Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 158

سورة النساء

بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۵۸﴾

Rather, Allah raised him to Himself. And ever is Allah Exalted in Might and Wise.

بلکہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا ... But Allah raised him up unto Himself. And Allah is Ever All-Powerful, meaning, He is the Almighty, and He is never weak, nor will those who seek refuge in Him ever be subjected to disgrace. ... حَكِيمًا All-Wise. in all that He decides and ordains for His creatures. Indeed, Allah's is the clearest wisdom, unequivocal proof and the most glorious authority. Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said, "Just before Allah raised `Isa to the heavens, `Isa went to his companions, who were twelve inside the house. When he arrived, his hair was dripping water and he said, `There are those among you who will disbelieve in me twelve times after he had believed in me.' He then asked, `Who volunteers that his image appear as mine, and be killed in my place. He will be with me (in Paradise).' One of the youngest ones among them volunteered and `Isa asked him to sit down. `Isa again asked for a volunteer, and the young man kept volunteering and `Isa asking him to sit down. Then the young man volunteered again and `Isa said, `You will be that man,' and the resemblance of `Isa was cast over that man while `Isa ascended to heaven from a hole in the house. When the Jews came looking for `Isa, they found that young man and crucified him. Some of `Isa's followers disbelieved in him twelve times after they had believed in him. They then divided into three groups. One group, Al-Ya`qubiyyah (Jacobites), said, `Allah remained with us as long as He willed and then ascended to heaven.' Another group, An-Nasturiyyah (Nestorians), said, `The son of Allah was with us as long as he willed and Allah took him to heaven.' Another group, Muslims, said, `The servant and Messenger of Allah remained with us as long as Allah willed, and Allah then took him to Him.' The two disbelieving groups cooperated against the Muslim group and they killed them. Ever since that happened, Islam was then veiled until Allah sent Muhammad." This statement has an authentic chain of narration leading to Ibn Abbas, and An-Nasa'i narrated it through Abu Kurayb who reported it from Abu Mu`awiyah. Many among the Salaf stated that; `Isa asked if someone would volunteer for his appearance to be cast over him, and that he will be killed instead of `Isa, for which he would be his companion in Paradise. All Christians Will Believe in `Isa Before He Dies Allah said, وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُوْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا

صبح ہی ایک شخص شہر کے ایک دروازے سے چلے گا ، ابھی دوسرے دروازے تک نہیں پہنچا تو شام ہو جائے گی ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر ان چھوٹے دنوں میں ہم نماز کیسے پڑھیں گے؟ آپ نے فرمایا اندازہ کر لیا کرو جیسے ان لمبے دنوں میں اندازہ سے پڑھا کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پس عیسیٰ بن مریم میری امت میں حاکم ہوں گے ، عادل ہوں گے ، امام ہوں گے ، با انصاف ہوں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ کو ہٹا دیں گے صدقہ چھوڑ دیا جائے گا پس بکری اور اونٹ پر کوشش نہ کی جائے گی ، حسد اور بغض بالکل جاتا رہے گا ، ہر زہریلے جانور کا زہر ہٹا دیا جائے گا ، بچے اپنی انگلی سانپ کے منہ میں ڈالیں گے لیکن وہ انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا ، شیروں سے لڑکے کھیلیں گے نقصان کچھ نہ ہو گا ، بھیڑئے بکریوں کے گلے میں اس طرح پھریں گے جیسے رکھوالا کتا ہو تمام زمین اسلام اور اصلاح سے اس طرح بھر جائے گی جیسے کوئی برتن پانی سے لبالب بھرا ہوا ہو ، سب کا کلمہ ایک ہو جائے گا ، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی ، لڑائی اور جنگ بالکل موقف ہو جائے گی ، قریش اپنا ملک سلب کرلیں گے ، زمین مثل سفید چاندی کے منور ہو جائے گی اور جیسی برکتیں زمانہ آدم میں تھیں لوٹ آئیں گی ، ایک جماعت کو ایک انگور کا خوشہ پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہو گا ، ایک انار اتنا ہو گا کہ ایک جماعت کھائی اور سیر ہو جائے بیل اتنی اتنی قیمت پر ملے گا اور گھوڑا چند درہموں پر ملے گا ۔ لوگوں نے پوچھا اس کی قیمت گر جانے کی کیا وجہ؟ فرمایا اس لئے کہ لڑائیوں میں اس کی سواری بالکل نہ لی جائے گی ۔ دریافت کیا گیا بیل کی قیمت بڑھ جانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا اس لئے کہ تمام زمین پر کھیتیاں ہونی شروع ہو جائیں گی ۔ دجال کے آنے سے تین سال پیشتر سے سخت قحط سالی ہو گی ، پہلے سال بارش کا تیسرا حصہ بحکم الٰہی روک لیا جائے گا اور زمین کی پیداوار کا بھی تیسرا حصہ کم ہو جائے گا ، پھر دوسرے سال اللہ آسمان کو حکم دے گا کہ بارش کی دو تہائیاں روک لے اور یہی حکم زمین کو اپنی پیداوار کی دو تہائیاں کم کر دے ، تیسرے سال آسمان بارش کا ایک قطرہ نہ برسے گا ، نہ زمین سے کوئی روئیدگی پیدا ہو گی ، تمام جانور اس قحط سے ہلاک ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ پھر اس وقت لوگ زندہ کیسے رہ جائیں گے ، آپ نے فرمایا ان کی غذا کے قائم مقام اس وقت ان کا لا الہ الا اللہ کہنا اور اللہ اکبر کہنا اور سبحان اللہ کہنا اور الحمد اللہ کہنا ہو گا ۔ امام ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے استاد نے اپنے استاد سے سنا وہ فرماتے تھے یہ حدیث اس قابل ہے کہ بچوں کے استاد اسے بچوں کو بھی سکھا دیں بلکہ لکھوائیں تاکہ انہیں بھی یاد رہے یہ حدیث اس سند سے ہے تو غریب لیکن اس کے بعض حصوں کی شواہد دوسری حدیثیں ہیں ۔ اسی حدیث جیسی ایک حدیث نواس بن سمعان عنہ سے مروی ہے اسے بھی ہم یہاں ذکر کرتے ہیں صحیح مسلم شریف میں ہے ایک دن صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور اس طرح اسے واضح بیان فرمایا کیا کہ ہم سمجھے ، کہیں مدینہ کے نخلستان میں وہ موجود نہ ہو پھر جب ہم لوٹ کر آپ کی طرف آئے تو ہمارے چہروں سے آپ نے جان لیا اور دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ ہم نے دل کی بات کہہ دی تو آپ نے فرمایا ! دجال کے علاوہ مجھے تو تم سے اس سے بھی بڑا خوف ہے ، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے آپ بھگت لے گا ، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے آپ بھگت لے گا ، میں اپنا خلیفہ ہر مسلمان پر اللہ کو بناتا ہوں ، وہ جوان ہو گا ، آنکھ اس کی ابھری ہوئی ہو گی ، بس یوں سمجھ لو کہ عبدالعزیٰ بن قطن جیسا ہو گا ، تم میں جو اسے دیکھے اسے چاہئے کہ سورہ کہف کی شروع کی آیتیں پڑھے وہ شام و عراق کے درمیانی گوشے سے نکلے گا اور دائیں بائیں گشت کرے گا ، اے اللہ کے بندو! خوب ثابت قدم رہنا ، ہم نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ رہے گا کتنی مدت؟ آپ نے فرمایا چالیس دن ، ایک دن سال کے برابر ، ایک دن ایک مہینے کے برابر ، ایک دن جمعہ کے برابر اور باقی دن تمہارے معمولی دنوں جیسے ، پھر ہم نے دریافت کیا کہ جو دن سال بھر کے برابر ہو گا ، کیا اس میں ایک ہی دن کی نماز کافی ہوں گی؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اندازہ کر لو اور نماز ادا کر لو ، ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی رفتار کی سرعت کیسی ہو گی؟ فرمایا ایسی جیسے بادل ہواؤں سے بھاگتے ہیں ۔ ایک قوم کو پانی طرف بلائے گا وہ مان لیں گے تو آسمان سے ان پر بارش برسے گی ، زمین سے کھیتی اور پھل اگیں گے ، ان کے جانور ترو تازہ اور زیادہ دودھ والے ہو جائیں گے ، ایک قوم کے پاس جائے گا جو اسے جھٹلائے گی اور اس کا انکار کر دے گی ، یہ وہاں سے لوٹے گا تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہ رہے گا وہ بنجر زمین پر کھڑے ہو کر حکم دے گا کہ اے زمین کے خزانو نکل آؤ تو وہ سب نکل آئیں گے اور شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے پھریں گے ۔ یہ ایک نوجوان کو بلائے گا اور اسے قتل کرے گا اس کے ٹھیک دو ٹکڑے کر کے اتنی اتنی دور ڈال دے گا جو کسی تیر کی کمان سے نکلے ہوئے دوری ہو ، پھر اسے آواز دے گا تو وہ زندہ ہو کر ہنستا ہوا اس کے پاس آ جائے گا ۔ اب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا اور وہ دمشق کے سفید شرقی مینارے کے پاس دو چادریں اوڑھے دو فرشتوں کے پروں پر بازو رکھے ہوئے اتریں گے ، جب سر جھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو مثل موتیوں کے وہ قطرے لڑھکیں گے ، جس کافر تک ان کا سانس پہنچ جائے وہ مر جائے گا اور آپ کا سانس وہاں تک پہنچے گا جہاں تک نگاہ پہنچے ، آپ دجال کا پیچھا کریں گے اور باب لد کے پاس اسے پا کر قتل کریں گے ، پھر ان لوگوں کے پاس آئیں گے ، جنہیں اللہ نے اسے فتنے سے بچایا ہو گا ، ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور جنت کے درجنوں کی انہیں خبر دیں گے ، اب اللہ کی طرف سے حضرت عیسیٰ کے پاس وحی آئے گی کہ میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تم میرے ان خاص بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ ، پھر یاجوج ، ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر طرف سے کودتے پھاندتے آ جائیں گے ، بحیرہ طبریہ پر ان کا پہلا گروہ آئے گا اور اس کا سارا پانی پی جائے گا ، جب ان کے بعد ہی دوسرا گروہ آئے گا تو وہ اسے ایسا سوکھا ہوا پائے گا کہ وہ کہیں گے شاید یہاں کبھی پانی نہیں ہو گا ؟ حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی مومن وہاں اس قدر محصور رہیں گے کہ ایک بیل کا سرا نہیں اس سے بھی اچھا لگے جیسے تمہیں آج ایک سو دینار محبوب ہیں ، اب آپ اور مومن اللہ سے دعائیں اور التجائیں کریں گے ، اللہ ان پر گردن کی گلٹی کی بیماری بھیج دے گا ، جس میں سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم میں فنا ہو جائیں گے ، پھر حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی زمین پر اتریں گے مگر زمین پر بالشت بھر بھی ایسی نہ پائیں گے جو ان کی لاشوں سے اور بدبو سے خالی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور التجائیں کریں گے تو بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر ایک قسم کے پرند اللہ تعالیٰ بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ چاہے ڈال آئیں گے ، پھر بارش ہو گی ، جس سے تمام زمین دھل دھلا کر ہتھیلی جیسی صاف ہو جائے گی ، پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل نکال اور اپنی برکتیں لوٹا ، اس دن ایک انار ایک جماعت کو کافی ہو گا اور وہ سب اس کے چھلکے تلے آرام حاصل کر سکیں گے ، ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے سے نہیں پیا جائے گا ، پھر پروردگار عالم ایک لطیف اور پاکیزہ ہوا چلائے گا جو تمام ایماندار مردوں عورتوں کی بغل تلے سے نکل جائے گی اور ساتھ ہی ان کی روح بھی پرواز کر جائے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو آپس میں گدھوں کی طرح دھینگا مشتی میں مشغول ہو جائیں گے ان پر قیامت قائم ہو گی ۔ مسند احمد میں بھی ایک ایسی ہی حدیث ہے اسے ہم سورہ انبیاء کی آیت ( ﱑ اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:96 ) کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

158۔ 1 یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسیر (رض) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (علیہ السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ 2۔ 158 وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آجائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا : یہ صاف و صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث بخاری و مسلم سمیت حدیث کی اکثر کتابوں میں موجود ہیں۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام : ٣٤٤٨۔ مسلم : ١٥٥ ] ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول اور دوسری بہت سی باتوں کا ذکر ہے۔ ابن کثیر (رض) یہ تمام روایات ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر ہیں، ان کے راویوں میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبداللہ بن عمرو بن عاص، مجمع بن جاریہ، ابو سریحہ اور حذیفہ بن اسید (رض) شامل ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی کیفیت اور جگہ کا بیان ہے۔ آپ دمشق میں منارۂ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یا جوج ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بد دعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ مسیح (علیہ السلام) کا اپنے جسم کے ساتھ اٹھایا جانا، وہاں ان کا زندہ موجود ہونا، دوبارہ دنیا میں آ کر کئی سال رہنا اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مرنا امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے، جس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ حافظ ابن حجر (رض) فرماتے ہیں : ” اِتَّفَقَ أَصْحَابُ الْأَخْبَارِ وَالتَّفْسِیْرِ عَلٰی أَنَّ عِیْسٰی رُفِعَ بِبَدَنِہٖ “ [ التلخیص الحبیر ] ” تمام اصحاب تفسیر اور ائمۂ حدیث اس پر متفق ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے بدن سمیت آسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔ “ لہٰذا حیات مسیح کے انکار سے قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے جو سراسر گمراہی ہے۔ ” عزیزاً حکیماً “ کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کا آسمان پر اٹھایا جانا عام فوت ہونے والوں کی طرح نہیں تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۝ ١٥٨ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٨ (بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِط وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ) اس واقعہ کی تفصیل انجیل برنباس میں موجود ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

195. This is the truth revealed by God. What is categorically asserted here is merely that the Jews did not succeed in killing the Messiah, but that God raised him unto Himself. The Qur'an furnishes no detailed information about the actual form of this 'raising'. It neither states categorically that God raised him from the earthly sphere to some place in heaven in both body and soul, nor that his body died on earth and his soul alone was raised to heaven. Hence neither of the two alternatives can be definitely affirmed nor denied on the basis of the Qur'an. If one reflects on the Qur'anic version of the event one gets the impression that, whatever the actual form of this 'raising', the event was of an extraordinary character. This extraordinariness is evident from three things: First, the Christians believed in the ascension of the Messiah in both body and soul, which was one of the reasons for large sections of people to believe in the godhead of Jesus. The Qur'an does not refute that idea but employs the same term, raf (i.e. 'ascension'), employed by the Christians. It is inconceivable that the Qur'an, which describes itself as the 'Clear Book', would employ an expression that might lend support to a misconception it seeks to repudiate. Second, one might assume that either the ascension of the Messiah was of the kind that takes place at every person's death or that this 'ascension' meant merely the exaltation of a Prophet's position, like that of Idris: 'And We raised him to an exalted station' (Surah Maryam 19: 57). Had it been so, this idea would have been better expressed by a statement such as: And indeed they did not kill the Messiah; Allah delivered him from execution and caused him to die a natural death. The Jews had wanted to slight him but Allah granted him an exalted position. Third, if this raf (exaltation, ascension) referred to in the verse: 'Allah raised him to Himself was of an ordinary kind, the statement which follows, namely that 'Allah is All-Mighty, All-Wise', would seem altogether out of context. Such a statement is pertinent only in the context of an event which manifested, in a highly extraordinary manner, by the overwhelming power and wisdom of God. The only Qur'anic argument that can be adduced to controvert this view is the verse in which the expression mutawaffika see (Surah Al 'Imran 3: 55))is employed. But as we have pointed out (see Towards Understanding the Qur'an, vol. I, (Surah 3, n. 51), this word can denote either God's taking a man unto Himself in soul or taking him unto Himself in both body and soul. Arguments based on the mere use of this word are not enough to repudiate the arguments we have already adduced. Some of those who insist on the physical death of Jesus support their argument by pointing out that there is no other example of the use of the word tawaffa for God's taking unto Himself a man in body as well as in soul. But this argument is not tenable since the ascension of Jesus was a unique event in human history and, therefore, the quest for another example of the use of this term in the same context is meaningless. What is worth exploring is whether or not the use of the word in such a sense is valid according to Arabic usage. If it is, we will have to say that the choice of this particular word lends support to belief in the ascension of Jesus. If we reflect on this verse in the light of the assumption that Jesus died physically, it appears strange that the Qur'an does not employ those terms which would exclude signifying the simultaneous physical and spiritual ascension of Jesus. On the contrary, the Qur'an prefers a term which, since it is liable to both interpretations (i.e. it can mean both spiritual and physical ascension), lends support to belief in the physical ascension of Jesus, even though that notion was used as a basis to support the false belief in the godhead of Jesus. Belief in the physical ascension of Jesus is further reinforced by those numerous traditions which mention the return of Jesus, son of Mary, to the world and his struggle against the Anti-Christ before the end of time. (For these traditions see our appendix to Surah 33.) These traditions quite definitively establish the second coming of Jesus. Now it is for anybody to judge which is more reasonable: Jesus' return to this world after his death, or his being alive somewhere in God's universe, and returning to this world at some point in time?

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :195 یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے ۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب رہا یہ سوال کہ اٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی ، تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ۔ قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم و روح کے ساتھ کرہ زمین سے اٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا ، اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی ۔ اس لیے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ اثبات ۔ لیکن قرآن کے انداز بیان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے کہ اٹھا ئے جانے کی نوعیت و کیفیت خواہ کچھ بھی ہو ، بہرحال مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمولی نوعیت کا ہے ۔ اس غیر معمولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے: ایک یہ کہ عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کے جسم و روح سمیت اٹھائے جانے کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ان اسباب میں سے تھا جن کی بنا پر ایک بہت بڑا گروہ الوہیت مسیح کا قائل ہوا ہے ، لیکن اس کے باوجود قرآن نے نہ صرف یہ کہ اس کی صاف صاف تردید نہیں کی بلکہ بعینہ وہی”رفع“ ( Ascension ) کا لفظ استعمال کیا جو عیسائی اس واقعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کتاب مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کسی خیال کی تردید کرنا چاہتی ہو اور پھر ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کو مزید تقویت پہنچانے والی ہو ۔ دوسرے یہ کہ اگر مسیح علیہ السلام کا اٹھایا جانا ویسا ہی اٹھایا جانا ہوتا جیسا کہ ہر مرنے والا دنیا سے اٹھایا جاتا ہے ، یا اگر اس رفع سے مراد محض درجات و مراتب کی بلندی ہوتی جیسے حضرت ادریس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رَفَعْنَاہُ مَکَاناً عَلِیًّا ، تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کے لیے زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ ”یقیناً انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو زندہ بچا لیا اور پھر طبعی موت دی ۔ یہودیوں نے اس کو ذلیل کرنا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کو بلند درجہ عطا کیا“ ۔ تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع ویسا ہی معمولی قسم کا رفع ہوتا جیسے ہم محاورہ میں کسی مرنے والے کو کہتے ہیں کہ اسے اللہ نے اٹھا لیا تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیر موزوں تھا کہ ” اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے“ ۔ یہ تو صر ف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزون و مناسب ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوت قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمولی ظہور ہوا ہو ۔ اس کے جواب میں قرآن سے اگر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ( آیت ۵۵ ) ۔ لیکن جیسا کہ وہاں ہم حاشیہ نمبر ۵۱ میں واضح کر چکے ہیں ، یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ قبض روح ، اور قبض روح و جسم ، دونوں پر دلالت کر سکتا ہے ۔ لہٰذا یہ ان قرائن کو ساقط کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ۔ بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے ، سوال کرتے ہیں کہ تَوَفی کا لفظ قبض روح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جب کہ قبض روح و جسم کا واقعہ تمام نوع انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے ۔ دیکھنا یہی چاہیے کہ آیا اصل لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں ۔ اگر ہے تو ماننا پڑے گا کہ قرآن نے رفع جسمانی کے عقیدہ کی صاف تردید کرنے کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے ان قرائن میں ایک اور قرینہ کا اضافہ کر دیا ہے جن سے اس عقیدہ کو الٹی مدد ملتی ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ موت کے صریح لفظ کو چھوڑ کر وفات کے محتمل المعنیین لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرتا جہاں رفع جسمانی کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ایک فاسد اعتقاد ، یعنی الوہیت مسیح کے اعتقاد کا موجب بن رہا تھا ۔ پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت ان کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں ( تفسیر سورہ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے ) ۔ ان سے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اب یہ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کا مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا زیادہ قرین قیاس ہے ، یا زندہ کہیں خدا کی کائنات میں موجود ہونا اور پھر واپس آنا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:158) رفعہ کی مزید تشریح کے لئے رفعنا 4:154 کے تحت ملاحظہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی جسم اور روح دونوں کے ساتھ اللہ تعال نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف آسمان پر اٹھلالیا جہا وہ زندہ موجود ہیں۔ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے کئی سال یہاں زندگی گزریں گر اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مریں گے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا اپنے ناسوتی بدن کے ساتھ آسمان کی طرف رفع اور ان کی حیات ! یہ امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں وارد ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اتفق اصحاب الا خبار والتفسیر علی ٰ ان عیسیٰ رفع ببدنبہ حیا (تلخیص الجیر 319) کہ تمام اصحاب تفسیر ائمہ حدیث اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے بدن سمیت زندہ آسمان پر اٹھائے گئے لہذا حیات مسیح کے انکار سے قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے جو موجب تضلیل ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

لوگوں کے تعجب کو دور کرنے اور نام نہاد دانشوروں کی دانش کو لگام دینے کے لییعزِیْزاً حَکِیْماً کے الفاظ کے ذریعے وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں آسمان کی طرف اٹھانے اور ان کے دشمنوں سے بچانے پر قادر ہے اللہ تعالیٰ انھیں آسمان پر اٹھانے اور قیامت کے قریب زمین پر بھیجنے کا راز جانتا ہے لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کے بارے میں اختلاف کرنے والے صرف اٹکل پچو سے کام لے رہے ہیں۔ یہاں یہودیوں کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) سولی نہیں چڑھائے گئے۔ مزید ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے اس بات پر ایمان لائیں گے یہاں اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرب قیامت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زمین پر آمد اور انکی وفات کے وقت موجود ہوں گے۔ بعض لوگوں نے کچھ اقوال کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ” قَبْلَ مَوْتِہِ “ سے مرادہر مرنے والا عیسائی اور یہودی ہے۔ جب یہودی اور عیسائی کو موت آتی ہے تو اس کے سامنے ایسے قرائن لائے جاتے ہیں جس سے اسے یقین آجاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابھی زندہ ہیں لیکن اس بات کو کسی ٹھوس دلیل کے ساتھ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قَبْلَ مَوْتِہٖ الفاظ کا حقیقی معنی احادیث کی روشنی میں متعین ہوچکا ہے۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر لٹکانے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی تائید میں عیسائیوں کی اکثریت نے اپنے مفاد کی خاطریہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) واقعی ہی فوت ہوچکے ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ یہودیوں کے دلائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزائی کہتے ہیں کہ واقعی عیسیٰ (علیہ السلام) مصلوب ہوچکے ہیں جس عیسیٰ مسیح کے دوبارہ آنے کا حدیث میں ذکر ملتا ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں بلکہ مرزا ہے جو مسیح بن کر آچکا ہے لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ نہیں آئیں گے۔ ( ِعنَ أَبَی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ)[ رواہ البخاری : کتاب ا لمظالمِ ، بَاب کَسْرِ الصَّلِیبِ وَقَتْلِ الْخِنْزِیر ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) عادل حکمران کی حیثیت سے نہیں آئیں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے۔ مال و دولت کی اس قدربہتات ہوگی کہ صدقہ و خیرات لینے والا نہیں ہوگا۔ “ (عن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ (رض) عَنْ أَبِیہٖ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ صِفَۃُ مُحَمَّدٍ وَصِفَۃُ عیسَی ابْنِ مَرْیَمَ [ یُدْفَنُ مَعَہُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، بَاب فِی فَضْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ تورات میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کی صفات لکھی ہوئی ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دفن ہوں گے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، وَالأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی، وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ) [ رواہ البخاری : باب واذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء (علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور دین ایک ہی ہے۔ “ مسائل ١۔ یہودیوں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو نہ قتل کیا اور نہ ہی انہیں سولی پر لٹکایا۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے اٹکل پچو لگاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) (اور اللہ تعالیٰ غلبہ والا حکمت والا ہے) وہ کسی صورت دوسرے کی طرح بنا دے اس پر پوری طرح قادر ہے اس کے فیصلوں سے کوئی اسے روکنے والا نہیں وہ جسے چاہے زمین پر رکھے جسے چاہے آسمان پر بلا لے۔ سب کچھ اسے اختیار ہے اور اس کا ہر فعل حکمت کے مطابق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

105 وَمَا قَتَلُوْہُ کا اعادہ تاکید کے لیے ہے یعنی کسی قسم کا قتل واقع نہیں ہوا نہ سولی سے نہ بغیر سولی۔ کیونکہ نفی مطلق قتل کی ہے اور یقیناً نفی قتل کی تاکید ہے اور مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ہرگز قطعاً قتل نہیں کیا اور عدم قتل نہایت ہی پختہ اور ثابت شدہ حقیقت ہے حضرت حسن بصری فرماتے ہیں۔ وَ مَا قَتَلُوْہٗ حَقًّا اس پر علامہ ابو حیان لکھتے ہیں فانتصابہ علی انہ مؤکد لمضمون الجمۃ المنفیۃ کقولک و ما قتلوہ حقا ای حق انتفاء قتلہ حقا (بحر ج 3 ص 391) اسی طرح امام نفسی لکھتے ہیں و ما قتلوہ حقا فیجعل یقینا تاکیدا لقولہ و ما قتلوہ ای حق انتفاء قتلہ حقا (مدارک ج 1 ص 204) بَلْ رَفَعَہٗ اللہُ اِلَیْہِ یعنی جس کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اسے تو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے وہ ایسا کرسکتا ہے اور اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ان آیتوں کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ مسیح (علیہ السلام) کے رفع جسمانی میں احادیث نبویہ حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں جیسا کہ مولانا انور شاہ صاحب نے التصریح میں ان کو ذکر کیا ہے اور پھر اس عقیدہ پر امت کا اجماع بھی ہے کما فی البحر المحیط و عقیدۃ الاسلام۔ اس مسئلہ کی مزید تحقیق و تفصیل کیلئے عقیدۃ الاسلام از مولانا سید انور شاہ (رح) کا مطالعہ کیا جائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 آخر کار جب یہ لوگ اپنی نافرمانیوں سے بعض نہ آئے تو ہم نے ان کی عہد شکنی اور احکام الٰہی کے ساتھ ان کے کفر وا نکار کرنے اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرنے کے باعث جو کہ ان کے نزدیک بھی ناحق اور ناروا تھا مختلف سزائوں میں ان کو مبتلا کیا اور نیز ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دل ایسے محفوظ ہیں کہ ان میں اسلام کی کوئی بات اثر و نفوذ ہی نہیں کرسکتی۔ نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کافرانہ روش کے باعث ان کے دلوں پر مہر کردی ہے اور بند لگا دیا ہے لہٰذا وہ ایمان نہ لائیں گے مگر بہت کم اور ہم نے ان کو مختلف سزائوں میں ان کے کفر کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے حضرت مریم پر بڑے بہتان کی بات دھری مبتلا کیا اور نیز ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کو جو اللہ کا رسول تھا قتل کر ڈالا۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ نہ تو یہود نے حضرت عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی دیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو اشتباہ ہوگیا اور ان پر واقعہ کی حقیقت مشتبہ ہوگئی اور جو لوگ اہل کتاب میں سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور جو یہود و نصاریٰ ان کے بارے میں مختلف باتیں کہتے ہیں وہ دراصل اس کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں اور غلط خیالی میں مبتلا ہیں ان شک کرنے والوں کے پاس سوائے تخمینی اور ظنی باتوں کی پیروی کرنے کے اور کوئی صحیح علم اور صحیح دلیل نہیں ہے اور یہود نے یقینا حضرت عیسیٰ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے کہ اس نے اپنی قوت کے بل پر یہود کے ہاتھ سے عیسیٰ کو بچا لیا اور اپنی حکمت بالغہ کی وجہ سے ان کو آسمان پر رکھا اور زمین پر نہ چھوڑا۔ (تیسیر) آیت میں ان تمام اسباب و علل کا ذکر فرمایا ہے جن کی وجہ سے مددگار یہود مختلف سزائوں میں گرفتار کئے گئے تھے وہ مختلف سزائیں سورة بقرہ میں گذر چکی ہیں اور ان کا ذکر سورة مائدہ میں بھی انشاء اللہ آئے گا جیسے مسخ، لعنت و پھٹکار مسکنت و ذلت غضب الٰہی وغیرہ ان سزائوں کے اسباب میں سے بعض یہاں مذکور ہیں اور بعض اور آگے بیان ہوں گے نقص عہد تو ان کا عام شیوہ تھا۔ عہد سے مراد یا تو وہ عود میں جو بار بار حضرت موسیٰ سے کیا کرتے تھے یا توریت کے احکام کی طرف اشارہ ہے اور یاد ہی فطری عہد ہے کہ ہر انسان محسن اور خالق کی فرمانبرداری پر فطرتاً پابند ہے اگرچہ نقص عہد اتنا جامع لفظ ہے کہ باقی امور سب اس میں داخل ہیں کیونکہ ہر گناہ اور ہر نافرمانی نقص عہد ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو علیحدہ علیحدہ بھی بیان فرمایا جن سے ان کے نقص عہد کی تفصیلات اچھی طرح ظاہر ہوگئیں اور ان کا کفر و فسق اچھی طرح نمایاں ہوگیا۔ ایات اللہ کے منکر احکام الٰہی کا انکار کریں احکام کے ساتھ کفر کریں اور کہیں کہ فلاں حکم نہیں مانتے انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ یہ برتائو کہ ان کے کفر سے بڑھتے بڑھتے ان کو قتل تک کر ڈالتے اور قتل بھی یہ سمجھتے ہوئے کرتے کہ انبیاء کا قتل کرنا حرام اور ناحق ہے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کو یہ معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کو قتل کرنا حرام ہے مگر چونکہ بےباکی اور جرأت حد سے بڑھی ہوئی تھی اس لئے ناحق جانتے ہوئے بھی ابنیاء کو قتل کردیا کرتے تھے غلف کا مطلب ہم اوپر عرض کرچکے ہیں استہزاء کہا کرتے تھے کہ ہمایر قلوب اقلف ہیں یعنی غیر ختنہ شدہ ہر قسم کی ظاہری آلائش اور خاک وباء وغیرہ سے بالکل محفوظ ہیں۔ لہٰذا ان پ اسلامی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں اور وہ اسلام کی خرابیوں سے محفوظ و معئون رہتے ہیں حضرت حق نے بطور اعراض جواب فرمایا کہ ان کے قلب کچھ قدرتی طور پر پردوں سے ڈھکے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مسلسل نافرمانیوں اور ان کے کفر پیہم کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے کہ اب امر حق اس مہر کی وجہ سے ان کے قلوب تک پہونچ ہی نہیں سکتا اور یہی وہ سزا کا آخری حصہ ہے جو دنیا ہی میں شروع ہوجاتا ہے اور مریض کی یہی وہ حالت ہے کہ جب طبیب اس کے علاج سے دست کش ہوجاتا ہے اور غلف کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے قلوب علوم سے اس قدر لبریز ہیں کہ ان میں کوئی دوسرا علم داخل ہی نہیں ہوسکتا جس طرح بھرے ہوئے برتن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جاسکتی۔ بہرحال ! مقصد اسلام سے بےقراری اور بےاعتنائی کا اظہار تھا اور اسی کا جواب ہے بل طبع اللہ علیھا بکفر ھم اور جب حالتیہ ہے کہ قلوب پر حضرت حق کی جانب سے مہر لگا دی گئی ہے تو اب ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم یعنی بہت تھوڑے آدمی جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی یا یہ مطلب کہ بعض باتوں پر ایمان لائیں گے اور بعض پر نہیں لائیں گے یا بعض رسولوں کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے یا نہیں غیر معتبر جس کے باعث کسی کو مومن نہیں کہا جاسکتا ان کفریات کے علاوہ ان کے ایک اور مخصوص کفر کا ذکر فرمایا کہ ان کا بڑا کفر و ہ قول ہے جو انہوں نے حضرت مریم جیسی پاک دامن عورت پر دھر دیا اور ان کی طرف ایسے ناپاک فعل کی نسبت کی جس سے ان کی شان بہت بلند تھی۔ پھر ضحرت مریم پر بہتان لگانے کے بعد اس بات کا بھی دعویٰ کیا اور فخراً اس کا اظہار کیا کہ ہم نے مسیح کو جو عیسیٰ بن مریم تھا اس کو قتل کر ڈالا۔ رسول اللہ یا تو یہود کا ہی قول ہے جو انہوں نے استہزاء کہا ہے کہ وہ مسیح عیسیٰ ابن مریم جو رسول اللہ ہونے کا مدعی تھا ہم نے اس تک کو قتل کر ڈالا یا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہو اور ان کے کفر کا مزید اظہار ہو کر اس شخص کے قتل کا ذکر تفاخراً کرتے ہیں جو رسول اللہ تھا اول تو حضرت مریم پر بہتان لگانا ہی حضرت عیسیٰ کی تکذیب تھی کیوں کہ حضرت عیسیٰ اپنے معجزے سے ان کی برأت فرما چکے تھے پھر حضرت عیسیٰ کی عداوت و روشنی جو ایک مستقل کفر ہے پھر نبی کا قتل اور دعوائے قتل یہ سب امور کفر یہ ہیں حضرت حق تعالیٰ نے اس قتل کے ادعاً کار د فرمایا اور ارشاد ہوا کہ نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ سولی دیا نہ سولی پر چڑھایا یعنی سولی دینا تو کیسا اس کو سولی پر چڑھایا تک نہیں لیکن ان کو خود اشتباہ ہوگیا اور حقیقت واقع ان پر مشتبہ ہوگئی شبہ لھم میں لوگوں نے کئی قول بیان کئے ہیں کسی نے کہا عیسیٰ ان پر مشتبہ ہوگیا کسی نے کہا مقتول مشتبہ ہوگیا۔ ہم نے زمخشری کی ترکیب پسند کی ہے یعنی وقع لھم التشبیہ چونکہ واقعہ کا تعلق مختلف لوگوں سے ہے مثلاًحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور وہ شخص جس کو یہ مسیح سمجھ کر لائے اور اس کو سولی دی اور خود وہ لوگ جو یہودی حکومت کے ذمہ دار تھے اور جن کا حکم چلنا تھا پھر حضرت مسیح کے وہ منافق اور مخلص شاگرد جو رات بھر ان سے محاصرے کی حالت میں باتیں کرتے رہے اس لئے مفسرین کے اقوال مختلف ہوگئے ہم نے تفسیر میں ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو سب کو جامع اور مدعا کے اعتبار سے صاف ہی اور اسی اشتباہ کی وجہ سے لوگ ایسے شک میں مبتلا ہوئے کہ آج تک ان کو کوئی صحیح راہ نہ مل سکی اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں کیونکہ عیسائیوں میں بھی اس مسئلے کے متعلق باہم سخت اختلاف ہے ایک فرقہ اس کا قائل ہے کہ مسیح خدا تھا جب تک اس کا جی چاہا ہم میں رہا اور جب اس کا جی چاہا ہم سے چلا گیا کوئی کہتا ہے وہ خدا کا بیٹا تھا جب تک اس نے چاہا اس کو ہم میں رکھا اور جب چاہا اٹھا لیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اختلاف کرنے والے صرف یہود ہوں جیسا کہ آج تک بھی ان کا یہ شک دور نہیں ہوسکا کہ اگر مصلوب مسیح تھا تو ہمارا مخبر کہاں گیا اور اگر مصلوب ہمارا مخبر تھا تو مسیح کہاں گیا اور ہوسکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں ہوں جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے اور یہی زیاہ صحیح ہے کیونکہ حضرت مسیح کے اس واقعہ نے سب کو شک میں مبتلا کر رکھا ہے کسی کے اس کوئی پختہ بات نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس کوئی صحیح دلیل ہے محض گمان اور اٹکل کی پیروی کر رہے ہیں اور جو قصے ان کے ہاں مشہور چلے آتے ہیں انہی کو سچ سمجھتے ہیں اور انہی پر چلتے ہیں حضرت حق نے پھر ان کے اس بےدلیل دعوے کا رد فرمایا کہ انہوں نے یقینا حضرت عیسیٰ کو قتل نہیں کیا ان کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو ان کا ہم شکل بنادیا اور وہ قتل کردیا گیا اور اسی وجہ سے اہل کتاب میں اختلاف واقع ہوا جو آج تک دور نہیں ہوسکا اسلام جو صحیح بات لے کر آیا اور جس کے دامن میں صحیح واقعات مسیح ابن مریم کے پنہاں تھے اس کے ماننے سے ان بدبختوں نے انکار کردیا اور گمراہی کو اختیار کیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے عزیز اور حکیم ہے اس لئے اس کی حکمت نے جو چاہا اس کی قوت و طاقت نے اس کو پورا کردیا اور مخالف منہ تکتے رہ گئے اور ایسے گڑھے میں گرے کہ اس سے نکلنا نصیب نہ ہوا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہود کہتے ہیں کہ ہم نے مارا عیسیٰ کو اور مسیح اور رسول خدا نہیں کہتے یہ الہل نے ان کی خطا ذکر فرمائی اور فرمایا کہ اس کو ہرگز نہیں مارا۔ حق تعالیٰ نے اس کی ایک صورت ان کو بنادی اس صورت کو سولی پر چڑھایا پھر فرمایا کہ نصاریٰ بھی اول سے یہی کہتے ہیں کہ مسیح کو مارا نہیں وہ زندہ ہے لیکن تحقیق نہیں سمجھتے کئی باتیں کہتے ہیں بعضے کہتے ہیں کہ بدن کو مارا ان کی روح اللہ کے پاس چڑھ گئی بعضے کہتے ہیں مارا تھا پھر تین روز میں زندہ ہو کر بدن سے چڑھ گئے ہر طرح وہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس کو نہیں مارا سو یہ خبر اللہ کو ہے اس نے بتایا کہ اس کو صورت کو مارا اور ان کے پکڑتے وقت نصاریٰ سرک گئے تھے اور یہود بھی نہ پہنچے تھے اس آن کی خبر نہ ا ن کو نہ ان کو (موضح القرآن) اس آیت میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں کسی نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے مخالفوں نے جب بادشاہ وقت کو ان کے قتل پر آمادہ کرلیا اور بادشاہ کی پولیس ان کو تلاش کرنے نکلی تو و ہ جمعہ کا دن تھا چناچہ ہفتہ کی شب میں اس مکان کا محاصرہ کرلیا گیا جس مکان میں حضرت عیسیٰ اپنے حواریوں کے ہمراہ تشریف رکھتے تھے اس پر حضرت عیسیٰ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون اس کے لئے تیار ہے کہ اس پر میری صورت کی شبیہ ڈال دی جائے چناچہ ایک نوجوان اس پر تیار ہوگیا حضرت عیسیٰ نے کئی مرتبہ لوگوں سے دریافت کیا اور ہر مرتبہ وہی لڑکا اپنے کو پیش کرتا رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے اسی کی صورت کو حضرت عیسیٰ کے مشابہ کردیا مکان کی چھت میں ایک روزہو گیا حضرت عیسیٰ کو اونگھ آگئی اور حضرت عیسیٰ اسی حالت میں آسمان پر اٹھا لئے گئے اور پولیس نے اس نوجوان کو گرفتار کرلیا اور اس کو ہی عیسیٰ سمجھ کر سولی دے دی گئی ۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں وہ شخص بھی ہے جو بارہ مرتبہ ایمان لانے کے بعد میرا انکار کرے گا اس کے بعد وہی سوال ہے اور نوجوان کا واقعہ ہے پھر بادشاہ کے جاسوسوں کی آمد اور نوجوان کی گرفتاری کا ذکر ہے۔ بعض نے حضرت عیسیٰ کا یہ قول بھی نقل کیا یہ کہ تم میں سے وہ شخص کون ہے جس پر میری شبیہ ڈالی جائے اور وہ میری جگہ قتل کیا جائے اور جنت میں میرا رفیق ہو اس پر وہ نوجوان آمادہ ہوگیا بعض لوگوں کا قول ہے کہ جس قدر حواری اس وقت موجود تھے ان کی تعداد سترہ تھی وہ سب حضرت عیسیٰ کی ہم شکل ہوگئے اس پر پولیس نے ان سے کہا تم پر عیسیٰ نے جادو کردیا ہے جو عیسیٰ ہو وہ اپنے کو پیش کر دے اس پر اس نوجوان نے اپنے کو پیش کردیا۔ وہب کی روایت میں جو کچھ ہے وہ تقریباً وہی ہے جو انجیل میں مذکور ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس منافق نے تیس درہم لے کر حضرت عیسیٰ کا سراغ بتایا تھا وہی منافق حضرت عیسیٰ کا ہم شکل کردیا گیا اور اسی کو پھانسی دی گئی۔ بہرحال ! صورت حال کچھ بھی پیش آئی ہو لیکن اتنی بات بالکل صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخالفین کے شر سے محفوظ و مصون رکھا اور ان کو دشمنوں سے بچا کر صحیح سالم آسمان پر اسی جسد عنصری کے ساتھ اٹھا لیا جس سے وہ دنیا میں زندہ تھے اور جس کو دشمن سولی پر لٹکا کر ختم کرنا چاہتے تھے ۔ رہا اپنی موت سے ان کے مرنے کا جو فسانہ گھڑا گیا ہے اور اس امر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ بچ کر نکل بھاگے یا وہ کچھ زندہ تھے کہ ان کو سولی پر سے اتار لیا اور ان کا علاج کیا گیا اور وہ اچھے ہوگئے اور اپنی والدہ کو لے کر کہیں چلے گئے اور اپنی موت سے مرگئے اور ان کی قبر کشمیر کے کسی علاقہ میں ہے یہ فسانہ محض انگریزی حکومت کی برکات ہیں اور یہ افسانہ اس لئے گھڑا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ کی جانب سے مسلمانوں کی توجہ کو ہٹا کر بعض مدعیان مسیح موعود کے دعوئے نبوت کو رونق دی جائے اور دشمنان اسلام کی محفل کو سنوارا جائے چناچہ یہ فتنہ ہندوستان کے شمالی حصہ میں پیدا ہوا اور صد ہا مسلمان اس فتنہ سے گمراہ ہوئے اور آخر خدا کا شکر ہے کہ یہ فتنہ ہندوستان کے شمالی حصہ میں پیدا ہوا اور صدہا مسلمان اس فتنہ سے گمراہ ہوئے اور آخر خدا کا شکر ہے کہ یہ فتنہ اپنی موت آپ ہی مرگیا اور اس مصنوعی نبی کی گدی ایک پیروی کی گدی اور سجادہ نشینی بن کر رہ گئی چناچہ اس پر متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے ہم اس پر مزید عرض کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ الیاس برنی کی تصانیف اس سانپ کے سر کچلنے کے لئے کافی ہیں آگے حضرت عیسیٰ کی تشریف آوری کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)