Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 60

سورة النساء

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یَزۡعُمُوۡنَ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَحَاکَمُوۡۤا اِلَی الطَّاغُوۡتِ وَ قَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِہٖ ؕ وَ یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۶۰﴾

Have you not seen those who claim to have believed in what was revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you? They wish to refer legislation to Taghut, while they were commanded to reject it; and Satan wishes to lead them far astray.

کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اُتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Referring to Other than the Qur'an and Sunnah for Judgment is Characteristic of Non-Muslims Allah أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ امَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَلاً بَعِيدًا Have you not seen tho... se (hypocrites) who claim that they believe in that which has been sent down to you, and that which was sent down before you, and they wish to go for judgment (in their disputes) to the Taghut while they have been ordered to reject them. But Shaytan wishes to lead them far astray. Allah chastises those who claim to believe in what Allah has sent down to His Messenger and to the earlier Prophets, yet they refer to other than the Book of Allah and the Sunnah of His Messenger for judgment in various disputes. It was reported that the reason behind revealing this Ayah was that; a man from the Ansar and a Jew had a dispute, and the Jew said, "Let us refer to Muhammad to judge between us." However, the Muslim man said, "Let us refer to Ka`b bin Al-Ashraf (a Jew) to judge between us." It was also reported that; the Ayah was revealed about some hypocrites who pretended to be Muslims, yet they sought to refer to the judgment of Jahiliyyah. Other reasons were also reported behind the revelation of the Ayah. However, the Ayah has a general meaning, as it chastises all those who refrain from referring to the Qur'an and Sunnah for judgment and prefer the judgment of whatever they chose of falsehood, which befits the description of Taghut here. This is why Allah said, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ امَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ (and they wish to go for judgment to the Taghut) until the end of the Ayah. Allah's statement, وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا   Show more

حسن سلوک اور دوغلے لوگ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دعوے کو جھٹلایا ہے جو زبانی تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف لے جاتے ہیں ، چنانچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک ... تو یہودی تھا دوسرا انصاری ، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کرالیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے پاس چلو یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے تھے ، اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں ، آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے ان تمام واقعات پر مشتمل ہے ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے اور یہی مراد یہاں طاغوت سے ہے ( یعنی قرآن و حدیث کے سوا کی چیز یا شخص ) صدور سے مراد تکبر سے منہ موڑ لینا ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ) 2 ۔ البقرۃ:170 ) یعنی جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے رہیں گے ، ایمان والوں کو جواب یہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے ( اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 24 ۔ النور:51 ) یعنی ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے فیصلے اور حکم کی طرف بلایا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تہ دل سے قبول کیا ، پھر منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں کے باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دوڑے بھاگے آتے ہیں اور تمہیں خوش کرنے کے لئے عذر معذرت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے لے جانے سے ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے آپس میں میل جول نبھ جائے ورنہ دل سے کچھ ہم ان کی اچھائی کے معتقد نہیں ، جیسے اور آیت میں ( فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:52 ) تک بیان ہوا ہے ، یعنی تو دیکھے گا کہ بیمار دل یعنی منافق یہود و نصاریٰ کی باہم دوستی کی تمام تر کوششیں کرتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے اختلاف کی وجہ سے آفت میں پھنس جانے کا خطرہ ہے بہت ممکن ہے ان سے دوستی کے بعد اللہ تعالیٰ فتح دیں یا اپنا کوئی حکم نازل فرمائیں اور یہ لوگ ان ارادوں پر پشیمان ہونے لگیں جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ابو برزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا ، یہود اپنے بعض فیصلے اس سے کراتے تھے ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے اس میں یہ آیتیں ( آیت الم تر سے ترفیقا ) تک نازل ہوئیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ یعنی منافقین کے دلوں میں جو کچھ ہے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں وہ ان کے ظاہر وباطن کا اسے علم ہے تو ان سے چشم پوشی کر ان کے باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں نفاق اور دوسروں سے شر و فساد وابستہ رہنے سے باز رہنے کی نصیحت کر اور دل میں اترنے والی باتیں ان سے کہ بلکہ ان کے لئے دعا بھی کر ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] منافقوں کا آپ کے پاس فیصلہ لانے سے گریز :۔ جو دعویٰ تو مسلمانوں کا سا کرتے ہیں مگر حقیقت میں منافق ہیں اور طاغوت کا مفہوم پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ فرد، عدالت، ادارہ یا نظام ہے جو اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا حکم لوگوں پر مسلط کرنا چاہتا ہو۔ منافقوں کا طریقہ یہ تھا کہ جس مقدمہ...  میں انہیں توقع ہوتی کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اسے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آتے اور جس مقدمہ میں یہ خطرہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا اسے آپ کے پاس لانے میں پس و پیش کرنے لگتے حتیٰ کہ انکار بھی کردیتے تھے۔ یہی حال آج بھی نام نہاد مسلمانوں کا ہے۔ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر، ورنہ وہ ہر اس قانون، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جہاں سے انہیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ ہوجانے کی توقع ہو اور یہ بات دراصل نفاق کی علامت ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیات میں مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، یہاں فرمایا کہ منافق ہمیشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتے ہیں اور کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے اور حکم پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی مشرک سردار یا یہودی یا...  نصرانی عدالت یا کسی کاہن سے فیصلہ کروایا جائے، حالانکہ اسلام ان سب کے انکار کا حکم دیتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل نہ کرنے والی ہر عدالت کو طاغوت قرار دیتا ہے۔ مومن کا کام اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ سننا اور ماننا ہے۔ [ دیکھیے النور : ٥١ ] اور منافقوں کا حال اس کے برعکس ہے۔ [ دیکھیے النور : ٤٨، لقمان : ٢١ ] افسوس کہ اس وقت اکثر مسلمان ملکوں کی عدالتوں میں قرآن وسنت کا نظام عدل نافذ ہی نہیں، بلکہ کفار کے بنائے ہوئے قانون نافذ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قرآن و سنت کا کوئی متبع حکمران کفار کے اس نظام کو بزور بازو نکال باہر نہیں کرتا اس وقت تک عدالتوں میں قرآن و سنت کی رسائی مشکل ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verses previous to these carried the command to revert back to the mandate given by Allah and the Messenger in all matters. In the present verses which follow, the act of reverting to laws contrary to the Shari` ah has been censured. Commentary The background of the revelation of these verses There is a special incident behind the revelation of these verses, the details of which identify a hypocr... ite by the name of Bishr. He got into a dispute with a Jew. The Jew said, |"Let us go to Muhammad and ask him to settle our dispute.& But, Bishr, the hypocrite, did not accept this proposal. Instead, he came up with a counter-proposal suggesting that they go to a Jew, Ka&b ibn Ashraf and let him give a decision. Ka&b ibn Ashraf was a tribal chief among the Jews and was a sworn enemy of the Holy Prophet and his Muslim followers. It was a strange coincidence that a Jew would leave his chief aside and elect to go by the judgment of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، while Bishr, who called himself a Muslim, would bypass him and elect to go by the judgment of the Jewish chief. But, there was a secret behind it. Both of them were certain that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will give a judgment which is bound to be true and just. It will be free from apprehensions about any tilt or favour or misunderstanding. Since the Jew was on the right in this dispute, so he had more confidence in the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as compared to his own chief, Ka&b ibn Ashraf. Bishr, the hypocrite was in the wrong, therefore, he knew that the Prophet&s judgment will be against him - even though he claimed to be a Muslim while his adversary was a Jew. However, after some mutual cross talk between them, both of them agreed upon the option of going to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and requesting him to give a decision in their dispute. So, the case went to him. He made relevant investigation in the case which proved that the Jew was in the right: Consequently, he gave a decision in his favour. But, on the other side, there was Bishr, a pretending Muslim, who lost his case before him. He was not pleased with this judgment, so he hit upon a new plan to persuade the Jew to somehow agree to go to Sayyidna ` Umar ibn al-Khattab (رض) and have him give a decision in their case. The Jew agreed. There was a secret here too. Bishr was under the impression that Sayyidna ` Umar is usually hard on disbelievers so he would, rather than decide in favour of the Jew, decide in his favour. Thus, they both reached Sayyidna ` Umar (رض) . The Jew told him everything about the incident and also narrated to him how the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had already given his decision in this case and that this man was not satisfied with it and had, therefore, brought his case before you.& Sayyidna ` Umar (رض) asked Bishr, |"Is this what really happened?|" He confessed that this is how it was. Thereupon, Sayyidna ` Umar (رض) said: |"All right; you wait here, I am coming.|" He went into the house and came out with a sword which he swung to finish the hypocrite off, saying: |"This is the decision for him who is dissatisfied with the decision of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) |" (This incident appears in Ruh al-Ma’ ani from Sayyidna &Abdullah ibn ` Abbas as narrated by Thalabi and Ibn Abi Hatim). Most commentators have also added that, following this incident, the heirs of the hypocrite thus killed filed a suit against Sayyidna ` Umar (رض) accusing him of having killed a Muslim without adequate legal authority as admitted by the Shari’ ah of Islam. To strengthen their case, they submitted interpretations of his kufr (disbelief) in words and deeds in order to prove his being a Muslim. In the present verse, Allah Almighty has unfolded the reality behind the case, confirming that the person killed was a hypocrite, and thus it was that Sayyidna ` Umar (رض) was absolved. Also reported are some other incidents of this nature where people had bypassed clear Islamic legal verdict to finally accept the decision of a soothsayer or astrologer. It is possible that the present verse was revealed about all such incidents. The explanation of verses The first verse (60) exposes the claim of those who say that they have believed in earlier scriptures, the Torah and the Evangel, and now believe in the Book (the Qur&an) revealed to the Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . That is, earlier in time, they were a part of the community of the people of the Book, then they entered the fold of Islam and became a part of the Muslim community. The verse warns that this claim of theirs is simply a verbal camouflage for their hypocrisy. Their hearts are stuffed with the same old disbelief which has come out in the open during this dispute when Bishr, bypassing the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم ، proposed that the Jewish chief, Ka&b ibn Ashraf be the judge in that dispute and, in addition to that, later when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، gave a clear and just decision, he found it unacceptable. The comment which follows immediately employs the word, |"Taghut|" which has been left un-translated. Lexically, “ Taghut” primarily means one who exceeds the limits.& In usage, the Satan is referred to as Taghut. In this verse, carrying the dispute to Ka&b ibn Ashraf has been equated with carrying it to the Satan. The reason could be that Ka&b ibn Ashraf was himself a satan personified, or it could be that bypassing a decision under the God-given law and preferring a decision contrary to it can only come from the teaching of the Satan. About anyone who follows this course, it is clear that he has virtually taken his case to the court of none else but the Satan. There-fore, right there in the end of this verse, there appears the warning that those who follow the. Satan, the Satan will mislead them to a remote wrong way.  Show more

خلاصہ تفسیر (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (زبان سے تو) دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ہم) اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی (یعنی قرآن اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی (یعنی توریت کیونکہ اس میں منافقین کا بیان ہے، اور اکثر مناف... قین یہود میں سے تھے، مطلب یہ ہے کہ زبان سے دعویٰ کرتے ہیں کہ جس طرح ہم توریت کو مانتے ہیں اسی طرح قرآن کو بھی مانتے ہیں، یعنی اسلام کے مدعی ہیں، پھر اس پر حالت یہ ہے کہ) اپنے مقدمے شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں (کیونکہ غیر شرع کی طرف مقدمہ لے جانے کے لئے شیطان سکھلاتا ہے، پس اس پر عمل کرنا ایسا ہے جیسے شیطان ہی کے پاس مقدمہ لے گئے) حالانکہ (اس سے دو امر مانع موجود ہیں ایک یہ کہ) ان کو (شریعت کی جانب سے) یہ حکم ہوا کہ اس (شیطان) کو نہ مانیں (یعنی اعتقاداً و عملاً اس کی مخالفت کریں) اور (دوسرا مانع یہ کہ) شیطان (ان کا ایسا دشمن امروں کے جن کا مقتضیٰ یہ ہے کہ شیطان کے کہنے پر عمل نہ کریں، پھر بھی اس کی موافقت کرتے ہیں) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور (آؤ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف (کہ آپ اس حکم کے موافق فیصلہ فرما دیں) تو آپ (اس وقت) منافقین کی یہ حالت دیکھیں گے کہ آپ (کے پاس آنے) سے پہلو تہی کرتے ہیں پھر کیسی جان کو بنتی ہے جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے ان کی اس حرکت کی بدولت جو (اس مصیبت سے) پہلے کرچکے تھے، (مراد اس حرکت سے شرع کو چھوڑ کر دوسری جگہ مقدمہ لے جانا ہے اور مصیبت سے مراد جیسے قتل یا خیانت و نفاق کا کھل جانا اور باز پرس ہونا، یعنی اس وقت سوچ پڑتی ہے کہ اس حرکت کی کیا تاویل کریں جس میں پھر سرخرو رہیں) پھر (تاویل سوچ کر) آپ کے پاس آتے ہیں، خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ (ہم جو دوسری جگہ چلے گئے تھے) ہمارا اور کچھ مقصود نہ تھا سو اس کے کہ (عاملہ کے دونوں فریق کی) کوئی بھلائی (کی صورت) نکل آوے اور (ان میں) باہم موافقت مصالحت) ہوجاوے (مطلب یہ کہ قانون تو شرع ہی کا حق ہے ہم دوسری جگہ شرع کو ناحق سمجھ کر نہیں گئے تھے، لیکن بات یہ ہے کہ قانونی فیصلہ میں تو صاحب حق کو حاکم رعایت کرنے کے لئے نہیں کہہ سکتا اور باہمی فیصلہ میں اکثر رعایت کرا دی جاتی ہے، یہ وجہ تھی ہمارے دوسری جگہ جانے کی اور قصہ قتل میں تاویل اس مقتول کے فعل کی ہوگی جس سے مقصود اپنی برات یا حضرت عمر پر دعوی قتل بھی ہوگا، اللہ تعالیٰ ان کی اس تاویل کی تکذیب فرماتے ہیں کہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جو چھ (نفاق و کفر) ان کے دلوں میں ہے (کہ اس کفر و نفاق و عدم رضا بحکم شرعی ہی کی وجہ سے یہ لوگ دوسری جگہ جاتے ہیں اور وقت معین پر اس کی سزا بھی پالیں گے) سو (مصلحت یہی ہے کہ) آپ (علم خداوندی و مواخذہ خداوندی پر اکتفا فرما کر) اسے تغافل کر جایا کیجئے (یعنی کچھ مواخذہ نہ فرمایئے) اور (ویسے اپنے منصب رسالت کے اقتضا سے) ان کو نصیحت فرماتے رہئے (کہ ان حرکتوں کو چھوڑ دو ) اور ان سے خاص ان کی ذات (کی اصلاح) کے متعلق کافی مضمون کہہ دیجئے (تاکہ ان پر حجت قائم اور تمام ہوجائے پھر نہ مانیں تو وہ جانیں) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی (جو کہ اطاعت رسل کے باب میں فرمایا ہے) ان کی اطاعت کی جائے (پس اول تو ان لوگوں کو شروع ہی سے اطاعت کرنا واجب تھی) اور اگر (خیر شامت نفس سے حماقت ہی ہوگئی تھی تو) جس وقت (یہ گناہ کر کے) اپنا نقصان کر بیٹھے تھے اس وقت (ندامت کے ساتھ) آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر (حاضر ہو کر) اللہ تعالیٰ سے (اپنے اس گناہ کی) معافی چاہتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے تو ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ کا قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے (یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے توبہ قبول فرما لیتے) معارف ومسائل ربط آیات :۔ پہلی آیت میں تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے احکام کی طرف رجوع کرنے کا حکم تھا، اگلی ان آیات سے خلاف شرع قوانین کی طرف رجوع کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ آیات کا شان نزول :۔ ان آیات کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ بشر نامی ایک منافق تھا، اس کا ایک یہودی کے ساتھ جھگڑا ہوگیا، یہودی نے کہا کہ چل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس، ان سے فیصلہ کرائیں، مگر بشر منافق نے اس کو قبول نہ کیا، بلکہ کعب بن اشرف یہودی کے پاس جانے اور اس سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی، کعب بن اشرف یہودی کا ایک سردار اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا، یہ عجیب بات تھی کہ یہودی تو اپنے سردار کو چھوڑ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ پسند کرے اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا بشر آپ کی بجائے یہودی سردار کا فیصلہ اختیار کرے، مگر راز اس میں یہ تھا کہ ان دونوں کو اس پر یقین تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق و انصاف کا فیصلہ کریں گے، اس میں کسی کی رو و رعایت یا غلط فہمی کا اندیشہ نہیں اور چونکہ اس جھگڑے میں یہودی حق پر تھا، اس لئے اس کو اپنے سردار کعب بن اشرف سے زیادہ اعتماد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھا اور بشر منافق غلطی اور ناحق پر تھا، اس لئے جانتا تھا کہ آپ کا فیصلہ میرے خلاف ہوگا، اگرچہ میں مسلمان کہلاتا ہوں اور یہ یہودی ہے۔ ان دونوں میں باہمی گفتگو کے بعد یہ انجام ہوا کہ دونوں اسی پر راضی ہوگئے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہو کر آپ ہی سے اپنے مقدمہ کا فیصلہ کرائیں، مقدمہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا، آپ نے معاملہ کی تحقیق فرمائی، تو حق یہودی کا ثابت ہوا، اسی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور بشر کو جو بظاہر مسلمان تھا ناکام کردیا، اس لئے وہ اس فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور ایک نئی راہ نکالی کہ کس طرح یہودی کو اس بات پر راضی کرلیا جائے کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے پاس فیصل کرانے چلیں، یہودی نے اس کو قبول کرلیا، راز اس میں یہ تھا کہ بشر نے یہ سمجھا ہوا تھا کہ حضرت عمر کفار کے معاملہ میں سخت ہیں، وہ یہودی کے حق میں فیصلہ دینے کے بجائے میرے حق میں فیصلہ دیں گے۔ بہرکیف یہ دونوں اب حضرت فاروق اعظم کے پاس پہنچے، یہودی نے حضرت فاروق اعظم کے سامنے پورا واقعہ بیان کردیا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما چکے ہیں مگر یہ شخص اس پر مطمئن نہیں اور آپ کے پاس مقدمہ لایا ہے۔ حضرت عمر نے بشر سے پوچھا کہ کیا یہی واقعہ ہے ؟ اس نے اقرار کیا حضرت فارق اعظم نے فرمایا ! اچھا ذرا ٹھہرو ! میں آتا ہوں، گھر میں تشریف لے گئے اور ایک تلوار لے کر آئے اور اس منافق کا کام تمام کردیا اور فرمایا :” جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اس کا یہی فیصلہ ہے۔ “ (یہ واقعہ روح المعانی میں بروایت ثعلبی و ابن ابی حاتم حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے۔ ) اور عامہ مفسرین نے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے بعد منافق مقتول کے وارثوں نے حضرت عمر کے خلاف یہ دعوی بھی دائر کردیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بغیر دلیل شرعی کے مار ڈالا ہے اور اس کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے اس کے کفر قولی و عملی کی تاویلیں پیش کیں، آیت متذکرہ میں اللہ تعالیٰ نے معاملہ کی اصل حقیقت اور اس شخص مقتول کا منافق ہونا ظاہر فرما کر حضرت عمر کو بری کردیا۔ اس سلسلہ میں اور بھی چند واقع منقول ہیں، جن میں کچھ لوگوں نے شرعی فیصلہ چھوڑ کر کسی کاہن یا نجومی کا فیصلہ قبول کرلیا تھا، ہوسکتا ہے کہ آیت متذکرہ ان سب کے متعلق نازل ہوئی ہو۔ اب آیات کی تفسیر دیکھئے، پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اس شخص کو دیکھو جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پچھلی کتابوں تورات اور انجیل پر بھی ایمان لایا تھا اور جو کتاب (قرآن) آپ پر نازل ہوئی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں، یعنی پہلے اہل کتاب میں داخل تھا، پھر مسلمانوں میں داخل ہوگیا، لیکن یہ مسلمانوں میں داخل ہونا محض زبانی ہے، دل میں وہی کفر بھرا ہوا ہے، جس کا ظہور جھگڑے کے وقت اس طرح ہوگیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر یہودی سردار کعب بن اشرف کی طرف رجوع کرنے کی تجویز پیش کی اور اس کے بعد جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک واضح اور حق فیصلہ دے دیاتو اس پر راضی نہ ہوا۔ لفظ طاغوث کے لغوی معنی سرکشی کرنے والے کے ہیں اور عرف میں شیطان کو طاغوت کہا جاتا ہے اس آیت میں کعب بن اشرف کی طرف مقدمہ لے جانے کو شیطان کی طرف لیجانا قرار دیا یا تو اس وجہ سے کہ کعب بن اشرف خود ایک شیطان تھا اور یا اس وجہ سے کہ شرعی فیصلہ کو چھوڑ کر خلاف شرع فیصلہ کی طرف رجوع کرنا شیطان ہی کی تعلیم ہو سکتی ہے، اس کا اتباع کرنے والا گویا شیطان ہی کے پاس اپنا مقدمہ لے گیا ہے، اسی لئے آخر آیت میں ہدایت فرما دی کہ جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا تو شیطان اس کو دور دراز کی گمراہی میں مبتلا کر دے گا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝ ٠ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝ ٦٠ الف ( ا) الألفات التي ... تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیں ا تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ حَكَمُ : المتخصص بذلک، فهو أبلغ . قال اللہ تعالی: أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام/ 114] ، وقال عزّ وجلّ : فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء/ 35] ، وإنما قال : حَكَماً ولم يقل : حاکما، تنبيها أنّ من شرط الحکمين أن يتولیا الحکم عليهم ولهم حسب ما يستصوبانه من غير مراجعة إليهم في تفصیل ذلك، ويقال الحکم للواحد والجمع، وتحاکمنا إلى الحاکم . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] ، وحَكَّمْتُ فلان اور حکم ( منصف ) ماہر حاکم کو کہاجاتا ہے اس لئے اس میں لفظ حاکم سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام/ 114]( کبو ) کیا میں خدا کے سوا اور منعف تلاش کردں ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء/ 35] تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کردو ۔ میں حاکما کی بجائے حکما کہنے سے اس امر پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ دو منصف مقرر کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں تفصیلات کی طرف مراجعت کئے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کریں خواہ وہ فیصلہ فریقین کی مرضی کے موافق یا ہو مخالف اور حنم کا لفظ واحد جمع دونوں پر بولاجاتا ہے ۔ ہم حاکم کے پاس فیصلہ لے گئے قرآن میں ہے ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ کے پاس لے جاکر فیصلہ کر آئیں ۔ حکمت فلان ۔ کسی کو منصف ان لینا ۔ قرآن میں سے : حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنایئں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے حکم بالباطل تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس نے باطل کو بطور حکم کے جاری کیا طَّاغُوتُ والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الواحد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله . الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو ان لوگوں کی اطلاع نہیں جو قرآن کریم اور توریت کی پیروی کے دعویدار ہو کر بھی اپنے فیصلے کعب بن اشرف کے پاس لے جانا چاہتے ہیں، حالانکہ کہ قرآن کریم میں ان کو اس سے کنارہ کشی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شان نزول : (آیت) ” الم ترالی الذین یزعمون “۔ (الخ) ا... بن ابی حاتم (رح) اور طبرانی (رح) نے سند صحیح کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ابوبرزہ اسلمی کاہن تھے، یہودیوں کے جھگڑوں میں ان کے درمیان فیصلہ کیا کرتے تھے ، مسلمانوں میں سے کچھ لوگ بھی ان کے پاس گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” الم تر الی الذین “۔ سے ” احسانا وتوفیقا “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔ اور ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) یا سعید (رح) کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جلاس بن صامت، معتب بن قشیر اور رافع بن زید اور بشر، یہ لوگ اسلام کے دعویدار تھے، ان کی قوم کے کچھ مسلمانوں نے ایک جھگڑے میں ان لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرانے کی دعوت دی، مگر ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں جو کاہن فیصلہ کیا کرتے تھے ان کی طرف مسلمانوں کو بلایا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ، اور ابن جریر (رح) نے شعبی (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق میں جھگڑا ہوا، یہودی نے کہا آؤ تمہارے نبی سے فیصلہ کراتے ہیں، کیوں کہ وہ فیصلہ کرنے میں رشوت نہیں لیتے مگر دونوں میں اس پر جھگڑا ہوا، آخر کار قبیلہ جہینہ کے ایک کاہن سے فیصلہ کرانے پر رضا مند ہوئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ) لیکن ان کا طرز عمل یہ ہے کہ : (یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ ) یہاں واضح طور پر طاغوت سے مراد وہ حاکم یا وہ ادارہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ...  علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتا۔ پچھلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہوگیا وہ طاغوت سے خارج ہوگیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو قبول نہیں کرتا وہ طاغوت ہے ‘ اس لیے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کر گیا۔ چناچہ غیر مسلم حاکم یا منصف جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا پابند نہیں وہ طاغوت ہے۔ (وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط) منافقین مدینہ کی عام روش یہ تھی جس مقدمہ میں انہیں اندیشہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا اسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لانے کے بجائے یہودی عالموں کے پاس لے جاتے۔ وہ جانتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائیں گے تو حق اور انصاف کی بات ہوگی۔ ایک یہودی اور ایک مسلمان جو منافق تھا ‘ ان کا آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی کہنے لگا کہ چلو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلتے ہیں۔ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ میں حق پر ہوں۔ لیکن یہ منافق کہنے لگا کہ کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں جو ایک یہودی عالم تھا۔ بہرحال وہ یہودی اس منافق کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا۔ وہاں سے باہر نکلے تو منافق نے کہا کہ چلو اب حضرت عمر (رض) کے پاس چلتے ہیں ‘ وہ جو فیصلہ کردیں وہ مجھے منظور ہوگا۔ وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے۔ منافق کو یہ امید تھی کہ حضرت عمر (رض) میرا زیادہ لحاظ کریں گے ‘ کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ جب یہودی نے یہ بتایا کہ اس مقدمے کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حق میں کرچکے ہیں تو حضرت عمر (رض) نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ‘ تلوار لی اور اس منافق کی گردن اڑا دی کہ جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر راضی نہیں ہے اور اس کے بعد مجھ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے اس کے حق میں میرا یہ فیصلہ ہے ! اس پر اس منافق کے خاندان والوں نے بڑا واویلا مچایا۔ وہ چیختے چلاتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمر (رض) پر قتل کا دعویٰ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتول حضرت عمر (رض) کے پاس یہودی کو لے کر اس وجہ سے گیا تھا کہ وہ اس معاملہ میں باہم مصالحت کرا دیں ‘ اس کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے سے انکار نہیں تھا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91. Taghut clearly signifies here a sovereign who judges things according to criteria other than the law of God. It also stands for a legal and judicial system which acknowledges neither the sovereignty of God nor the paramount authority of the Book of God. This verse categorically proclaims that to refer disputes to the judgement of a court of law which is essentially taghut contravenes the dicta... tes of a believer's faith. In fact, true faith in God and His Book necessarily requires that a man should refuse to recognize the legitimacy of such courts. According to the Qur'an, belief in God necessitates repudiation of the authority of taghut. To try to submit both to God and to taghut at the same time is hypocrisy.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :91 یہاں صریح طور پر ”طاغوت“ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الہٰی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو ، اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخرت سند مانتا ہو ۔ لہٰذا یہ آیت اس معنیٰ میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت”طاغ... وت“ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر ، دونوں لازم و ملزوم ہیں ، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: یہاں سے ان منافقوں کا ذکر ہورہا ہے جو اصل دل سے تو یہودی تھے مگر مسلمانوں کو دکھانے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، ان کا حال یہ تھا کہ جس معاملے میں ان کی توقع ہوتی کہ آنحضرتﷺ ان کے فائدے کا فیصلہ کریں گے ان کا مقدمہ تو آپ کے پاس لے جاتے ؛ لیکن جس مسئلے میں ان کو خیال ہوتا کہ آنحضرتﷺ کا...  فیصلہ ان کے خلاف ہوگا وہ مقدمہ آپ کے بجائے کسی یہودی سردار کے پاس لے جاتے، جسے اس آیت میں طاغوت کہا گیا ہے، منافقین کی طرف سے ایسے کئی واقعات پیش آئے تھے جو متعدد روایات میں منقول ہیں، طاغوت کے لفظی معنی ہیں نہایت سرکش ؛ لیکن یہ لفظ شیطان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ہر باطل کے لئے بھی، یہاں اس سے مراد وہ حاکم ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے بے نیاز ہو کر یا ان کے خلاف فیصلہ کرے، آیت نے واضح کردیا کہ اگر کوئی شخص زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی کرے ؛ لیکن اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کسی اور قانون کو ترجیح دے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(60 ۔ 63) ۔ اوپر اللہ و رسول کے حکم کے موافق عمل کرنے کی تاکیدتھی ان آیتوں میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس تاکید کے پابند نہیں ہیں ان آیتوں کی شان نزول میں سلف کا اختلاف ہے مگر حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے موافق جس شان نزول کو حافظ ابن کثیر (رح) نے صحیح ٹھہرا کر اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے...  اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک منافق اور یہودی میں کچھ جھگڑا تھا یہود کہتا تھا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشی میں ہونا چاہیے اور منافق کعب بن اشرف یہودیوں کے سردار کی پیشی کا اصرار کرتا تھا۔ آخر مقدمہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشی میں آیا۔ اور آپ نے یہودی کی طرف اس مقدمہ کا فیصلہ کردیا۔ منافق نے اس خیال سے کہ حضرت عمر (رض) شاید اس کو مسلمان سمجھ کر کچھ اس کی پاس داری کریں گے۔ اس یہودی کو اس پر مجبور کیا کہ مقدمہ از سر نو حضرت عمر (رض) کی پیشی میں لے جانا چاہیے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے حضرت عمر (رض) ان دنوں میں مدینہ کے قاضی تھے ١ اس لئے اس منافق کے اصرار پر مقدمہ حضرت عمر (رض) کی پیش میں گیا۔ اور حضرت عمر (رض) نے اس یہود سے جب یہ سنا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مقدمہ کا فیصلہ یہودی کی طرف کرچکے ہیں تو فورا ً اس منافق کو قتل کر ڈالا۔ اور اس کے قتل کے بعد یہ فرمایا جو شخص اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اس کا یہی فیصلہ ہے کہ اس کو قتل کر ڈالا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ٢۔ اور فرمایا کہ یہ منافق لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا ایمان پورا نہیں ہے کیونکہ اس آخری شریعت اور اس سے پہلے سب شریعتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہر رسول وقت کی فرمانبرداری اس وقت کے لوگوں پر لازم کی ہے اور رسول وقت کے حکم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی بات کے ماننے سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے سوا جس کسی کی تعظیم اللہ کی تعظیم کے برابر کی جائے اس کو طاغوت کہتے ہیں یہاں اس منافق نے کعب بن اشرف کو اللہ کے رسول سے اور اسے فیصلہ کو اللہ کے سرلو کے فیصلہ سے بہتر ٹھہرایا تھا۔ اس لئے کعب بن اشرف اور اس کے فیصلہ کو طاغوت فرمایا پھر فرمایا کہ اگرچہ سب شریعتوں میں رسول وقت کے حکم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی بات کو ماننے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن شیطان لوگوں کو راہ راست سے روک کر گمراہی میں ڈالتا ہے اس منافق نے کعب بن اشرف کی پیشی میں مقدمہ لے جانے کی ضد جو اس یہودی سے کی تھی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشی میں وہ مقدمہ کو لانا نہیں چاہتا تھا اس پر یہ فرمایا کہ ” جب ان سے کہئے آؤ اللہ کے حکم کی طرف جو اس نے اتارا اور رسول کی طرف “ تو یہ منافق لوگ اللہ کے رسول کے پاس آنے سے کتراتے ہیں۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طرح مینہ سب جگہ یکساں برستا ہے لیکن اچھی زمین کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور ناکارہ زمین کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اس طرح اس ہدایت کا حال ہے جو میں اللہ کی طرف سے لایا ہوں کہ علم الٰہی میں جو دل اچھے اور قابل ہدایت قرار پائے ہیں ان میں اس ہدایت کا اثر ہوتا ہے نہیں تو نہیں ١ جب حضرت عمر (رض) نے اس منافق کو قتل کر ڈالا تو اور منافق لوگ بات بنانے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے جن کو عمر (رض) نے قتل کر ڈالا وہ شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے ناراض نہیں تھا بلکہ وہ تو عمر (رض) کے پاس فقط اس لئے گیا تھا کہ شاید عمر (رض) کے دباؤ سے فریقین میں راضی نامہ ہوجائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب ان منافقوں پر ان کے نفاق کے سبب سے کوئی آفت آجاتی ہے تو یہ لوگ اپری دل سے ایسی ہی باتیں بناتے ہیں۔ مگر ان کے دل میں جو چور ہے اس کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے پھر اپنے رسول کو نصیحت فرمائی کہ جب تم کو ان لوگوں کے دل کا حال معلوم نہیں ہے تو تم اپنا ظاہر معاملہ ان لوگوں سے درگذرکا رکھو اور ہر وقت ان کو دلچسپ نصیحت کرتے رہو تاکہ کچھ لوگ ان میں کے راہ راست پر آجائیں۔ اس تفسیر میں یہ ذکر آچکا ہے کہ اس طرح کی درگذر کی آیتیں منسوخ نہیں ہیں اور اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بھی جتلادیا گیا ہے کہ مثل اس آیت کی شان نزول کے اختلاف کے جن آیتوں کی شان نزول میں سلف کا اختلاف ہے وہ اس سبب سے ہے کہ بعض سلف نے شان نزول کے اصل قصہ کو لیا ہے اور بعضوں نے ان قصوں کو لیا ہے۔ جن پر آیت کا مطلب صادق آتا ہے۔ غرض حقیقت میں یہ اختلاف کچھ شان نزول کا اختلاف نہیں ہے فقط طرز بیان کا اختلاف ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:60) یزعمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ زعم مصدر۔ باب نصر۔ وہ گمان کرتے ہیں وہ دعوی کرتے ہیں۔ یتحاکمون الی۔ مضارع جمع مذکر غائب (اصل میں یتحاکمون تھا۔ نون اعرابی ان ناصبہ کی وجہ سے ساقط ہوگیا۔ تحاکم۔ تفاعل مصدر۔ تحاکم الی الحاکم۔ باہمی جھگڑے کو کسی حاکم کے پاس فیصلہ کے لئے لے جانا۔ یریدون ۔۔ الطاغوت۔ ... یعنی دعویٰ تو یہ کرتے ہیں۔ کہ جو کلام آپ پر نازل ہوا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ادھر باہمی جھگڑے کے فیصلے کے لئے ان لوگوں کے پاس لے جائیں جو اللہ تعالیٰ سے سرکش ہیں۔ وقد امروا ۔۔ بہ۔ حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ انکار کریں۔ باز رہیں ایسے لوگوں سے (طاغوت سے) کیونکہ ان کو تو حکم یہ تھا کہ فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الی اللہ والرسول (آیۃ ماقبل)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اوپر کی آیتوں میں تمام مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اب یہاں فرمایا کہ منافق ہمیشہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتے ہیں اور کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے اور حکم پر راضی نہیں ہوتے (رازی) اس حد تک مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیات منا... فقین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بظاہر ہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب میں سے کسی منا فق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاہم اس کے تحت مختلف اسباب نزول مذکور ہیں (رازی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ معتب ن قشیر اور رافع بن زید میں جھگڑا ہوگیا مسلمانوں نے ان سے کہا چلو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کر اتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں جابلی کاہنوں کے پاس چلتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان) گو اس کے شان نزول خاص ہے مگر آیت میں ہر اس مسلمان کی مذمت ہے جو کتاب وسنت کو چھوڑ کر دوسرے باطل طریقے سے فیصلہ کروانے کی کوشش کرے اور اسی کا نام طاغوت ہے (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار و معارف آیات 60 تا 65 الم تر الی الذین۔۔۔ و یسلموا تسلیما اب ایسے لوگوں کی حالت ملاحظہ ہو جو اپنے دعوے اسلام میں تو نہ صرف قرآن حکیم پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں بلکہ اس سے پہلے جو کچھ بھی اللہ کریم کی طرف سے نازل ہوا تھا اس پر بھی یقین رکھتے ہیں مگر میدان عمل میں انہیں شیطان کی رائے پسند...  ہے حالانکہ قرآن حکیم ہو یا پہلی منزل کتابیں سب کا مقصد ہی شیطان کی غلامی سے روکنا ہے ورنہ تو گمراہی میں پڑنے کا نہ صرف سخت خطرہ ہے بلکہ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ جو انسان بھی اس کی مانے اسے وہاں تک گمراہ کرکے لے جائے جہاں تک ممکن ہو نزول آیات کا سبب اگرچہ خاص واقعہ ہے ذرا وہ بھی سن لیں کہ ایک یہودی جو مسلمان ہوچکا تھا مگر اندر سے مسلمان نہ تھا کسی دوسرے یہودی سے الجھ پڑا تو یہودی نے کہا تم مسلمان ہو اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کروا لیتے ہیں مگر وہ منافق مصر تھا کہ کعب بن اشرف یہودی سردار سے فیصلہ کرایا جائے چونکہ یہودی حق پر تھا اسے اعتبار تھا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دلائل سن کر حق پر فیصلہ دیں گے اور یہی یقین منافق کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے سے مانع تھا اسے کعب سے تو ناحق پر فیصلہ حاصل کرلینے کی کچھ امید تھی بالآخر دونوں خدمت نبوی میں پہنچے اپنی اپنی بات دلائل کے ک ساتھ پیش کی تو فیصلہ یہودی کے حق میں ہوگیا کہ وہ دلائل کے اعتبار سے سچائی پر تھا اب اس منافق کو ایک ترکیب سوجھی کہ حضرت عمر کو ثالث بنایا جائے غالبا سوچا ہوگا کہ آپ کفر کے لیے بہت سخت ہیں یہودی کو کافر سمجھ کر محروم کردیں گے کہہ سن کر یہودی کو راضی کرلیا اور دروازہ جا کھکھٹایا آپ باہر تشریف لائے ساری بات سنی ساتھ یہودی نے یہ بھی عرض کردیا کہ پہلے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سے مقدمہ کا فیصلہ حاصل کرچکے ہیں مگر باوجود مسلمان کہلانے کے اس کی تسلی نہیں ہو رہی آپ نے اس آدمی سے پوچھا اس کا نام بشر تھا اس نے بھی اقرار کرلیا تو فرمایا ذرا ٹھہرو میں ابھی آیا اور اندر تشریف لے گئے واپس آئے تو ہاتھ میں ننگی تلوار تھی ایک ہی وار سے منافق کا سر اڑا دیا اور فرمایا جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ منظور نہیں اس کے لیے عمر اس سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں دیکھتا۔ بڑا شور اٹھا منافقین نے حضرت عمر کے خلاف قتل کا دعوے کردیا کہ ایک مسلمان کو بلا جواز قتل کردیا ہے تو اللہ کریم نے یہ آیات نازل فرما کر فیصلہ کردیا کہ اسلام صرف دعوے کا نام نہیں بلکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرخلوص اطاعت کا نام ہے اور جو لوگ حیلوں بہانوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں سے بچنا چاہتے ہیں ان کے نفاق کا ثبوت یہی عمل کافی ہے اب ہم اپنے معاشرے پہ نگاہ ڈالیں تو کتنے فیصد مسلمان کھرے ثابت ہوں گے معاشرہ تو ایک وسیع تر لفظ ہے۔ اپنی ذات سب سے مقدم ہونی چاہیے تو ایک روز حساب کرکے دیکھا جاسکتا ہے کہ بیدار ہونے سے لے کر واپس بستر پر داز ہونے تک جو کچھ میں نے کیا اس کا کتنا حصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے مزین ہے اور کتنے اعمال و اقوال شیطان کی رائے پر اور اس کی غلامی میں سرزد ہوئے ہیں تو یقیناً ہمیں اپنی تمام پریشانیوں کا اصل سبب معلوم ہوجائے گا یہاں یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ ہم جواز پیدا کرنے کے لیے کہتے یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا ارشاد حق ہے مگر ہماری کچھ مجبوریاں ہیں کچھ مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے دوسری راہ اختیار کرنا پڑ رہی ہے یہی بات بشر کے ورثا نے بھی کہی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا حق تھا مگر ہمارا خیال تھا کہ شاید کوئی مصلحت کی صورت پیدا ہوجائے یا باہمی رضا مندی سے کوئی فیصلہ کرلیں اور اس پر انہوں نے قسمیں کھائیں کہ ان اردنا الا احسانا و توفیقا۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ بھلائی اور دوستی پیدا ہو اور ناراضگی وغیرہ نہ بنے ورنہ ہم تو حضور کے غلام ہیں اللہ کریم نے یہ عذر رد فرما دیا اور فرمایا کہ میں تمہارے دلوں کے بھید بھی جانتا ہوں اور حقیقت حال سے بخوبی واقف ہوں نیز اطاعت کی کونسی قسم ہے کہ جناب آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر ہماری مصلحت ذرا اس کو ماننے سے مانع ہے آپ محسوس نہ فرمائیے گا ہم تو آپ کے خادم ہیں اللہ کریم فرماتے ہیں یہ سب جھوٹ کہتے ہیں یہ تب کی بات تھی جب منافق بھی بظاہر تو مسلمان نظر آتے تھے اور باقاعدگی سے ارکانِ اسلام ادا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو شک نہ گذرے مگر عمل کی دنیا میں جہاں کوئی ظاہری فائدہ نظر آتا لپکتے اور جہاں بظاہر تکلیف یا نقصان نظر آتا تو بہانے تلاش کرتے تھے مگر اب تو حال یہ ہے کہ شکل نصاری کی ہے لباس ان کا ہے حتی کہ ہمارے شعرا اور دانشور ٹیلی ویثن پہ کسی کتاب کا تعارف کرانے تشریف لاتے ہیں یا کسی شعری مجموعے کی بات کرنا ہوتی ہے تو پروگرام اردو میں کتاب اردو کی غزل ہو یا نظم اردو کی بات نصف اردو نصف انگریزی میں کرتے ہیں اور خود سرتاپا بوٹ جراب سوٹ اور نکٹائی تک کے رنگ ملا کر پہنتے ہیں چہرہ خزاں کے درختوں کی طرح ہر نقش سے عاری خود ان کی حیران آنکھیں یہ بتاتی ہیں کہ بیچارے دل سے تو خوش نہیں ہیں بس کچھ مصلحتیں ہی ایسی ہیں کمبخت کہ دم نہیں لینے دیتیں۔ اللہ کریم فرماتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے جس طرف یہ جانا چاہتے ہیں وہ ان کے دل کی آواز ہے اور اسلام کا دعوے کسی مصلحت کا مرہون منت نہیں مگر شان کریمی دیکھئے فرمایا میرے حبیب ان سے بھی درگذر فرمائیے یعنی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کے بارے اطلاع تو کردی گئی ان کی خصوصیات اور طرز عمل بھی بتا دیا گیا پھر ناموں کا اظہار ہر کسی کے سامنے نہ اللہ نے کیا اور نہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلکہ اجمالی طور پر فرمایا نہیں جانے دیجئے یہ بھی در گذر ہی کی ادا تھی پھر محروم کرم نہ فرمایا بلکہ ارشاد ہو ا کہ انہیں نصیحت فرماتے رہیے اور جو بات ان کے حق میں بہترین ہو اس کی تلقین فرماتے رہیے ابر کرم تو برسا کرے اگر کوئی دل ہی الٹا رکھتا ہے تو اپنی محرومی پہ نقصان بھی اٹھائے گا اور خود جواب دہ بھی ہوگا ہاں ایک بات بڑے واضح طریقے سے ہوجائے کہ رسول بھیجا ہی اس لیے جاتا ہے کہ بحکم الہی اس کی اطاعت کی جائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان تو یہ ہے کہ آپ پر رسالت و نبوت تمام ہوئی پہلے انبیاء کے احکام اگر مصلحت اندیشی کا شکار ہوتے تھے تو نئے نبی اور رسول کی آمد پر اصلاح ہوجاتی تھی اب تو وہ بات بھی نہ رہی اب کسی حیلے حوالے یا مصلحت کا بہانہ نہ چلے گا بلکہ جو بھی شخص جس قدر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی سے باہر ہے وہ اپنے اندر اتنا ہی کفر اور شیطنت رکھتا ہے ہاں ایک بات ہے کہ کوئی کتنے مظالم بھی کرچکا ہو گمراہی میں کتنا دور جا چکا ہو آپ کے حضور حاضر ہوجائے اور اللہ کریم سے بخشش طلب کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کے لیے بخشش کی دعا کردیجئے پھر میری رحمت کا تماشا دیکھیں کہ میں کتنا بڑا معاف کرنے والا اور کس قدر رحم کرنے والا ہوں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ یہاں اس بات پر علماء حق کا اتفاق ہے کہ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں تشریف رکھتے تھے جو بھی آپ کے حضور پہنچا آپ نے دعا فرما دی تو اس کی نجات یقینی ہوگئی جب سے آپ نے دنیا سے پردہ فرمای اتب سے روضہ اطہر پر حاضر ہونا بھی یہی شرف رکھتا ہے جو وہاں پہنچے اللہ سے بخشش اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا چاہے تو نجات یقینی ہے مگر جو وہاں نہیں پہنچ سکتے اور ایسے لوگ تعداد مٰں زیادہ ہیں زیادہ ہی رہیں گے تو کیا یہ محروم رہینگے نہیں فقیر کے خیال میں تو کوئی کہیں ہو آپ کی غلامی کا اقرار کرلے اور اپنے عمل کی اصلاح کرلے کبھی محروم نہ رہیگا مگر شرط یہ ہے کہ اپنا ظاہر و باطن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع کرلے اور عملی زندگی میں غلامی اختیار کرلے کبھی محروم نہ رہیگا مگر شرط یہ ہے کہ اپنا ظاہر و باطن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع کرلے اور عملی زندگی میں غلامی اختیار کرلے یہ مسئلہ تو حل ہوا ان حضرات کے بارے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی جو روضہ اطہر پر بھی شکل و صورت انگریز ہی کی بنا کر جاتے ہیں صورت نصاری کی تہذیب ہندوؤں کی اور معاشیات یہودیوں کی ہے مگر صاحب بہادر خود مسلمان ہیں اسلام پر عمل کرنے میں یہی مصلحتیں مانع ہیں کہ شکل بدلیں تو لوگ جاہل کہیں گے رسومات چھوڑیں تو خاندان والے ناراض ہوں گے معاشی معاملات میں اسلام پر عمل کریں تو سود اور اوپر کی آمدنی چھوٹ جائے گی ویسے ہم دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام ہی مذہب حقہ ہے اور ہمارے ملک کا قانون بھی اسلامی ہونا چاہئے اللہ کرے ہم سب کو اللہ کی بخشش نصیب ہوجائے کہ اس اگلی آیت میں تو فیصلہ بڑا ہی سخت اور کسی لچک کے بغیر کردیا گیا ہے یہاں چند جملے لباس کے بارے ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ شاید میرے الفاظ کچھ زیادہ ہی سختی کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ جو لباس کسی کافر قوم کا شعار یا اس کی پہچان بن جائے وہ مسلمان کے لیے جائز نہیں رہتا امام ابن تیمیہ نے جہاں اس کی خرابیاں اور جو ہات گنوائی ہیں وہاں ایک بہت بڑی خرابی یہ بھی شمار کی ہے کہ اپ جس قوم کا لباس اپنا لیں گے اس کی بہت سی برائیاں آپ کی نظر میں ہلکی لگنے لگیں گی اور حدیث شریف میں تو اس پر یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرے گا یوم حشر اسی قوم کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا اور اب اگلی آیہ کریمہ کا مفہوم ملاحظہ ہو کہ تمہارے پروردگار کی قسم یعنی اس ہستی کی قسم جس نے تمہیں یہ شان یہ مرتبہ اور یہ عظمت بخشی ہے جب تک لوگ آپ ہی کو اپنا منصف نہیں بنا لیتے نہ صرف یہ کہ آپ کو منصف مان لیں بلکہ جو فیصلہ صادر فرماتے ہیں اسے صمیم قلب سے قبول نہیں کرلیتے کبھی بھی ایماندار نہیں ہوسکتے ایک تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ ہے کہ آپ حاکم بھی ہیں مگر بعض حکومتوں کو ہم دل سے قبول نہیں کرتے اگرچہ قانون شکنی بھی نہیں کرتے مگر یہاں ایک ایسی حکومت کا اعلان ہے جسے دلی گہرائیوں سے قبول کرنا ہی شرط ایمان ہے اور جن کے فیصلوں پر نہ صرف عمل کرنا ضروری ہے بلکہ ان فیصلوں کو تہہ دل سے قبول کرنا بھی ضروری ہے یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے عقائد و نظریات ہوں یا اعمال و کردار جو فیصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا وہی سب مسلمانوں کے لیے آخری فیصلہ ہے بلکہ جن حالتوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخصت دی ہے مثلا وضو کی جگہ تیمم کیا جاسکتا ہے یا کھڑا ہونے کے بجائے بیٹھ کر یا اشارے سے نماز ادا ہوسکتی ہے وہاں ان پر عمل نہ کرنا اور خواہ مخواہ وضو وغیرہ پر اصرار بھی ایمان کی کمزوری کی دلیل ثابت ہوگا یعنی عزیمت و رخصت دونوں حالتوں میں اطاعت ہی بہتر طریقہ ہے نیز پوری امت کے لیے حاکمیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہی مسلمہ ہے باقی حضرات خواہ صحابہ ہوں یا ائمہ کرام پیران عظام یا علماء حضرات یہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم تو پہنچا سکتے ہیں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی کرنے مجاز نہیں یہاں اس حدیث شریف کی طرف اشارہ بےجا نہ ہوگا جس میں آپ نے اپنی سنت اور اپنے خلفا کی سنت پر عمل کا حکم ارشاد فرمایا ہے تو اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ حضرات صحابہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے خلاف یا علاوہ بھی کوئی حکم دیں گے بلکہ اس میں ان کے کمال فنا فی الرسول کی شہادت ہے کہ وہ جو بھی فرمائیں گے بارگاہ رسالت سے اخذ کرکے فرمائیں گے ان کی ذاتی بات نہ ہوگی اگر آج ہم ذاتی رائے اور اپنی ذات کی پسند و ناپسند سے بالا تر ہو کر پھر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی غلامی کا عہد کرلیں تو فرقہ بندی اور گروہ بندی کے فتنے کا سد باب ہرگز مشکل نہیں۔ کہ یہاں اس طرح قبول کرنے کا حکم ہے جس طرح قبول کرنے کا حق ادا ہوجائے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 60-64 لغات القرآن : یزعمون، دعوی کرتے ہیں، گھمنڈ رکھتے ہیں۔ یتحاکموا، وہ فیصلہ کے لئے جائیں۔ امروا، حکم دیا گیا۔ ضلال بعیدا، گم راہی میں دور۔ تعالوا، آؤ۔ رایت، تو نے دیکھا (تو دیکھے گا) ۔ صدود، اٹک کر، روک رک کر۔ یحلفون، وہ قسم کھاتے ہیں۔ توفیق، باہمی میل ملاپ۔ لیطاع، تاکہ اطاعت کی جائے۔ لو... جدوا، البتہ وہ پاتے۔ تشریح : اس حکم کے بعد کہ حکومت کے عہدے عیش و عشرت کے لئے نہیں بلکہ امانت داری کے لئے ہیں اور ان پر وہی مقرر کئے جائیں گے جو انہیں اللہ کی امانت سمجھیں گے۔ فرمایا گیا کہ اس حکم کے بعد جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے لگو تو بےلاگ اور بےلوث کرو۔ پھر اس حکم کے بعد اللہ کا حکم مانو، رسول کا حکم مانو اور اپنے حکام و امراء کا حکم مانو اور اگر شدید اختلاف ہوجائے تو پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں دوبارہ غوروفکر کرو۔ اتنے احکام کے بعد اگر کوئی بظاہر مسلمان اسلامی عدالت میں اپنا مقدمہ نہ لے جائے خصوصاً جب کہ خود حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہ نفس نفیس عدالت کی کرسی پر تشریف فرما ہوں، اور اس کے باوجود کسی کافر کے پاس فیصلے کے لئے اپنا مقدمہ لے جائے تو وہ منافق نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا ایک واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پیش آیا ہے جبکہ بشرنامی ایک بظاہر مسلمان اپنا مقدمہ آپ کی عدالت میں لے جانے کے بجائے ایک یہودی سردار کے پاس لے گیا۔ چونکہ وہ قصور وار تھا اسے آپ کی عدالت سے سزا پانے اور ذلیل ہوجانے کا خطرہ تھا۔ مقدمہ بہر حال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں پہنچا۔ وہاں آپ نے بشر کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ بشر آہ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوا اور فیصلے کے لئے حضرت عمر (رض) کے پہنچا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر کہ بشر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے مطمئن نہیں ہوا۔ اس کی گردن اڈا دی کہ یہ منافق ہے۔ آیت مذکورہ تصدیق کرتی ہے کہ ایسے لوگ جو اللہ کے رسول کا فیصلہ نہیں مانتے وہ کافر ہوتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک واقعہ تھا لیکن ایسے متعدد واقعات ہوئے ہیں ۔ وہ لوگ جو بظاہر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم ایمان لائے ہیں اپنا مقدمہ حضور کی عدالت میں لانے سے کتراتے تھے چونکہ وہ انصاف میں لگی لپٹی ناجائز رعایت چاہتے تھے ۔ پھر جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو اپنے ایمان کی بہت ساری قسمیں کھاتے اور طرح طرح کے بہانے پیش کرتے اور ہمیشہ اپنے آپ کو نیک نیت اور خیرخواہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن اس آیت نے فیصلہ کردیا کہ ہر وہ بظاہر مسلمان جو اپنا مقدمہ آپ کی عدالت میں نہیں لاتا ہے ، ہزار قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان کو پیش کرتا ہے، وہ منافق ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ آپ کے فیصلہ کو تسلیم کرتا اور ذرا بھی تنگی محسوس نہ کرتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رحمت خاص سے یہ بھی فرما دیا ہے کہ اگر یہ منافقین ایسی غلطی کرنے کے بعد جناب رسالت ماب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ۔ اپنے گناہ پر سجے دل سے توبہ کرتے اور خود حضور بھی اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتے تو اللہ تعالیٰ ضرور بخش دیتا اور انہیں پھر ایمان کی زندگی کا موقع دیتا۔ اس آیت نے غیر اسلامی عدالت کو طاغوت قرار دیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو غیر اسلامی عدالتوں میں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دے کر من گھڑت ایمان ‘ نمائشی اطاعت کی تردید اور شیطان کی اتباع سے منع کیا گیا ہے۔ اہل کتاب کے بعد خطاب کا رخ منافقین کی طرف کردیا گیا۔ منافقین کا دعویٰ اور خیال تھا کہ وہ قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ان کا حال یہ ہے ... کہ منع کرنے کے باوجود چاہتے ہیں کہ ان کے فیصلے طاغوت کے ذریعے ہوں۔ یہ اس لیے کہ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں دھکیل دے تاکہ یہ ہدایت کی طرف نہ پلٹ سکیں۔ حافظ ابن حجر (رض) نے اس آیت کے تحت ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے منافقوں کی ذہنیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک منافق اور یہودی کے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوا۔ یہودی نے مسلمان سے کہا کہ اس کا فیصلہ آپ کے نبی سے کروانا چاہیے لیکن منافق نے کہا کہ نبی کی بجائے یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ لینا زیادہ بہتر ہے۔ منافق یہودی کے اصرار پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جانے کے لیے اس لیے مجبور ہوا کہ کہیں میری منافقت کا پتہ نہ چل جائے۔ جب ان دونوں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ پیش کیا تو آپ نے یہودی کا موقف صحیح سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ صادر فرمادیا۔ لیکن منافق نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہودی کو کہا کہ چلوعمر سے فیصلہ لیتے ہیں۔ کیونکہ منافق سمجھتا تھا کہ حضرت عمر (رض) یہودیوں کے سخت خلاف ہیں۔ اس لیے وہ تعصب کی بنیاد پر یہودی کے خلاف فیصلہ کریں گے۔ معاملہ جب حضرت عمر (رض) کے سامنے پیش ہوا تو یہودی نے کہا کہ اس پر آپ کے نبی پہلے فیصلہ دے چکے ہیں۔ تب حضرت عمر (رض) نے تلوار لا کر منافق کا سر قلم کرتے ہوئے فرمایا : (ھٰذَا قَضَآءِیْ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَآءِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ) [ فتح الباری : کتاب المساقاۃ ] ” جو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو نہیں مانتا اس کے بارے میں میرا یہی فیصلہ ہے۔ “ وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَلَا مُوْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَمْراً اَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُمِنْ اَمْرِ ہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْ لَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَا لاً بَعِیْداً ۔ [ الاحزاب : ٣٦] ” کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔ “ مسائل ١۔ قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ کرنا اور کروانا شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ شیطان آدمی کو دور کی گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ ٣۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات سے انحراف کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطانی ہتھکنڈے : ١۔ انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کی اللہ تعالیٰ کے سامنے قسمیں۔ (صٓ: ٨٢) ٢۔ شیطان کی خفیہ چالیں۔ (الاعراف : ٢٧) ٣۔ شیطان گناہوں کو مزین و خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٤۔ شیطان خیالات کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔ (النّاس : ٥) ٥۔ شیطان انسان سے کفر کروا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (الحشر : ١٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو نور ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٧۔ کفار کے دوست طاغوت ہوتے ہیں جو انہیں ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔ (البقرۃ : ٢٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٦٠ تا ٦٥۔ بعض لوگوں کی یہ تصویر جو ان آیات میں کھینچی گئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات ہجرت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی تھیں ۔ اس دور میں جس میں نفاق کا بہت زور تھا اور یہودی منافقین کے ساھت ملک کر ایک زور آور قوت تھے۔ یہ لوگ جو یہ ارادہ رکھتے تھے کہ قانونی فیصلے طاغوت کے مطا... بق ہوں ‘ یہ لوگ منافقین تھے جیسا کہ آیات کے اس مجموعے کی دوسری آیت میں اس کی تصریح بھی کردی گئی ہے ۔ ان سے مراد یہودی بھی ہو سکتے ہیں اس لئے کہ جب ان کو یہ دعوت دی جاتی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرانا تسلیم کریں تو وہ انکار کردیتے تھے اور اس بات کی خواہش رکھتے تھے کہ اس قانون کے مطابق فیصلے کرائیں جو دور جاہلیت میں رائج تھا ۔ (اس لئے کہ یہودیوں کے آپس کے فیصلے تورات کے مطابق ہوتے تھے ۔ یہاں کتاب سے تورات مراد ہوگا اور بعض اوقات یہودیوں کے فیصلے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتے جیسا کہ بعض فیصلوں سے معلوم ہوتا ہے) لیکن یہاں صرف پہلی صورت ہی مراد ہے یعنی کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے کیونکہ آیت ۔ ” یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک (٤ : ٦٠) (جن کا زعم یہ ہے کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی ہے) لہذا یہاں مراد منافقین ہی ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہودیوں نے کبھی اپنے اس زعم کا اظہار نہیں کیا کہ وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردہ کلام کو مانتے ہیں ۔ یہ اظہار منافقین ہی کرتے تھے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ سے پہلے نازل ہوئے والی تمام کتابوں پر ایمان لائے ہیں ۔ یعنی ایسا ایمان جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہم رسل پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور یہ بات صرف ہجرت کے ابتدائی ایام ہی میں ہو سکتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ بنی قریظہ اور خیبر میں یہودیوں کی قوت کو توڑ دیا جائے اور قبل اس کے کہ یہودیوں کی قوت توڑنے سے خود منافقین کی قوت بھی ٹوٹ جائے ۔ بہرحال ان آیات میں ہمیں شرائط ایمان کی ایک قطعی ‘ مکمل اور جامع مانع شرط اور اسلام کی مکمل تعریف مل جاتی ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ شہادت مل جاتی ہے کہ جو لوگ طاغوت کے مطابق فیصلہ کرنے کا ارادہ بھی کریں ‘ وہ مومن نہیں ہیں ‘ اس لئے کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں ۔ (آیت) ” (وقد امروا ان یکفروا بہ) اس کے علاوہ اللہ کی جانب سے اس مجموعہ آیات میں ہمیں ایک خلفیہ بیان ملتا ہے اور ذات بار خود اپنی ذات کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ اس وقت تک ایمان میں داخل نہیں ہو سکتے اور اس وقت تک مومن شمار نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مقدمات کے اندر حکم نہ بنائیں اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اطاعت نہ کریں آپ کے فیصلے کو نافذ نہ کریں اور یہ اطاعت کامل تسلیم ورضا کے ساتھ نہ ہو اور دل کی خوشی کے ساتھ نہ ہو یعنی ایسی حالت میں تسلیم کرنا کہ اس میں عجز واضطرار نہ ہو بلکہ مکمل اطمینان ورضا ہو۔ (آیت) ” الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یرویدن ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطن ان یظلھم ضللا بعیدا “۔ (٤ : ٦٠) ” اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ‘ مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں ۔ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ شیطان تمہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) کیا آپ نے ایسی عجیب و غریب قوم کے لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا زعم یہ ہے کہ وہ مومن ہیں اور پھر وہ آن واحد میں اپنے اس زعم کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ یہ لوگ (آیت) ” یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک (٤ : ٦٠) (یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان لائے ہیں جو تیری طرف نازل ہوئی ہے اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔ اس دعوی ایمان کے بعد وہ اپنے فیصلے اس کتاب کے مطابق نہیں کراتے جو آپ پر نازل ہوئی ہے ‘ نہ وہ اس کتاب کے مطابق فیصلے کراتے ہیں جو تم سے پہلے نازل ہوئی اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی اور چیز کے مطابق فیصلے کرائیں ‘ کسی اور نظام کے مطابق فیصلے کرائیں ۔ کسی اور حکم کے مطابق فیصلے کرائیں ۔ بلکہ وہ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ طاغوت کے مطابق فیصلے کرائیں اور طاغوت وہ ہے جو اس کتاب سے ماخوذ نہ ہو جو آپ کی طرف نازل ہوئی یا اس کتاب سے ماخوذ نہ ہو جو آپ سے پہلے نازل ہوئی اور اس کا ضابطہ اور معیار تم پر نازل کردہ کتاب یا کتب سابقہ سے اخذ نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ طاغوت ‘ طاغوت ہے اور طاغوت اس لئے ہے کہ وہ اللہ کی خاصہ حاکمیت اور تشریع کا دعوی کرتا ہے اور وہ طاغوت اس لئے ہے کہ وہ کسی مستقل میعار پر قائم نہیں ہے ۔ یہ لوگ محض جہالت کی وجہ سے یہ حرکت نہیں کرتے نہ کسی شبہ کی بنا پر کرتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں حالانکہ اس طاغوت کے پاس اپنے فیصلے لے جانا حرام ہے ۔ (آیت) ” وقد امروا ان یکفروا بہ “۔ (٤ : ٦٠) ان کو حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ وہ اس کا انکار کردیں ۔ یہ لوگ جہالت یا شبہ کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے ۔ بلکہ یہ لوگ قصدا ایسا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گمان درست نہیں ہے ‘ یہ زعم درست نہیں ہے کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان لائے ہیں اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں پر بھی ایمان لائے ہیں یہ تو شیطان ہے جو ان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح کہ وہ اس سے باز نہ آسکیں ۔ (آیت) ” ویرید الشیطن ان یضلھم ضللا بعیدا “۔ (٤ : ٦٠) (اور شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) یہ وہ خفیہ سبب ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ طاغوت کے مطابق فیصلہ کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہی وہ داعیہ ہے جو ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایمان کی حدود اور ایمان کی شرائط سے نکل جائیں اور ارادہ کرلیں کہ وہ طاغوت کے مطابق فیصلے کرائیں گے ۔ یہی وہ سبب ہے جس کا اللہ تعالیٰ انکشاف فرماتے ہیں تاکہ وہ اپنے اس ارادے سے باز آجائیں ۔ اور جماعت مسلمہ کو بھی بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر کون ہے ؟ اور اس کا اصل محرک کیا ہے ؟ اب آگے کے مضمون میں وہ حالات بتائے جاتے ہیں جب ایسے لوگوں کو اس طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ اس قانون کی طرف جو اللہ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نازل کیا ہے یا اس قانون کی طرف جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نازل ہوا ہے ‘ تو یہ لوگ جو زعم ایمان رکھتے ہیں ‘ کہتے ہیں ۔ (آیت) ” واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ والی الرسول رایت المنفقین یصدون عنک صدودا “۔ (٤ : ٦١) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔ “ سبحان اللہ ‘ نفاق خود اپنے آپ کو آشکارا کر رہا ہے ۔ وہ اس بات پر تلا ہوا ہے کہ فطری سوچ کی واضح ترین باتوں کا بھی انکار کر دے ۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ نفاق کی صورت حال نہ ہوتی ۔ ایمان کا فطری اور واضح تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان اس قانون کے مطابق اپنے فیصلے کرے جس پر اس کا ایمان ہے اور اپنے فیصلے اس عدالت میں لے جائے جس پر وہ ایمان لایا ہو۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لایا ہے اور جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر بھی ایمان لایا ہے ‘ رسول پر ایمان لایا ہے اور جو کچھ اس پر نازل ہوا ہے اس پر بھی ایمان لایا ہے ‘ پھر ایسے شخص کو اگر بلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے اس حکم اور قانون کے مطابق کرائے جس پر وہ ایمان لایا ہے تو اس دعوت کا بدیہی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اس کو تسلیم کرے اور یہی تقاضائے فطرت ہے ۔ لیکن اگر وہ انکار کرتا ہے اور اس راہ پر آنے سے لوگوں کو روکتا ہے تو وہ بالکل ایک واضح فطری اور بدیہی امر سے انکار کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ منافق ہے اور اس نے جو دعوائے ایمان کیا ہے ‘ وہ جھوٹا ہے ۔ یہی وہ فطری اور بدیہی صورت حال ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ چناچہ یہ آیت انہی لوگوں کے بارے میں ہے جو دعوائے ایمان کرتے ہیں اور پھر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ ان کو کوئی بلائے بھی تو اس طرح فیصلے کرانے سے کتراتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے طرز عمل سے ایک اور منافقانہ چال کو ظاہر کیا جاتا ہے ‘ کہ جب ایسے لوگ کسی مشکل میں پڑتے ہیں یا ان کی غلط پالیسی کی وجہ سے کوئی حادثہ ہوجاتا ہے (اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی حاکمیت کی طرف نہیں آتے یا اس وجہ سے کہ وہ طاغوت کے مطابق کوئی فیصلہ کرانا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی پوزیشن خراب ہوجاتی ہے) تو پھر یہ لوگ اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے عذر ہائے لنگ سے کام لیتے ہیں ۔ (آیت) ” فکیف اذا اصابتھم مصیبتۃ بما قدمت ایدیھم ثم جاء وک یحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا وتوفیقا “۔ (٤ : ٦٢) ” پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی مصیبت ان پر آپڑتی ہے ؟ اس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہوجائے ۔ یہ لوگ مصیبت میں یوں پڑجاتے تھے کہ بہت سے لوگوں کے مجمع میں انکا راز کھل جاتا تھا ۔ اور اسلامی معاشرہ میں ان کا مقاطعہ ہوجاتا تھا ‘ یا اسلامی معاشرے میں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ اس طرح یہ لوگ بڑی مشکل میں پھنس جاتے تھے اس لئے کہ اسلامی معاشرہ ایسے لوگوں کو دیکھ ہی نہ سکتا تھا جو دعوی تو یہ کرتے ہوں کہ وہ اللہ اور اس کی کتاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس پر نازل شدہ کلام پر ایمان لائے ہیں اور پھر وہ اللہ کے قانون کے سوا کسی اور قانون پر فیصلے کراتے ہوں ۔ ایسے لوگوں کو ان معاشروں میں قبولیت حاصل ہوتی ہے جو نہ مومن ہوتے ہیں اور نہ مسلم ۔ اور جو اس قسم کے لوگوں کی طرح نام نہاد مسلمان ہوتے ہیں اور ان کا اسلام اور ایمان صرف دعوے اور نام تک محدود ہوتا ہے ۔ بعض اوقات وہ مصیبت میں یوں پڑتے ہیں کہ وہ طاغوتی عدالت میں جاتے ہیں اور ان پر ظلم ہوجاتا ہے اس لئے کہ وہاں اللہ کے قانون کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلے کردیئے جاتے ہیں ۔ اب انہیں شرمندگی ہوتی ہے اور افسوس کے ساتھ لوٹتے ہیں کہ کیوں وہ طاغوت کی عدالت میں گئے اور ان پر ظلم ہوا ۔ اگر وہ اپنا مقدمہ اسلامی عدالت میں لاتے تو انصاف ہوتا ۔ بعض اوقات ان پر یہ مصیبت اللہ کی جانب سے بطور ابتلاء آتی ہے تاکہ وہ غور وفکر کرکے ہدایت قبول کرلیں ۔ بہرحال جو صورت بھی ہو ‘ قرآن کریم استفہام انکاری کی صورت میں سوال کرتا ہے کہ اس وقت ان کا حال کیا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پھر لوٹ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں۔ (آیت) ” یحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا وتوفیقا “۔ (٤ : ٦٢) ” خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہوجائے ۔ “ یہ نہایت ہی شرمناک صورت حال ہے ۔ وہ لوٹتے ہیں اور ان کو شعور ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت ہی برا راستہ اختیار کیا ۔ ان کی حالت شرمندگی سے ایسی ہوتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سامنا نہیں کرسکتے ۔ لیکن قسمیں کھا کر اپنے اندرونی جھوٹے ارادوں کو چھپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ درحقیقت طاغوت کی عدلت میں تو جانا نہیں چاہتے تھے مگر رواج کے مطابق فیصلے کرا کے فریقین کے درمیان صلح صفائی چاہتے تھے ۔ یہ ان تمام لوگوں کا دعوی ہوتا ہے جو اسلامی نظام حیات سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ مشکلات سے بچنا چاہتے ہیں ۔ اگر شریعت کے قانون کو نافذ کردیا گیا تو ایک مصیبت آجائے گی ۔ لوگوں کے درمیان مخالفت پیدا ہوجائے گی حالانکہ یہ لوگ تمام طبقات کے درمیان توازن چاہتے ہیں۔ یہ حیلے بہانے ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو دعوائے ایمان تو کرتے ہیں لیکن مومن نہیں ہوتے ۔ اس قسم کے دلائل تو منافقین کے ہوتے ہیں اور ہر دور میں منافقین نے یہی کہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اوپر سے ان کو چھپانے والی اس چادر کو اتار پھینکتے ہیں اور حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع فرماتے ہیں کہ اللہ ان جیسے لوگوں کی حقیقت قلبی اور انکے اندرون سے واقف ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ کا حکم یہی ہے کہ ان جیسے لوگوں کے ساتھ سختی نہ برتی جائے بلکہ ان کو نصیحت کی جائے کہ وہ اس قسم کے ہیر پھیر سے باز آجائیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایک منافق کا واقعہ جو یہودی کے پاس فیصلہ لے گیا صاحب معالم التنزیل (صفحہ ٤٤٦٧: ج ١) سبب نزول بتاتے ہوئے یہیں ایک واقعہ نقل کیا ہے جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور یہ کہ بشرنامی ایک منافق تھا اس کے اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑا تھا۔ فیصلہ کرانے کے لیے کہیں جانا تھا۔ یہودی نے کہا کہ محمد رسول الل... ہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلیں ان سے فیصلہ کرا لیں لیکن بشر منافق نے کہا کہ کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں۔ کعب بن اشرف یہودیوں کا سردار تھا۔ یہودی نے کہا کہ نہیں میں تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے پاس لے چلوں گا، جب منافق نے یہ دیکھا کہ یہ اور کسی جگہ جانے کو تیار نہیں ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دونوں حاضر ہوگئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرما دیا جب باہر آئے تو بشر منافق نے یہودی سے کہا کہ عمر (رض) کے پاس چلیں چناچہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے یہودی نے پورا واقعہ سنایا اور بتادیا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے بارے میں یہ فیصلہ فرما دیا ہے اور اب یہ چاہتا ہے کہ آپ سے فیصلہ کرائے۔ حضرت عمر (رض) فرمایا کہ ذرا ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر وہ تشریف لے گئے اور اندر سے تلوار لے کر نکلے جس سے بشر منافق کو انہوں نے قتل کردیا اور فرمایا کہ جو اللہ کے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر راضی نہ ہو ہمارے نزدیک اس کا یہ فیصلہ ہے اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ عمر (رض) نے حق اور باطل کے درمیان فرق کر کے دکھا دیا اسی وجہ سے ان کو فاروق کہا جانے لگا۔ غیر اسلامی قانون کا سہارا لینے والے کی مذمت : واقعہ مذکورہ کے علاوہ کتب تفسیر میں سبب نزول بتاتے ہوئے بعض دیگر واقعات بھی لکھے ہیں۔ سبب نزول جو بھی کچھ ہو آیت مذکورہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر بھی ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی کتب سابقہ پر بھی ایمان لائے۔ دعویٰ تو ان کا یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن جب کوئی قضیہ درپیش ہوجائے اور فیصلہ کرانا پڑے تو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موافق فیصلہ کرانے پر راضی نہیں ہوتے بلکہ مقدمہ ایسے لوگوں کے پاس لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے امید ہو کہ غیر اسلامی قانون کو سامنے رکھ کر یا رشوت لے کر ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ کر دے یوں تو بڑے زور شور سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب معاملات اور خصومات کا موقعہ سامنے آتا ہے تو طاغوت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی سے فیصلہ چاہتے ہیں۔ لفظ طاغوت شیطان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں قرآن مجید میں یہ لفظ کعب بن اشرف یہودی کے لیے استعمال فرمایا ہے جو بہت بڑا یہودی شیطان تھا۔ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی بھی شیطان کی بات نہ مانیں اور ہر غیر اسلامی قانون سے پرہیز کریں جس کو (وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ) میں بیان فرمایا، لیکن دنیا کے غلام اور مادی منافع کے طالب اسلام کے مدعی ہونے کے باوجود ان لوگوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں جو اسلامی قوانین کے خلاف ان کے حق میں فیصلہ کردیں جب کوئی شخص یہ راہ اختیار کرے گا تو شیطان اس کو راہ حق سے ہٹا دے گا، اور اسے دور پھینک دے گا اور اسی کو فرمایا (وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44 یہ اَطِیْعُوْا اللہَ وَ اَطِیْعُوْ الرَّسُوْلَ سے متعلق ہے اور ان منافقین یہود کیلئے زجر ہے جو دعوے کرتے تھے کہ وہ تورات کی تعلیم کے مطابق قرآن پر اور آخری پیغمبر پر دل و جان سے ایمان لا چکے ہیں مگر ان کا عمل ان کے اس دعویٰ کے سراسر خلاف تھا۔ امام ثعلبی اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے...  نقل کی ہے کہ ایک منافق بشر نامی کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا تو اس یہودی اور اس کے متعلقین نے اس منافق سے کہا کہ چلو یہ جھگڑا ہم تمہارے پیغمبر کے پاس لے چلتے ہیں تو اس منافق نے کہا کہ نہیں یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس چلو۔ آخر مقدمہ عدالت نبوی میں پہنچا آپ نے فریقین کے بیانات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا۔ جس کا منافق کو بہت رنج ہوا وہاں سے اٹھ کر بشر نامی منافق نے یہودی سے کہا چلو حضرت عمر کے پاس چلیں اس کا خیال تھا کہ وہ مجھے مسلمان سمجھ کر میری طرفداری کریں گے لیکن وہاں پہنچ کر یہودی نے حضرت عمر سے کہہ دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مقدمے کا فیصلہ میرے حق میں فرما چکے ہیں لیکن بشر اس پر راضی نہیں ہوا۔ حضرت عمر نے یہ سنتے ہی اندر سے تلوار لا کر اس منافق کا سر تن سے جدا کردیا اور فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہ ہو میرے نزدیک اس کا فیصلہ یہی ہے۔ اس طرح اَلطَّاغُوْت سے یہاں کعب بن اشرف مراد ہے (روح ج 5 ص 67) لیکن عموم کے اعتبار سے طاغوت ہر معبودغیر اللہ پر بولا جاتا ہے اور اس آیت میں بھی عموم الفاظ کے پیش نظر طاغوت کو ہر معبود غیر اللہ پر محمول کرنے کی گنجائش ہے اس طرح آیت میں ان مشرکوں کے حال کا تذکرہ ہوگا جو بزرگان دین کے بتوں اور ان کی قبروں میں مافوق الفطرت کرشمے مان کر ان کی خانقاہوں پر اپنے جھگڑے لے جاتے ہیں جیسا کہ مشرکین مکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بت سے تقسیم کا فیصلہ لیتے تھے اور آجکل بعض جہلا فخر سے کہتے ہیں کہ تم فلاں بزرگ کی قبر پر ہاتھ رکھ دو یا اس کے روضے کی کنڈی کھول دو ۔ میں یہ چیز اس کی قبر پر رکھتا ہوں تم اٹھا لو۔ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلیٰ مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَ اِلیَ الرُّسُوْلِ اسی مذکورہ واقعہ سے متعلق ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi