Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 126

سورة النساء

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطًا ﴿۱۲۶﴾٪  15

And to Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. And ever is Allah , of all things, encompassing.

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو گھیرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَللّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَرْضِ ... And to Allah belongs all that is in the heavens and all that is in the earth. means, everything and everyone are His property, servants and creation, and He has full authority over all of this. There is no one who can avert Allah's decision or question His judgment. He is never asked about what He does due to His might, ability, fairnes... s, wisdom, compassion and mercy. Allah's statement, ... وَكَانَ اللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا And Allah is Ever Encompassing all things. means, His knowledge encompasses everything and nothing concerning His servants is ever hidden from Him. Nothing, even the weight of an atom, ever escapes His observation in the heavens and earth, nor anything smaller or bigger than that.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٥] جزاء و سزا کا قانون بیان کرنے کے بعد یہ فرمانا کہ کائنات کی ایک ایک چیز اللہ ہی کی ملک ہے اس لحاظ سے ہے کہ وہ اپنے اس قانون کو نافذ کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتا ہے اور تم اس کی گرفت سے کسی صورت بچ نہیں سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی اللہ تعالیٰ کے ابراہیم (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوست بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح دوست برابر ہوتے ہیں، ان کی ملکیت بھی ایک ہی سمجھی جاتی ہے، اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل تھے، نہیں بلکہ آسمان و زمین کی ملکیت اب بھی اللہ ہی کے پاس ہے اور ہر شے کا اح... اطہ بھی اسی کے پاس ہے، یہ تو اس کا فضل و کرم ہے کہ اپنے ان خاص بندوں کو اپنا خلیل قرار دے کر ان کی عزت افزائی فرمائی۔ دلیل چاہو تو ابراہیم (علیہ السلام) کے والد آذر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو لہب کا معاملہ دیکھ لو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطًا۝ ١٢٦ۧ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي ...  نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

150. To submit to God is the best course for man, for it conforms fully to ultimate reality. Since God is the Lord of the heavens and the earth and all that lies therein, the only right attitude for man is to give up his unlimited freedom and willingly commit himself to serve and obey God. 151. If man will neither submit to God nor stop acting in defiance of Him, he should bear in mind that he ca... n never escape from God's grip,for His power encompasses him completely.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :150 یعنی اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دینا اور خود سری و خود مختاری سے باز آجانا اس لیے بہترین طریقہ ہے کہ یہ حقیقت کے عین مطابق ہے ۔ جب اللہ زمین و آسمان کا اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں تو انسان کے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ اس کی بندگی و اطاعت پر راض... ی ہو جائے اور سر کشی چھوڑ دے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :151 یعنی اگر انسان اللہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے اور سرکشی سے باز نہ آئے تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتا ، اللہ کی قدرت اس کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:126) محیطا۔ ملاحظہ ہو 4:108 ۔ یہاں احاطۂ قدرت مراد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٢٦۔ قرآن کریم میں جہاں یہ بات آتی ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی الہ ہے تو اس کے ساتھ یہ بات بھی آتی ہے کہ وہی مالک اور نگہبان بھی ہے ۔ (ملک ۔ مہیمن) یعنی وہی بادشاہ اور کنٹرول کرنے والا ہے ۔ پس اسلام کا نظریہ توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ذات میں اللہ وحدہ لا شریک ہے بلکہ وہ مثبت توحید ہے اور ا... س کائنات میں فاعل اور موثر بھی وہی ہے اور حکومت اور نگہبانی بھی اسی کی ہے ۔ جب نفس انسانی کے اندر یہ شعور پختہ ہوجاتا ہے کہ زمین وآسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے اور وہ ہر چیز کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے ۔ کوئی چیز خدا کے علم اور اس کی سلطنت سے باہر نہیں ہے ‘ تو اس طرح ایک انسان اس امر پر بسہولت آمادہ ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کو ایک الہ اور حاکم تسلیم کرے اور صرف اسی کی بندگی کرے اور پھر اللہ کو راضی کرنے کی سعی کرے اور اللہ کے احکام کو تسلیم کرے ۔ اس لئے کہ سب کچھ اس کا ہے ‘ اس کے قبضے میں ہے اور وہ ہر چیز پر محیط ہے ۔ بعض فلسفے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو واحد مانتے ہیں ‘ لیکن اس عقیدہ توحید کے بعد یہ فلسفے اس گمراہی میں مبتلا ہو اجاتے ہیں کہ اللہ صاحب ارادہ نہیں ہے ۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا علم نہیں ہوتا ۔ بعض اللہ کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ‘ بعض اللہ کی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ (تفصیلات کیلئے دیکھئے فلاسفہ کے خرافات) چناچہ فلاسفہ کے نزدیک خدا کا تصور ایک منفی تصور ہے ۔ اس تصور میں لوگوں کی زندگی کے ساتھ اللہ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ نہ ان کے طرز عمل اور انکے اخلاق پر اس کا کوئی تصرف ہے ‘ فلاسفہ کی توحید محض کلام ہی کلام ہے ۔ لیکن اسلام میں ‘ اللہ وہ ذات ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے ‘ لہذا وہ ہر چیز کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر محیط ہے اور وہ نگہبان ہے ۔ لہذا اس تصور کے زیر سایہ ضمیر کی اصلاح ‘ طرز عمل کی اصلاح اور پوری زندگی کی اصلاح کی جاسکتی ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (وَ لِلّٰہِ مَاَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ) کہ اللہ کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں جو کچھ زمین میں ہے اور سب اس کی مخلوق ہیں اور مملوک ہیں۔ اسے اختیار ہے کہ تکوینی طور پر ان کو جس حال میں رکھے اور تشریعی طور سے جو حکم دے۔ جس کام کا چاہے حکم دے اور جس سے چاہے منع کرے۔ (وَ کَا... ن اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا) اور ہر چیز اللہ کے علم اور قدرت کے احاطہ میں ہے اسے تمام اعمال کا اور عمل کرنے والوں کا علم ہے اور حکمت کے مطابق ہر ایک کو جزا و سزا دینے پر اسے قدرت ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (تیسیر) مطلب وہی ہے جو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں ایک حصہ میں اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور اس کی مالکیت کا اعلان ہے اور دوسرے حصہ میں اس کے علم اور اس کی قدرت کا اعلان ... ہے اور یہی دو باتیں بندے کے لئے اس کی عبادت و اطاعت کا موجب ہیں غالباً یاد ہوگا کہ سورة نساء کی ابتداء میں یتیم بچوں کے سلسلے میں بعض احکام و مسائل فرمائے تھے کیونکہ لوگ یتیم بچوں کے بارے میں کوتاہی کرتے تھے اگر کوئی یتیم لڑکی خوبصورت اور مالدار ہوتی اور اتفاقاً اس کا ولی ایسا ہوتا جس سے نکاح جائز ہوتا۔ مثلاً چچا زاد بھائی تو ولی اس سے نکاح کرلیتا مگر مہر پورا مقرر نہ کرتا اور اگر کوئی لڑکی بدصورت ہوتی تو اس سے نہ خود نکاح کرتا اور اس خوف سے کہ اس کی دولت کہیں اور چلی جائے گی اس کا نکاح کسی دوسری جگہ بھی نہ کرتا اور اس سے نفرت کرتا۔ بعض لوگ عورت کی میاث ہی نہ دیتے تھے بعض عورت کو تنگک رنے کی غرض سے قید رکھتے تھے تاکہ وہ اپنا مال چھوڑ دے اور اپنا پیچھا چھڑا لے۔ غرض ! ان تمام باتوں کی اصلاح اور ان کی روک تھام کے لئے اس سورت کی ابتداء میں احکام بیان فرمائے تھے۔ چناچہ ان ہی باتوں کے متعلق بعض لوگوں نے مختلف سوال کئے تھے جن کا جواب آگے مذکور ہے۔ مثلاً پہلے یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اب لوگوں کو خیال ہوا کہ غیر سے نکاح کرنے کی بجائے دلی اگر نکاح کرے تو کم از کم یتیمیہ کی دیکھ بھال صحیح ہوگی اور بعض کو یہ واقعہ پیش آیا کہ بدصورتی کی وجہ سے خود تو لڑکی سے نکاح نہ کیا اور مال نکل جانے کے خوف سے کہیں دوسری جگہ بھی نکاح نہ کیا اس بارے میں بعض لوگوں نے سوال کیا اور چونکہ پسندیدہ عورت کے ساتھ نکاح کرنے میں پورا مہر دینے کا حکم تھا اس لئے شاید بعض لوگوں نے یتیمہ سے کہہ سن کر کم کرانے کی کوشش کی ہے اس پر سوال ہوا ہو کہ اگر یتیمہ خود کم مہر پر اضی ہوجائے تب تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ غرض ! اسی قسم کے سوالات کا آگے جواب مذکور ہے اور گزشتہ احکام کا اعادہ ہے کہ جو حکم ہم دے چکے ہیں اس میں تمہارا اور یتامیٰ کا فائدہ اور احتیاط ہے اور انہی احکام سابقہ پر توجہدلانے کے ساتھ عورتوں کے بعض اور مسائل بھی ارشاد فرمائے۔ چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)  Show more