Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 111

سورة النساء

وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ اِثۡمًا فَاِنَّمَا یَکۡسِبُہٗ عَلٰی نَفۡسِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۱۱﴾

And whoever commits a sin only earns it against himself. And Allah is ever Knowing and Wise.

اور جو گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اور اللہ بخوبی جاننے والا ہے اور پوری حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ ... And whoever earns sin, he earns it only against himself. is similar to His statement, وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى And no bearer of burdens shall bear the burden of another. (35:18) So no one will avail anyone else. Rather, every soul, and none else, shall carry its own burden. This is why Allah said, ... وَكَانَ اللّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا And Allah is Ever All-Knowing, All-Wise. meaning, this occurs due to His knowledge, wisdom, fairness and mercy. وَمَن يَكْسِبْ خَطِييَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِييًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 اس مضمون کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوگا، ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو کما کر ساتھ لے گیا ہوگا،

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” کسب “ کا لفظ کسی شخص کے اس فعل پر بولا جاتا ہے جس سے اسے کوئی نفع یا نقصان حاصل ہو، جبکہ اللہ تعالیٰ نفع نقصان سے غنی ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف ” کسب “ کی نسبت نہیں ہوسکتی۔ (قرطبی) یعنی جو گناہ کرے گا وہی اس کی سزا بھگتے گا، کوئی دوسرا اس گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، دوسری جگہ فرمایا : ( وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ ) ” اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی۔ “ [ بنی إسرائیل : ١٥ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the event that these people choose not to repent despite the option given to them, the seventh verse (111) carries the assurance that this action of theirs brings no harm to Almighty Allah or His Messenger or to Muslims. The sad nemesis of a person&s evil deed shall be faced by the person himself.

ساتویں آیت (یعنی ١١١) میں یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اگر یہ لوگ اب بھی تائب نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول یا مسلمانوں کا کچھ نہیں بگڑتا، اس کا وبال خود اسی شخص پر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا يَكْسِـبُہٗ عَلٰي نَفْسِہٖ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا۝ ١١١ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) اور جو شخص چوری کرکے پھر اس پر جھوٹی قسم کھاتا ہے تو اس کی سزا وہ خود بھگتتا ہے اور اللہ تعالیٰ زرہ کے چوری کرنے والے کو اچھی طرح جاننے والا ہے اور وہ حکیم ہے کہ اس چور پر ہاتھ کاٹے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی وہی اس کی سزا بھگتے گا کوئی دوسرا اس گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، کسب کا لفظ ہر اس فعل پر بولا جاتا ہے جس سے کوئی نفع یا نقصا حاصل ہو۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف کسب کی نسبت نہیں ہوسکتی۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ مَنْ یَّکْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَکْسِبُہٗ عَلٰی نَفْسِہٖ وَ کَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا) اور جو شخص کوئی گناہ کرلے تو اپنی ذات ہی کے لیے گناہ کرتا ہے اپنے کیے کی سزا بھگتے گا اور اللہ علم والا ہے جسے سب کچھ پتہ ہے اور حکمت والا ہے، حکمت کے مطابق سزا دے گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 اور جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور کوئی گناہ کماتا ہے تو وہ اپنی ہی ذات کے لئے اس کا وبال کماتا ہے اور فقط اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے یعنی اس کی سزا خود اسی کو بھگتنی پڑے گی اور اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب گناہگار کو گناہ کی سزا بھگتنی ہے اور کوئی دوسرا اس سزا میں شریک نہیں ۔ جیسے فرمایا لاتزر وازرۃ وزراخری تو ایسی حالت میں سزا میں پیشتر توبہ کر کے اس گناہ سے پاک ہو جائو کمال علم کا مطلب یہ ہے کہ سب کے گناہوں کو جانتا ہے۔ کمال حکمت سے مراد یہ ہے کہ سزا سے بچانے کے لئے استغفار کا حکم دیتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی قوم اپنے دل میں آپ شرمندہ نہ رہو کہ ہم کو عیب لگا اور آگے عیب لگنے کے خطرے سے اپنے کی حمایت نہ کرے جب تک تحقیق نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ خبر دار ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے کہ ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں۔ (موضح القرآن) یہ ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ میں لوگوں کو مختلف خیال ہوا ہو گناہ گاروں کو گناہ کی فکر ہوئی ہو اور بےعیبوں کو عیب لگنے پر شرمندگی ہوئی ہو یا خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خواہش ہو کہ جو لوگ غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کو درگذر کیا جائی اور جن پر خواہ مخواہ کا الزام لگا ہے ان کی تلافی ہوجائے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ بہرحال ! دونوں آیتوں میں استغفار کی ترغیب و تحریص اور توبہ کرنے والوں کے لئے معافی کی امیدے اب آگے ان لوگوں کے جرم پر تنبیہہ فرماتے ہیں جنہوں نے چوری تو خود کی اور چوری کی تہمت دوسروں پر لگا دی۔ نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو شفقت و عنایت ہے جس کی وجہ سے آپ اس معاملہ خاص میں غلط فیصلہ کرنے سے محفوظ و مامون رہے اس کا اظہار فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)