Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 125

سورة النساء

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾

And who is better in religion than one who submits himself to Allah while being a doer of good and follows the religion of Abraham, inclining toward truth? And Allah took Abraham as an intimate friend.

باعتباردین کے اس سے اچھا کون ہے ؟ جو اپنے کو اللہ کے تابع کردے اور ہو وہ بھی نیکوکار ، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم کے دین کی پیروی کر رہا ہو اور ابرہیم ( علیہ السلام ) کو اللہ تعالٰی نے اپنا دوست بنالیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لله ... And who can be better in religion than one who submits his face to Allah. meaning, performs the good actions in sincerity for his Lord with faith and awaiting the reward with Allah. ... وَهُوَ مُحْسِنٌ ... and he is a Muhsin, following the correct guidance that Allah legislated in the religion of truth which He sent His Messenger with. These are the two conditions, in the absence of which no deed will be accepted from anyone; sincerity and correctness. The work is sincere when it is performed for Allah alone and it becomes correct when it conforms to the Shariah. So, the deed becomes outwardly correct with following the Sunnah and inwardly correct with sincerity. When any deed lacks either of these two conditions, the deed becomes null and void. For instance, when one lacks the pillar of sincerity in his work, he becomes a hypocrite who shows off for people. Whoever does not follow the Shariah, he becomes an ignorant, wicked person. When one combines both pillars, his actions will be the deeds of the faithful believers whose best deeds are accepted from them and their errors erased. Consequently, Allah said, ... واتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ... And follows the religion of Ibrahim the Hanif (Monotheist). referring to Muhammad and his following, until the Day of Resurrection. Allah said, إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِىُّ Verily, among mankind who have the best claim to Ibrahim are those who followed him, and this Prophet. (3:68) and, ثُمَّ أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Then, We have sent the Revelation to you (saying): "Follow the religion of Ibrahim the Hanif (Monotheist) and he was not of the Mushrikin. (16:123) The Hanif, intentionally and with knowledge, avoids Shirk, he goes attentively to the truth, allowing no one to hinder him or stop him from it. Ibrahim is Allah's Khalil Allah's statement, ... وَاتَّخَذَ اللّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلً And Allah did take Ibrahim as a Khalil (an intimate friend)! encourages following Ibrahim Al-Khalil, because he was and still is an Imam whose conduct is followed and imitated. Indeed, Ibrahim reached the ultimate closeness to Allah that the servants seek, for he attained the grade of Khalil, which is the highest grade of love. He acquired all this due to his obedience to His Lord, just as Allah has described him, وَإِبْرَهِيمَ الَّذِى وَفَّى And of Ibrahim, the one who fulfilled, (53:37) وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَـتٍ فَأَتَمَّهُنَّ And (remember) when the Lord of Ibrahim tried him with (certain) commands, which he fulfilled). (2:124) and, إِنَّ إِبْرَهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَـنِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Verily, Ibrahim was an Ummah, obedient to Allah, a Hanif, and he was not one of the Mushrikin. (16:120) Al-Bukhari recorded that `Amr bin Maymun said that; when Mu`adh came back from Yemen, he led them in the Fajr prayer and recited, وَاتَّخَذَ اللّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلً (And Allah did take Ibrahim as a Khalil!) One of the men present commented, "Surely, the eye of Ibrahim's mother has been comforted." Ibrahim was called Allah's Khalil due to his Lord's great love towards him, on account of the acts of obedience he performed that Allah loves and prefers. We should mention here that in the Two Sahihs, it is recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that; when the Messenger of Allah gave them his last speech, he said, مَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ فَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أَهْلِ الاَْرْضِ خَلِيلً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرِ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلً وَلكِنْ صَاحِبُكُمْ خَلِيلُ الله O people! If I were to take a Khalil from the people of the earth, I would have taken Abu Bakr bin Abi Quhafah as my Khalil. However, your companion (meaning himself) is the Khalil of Allah. Jundub bin Abdullah Al-Bajali, Abdullah bin `Amr bin Al-`As and Abdullah bin Mas`ud narrated that the Prophet said, إِنَّ اللهَ اتَّخَذَنِي خَلِيلً كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلً Allah has chosen me as His Khalil, just as He has chosen Ibrahim as His Khalil. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

125۔ 1 یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جا رہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کر دے محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہوجائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقینا اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی (علیہ السلام) (فتح القدیر) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اللہ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا "۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٤] دین ابراہیم کی صفات :۔ سیدنا ابراہیم کے دین کی قابل ذکر صفات دو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی۔ تقلید آباء کا انکار کیا، بت پرستی اور نجوم پرستی سے ٹکر لی۔ نمرود کی خدائی کا انکار کیا اور چونکہ انہوں نے اپنے وقت کی تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف ایک اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ لہذا وہ حنیف کہلائے اور حنیف کا یہی معنیٰ ہے اور دوسری صفت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے تمام تر احکام کے سامنے برضا ورغبت اپنا سر تسلیم خم کردیا تھا۔ یہ نہیں کیا کہ جو بات آسان یا نفس کو مرغوب تھی اسے تو قبول کرلیا اور جو مشکل یا ناپسند تھی اسے چھوڑ دیا، یا اس کی حسب پسند تاویل کر کے اسی کے مطابق عمل کرلیا۔ یہی دو صفات تھیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کو مختلف تجربوں اور آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اپنا دوست بنا لیا تھا اب جو شخص ملت ابراہیم کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے اسے انہی دو صفات کو کسوٹی بنا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کس حد تک سچا ہے، اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا کوئی اور ہو۔ سیدنا ابراہیم کا دین ہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب دینوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اسی دین کا نام اسلام ہے جو سب انبیاء کا شیوہ رہا ہے۔ اور اس دین کے اہم اجزاء دو ہیں (١) اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا (٢) اچھے اعمال بجا لانا اور ان دو اجزاء کا مفہوم اس قدر وسیع ہے جس میں پوری کی پوری شریعت سما جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل کی قبولیت کے معیار مقرر فرمائے ہیں، پہلا یہ کہ اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کے تابع کر دے۔ دوسرا یہ کہ وہ محسن ہو، تیسرا ملت ابراہیم کی پیروی کرے، جو حنیف تھے۔ چہرہ تابع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کر دے، اپنی مرضی ختم کر کے اس کی مرضی پر چلے، یہ ایمان ہے۔ محسن ہونے کا مطلب ہے کہ ہر عمل خالص اللہ کے لیے کرے، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کے بارے میں فرمایا : ( اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ) [ بخاری، الایمان، باب سؤال جبریل النبیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٥٠ ] اور ملت ابراہیم کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پوری طرح فرماں بردار ہوجائے، کیونکہ اب قیامت تک ملت ابراہیم پر قائم صرف امت مسلمہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ) [ آل عمران : ٦٨ ] ” بیشک سب لوگوں سے ابراہیم کے قریب یقیناً وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔ “ اور دیکھیے سورة نحل (١٢٣) اگر ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں، احسان و خلوص نہیں تو ریا ہے، جو شرک ہے اور نبی کے طریقے پر نہیں تو سنت نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ 2 خَلِيْلًا : جس کی دوستی دل کے درمیان پہنچ جائے اور اس میں کسی پہلو سے بھی کوئی خامی نہ رہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا۔ “ [ مسلم، المساجد، باب النھی عن بناء المساجد علی القبور۔۔ : ٥٢٨ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse says: وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا And who is better in Faith than one who has surrendered his self to Allah and is good in deeds, and has followed the creed of Ibrahim, the upright...) (125) It means that there can be no way better than the way of the person who is an embodiment of two virtues: 1. Firstly, &surrenders his or her self to Allah.& In other words, acts for the good pleasure of Allah with all sincerity at one&s command without ever contaminating one&s deeds with hypocritical or materialistic motives. 2. Secondly, &and is good in deeds.& In other words, the way in which one acts should also be correct. According to the great commen¬tator, Ibn Kathir., the way in which one acts, the correct way, means that it will not be some self-invented way. On the contrary, this will have to be the unalloyed way of Islam as based on the injunctions of Almighty Allah and the teachings of His noble Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Thus, we can see that there are two conditions for any deed to be acceptable in the sight of Almighty Allah. These are sincerity of inten¬tion and soundness of action, that is, being in accordance with the Shari’ ah and Sunnah. The first of the two conditions, Ikhlas or sincerity, relates to the heart, the inner most human dimension. The second condition, the compatibility with Shari’ ah, relates to the human exterior. Whoever fulfills both these conditions finds his or her exterior and interior perfectly synchronized. But, the moment one of the two conditions is found missing, that which is done becomes imperfect and unsound. The loss of sincerity makes one a hypocrite in practice while the failure in following the Shari` ah, the designated way, makes one go astray. Nations go astray because they lack sincerity or do not act right. The history of nations and faiths reveals that all deviant groups of peoples have either lacked sincerity or have not acted right. These very two groups have been indentified in Surah Al-Fatihah as those who have deviated from the straight path. Those referred to as مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (who incurred { Your) wrath) are people who lack sincerity, and those called ضَّالِّينَ (who have gone astray) are those who have not acted right. The first group is a victim of desires while the other, that of doubts. Everyone generally understands the first condition, that is, the need for sincerity and the futility of acting without it. But, good conduct - that is, following the Shari&ah - is the condition even many Muslims ignore. They think a good deed is a good deed and could be done at one&s choice although the Holy Qur&an and the Sunnah have made it perfectly clear that good conduct depends exclusively on the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and on following the Sunnah, the example set by him. Doing less than that and doing more than that are both crimes. The way offering three raka` at of Zuhr prayers instead of the prescribed four is a crime, so, offering five is also a crime and sin of the same nature. The rule is: The condition set forth by Almighty Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) for any act of worship is final. Any addition of conditions or restrictions from one&s own side or taking to some form other than the one laid out by him are all impermissible and patently against the norms of good conduct, no matter how attractive they may appear to be on the surface. All new alterations (Bid` at and Muhdathat) in the established religion which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) declared to be straying into error, and against which he left behind emphatic instructions for Muslims so that they can stay safe, are all of this nature. Ignorant people do this with &sincerity& as an act of worship worthy of the reward and pleasure of Allah, but the deed of such a person goes waste or becomes even sinful in the light of the Shari&ah bequeathed by the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is for this reason that the Holy Qur&an has repeatedly stressed on good conduct, that is, on following the Sunnah. It appears in Surah al-Mulk: لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (So that He tests you as to who among you is good in deed - 67:2). It will be noticed that the words used here are: أَحْسَنُ عَمَلًا (good in deed) and not اَکثَرُ عَمَلاً (outnumbering in deeds). It shows that the text is not talking about the numerical abundance of deeds. It is, rather, pointing out to the doing of good deeds - and a good deed is nothing but what is done in accordance with the Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This very concept of good conduct and the practical adherence to the Sunnah of the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been identified in another verse of the Holy Qur&an in the words وَمَنْ أَرَ‌ادَ الْآخِرَ‌ةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا (17:19) It means that Allah accepts the efforts and deeds of those who intend to have the good of the Hereafter, pure and unadulterated by any temporal considerations, and that they are making the needed effort, and that the effort they are making is proper as well, and the proper effort is exactly what has been explained to the community by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) although his word and deed. Any shift from this ideal of effort - whether increased or decreased - will not be accepted as the proper effort. Proper effort is nothing but what has been termed as good deed in the present verse. Let us now recapitulate that the acceptance of any deed with Allah depends on the fulfillment of two conditions. These are sincerity and good deed. Good deed is another name of the act of following the Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Therefore, everyone who intends to do a good deed with full sincerity must first find out how it was done by the noble Messenger of Allah and what instructions he has left behind for us in that connection, We must understand that any deed of ours which stands removed from the course set by our noble Prophet, known as his Sunnah, will stand unacceptable. There-fore, in all our deeds relating to Salah, Sawm, Hajj, Zakah, Sadaqat, Khayrat, Dhikr of Allah, Salah (durud) and Salam, it is necessary to keep in mind the way these were done by the Messenger of Allah and how he told us to do them. At the end of the verse (125), an example has been cited, the example of sincerity and good conduct set by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) the following of which has been declared as mandatory. By saying: وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَ‌اهِيمَ خَلِيلًا (And Allah has made Ibrahim a friend), it has been hinted that this high station bestowed on Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has good reason behind it for he was absolutely and superbly sincere and his deed too was sound and correct with intimation from Allah.

ارشاد فرمایا : ومن احسن دیناً ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن و اتبع ملتہ ابراہیم حنیفاً یعنی اس شخص سے بہتر کسی کا طریقہ نہیں ہوسکتا جس میں دو باتیں پائی جائیں، ایک اسلم وجھہ للہ یعنی اپنی ذات کو اللہ کے سپرد کر دے، ریا کاری یا دنیا سازی کے لئے نہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے عمل کرے۔ دوسرے وھومحسن یعنی وہ عمل بھی درست طریقہ پر کرے امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ درست طریقہ پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل محض خود ساختہ طرز پر نہ ہو، بلکہ شریعت مطہر کے بتلائے ہوئے طریقہ پر ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم کے مطابق ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں ایک اخلاص اور دوسرے عمل کا درس یعنی مطابق شریعت و سنت ہونا، ان دو شرطوں میں سے پہلی شرط اخلاق کا تعلق انسان کے باطن یعنی قلب سے ہے اور دوسری شرط یعنی موافقت شرع کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے، جب یہ دونوں شرطیں کسی شخص نے پوری کرلیں تو اس کا ظاہر و باطن درست ہوگیا اور جب ان میں سے کوئی شرط مفقود ہوئی تو عمل فاسد ہوگیا، اخلاص نہ رہا تو عملی منافق ہوگیا اور اتباع شریعت فوت ہوگیا تو گمراہ ہوگیا۔ قوموں کی گمراہی کا سبب اخلاص یا صحت عمل کا فقدان ہے :۔ قوموں اور مذاہب کی تاریخ پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوگا کہ جتنے بےراہ فرقے اور قومیں دنیا میں ہیں کسی میں اخلاص نہیں اور کسی میں عمل صحیح نہیں، یہی دو گروہ ہیں جن کا ذکر سورة فاتحہ میں صراط مستقیم سے ہٹ جانے والوں کے سلسلہ میں مغضوب علیھم اور ضآلین کے لفظوں سے بیان کیا گیا ہے، مغضوب علیھم وہ لوگ ہیں جن میں اخلاص نہیں، اور ضالین وہ جن کا عمل درست نہیں، پہلا گروہ شہوات کا شکار ہے اور دو سرا شبہات کا۔ پہلی شرط، یعنی اخلاص کی ضرورت اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں عمل کا بےکا رہنا تو عام طور پر سب سمجھتے ہیں لیکن محسن عملی یعنی اتباع شریعت کی شرط پر بہت سے مسلمان بھی نہیں دھیان دیتے یوں سمجھتے ہیں کہ نیک عمل کو جس طرح چاہو کرلو، حالانکہ قرآن و سنت نے پوری طرح واضح کردیا ہے کہ حسن عمل صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور اتباع سنت پر موقوف ہے، اس سے کم کرنا بھی جرم ہے اور اس سے بڑھانا بھی جرم ہے، جس طرح ظہر کی چار کے بجائے تین رکعات پڑھنا جرم ہے، اسی طرح پانچ پڑھنا بھی ویسا ہی جرم و گناہ ہے کسی عبادت میں جو شرط اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لگائی ہو اس میں اپنی طرف سے شرطوں کا اضافہ یا آپ کی بتائی ہوئی ہیبت سے مختلف صورت اختیار کرنا یہ سب ناجائز اور حسن عمل کے خلاف ہے خواہ دیکھنے میں وہ کتنے ہی خوبصورت عمل نظر آئیں، بدعات اور محدثات جن کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمراہی قرار دیا اور ان سے بچنے کی تاکیدی ہدایتیں فرمائیں، وہ سب اسی قسم سے ہیں، جاہل آدمی اس کو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشنودی اور عبادت وثواب جان کر کرتے ہیں، مگر شرع محمدی میں اس کا یہ عمل ضائع بلکہ موجب گناہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم نے بار بار حسن عمل یعنی اتباع سنت کی تاکید فرمائی، سورة ملک میں ہے، لیبلوکم ایکم احسن عملاً یہاں پر احسن عملاً فرمایا اکثر عملاً نہیں فرمایا، یعنی کثرت عمل کا ذکر نہیں، بلکہ اچھا عمل کرنے کا ذکر ہے، اور اچھا عمل وہی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق ہو۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اسی حسن عمل اور اتباع سنت مصطفوی کو ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ومن ارادالاخرة وسعی لھا سعیھا یعنی سعی و عمل ان لوگوں کا مقبول ہے جنہوں نے نیت بھی خالص آخرت کی رکھی ہو اور اس کے لئے سعی بھی کر رہے ہوں، اور جو سعی کر رہے ہیں وہ سعی مناسب بھی ہو اور سعی مناسب وہی ہے جو رسل کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول عمل سے امت کو بتلائی، اس سے ہٹ کر خواہ سعی میں کمی کی جائے یا زیادتی، دونوں چیزیں سعی مناسب نہیں ہیں اور سعی مناسب وہی ہے جس کا دوسرا نام حسن عمل ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں : اخلاص اور حسن عمل اور حسن عمل نام ہے اتباع سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس لئے اخلاص کے ساتھ حسن عمل کرنے والوں کا یہ بھی فرض ہے کہ عمل کرنے سے پہلے یہ معلوم کریں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عمل کو کس طرح کیا ہے اور اس کے متعلق کیا ہدایتیں دی ہیں، ہمارا جو عمل سنت کے طریقہ سے ہٹے گا نامقبول ہوگا نماز روزہ حج زکوة صدقات و خیرات اور ذکر اللہ اور درد وسلام سب میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عمل کو کس طرح انجام دیا اور کس طرح کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے آخر آیت میں اخلاص اور حسن عمل کی ایک مثال حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام کی پیش کر کے ان کے اتباع کا حکم دیا گیا اور واتخذاللہ ابراہیم خلیلاً فرما کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ حضرت خلیل کے اس مقام بلند کا سبب یہی ہے کہ وہ مخلص بھی اعلی درجے کے تھے اور ان کا عمل بھی باشارت خداوندی صحیح اور درست تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝ ٠ۭ وَاتَّخَذَ اللہُ اِبْرٰہِيْمَ خَلِيْلًا۝ ١٢٥ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ ملل المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها، ( م ل ل ) الملۃ ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ خلیل : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، الخلت دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا مین داخل ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کا معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ( واتبع ملۃ ابراہیم حنیفا و اتحذ اللہ ابراہیم خلیل اور یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی۔ اس ابراہیم کے طریقہ کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا) یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے ( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا پھر ہم نے تمہیں وحی کی یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو) یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مدت کی جو باتیں ثابت شدہ ہوں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے یہ بات ضروری ہوتی جاتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت وہی ہوجائے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت تھی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابراہہیم علیہ لسلام کی شریعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں داخل ہے۔ ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت پر اضافے کی صورت ہے۔ اسی بنا پر شریعت ابراہیمی کا اتباع واجب ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں داخل ہے اس لیے جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا متبع ہوگا وہ ملت ابراہیمی کا بھی متبع کہلائے گا۔ حنیف کے مفہوم کے بارے مییں ایک قول ہے اس کے معنی مستقیم کے ہیں۔ اس لیے جو شخص استقامت کے راستے پر چلے گا وہ حنیفیت پر گامزن متصور ہوگا۔ ٹیڑھے پائوں والے کو تفائول یعنی اچھا شگون لینے کے طور پر احنف کہا جاتا ہے جس طرح ہلاک حیزی کو مفارۃ ( کامیابی) اور سانپ کے ڈسے ہوئے انسان کو سلیم ( محفوظ، بچ جانے والا) کہا جاتا ہے۔ قول باری ( واتحذ اللہ ابراہیم خلیلا) کی تفسیر میں دو اقوال ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چن لیا تھا اور اپنی سرگوشی کے لیے انہیں مخصوص کرلیا تھا یہ مرتبہ کسی اور کو عطا نہیں ہوا تھا۔ دوم یہ کہ خلیل کا لفظ خلۃ معنی حاجت سے بنا ہے ۔ اللہ کا خلیل وہ ہے جو صرف اس کا محتاج ہے اور اپنی حاجتوں کے لیے صرف اس کی طرف ہی رجوع کرتا ہے۔ اگر لفظ خلیل سے پہلا مفہوم مراد ہو تو یہ کہنا جائز ہوگا حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل تھے اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خلیل تھا لیکن اگر دوسرا مفہوم مراد ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خلیل قرار دینا جائز نہیں ہوگا البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اللہ کے خلیل تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٥۔ ١٢٦) اور ایسے شخص سے زیادہ مضبوط اور اچھا کس کا دین ہوگا جو اپنے دین اور عمل کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو کر کرے گا اور توحید پر کار بند ہو کر قول وعمل میں نیکی کرے گا، تمام مخلوقات اور ہر ہر چیز بشمول غلام اور باندیاں سب اللہ تعالیٰ کی ملک میں داخل ہیں اور وہ تمام آسمانوں و زمین والوں کی ہر ایک بات کا کامل طریقہ پر علم رکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥ (وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ ) اللہ کی بندگی میں خوبصورتی لا کر ‘ خلوص اور للہیت کے ساتھ ‘ پورے دین کا اتباع کر کے ‘ تفریق بین الدّین سے بچ کر اور Total submission کے ذریعے سے اس نے احسان کے درجے تک رسائی حاصل کرلی۔ ِ ّ (وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ط) اور اس نے پیروی کی دین ابراہیم (علیہ السلام) کی یکسو ہو کر (یا پیروی کی اس ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی ‘ جو یکسو تھا) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:125) احسن ۔ بہتر۔ افعل التفضیل کا صیغہ۔ من احسن۔ استفہام انکاری ہے یعنی کوئی بہتر نہیں ہوسکتا بلحاظ دین کے ۔۔ الخ۔ من اسلم وجھہ اللہ۔ جس نے اللہ کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔ حنیفا۔ ایک طرف ہونے والا۔ حنف سے جس کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جو کوئی ایک راہ حق پکڑلے اور سب باطل راہیں چھوڑ دے۔ حنیف کہلادے۔ حنیفا حال ہے اس کا ذوالحال وہ شخص ہے جس نے ملت ابراہیمی کی پیروی اختیار کی۔ واتبع ملۃ ابراہیم حنیفا۔ اور جس نے تمام ادیان باطلہ کو چھوڑ کر صرف دین ابراہیمی کا اتباع کیا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی خالص توحید کی راہ اختیار کی اور ہر کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کرتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ عمل خالص اللہ کے لیے ہو اور سنت کے مطابق ہو، اگر خلوص نہیں ہے تو ریاکاری ہے اور سنت کے مطابق نہیں ہے تو بدعت ہے۔ (م، ع)6 جن کی دوستی میں کسی پہلو سے کوئی خامی نہ تھی، حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے پہلے یہ فرماتے سنا اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایا ا ہے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو خلیل بنادیا تھا۔ (مستد رک حاکم بسند صحیح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی اعمال میں بھی۔ 8۔ دل سے فرمانبرداری اختیار کی ہوخالی مصلحت سے ظاہرداری نہ ہو۔ 9۔ ملت ابراہیمی یعنی اسلام کا اتباع کرے۔ 1۔ خلیل ہونا اعلی درجہ کا تقرب ومقبولیت ہے اور حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے مجھ کو بھی خلیل بنایا ہے جیسا ابراہیم (علیہ السلام) کو بنایا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اچھی تمناؤں کے لیے اچھے اعمال کرنا ضروری ہیں جن کی بنیاد ملّتِ ابراہیم ہے۔ اس سے پہلے اہل کتاب کی بےبنیاد تمناؤں کی نفی کرکے وضاحت فرمائی کہ جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ محض نیک تمناؤں، خوش کن جذبات اور بلند بانگ دعو وں کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ کا میابی کا انحصار ایمان اور نیک اعمال پر ہے جس کی دین اسلام رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنے کا۔ جس سے مراد کلی طور پر اپنے جذبات اور اعمال کو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان کرنا ہے۔ ایسا شخص ہی محسن یعنی نیکو کار کہلانے کا حقدار ہے۔ اس کے لیے یہودیت، عیسائیت اور دائیں بائیں کے راستے نہیں بلکہ ایک اور صرف ایک ہی راستہ ہے جسے ملت ابراہیم کے نام سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ہر تعلق سے لاتعلق ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان کردیا تھا۔ جس کا یہ صلہ عطا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت میں صرف ایک ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہر امت کو اور خاص کر آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کو حکم ہوا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے خواہاں اور دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو پھر تمہیں ملت ابراہیم پر چلنا ہوگا۔ یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنا تھا۔ یہ عمل اور نظریہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اور زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور مملوک کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالک کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں رہے۔ جس طرح زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہے۔ ایسے ہی انسان کو بھی اپنے خالق ومالک کا تابع فرمان ہونا چاہیے اور یاد رکھو ! کوئی اللہ کا دوست ہو یا دشمن وہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اختیار سے باہر نہیں اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ دعا پڑھا کرتے تھے : (إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) [ الانعام : ٧٩] ” بلاشبہ میں نے تو یکسو ہو کر اپنا چہرہ اس کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین سے نہیں ہوں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے ابتداء نماز میں یہ دعا پڑھتے : (إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا۔۔ ) [ الانعام : ٧٩] ” میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ “ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الصلاۃ، باب مایستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء ] خلیل کا معنٰی : خلیل کا لفظ خلت سے ہے جس کا معنی ہے ایسا دوست کہ جس سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ ہودلی دوست۔ خیر خواہ۔ کمزور بدن والا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَی کُلِّ خِلٍّ مِنْ خِلِّہِ وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلاً إِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیل اللَّہِ )[ رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَاءِلِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیق ِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر ایک کی دوستی سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اگر میں کسی کو اپنا جگری دوست بنا تا تو وہ ابوبکر (رض) ہوتا تمہارا ساتھی اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔ یعنی اللہ کی دوستی سب سے مقدم ہے۔ “ مسائل ١۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والابہترین مسلمان ہے۔ ٢۔ ہر حال میں ملت ابراہیم کی پیروی کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا ہے۔ ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور تابع ہے۔ تفسیر بالقرآن کس کا دین بہتر ؟ ١۔ اللہ کے سامنے مطیع ہونے والے کا دین سب سے بہتر ہے۔ (النساء : ١٢٥) ٢۔ اللہ کے سامنے جھک جانے والامحسن ہے۔ (لقمان : ٢٢) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ (البقرۃ : ١٣١، الانعام : ٧٩) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار تھے۔ (البقرۃ : ٦٨) ٥۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کا حکم۔ (النحل : ١٢٣) ٦۔ امت محمدیہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم۔ (آل عمران : ٩٥) ٧۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔ (الانعام : ١٤) ٩۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی اسوۂ حسنہ قرار پائی۔ (الممتحنۃ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

محسنین کی تعریف : پھر فرمایا (وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ اتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰھِیْمَ خَلِیْلًا) اس میں لفظ (اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ ) وارد ہوا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں۔ ای اخلص نفسہ لہ تعالیٰ لا یعرف لھا ربا سواہ وقیل اخلص تو جھہ لہ سبحانہ و قیل بذل وجھہ للہ عزوجل فی السجود۔ مطلب یہ ہے کہ اسلم وجہہ للہ کا مصداق وہ شخص ہے جس نے اپنی جان کو خالص اللہ کے لیے مخصوص اور متعین کردیا وہ اپنے لیے اللہ کے سوا کسی کو رب نہیں پہچانتا، اور بعض حضرات نے اس کا معنی یہ بتایا ہے کہ اس نے اپنی توجہ خالص اللہ کے لیے کردیا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اپنے چہرے کو اللہ جل شانہٗ کے لیے سجدہ میں ڈال دیا پھر (وَ ھُوَ مُحْسِنٌ) فرمایا جس کا معنی یہ ہے کہ وہ اعمال صالحہ کو اس طریقے پر ادا کرتا رہا جو ان کے ادا کرنے کا حق ہے یہ لفظ احسان سے مشتق ہے۔ اسم فاعل کا صیغہ ہے احسان کا معنی ہے کسی چیز کو خوب اچھی طرح سے ادا کردینا۔ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا الاحسان ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک (کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے سو اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے سو وہ تجھے دیکھ رہا ہے) اس میں عبادت کا احسان بیان فرمایا ہے۔ اب پوری آیت کا مطلب یہ ہوا کہ دین کے اعتبار سے اس سے اچھا کون ہوگا جس نے اپنی ذات کو اللہ ہی کے لیے خالص کردیا۔ اس کی توجہ ظاہر سے اور باطن سے جسم سے اور جان سے صرف اللہ ہی کی طرف ہے۔ اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اتباع کرتا ہے وہ ابراہیم جو حنیف تھے جنہوں نے تمام ادیان کی طرف سے پرہیز کیا اور اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہی دینی ابراہیمی ہے جس کے اتباع کا خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کی امت کو حکم ہوا۔ جو کوئی ان مذکورہ بالا صفات سے متصف ہو وہی دینی اعتبار سے سب اچھا ہے کیونکہ دوسرے سب دین جو اس کے سوا ہیں وہ سب کفر ہیں جن پر اللہ کے قانون میں عذاب دائمی مقرر ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا۔ اللہ نے جسے دوست بنایا اس کے دین پر چلنے والا ظاہر ہے کہ اللہ کا محبوب ہوگا اور آخرت میں نجات اور ثواب دائمی کا مستحق ہوگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ علاقے کے لوگ بت پرست تھے خود ان کا باپ بھی بت پوجتا تھا۔ ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی بڑے بڑے مقابلے ہوئے ان لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا۔ اللہ نے آگ ٹھنڈی کردی پھر اپنے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ کو مکہ معظمہ کی چٹیل سر زمین میں جہاں آب وگیاہ کچھ بھی نہ تھا چھوڑ کر چلے گئے جب اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہوئے تو دونوں نے مل کر کعبہ شریف بنایا اور اس وقت امت محمدیہ کے وجود میں آنے کی دعا کی جس کا ذکر سورة بقرہ کے رکوع نمبر ١٥ میں گزر چکا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بہت قربانیاں دیں جو بھی کوئی شخص اللہ کے لیے قربانیاں دے گا اللہ کا محبوب ہوگا۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ ہی کے لیے خالص ہوجائے اور ظاہر و باطن سے اللہ کے لیے جھک جائے اور صفت احسان کے ساتھ اللہ کی عبادت کرے اور قربانی کے موقوع پر قربانی بھی دے۔ یہ صفات صرف مومنین ہی کو حاصل ہیں اہل کفر ان کے برابر کہاں ہوسکتے ہیں اگرچہ اہل کتاب ہی ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86 یہ دین اسلام کی پیروی اور ملت ابراہیمی کے اتباع کی ترغیب ہے اپنی خواہشات اور اپنی خود ساختہ نجات کی باتوں کو چھوڑو اور ہر قسم کے باطل اور شرک سے دور رہنے والے ابراہیم کی ملت کا اتباع کرو جسے اللہ تعالیٰ نے مقام خلت عطا فرمایا تھا۔ وَلِلّٰہِ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِیْ الْاَرْضِ الخ یہ تخویف اخروی ہے زمین و آسمان میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے اس لیے وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا یہاں تک دونوں حصے مع متعلقات ختم ہوئے اس کے بعد دونوں حصوں کے بعض مسائل یعنی احکام رعیت میں سے دوسرے اور چودھویں اور احکام سلطانیہ میں سے نویں حکم پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جو کوئی شخص کوئی نیک کام کے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ایسے نکو کار مومن جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور ان کے حق میں تل برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی اور اس شخص سے بہتر اور اچھا کس کا دین اور کس کا طریقہ ہوسکتا ہے جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرتسلیم خم کردیا ہو اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا ہو اور وہ نکو کار اور مخلص ہو اور نیک روش کا پابند ہو اور وہ سب ملتوں سے یکسو ہو کر صرف ملت ابراہیم کا پیرو اور متبع ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خالص دوست بنایا تھا۔ (تیسیر) نقیر سے مراد بہت حقیر شئے کھجور کی گٹھلی پر جو چھلکا ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں ظلم کی نفی فرمائی کیونکہ جہاں عدل ہی عدل ہو وہاں ظلم کہاں من الصالحات میں اہل علم نے من تبعیضیہ مراد لیا ہے کیونکہ تمام اعمال صالحہ پر کون عمل کرسکتا ہے۔ اسلم وجھ لللہ کے معنی ہم پہلے پارے میں بیان کرچکے ہیں۔ انقیاد استسلام لفظی ترجمہ تو وہی ہے جس نے اپنا منہ دھرا اللہ کے سامنے انسان کا چہرہ چونکہ اشرف اعضا ہے اس لئے کامل اطاعت اور مجسم حوالگی کو ان الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں محسن کی تفسیر بھی گزر چکی ہے لوگوں نے بہت سے معنی کئے ہیں ہم نے مخلص اختیار کرلیا ہے۔ حدیث شریف میں اس کے معنی اس طح بیان کئے گئے ہیں کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک ادنیٰ غلام اپنے آقا کے روبرو اور اس کے سامنے اس کی خدمت بجا لاتا ہے اسی طرح مخلصانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے۔ حنیف کے معنی ہیں سب سے کٹ کر اور سب سے اپنا رخ پھیر کر ایک طرف ہوجانا بعض لوگوں نے یہاں ملت کی قید بتائی ہے اور بعض نے ابراہیم کی اور بعض نے واتبع کیضمیر سے اس کو حال بنایا ہے ہم نے تیسری صورت کو اختیار کرلیا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک یہی راجح ہے خلیل ایسے دوست کو کہتے ہیں جو خالص ہو بعض نے کہا یہ لفظ خلال سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک خلل سے مشتق ہے کسی نے کہا خلۃ سے مشتق ہے۔ بہرحال ! حضرت حق کی جناب میں یہ درجہ بہت ہی ممتاز درجہ ہے مگر محبت سے کم ہے سیدنا ابراہیم علیہالسلام خلت خالصہ کے مرتبہ پر فائز تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محبوبیت خالصہ سے فائز المرام فرمایا تھا اور محبوبیت کی راہ میں خلت سے گزرنا ہوتا ہے اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا تھا اسی طرح مجھ کو بھی خلیل بنایا ہے یعنی محبوب بنانے سے قبل مجھ کو خلیل بنایا۔ خلت کی شرط یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہو خواہ اس کی جان کا معاملہ ہو خواہ اس کی اولاد کا اور مال کا ہو اور محبت کی شرط یہ ہے کہ محب محبت میں فنا ہوجائے اور سوائے محبوب کے کوئی چیز باقی نہ رہے ہر طرف وہی ہو بلکہ خود اپنی ذات بھی پیش نظر نہ رہے۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! یہ مقام اور خلت و محبت کا فرق ایسا عمیق اور باریک ہے کہ جس کا سمجھنا مشکل ہے ان مراتب سے مراد انتہائی قرب اور انتہائی مقبولیت ہوا کرتی ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل کتاب جو فخر کر رہے ہیں اور محض امیدوں پر عمارت تعمیر کر رہے ہیں یہ بےکار اور فضول ہے بلکہ جو شخص آخری شریعت پر ایمان لائے اور نیک اعمال کا پابند ہو وہی جنت میں داخل ہوگا اور اس پر کوئی ظلم نہیں ہوگا اور چونکہ یہ بات صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اور آپ کے صحیح متبعین پر صادق آتی ہے اس لئے ان کا ذکر ایک نئے عنوان سے فرمایا کہ اس سے بہتر کس کا دین ہوسکتا ہے جو مسلمان ہو، مخلص ہو اور ملت ابراہیمی کا پیرو ہو اور تمام ادیان باطلہ کو چھوڑ کر اس نے ملت ابراہیمی کی پیروی اختیار کی ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ ہمارے خالص دوست تھے اس لئے جو ان کے طریقے پر چلے گا وہ ہمارا دوست ہوگا اور وہ جنت میں داخل ہوگا چونکہ یہ باتیں مسلمانوں میں ہیں اس لئے وہی آخرت میں فائز و کامیاب ہونگے آگے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری پر دلیل بیان فرمائی تاکہ معلوم ہو کہ اس کی اطاعت کے سوا انسان کو کوئی چارہ نہیں کیونکہ دو باتیں کسی شخص کی اطاعت کا سبب ہوسکتی ہیں ایک سلطنت اور دوسرے علم یہ دونوں چیزیں حضرت حق ہی کو حاصل ہیں جس کی سلطنت بھی کامل اور جس کا علم بھی کامل ہے لہٰذا وہی کامل اور صحیح اطاعت کا مستحق بھی ہے۔ (تسہیل)