وجہ سے تمہیں حسرت و ندامت سے دو چار نہ ہونا پڑتے۔ اور قیامت کے دن یہ کہنے کا موقع ہی نہ آئے کہ ہائے افسوس ! میں اللہ کی اطاعت میں کوتاہی کی اور اللہ کے احکام کا مذاق ہی اڑاتا رہا۔ ” او تقول الخ “ اور نہ یہ کہنے کا موقع آئے کہ کاش اگر اللہ مجھے سیدھی راہ دکھاتا تو میں راہ حق کو قبول کر کے اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا اور نہ یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش آئے کہ اگر ایک بار پھر مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تو میں دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری کروں گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) اور تمہارے رب کی طرف سے جو اچھے اچھے احکام تمہارے نازل کئے گئے ہیں ان پرچلو اور ان کی پیروی کرو قبل اس کے اور اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب اس طرح آ واقع ہو کہ تم کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔ احکام الٰہی تمام کے تمام اچھے ہیں جیسا کہ ہم فیبتحون احسنہ کی رشح میں ابھی عرض کرچکے ہیں۔ اس عذاب سے مراد بظاہر آخرت کا عذاب ہے جو نفخہ اولیٰ سے شروع ہوگا اور سب کے فنا ہوجانے کے بعد نفخہ ثانیہ پر اس عذاب کا ادراک اور انکشاف ہوگا۔