Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 74

سورة الزمر

وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ صَدَقَنَا وَعۡدَہٗ وَ اَوۡرَثَنَا الۡاَرۡضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الۡجَنَّۃِ حَیۡثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ ﴿۷۴﴾

And they will say, "Praise to Allah , who has fulfilled for us His promise and made us inherit the earth [so] we may settle in Paradise wherever we will. And excellent is the reward of [righteous] workers."

یہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ ... And they will say: "All the praises and thanks be to Allah Who has fulfilled His promise to us..." means, when the believers see the great reward and splendors, blessing and grand generosity, they will say, الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ (All the praises and thanks be to Allah Who has fulfilled His promise to us), meaning, `the promise which He made to us through His Messengers who called us to this in the world.' رَبَّنَا وَءَاتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَـمَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ Our Lord! Grant us what You promised unto us through Your Messengers and disgrace us not on the Day of Resurrection, for You never break (Your) promise. (3:194) وَقَالُواْ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدَانَا لِهَـذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِىَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَأءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ and they will say: "All the praises and thanks be to Allah, Who has guided us to this, and never could we have found guidance, were it not that Allah had guided us! Indeed, the Messengers of our Lord came with the truth." (7:43) and, وَقَالُواْ الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ الَّذِى أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لاَ يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلاَ يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ And they will say: "All the praises and thanks be to Allah Who has removed from us (all) grief. Verily, our Lord is indeed Oft-Forgiving, Most Ready to appreciate (good deeds). Who, out of His grace, has lodged us in a home that will last forever, where toil will touch us not nor weariness will touch us." (35:34-35) ... وَأَوْرَثَنَا الاْأَرْضَ ... and has made us inherit the land. وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الاَْرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ And indeed We have written in Az-Zabur after Adh-Dhikr that My righteous servants shall inherit the land. (21:105) they will say: ... نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاء ... We can dwell in Paradise where we will, meaning, `wherever we want, we can settle; how excellent a reward for our efforts.' In the Two Sahihs, it was reported in the story of the Mi`raj which was narrated by Anas bin Malik, may Allah be pleased with him, that the Prophet said: أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّوْلُوِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْك I was admitted into Paradise where I saw that its domes were pearls and its soil was musk." ... فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ how excellent a reward for the workers!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] جنت کے بطور وراثت دائمی اور مالکانہ حقوق :۔ اہل جنت کو وہاں مالکانہ حقوق حاصل ہوں گے کہ وہ اپنی اپنی وسیع و عریض الاٹ شدہ جنت میں جس جگہ کو اپنے حالات کے موافق سمجھیں وہاں رہیں۔ کیونکہ تَبَوَّاَ کا لفظ ایسی جگہ پر رہائش کے لئے آتا ہے جہاں کی آب و ہوا اور ماحول رہنے والے کی طبیعت کے موافق اور ساز گار ہو۔ [٩٥] اس جملہ کی نسبت متقین کی طرف بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ بات کہیں گے۔ فرشتوں کی طرف بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا : اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو اپنے رب کی حمد اور اس کا شکر ادا کریں گے اور اس بات کا اقرار و اعلان کریں گے کہ اس نے جو وعدہ کیا تھا : (اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ) [ الذاریات : ١٥ ] کہ بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے (اور دوسری آیات مثلاً مریم : ٦٣) وہ وعدہ اس نے پورا فرما دیا۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (٤٣، ٤٤) اور سورة فاطر (٣٣ تا ٣٥) ۔ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ : آدمی جس چیز کا وارث بنتا ہے اس کا پوری طرح مالک بن جاتا ہے، کوئی دوسرا اس پر دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ انھیں ان جگہوں کا بھی مالک بنایا جائے گا جو جہنم میں جانے والوں کی تھیں، اگر وہ نیک عمل کرتے اور یہ مالکانہ حقوق ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ : یہاں ایک سوال ہے کہ جنتی اگر چاہے تو کیا دوسرے اہل جنت کے گھروں میں اپنی جگہ بنا سکے گا ؟ اس کے جواب میں شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” ان کو حکم ہے کہ جہاں چاہیں رہیں، لیکن ہر کوئی وہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے۔ “ (موضح) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر جنتی کے پاس اتنی جگہ ہوگی کہ اسے کسی اور کی جگہ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ ابو سعید خدری (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ جہنم سے نکل کر جنت میں جانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ زمین کے برابر اور اس کے ساتھ اس سے دس گنا زیادہ جگہ عطا فرمائے گا۔ [ دیکھیے بخاري، الأذان، باب فضل السجود : ٨٠٦ ] ظاہر ہے اتنی جگہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی جگہ کی خواہش کوئی کمینہ شخص ہی کرے گا، جب کہ جنت میں کسی کمینگی یا کمینے شخص کی گنجائش ہی نہیں۔ ۚفَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ : یہ بات متقی کہیں گے یا فرشتے، یا یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 74, it was said: نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ (we can dwell anywhere we wish in Jannah). The sense is that, apart from their own special dwelling places, the people of Jannah will be allowed to visit others there and take pleasure trips around. Tabarani, Abu Nu&aym and Diya&, have reported, through a chain rated as &hasan&, from Sayyidah ` A&ishah (رض) that someone came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said to him, &ya rasulAllah, I love you so much that I keep thinking of you even when I go back home and I remain uncomfortable and impatient until I return to you. But, when I remember my death and remember your death, then, it occurs to me that you will be in the higher stations of Jannah and even if I reach there somehow, it is certain that I shall be on a level much below it. My worry is: How am I going to see you?& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) heard what he said, but he remained silent until came the angel, Jibra&il with the following verse: وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَ‌فِيقًا ﴿٦٩﴾ And those who obey Allah and the Messenger are with those whom Allah has blessed, namely, the prophets, the Siddiqin, 1 the Shuhada&, 2 and the righteous - and what a good company they are. - an-Nisa&, 4:69. 1. Siddiq, lexically means &very truthful&. In the Islamic terminology, it normally refers to those Companions of a prophet who excel all others in their submission to Allah and is Messenger. They enjoy the highest status of piety after the Prophets, like Sayyidna Abu Bakr. (back) 2. Shuhada (p1. of Shahid) means the persons who sacrificed their lives in the way of Allah. The word has not been translated here by the word &martyr& which sometimes is taken as an equivalent of Shahid, because the word &martyr& is also applied for the persons killed in ethnic or racial wars while they may not be termed as &Shuhada in the Islamic terminology In this verse, it was clearly stated that Muslims who obey Allah and the Messenger would invariably be with the prophets and those others mentioned therein. Then, from the verse under study we also come to understand that they will be allowed to visit higher stations of Jannah. May Allah Ta’ ala, in His mercy, make us join up with them in Jannah. Alhamdulillah The Commentary on Surah Az-Zumar Ends here

(آیت) نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ۚ۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جنت کے لئے اپنے اپنے مکانات محلات اور باغات تو ہوں گے ہی، ان کو یہ اختیار بھی دیا جائے گا کہ دوسرے اہل جنت کے پاس ملاقات و تفریح کے لئے جایا کریں، طبرانی۔ ابونعیم اور ضیاء نے سند حسن کے ساتھ حضرت عائشہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ سے اتنی محبت ہے کہ اپنے گھر بھی جاتا ہوں تو آپ ہی کو یاد کرتا رہتا ہوں اور جب تک پھر حاضر خدمت نہ ہوجاؤں مجھے صبر نہیں آتا۔ مگر جب میں اپنی موت کو یاد کرتا ہوں اور آپ کی وفات کو یاد کرتا ہوں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کے مقامات عالیہ میں ہوں گے اور اگر جنت میں پہنچ بھی گیا تو کسی نیچے کے درجے میں ہونگا مجھے فکر یہ ہے کہ میں آپ کو کیسے دیکھوں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات سن کر کچھ جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ (آیت) ومن یطع اللہ والرسول فاؤلئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقاً ۔ اس آیت میں بتلا دیا کہ اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والے مسلمان انبیاء و صدیقین وغیرہ کے ساتھ ہی ہوں گے۔ اور آیت مذکورہ میں اس کی تشریح ہوگئی کہ ان کو مقامات عالیہ میں بھی جانے کی اجازت ہوگی۔ الحقنا اللہ تعالیٰ بہم بمنہ وکرمہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّۃِ حَيْثُ نَشَاۗءُ۝ ٠ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۝ ٧٤ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو بَوءَ أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مكان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس/ 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس/ 93] ( ب و ء ) البواء ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ { وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا } ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف اس اکرام کو جاننے لگیں گے تو یہ داخل ہونے والے کہیں گے کہ اللہ کا شکر و احسان ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں سرزمین جنت کا مالک بنایا کہ ہم جہاں چاہیں اس میں قیام کریں غرض دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والوں کا اب اچھا بدلہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ { وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ } ” اور وہ کہیں گے کہ ُ کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کردیا “ { وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ } ” اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ اب ہم گھر بنا لیں جنت میں جہاں چاہیں۔ “ { فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ } ” تو بہت ہی اچھا ہوگا اجر عمل کرنے والوں کا ! “ گواہوں نے گواہیاں دے دیں ‘ آخری فیصلے صادر کردیے گئے ‘ سزا پانے والوں کو جہنم کی طرف بھیج دیا گیا ‘ کامیاب ہونے والوں کو جنت میں پہنچا دیا گیا۔ اب آخری آیت میں گویا عدالت ِمحشر کا اختتامی منظر (ڈراپ سین) دکھایا جا رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84 Maybe this is said by the dwellers of Paradise, or maybe this sentence is added by Allah to what the dwellers of Paradise will say.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :82 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، صفحات 125 ، 134 ۔ 135 ، 189 تا 192 ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :83 یعنی ہم میں سے ہر ایک کو جو جنت بخشی گئی ہے وہ اب ہماری ملک ہے اور ہمیں اس میں پورے اختیارات حاصل ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :84 ہو سکتا ہے کہ یہ اہل جنت کا قول ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل جنت کی بات پر یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اضافہ ارشاد فرمایا گیا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤۔ ٧٥۔ جب اہل جنت فرشتوں سے جنت میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری سنیں گے اور جنت کی نعمتیں دیکھیں گے تو اس وقت اس طرح اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں گے جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ سب تعریف اس خدا کو ہے جس نے سچا کیا ہم سے وعدہ اپنا جو دنیا میں رسولوں کی معرفت کیا تھا اور اس وعدہ کے موافق ہم کو جنت میں وہ نعمتیں عنایت کیں کہ جو نہ ہم نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کبھی ہمارے دل میں ان کا خیال گزرا صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جنتی لوگوں کو جنت میں وہ نعمتیں ملیں گی کہ جو نہ انہوں نے کبھی آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کبھی ان کے دل پر ان کا خیال گزرا۔ ابن ماجہ ٣ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی ایک اور صحیح حدیث گزر چکی ہے کہ ہر شخص کا ایک ٹھکانہ جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا گیا ہے لیکن جو لوگ ہمیشہ کے لئے دوزخی ٹھہریں گے اور ان کے جنت کے ٹھکانے خالی رہ جائیں گے آخر کو جنتی لوگ ان لاوارث ٹھکانوں کے بھی وارث بن جائیں گے۔ ان حدیثوں کو پہلی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد جنتی لوگ اس لئے بےاختیار اللہ تعالیٰ کا شکریہ زبان پر لائیں گے کہ ان کی امید سے بڑھ کر ان کو جنت میں نعمتیں نظر آئیں گی اسی واسطے وہ اپنی نیکیوں کے اجر کو اچھا اجر بتلائیں گے اور جنت کے مکانوں اور باغوں کا وارث اپنے آپ کو اس لئے ٹھہرائیں گے کہ لاوارث مکانات اور باغوں کا بھی ان کو وارث بنا دیا جائے گا کہ تفریح کے طور پر جہاں جن کا جی چاہے وہاں رہیں۔ اسی تفریح کے مطلب کو جنتی لوگ نتبوامن الجنتہ حدیث نشاء کے لفظوں سے ادا کریں گے۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہراکر فرمایا کہ جنتی لوگ جنت کی نعمتیں دیکھ کر ادھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر رہے ہیں اور نیک و بد کا انصاف سے جو فیصلہ ہوجائے اس فیصلہ کو دیکھ کر اللہ کے فرشتے ادھر عرش معلیٰ کے گردا گرد کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کریں گے اے رسول اللہ قیامت کے دن جہاں اور نئی باتیں تمہارے دیکھنے میں آئیں گی وہاں اللہ تعالیٰ کے دربار کا یہ موقع اس دن دیکھنے کے قابل ہوگا سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر بنی آدم کے پیدا کرنے کا ارادہ فرشتوں سے ظاہر کیا تو فرشتوں نے عرض کیا تھا کہ بنی آدم کے پیدا ہونے سے خون ریزی اور طرح طرح کے فساد کا اندیشہ ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ دیا تھا کہ بنی آدم کے پیدا کرنے میں جو حکمت ہے وہ مجھ کو خوب معلوم ہے تم کو معلوم نہیں اب نیک و بد کے فیصلہ کے بعد جو قیامت کے دن انبیاء صدیق شہید اور نیک لوگوں کی جماعتیں جنت میں جائیں گی تو بنی آدم کے پیدا کرنے کی حکمت الٰہی اچھی طرح فرشتوں کو معلوم ہوجائیں گی اس لئے بےساختہ ان کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا آئے گی۔ (٢ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ ص ٤٦٠ ج ١۔ ) (٣ ؎ ابن ماجہ باب صفۃ الجۃ ص ٣٣٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:74) اور ثنا : اور ث ماضی واحد مذکر غائب ایراث (افعال) مصدر نا ضمیر مفعول جمع متکلم اس نے ہم کو وارث بنایا۔ کہ جس طرح چاہیں استعمال میں لائیں ۔ الارض۔ سے مراد زمین جنت ہے۔ نتبوا مضارع جمع متکلم۔ تبوء (تفعل) مصدر ب و ء مادہ۔ البواء کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزاء کا مساوی اور سازگار ہونے کے ہیں۔ لہٰذا مکان بواء اس مقام کو کہتے ہیں کہ جو اس جگہ اترنے والے کے لئے سازگار اور موافق ہو۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو درست اور ہموار کیا۔ تبوا المکان کسی جگہ اقامت اختیار کرنا۔ نتبوأ ہم سکونت اختیار کریں۔ ہم سکونت پذیر ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی مرنے کے بعد زندہ کرنے اور جنت عطا فرمانے کا جو اس نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا وہ اس نے سچا کر دکھایا۔5 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” ان کو حکم ہے جہاں چاہیں رہیں لیکن ہر کوئی وہی جگہ لے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے “۔ ( موضح)6 صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلی ٹولی میں جو اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے اور جو ان کے بعد داخل ہونگے ان کے چہرے آسمان کے روشن ترین ستاروں کی طرح روشن ہوں گے۔ ( وھکذا درجۃ بعد درجۃ ) (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ہر شخص کو خوف فراغت کی جگہ ملی ہے۔ 2۔ یہ یا تو ان ہی کا کلام ہے یا اللہ تعالیٰ کا ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 74 یہ جنت کی سر زمین کے وارث ہوگئے۔ جہاں چاہتے ہیں اس کے اندر جارہے ہیں اور بس رہے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کھا رہے ہیں ، سب کچھ موجود ہے۔ ۔ اب اس منظر کا خاتمہ نہایت ہی خوفناک انداز میں ہوتا ہے ، لیکن یہ جلال بھی نہایت دھیمی انداز کا ہے۔ اس منظر کی فضا سے ہم رنگ ۔ پوری کائنات رب کی ثنا میں رطب اللسان ہے۔ نہایت ہی دھیمے انداز میں ، خشوع اور سرافگندگی کے ساتھ اور ہر زندہ مخلوق جس کلمے کو دہراتی وہ نہایت عجز کے ساتھ دہراتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71:۔ ” وقالوا الخ “ اہل جنت اس وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کریں گے اور کہیں گے کہ جس طرح دنیا میں تمام صفات کارسازی اللہ کے ساتھ خاص تھیں آخرت میں بھی وہی کارساز اور مفیض برکات ہے اور ہر قسم کے شریکوں سے پاک ہے ہر حمد وثناء اس ذات پاک کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ہمیں ارض جنت کا وارث بنایا کہ جنت میں ہم جہاں چاہیں رہیں۔ عمل کرنے والوں کا اجر وثواب کتنا اچھا ہے وعدے سے حشر و نشر اور اجر وثواب کا وعدہ مراد ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے سے کیا گیا تھا (روح) اور ارض سے ارض جنت مراد ہے۔ والمراد بالارض ارض الجنۃ (کبیر جلد 7 ص 288) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) اوریہ متقی لوگ جنت میں داخل ہوکر کہیں گے سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کو لائق اور سزاوار ہیں جس نے اپنا وعدہ ہمیں سچ کر دکھایا اور ہم کو اس سرزمین کا وارث اور مالک بنادیا کہ ہم اس بہشت میں جہاں چاہیں سکونت اختیار کریں۔ غرض یہ بہشت کیا ہی اچھا صلہ ہے محنت کرنے والوں کا۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جنت کہیں گے الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کیا اور جو کہا تھا وہی کیا سرزمین بہشت کا مالک بنایا جگہ اس قدر وافر کہ جہاں چاہیں سکونت پذیر ہوں اور جہاں چاہیں چلیں پھریں سیر کریں یعنی جو جگہ ہمارے لئے مقرر کی گئی ہے وہ بہت وسیع ہے آخر میں جو کلام ہے وہ یا متقیوں ہی کا ہے یا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا صلہ اور اجر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان کو حکم ہے کہ جہاں چاہیں رہیں لیکن ہر کوئی وہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے رکھی ہے۔