Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 154

سورة النساء

وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَہُمُ الطُّوۡرَ بِمِیۡثَاقِہِمۡ وَ قُلۡنَا لَہُمُ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلۡنَا لَہُمۡ لَا تَعۡدُوۡا فِی السَّبۡتِ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ﴿۱۵۴﴾

And We raised over them the mount for [refusal of] their covenant; and We said to them, "Enter the gate bowing humbly", and We said to them, "Do not transgress on the sabbath", and We took from them a solemn covenant.

اور ان کا قول لینے کے لئے ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ سجدہ کرتے ہوئے دروازے میں جاؤ اور یہ بھی فرمایا کہ ہفتہ کے دن میں تجاوز نہ کرنا اور ہم نے ان سے سخت سے سخت قول و قرار لئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ ... And for their covenant, We raised over them the mount, This was when they refrained from implementing the rulings of the Tawrah and refused what Musa brought them from Allah. So Allah raised the mountain above their heads and they were ordered to prostrate, which they did. Even so, they were looking above when they were prostrating for fear that the mountain might fall on them, وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّواْ أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُواْ مَأ ءَاتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ And (remember) when We raised the mountain over them as if it had been a canopy, and they thought that it was going to fall on them. (We said): "Hold firmly to what We have given you." (7:171) Allah then said, ... وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّدًا ... and We said, "Enter the gate prostrating (or bowing) with humility;" meaning that they also defied this command in word and action. They were commanded to enter Bayt Al-Quds (in Jerusalem) while bowing and saying "Hittah", meaning: `O Allah! take from us our sin of abandoning Jihad.' This was the cause of their wandering in the desert of Tih for forty years. Yet, they entered the House while crawling on their rear ends and saying `Hintah (a wheat grain) in Sha`rah (the hair)'. ... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَ تَعْدُواْ فِي السَّبْتِ ... and We commanded them, "Transgress not the Sabbath (Saturday)." meaning, We commanded them to honor the Sabbath and honor what Allah prohibited them on that day. ... وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا And We took from them a firm covenant. meaning, strong covenant. They rebelled, transgressed and committed what Allah prohibited by using deceit and trickery, as is mentioned in Surah Al-A`raf. وَسْيَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ And ask them about the town that was by the sea. (7:163)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٦٣) اور ” ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٥٨، ٥٩) ۔ وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ ” اصحاب سبت “ جنھیں ہفتے کے دن مچھلی کے شکار سے منع کیا گیا تھا، ان کے قصے کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٦٥) اور سورة اعراف (١٦٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَہُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۝ ١٥٤ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ طور طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله : وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح/ 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج/ 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص/ 46] ، وَطُورِ سِينِينَ [ التین/ 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء/ 154] . ( ط و ر ) طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح/ 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج/ 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص/ 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین/ 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء/ 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیک پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ غلظ الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی: وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] . ( ع ل ظ ) الغلظۃ ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٤) ان لوگوں سے پختہ میثاق لینے کے لیے کوہ طور کو اکھاڑ کر ہم نے ان کے سروں پر اٹھالیا تھا اور انہیں یہ بھی حکم دیا تھا کہ باب ادیحاء سے جھک کر عاجزی کے ساتھ داخل ہونا اور دیکھنا ہفتہ کے روز مچھلیاں مت پکڑنا اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے بھی ان سے پختہ وعدہ لیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٤ (وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا ) یعنی جب اریحا (Jericho) شہر تمہارے ہاتھوں فتح ہوجائے اور اس میں داخل ہونے کا مرحلہ آئے تو اپنے سروں کو جھکا کر عاجزی کے ساتھ داخل ہونا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

184. This 'manifest commandment' refers to the commandments hichhad been handed over to Moses on tablets. (For a more detailed account of this incident see (Surah al-A'raf 7, verses 143 ff.).The covenant referred to here is that which had been entered into by the representatives of Israel in the valley of Mount Sinai. For this see (Surah al-Baqarah 2: 63 )and (Surah al-A'raf 7:171.) 185. See Towards Understanding the Qur'an. vol. I, (Surah 2: 58-9 and n. 75). 186. See ibid., ( Surah 2: 65 and nn. 82-3).

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :184 صریح فرمان سے مراد وہ احکام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تختیوں پر لکھ کر دیے گئے تھے ۔ سورہ اعراف ، رکوع ۱۷ میں اس کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ آئے گا ۔ اور عہد سے مراد وہ میثاق ہے جو کوہ طور کے دامن میں بنی اسرائیل کے نمائندوں سے لیا گیا تھا ۔ سورہ بقرہ آیت ٦۳ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے اور اعراف آیت ۱۷۱ میں پھر اس کی طرف اشارہ آئے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :185 سورة بقرہ آیت ۵۹-۵۸ و حاشیہ نمبر ۷۵ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :186 سورة بقرہ آیت ٦۵- و حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

87: ان واقعات کی تفصیل سورۃ بقرہ کی آیات 51 تا 66 اور ان کے حواشی میں گذر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:154) رفعنا۔ باب فتح۔ رفع سے ماضی جمع متکلم ۔ ہم نے بلند کیا۔ ہم نے اٹھایا۔ ورفعنا فوقھم الطور۔ ہم نے بلند کیا ان کے اوپر کوہ طور کو۔ ان کے سروں پر کوہ طور کو معلق کردیا۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے کوہ طور کو ان کے اوپر کھڑا کردیا۔ کہ ان پر سایہ فگن ہوگیا تاکہ وہ ڈر جائیں اور نقض عہد سے باز رہیں (الخازن) پہاڑ کے دامن میں میثاق لیتے وقت ایسی خوفناک صورت حال پیدا کردی گئی تھیں کہ ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا پہاڑ ان کے اوپر آپڑے گا۔ عہد سے مراد وہ میثاق ہے جو کوہ طور کے دامن میں بنی اسرائیل کے نمائندوں سے لیا گیا تھا۔ (تفہیم القرآن مودودی) اور ہم نے کوہ طور کی بلندیوں کے دامن میں ان سے عہد لیا تھا (عبد اللہ یوسف علی) صاحب المفردات لکھتے ہیں :۔ الرفع (فتح) کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ یہ کبھی تو مادی چیز کو جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ورفعنا فوقکم الطور (2:163) اور ہم نے طور پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکھڑا کیا۔ یا آیۃ ہذا۔ اور اللہ الذی رفع السموت بغیر عمد ترونھا (13:2) اللہ تعالیٰ وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدون کسی سہارے کے جسے تم دیکھ سکو اونچا بنا کھڑا کیا۔ اور کبھی ناموری اور شہرت ذکر بلند کرنے کے لئے جیسے فرمایا ورفعنا لک ذکر ک (94:4) اور ہم نے تمہارے ذکر خیر کا آوازہ بلند کیا۔ اور کبھی مرتبہ کی بلندی بیان کرنے کے لئے جیسے نرفع درجات من نشاء (12:76) اور ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کردیتے ہیں۔ بمیثاقہم۔ میں ب سببیہ ہے ۔ یعنی بسبب اخذمیثاقھم۔ ان سے پختہ وعدہ لینے کے لئے۔ المیثاق پختہ عہدو پیمان جو قسموں کے ساتھ مؤکد کیا گیا ہو وثق سے۔ لاتعدوا۔ فعل نہی تم تعدی نہ کرو۔ تم تجاوز نہ کرو۔ تم زیادتی نہ کرو۔ عدو سے باب نصر۔ السبت۔ روز شنبہ۔ سینچر کا دن۔ اہل یہود کے نزدیک سنیچر کا دن متبرک اور تعظیم کا دن تھا ۔ اور اس دن وہ اپنے کام سے قطع تعلق رکھتے تھے۔ یہودیوں کا عزت و حرمت کا دن انگریزی اور عبرانی شبات کا عربی مترادف۔ اس روز ان پر بعض کام کرنے اور بعض نہ کرنے کے احکام عائد تھے۔ اسی طرف اس آیۃ میں اشارہ ہے کہ سبت کے روز احکام کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ حدود جو مقرر کی گئی ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا۔ میثاقا غلیظا۔ پختہ وعدہ۔ غلیظ غلیظۃ صفت مشبہ۔ سخت ۔ شدید۔ الغلظۃ بمعنی موٹاپن۔ گاڑھا پن۔ سخت پن۔ مثلاً فاستغلظ فاستوی علی سوقہ (48:29) پھر موٹی اور سخت ہوئی۔ اور پھر اپنی نال (تنے) پر سیدھی کھڑی ہوگئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہاں سجدہ اپنے لغوی معنی میں ہے یعنی تواضع اور انکساری (مفردات) نیز دیکھئے بقرہ آیت 58)3 اصحابہ سبت کے قصہ کی طرف اشارہ ہے جن کو ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار سے منع کیا گیا تھا۔ (دیکھئے بقرہ آیت 65 نیز سورت اعراف آیت 163)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ہی اعتراض اور سوال نہیں کرتے بلکہ انھوں نے ہر نبی کی ذات پر الزامات لگائے اور اس کی نبوت پر اعتراض کیے۔ ایسا کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی چند دنوں کی غیر حاضری پر بچھڑے کو معبود بنانا اور بعدازاں اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر کوہ طور منڈلاکر اس بات کا عہد لیا کہ آئندہ تورات کے احکامات پر سختی کیساتھ عمل کرتے رہوگے۔ یہاں اہل کتاب سے مراد صرف یہودی ہیں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے پختہ اقرار کرنے کے باوجود اپنے عہد سے منحرف ہوگئے فتح ایلیاء یعنی بیت المقدس کی کامیابی کے وقت انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ تم اللہ کے حضور سجدہ کرتے اور معافی مانگتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہونا۔ لیکن انھوں نے نہ صرف استکبار اور جور و استبداد کا مظاہرہ کیا بلکہ سرے سے ہی فرمان الٰہی حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں تبدیل کردیا، جب انہیں ہفتہ کے دن میں عبادت کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے مچھلیاں پکڑنے کے لیے حیلہ بازی سے کام لیا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مسلسل انکار کرنے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ناحق قتل کرنے کے سنگین جرم میں ملوث ہوئے، جب انہیں ان جرائم سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی تو دنیاوی مفادات کے حصول اور طبعی رعونت کی بنا پر انبیاء اور صالحین کو جواب دیتے کہ ہمیں تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں جسکا دوسرا معنی یہ تھا کہ تم جس قدر چاہو ہمیں سمجھاؤ۔ ہم اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ اس طرح حق کے مقابلہ میں تعصب کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ جس تعصب اور رعونت پر وہ فخر کرتے تھے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ تھا۔ جس وجہ سے ان کے دلوں پر کفر کی مہریں ثبت کردی گئیں ا سی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے حضرت مریم [ جیسی پاکدامنہ خاتون پر بد کاری کا سنگین الزام عائد کیا اور اب تک یہودی ایسی یاوا گوئی کرتے ہیں۔ اسی لیے یہودیوں میں بہت کم لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٢۔ بنی اسرائیل عہد شکن قوم ہے۔ ٣۔ یہودی انبیاء کے قاتل ہیں۔ ٤۔ آدمی کی بار بار سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رفعت عطا کرنے والا ہے : ١۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا۔ (الرعد : ٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام : ١٦٦) ٣۔ ہم نے حضرت ادریس کو اعلیٰ مقام پر اٹھایا۔ (مریم : ٥٧) ٤۔ اللہ ہی درجات بلند کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٨٣) ٥۔ اللہ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلۃ : ١١) ٦۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ (النساء : ١٥٨) ٧۔ نیک عمل اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہیں۔ (الفاطر : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ ) اس کا ذکر بھی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور سورة اعراف میں بھی ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل پر توریت شریف پیش کی اور فرمایا کہ اس کو قبول کرو اور اس کے احکام پر عمل کرو تو یہ لوگ انکاری ہوگئے تب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دیا جو ان کے سروں پر آکر ٹھہر گیا اور ان سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اس کو قبول کرو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو۔ اسی وقت کہنے لگے کہ ہم مانتے ہیں عہد کرلیا کہ ہم اس پر عمل کریں گے لیکن پھر اپنے عہد سے پھرگئے جیسا کہ سورة بقرۃ میں فرمایا (ثّمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ ) یہاں اس واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ فرمایا۔ پھر فرمایا (وَقُلْنَا لَھُمُ ادْخُلُوم الْبَابَ سُجَّدًا) (اور ہم نے کہا داخل ہوجاؤ دروازہ میں جھکے ہوئے) اس کا ذکر بھی سورة بقرہ میں گذر چکا ہے اور سورة اعراف میں بھی ہے۔ جب میدان تیہ سے نکلے تو ان کو ایک بستی میں داخل ہونے کا حکم ہوا یہ بستی کون سی تھی اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان کو حکم ہوا تھا کہ اس بستی میں جھکے ہوئے تواضع کے ساتھ داخل ہوں۔ لیکن ان لوگوں نے اس کی نافرمانی کی اور بجائے جھکے ہوئے داخل ہونے کے بیٹھ کر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے تفصیل کے لیے سورة بقرہ رکوع ٦ کی تفسیر دیکھ لی جائے۔ (انوار البیان آغاز میں) پھر فرمایا (وَقُلْنَالَھُمْ لَاتَعْدُوْا فِی السَّبْتِ ) اور ہم نے ان سے کہا کہ سنیچر کے دن میں زیادتی نہ کرو۔ اس کا ذکر بھی سورة بقرہ میں گذر چکا ہے اور سورة اعراف میں بھی ہے۔ یہودیوں کو حکم تھا کہ سنیچر کے دن مچھلیوں کا شکار نہ کریں۔ اور ان کی آزمائش کے لیے سنیچر کے دن مچھلیاں دریا کے کنارے پر خوب ابھر ابھر کر آتی تھیں اور دوسرے دنوں میں مچھلیاں غائب ہوجاتی تھیں۔ چونکہ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ممنوع تھا اس لیے ان لوگوں نے یہ حرکت کی کہ دریا کے کنارے حوض بنا دئیے اور ان حوضوں کو بڑی بڑی نالوں کے ذریعے سمندر سے ملا دیا۔ جمعہ کے دن بندتوڑ دیتے تھے کہ سنیچر کے دن پانی کے بہاؤ کے ساتھ مچھلیاں ان حوضوں میں داخل ہوجائیں جب مچھلیاں ان حوضوں میں آجاتیں تو بند لگا دیتے تھے تاکہ سمندر میں واپس نہ جائیں پھر اتوار کے دن پکڑ لیتے تھے اس حیلے کو انہوں نے استعمال کیا اور اس طرح سے سنیچر کے دن میں زیادتی اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ پھر فرمایا (وَاَخَدْنَا مِنْھُمْ مِّیْثَا قاً غَلِیْظاً ) یعنی ان سے ہم نے بہت مضبوط عہد لیا تھا کہ اللہ کے او امر پر چلیں گے اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچیں گے لیکن انہوں نے عہد کو توڑ دیا جس کا ذکر ابھی اگلی آیت میں آتا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور ہم نے ان لوگوں سے عہد و پیمان اور قول قرار لینے کے لئے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کردیا تھا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ بیت المقدس کے باب میں عاجزی کے ساتھ کمر کو جھکائے ہوئے داخل ہونا اور ہم نے ا ن کو یہ بھی حکم دیا تھ ا کہ دیکھو تم کو جو ہفتہ کے دن شکار کی ممانعت کی گئی ہے اس میں حد شرع سے تجاوز اور زیادتی نہ کرنا اور ہم نے ان سے بہت ہی پختہ اور مضبوط قول وقرار اور عہد و پیمان لیا تھا۔ (تیسیر) یہ وہی واقعات ہیں جو کم و بیش پہلے بارے میں گذر چکے ہیں یہاں دوسری مناسبت سے ان کی طرف مختصراً اشارہ فرمایا ہے جب ان کو توریت ملی تو انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر طور کو معلق کردیا یہ اس حالت کو دیکھ کر سجدے میں گرگئے مگر ایک آنکھ سے پہاڑ کر دیکھتے رہے ان سے کہا گیا جو احکام اور کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو قبول کرو یہ زبان سے تو کہتے رہے کہ ہم نے قبول کیا مگر دل سے انکار کرتے رہے۔ دوسرا واقعہ ارض تیہ سے نکلتے وقت پیش آیا جب انہوں نے مختلف غذائوں کی درخواست کی تو ان سے کہا گیا کہ جائو شہر میں داخل ہو بیت المقدس یا اریحا یا ایلیا میں داخل ہوتے وقت ان کو حکم ملا تھا کہ عاجزی کے ساتھ کمر کو جھکائے ہوئے یا نماز پڑھتے ہوئے دروازے میں داخل ہونا اور حطۃ کہتے ہوئے جانا انہوں نے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی۔ تیسرا واقعہ مچھلی کے شکار کا ہے کہ ان پر مچھلی کا شکار ہفتہ کے روز ممنوع تھا ان کو کہا گیا تھا کہ ہفتہ کے دن شکار نہ کرنا مگر انہوں نے اس میں حد سے تجاوز کیا اور سور و بندر بنا دیئے گئے واخذنا منھم میثاقا غلیظا کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہم نے توریت کے احکام ماننے پر ان سے پختہ عہد لیا اور یا یہ مطلب ہے کہ اس عہد کے علاوہ اور بھی بہت سی باتوں پر ان سے پختہ اور مضبوط قول وقرار لیا۔ اب آگے ان کی عہد شکنی اور بہتان طرازی وغیرہ کا ذکر ہے اور ان کی غلط بیانیوں کا رد اور ان کی سزائیں مذکور ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)