Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 167

سورة النساء

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ قَدۡ ضَلُّوۡا ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۶۷﴾

Indeed, those who disbelieve and avert [people] from the way of Allah have certainly gone far astray.

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالٰی کی راہ سے اوروں کو روکا وہ یقیناً گمراہی میں دور نکل گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, those who disbelieve and prevent (others) from the path of Allah, they have certainly strayed far away. For they are disbelievers themselves and do not follow the truth. They strive hard to prevent people from following and embracing Allah's path. Therefore, they have defied the truth, deviated, and strayed far away from it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢٢] یعنی جس نے اللہ کی آیات کا انکار کیا اس نے اللہ کے علم کا بھی انکار کردیا اور اس کی گواہی کا بھی۔ پھر صرف خود ہی انکار نہ کیا بلکہ اس کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتا رہا اور جو لوگ ایمان والے تھے ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو راہ راست سے روکتا رہا یقینا وہ بہت بڑی گمراہی میں پڑگیا ایسے لوگوں کے جرائم ناقابل معافی ہیں اور گمراہی اور جہنم کے علاوہ انہیں کوئی اور راہ سوجھتی ہی نہیں۔ خ یہود کا تحریف شدہ تورات پر اور اپنے اہل علم ہونے کا ناز :۔ یہود کی علمی ساکھ چونکہ اہل عرب کے ہاں مسلم تھی (اور وہ غیر یہود کو امی یا ان پڑھ یا جاہل کہا کرتے تھے۔ ) اس لیے ان کی ہر جائز اور ناجائز بات کو اہل عرب درخور اعتنا سمجھتے تھے اس علمی ساکھ سے یہود نے بہت ناجائز فائدے اٹھائے۔ اور جن باتوں سے وہ لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے تھے ان کا ذکر اکثر مقامات پر گزر چکا ہے۔ منجملہ ایک یہ تھا کہ یہود یہ سمجھتے تھے کہ ان کی شریعت اور بالخصوص تورات تا قیامت ناقابل تنسیخ ہے اور اس کے احکام میں رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ تورات پر جو تاریخی حادثے گزر چکے تھے اور دو بار تورات ان سے گم بھی ہوگئی تھی وہ انہیں معلوم تھا۔ پھر ان کے علماء کو بھی یہ علم تھا کہ تورات میں بہت سے الحاقی مضامین شامل کرلیے گئے ہیں اور بعض دفعہ خود علمائے یہود کو یہ الجھن پیش آجاتی تھی اور وہ خود بھی یہ تمیز نہ کرسکتے تھے کہ ان میں سے کونسا اور کتنا مضمون الہامی ہے اور کتنا الحاقی ہے۔ پھر اس میں علمائے یہود حسب منشاء اور ضرورت تحریف بھی کر ڈالتے تھے لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ جو تورات ان کے پاس موجود ہے۔ وہ ناقابل تغیر اور ناقابل تنسیخ ہے اور یہی بات وہ دوسروں کے ذہن نشین کرا کر انہیں اسلام لانے سے روکتے تھے۔ اور دوسرا ان کا زعم باطل یہ تھا کہ آنے والا نبی آخر الزمان انہی بنی اسرائیل میں سے آئے گا۔ حالانکہ اس کا ان کے پاس کوئی علمی ثبوت موجود نہ تھا۔ پھر جب وہ بنی اسماعیل میں مبعوث ہوگیا۔ تو ایک تو حسد کے مارے اس کا انکار کردیا اور کہا کہ ہم اہل علم ہو کر امیوں کے نبی پر کیسے ایمان لاسکتے ہیں ؟ دوسرے اسی بنیاد پر وہ دوسرے لوگوں کو اسلام لانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ چونکہ یہ نبی علمی خاندان یعنی بنی اسرائیل سے تعلق نہیں رکھتا لہذا یہ سچا نبی نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : ان لوگوں سے مراد یہودی ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خود بھی ایمان نہ لاتے اور لوگوں کو بھی یہ کہہ کر روکا کرتے تھے کہ اس شخص کی کوئی صفت ہماری کتاب میں مذکور نہیں، یا یہ کہ نبوت کا دائرہ تو ہارون اور داؤد ( علیہ السلام) کی اولاد تک محدود ہے، یا یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی لائی ہوئی شریعت منسوخ نہیں ہوسکتی، ان کی اسی قسم کی کوششوں کو قرآن نے دور کی گمراہی قرار دیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝ ١٦٧ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ ضَلل وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان . جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٧۔ ١٦٨۔ ١٦٩) جو لوگ اس کے بعد بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کا انکار کرتے ہیں اور لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکتے ہیں تو وہ ہدایت سے بہت دور ہیں اور جو لوگ کفر اور شرک میں مبتلا ہیں تو جب تک وہ اپنی ان باتوں پر قائم رہیں گے تو اللہ نہ ان کی مغفرت فرمائے گا اور نہ ہدایت کے راستہ کی جانب ان کی رہنمائی فرمائے گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے نہ تو وہاں ان کو موت آئے گی اور نہ وہ اس جہنم سے نکالے جائیں گے اور یہ عذاب دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٧ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ) ۔ اب آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد بھی جو لوگ کفر پر اڑے رہے ‘ اللہ کے راستے سے رکے رہے اور دوسروں کو بھی روکتے رہے ‘ وہ راہ حق سے بہک گئے ‘ بھٹک گئے ‘ اور اپنے بھٹکنے میں ‘ بہکنے میں ‘ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:167) صدوا۔ صد سے انہوں نے روکا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ان لوگوں سے مراد یہودی ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خود بھی ایمان نہ لاتے تھے او لوگوں کو بھی یہ کہہ کر روکا کرتے تھے کہ اس شخص کی کوئی صفت ہماری کتاب میں مذکور نہیں یا یہ کہ نبوت کا دائرہ تو حضرت ہارون ( علیہ السلام) اور داود ( علیہ السلام) کی اولاد تک محدودد ہے یا یہ کہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا لائی ہوئی شریعت منسوخ نہیں ہوسکتی انکی اس قسم کی کوششوں ہی کو قرآن نے دور کی گمراہ فرمایا ہے .

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء ( علیہ السلام) کے مشن کی مخالفت کرنے والوں کی سزا۔ کفر کا معنٰی ہے حقیقت پر پردہ ڈالنا، شرعی اصطلاح میں اللہ اور اس کے رسول اور قیامت کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ جو لوگ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں وہی لوگ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ سے مراد صراط مستقیم اور دین کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کی درج ذیل صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ ١۔ خود کفر اختیار کرنا، اپنے کردار اور طریقۂ کار سے لوگوں کو دین سے روکنا۔ ٢۔ اسلام کا اقرار کرنے کے باوجود جان بوجھ کر کفار جیسا عقیدہ اور کردار رکھنا جس سے لوگوں کی نظروں میں اسلام اور مسلمانوں کا وقار ختم ہوجائے ایسے لوگ بیک وقت کفر اور ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ انھیں معاف کرتا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم کی توفیق دیتا ہے۔ ان کے پسندیدہ راستے پر چلنے کے لیے انھیں کھلا چھوڑ دیتا ہے جو راستہ جہنم کا راستہ ہے۔ اس جہنم میں انھیں ابدالاباد تک رہنا نافرمان بڑا ہو یا چھوٹا اسے جہنم میں پھینکنا اللہ تعالیٰ کے لیے ذرّہ برابر مشکل نہیں۔ یہاں ان کی نہ فریاد سنی جائے گی اور نہ کوئی ان کی مدد کرنے والا ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٦٧ تا ١٦٩۔ یہ اوصاف اور یہ فیصلے ‘ باوجود اس کے کہ یہ عام ہیں ان کا اطلاق سب سے پہلے یہودیوں پر ہوتا ہے اور دین اسلام اور اس کے پیروکار ان کے ساتھ یہ موقف ان کا رہا ہے ۔ بلکہ یہودیوں نے ہر سچے دین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا ۔ یہ یہودی وہ ہوں جو آغاز اسلام کے وقت مدینہ میں موجود تھے یا وہ ہوں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت موجود تھے یا ان کے بعد آج تک وہ کبھی موجود رہے ہوں یا وہ جو آج ہمارے دور میں موجود ہیں ‘ ان میں سے شاذونادر ہی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے دل اسلام کیلئے کھول دیئین تھے اور ہدایت سے سرفراز ہوئے ۔ یہ یہودی ہوں یا وہ لوگ ہوں ‘ جن پر بھی صفت کفر اور دین اسلام کی راہ روکنے کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے وہ یقینا گمراہ ہوگئے ہیں اور راہ حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ‘ انہوں نے اس راہ کو بھلا دیا جس کی طرف اللہ نے ان کی راہنمائی کی تھی اور انہوں نے وہ رستہ ترک کردیا جو زندگی کا راہ مستقیم تھا ۔ وہ فکری ‘ تصوراتی اور اعتقادی لحاظ سے گمراہ ہوگئے ۔ وہ اپنے طرز عمل ‘ اپنے معاشرے اور اپنے اطوار کے لحاظ سے گمراہ ہوگئے ۔ وہ دنیا میں بھی گمراہ ہوگئے اور آخرت میں بھی گمراہ ہوگئے ۔ وہ اس قدر دور چلے گئے کہ انکی واپسی کی کوئی امید نہیں رہی ہے ۔ (آیت) ” ضلوا ضللا بعیدا “۔ (٤ : ١٦٧) (وہ راہ حق سے بہت ہی دور نکل گئے ہیں) (آیت) ” ان الذین کفروا وظلموا “۔ (٤ : ١٦٨) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کرنے لگے ۔ “ کفر بذات خود ظلم ہے ۔ یہ حق کے ساتھ ظلم ہے ۔ یہ نفس انسانی کے ساتھ ظلم ہے اور تمام لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ۔ قرآن کریم بعض اوقات کفر پر ظلم کا اطلاق بھی کرتا ہے ۔ مثلا (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم) ” بیشک شرک ایک بہت بڑا ظلم ہے ۔ “ اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون “ ۔ (جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم ہیں ۔ “ اس آیت سے پہلی آیت میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہہ دیا گیا تھا کہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔ (اس کے بارے میں تفصیلی بحث اس پارے کی سورة مائدہ میں ہوگی) ان لوگوں نے صرف شرک کے ظلم ہی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے اللہ کی راہ روکنے کا ارتکاب بھی کیا ۔ اس طرح گویا یہ لوگ کفر میں بہت ہی دور نکل گئے یا ظلم میں حدوں سے نکل گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کیلئے اخروی سزا بھی مقرر فرما دیتے ہیں ۔ (آیت) ” ان الذین کفروا وصدوا عن سبیل اللہ قد ضلوا ضللا بعیدا (١٦٧) ان الذین کفروا وظلموا لم یکن اللہ لیغفرلھم ولا لیھدیھم طریقا (١٦٨) الا طریق جھنم خلدین فیھا ابداء وکان ذلک علی اللہ یسیرا (١٦٩) جو لوگ ان کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں وہ یقینا گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ اسی طرح جن لوگوں نے کفر وبغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم وستم پر اتر آئے اللہ انکو ہر گز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ ۔ بجز جہنم کے راستہ کے نہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ “ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو بخش دے ‘ جبکہ وہ بہت ہی دور نکل گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اوپر خود رحمت ومغفرت کے دروازے بند کرلیے ہیں ۔ اب اللہ کی شان کے یہ لائق نہیں ہے کہ جہنم کی راہ کے سوا انہیں کسی اور راستے کی طرف راہنمائی کرے ۔ اس لئے کہ انہوں نے خود اپنے لئے ہدایت کے تمام راستے بند کرلیے ہیں اور انہوں نے ان تمام راستوں میں رکاوٹیں خود قائم کرلی ہیں اور صرف اپنے لئے جہنم کی راہ کھلی رکھی ہے ۔ اور جہنم کی راہپر بھی وہ بہت دور نکل گئے ہیں اور اس راہ کے اب وہ دائمی مسافر بن گئے ہیں ۔ یہ لوگ اسی پر چلتے رہیں گے اس لیے کہ انہوں نے کفر ‘ ظلم اور اللہ کی راہ کو روکنے کو اپنا مستقل مشغلہ بنا رکھا ہے اور ان سے اب صرف یہی توقع ہے کہ یہ لوگ صرف اسی راستے پر آگے جائیں گے ۔ (آیت) ” وکان ذلک علی اللہ یسیرا “۔ (٤ : ١٦٩) ” اور اللہ کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے “۔ وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے ۔ اس کے اور اس کے بندوں میں سے کسی کے درمیان نہ نسب ہے اور نہ رشتہ داری ہے۔ اس کے لئے سب کو سزا دینا بہت ہی آسان ہے ۔ کسی بندے کے پاس اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی قوت ہے اور نہ کوئی تدبیر ‘ جس کے ذریعہ وہ اللہ کیلئے کوئی مشکلات پیدا کرسکے ۔ یہودی بھی عیسائیوں کی طرح یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ۔ اور وہ یہ بھی کہتے تھے (آیت) ” لن تمسنا النار الا ایاما معدودات) ” ہمیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند گنے چنے دن “ اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں ۔ جب قرآن نازل ہوا تو اس نے ان تمام باتوں کی نفی کردی ۔ اور ہر کسی کو اپنے مقام پر کھڑا کردیا کہ سب بندے ہیں اگر انہوں نے اچھے کام کئے تو اس پر انہیں ثواب ملے گا اور اگر انہوں نے برے کام کئے اور توبہ و استغفار کا موقعہ نہ ملا تو انہیں عذاب دیا جائے گا اور یہ کام اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ ان تصریحات کے بعد یہاں آکر پوری انسانیت کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ یہ رسول تمہارے پاس ایک سچائی لیکر آیا ہے ۔ اگر اس پر کوئی ایمان لائے گا تو یہ خود اس کیلئے ایک قسم کی بھلائی ہوگی اور جو شخص کفر اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کو کوئی نقصان نہ ہوگا ۔ وہ تو سب سے مستغنی ہے ۔ اس کی قدرت سب پر حاوی ہے ۔ اور زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے ‘ اسی کیلئے ہے ۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام معاملات کو اپنے علم اور حکمت کے مطابق چلاتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں اور راہ حق سے روکنے والوں کے لیے صرف دوزخ کا راستہ ہے ان آیتوں میں ان لوگوں کے لیے وعید شدید ہے جنہوں نے خود بھی کفر اختیار کیا اور دوسروں کو بھی اللہ کی راہ سے روکا۔ یہ لوگ نہ خود اسلام قبول کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے ہیں اس کی وجہ سے بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑے، چونکہ جو شخص خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر کمر باندھ لے اس سے واپس آنے کی امید نہیں رہی۔ کفر اختیار کرنے والوں کو ظالم بھی بتایا کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور دوسرے انسانوں پر بھی ظلم کیا کیونکہ انہیں حق قبول کرنے سے روکا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی مغفرت نہیں ہوگی اور جب قیامت کے دن حاضر ہوں گے تو ان کو صرف دوزخ ہی کا راستہ بتایا جائے گا تاکہ اس میں داخل ہوجائیں اور اس میں انہیں داخل ہونا پڑے گا تو فرشتے ان کو ہانک کر دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔ طریق جنت کی طرف دنیا میں راہ یاب نہ ہوئے تو آخرت میں بھی وہ جنت کے راستے پر چلنے سے محروم رہیں گے دوزخ میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا پڑے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi