Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 28

سورة النساء

یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّخَفِّفَ عَنۡکُمۡ ۚ وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا ﴿۲۸﴾

And Allah wants to lighten for you [your difficulties]; and mankind was created weak.

اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُرِيدُ اللّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ... Allah wishes to lighten (the burden) for you, His legislation, orders, what He prohibits and what He decrees for you. This is why Allah has allowed free men to marry slave girls under certain conditions, as Mujahid and others have stated. ... وَخُلِقَ الاِنسَانُ ضَعِيفًا and man was created weak. and this is why it is suitable in his case that the commands are made easy for him, because of his weakness and feebleness. Ibn Abi Hatim recorded that Tawus said that, وَخُلِقَ الاِنسَانُ ضَعِيفًا (and man was created weak), "Concerning women." Waki said, "Man's mind leaves when women are involved."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے لئے فراہم کی ہیں انہیں میں سے لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے اسی لئے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] شرعی احکام میں انسای کمزوریوں کا لحاظ :۔ یعنی یہ احکام دینے میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ انسان فطرتاً کمزور ہے لہذا ان احکام میں انسان کی سہولت اور بساط کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنی شہوت پر کنٹرول نہیں کرسکتا تو اسے ایک سے چار بیویوں تک نکاح کی اجازت دے دی گئی ہے اور اس میں سہولتوں کو مدنظر رکھ کر اسے آسان بنادیا گیا ہے۔ نیز جو بھی احکام شریعت ہیں ان میں اعتدال کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور پھر معاشرہ کے کمزور افراد کے لیے رخصتیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کو انسان کی کمزوری کا خوب علم ہے کہ عورتوں کے معاملے میں یہ کس قدر کمزور ہے، اس لیے احکام شریعت میں اس کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور دین میں سختی نہیں برتی گئی، فرمایا : ( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ۭ ) [ الحج : ٧٨ ] ” اور اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک دین آسان ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر : ٣٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تمہارے پاس نہایت آسان حنیفی شریعت لے کر آیا ہوں۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر، قبل ح : ٣٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ] شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں کہ کوئی حلال کو چھوڑے اور حرام کو دوڑے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After this, in the first part of verse 28, it was said: يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ : It means that Allah, great in His majesty, intends to make things easy on you, that is, prescribes injunctions which can be carried out by everyone obligated with them. If one cannot afford marrying free women, permission has been given to marry bond-women. Parties to a marriage were given the right to settle the dower by mutual consent. Also given was the right to marry more than one woman under circumstantial necessity, of course, on condition that justice is not compromised. At the end, in the second part of verse 28, the text says: وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ،(And man has been created weak). It means that man is weak by nature, and constituted desire-prone. If man was asked to stay away from women, totally and absolutely, he would have been a hopeless performer when it came to obeying the injunctions of Allah. It was, in view of his weakness and limitations, that he was not only permitted to marry women, but also that he was induced to do so. It goes without saying that the post-marriage life of a couple offers great benefits of mutual self-realization and most of all they enjoy the blessings of a sight that is untainted and a character that is unalloyed. This mutual purity of the couple increases the moral quality of life for both of them, making them strong, self-reliant and happy. So, marriage is a smart mutual contract to remove any chances of weakness that may afflict men and. women - a peerless method indeed.

پھر فرمایا یریداللہ ان یخفف عنکم یعنی اللہ پاک تم پر تخفیف اور ہلکے احکام کا ارادہ فرماتے ہیں، تمہاری دقتیں دور کرنے کے لئے نکاح کے بارے میں ایسے نرم احکام دیئے جن پر سب عمل پیرا ہو سکتے ہیں اور اگر آزاد عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ ہو تو باندیوں سے نکاح کی اجازت دے دی ہے، مہر کے بارے میں طرفین کو باہمی رضا مندی سے طے کرنے کا اختیار دیا اور ضرورت کے وقت ایک سے زائد عورت سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ عدل ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ پھر فرمایا : خلق الانسان ضعیفاً یعنی انسان خلقی طور پر ضعیف ہے اور اس کے اندر شہوانی مادہ رکھا گیا ہے، اگر بالکل ہی عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا تو اطاعت اور فرمانبرداری کرنے سے عاجز رہ جاتا، اس کے عجز و ضعف کے پیش نظر عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ترغیب دی، اور نکاح کے بعد آپس میں جو ایک دوسرے کو نفس اور نظر کی پاکیزگی کا نفع اور دوسرے فوائد حاصل ہوتے ہیں ان سے طرفین کو تقویت پہنچتی ہے، پس نکاح ضعف کے دور کرنے کا باہمی معاہدہ اور ایک بےمثال طریقہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ۝ ٠ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا۝ ٢٨ خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] . الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش، و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل : معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان . ( خ ف ف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔ خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا، اللہ تعالیٰ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے اور انسان تو کمزور بنا کر پیدا کیا گیا ہے) تخفیف سے یہاں تکلیف یک تسہیل مراد ہے یعنی ہمیں جن باتوں کا مطلف بنایا گیا ہے ان میں آسانی اور سہولت کی راہیں پیدا کردی گئی ہیں۔ تخفیف تثقیل (بوجھل بنادینا) کی ضد ہے۔ اس قول باری کی نظیر یہ قول باری ہے (ویضع عنہم اصرہم ولاغلال التی کانت علیہم ، اور وہ ان سے ان کا بوجھ اور طوق اتار دیتا جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ نیز فرمایا (یرید اللہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر، اللہ تعالیٰ تم سے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ تم سے سختی کا ارادہ نہیں کرتا، نیز فرمایا (وماجعل علیکم فی الدین من حرج، اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تمہارے لیے کوئی تنگی پیدا نہیں کی) ۔ نیز ارشاد ہے (مایریدلیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی مسلط کر دے وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کر دے) ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تنگی پیدا کرنے ، ہم پر بوجھ ڈالنے اور ہمیں سختی میں مبتلا کرنے کی نفی فرمادی ہے۔ اس کی مثال حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ ارشاد مبارک ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (جیئتکم بالحنیفیۃ السمحاء، میں تم لوگوں کے پاس ایسی شریعت لے کرے یا ہوں جو بالکل سیدھی اور جس میں بڑی گنجائش ہے) ۔ وہ اس طرح کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر وہ عورتیں حرام کردیں جن کا ذکر سابقہ آیات میں گذر چکا ہے لیکن ان کے سوا باقی ماندہ تمام عورتیں ہمارے لیے مباح ہیں کہ انہیں ہم نکاح یا ملک یمین کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح دوسری تمام حرام کردہ اشیاء کی کیفیت ہے کہ جتنی چیزیں حلال کردی گئی ہیں وہ ان حرام شدہ چیزوں کے مقابلے میں کئی گنا ہیں اس لیے حلال کردہ اشیاء کی طرف جانے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی مفہوم کا ایک قول منقول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جو اس نے تم پر حرام کردی ہیں “ حضرت ابن مسعود (رض) کی اس قول سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شفا کو حرام شدہ چیزوں میں منحصر نہیں کردیا بلکہ ہمارے لیے جو غذائیں اور دوائیں حلال کردی ہیں ان میں اتنی وسعت اور گنجائش ہے کہ ہم ان کے ذریے حرام شدہ اشیاء سے مستغنی ہوسکتے ہیں تاکہ دنیاوی امور میں ہمارے لیے جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں ان سے دامن بچانے کی بنا پر ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کبھی دو باتوں میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ وہی بات پسند کرلی جو زیادہ آسان تھی۔ ان آیات سے ان مسائل میں تخفیف کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے جو فقہاء کے نزدیک مختلف فیہ ہیں اور انہوں نے ان میں اجتہاد کی گنجائش نکال لی ہے۔ اس میں فرقہ جبریہ کے مذہب کے بطلان کی دلالت موجود ہے۔ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے امور کا مکلف بنا دیتا ہے جن کے کرنے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہوتی۔ اس عقیدے کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر تخفیف کرنا چاہتا ہے جبکہ تکلیف مالا یطاق یعنی ایسی بات کا مکلف جو اس کی طاقت سے بالا ہو، تثقیل کی انتہا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کے معانی کو زیادہ جاننے والا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) اللہ تعالیٰ نے تم پر ضرورت کے وقت باندیوں سے شادی کو حلال کردیا اور انسان عورتوں سے نہیں رک سکتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ ( یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ ج) “ تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تم پر بوجھ ڈال رہا ہے۔ اللہ تو تم پر تخفیف چاہتا ہے ‘ تم سے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ اگر تم ان چیزوں پر عمل نہیں کرو گے تو معاشرے میں گندگیاں پھیلیں گی ‘ فساد برپا ہوگا ‘ جھگڑے ہوں گے ‘ بدگمانیاں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اس سب کی روک تھام چاہتا ہے ‘ وہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ) اس کے اندر کمزوری کے پہلو بھی موجود ہیں۔ جہاں ایک بہت اونچا پہلو ہے کہ اس میں روح ربانی پھونکی گئی ہے ‘ وہاں اس کے اندر نفس بھی تو ہے ‘ جس میں ضعف کے پہلو موجود ہیں

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یعنی اِنسان فطری طور پر جنسی خواہش کا مقابلہ کرنے میں کمزور واقع ہوا ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس کو یہ خواہش جائز طریقے سے پورا کرنے سے نہیں روکا ، بلکہ نکاح کو اس کے لئے آسان بنادیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:28) ان یخفف عنکم۔ تم سے (پابندیوں کا بوجھ) ہلکا کرے۔ یخفف کا مفعول محذوف ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کو انسان کی کمزوری کا خوب علم ہے اس لیے احکام شریعت میں اس کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور دن میں سختی نہیں برتی گئی۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہارے پاس نہایت آسان حنفیفی شریعت لے کر آیا ہوں۔ (رازی، شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا “۔ (٤ : ٢٨) ” اللہ تم پر عائد شدہ پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔ “ گزشتہ آیات میں خاندانی نظام کے بارے میں جو احکام دیئے گئے ہیں اور قانون سازی کی گئی ہے اور جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں تو تخفیف بالکل واضح نظر آتی ہے ۔ مثلا انسان کے فطری میلانات اور جنسی خواہش کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ صرف اس جذبے کو منظم کر کے اس اک رخ تعمیری خطوط کیطرف موڑ دیا گیا ہے جس کے استعمال کے لئے پاک وصاف دائرہ کار مقرر کردیا گیا ہے ۔ اس کے لئے پاک وصاف اور بہترین ماحول بنایا گیا ہے ‘ اور یہ حکم نہیں دیا گیا کہ انسان اپنی اس فطری خواہش کو دبائے یا اس کا قلع قمع کر دے یا اسے اس طرح آزاد چھوڑ دے کہ وہ حیوانی سطح تک گر جائے اور اس کے لئے کوئی حد اور قید نہ ہو ۔ خاندانی زندگی کے علاوہ اسلامی نظام زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی قانون سازی کے سلسلے میں تخفیف اور آسانی ہر جگہ صاف نظر آتی ہے ۔ انسانی فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ انسان کی طاقت اور وسعت کو پیش نظر رکھا گیا ہے انسانی حاجات اور ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور انسان کی تمام تعمیری قوتوں کو آزاد چھوڑا گیا ہے ۔ تاہم ان کے استعمال کے لئے ایسے حدود وقیود رکھے ہیں جن کی وجہ سے ان کے غلط استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مردوزن کے جنسی تعلقات پر اسلام نے جو قیود عائد کی ہیں ان کی پابندی بہت ہی دشوار ہے اور جو لوگ آزاد شہوت رانی کے اصول پر چلتے ہیں ان کے ساتھ چلنا آسان اور فرحت بخش ہے ۔ یہ ایک عظیم غلط فہمی ہے اس لئے کہ جنسی تعلق کو بالکل آزاد چھوڑنا ‘ مرد وزن کے تعلق میں صرف لذت اندوزی کو اختیار کرنا ‘ اور عالم انسانیت میں جنسی ملاپ کو اس سطح تک لے آنا جس طرح حیوانوں میں جنسی ملاپ ہوتا ہے ‘ اور اس طرح ان تمام فرائض اور واجبات اور اجتماعی ذمہ داریوں کو ختم کردینا اور مرد وزن کے اس تعلق کو ہر قسم کے قید وبند سے آزاد کردیتا خواہ وہ اخلاقی قید ہو یا اجتماعی ‘ یہ تمام باتیں بظاہر تو بہت آسان ‘ پرکیف اور خوش کن تصور کی جائیں گی لیکن اپنے حقیقی نتائج کی روشنی میں وہ بہت ہی بھاری جان توڑ اور تباہ کن ہیں اور ایک فرد اور ایک معاشرے پر اس کے جو برے اثرات پڑتے ہیں ان کے نتائج سخت اذیت ناک مہلک اور تباہ کن ہوتے ہیں ۔ وہ معاشرے ‘ جنہوں نے جنسی آزادی کی اس بےراہ روی کو اپنایا ہے اور دینی اخلاق اور شرم وحیا کے قیود سے آزادہو گئے ہیں ‘ ان کے حالات پر ایک سرسری نظرڈالنے سے دل کانپ اٹھتا ہے بشرطیکہ دل میں زندگی کی رمق باقی ہو ۔ دنیا میں جو جو قدیم تہذیبیں نیست ونابود ہوئیں ‘ ان کی بربادی کا عامل اساسی ان کی جنسی بےراہ روی ہی تھی ۔ خواہ یہ تہذیب یونانی تہذیب ہو ‘ رومی تہذیب ہو یا قدیم ایرانی تہذیب ہو ‘ ان سب کے زوال کا اساسی سبب انکی جنسی بےراہ روی ہی تھی ۔ آج ہمارے دور میں مغربی تہذیب میں جو شکست وریخت ہورہی ہے وہ بھی اسی جنسی انارکی کی وجہ سے ہے ۔ خصوصا آج کے فرانسیسی معاشرے کی تباہی کے آثار تو بالکل ظاہر ہیں ‘ جس نے اس جنسی انار کی کو سب سے پہلے اپنایا ۔ تہذیب جدید کے دیگر ممالک ‘ امریکہ ‘ سویڈن ‘ برطانیہ ‘ اور دوسری نام نہاد ترقی یافتہ مغربی سوسائیٹوں میں اس شکست وریخت کے آثار نمودار ہوگئے ہیں فرانس میں اس جنسی انار کی کے آثار بہت پہلے نمودار ہوئے تھے ۔ ١٨٧٠ کے بعد فرانس نے جس قدر جنگوں میں بھی حصہ لیا ‘ ان میں اسے دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔ تمام آثار و شواہد اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں فرنچ سوسائٹی مکمل طور پر تباہی کے کنارے کھڑی ہے اور پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ آثار اچھی طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ مولانا مودودی (رح) لکھتے ہیں : ” شہوانیت کے اس تسلط کا اولین نتیجہ یہ ہے کہ فرانسیسیوں کی جسمانی قوت رفتہ رفتہ جواب دیتی چالی جارہی ہے ، دائمی جنسی ہیجانات نے ان کے اعصاب کمزور کردیئے ہیں ۔ خواہشات کی بندگی نے ان میں ضبط اور برداشت کی طاقت کم ہی باقی چھوڑی ہے ۔ امراض خبیثہ کی کثرت نے ان کی صحت پر نہایت مہلک اثر ڈالا ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ کیفیت ہے کہ فرانس کے فوجی حکام کو مجبورا ہرچند سال کے بعد نئے رنگروٹوں کے لئے جسمانی اہلیت کے معیار کو گھٹا دینا پڑتا ہے کیونکہ اہلیت کا جو معیار پہلے تھا اب اس معیار کے نوجوان قوم کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ ایک معتبر پیمانہ ہے جو تھرمامیڑ کی طرح قریب قریب یقینی صحت کے ساتھ بتاتا ہے کہ فرنچ قوم کی جسمانی قوتیں کتنی تیزی کے ساتھ بتدریج گھٹ رہی ہیں ۔ امراض خبیثہ اس تنزل کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہیں جنگ عظیم اول کے ابتدائی دو سالوں میں جن سپاہیوں کو محض آتشک کی وجہ سے رخصت دے کر ہسپتالوں میں میں بھیجنا پڑا ان کی تعداد ٧٥٠٠٠ تھی ۔ صرف ایک متوسط درجے کی فوجی چھاونی میں بیک وقت دو سوبیالیس سپاہی اس مرض میں مبتلا ہوئے ، ایک طرف اس وقت کی نزاکت کو دیکھئے کہ فرانسیسی قوم کی موت وحیات کا فیصلہ درپیش تھا اور اس کے وجود وبقا کے لئے ایک ایک سپاہی کی جانفشانی درکار تھی ۔ ایک ایک فرانک بیش قیمت تھا ‘ اور وقت ‘ قوت ‘ وسائل ‘ ہر چیز کی زیادہ سے زیادہ مقدار دفاع میں خرچ ہونے کی ضرورت تھی ‘ دوسری طرف اس قوم کے جوانوں کو دیکھئے کہ کتنے ہزار افراد عیاشی کی بدولت نہ صرف خود کئی کئی مہینوں کے لئے بیکار ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی قوم کی دولت اور وسائل کو بھی اس آڑے وقت میں اپنے علاج پر ضائع کرایا ۔ ایک فرانسیسی ماہر فن لیریڈ کا بیان ہے کہ فرانس میں ہر سال آتشک اور اس کی پیدا کردہ امراض کی وجہ سے تیس ہزار جانیں ضائع ہوتی ہیں اور دق کے بعد یہ مرض سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث ہوتا ہے ۔ یہ صرف ایک مرض خبیث کا حال ہے ۔ اور امراض خبیثہ کی فہرست صرف اسی ایک مرض پر مشتمل نہیں ہے ۔ “ ” فرانس میں سالانہ صرف سات آٹھ فی ہزار کا اوسط ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو ازدواج کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں ۔ یہ اوسط خود اتنا کم ہے کہ اسے دیکھ کر آسانی کے ساتھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آبادی کا کتنا کثیر حصہ غیر شادی شدہ ہے ۔ پھر اتنی قلیل تعداد جو نکاح کرتی ہے ‘ ان میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جو باعصمت رہتے ہیں اور پاک اخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیت سے نکاح کرتے ہیں ۔ اس ایک مقصد کے سوا ہر دوسرا ممکن مقصد ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ حتی کہ عامۃ الورود مقاصد میں ایک یہ بھی ہے کہ نکاح سے پہلے ایک عورت نے جو بچہ ناجائز طور پر جنا ہے نکاح کر کے اس مولود کو جائز بنا دیا جائے ۔ چناچہ پول بیورو لکھتا ہے کہ فرانس کے کام پیشہ لوگوں (Working ClAss) کا یہ عام دستور ہے کہ نکاح سے پہلے عورت اپنے ہونے والے شوہر سے اس بات کا وعدہ لے لیتی ہے کہ وہ اس کے بچہ کو اپنا بچہ تسلیم کرے گا ۔ ١٩١٧ میں سین (Seine) کی عدالت دیوانی کے سامنے ایک عورت نے بیان دیا کہ میں نے شادی کے وقت ہی اپنے شوہر کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ اس شادی سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے قبل از نکاح آزادانہ تعلقات سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں ان کو ” حلالی “ بنا دیا جائے ۔ باقی رہی یہ بات کہ میں اس کے ساتھ بیوی بن کر زندگی گزاروں تو یہ بات نہ اس وقت میرے ذہن میں تھی نہ اب ہے ۔ اس بناء پر جس روز شادی ہوئی اسی روز ساڑھے پانچ بجے میں اپنے شوہر سے الگ ہوگئی اور آج تک میں اس سے نہیں ملی کیونکہ میں فرائض زوجیت ادا کرنے کی کوئی نیت نہ رکھتی تھی ۔ “ ” پیرس کے ایک مشہور کالج کے پر نسپل نے پول بیورو سے بیان کیا کہ عموما نوجوان نکاح میں صرف یہ مقصد پیش نظر رکھتے ہیں کہ گھر رکھتے ہیں کہ گھر پر بھی ایک داشتہ کی خدمات حاصل کرلیں ، دس بارہ سال تک وہ ہر طرف آزادانہ مزے چکھتے پھرتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس قسم کی بےضابطہ آوارہ زندگی سے تھک کر وہ ایک عورت سے شادی کرلیتے ہیں تاکہ گھر کی آسائش بھی کسی حد تک بہم پہنچے اور آزادنہ ذواقی کا لطف بھی حاصل کیا جاتا رہے ۔ “ (دیکھئے الحجاب مولانا سید ابو الاعلی مودودی (رح) امیر جماعت اسلامی پاکستان ص ١١٣۔ ١١٤ (سید قطب (رح)) ‘ دیکھے پردہ طبع اسلامک پبلیکیشنز لاہور ۔ طبع ٢٧ ص ٩١ تا ٩٥ لاہور جون ١٩٨٥) یوں فرانس تباہ ہوا اور اس کے نتیجے میں فرانس نے ہر اس جنگ میں ہزیمت اٹھائی جس میں وہ شریک ہوا ۔ اور اب اس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ تہذیب و تمدن کے اسٹیج سے آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے اور کسی بھی وقت اپنے وجود ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور یہ سنت الہیہ کا ظہور نہایت ہی دھیمی رفتار سے ہوتا ہے ۔ اور انسان اگرچہ ہر معاملے میں جلد بازی سے کام لیتا ہے لیکن سنت الہیہ کی اپنی رفتار ہوتی ہے ۔ رہے وہ ممالک جو ابھی تک پرشوکت نظر آتے ہیں یا ان میں تباہی اور ہلاکت کے آثار ابھی تک ظاہر ہو کر سامنے نہیں ہیں تو ان کے نمونے یہ ہیں : اس صحافی جنہوں نے حال ہی میں سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا ہے ۔ وہ اس ملک کے اشتراکی معاشرے ‘ اس کی اجتماعی سہولتوں اور اس کی مادی ترقیات اور خوشحالیوں سے بحث کرتے ہوئے اس میں آزادی محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔ ” اگر ہمارے خواب یہی ہوں کہ ہم اپنی قوم کے لئے وہی ممتاز اقتصادی مقام چاہتے ہیں جو ان مغربی ممالک میں ہے ‘ اور ان کامیاب اشتراکی رجحانات کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان امتیازات کو ختم کردیں اور ہم اپنے اس ملک مصر کے ہر شہری کی راہ سے وہ تمام مشکلات حیات ختم کردیں جن کے ختم کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ‘ اگر ہم اپنے اس خوش کن خواب تک پہنچ جائیں جس کے حقیقت بنانے میں ہم اپنی پوری قوت اور پوری امکانیت کو ختم کر رہے ہیں ‘ تو پھر یہ اہم سوال پیدا ہوگا کہ ہم اس مادی ترقی کے تمام دوسرے نتائج کو بھی اپنے ہاں قبول کرلیں گے کی اہم اس مثالی معاشرے کے تاریک پہلو کو بھی قبول کرنیکے لئے تیار ہوں گے ۔ کی اہم آزادانہ تعلق مرد وزن کو قبول کرلیں گے اور خاندانی نظام پر پڑنے والے اس کے برے اثرات کو بھی قبول کرلیں گے ۔ “ ” آئیے ذرا اعداد و شمار کی زبان میں بات کریں ۔ زندگی کے اندر قرار و سکون پیدا کرنے کی موجودہ حوصلہ افزائیوں اور تشکیل خاندان کی حالیہ مساعی کے باوجود ‘ سویڈن کی آبادی گراف مسلسل گر رہا ہے ۔ باوجود اس کے کہ موجودہ حکومت عورت کو شادی کرنے کے لئے بہت امداد د ہے رہی ہے ۔ پھر عورت کے بچے کی مفت کفالت کی جاتی ہے ۔ ‘ یہاں تک کہ وہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوجائے ۔ ان سہولیات کے باوجود سویڈن کا ہر خاندان بچے پیدا کرنے سے مکمل احتراز کر رہا ہے ۔ ” اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ شادی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے اور ناجائز بچوں کی پیدائش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بیس فیصدی بالغ لڑکے اور لڑکیاں سرے سے شادی ہی نہیں کرتے ۔ سویڈن میں صنعتی دور ۔ ١٨٧٠ میں شروع ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ اشتراکی دور بھی ١٨٧٠ ء میں شروع ہوتا ہے ۔ ١٨٧٠ ء میں غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد سات فیصدی تھی ‘ جبکہ ١٩٢٠ میں یہ تعداد سولہ فیصدی ہوگئی ۔ اس کے بعد کے اعداد و شمار مجھے نہیں مل سکے ‘ البتہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ علمی اداروں نے جو اعداد و شمار شائع گئے ہیں ‘ اس کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ مرد اٹھارہ سال کی عمر میں جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں اور عورت پندرہ سال کی عمر میں جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہے ۔ اور اکیس سال کی عمر میں پچانوے فیصد نوجوانوں کے جنسی تعلقات قائم ہوچکے ہوتے ہیں ۔ مزید تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٧ فیصدی تعلقات ان لڑکیوں سے ہوتے ہیں جن کی منگنی ہوچکی ہوتی ہے ‘ پینتیس فیصدی دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اٹھاون فیصدی ایسی عورتوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو وقتی طور پر شناسا ہوتی ہیں ۔ اب ذرا عورتوں کے تعلقات جنسی کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں ۔ صرف تین فیصدی عورتوں کے تعلقات اپنے خاوند سے ہوتے ہیں ‘ اٹھائیس فیصدی عورتوں کے تعلقات اپنے منگیتر سے ہوتے ہیں اور چونسٹھ فیصد عورتوں کے تعلقات صرف چالو دوستوں سے ہوتے ہیں مزید بتایا جاتا ہے کہ اسی فیصد عورتیں شادی سے قبل جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور بیس فیصدی ایسی ہیں جو شادی کا تکلف ہی نہیں کرتیں ۔ “ ” ان حالات کا نتیجہ یہ ہے کہ اس جنسی آزادی کی وجہ سے بالعموم شادی بہت ہی لیٹ کی جاتی ہے ‘ اور منگنی ہوجائے تو اس میں شادی کی معیاد بہت ہی طویل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ غیر قانونی بچوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے “۔ ان سب حالات کے نتیجے میں خاندانی نظام کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ سویڈن کے باشندے محبت کی آزادی کے حق میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں : یہ کہ سویڈن کا معاشرہ شادی کے بعد تمام دوسرے متمدن معاشروں کی نسبت خیانت کو بہت ہی بری نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ بات درست ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے لیکن وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اور اس جنسی بےراہ روی کی وجہ سے نسلی تنزل اور طلاق کے اعداد و شمار میں بےحد اضافے کا کوئی تشفی بخش سبب نہیں بتا سکتے ۔ اس وقت سویڈن میں طلاق کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ چھ سات شادیوں میں سے ایک طلاق پر منتج ہوتی ہے ۔ اور یہ اعداد و شمار سویڈن کی اجتماعی امور کی وزارت کے شائع کردہ ریکارڈ سے لئے گئے ہیں ۔ یہ نسبت ابتداء میں کم تھی مگر آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور ١٩٩٦ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک ہزار شادیوں میں سے چھبیس طلاق پر منتج ہوئی تھیں ۔ ١٩٥٢ میں یہ تعداد ایک سو چار ہوگئی ۔ ١٩٥٤ میں ایک سو چودہ ہوگئی ۔ ان واقعات کا سبب یہ ہے کہ ٣٠ فیصدی شادیاں محض ضرورت کے تحت مجبور کے حالات میں ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی شادیاں اصلی شادیوں کی طرح طویل المیعاد نہیں ہوتیں اور مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ایک نوجوان عورت حاملہ ہوجاتی ہے ۔ عموما ایسی شادیوں میں بعد میں طلاق ہوجاتی ہے ‘ اس لئے کہ سویڈن کے قانون میں طلاق کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جب بھی زوجین درخواست کریں کہ وہ طلاق پر راضی ہیں تو قانون طلاق کی اجازت دے دیتا ہے اور اگر زوجین میں سے کوئی ایک فریق ہی طلاق کی درخواست کرے تو ایک معمولی بہانے پر طلاق ہوجاتی ہے ۔ “ ” سویڈن میں ایک تو جنسی بےراہ روی کی پوری پوری آزادی ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک دوسری آزادی بھی حاصل ہے ۔ وہ یہ کہ ہر شخص کو دہری ہونے کی آزادی ہے ۔ سویڈن کے باشندوں کی اکثریت منکر خدا ہے ۔ سویڈن میں ایک وسیع تحریک چل رہی ہے اور لوگ کنیسہ سے پوری پوری آزادی حاصل کر رہے ہیں ۔ ناروے اور ڈنمارک میں بھی انکار خدا عام ہے ۔ مدارس اور یونیورسٹیوں میں انکار خدا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اور نوجوانوں میں انکار خدا کے عقائد ایک منصوبے سے پھیلائے جاتے ہیں ۔ “ ” سویڈن اور سکنڈے نیویا کے دوسرے ممالک کے لوگ پوری طرح اخلاق باختہ ہوچکے ہیں ‘ یہ لوگ اپنے عقیدہ انکار خدا اور خدا کا خوف نہ رکھنے کی وجہ سے ہر قسم کی اخلاقی قید وبند سے آزاد ہوگئے ہیں اور آخر کار یہاں کے نوجوان شراب نوشی اور دوسری تباہ کن منشیات کے عادی ہوگئے ہیں ۔ ایسے بچوں کی تعداد ١٧٥ ہزار ہے جن کے والدین منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور یہ تعداد خاندانی بچوں کا دس فیصد بنتی ہے ۔ مراھق بچوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے جو خود نشہ کرتے ہیں ۔ جن نوجوانوں کو شدید نشہ کی حالت میں گرفتار کیا جاتا ہے ان کی تعداد گزشتہ پندرہ سالوں میں تین گنا زیادہ ہوگئی ہے اور پندرہ سے سترہ سال کی عمر کے نوجوانوں کے اندر شراب نوشی کی عادت بد سے بدتر ہی جارہی ہے اور اس کے بہت برے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ “ ” سویڈن میں بالغ ہونے والوں میں ہر دسواں بچہ دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے ۔ سویڈن کے ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کہ ان نفسیاتی بیماروں کا پچاس فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی دماغی بیماری ‘ ان کی جسمانی بیماری کا نتیجہ ہوتی ہے ظاہر ہے کہ انکار خدا کی آزادی اور اخلاقی قیود سے آزادی کا یہی نتیجہ ہو سکتا ہے کہ آبادی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو اور خاندان نظام کی چولیں ڈھیلی پڑجائیں اور اس کے نتیجے میں گھٹیا درجے کی نسل وجود میں آئے ۔ “ یہ تو حال تھا سویڈن کا لیکن امریکہ کا بھی یہی حال ہے ۔ اور برائی کے آثار خطرناک طور پر ظاہر ہو رہے ہیں ‘ لیکن امریکی قوم کو اس طرف التفات ہی نہیں ہے ۔ امریکی قوم کے وجود میں تباہی کے آثار در آئے ہیں ‘ اگرچہ بظاہر وہ تروتازہ ہے۔ ظاہری قوت اور توانائی کے مظاہر کے باوجود یہ قوم بھی جسمانی اور اخلاقی انحطاط کی طرف جارہی ہے اور اس کے آثار نمودار ہو رہے ہیں ۔ امریکہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے ملک کے حساس فوجی راز اپنے دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں ‘ اس لئے نہیں کہ انہیں روپے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ محض اس لئے کہ وہ جنسی بےراہ روی میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی یہ بےراہ روی اس عام جنسی آزادی اور بےراہ روی کا نتیجہ ہوتی ہے جو ان کے ملک میں رائج ہے ۔ امریکہ میں بعض ریاستوں میں ازروئے قانون طلاق کے لئے یہ شرط ہے کہ خاوند یا بیوی میں سے کوئی زنا کی حالت میں پکڑا جائے ۔ اس غرض کے لئے بعض وکلاء اور ڈاکٹروں نے ایک تنظیم بنائی تھی کہ جو ایسے مقدمات می مرد یا عورت کو زنا کاری میں پھانسے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حال ہی میں امریکی پویس نے ایک ایسی تنظیم کا پتہ چلایا جس کے شعبے کئی شہروں میں تھے ۔ حالانکہ وکلاء اور ڈاکٹر مہذب ترین لوگ ہوتے ہیں کئی جوڑے جو طلاق چاہتے تھے ‘ پہلے ایسے ادارون کی خدمات حاصل کرکے اپنے شریک حیات کو زنا کاری میں پھانستے اور پھر مقدمہ دائر کردیتے ۔ امریکہ میں ایسے دفتر عام ہیں جو بھاگی ہوئی عورتوں اور بھاگے ہوئے خاوندوں کی تلاش میں تعاون فراہم کرتے ہیں اس لئے کہ کسی خاوند کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ جب وہ شام کو گھر آئے گا تو اس کی بیوی موجود ہوگی اور اپنے کسی محبوب کے ساتھ چلی نہ گئی ہوگی نیز بیوی کو بھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ اس کا خاوند شام کو واپس آئے گا یا اس سے زیادہ جاذبیت رکھنے والی کسی دوشیزہ نے اسے سنبھال لیا ہوگا ۔ ایسے معاشرے میں جن میں خاندانوں کی حالت یہ ہو ‘ ان میں کسی کے اعصاب کیسے مضبوط اور درست رہ سکتے ہیں ۔ اور ایسے حالات میں امریکہ کے ایک صدر اعلان کرتے ہیں کہ ہر سات نوجوانوں میں سے چھ فوجی خدمات کے لئے نااہل ہوچکے ہیں اس لئے کہ یہ سب جنسی بےراہ روی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ مولانا مودودی (رح) لکھتے ہیں ۔ ” ایک امریکی رسالے میں ان اسباب کو جن کی وجہ سے وہاں بداخلاقی کی غیر معمولی اشاعت ہو رہی ہے ‘ اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیا پر چھا گئی ہے اور یہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں ۔ فحش لٹریچر جو جنگ عظیم کے بعد حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بےشرمی اور کثرت اشاعت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکا رہی ہیں بلکہ عملی سبق بھی دیتی ہیں ۔ عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار جو ان کے لباس اور بسا اوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روز افزوں استعمال اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید وبند سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ تین چیزیں ہمارے ہاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان کا نتیجہ مسیحی تہذیب ومعاشرے کا زوال اور آخر کار تباہی ہے ۔ اگر ان کو نہ روکا گیا تو ہماری تاریخ بھی روم اور ان دوسری قوموں کے مماثل ہوگی جن کو یہی نفس پرستی اور شہوانیت ان کی شراب اور عورتوں اور ناچ رنگ سمیت فنا کے گھاٹ اتار چکی ہے ۔ “ (الحجاب سید ابو الاعلی مودودی (رح) ‘ ص ١٢٩۔ ١٣۔۔۔۔۔ اردو ایڈیشن صفحات ١٠٥۔ ١٠٦ طبع ٢٧ جون ١٩٨٥ اسلامی بپلیکیشنز لاہور) لیکن واقعات کی دنیا میں جو کچھ ہوا ‘ وہ یہ ہے کہ امریکہ اس مثلث کے سیلاب سے نہ بچ سکا بلکہ اس نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ۔ وہ اسی راہ پر چل نکلا ہے جس پر روم چلا ، ایک دوسرے صحافی امریکہ ‘ برطانیہ اور فرانس کے نوجوانوں میں جنسی بےراہ روی کے سیلاب کے بارے میں لکھتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کی بےراہ روی ان ممالک کی طرح شدید نہیں ہے ۔ ” امریکہ کے نوخیز لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بےراہ روی کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے ۔ نیویارک کے گورنر نے اعلام کیا کہ اس بےراہ روی کا علاج ‘ اس ریاست میں ‘ عنقریب قومی اصلاح کے مسائل میں سرفہرست آجائے گا ۔ گورنر نے مشورہ دیا ہے کہ اصلاحی نرسریاں اور تہذیب اخلاق کی مجالس اور جسمانی تربیت کے اداروں کا قیام از بس ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء اور طالبات کے درمیان منشیات یعنی چرس اور کو کین کے رواج کو ختم کرنا ان کے پروگرام میں شامل نہیں ہے اور یہ معاملہ ہم محکمہ صحت عامہ کے حوالے کر رہے ہیں۔ “ ” آخری دو سالوں کی رپورٹ کے مطابق انگلستان میں عورتوں اور نوجوان ، چھوٹی نابالغ خواتین پر دست درازی کے واقعات میں بےحد اضافہ ہوا ہے خصوصا دیہاتی راستوں میں اکثر واقعات میں دست درازی کرنے والے مراھق یا نوجوان تھے اور ان واقعات میں سے بعض واقعات میں بچی یالڑ کی کا گلاگھونٹ کا اسے قتل بھی کردیا گیا تھا اور اسے ٹھنڈی اور منجمد لاش کی شکل میں چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ بدکرداری کا راز فاش نہ ہو یا یہ کہ شناخت پریڈ کے وقت شناخت نہ ہو سکے “۔ ” دو ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ ایک بوڑھا شخص اپنے گاؤں جارہا تھا ۔ اس نے راہ گزر پر ایک درخت کے نیچے ایک نوجوان کو ایک لڑکی کے ساتھ مباشرت کرتے ہوئے دیکھا ۔ یہ بوڑھا ان کے قریب گیا ۔ اس نے لڑکے کو اپنے عصا سے مارا ۔ اور زجر وتوبیخ کی اور اسے کہا کہ جس فعل کا وہ ارتکاب کررہا ہے وہ سرعام جائز نہیں ہے ۔ لڑکا اٹھا اور اس نے بوڑھے کے پیٹ میں ایک لات رسید کی ۔ بوڑھا گرا ۔ اس کے بعد وہ اپنے بوٹوں کے ساتھ اسے سر پر مارتا رہا یہاں تک کہ اس کا سر پھوڑ دیا ۔ اس لڑکے کی عمر صرف پندرہ سال تھی ۔ اور لڑکی کی عمر صرف تیرہ سال تھی ۔ “ امریکہ کی ” انجمن چہاردہ “ جو ملک کی اخلاقی صورت حال کی نگراں ہے ‘ نے بتایا ہے کہ امریکہ کی نوے فیصد آبادی مہلک خفیہ جنسی امراض کا شکار ہے اور یہ صورت حال اس وقت تھی جبکہ جدید جراثیم کش ادویہ بنسلین اور سٹریپٹو مائیسین ایجاد نہیں ہوئی تھیں ۔ ڈنفر کے ایک جج لکھتے ہیں کہ ہر دو نکاحوں میں سے ایک طلاق پر منتج ہوتا ہے اور مشہور عالمی ڈاکٹر الکسیس کاریل اپنی مشہور کتاب ” انسان نامعلوم “ میں لکھتے ہیں : ۔ ” ہم بچوں کے اسہال ‘ سل ‘ دق اور ٹائی فائیڈ جیسی بیماریوں کی بیخ کنی کے تو بالکل قریب جاپہنچے ہیں لیکن ان بیماریوں کی جگہ اخلاقی بےراہ روی اور اخلاقی بگاڑ کی بیماریوں نے لے لی ہے جس کے نتیجے میں اعصابی اور دماغی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں امریکہ کی بعض ریاستوں میں عام مریضوں کے مقابلے میں دماغی مریضوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے ۔ جنون کے علاوہ اعصابی اور جسمانی ناتوانی کی بیماریوں میں بھی بےحد اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کے نتیجے میں ہر فرد مصیبت زدہ ہوگیا ہے ۔ اور خاندانی نظام قریب الاختتام ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ متعدی بیماریوں کے مقابلے میں امریکی تہذیب کے لئے عقلی انحطاط زیادہ مضر ثابت ہو رہا ہے ۔ جبکہ ماہرین طب نے اپنی سرگرمیاں ان متعدی بیماریوں کے انسداد تک محدود کر رکھی ہیں ۔ یہ ان مصائب اور تکلیفات کی معمولی سی جھلک ہے جو اس گمراہ انسانیت نے اپنے اوپر اس لئے لاولئے ہیں کہ اس نے ان لوگوں کی پیروی شروع کردی جو صرف شہوت کے پیروکار بن گئے تھے انہوں نے خدا کے بنائے ہوئے طریقہ زندگی کی پیروی ترک کر کے جدید جاہلیت کو اپنا لیا تھا ۔ حالانکہ اسلامی نظام زندگی وہ منہاج تھا جس میں انسان کے ضعف اور کمزوری کو ملحوظ رکھ کر قانون سازی کی گئی تھی ‘ اور اس نظام میں اسے اپنی خواہشات نفس اور شہوانی میلانات کی بندگی سے بچا کر ایک ایسے راستے کی طرف ہدایت دی گئی تھی جو پرامن بھی تھا اور اس پر چل کر انسان کے گناہوں سے رجوع آسان ہوجاتا تھا اور وہ راہ طہارت اختیار کرسکتا تھا ۔ (آیت) ” واللہ یرید ان یتوب علیکم ویرید الذین یتبعون الشھوت ان تمیلوا میلا عظیما (٢٧) یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا (٢٨) “ ہاں ‘ اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ ،۔ اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اس کا سبق کا دوسرا حصہ اسلامی معاشرے کے مابین بعض مالی معاملات پر بحث کرتا ہے تاکہ باہم معاملات کے طریقے طے کردیئے جائیں اور اسلامی معاشرے کے ممبران کے درمیان باہمی معاملات پاک وصاف رہیں ۔ نیز اس میں مالی حقوق عورتوں کو بھی ویسے ہی دیئے جائیں جس طرح مردون کو دیئے گئے ہیں ۔ ہر شخص کو اس کا مقرر کردہ حصہ ملے ۔ نیز وہ مالی حقوق جو ولایت پر مبنی تھے اور جو دور جاہلیت میں عام طور پر مروج رہے ‘ اور اسلام کے آنے کے بعد بھی ابتدائی دنوں میں وہ مروج تھے ‘ ان کو ختم کردیا جائے تاکہ اس سابقہ نظام کا تصفیہ کردیا جائے اور اسلامی نظام میراث کے لئے راہ ہموار ہوجائے جس میں میراث صرف قریبی رشتہ داروں کا حق بنتی ہے اور آئندہ کے لئے قدیم موروثی ولایت کے نظام کو ختم کردیا جائے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(ف 3) اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ وہ تم پر آسانی اور تخفیف فرمائے اور تم پر سے بوجھ کو ہلکا کردے کیونکہ انسان کو طبعاً کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ انسان اور مکلفین کے مقابلہ میں چونکہ طبعاً کمزور بنایا گیا ہے اور احکام شاقہ کا تحمل نہیں کرسکتا اس لئے اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور یہ اس کے علم و حکمت اور رحمت و شفقت کا کمال ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سابقہ امم پر جو احکام مقررکئے تھے اس میں تمہاری حالت کا لحاظ کرتے ہوئے تخفیف منظور ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم پر سے اس بوجھ کو ہلکا کردیں کیونکہ اول تو انسان ضعیف الخلقت ہے پھر آخری امت اپنے قوی اور ہمت کے اعتبار سے اور بھی زیادہ کزور ہے اور جس قدر قیامت کا زمانہ قریب آتا جائے گا۔ یہ ضعف اور کمزوری زیادہ ہوتی جائے گی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو تم پر تخفیف منظور ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ پہلی امتوں سے اس امت میں احکام کی آسانی زیادہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی شرع میں کسی چیز کی تنگی نہیں کی کہ کوئی حلال کو چھوڑے اور حرام کو دوڑے۔ (موضح القرآن) اوپر کی آیتوں میں حرمت و حلت کے بعض مخصوص احکام تھے۔ مثلاً یتیموں کا مال نہ کھائو، یتیموں پر ظلم نہ کرو۔ وارثوں کی میراث نہ مارو۔ اب آگے ان احکام کی تعمیم فرماتے ہیں۔ (تسہیل)