Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 114

سورة النساء

لَا خَیۡرَ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنۡ نَّجۡوٰىہُمۡ اِلَّا مَنۡ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوۡ مَعۡرُوۡفٍ اَوۡ اِصۡلَاحٍۭ بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡـہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۱۱۴﴾

No good is there in much of their private conversation, except for those who enjoin charity or that which is right or conciliation between people. And whoever does that seeking means to the approval of Allah - then We are going to give him a great reward.

ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالٰی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Righteous Najwa, Secret Talk Allah said, لااَّ خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ ... There is no good in most of their secret talks, meaning, what the people say to each other. ... إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَحٍ بَيْنَ النَّاسِ ... save him who orders Sadaqah (charity), or goodness, or reconciliation between mankind; meaning, ... except for this type of talk. Imam Ahmad recorded that Umm Kulthum bint Uqbah said that she heard the Messenger of Allah saying, لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا He who brings about reconciliation between people by embellishing good or saying good things, is not a liar. She also said, "I never heard him allow what the people say (lies) except in three cases: in war, bringing peace between people and the man's speech (invented compliments) to his wife and her speech to her husband." Umm Kulthum bint Uqbah was among the immigrant women who gave their pledge of allegiance to the Messenger of Allah. The Group also recorded this Hadith, with the exception of Ibn Majah. Imam Ahmad recorded that Abu Ad-Darda said that the Messenger of Allah said, أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَةِ وَالصَّدَقَةِ Should I tell you what is better than the grade of fasting, praying and Sadaqah? They said, "Yes, O Allah's Messenger!" He said, إِصْلَحُ ذَاتِ الْبَيْن Bringing reconciliation between people. He also said, وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَة Spoiling the relationship (between people) is the destroyer. Abu Dawud and At-Tirmidhi also recorded this Hadith, and At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih''. Allah said, ... وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ ... and he who does this, seeking the good pleasure of Allah, with sincerity and awaiting the reward with Allah, the Exalted and Most Honored, ... فَسَوْفَ نُوْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا We shall give him a great reward. meaning, an immense, enormous and tremendous reward. The Punishment for Contradicting and Opposing the Messenger and Following a Path Other than That of the Believers Allah's statement,   Show more

اچھے کاموں کی دعوت اور برے کاموں سے روکنے کے علاوہ تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں لوگوں کے اکثر کلام بےمعنی ہوتے ہیں سوائے ان کے جن کی باتوں کا مقصد دوسروں کی بھلائی اور لوگوں میں میل ملاپ کرانا ہو ، حضرت سفیان ثوری کی عیادت کے لئے لوگ جاتے ہیں ان میں سعید بن حسان بھی ہیں تو آپ فرماتے ہیں سعید تم نے ... ام صالح کی روایت سے جو حدیث بیان کی تھی آج اسے پھر سناؤ ، آپ سند بیان کرکے فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں بجز اللہ کے ذکر اور اچھے کاموں کے بتانے اور برے کاموں سے روکنے کے ، حضرت سفیان نے کہا یہی مضمون اس آیت میں ہے ، یہی مضمون آیت ( يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) 78 ۔ النبأ:38 ) میں ہے یہی مضمون سورہ والعصر میں ہے مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی آپس میں محبت بڑھانے اور صلح صفائی کے لئے جو بھی بات کہے اِدھر اُدھر سے کہے یا قسم اٹھائے وہ جھوٹوں میں داخل نہیں ، حضرت ام کلثوم بنت عقبہ فرماتی ہیں میں نے آپ کو اِدھر کی بات اُدھر کہنے کی تین صورتوں میں اجازت دیتے ہوئے سنا ہے جہاد کی ترغیب میں ، لوگوں میں صلح کرانے اور میاں بیوی کو ملانے کی صورت میں یہ ہجرت کرنے والیوں اور بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاؤں؟ جو روزہ نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے لوگوں نے خواہش کی تو آپ نے فرمایا وہ آپس میں اصلاح کرانا ہے فرماتے ہیں اور آپس کا فساد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے ( ابوداؤد وغیرہ ) بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب سے فرمایا آ میں تجھے ایک تجارت بتاؤں لوگ جب لڑ جھگڑ رہے ہوں تو ان میں مصالحت کرا دے جب ایک دوسرے سے رنجیدہ ہوں تو انہیں ملا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی بھلی باتیں رب کی رضامندی خلوص اور نیک نیتی سے جو کرے وہ اجر عظیم پائے گا ۔ جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ہو اور اس کا مقصد عمل اور ہو ۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہو چکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے ہیں اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے ۔ مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی کے مترادف ہے جو کبھی تو شارع علیہ السلام کی صاف بات کے خلاف اور کبھی اس چیز کے خلاف ہوتا ہے جس پر ساری امت محمدیہ متفق ہے جس میں انہیں اللہ نے بوجہ ان کی شرافت وکرامت کے محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں اور ہم نے بھی احادیث اصول میں ان کا بڑا حصہ بیان کر دیا ہے ، بعض علماء تو اس کے تواتر معنی کے قائل ہیں ، حضرت امام شافعی غورو فکر کے بعد اس آیت سے امت کے اتفاق کی دلیل ہونے پر استدلال کیا ہے حقیقتاً یہی موقف بہترین اور قوی تر ہے ، بعض دیگر ائمہ نے اس دلالت کو مشکل اور دور از آیت بھی بتایا ہے ، غرض ایسا کرنے والے کی رسی اللہ میاں بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( آیت سنستدر جھم اور فلمازاغوا اور نذرھم ) یعنی ہم ان کی بےخبری میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے رہتے ہیں ، ان کے بہکتے ہی ہم بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں ، ہم انہیں ان کی سرکشی میں گم چھوڑ دیتے ہیں ، بالآخر ان کی جائے بازگشت جہنم بن جاتی ہے جیسے فرمان ہے ظالموں کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ قبروں سے اٹھائیں گے ، اور جیسے فرمایا ظالم آگ کو دیکھ کر جان لے گا کہ اس میں کودنا پڑے گا لیکن کوئی صورت چھٹکارے کی نہ پائے گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

114۔ 1 نَجْوَیٰ (سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ 114۔ 2 یعنی صدقہ خیرات معروف (جو ہر قسم کی نیکی میں شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں مشورے، خیر پر مبنی ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ 114۔ 3...  کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع ہوجائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ 114۔ 4 احادیث میں اعمال مزکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہوجائے گا، نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی رشتہ داروں دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا (الا اخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ ؟ قالوابلیٰ (اصلاح ذات البین،۔ قال۔: وفسادذات البینھی الحالقۃ) (ابوداود کتاب الأدب۔ ترمذی، کتاب البرومسند أحمد 6/445، 444) حتیٰ کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے (لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس، فینمی خیرا اور یقول خیرا) (بخاری) وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا اچھی بات کرتا ہے۔ ،  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٢] کون سے خفیہ مشورے بہتر ہیں ؟ منافق لوگ جو راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورے کرتے ہیں۔ وہ بسا اوقات بری باتیں ہی سوچتے ہیں، جو خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ کیونکہ بھلائی کی اور صاف ستھری سچی بات کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو چھپا کر کرنا بہتر ہوتے ہیں مثلاً کسی کو صدقہ دے تو چھپ... ا کر دے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو۔ یا صدقہ دینے کے متعلق الگ مشورہ کرنا بھی اچھا کام ہے۔ اسی طرح بھلائی کے کاموں اور بالخصوص لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے متعلق اگر خفیہ مشورہ بھی کیا جائے تو بھی یہ ایک نیکی کا کام ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ لوگ ان امور میں سے تو کسی بات کا مشورہ نہیں کرتے۔ وہ ایسے مشورے کرتے ہیں جن سے شر پیدا ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچے۔ اور جو شخص مذکورہ بالا امور کے متعلق محض اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑے نیکی کے کام ہیں۔ خ لوگوں میں اصلاح کے لئے اپنی طرف سے کوئی اچھی بات کہہ دینا جھوٹ :۔ نہیں چناچہ آپ نے ایک دفعہ صحابہ کرام سے فرمایا && کیا میں تمہیں ایسے کام کی خبر نہ دوں جو نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے ؟ && صحابہ نے عرض کیا && بتائیے && تو آپ نے فرمایا && دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا۔ کیونکہ دو آدمیوں کے درمیان فساد ڈالنا (دین کو) مونڈنے والا (برباد کرنے والا) کام ہے۔ && (ترمذی، ابو اب صفۃ القیامۃ) نیز آپ نے فرمایا۔ && لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اگر کوئی شخص (اپنی طرف سے) کوئی اچھی بات کسی فریق کی طرف منسوب کر دے یا کوئی اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹا نہیں ہے۔ && (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ ۔۔ : ” نَجْوَی “ کچھ لوگوں سے علیحدہ ہو کر صلاح مشورہ کو کہتے ہیں، یہ مصدر ہے اور مبالغہ کے طور پر ” عَدْلٌ“ اور ” رِضًی “ کی طرح جمع پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور ” اِلاَّ “ کے بعد ” نَجْوَی “ محذوف ہے، یعنی ” اِلاَّ نَجْوَی مَنْ اَمْرُ بِصَدَقَۃٍ “ یعنی ان کی...  بہت سی سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں، سوائے اس شخص کی سر گوشی کے جو صدقے کا حکم دے۔ ” بصدقۃ “ صدقہ اس مال کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ یہ اصل میں نفل پر بولا جاتا ہے لیکن بعض اوقات فرض پر بھی بول دیتے ہیں، جیسے : ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ ) [ التوبۃ : ٦٠ ] مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل دل کے صدق سے ادا ہو رہا ہے۔ (راغب) ” معروف “ یہ لفظ نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہارا اپنے بھائی کو کھلے چہرے سے ملنا بھی معروف میں سے ہے۔ “ [ ترمذی، البر والصلۃ، باب ما جاء فی طلاقۃ الوجہ ۔۔ : ١٩٧٠، عن جابر (رض) و صححہ الألبانی ] ” اصلاح بین الناس “ کے الفاظ مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے اختلافات ختم کرنے کو شامل ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ) [ الأنفال : ١ ] ” سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ “ ام کلثوم (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : ” وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرتا ہے اور ( اس مقصد کے لیے) کوئی اچھی بات دوسرے تک پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔ “ [ بخاری، الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس : ٢٦٩٢ ] 2 منافق لوگ جو راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں، وہ اکثر اوقات بری باتیں ہی سوچتے ہیں، جو خیر سے خالی ہوتی ہیں، کیونکہ بھلائی کی بات اور صاف ستھری بات کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ البتہ کچھ کام چھپا کر کرنے بہتر ہوتے ہیں، مثلاً کسی کو صدقہ دے تو چھپا کر دے، تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو یا صدقہ دینے سے متعلق الگ مشورہ بھی اچھا کام ہے۔ اسی طرح بھلائی کے کاموں اور بالخصوص لوگوں کے درمیان صلح کرانے سے متعلق اگر خفیہ مشورہ بھی کیا جائے تو یہ بھی ایک نیکی کا عمل ہے، لیکن افسوس ہے کہ یہ لوگ ان امور میں سے تو کسی بات کا مشورہ نہیں کرتے، اور ایسے مشورے کرتے ہیں جن سے شر پیدا ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچے اور جو شخص مذکورہ بالا امور سے متعلق محض اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑی نیکی کے کام ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence Moving from the episode of theft and the conspiracies made to cover up the crime by false accusations against others, the text now highlights positive things that can be done through mutual consulta¬tion and which could help one to remain obedient to the Messenger&s teachings and the command of Allah without ever trying to go against the ideal path taken by those who believe in Allah ... and His Messenger. Commentary In the first part of the verse لَّا خَيْرَ‌ فِي كَثِيرٍ‌ مِّن نَّجْوَاهُمْ translated as &there is no good in most of their whisperings..&, it has been declared that most talks people hold and plans they make to ensure transitory worldly gains, while unmindful of the concerns of their life-to-come, are devoid of good. The second part: إِلَّا مَنْ أَمَرَ‌ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُ‌وفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ means that real good can come forth from mutual consultations only when people persuade each other to take part in charitable activities or ask people to do what is good and right or tell them to make peace between one another. It is said in a hadith that anything one says is harmful for him in one way or the other unless, of course, the subject of his utter¬ance is the remembrance of Allah or that he is bidding the Fair and forbidding the Unfair. Bidding the Fair stands for اَمَر باِلمَعرُف Amr bi al-Ma` ruf which refers to every action considered good in the Shari` ah and is patently recognized as such by those who know it. In contrast, there is the forbidding of the Unfair which stands for Nahy ` an al-Munkar which refers to every action considered undesirable in the Shari` ah and is squarely unrecog¬nized and unfamiliar to those who know it. Bidding the Fair includes all imperatives and motivations through which people are led to do what is good and right. Things like helping the oppressed, assisting the needy with loans, guiding the lost, all fall under this broad category. Though, charity and reconciliation between people are also part of this definition, but they have been taken up separately because their benefit reaches from one to another and improves the collective life of a community. In addition to that, these two fields of activity cover what is most essential about public service. They seek to bring benefit to Allah&s creation and they protect people against pain and loss. Charity spreads out benefits to people and reconciliation between them stops mutual pain and loss. Therefore, according to a consensus of the scholars of Tafsir, the word Sadaqah (charity) used here carries a general sense which includes the obligatory zakah, voluntary charities and everything done to bring benefit to someone. The Graces of Making Peace The Holy Prophet has spoken highly about the merit of removing mutual bickerings among people and of bringing them to understand, accommodate and cooperate with each other. He said: |"Shall I not tell you about an act which is far superior in rank to fasting, prayers and charity? The Companions submitted, Please do.& He, then, said: |"That act is the removal of discord. That is, to remove bickering between two persons, make peace between them and thus eliminate discord.|" He has also said: فساد ذات البین ھی الحالقہ |"Mutual discord among people is what really shaves.|" Then, he explained it by saying: |"This discord does not shave the head, but it shaves off one&s faith.|" In the concluding part of the verse (114), there appears a significant reminder that these good deeds to bid charity and fair action or a reconciliation among people can only be worthwhile and acceptable when they are undertaken sincerely, and exclusively for the pleasure of Allah, without any traces of personal or material interest.  Show more

خلاصہ تفسیر عام لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر (یعنی ثواب و برکت) نہیں ہوتی، ہاں مگر جو لوگ ایسے ہیں کہ (خیر) خیرات کی یا اور کسی نیک کام کام کی یا لوگوں میں باہم اصلاح کردینے کی ترغیب دیتے ہیں (اور اس تعلیم و ترغیب کی تکمیل و انتظام کے لئے خفیہ تدبیریں اور مشورے کرتے ہیں، یا خود ہی صدقہ وغیرہ کی ... دوسروں کو خفیہ ترغیب دیتے ہیں، کیونکہ بعض اوقات خفیہ ہی کہنا مصلحت ہوتا ہے، ان کے مشوروں میں البتہ خیر یعنی ثواب اور برکت ہے) اور جو شخص یہ کام کرے گا (یعنی ان اعمال کی ترغیب دے گا) حق تعالیٰ کی رضا جوئی کے واسطے (نہ کہ جاہ و شہرت کی غرض سے) سو ہم اس کو عنقریب اجر عظیم عطاء فرمائیں گے اور جو شخص رسول (مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ حق کام ظاہر ہوچکا تھا اور مسلمانوں کا (دینی) راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ ہو لیا (جیسا بشیر مرتد ہوگیا حالانکہ اسلام کا حق ہونا اور نیز اس خاص واقعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کا خود اس کی نظر میں حق ہونا معلوم تھا، پھر بھی اسے بدبختی نے گھیرا) تو ہم اس کو (دنیا میں) جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے اور (آخرت میں) اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی۔ معارف و مسائل باہمی مشروں اور مجلسوں کے آداب :۔ ارشاد ہے لاخیر فی کثیر من نجوہم یعنی لوگوں کے باہمی مشورے اور تدبیریں جو آخرت کی فکر اور انجام پر غور سے آزاد ہو کر محض چند روزہ دنیوی اور وقتی منافع کے لئے ہوا کرتے ہیں ان میں کوئی خیر نہیں۔ آگے ارشاد فرمایا الا من امر بصد قة او معروف او اصلاح بین الناس یعنی ان مشوروں اور سرگوشیوں میں اگر خیر کی کوئی چیز ہو سکتی ہے تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو صدقہ خیرات کی ترغیب دے، یا نیکی کا حکم کرے، یا لوگوں کے آپس میں صلح کرانے کا مشورہ دے، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ انسان کا ہر کلام اس کے لئے مضر ہی ہے، بجز اس کے کہ کلام میں اللہ کا ذکر ہو یا امر بالمعروف یا نہی عن المنکر ہو۔ معروف کے عنی ہیں ہر وہ کام جو شریعت میں اچھا سمجھا جائے اور جس کو اہل شرع پہچانتے ہوں اور اس کے مقابل منکر ہے، یعنی ہر وہ کام جو شریعت میں ناپسندیدہ اور اہل شرع میں اوپر اور اجنبی ہو۔ امربالمعروف، ہر نیکی کے حکم اور ترغیب کو شامل ہے، جس میں مظلوم کی امداد کرنا، حاجتمندوں کو قرض دینا، گم شدہ کو راستہ بتادینا وغیرہ سب نیک کام داخل ہیں اور صدقہ اور اصلاح بین الناس بھی اگرچہ اس میں داخل ہے، لیکن ان کو تخصیص کے ساتھ علیحدہ اس لئے بیان کیا گیا کہ ان دونوں چیزوں کا نفع متعدی ہے اور ان سے ملت کی اجتماعی زندگی سدھرتی ہے۔ نیز یہ دونوں کام خدمت خلق کے اہم ابواب پر حاوی ہیں، ایک جلب منفعت یعنی خلق اللہ کو نفع پہنچانا، دوسرے دفع مضرت یعنی لوگوں کو تکلیف اور رنج سے بچانا، صدقہ نفع رسانی کا اہم عنوان ہے، اور اصلاح بین الناس خلق اللہ کے مضرت اور نقصان سے بچانے کا اہم عنوان ہے، اس لئے جمہور علماء تفسیر کا قول ہے کہ اس جگہ صدقہ عام ہے جس میں زکوة، صدقات واجبہ بھی داخل ہیں اور نفلی صدقات بھی اور ہر نفع جو کسی کو پہنچایا جائے۔ صلح کرانے کی فضیلت :۔ لوگوں کی باہمی رنجشیں دور کرنے اور ان کے آپس میں مصالحت و موافقت پیدا کرنے کے متعلق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نہایت اہم ہیں، آپ نے فرمایا : ” کیا میں تم کو ایسا کام نہ بتلاؤں جس کا درجہ روزے، نماز اور صدقہ میں سب سے افضل ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتایئے، آپ نے فرمایا کہ وہ کام اصلاح ذات البین ہے، یعنی دو شخصوں کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہوجائے تو اس کو دور کرکے آپس میں صلح کرانا اور فساد کو ختم کرنا۔ “ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : فساد ذات البین ھی الحالقہ “ ” یعنی لوگوں کے آپس میں جھگڑا فساد مونڈ دینے والی چیز ہے۔ “ پھر اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ ” یہ جھگڑا سر کو نہیں مونڈتا، بلکہ انسان کے دین کو مونڈ ڈالتا ہے۔ “ آیت کے آخر میں ایک اور اہم مضمون یہ ارشاد فرمایا کہ نیکیاں صدقہ اور امر بالمعروف اور اصلاح بین الناس اسی وقت معتبر اور مقبول ہو سکتی ہیں، جبکہ ان کو اخلاص کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے، اس میں کوئی نفسانی غرض شامل نہ ہو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۝ ٠ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ١١٤ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذ... لک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ نجو) سرگوشي) والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ( ن ج و ) النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ( لاخیر فی کثیر من نجواھم الا من امربصد قۃ اذ معروف او اصلاح بین الناس۔ لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طورپر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلا کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو البتہ بھلی بات ہے) ... ۔ اہل لغت کا قول ہے کہ نجویٰ اسرار یعنی خفیہ سرگوشی کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ البتہ صدقہ و خیرات کرنے کے لیے کوئی شخص کسی کو خفیہ طور پر تلقین کرے یا نیکی کرنے کا حکم دے یا لوگوں کے درمیان معاملات کی اصلاح کے لیے خفیہ طور پر سلسلہ جذباتی کرے تو اس میں بھلائی ہوگی اور یہ خیر کی بات ہوگی۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں کی تمام صورتیں معروف میں داخل ہیں کیونکہ عقل انسانی اسے تسلیم کرتی ہے۔ عقل انسانی اس حیثیت سے حق کا اعتراف کرلیتی ہے کہ وہ نہ صرف اسے تسلیم کرتی ہے بلکہ اس کا التزام بھی کرتی ہے۔ دوسری طرف عقل انسانی باطل کو اس حیثیت سے ناپسند کرتی ہے کہ وہ نہ صرف اس سے روکتی ہے بلکہ اس سے اپنی برأت اور لاتعلقی کا بھی اظہار کرتی ہے۔ ایک اور جہت سے بھی بھلائی کے کاموں کو معرف کا نام دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل فضل اور اہل دین خیر اور بھلائی کی پوری شناخت رکھتے ہیں کیونکہ بھلائی ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے اور یہ اس سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ شر اور برائی سے واقف نہیں ہوتے جس طرح یہ بھلائی سے واقت ہوتے ہیں کیونکہ یہ برائی سے دامن کشاں ہوتے ہیں اور اس کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا اسی لیے نیکی کے کاموں کو معروف اور برائی کے کاموں کو منکر کا نام دیا گیا۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں سہیل بن بکار نے، انہیں ابوالخلیل عبدالسلام نے عبیدہ ہجیمی سے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوجری جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ روانہ ہوگیا۔ مسجد کے دروازے پر اپنا اونٹ بٹھا کر اندر گیا تو وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ آپ پر دو اونی چادریں تھیں جن میں سرخ لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ میں نے جاتے ہی ” السلام علیک یا رسول اللہ “ کہا تو آپ نے جواب میں ” وعلیک السلام “ کہا پھر میں نے عرص کیا کہ ہم اہل بادیہ یعنی صحرا نشین ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں جفا یعنی سختی، اور طبیعت کی خشکی ہوتی ہے۔ اس لیے آپ مجھے ایسے کلمات کی تلقین فرما دیجئے جو میرے لیے فائدہ مند ہو، اس پر آپ نے تین دفعہ ” قریب ہو جائو “ فرمایا : میں قریب ہوگیا، آپ نے فرمایا : ” اپنی بات دوبارہ بیان کرو “ میں نے اپنی وہی بات دوبارہ بیان کردی، اس پر آپ نے فرمایا : ” اللہ سے ڈرتے رہو، بھلائی اور نیکی کے کسی کام کو بھی معمولی اور حقیر نہ سمجھو۔ اگرچہ اس کی یہ صورت کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو، اور یہ کہ تم اپنے ڈول کا باقی ماندہ پانی اس شخص کے برتن میں ڈال دو جو پانی کا طلبگار ہو، اگر کوی شخص تمہیں عار دلانے کے لیے تمہاری اس کمزوری کو گالی کے طور پر استعمال کرے جس سے وہ واقف ہو تو تم اس کے جواب میں اس کمزوری کو گالی کے طور پر استعمال نہ کرو۔ کیونکہ اگر تم اس کی یہ بات برداشت کرلو گے تو اس کا تمہیں اجر ملے گا اور اس کے لیے گناہ کا بوجھ بنے گا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں یعنی مویشی وغیرہ تمہیں عطا کی ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو “۔ ابوحبری کہتے ہیں :” قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس بلا لیا میں نے اس کے بعد کبھی کسی کو گالی نہیں دی، نہ کسی بکری کو اور نہ ہی کسی اونٹ کو “۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن محمد بن مسلم الدقاق نے ، انہیں ہارون بن معروف نے ، انہیں سعید بن مسلمہ نے جعفر سے، انوہں نے اپنے والد سے ، انہوں نے دادا سے انہوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( اصنع المعروف الی من ھو اھلہ ۔۔۔ من لیس الھہ فان اصبت اھلہ فھوا ھلہ وان لم تصب اھلہ فانت اھلہ۔ ہر شخص کے ساتھ نیکی کرو خواہ وہ اس کا اہل ہو یا نہ ہو۔ اگر تم نے کسی ایسے شخص کے ساتھ نیکی کی جو اس کا اہل تھا تو وہ اس کا اہل ہوجائے گا اور اگر وہ اس کا اہل نہ ہو تو تم اس کے اہل ہو جائو گے۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابوزکریا یا یحییٰ بن محمد الحمانی اور حسین بن اسحاق نے ، ان دونوں کو شیبان نے ، انہیں عیسیٰ بن شعیب نے، انہیں حفص بن سلیمان نے یزید بن عبدالرحمن سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابو امامہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کل معروف صدقۃ و اول اھل الجنۃ دخولاً اہل المعروف صنائع المعروف تقی مصارع السوء۔ ہر نیکی اور بھلائی صدقہ ہے اور بھلائیاں کرنے والے سب سے پہلے جنت میں جائیں گے، بھلائی کے کام برے انجام سے انسان کو بچا لیتے ہیں۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں معاذ بن المثنیٰ اور سعید بن محمد الاعرابی نے، ان دونوں کو محمد کثیر نے، انہیں سفیان ثوری نے سعید بن ابی سعید المقبری یعنی عبداللہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ ( انکم لا تسعون الناس باموالکم ولکن لیسعھم منکم بسط الوجہ وحسن الخلق تمہارے اموال میں تو لوگوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن تمہارے اندر ان کے لیے خندہ روئی اور حسن اخلاق کی تو ضرور گنجائش ہونی چاہیے) صدقہ کی کئی صورتیں ہیں، فقراء پر مال کا صدقہ کرنا جو کبھی زکوٰۃ کی شکل میں ہوسکتا ہے اور کبھی خیرات وغیرہ کی صورت میں، صدقہ کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی حیثیت اور جاہ کی بنیاد پر یا اپنی زبان کے ذریعے کسی مسلمان کی امدا دکر دی جائے۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ( کل معروف صدقۃ ہر نیکی اور بھلائی صدقہ ہے) نیز آپ کا ارشاد ہے ( علی کل سلامی من بنی ادم صدقۃ انسان کے جسم کے ہر جوڑ کا ایک صدقہ ہے۔ ) نیز آپ کا ارشاد ہے کہ ” کیا تم میں سے کوئی شخص ابو ضمفم جیسا کردار ادا کرنے سے بھی قاصر ہے ؟ “ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ ابوضمضم کون تھے ؟ آپ نے فرمایا : گزشتہ زمانے کا اییک انسان تھا جس کی عادت یہ تھی کہ جب گھر سے نکلتا تو یہ دعا کرتا، اللہ ! میں اپنی عزت و آبرو کو اس شخص پر صدقہ کرتا ہوں، جو اسے برا بھلا کہنے پر اتر آئے۔ اس طرح ابو ضمضم نے لوگوں کی ایذا رسانی اس صورت میں برداشت کی کہ اپنی عزت و آبرو کو ان پر صدقہ کردیا۔ قول باری ( او اصلاح مبین الناس) اس قول باری کی نظیر ہے ( وان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحو بینھما اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ و جدل پر اتر آئیں تو ان کے معاملات کی اصلاح کر دو ) نیز قول باری ہے ( فان فاء ت فاصلحوا بینھما بالعدل و اقسطوا ان اللہ یحب المقسطین پھر اگر وہ رجوع کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف کا خیال رکھو۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ نیز فرمایا ( فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما و الصلح خیرو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں بیوی آپس میں مصالحت کرلیں، صلح بہر حال بہتر ہے) نیز فرمایا ( ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما اگر دونوں ثالث اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ بھی ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ابوالعلاء نے ، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے ام الدرداء سے انہوں نے حضرت ابو الدردارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( الا اجبرکم بافضل من درجۃ الصیام و الصلوٰۃ و الصدقۃ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتائوں جس کا درجہ نماز، روزہ اور صدقے کے درجے سے بھی بڑھ کر ہے) لوگوں نے عرض کیا کہ ضرور بتائیے۔ اس پر آپ نے فرمایا ( اصلاح ذات المین و فسادات البینھی الحائقۃ لوگوں کے آپس کے تعلقات اور معاملات کو درست کرنا، آپس کے تعلقات اور معاملات کا بگڑنا مہلک ہوتا ہے) آیت زیر بحث میں مذکورہ افعال کی انجام دہی کو اللہ کی خوشنودی کے حصول کی خواہش اور جذبے کی شرط ک ساتھ مشروط کردیا گیا ہے تا کہ یہ وہم پیدا نہ ہو کہ جو شخص لوگوں پر اپنی سرداری قائم کرنے اور اپنا حکم چلانے کی خاطر نیکی اور بھلائی کے یہ کام سرانجام دے گا وہ بھی آیت میں کیے گئے وعدے میں شامل ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٤) قوم طعمہ کی سرگوشیوں میں کوئی خیر اور برکت نہیں، البہت جو مساکین کو صدقہ و خیرات دینے یا کسی شخص کو قرض دینے یا طعمہ اور زید بن سمین کے درمیان باہم اصلاح کرنے کی ترغیب کرے تو ایسی صلاح پر مبنی سرگوشیوں کی بھی گنجایش ہے سو جو شخص محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے یہ باتیں کرے تو ہم اس کو جنت می... ں پورا ثواب دیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٤ (لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰٹہُمْ ) منافقین کی منفی سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ علیحدہ بیٹھ کر سرگوشیاں کرنا ‘ دوسروں کو دیکھ کر مسکرانا اور ساتھ اشارے بھی کرنا تاکہ دیکھنے والے کے دل میں خلجان پیدا ہو کہ میرے بارے میں بات ہو رہی ہے ‘ آج بھی ہماری مجلسوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ سارے م... عاملات جوں کے توں انسانی معاشرے کے اندر ویسے ہی آج بھی موجود ہیں۔ مگر اللہ کا فرمان ہے کہ اس انداز کی خفیہ سرگوشیوں کا زیادہ حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں کوئی خیر نہیں ہوتی۔ (اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلاَحٍم بَیْنَ النَّاسِ ط) ۔ خیر والی سرگوشی یہ ہوسکتی ہے کہ خاموشی سے کسی کو علیحدگی میں لے جا کر اس کو صدقہ و خیرات کی تلقین کی جائے کہ بھائی دیکھو آپ کو اللہ نے غنی کیا ہے ‘ فلاں شخص محتاج ہے ‘ میں اس کو جانتا ہوں ‘ آپ کو اس کی مدد کرنی چاہیے ‘ وغیرہ۔ پھر معروف اور بھلائی کے امور میں خفیہ صلاح مشورے اگر کیے جائیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح کسی غلط فہمی یا جھگڑے کی صورت میں فریقین میں صلح صفائی کرانے کی غرض سے بھی خفیہ مذاکرات کسی سازش کے زمرے میں نہیں آتے۔ مثلاً دو بھائی جھگڑ پڑے ہیں ‘ اب آپ ایک کی بات علیحدگی میں سنیں اور دوسرے کے پاس جا کر اس بات کو بہتر انداز میں پیش کریں کہ آپ کو مغالطہ ہوا ہے ‘ انہوں نے یہ بات یوں نہیں ‘ یوں کہی تھی۔ اس طرح کی علیحدہ علیحدہ گفتگو جو نیک نیتی سے کی جا رہی ہو ‘ یہ یقینا نیکی اور بھلائی کی بات ہے ‘ جو باعث اجر وثواب ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(114 ۔ 115) ۔ طعمہ کی قوم کے لوگوں نے آپس میں رات کو اس جھوٹی گواہی کا مشورہ کیا جس کا ذکر اوپر گذرا۔ اور صبح کو وہ جھوٹی گواہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رو برو ادا کی اور پھر اوپر کی آیتوں کے نازل ہوجانے کے بعد جب طعمہ کی چوری کا حال کھل گیا۔ تو وہ اپنے ہاتھ کے کاٹے جانے کی سزا سے ڈر کر م... دینہ سے مکہ کو بھاگ گیا۔ اور وہاں مرتد ہو کر مرگیا۔ ان ہی باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ طعمہ کی قوم کی طرح جو کوئی خلاف شریعت باتوں کا مشورہ کرے تو اس طرح کے مشوروں میں کچھ بھلائی بلکہ اس طرح کے مشوروں میں آدمی کے دین کا نقصان ہے ہاں دین کے فائدہ کے مشورہ یہ ہیں۔ کہ کسی کو صدقہ خیرات کا یا شریعت میں اور نیک کام جو ہیں ان کا یہ جہاں کہیں مسلمانوں میں لڑائی ہو ان میں صلح کرانے کا مشورہ دیاجائے۔ لفظ معروف کے معنی میں اگرچہ شریعت کے سب نیک داخل ہیں لیکن صدقہ اور آپس کی صلاح کی طرف خاص توجہ دلانے کے لئے ان کا ذکر خاص طور فرمایا۔ انس بن مالک (رض) سے ترمذی، اور صحیح ابن حبان میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ ایسی چیز ہے جس سے اللہ کا غصہ اگر کسی بندہ پر ہو تو وہ جاتا رہتا ہے۔ اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ابن حبان کی سند بھی معتبر ہے ١۔ یہ حشر کے دن کے غصہ کا ذکر ہے جس کا ذکر ابوہریرہ (رض) کی صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اس دن کا سا غصہ اللہ تعالیٰ کو کبھی نہ آئے گا ٢۔ ترمذی۔ ابو داؤد، صحیح ابن حبان میں ابو داؤد (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑے ہوئے مسلمانوں میں صلح کرانے کو نفلی نماز روزہ اور صدقہ سے بہتر فرمایا ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٣۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی یہ نیک کام خالص ثواب کی نیت سے کرے گا تو اس کو عقبیٰ میں بڑا اجر ملے گا۔ کیونکہ جس عمل میں دنیا کے دکھاوے کا کچھ دخل ہوتا ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں چناچہ مسند بزاز میں معتبر سند سے ضحاک بن قیس (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا اے لوگو جو نیک کام کرو وہ خالص ثواب کی نیت سے کرو بغیر اس کے کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوسکتا ٤۔ اب آگے ایسے لوگوں کے انجام کا ذکر فرمایا جو طعمہ کی طرح اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں اللہ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ کیونکہ کسی کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں کا انجام جہنم ہے شریعت کی دلیلوں میں جس اجماع امت کوا یک شرعی دلیل قرار دیا ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے اس اجماع کو آیت کے اس ٹکڑے سے ثابت کر کیا ہے۔ لیکن شان نزول کے لحاظ سے یہ آیت مرتد لوگوں کی شان میں ہے۔ اصلاحی اجماع اور اس کے مخالف لوگوں سے اس آیت کا تعلق نہیں ہے  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:114) نجوہم۔ اسم نکرہ۔ سرگوشی۔ سرگوشی کرنے والے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب ۔ مضاف مضاف الیہ۔ واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مادہ ن ج و ہے۔ النجوۃ۔ بلند جگہ۔ جگہ جو بلندی کی وجہ سے اپنے ماحول سے الگ معلوم ہو۔ نجوۃ۔ کسی کو علیحدہ بلند مقام پر چھوڑنے کے بھی ہیں۔ ناجیتہ کے معنی سرگوشی ک... رنے کے ہیں۔ یا اپنے بھید کو دوسروں پر افشاء ہونے سے بچانے کے ہیں۔ اس سے استنجاء ہے۔ استبجاء کرنے اور رفع حاجت کے لئے علیحدہ جگہ تلاش کرنا۔ گویا ہر صورت میں علیحدگی اور خلوت کا مفہوم غالب ہے۔ لاخیر فی کثیر من نجوھم۔ ان کے اکثر خفیہ مشورے خیر سے خالی ہوتے ہیں۔ الا ۔۔ بین الناس۔ ہاں وہ جو (ایسے مشوروں میں) صدقہ خیرات کی تلقین کرے۔ یا نیکی و بھلائی کی بات کہے یا لوگوں میں اصلاح کی بات کہتے تو وہ مستثنیٰ ہے۔ یعنی ایسے خفیہ مشورے خیر سے خالی نہیں کہلائے جائیں گے۔ یہاں امر بمعنی ترغیب و تلقین ہے  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 نجو یٰ دوسروں سے علیحدٰ ہو کر صلا و مشورہ کرنے کو کہتے ہیں یہ مصدر ہے اور مبالغہ کے طور پر عدل ورضی کی طرح جمع پر بولا جاتا ہے اور الا کے بعد نجو یٰ مخذوف ہے ن ای الا نجویٰ ج من امر بصد قتہ الخ3 معررو کا لفظ جمیع اعمال خیر کو شامل ہے حتی ٰ کہ کہ کسی کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی معروف میں دا... خل ہے۔ حدیث میں ہے ولو ان تلقی اخاک بو۔ حہ طلق اور اصلا بین الناس کا لفظ مسلمانو کے درمیان ہر قسم کے اختلافات ختم کرنے کو شامل ہے حدیث میں ہے جس نے دو مسلمانوں میں صلح کر ادی ہے اس کے لئے آگ سے براۃ لکھی جاتی ہے ( قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 114-115 لغات القرآن : نجوی، سرگوشی، کان میں باتیں کرنا۔ مرضات اللہ، اللہ کی رضا و خوشنودی۔ یشاقق، نافرمانی کرے گا، مخالفت کرے گا۔ یتبع، اتباع کرے گا۔ نولہ، ہم پھر دیں گے اس کو۔ نصلہ، ہم اس کو ڈالیں گے۔ تشریح : ان آیات کا تعلق بھی اوپر والے واقعہ سے ہوسکتا ہے کیونکہ مجرم بشر نے خفیہ سرگوشیو... ں اور باہمی مشوروں کے ذریعہ ہی اپنے قبیلہ والوں کو اپنے حق میں اکسایا تھا۔ اور جب وحی الٰہی نے آکر اس کی چوری کھول دی تو وہ بھاگ کر مکہ چلا گیا اور مرتد ہوگیا اور کافروں سے مل کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں لگا رہا۔ پھر وہ مرتد کافر اور مخالف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوکر مرا۔ سرگوشیاں نیک کام کیلئے بھی ہوسکتی ہیں۔ خیرات صدقہ یا اصلاح قوم۔ یعنی اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا۔ اگر یہ نیک کام ذاتی شہرت اور اعزاز کے لئے نہیں بلکہ خاص خوشنودی الٰہی کے لئے ہیں تو ان کا بڑا اجر ہے۔ آیت 115 سے ظاہر ہے کہ جس راہ پر مسلمانوں کا سواداعظم چل رہا ہے اس سے الگ ہٹ کر اپنی ڈگر قائم کرنا دوزخ میں جانا ہے۔ اجماع امت حجت ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جماعت کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے اور جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوگا وہ علیحدہ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اسی آیت کی بنیاد پر امام شافعی (رح) نے دعویٰ کیا ہے کہ اجماع امت کی حجت ہونے کی دلیل قرآن میں ہے۔ اور تمام علماء نے ان کے دعوے کو تسلیم کیا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ نیک کام میں جو کہ معروف کا ترجمہ ہے وہ تمام امور آگئے جو نافع ہوں خواہ دینی ہو یا دنیوی مگر مشروع ہوں اور گو اس میں صدقہ بھی داخل تھا لیکن نفس پر شاق ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ اہتمام فرمایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے کردار کے مختلف پہلوبیان کرنے کے ساتھ ان کی مجالس میں ہونی والی سازشوں کو طشت ازبام کیا ہے۔ برے لوگوں کی مجالس بھی اکثر طور پر بری ہی ہوا کرتی ہیں۔ خاص کر ان کی خفیہ مجالس کبھی شر سے خالی نہیں ہوا کرتیں۔ ایسے لوگ برائی، بےحیائی، چوری چکاری، سازش اور شرارت کے لیے ہی ... سوچ و بچار کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کے لوگوں کی مجلس کو لوہار کی بھٹی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک ] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا تم اس سے اچھی خوشبو پاؤ گے اور بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تو اس سے بری بو محسوس کرے گا۔ “ قرآن مجید نے ایسی مجالس کو خیر سے خالی قرار دیا ہے۔ سوائے اس کے جن میں صدقہ و خیرات، اچھے کام اور لوگوں کی فلاح اور اصلاح کے بارے میں کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اس آیت میں باہم مل بیٹھنے اور مجالس کی غرض وغایت کا اشارہ دیا ہے کہ برے لوگوں کو مل کر سازش اور شرارت کے منصوبے بنانے کے بجائے نیکی اور خیر کے پروگرام ترتیب دینے چاہییں یہ پروگرام محض نمود و نمائش کے لیے نہیں بلکہ ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی مطلوب ہونی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقعہ پر چوراہوں میں بیٹھنے سے منع فرمایا تو صحابہ (رض) نے سماجی اور معاشرتی مجبوریوں کا ذکر کیا آپ نے ہدایت فرمائی کہ اگر تمہارے لیے چوراہوں میں بیٹھنا ناگزیر ہو تو تمہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ بالطُّرُقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَالَنَا بُدٌّ مِنْ مَّجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِیْھَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَآ أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ قَالُوْا وَمَا حَقُّہٗ ؟ قَالَ : غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذٰی وَرَدُّّ السَّلَامِ وَ الْأَمْرُ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ ) [ رواہ مسلم : کتاب السلام، باب من حق الجلوس علی الطریق رد السلام ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا رستوں اور چوراہوں میں بیٹھنے سے بچا کرو۔ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ! بیٹھنا ہماری مجبوری ہے ہم وہاں تبادلہ خیال کرتے ہیں آپ نے فرمایا اگر تمہارا بیٹھنا ضروری ہے تو راستے کا حق ادا کیا کرو۔ صحابہ نے اس کا حق پوچھا تو آپ نے فرمایا نظر نیچی رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔ “ مسائل ١۔ بےدین لوگوں کی اکثر مجالس خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ ٢۔ مجالس میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور اچھے کاموں کی مشاورت ہونی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرنے والا بڑا اجر پائے گا۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصارٰی اور کفار کی مجالس : ١۔ مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے دوغلی پالیسی اختیار کرنا۔ (البقرۃ : ١٤) ٢۔ نئے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے سازشیں کرنا۔ (آل عمران : ٧٣) ٣۔ مسلمانوں کو ارتداد کی طرف لانے کے لیے کوششیں اور منصوبے بنانا۔ (البقرۃ : ٢١٧) ٤۔ زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرنا۔ (البقرۃ : ٢٠٥) ٥۔ یہود و نصارٰی کی سرگرمیاں۔ (المجادلۃ : ٨)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٤٠ ایک نظر میں : یہ سبق درس سابق کے ساتھ مربوط ہے اور ان دونوں کے درمیان کئی ربط ہیں ۔ اس میں بعض آیات تو درس سابق کے واقعہ کی باز گشت ہیں ۔ اس واقعہ اور وحی الہی کے بعد بشر ابن ابیرق جو چوری میں ملوث تھا ‘ مرتد ہوگیا تھا اور رسول اللہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا تھا ۔ اور اسلام کے بعد دوب... ارہ جاہلیت میں چلا گیا تھا ۔ چناچہ اس حوالے سے اس سبق میں جاہلیت کی بات کی گئی ہے ۔ جاہلی خیالات ‘ تصورات اور اس نظام میں شیطان کی کارستانیاں وغیرہ ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کے درمیان سرحد شرکیہ عقاید ہیں ۔ اللہ کے نظام میں شرک کی معافی نہیں ہے ۔ اس کے سوا سب کچھ قابل معافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سبق میں راتوں کو خفیہ سازشوں سے بھی منع کیا گیا ہے اور جو کام بھی خفیہ ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر اچھے نہیں ہوتے ۔ مثلا درس سابق میں چوری کے واقعہ میں جو نجوی ہوا ۔ نجوی کی ممانعت کے بعد اس میں بھلائی معروف مشورے اور لوگوں کے درمیان اصلاح وغیرہ کی اسکیموں کو اس سے مستثنی کیا گیا ۔ اس لئے کہ یہ تو کارثواب ہے ۔ پھر آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں جزا اس کے اپنے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے اور اس میں کسی کی ذاتی چاہت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ نہ مسلمانوں اور نہ ہی اہل کتاب کی چاہت کا اس میں داخل ہوگا ۔ سب کام اللہ کے بےقید انصاف کے مطابق ہوگی ۔ اور سچائی کے مطابق ہوں گے اور اگر سچائی لوگوں کی چاہتوں کے پیچھے چلے تو زمین و آسمان کا تمام نظام فاسد ہوجائے ۔ غرض یہ سبق اپنے موضوع اور اپنے رخ کے اعتبار سے ۔ سابق کے ساتھ پوری طرح مربوط ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ امت مسلمہ کی تربیت کی ایک نئی کڑی ہے جسے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا پیش نظر تھا ۔ اس طرح کہ وہ تنظیم میں فوقیت رکھتی ہو اور اسکی نظر میں ہو کہ اس کی صفوں میں کہاں کہاں کمزوریاں ہیں اور کہاں کہاں ابھی تک آثار جاہلیت باقی ہیں تاکہ وہ انکی اصلاح کرسکے ۔ یہ وہ مقصد ہے کہ اس پوری سورة میں اس کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ اس سے متعلق کئی موضوع زیر بحث آئے اور پورے قرآن کریم کے مقاصد میں سے بھی یہ ایک اہم موضوع ہے ۔ درس ٤٠ تشریح آیات : ١١٤۔۔۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١٢٦ (آیت) ” نمبر ١١٤۔ قرآن کریم میں نجوی کی بار بار ممانعت کی گئی ہے ۔ نجوی یہ ہے کہ کوئی گروہ اسلامی جماعت سے علیحدہ اور اسلامی قیادت سے علیحدہ کوئی بات سوچے اور اس کیلئے جمع ہو ۔ اسلامی تربیت کا طریق کار یہ تھا کہ لوگ اپنی تمام مشکلات اور مسائل کو لے کر اسلامی قیادت کے پاس آتے اور اگر بات ذاتی ہوتی تو وہ تنہائی میں پیش کرتے تاکہ عوام الناس میں بات پھیل نہ جائے اور اگر بات کی نوعیت عمومی ہوتی تو اسے علانیہ پوچھتے یعنی اگر بات کا خصوصا پوچھنے والے سے تعلق نہ ہوتا ۔ اس پالیسی میں حکمت یہ تھی کہ اس کی وجہ سے جماعت مسلمہ کے اندر کوئی بلاک یا گروہ نہ بن سکتے تھے اور نہ ہی یہ ہو سکتا تھا کہ جماعت کے کچھ حصے اپنے تصورات اور اپنی مشکلات کو لے کر الگ ہوجائیں یا وہ اپنے رجحانات اور اپنے افکار کے مطابق اپنی راہ لیں ۔ یہ صورت حال بھی نہ ہو کہ جماعت کے کچھ لوگ رات کو مشورہ کرکے ایک بات کا فیصلہ کرلیں اور دن کے وقت جماعت کے اندر بطور ایک فیصلہ شدہ امر پیش کردیں ۔ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تو کوئی بات مخفی نہ رہ سکتی تھی ‘ وہ جو کچھ مشورہ کرتے اللہ انکے ساتھ ہوتا اور بوقت ضرورت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دے دیتا ۔ مسجد نبوی جماعت مسلمہ کی پارلیمنٹ تھی ۔ وہاں لوگ باہم ملتے تھے ۔ نماز پڑھتے تھے اور زندگی کے تمام معاملات وہاں ہی طے ہوا کرتے تھے ۔ پھر اسلامی معاشرہ ایک کھلا معاشرہ (Open Society) تھا اس میں وہ تمام معاملات پیش ہوتے تھے جو جماعت کے جنگی اسرار و رموز سے متعلق نہ ہوتے یا ایسے مسائل نہ ہوتے جن کا تعلق لوگوں کی ذات اور خاندانوں سے ہو اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ لوگوں کے علم میں آئیں ۔ اسلامی سوسائٹی چونکہ ایک کھلی سوسائٹی تھی اس لئے وہ آزاد اور پاک وصاف سوسائٹی تھی اور اس سوسائٹی میں علیحدہ جنبہ بنا راتوں کو مشورہ وہی لوگ کرتے تھے جو اس کے خلاف سازش کرتے تھے یا اس کے اصولوں میں سے کسی اصول کے خلاف جمع ہوتے تھے اور یہ لوگ عموما منافقین ہوا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی نجوی ہوا ‘ اس میں منافقین شریک رہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ اسلامی معاشرہ میں اس سے پاک وصاف ہونا چاہئے اس میں جن لوگوں کو کسی چیز کے بارے میں کوئی بھی خلجان ہو ‘ اسے چاہیے کہ وہ اسے قیادت عامہ کے سامنے پیش کرے ۔ یا اگر کوئی مشکل پیش آئے یا کوئی تجویز انکے سامنے ہو یا کوئی رجحان نظر آئے تو ان معاملات میں اسے قیادت کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ یہاں قرآن مجید نے نجوی کی ایک قسم کو جائز رکھا ہے ۔ دراصل وہ نجوی ہی نہیں ہے اگرچہ شکل نجوی کی ہے ۔ (آیت) ” الا من ابر بصدقۃ اومعروف او اصلاح بین الناس (٤ : ١١٤) (ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لئے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لئے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے) مثلا دو اچھے اور نیک آدمی جمع ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ مشورہ کریں کہ کیا فلاں شخص کی مدد کے لئے یا فلاں کام میں روپیہ خرچ کرنا چاہئے اس لئے کہ اس شخص کو ضرورت ہے اور مجھے اس کی ضرورت کا علم ہے یا یہ کہ فلاں کام میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے ‘ آئیے یہ کام کریں ۔ یا یہ کہ فلاں اور فلاں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ‘ آئیے ان کے درمیان مصالحت کرا دیں ۔ ایسے لوگوں کی کوئی انجمن یا سوسائٹی بھی بن سکتی ہے جو مشورہ کرکے کسی نیک کام میں باہم تعاون کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ کام نہ نجوی ہوں اور نہ اسلامی نظام کے خلاف کوئی سازش ۔ اگرچہ ظاہری شکل میں یہ نجوی بھی ہوگا لیکن قرآن نے اسے ” امر “ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس قسم کی محدود ساسائٹی بعض اوقات اپنے امور رات کو تنہائی میں طے کرتی ہے اور ان کا مقصد معروف اور بھلائی کا کام ہوتا ہے ۔ لیکن اس قسم کی سوسائٹی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی تشکیل اور سرگرمی کی رضا مندی کے حصول کے لئے ہو۔ (آیت) ” ومن یفعل ذلک ابتغآء مرضات اللہ فسوف نوتیہ اجرا عظیما (٤ : ١١٤) (اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسا کرے گا تو اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے) یعنی کسی شخص پر صدقہ کرنے اور فلاں اور فلاں کے درمیان اصلاح حال کرنے کا مقصد یہ نہ ہو کہ یہ کام کرنے والے لوگ اس طرح مشہور ہوجائیں کہ لوگ کہیں کہ خدا کی قسم یہ بہت ہی اچھے لوگ ہیں کہ صدقہ و خیرات کے لئے لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اصلاح کا کام کرتے ہیں ۔ غرض اس کام میں انکے پیش نظر رضائے الہی کے حصول کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو ۔ یہ ہے وہ فرق و امتیاز جو محض رضائے الہی اور اجر اخروی کے لئے کئے جانے والے کام اور اس کام کے درمیان ہوتا ہے ‘ جو کسی اور غرض کے لئے کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ بظاہر دونوں کام ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ایک کا اندراج بھلائی کے رجسٹر میں ہوتا ہے اور دوسرے کا اندراج برائیوں کے رجسٹر میں ہوتا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کون سے مشوروں میں خیر ہے ؟ پھر فرمایا (لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰھُمْ ) یعنی جو لوگ آپس میں مشورے کرتے ہیں ان کے بہت سے مشوروں میں کوئی خیر نہیں کیونکہ یہ مشورے اللہ کی رضا کے خلاف بھی ہوتے ہیں اور ان مشوروں میں احکام اسلامیہ کے خلاف بھی باتیں سوچی جاتی ہیں۔ ہاں ان مشوروں میں اگر کوئی ا... یسی بات ہو کہ ایک دوسرے کو آپس میں صدقہ دینے کے لیے کہا جائے یا کسی نیک کام کے کرنے کا حکم ہو یا لوگوں کے درمیان صلح کرا دینے کی بات ہو تو یہ مشورے خیر کے مشورے ہوں گے۔ اللہ کی رضا کے لیے جو شخص یہ کام کرے گا اسے اللہ تعالیٰ بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ اس کا تعلق (اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ ) سے ہے جن لوگوں نے چوری کی تھی وہ رات کو ایسے مشورے کرتے رہے کہ ہم چوری کے الزام سے کیسے بچیں اور اس چوری کو کس کے سر دھریں، سبب نزول تو ان چوری کرنے والوں کا عمل ہے لیکن قرآن مجید میں ایک عام طریقے پر مشوروں کا حکم بیان فرما دیا کہ لوگوں کے مشوروں میں عام طور سے خیر نہیں ہوتی۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے کوئی مشورہ کرتے ہیں اور خیر کے کام کے لیے فکر کرتے ہیں اور اس فکر کے لیے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں یہ لوگ بڑے اجر کے مستحق ہیں۔ سورة مجادلہ میں فرمایا (آیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلاَ تَتَنَاجَوْا بالْاِِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَۃِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ اِِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ) (کہ اے ایمان والو ! جب تم آپس میں خفیہ طریقے پر مشورے کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے مشورے نہ کرو اور بھلائی کے اور تقویٰ کے مشورے کرو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم سب جمع کیے جاؤ گے) مومن کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سب اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، ہر عمل میں تقویٰ اور آخرت کی پیشی سامنے رہے۔ صلح کرا دینے کی فضیلت : آیت میں فرمایا کہ صدقہ کا حکم اور امر بالمعروف (بھلائی کا حکم دینا) اور لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ان کاموں کا مشورہ ہونا چاہیے اصلاح بین الناس یعنی لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ان کی رنجشیں دور کردینا اور ان کے دلوں کو جوڑ نے کی کوشش کرنا روٹھے ہوئے دوستوں کو منا دینا میاں بیوی کے درمیان موافقت پیدا کرا دینا بہت بڑی ثواب کی چیزیں ہیں۔ حضرت ابو درداء (رض) نے بیان فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تم کو نفلی روزوں اور صدقہ دینے اور نفلی نماز پڑھنے کے درجے سے بھی افضل چیز نہ بتادوں، ہم نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیے آپ نے فرمایا کہ یہ چیز آپس میں صلح کرا دینا ہے (پھر فرمایا کہ) آپس کا بگاڑ مونڈ دینے والا ہے۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی و قال ھذا حدیث صحیح) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بغض مونڈ دینے والی صفت ہے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈ دیتی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (رواہ الترمذی)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82 یہ نویں حکم سلطانی سے متعلق ہے۔ منافقوں نے رات کو منصوبہ بنایا تھا کہ وہ زید بن یاسمین یہودی پر چوری کا الزام لگا دیں اور جھوٹی قسمیں کھا کر طعمہ کو چوری کے الزام سے بری کرنے کی کوشش کریں گے تو فرمایا دوسرے کو نقصان پہنچانے اور جھوٹی گواہی دینے کے لیے مشورے نہیں کرنے چاہئیں۔ اراد ما تفاوض بہ قوم ... بنی ابیرق من التدبیر (قرطبی ج 5 ص 382) بلکہ مشورے تو دوسروں کو فائدہ پہنچانے، ان پر احسان کرنے اور باہمی اصلاح کی بابت ہونے چاہئیں۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَالِکَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ الخ یہ ان لوگوں کے لیے بشارت اخروی ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے مشورے کریں وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ الخ یہ ان لوگوں کے لیے تخویف اخروی ہے جو پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوں اور ان کے خلاف منصوبے بنائیں اور مشورے کریں یہاں تک نو احکام سلطانیہ ختم ہوئے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 عام لوگوں کے باہمی مشوروں اور سرگوشیوں میں بسا اوقات بھلائی اور خیر و برکت نہیں ہوتی۔ مگر ہاں ان لوگوں کے باہمی مشورے اور سرگوشیاں ہیں جو صدقہ اور خیر خیرات کی تعلیم و ترغیب دیں یا کسی اور نیک و مستحسن کام کی تعلیم و ترغیب دیں یا لوگوں کے مابین اصلاح و صلح و صفائی کرانے کی ترغیب دیں اور جو شخص م... حض اللہ تعالیٰکی رضا جوئی اور خوشنودی کی غرض سے ان کاموں کی ترغیب دے گا اور ان کاموں کو کرے گا تو ہم اس کو عنقریب بہت بڑا اجر وصلہ عطا فرمائیں گے۔ (تیسیر) نجوی زمین کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو قطعہ بلند ہو یعنی پست اور ہموار زمین میں جو حصہ اونچا ہو اس کو نجوی کہتے یں لیکن اب بھید کو بولتے ہیں دو یا دو سے زیادہ کہیں مل کر کوئی مشورہ کریں اس کو نجوی کہیں گے آج کل ہماری اصطلاح میں خفیہ مجلس میٹنگ نجوی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں مختلف معنی میں آیا ہے بھید کہنا، سرگوشی کرنا، کسی کو بھید بتانا ، خفیہ مشورہ کرنا وغیرہ ومن یفعل ذلک کے دو معنی کئے گئے ہیں ایک یہ کہ کوئی شخص ان کاموں کی ترغیب دے گا دوسرے یہ کہ جو یہ کام کرے گا یعنی صدقہ یا معروف یا اصلاح ہم نے تیسیر میں دونوں کا لحاظ رکھا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اکثر مشوروں میں خیر و برکت نہیں ہوتی جس میں یہ بنو ابیرق والوں کا مشورہ بھی شامل ہے جس میں بشیر کو یا طعہ کو بچانے کے لئے پنچایت جمع ہوئی تھی اور اہل محلہ نے رات کو مشورہ کیا تھا البتہ ! حسب ذیل کاموں کے لئے جو سرگوشی اور مشورہ ہو اس میں خیر و برکت ہوتی ہے کہ اس بات کی تدبیر کریں کہ صدقہ خیرات کس طرح کریں اور صدقہ خیرات کے متعلق مشورہ کریں اور لوگوں کو ترغیب دیں اور صدقہ خیرات کا حکم کریں یا کسی اور نیک اور بھلے کام کی ترغیب دینے کے لئے مشورہ کیا جائے یا لوگوں کی اصلاح اور لوگوں میں صلح صفائی کی ترغیب دینے کے لئے کوئی مشورہ ور سرگوشی کی جائے۔ ابتغا مرضات اللہ کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب کام رضائے الٰہی کی غرض سے ہوں اور ان سب کاموں کی ترغیب دینا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ہو ریا کاری اور دکھاوے کے لئے نہ ہ کیونکہ ریا کار کسی اجر کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ اجیر عظیم کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو بھلے کام کرنے سے رضائے الٰہی کے متلاشی ہوں اگرچہ معروف میں صدقہ اور اصلاح بین الناس بھی داخل ہے لیکن ان دونوں کی اہمیت اور خصوصیت ظاہر کرنے کے لئے ان کو علیحدہ ذکر کیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں منافق لوگ حضرت سے کان میں باتیں کرتے تاکہ لوگوں میں اپنا اعتبار ٹھہرا دیں اور مجلس میں بیٹھ کر آپس میں کان میں باتیں کرتے کسی کا عیب کسیک ا گلا اس کو اللہ صاحب نے فرمایا کہ ا ن کی مشورت بےخیر ہے صاف بات کو حاجت نہیں چھپانے کی مگر کچھ اس میں دغا ملی ہے اور چھپائے تو خیرات کو تا لینے والا شرمندہ نہ ہو یا مسئلہ دین کی غلطی بتانے کو نادان خجل نہ ہو یا لڑائی میں صلح کروانے کو کہ غصے والا جوش میں صلح نہیں مانتا اول آپس میں ٹھہرائے پھر اس کو سنائے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے ایک مشہور شبہ کا جواب اپنے حاشیہ میں خوب دیا ہے شبہ کا خلاصہ یہ ہے صدقہ اور معروف اور اصلاح کی ترغیب میں خفیہ مشورہ کی کیا ضرورت ہے یہ کام تو بالاتفاق بھلے ہیں ان کے متعلق مشاورت کو کیوں مستثنا کیا اور دوسری تقریر جو ہم نے اوپر بیان کی تھی کہ اگر ان کاموں کا کرنا مراد ہے تب بھی ان کو چھپانے اور پوشیدہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صدقے کے متعلق تو خفیہ مشورے کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس طرح یہ صدقہ دیا جائے کہ لینے والا شرمندہ نہ ہو مثلاً ایک شخص کے ساتھ کچھ سلوک کرنا ہے تو اس کے متعلق لوگوں سے پکار کر اس کے لئے کہو گے تو اس کو شرمندگی ہوگی، بہتر یہ ہے کہ علیحدہ بیٹھ کردو چار آدمی آپس میں مشورہ کرلیں کہ فلاں شخص کو کیا دینا اور کس طرح دینا ہے۔ اسی طرح شاہ صاحب نے معروف اور اصلاح میں بھی جواب دیا ہے جو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے معروف کا مطلب شاہ صاحبنے دین کی بات کیا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے ہر معروف صدقہ ہے اور تیرا اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کرتا بھی صدقہ ہے بعضنے کہا معروف سے مراد قرض ہے ۔ بعض نے کہا محتاج کی مدد کرتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تمام اعمال خیر کو لفظ معروف شامل ہے اور چونکہ صدقہ با اعتبار نفع رسانی کے اہم ہے اور اصلاح دفع مضرت کے اعتبار سے اہم ہے اس لئے ان دونوں کا ذکر علیحدہ فرمایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اعمال خیر جو متعدی ہیں ان کی تین قسمیں ہیں نفع رسانی اور دفع مضرت نفع رسانی کی دو صورتیں ہیں ایک جسمانی دوسرے روحانی جسمانی نفع رسانی کو صدقے سے تعبیر کیا ہے اور روحانی نفع کو معروف فرمایا اور دفع مفرت کو اصلاح بین الناس سے تعبیر کیا ہے۔ (واللہ اعلم) بعض حضرات نے اصلاح بین الناس کی تخصیص کے متعلق یہ کہا ہے کہ اصلاح ایسی اہم چیز ہے کہ اس کے لئے غیر معروف طریقہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مثلاً اگر کچھ جھوٹ بھی بول کر اصلاح بین للناس ہو سکے تو اس معاملہ خاص میں اس کی بھی گنجائش ہے یعنی تو یہ کے طور پر کچھ کہہ دینا جائز ہے۔ اسماء بنت زید کی روایت میں ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلط بیانی حلال نہیں ہے۔ مگر تین مواقع پر اگر غلط بات کہہ کر مقصد حاصل کیا جائے تو یہ غلط بیانی کذب میں شمار نہیں ہوگی ایک اپنی بیوی کو راضی کرنے کی غرض سے دوسرے لڑائی میں تیسرے اصلاح بی الناس کی غرض سے حضرت ابوالدردا سے ترمذی اور ابو دائود نے روایت کی ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا میں تم کو اس بات کی خبر نہ دوں جو بات روزے، صدقے اور نماز سب سے افضل ہے ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمائیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اصلاح ذات البین اور افساد ذات البین حالقہ ہے یعنی لوگوں میں اصلاح اور درستی کرنا سب سے افضل ہے اور لوگوں میں فساد ڈلوانا اور خرابی پیدا کرنا یہ مونڈنے والی چیز ہے جو مسلمان کے دین کو اس طرح مونڈ لیتی ہے جس طرح کوئی عالقہ بالوں کو مونڈ لیتی ہے۔ اجر عظیم کا یہ مطلب ہے کہ اس اجر کے مقابلہ میں دنیوی منافع ہیچ ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صدقہ معروف اور اصلاح کرنے والوں کو مستثنیٰ فرمایا اب ان لوگوں کا ذکر فرماتے ہیں جو ان کے علاوہ ہیں اور جن کی سرگوشیاں اور جن کے باہمی مشورے اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے عمل اور مسلمانوں کے عام اعتقاد کے خلاف طریقہ اختیا کرتے ہیں ان کے حق میں وعید کا اظہار فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more