Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 9

سورة الزمر

اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ٪﴿۹﴾  15

Is one who is devoutly obedient during periods of the night, prostrating and standing [in prayer], fearing the Hereafter and hoping for the mercy of his Lord, [like one who does not]? Say, "Are those who know equal to those who do not know?" Only they will remember [who are] people of understanding.

بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں ( عبادت میں ) گزار تا ہو ، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو ( اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں ) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں ۔ ( اپنے رب کی طرف سے )

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Obedient and the Sinner are not equal Allah says, `is the one who is like this equal to one who associates others in worship with Allah and sets up rivals to Him?' They are not equal before Allah, as He says: لَيْسُواْ سَوَاءً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ أُمَّةٌ قَأيِمَةٌ يَتْلُونَ ءَايَـتِ اللَّهِ ءَانَأءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ Not all of them are alike; a party of the People of the Scripture stands for the right, they recite the Ayat of Allah Ana'a Al-Layl, prostrating themselves (in prayer). (3:113) And Allah says here: أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ انَاء اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَايِمًا ... Is one who is obedient to Allah, Ana'a Al-Layl prostrating and standing, meaning, one who is humble and fears Allah when he prostrates and stands (in prayer). It was reported that Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him, said: "The obedient one is one who obeys Allah and His Messenger." Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Al-Hasan, As-Suddi and Ibn Zayd said, Ana'a Al-Layl means in the depths of the night. ... يَحْذَرُ الاْخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ... fearing the Hereafter and hoping for the mercy of his Lord. means, in his worship he feels both fear and hope. Both are essential in worship, and fear should be stronger during one's lifetime. Allah says: يَحْذَرُ الاْخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ (fearing the Hereafter and hoping for the mercy of his Lord), At the time of death, hope is uppermost, as Imam `Abd bin Humayd recorded in his Musnad from Anas, may Allah be pleased with him, who said, "The Messenger of Allah entered upon a man who was dying, and said to him, كَيْفَ تَجِدُكَ (How do you feel?) He said, `I am both afraid and hopeful.' The Messenger of Allah said: لاَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الَّذِي يَرْجُو وَأَمَّنَهُ الَّذِي يَخَافُه "These do not co-exist in a person's heart at times such as this, but Allah will give him what he hopes for and protect him from that which he fears." This was recorded by At-Tirmidhi, An-Nasa'i in Al-Yawm wal-Laylah, and Ibn Majah from the Hadith of Yasar bin Hatim from Ja`far bin Sulayman. At-Tirmidhi said, "Gharib." Imam Ahmad recorded that Tamim Ad-Dari, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: مَنْ قَرَأَ بِمِايَةِ ايَةٍ فِي لَيْلَةٍ كُتِبَ لَهُ قُنُوتُ لَيْلَة Whoever recites one hundred Ayat in one night, it will be recorded as if he prayed all night. This was also recorded by An-Nasa'i in Al-Yawm wal-Laylah. ... قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ ... Say: "Are those who know equal to those who know not?" means, is this one equal with the one who sets up rivals to Allah to mislead (men) from His path? ... إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الاَْلْبَابِ It is only men of understanding who will remember. means, the only one who will understand the difference between them is the one who has understanding. And Allah knows best.

مشرک اور موحد برابر نہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جس کی حالت یہ ہو وہ مشرک کے برابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) ، یعنی سب کے سب برابر کے نہیں ۔ اہل کتاب میں وہ جماعت بھی ہے جو راتوں کے وقت قیام کی حالت میں آیات الہیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ قنوت سے مراد یہاں پر نماز کا خشوع خضوع ہے ۔ صرف قیام مراد نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے قانت کے معنی مطیع اور فرمانبردار کے ہیں ۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ اناء الیل سے مراد آدھی رات سے ہے ۔ منصور فرماتے ہیں مراد مغرب عشاء کے درمیان کا وقت ہے ۔ قتادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ۔ اول درمیانہ اور آخری شب مراد ہے ۔ یہ عابد لوگ ایک طرف لرزاں و ترساں ہیں دوسری جانب امیدوار اور طمع کناں ہیں ۔ نیک لوگوں پر زندگی میں تو خوف اللہ امید پر غالب رہتا ہے موت کے وقت خوف پر امید کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس اس کے انتقال کے وقت جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو کس حالت میں پاتا ہے؟ اس نے کہا خوف و امید کی حالت میں ۔ آپ نے فرمایا جس شخص کے دل میں ایسے وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اس کی امید اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے اور اس کے خوف سے اسے نجات عطا فرماتا ہے ۔ ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ وصف صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا ۔ فی الواقع آپ رات کے وقت بکثرت تہجد پڑھتے رہتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی لمبی قرأت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں قرآن ختم کر دیتے تھے ۔ جیسا کہ ابو عبید سے مروی ہے ۔ شاعر کہتا ہے ۔ صبح کے وقت ان کے منہ نورانی چمک لئے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسبیح و تلاوت قرآن میں رات گذاری ہے ۔ نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جس نے ایک رات سو آیتیں پڑھ لیں اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہے ( مسند وغیرہ ) پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہو سکتے ، عالم اور بےعلم کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا ۔ ہر عقل مند پر ان کا فرق ظاہر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش و بصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرکے غور و تدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت و نصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل و دانش سے محروم ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] اللہ کے ہاں عالم کون اور جاہل کون ؟ اب ایک یہ شخص ہے جو صرف مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارتا ہے۔ اور اسے قرآن && جاہل یا نہ جاننے والے && کے نام سے پکارتا ہے۔ خواہ وہ علامہ ئدہر ہو اور دوسرا وہ شخص ہے جو تنگی ترشی اور خوشحالی غرض ہر طرح کے حالات میں صرف اللہ پر ہی تکیہ کرتا ہے اور اسے ہی پکارتا ہے۔ رات کے اندھیروں میں اس کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اسی سے ڈرتا ہے اور اسی سے اس کی رحمت کی توقع بھی رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو && عالم یا جاننے والے && کے نام سے پکارتا ہے۔ خواہ وہ پرائمری پاس بھی نہ ہو یا ابتدائی دینی کتابیں بھی نہ پڑھا ہو۔ اور اس مفہوم کی تائید قرآن کریم کے ایک اور جملہ (إنَّمَا یَخْشَی اللّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۤؤُا) (٣٥: ٣٨) سے بھی ہوجاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اہل عقل و خرد کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ بتاؤ ان دونوں کی طرز زندگی ایک جیسی ہے یا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ ۔۔ : ” قَانِتٌ“ کا معنی عبادت کرنے والا بھی ہے، فرماں بردار بھی اور خشوع و عاجزی کرنے والا بھی۔ ” امن “ (یا وہ شخص) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ الفاظ محذوف ہیں، یعنی ” أَ ھٰذَا خَیْرٌ“ (کیا یہ مصیبت میں اپنے رب کو پکارنے والا اور نعمت عطا ہونے پر اسے بھول جانے والا بہتر ہے) ” اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ“ یا وہ شخص جو صرف دن کے وقت ہی نہیں بلکہ رات کی گھڑیوں میں بھی سجدے اور قیام کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والا اور ہر حال میں اسی کا فرماں بردار ہے ؟ جواب ظاہر ہے کہ یہ مومن (قانت) ہر لحاظ سے اس سے بہتر ہے۔ يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ : ایمان اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے امید کے درمیان ہے۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک نوجوان کے پاس گئے جو موت (کے چل چلاؤ) میں تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَیْفَ تَجِدُکَ ؟ قَالَ وَاللّٰہِ ! یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِنِّيْ أَرْجُو اللّٰہَ وَ إِنِّيْ أَخَافُ ذُنُوْبِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَا یَجْتَمِعَانِ فِيْ قَلْبِ عَبْدٍ فِيْ مِثْلِ ہٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہ اللّٰہُ مَا یَرْجُوْ وَ آمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ ) [ ترمذي، الجنائز، باب الرجاء باللّٰہ والخوف بالذنب عند الموت : ٩٨٣ ] ” تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس جیسے مقام پر کسی بندے کے دل میں یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس چیز سے اسے امن عطا کردیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔ “ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ ۔۔ : یہاں ” الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ “ (جاننے والے) ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو دن رات، خوش حالی و بدحالی میں ہر وقت ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے والے اور اسی کے فرماں بردار ہیں اور ” والَّذِيْنَ لا يَعْلَمُوْنَ “ (نہ جاننے والے) ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو تکلیف اور مصیبت میں تمام معبودوں سے واپس پلٹ کر ایک اللہ ہی کو پکارتے ہیں، مگر خوش حالی میں اسے بھول کر اللہ تعالیٰ کے لیے کئی شریک بنا لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، نعمت عطا ہونے پر اسے بھلا دیتے ہیں اور اس کے شریک بنا لیتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں نہ جاننے والے قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے علم پر عمل نہیں کرتا وہ جاہل (لَا یَعْلَمُ ) ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا) [ فاطر : ٢٨ ] ” اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف علماء (جاننے والے) ہی ڈرتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والے اللہ کے نزدیک علماء نہیں، خواہ ان کے پاس کتنی ڈگریاں اور کتنے عہدے ہوں اور خواہ انھوں نے کتنی کتابیں یا کتب خانے چاٹ رکھے ہوں۔ 3 اس آیت سے علم اور اس پر عمل کرنے والے اہل علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ آتَاہ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَتْلُوْہُ آنَاء اللَّیْلِ وَ آنَاء النَّہَارِ ، وَ رَجُلٌ آتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَاء اللَّیْلِ وَآنَاء النَّہَارِ ) [ بخاري، التوحید، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رجل آتاہ اللّٰہ القرآن۔۔ : ٧٥٢٩ ] ” دو چیزوں کے سوا رشک کرنا درست نہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا تو وہ رات کی گھڑیوں میں اور دن کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے کھلا مال عطا کیا ہے تو وہ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں اسے خرچ کرتا ہے۔ “ امام بخاری (رض) نے ” بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ “ میں علم کی فضیلت میں دو آیات نقل فرمائی ہیں، ایک سورة مجادلہ کی : (يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ) [ المجادلۃ : ١١ ] ” اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ “ اور دوسری سورة طٰہٰ کی : (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا) [ طٰہٰ : ١١٤ ] ” اور کہہ اے میرے رب ! مجھے علم میں زیادہ کر۔ “ موسیٰ اور خضر ( علیہ السلام) کا واقعہ بھی علم کی فضیلت کی دلیل ہے۔ (دیکھیے بخاری : ٧٤) اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ “ الْاَلْبَابِ ” لُبٌّ“ کی جمع ہے، مغز، عقل۔ جمع ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” عقلوں والے “ کیا گیا ہے۔ ان عقلوں والوں سے مراد اہل ایمان ہیں نہ کہ کفار، گو وہ اپنے آپ کو کس قدر عقل و دانش والے سمجھتے ہوں، کیونکہ جب وہ اپنی عقلوں کو استعمال کر کے نصیحت حاصل ہی نہیں کرتے تو عقلوں والے کیسے ہوئے ! ؟ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی طرح بلکہ ان سے بھی ” اضل “ قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) اور انبیاء (٤٦) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the first sentence of verse 9, it was said: أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ (Can (such people be equal to) the one who worships during the hours of the night, prostrating and standing, fearing the Hereafter and having hopes in his Lord&s mercy?). The first word: أَمَّنْ (amman) is a combination of two words: اَم (am: an interrogative particle) and: مَن (man: relative pronoun). Before this sentence, the disbelievers have told on behalf of Allah Ta’ ala that they can go ahead and enjoy the fruits of their disbelief and sin during this mortal life, but finally they are doomed to stoke the fire of Jahannam. After then, the present sentence takes up the description of an obedient believer that has been initiated with the question word of أَمَّنْ (amman). Scholars of exegesis have said that there is an ellipsis of a sentence that should have appeared earlier, that is, the disbeliever will be told, &are you better, or is it the obedient believer who has been mentioned later?&. The word: قَانِت (qanit) has been explained variously. That which comprehends all these meanings comes from Sayyidna Ibn Masud (رض) . According to him, it means devotedly obedient, and when this word is used in conjunction with Sala ھ ، as in: قُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ (Stand before Allah in total devotion - Al-Baqarah, 2:238), there it means the person who lowers his gaze in salah, does not see right and left, does not play with his body or clothes and does not voluntarily remember anything from his worldly life. Any incidence of forgetfulness or involuntary scruple would not be considered contrary to this. (Qurtubi) Immediately next in verse 9, it was said: آنَاءَ اللَّيْلِ (during the hours of the night). The expression means hours of the night and denotes the early, the middle and the last part of the night. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said that, &a person who wishes that Allah Ta’ ala would make the reckoning on the plains of Resurrection easy on him should so manage himself that Allah Ta’ ala finds him in the state of Sujud (prostration) and Qiyam (stance of standing) during the darkness of the night in an emotional condition in which he is concerned about his fate in the Hereafter, yet is hoping for the mercy of Allah.& Some early commentators have identified the time between Maghrib and &Isha& also as included in the expression آنَاءَ اللَّيْلِ (&ana&-ul-lail). (Qurtubi)

اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ ۔ لفظ امن دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ام حرف استفہام اور من اسم موصول اس جملے سے پہلے کفار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اپنے کفر اور فسق و فجور کے مزے اڑا لو، آخر کار تم جہنم کے ایندھن ہو گے۔ اس کے بعد اس جملے میں مومن مطیع کا بیان ہے جس کو امن کے لفظ سے شروع کیا گیا ہے۔ علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے کہ کافر سے کہا جائے گا کہ تو اچھا ہے یا وہ مومن مطیع جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ لفظ قانت کے کئی ترجمے کئے گئے ہیں۔ سب کو جامع قول حضرت ابن مسعود کا ہے۔ اس کے معنی ہیں اطاعت گزار اور یہ لفظ جب خاص نماز کے لئے بولا جائے۔ جیسے (آیت) قوموا للہ قانتین۔ تو وہاں مراد وہ شخص ہوتا ہے جو نماز میں اپنی نگاہ کو پست رکھے، ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے بدن یا کپڑوں سے کھیل کرے، نہ دنیا کی کسی چیز کو اپنے اختیار سے نماز میں یاد کرے۔ بھول اور غیر اختیاری وسوسہ اس کے منافی نہیں۔ (قرطبی) اٰنَاۗءَ الَّيْلِ کے معنی ساعات اللیل کے ہیں۔ جس سے مراد رات کا شروع حصہ اور درمیانی اور آخر ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ محشر کے موقف حساب میں اللہ تعالیٰ اس پر آسانی فرما دیں، اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو رات کی اندھیری میں سجدہ اور قیام کی حالت میں پائے۔ اس طرح کہ اس کو آخرت کی فکر بھی ہو اور رحمت کی امید بھی۔ بعض حضرات نے مغرب و عشاء کے درمیان کے وقت کو بھی اناء اللیل کہا ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ ہُوَقَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَيَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ۝ ٠ ۭ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٠ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝ ٩ۧ قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] . ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں آنا ( ساعت) وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ : يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران/ 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه/ 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئةوآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء «2» أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن/ 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية/ 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا[ الحدید/ 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال «3» : آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي : وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع . ( ا ن ی ) انی ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ { أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا } ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) { غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ } ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے { حَمِيمٍ آنٍ } ( سورة الرحمن 44) میں عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ } ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں { وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ } ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قائم أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بھلا وہ شخص جو رات کے وقت نماز میں سجدہ و قیام کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہو اور عذاب آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت یعنی جنت کی امید کرتا ہو ان خوبیوں کے مالک رسول اکرم اور آپ کے صحابہ کرام ہیں تو یہ لوگ اور ابو جہل مشرک مذکور برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ شان نزول : اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ (الخ) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور ابن سعد نے کلبی کے طریق سے بواسطہ ابو صالح حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت عمار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور جو بیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابن مسعود، عمار بن یاسر، سالم مولی بی حذیفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ نیز عکرمہ کے واسطہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّـیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ } ” بھلا وہ شخص جو بندگی کرنے والا ہے رات کی گھڑیوں میں ‘ سجود و قیام کرتے ہوئے ‘ وہ آخرت سے ڈرتا رہتا ہے ‘ اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے ! “ ان الفاظ کے بعد کی عبارت محذوف ہے اور یہ اسلوب اس سورت میں بار بار آتا ہے۔ آگے چل کر متعدد آیات ایسی ملیں گی جہاں جملوں کو نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہے کہ سننے یا پڑھنے والا اپنے علم ‘ ذہن اور ذوق کے مطابق خود مکمل کرلے۔ چناچہ یہاں پر کَمَنْ ھُوَ غَافِلٌ ؟ کے الفاظ سے اس جملے کو مکمل کیا جاسکتا ہے کہ کیا ایک ایسا شخص جو اللہ کا فرمانبردار ہے ‘ وہ اپنی راتوں کی گھڑیاں اللہ کے حضور اس کیفیت میں گزارتا ہے کہ کبھی سجدے میں پڑا ہوا ہے اور کبھی حالت قیام میں ہے ‘ اس کے دل میں آخرت کا خوف بھی ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی ‘ کیا وہ ایک ایسے شخص کے برابر ہوجائے گا جو بالکل غفلت میں پڑا ہوا ہے ؟ { قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہہ دیجیے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے ؟ “ { اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ } ” حقیقی نصیحت اور سبق تو وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 It should be noted that two kinds of the men are being contrasted here. First, those who turn to Allah when a calamity befalls them, but worship others than Allah normally. Second, those who have made it their permanent way of life to obey Allah and worship and serve Him, and their worshipping Him in solitude during the night is a proof of their sincerity. The first kind of the men have been called ignorant by Allah, even if they might have devoured whole libraries. And the second kind of the men have been called the learned, even if they might be illiterate. For the real supremely important thing is the knowledge of the Truth and man's action according to it, and on this depends his true success. Allah asks: How can these two be equal? How can they possibly follow the same way together in the world, and meet with the same end in the Hereafter?

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :28 واضح رہے کہ یہاں مقابلہ دو قسم کے انسانوں کے درمیان کیا جا رہا ہے ۔ ایک وہ جو کوئی سخت وقت آ پڑنے پر تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام حالات میں غیر اللہ کی بندگی کرتے رہتے ہیں ۔ دوسرے وہ جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور اس کی بندگی و پرستش کو اپنا مستقل طریقہ بنالیا ہے اور راتوں کی تنہائی میں ان کا عبادت کرنا ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے ۔ ان میں سے پہلے گروہ والوں کو اللہ تعالیٰ بے علم قرار دیتا ہے ، خود انہوں نے بڑے بڑے کتب خانے ہی کیوں نہ چاٹ رکھے ہوں ۔ اور دوسرے گروہ والوں کو وہ عالم قرار دیتا ہے ، خواہ وہ بالکل ہی ان پڑھ کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ اصل چیز حقیقت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے ، اور اسی پر انسان کی فلاح کا انحصار ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں آخر یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں یہ مل کر ایک طریقے پر چلیں ، اور آخرت میں دونوں ایک ہی طرح کے انجام سے دو چار ہوں ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی اگر آخرت کا حساب و کتاب نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ مومن کافر اور بدکار اور نیک سب برابر ہوجائیں گے، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور انصاف سے ممکن نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ مشرکین مکہ حشر کے قائل نہیں تھے۔ اس لئے وہ یہ کہتے تھے کہ جینا اور مرنا فقط یہی دنیا کی زندگی اور موت ہے۔ عمر پوری ہوجانے کے بعد جب آدمی مر کر خاک ہوگیا تو پھر کچھ بھی نہیں۔ سورة الجاثیہ میں مشرکوں کے اس قول کی زیادہ تفصیل آوے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے قول کا جواب کئی طرح سے قرآن شریف میں دیا ہے۔ اس آیت میں مشرکوں کے اس قول کا جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہ مشرک کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد پھر کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسا ہو تو جو لوگ ہر وقت اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اور اس کے اجر کی اللہ سے توقع رکھتے ہیں۔ اور دنیا میں ان کا یہ کام اس لئے پورا نہیں ہوا کہ اس طرح کے اکثر لوگوں کی زندگی بھی کچھ خوشحالی سے نہیں گزری۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کی خالص عبادت کے منکر ہیں۔ اللہ کے کلام اور اللہ کے رسول کا جھٹلانا ان کا رات دن کا مشغلہ ہے۔ اور دنیا میں بھی اس کی زندگی خوشحالی سے گزرتی ہے۔ اب ان دونوں گروہ کو ایک حالت پر چھوڑ دینا تو ایسی بےانصافی ہے۔ کہ خود یہ لوگ بھی فرمانبردار اور نافرمان غلاموں کے حق میں اس کو جائز نہیں رکھتے پھر اللہ تعالیٰ کے انصاف پر یہ دھبہ کیوں لگاتے ہیں کہ اس کی بارگاہ میں نہ فرمانبرداری کا کچھ ثمرہ ہے۔ نہ نافرمانی کی کچھ پرسش اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اسی ارادہ سے پیدا کیا ہے۔ کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد ایک دوسرا جہاں نیک و بد کی جزا و سزا کا پیدا کیا جاوے۔ جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ بڑے نادان ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ دنیا میں جو کام کرتے ہیں اس کا نتیجہ دل میں سوچ لیتے ہیں۔ مثلاً تجارت کرتے ہیں فائدہ حاصل کرنے کے لئے کھیتی کرتے ہیں اناج ہاتھ آنے کو باغ لگاتے ہیں میوہ کھانے کے لئے پھر کیا ان کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے کا اتنا بڑا کام یوں ہی بلا نتیجہ کیا ہے۔ ان مشرکوں کے قول کے موافق جس طرح اہل دنیا مر کر خاک میں مل جاویں گے۔ تو کیا دنیا کے پیدا کرنے کا نتیجہ بھی خاک میں مل جاوے گا نہیں نہیں مرنے کے بعد جیسا دنیا کے پیدا کرنے کا نتیجہ ان کی آنکھوں کے سامنے آوے گا۔ تو اس وقت یہ لوگ اپنی اس نادانی پر بہت پچھتاویں گے۔ مگر وہ بےوقت کا پچھتانا کچھ ان کے کام نہ آوے گا۔ صحیح مسلم ٢ ؎ ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے منکر حشر لوگ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو وہ نعمتیں یاد دلاوے گا جو انہیں دنیا میں دی گئی تھیں بعد اس کے اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پوچھے گا کہ جس اللہ نے یہ سب نعمتیں پیدا کی تھیں۔ اس کے رو برو کھڑے ہو کر حساب و کتاب کا بھی تمہارے دل میں کبھی خیال گزرا تھا۔ وہ لوگ کہیں گے کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماوے گا کہ جس طرح تم لوگوں نے میرے سامنے کھڑے ہونے کو دنیا میں بھلا دیا۔ اس طرح آج میں نے بھی تم کو رحمت کی یاد سے بھلا دیا اور نظر رحمت سے دور ڈال دیا۔ اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنی نظر رحمت سے دور ڈال دیوے گا اس کا سوا دوزخ کے اور کہاں ٹھکانا ہے یہ حدیث منکرین حشر کے انجام کی گویا تفسیر ہے۔ (٢ ؎ صحیح مسلم فصد فی بیان ان الاعضاء منطقۃ شاھدۃ یوم القیمۃ ص ٤٠٩ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:9) امن۔ ام من سے مرکب ہے۔ ام کی دو صورتیں ہیں۔ (1) ام متصلہ ہے ای الکافر خیر ام ھو قانت۔ کافر بہتر ہے یا وہ جو اطاعت گزار ہے۔ (2) ام منقطعہ ہے۔ ای بل ام من ھو قانت کما ھو بضدہ۔ بلکہ کیا وہ جو اطاعت گزار ہے اسی کی طرح ہے جو اس کی ضد ہے۔ یہاں ام بمعنی حرف اضراب ہے کشاف میں ہے من مبتداء خبرہ محذوف تقدیرہ امن ھو قانت کغیرہ۔ قانت۔ اسم فاعل واحد مذکر قنوت مصدر قنت مادہ۔ باب نصر۔ اس کے معنی خشوع و خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں۔ فرمانبردار۔ اطاعت گزار۔ ہمہ تن مصروف عبادت ۔ کامل توجہ کے ساتھ خداوند قدوس کی جلالت و عظمت کا استحضار کرتے ہوئے اپنی فروتنی اور عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادتو اطاعت میں مشغول رہنے والا۔ اناء الیل مضاف مضاف الیہ ۔ رات کے اوقات۔ انی بروزن عصا کی جمع ہے جس کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں۔ انی کا استعمال دن بھر اور رات بھر کے لئے ہوتا ہے۔ ساجدا۔ (سجدہ ریز۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب سجدہ کرنے والا) قائما اسم فاعل واحد مذکر بحالت نصب۔ نماز میں کھڑا ہونے والا) قانت کا حال ہیں۔ یحذر (مضارع واحد مذکر غائب حذر مصدر باب سمع۔ ڈرتا ہے) الاخرۃ (مفعول ہے یحذر کا) آخرت سے ڈرتا ہو۔ یہ بھی قانت کا حال ہے۔ یرجوا رحمۃ ربہ : یرجوا مضارع واحد مذکر غائب رجاء مصدر باب نصر امید رکھتا ہے رحمۃ مضاف ربہ مضاف مضاف الیہ مل کر رحمۃ کا مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر یرجوا کا مفعول اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے ۔ یہ بھی قانت سے حال ہے۔ ہل یستوی : ہل استفہام انکاری کے لئے ہے یستوی مضارع واحد مذکر غائب۔ استواء (استفعال) مصدر۔ کیا برابر ہے ؟ یعنی برابر نہیں ہے (یہاں صیغہ واحد مجمع کے لئے ّیا ہے) ۔ الذین یعلمون والذین لایعلمون ۔ وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے۔ تفسیر ماجدی میں اسکی یوں تشریح کی گئی ہے :۔ محاورۃ قرآنی میں علم سے مراد علم حقائق سے ہوتی ہے اور بےعلمی سے مراد اس علم نے محرومی ہے۔ قرآن مجید نے علم سے کہیں بھی وہ چیزیں مراد نہیں لی ہیں جنہیں دنیا میں علوم و فنون کہا جاتا ہے۔ الذین یعلمون کا لفظ قانت اور ساجد اور قائم کے لئے آیا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے لئے جو صاحب عمل ہوتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں جو لوگ بےعمل ہوتے ہیں انہیں الذین لا یعلمون سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ عمل کی کتنی فضیلت اسلام میں ہے اور جو لوگ صرف علم پر بلا عمل قانع رہتے ہیں انہیں قرآن بےعلم یا جایل ہی قرار دیتا ہے ۔ وھو تنبیہ علی ان من لایعمل فھو غیر عالم اور یہ تنبیہ ہے کہ جو عامل نہیں ہے وہ غیر عالم ہی ہے (کشاف ، کبیر) یتذکر۔ مضارع واحد مذکر غائب تذکر (تفعل) وہ نصیحت پکڑتا ہے۔ اولو الالباب۔ صاحب عقل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3” اس کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جس کا ذکر بھی ہوا “۔ یہ عبارت محذوف ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور حال دریافت فرمایا۔ وہ بولا ” مجھے اللہ کی رحمت کی امید ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر ہے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسے وقت میں جس بندے میں یہ دونوں باتیں ہوں گی اس کو اللہ تعالیٰ وہی دیگا جس کی اسے امید ہے۔ ( شوکانی)4 یعنی کیا وہ لوگ جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جانتے ہیں ان لوگوں کے برابر ہوسکتے ہیں جو ان باتوں کو سچ نہیں جانتے ؟ ظاہر ہے کہ دونوں یکساں نہیں ہوسکتے۔ نہ دنیا میں ان کی روش یکساں ہوسکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک سا ہوگا۔ 5 ان سے مراد اہل ایمان ہیں کیونکہ عقل وہی معتبر ہے جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 9 یہ نہایت ہی روشن اور حساس تصویر ہے۔ مطیع فرمان ، اطاعت شعار ، سجدے کی حالت میں اور رکوع کی حالت میں ہونا دراصل حساس اطاعت شعاری ہے ۔ ایسا شخص آخرت سے ڈرتا ہے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے۔ یہ صفائی اور باطن کی یہ شفافی انسانی بصیرے کو کھول دیتی اور انسانی دل و دماغ کو دیکھنے ، اخذ کرنے اور فکر کرنے کی قوت عطا کرتی ہے۔ ان تمام امور کے ذریعہ مومنین کی بہت ہی اچھی تصویر کھنچ جاتی ہے۔ جبکہ آیت سابقہ میں مشرکین کی نہایت ہی بھونڈی تصویر تھی۔ اس کے بعد ان کے درمیان موازنہ دیکھئے۔ قل ھل ۔۔۔۔ یعلمون (39: 9) ” ان سے پوچھو کیا علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے دونوں یکساں ہوسکتے ہیں “۔ سچا علم دراصل الہی معرفت کا نام ہے۔ سچائی تک پہنچنے کا نام ہے۔ اور ایساعلم انسانی بصیرت کو کھول دیتا ہے۔ اور یوں ایک عالم ان حقائق تک رسائی حاصل کرلیتا ہے جو اس وجود میں ہوتی ہے۔ علم ان معلومات کا نام نہیں ہے جو ذہین میں جمع ہوجائیں اور جن سے کوئی سچا اصول اور کوئی سچی حقیقت ذہین نشین نہ ہو۔ اور نہ محسوسات کے علاوہ کوئی حقیقت ذہن میں بیٹھی ہو۔ یہ ہے صحیح راستہ علم حقیقی اور اس حقیقت کا جو دل و دماغ کو منور کردیتی ہے۔ یہی ہے اللہ کا مطیع فرمان ہونا۔ دل کا حساس ہونا اور آخرت اور اللہ کئ فضل وکرم کی امیدواری اور یہ ہے اللہ کا خوف اور اللہ کے سامنے ڈرے اور سہمے رہنا۔ علم اور حقیقی علم یہی ہے اور اس طرح عقلیت پیدا ہوتی ہے وہ دیکھنے والی اور سننے والی اور جس چیز کو وہ پاتی ہے اس سے فائدہ اٹھانے والی ہوتی ہے اور یوں اس قسم کا علم ان مشاہدات کے پیچھے حقیقت عظمیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ انفرادی تجربات کو علم کہتے ہیں اور صرف ان چیزوں کو معلومات کہتے ہیں جو نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگ معلومات جمع کرنے والے تو ہیں لیکن علماء نہیں۔ انما یتذکر اولوا الالباب (39: 9) ” نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں “۔ یعنی کھلے دلوں والے ، جن کی بصیرت کے دروازے راہوں اور جو ظواہرو مشاہد کے پیچھے جھانک سکتے ہوں۔ وہ لوگ عقلمند ہیں اور وہی لوگ ہر چیز میں اللہ کے نشانات دیکھ کر اللہ کے سامنے جوابدہی کے یقین کو بھول نہیں جاتے۔ ان دو تصویروں کے بعد اہل ایمان کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور اچھے کام کریں اور اس مختصر زندگی میں طویل زندگی کے لیے کچھ کما کر اور سجا کر چھوڑیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صالحین کی صفات دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس طرح رات گزارتا ہو کہ اللہ کی عبادت میں لگا ہوا ہے کبھی سجدہ میں کبھی کھڑا ہوا ہے جو آخرت کے مواخذہ سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے کیا یہ شخص اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو کافر ہو گناہوں میں لگا ہوا ہو۔ (یہ بطور استفہام انکاری ہے) مطلب یہ ہے کہ عبادت گزار شخص جو راتوں رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتا ہے جو آخرت سے ڈرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہے یہ شخص اور اللہ تعالیٰ کا نافرمان کافر بندہ برابر نہیں ہوسکتے، بلکہ مومن صالح اور مسلم فاسق بھی برابر نہیں ہوسکتے جیسا کہ سورة ص میں فرمایا (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ ) پھر فرمایا (قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کیا جاننے والے اور بےعلم برابر ہوسکتے ہیں ؟ ) یعنی برابر نہیں ہوسکتے، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اہل علم ہیں جن کے علم نے انہیں ایمان کی روشنی دکھائی ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے ایمان قبول کیا اور عبادت میں لگے اور جو لوگ جاہل ہیں اللہ تعالیٰ کی توحید کو نہیں جانتے یہ دونوں فریق برابر نہیں ہوسکتے نہ جہل علم کے برابر ہے نہ جاہل عالم کے برابر ہے اور نہ دونوں کا رتبہ برابر ہے جب قیامت کے دن حاضر ہوں گے تو اہل علم اصحاب ایمان جنت میں اور اہل کفر دوزخ میں بھیج دئیے جائیں گے۔ (اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ ) (جو لوگ عقل والے ہیں وہی نصیحت حاصل کرتے ہیں) جن لوگوں کو عقل نہیں یا عقل بےجا استعمال کرتے ہیں وہ لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے قرآن سنتے ہیں قرآن کی دعوت اور اس کی تعلیمات پر ایمان نہیں لاتے، بیشمار آدمی ایسے ہیں جو دنیاوی کاموں میں بہت آگے آگے ہیں نئی نئی مصنوعات ایجاد کرتے ہیں انسان کی ترقی کے لیے بہت کچھ سوچتے ہیں طرح طرح کی مشینری مارکیٹ میں لاتے ہیں سائنس اور جغرافیہ کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن کافر، مشرک ہیں اپنے خالق کو نہیں پہچانتے بہت سے لوگ تو خالق تعالیٰ شانہٗ کے وجود ہی کو نہیں مانتے اور جو مانتے ہیں وہ مشرک ہیں اس کے لیے اولاد بھی تجویز کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں یہ عقلمندی بےکار ہے ایسے لوگوں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے ہیں ایسی عقل کا کیا فائدہ جو دوزخ میں لے جائے۔ نماز تہجد کی فضیلت آیت کریمہ سے نماز تہجد کی فضیلت معلوم ہوئی حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ فرض نمازوں کے بعد افضل ترین نماز وہ ہے جو رات کے درمیانی حصے میں پڑھی جائے اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے اشراف (یعنی شرافت والے) وہ لوگ ہیں جو حاملین قرآن ہیں راتوں کو نمازیں پڑھنے والے ہیں حضرت مغیرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماروں میں اتنا قیام فرمایا کہ آپ کے قدم مبارک سوج گئے کسی نے عرض کیا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے ہیں (گناہوں سے وہ لغزش مراد ہیں جن کی خطاء اجتہادی طور پر صادر ہو) آپ نے فرمایا تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں (رواہ البخاری) یعنی اللہ تعالیٰ کے انعام کا تقاضا تو یہ ہے کہ اور زیادہ عبادت گزار ہونا چاہیے نہ کہ تھوڑی عبادت پر اکتفا کیا جائے (یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ ) سے معلوم ہوا کہ خوف اور امید ساتھ ساتھ ہونا چاہیے یہ مومن کی صفات ہیں سورة الانبیاء میں چند حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا (اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًَا) (یہ سب نیک کاموں میں دوڑتے تھے اور امید وبیم کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے) اور سورة الم سجدہ میں فرمایا (تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا زوَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) (ان کے پہلو خوابگاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں) ان دونوں آیتوں سے بھی معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ میں بھی لگے، اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرے، امید بھی رکھے، ڈرتا بھی رہے۔ یہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور عباد صالحین کا طریقہ ہے عمل نہ کرنا اور خالی امید رکھنا یہ ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔ حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جوان شخص کے پاس تشریف لے گئے، یہ ان کی موت کا وقت تھا آپ نے فرمایا کہ تم اپنے کو کس حال میں پاتے ہو، عرض کیا کہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں پر مواخذہ ہونے سے ڈرتا ہوں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات سن کر فرمایا اس جیسے موقعہ میں (یعنی موت کے وقت) جس کسی بندہ کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوں گی اللہ اس کی امید کے مطابق ضرور اسے (انعام) عطا فرمائے گا اور وہ جس چیز سے ڈر رہا ہے اس سے امن وامان میں رکھے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” امن ھو الخ “ یہ پہلی بار مومنین اور مشرکین کی صفات کے درمیان تقابل کا ذکر ہے ایک وہ مومن ہے جو راحت اور آرام کو چھوڑ کر رات کی گھڑیوں میں اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ کبھی قیام میں ہاتھ باندھے کھڑا ہے اور کبھی اس کی بارگاہ میں جبین نیاز زمین پر رکھے سجدہ بجا لا رہا ہے۔ آخرت کا خوف اس پر طاری رہتا ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔ ” رحمۃ ربہ “ کے بعد ” کمن ھو لیس کذلک “ مقدر ہے یعنی کیا مذکورہ بالا صفات کا حامل مومن اس کافر کی مانند ہوسکتا ہے جو ان خوبیوں سے عاری ہو۔ قالہ الشیخ قدس سرہ امن ھو قانت کمن ھو غیر قانت (معالم و خازن ج 6 ص 69) ۔ 16:۔ ” قل ھل الخ “ یہ ماقبل کیلئے مثال و نظیر کی صورت میں تائید ہے۔ یا عملی تفاوت کے بعد علمی تفاوت کے بعد علمی تفاوت کا بیان ہے۔ یعنی مومن و کافر عمل کی طرح علم میں بھی برابر نہیں یا مطلب یہ کہ جس طرح ایک عالم اور ایک جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح مومن و کافر بھی باہم برابر نہٰں۔ نفی لاستواء الفریقین باعتبار القوۃ العلمیۃ بعد نفیہ باعتبار القوۃ العملیۃ علی وجہ ابلغ لمزید فضل العلم و قیل تقریر للاول علی سبیل التشبیہ ای کما لا یستوی العالمون والجاھلون لا یستوی القانتون والعاصون (بیضاوی) ۔ ” انما یتذکر الخ “ ایسے واضح اور مدلل بیانات سے صرف عقل و فکر رکھنے والے ہی نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) بھلا وہ شخص جو رات کی گھڑیاں مسجد اور قیام کی حالت میں عبادت کرتیہوئیگزارتا ہو نیز آخرت سے ڈررہا ہو اور اپنے پروردگار کے فضل و مہربانی کی امید رکھتا ہو کیا ایسا عبادت گزارشخص اس مشرک مذکور کے برابر ہوسکتا ہے جس کا ذکر ابھی اوپر ہوا۔ آپ اے پیغمبر فرمائیے کیا وہ لوگ جو اہل علم اور حقیقت آشنا ہیں اور وہ جو جاہل اور حقیقت سے نا آشنا ہیں کہیں برابر ہوسکتے ہیں سوائے اس کے نہیں کہ ان دلائل سے وہی لوگ نصیحت پکڑتے اور نصیحت مانتے ہیں جو اہل وعقل خرد ہیں۔ اس آیت سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) ہیں ابن عمرنے کہا مراد حضرت عثمان ہیں کلبی نے کہا حضرت عمار اور سلمان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ قانت سے مراد طویل قیام کرنے والا اور یہ جو فرمایا کہ باوجود کثرت عباد ت کے آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب سے رحمت کی امید رکھتا ہے۔ یہ علامت ہے خالص مومن کی یعنی نہ مایوس نہ بالکل بےخوف اہل علم سے مراد علماء باعمل ہیں جو عامل نہیں وہ باوجود علم کے جاہل ہیں بہرحال بھلے اور برے میں مساوات نہیں۔