Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 63

سورة النساء

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُ اللّٰہُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ٭ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ عِظۡہُمۡ وَ قُلۡ لَّہُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَوۡلًۢا بَلِیۡغًا ﴿۶۳﴾

Those are the ones of whom Allah knows what is in their hearts, so turn away from them but admonish them and speak to them a far-reaching word.

یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالٰی پر بخوبی روشن ہے ، آپ ان سے چشم پوشی کیجئے انہیں نصیحت کرتے رہئے اور انہیں وہ بات کہئے !جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُولَـيِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ ... They (hypocrites) are those of whom Allah knows what is in their hearts; These people are hypocrites, and Allah knows what is in their hearts and will punish them accordingly, for nothing escapes Allah's watch. Consequently, O Muhammad! Let Allah be sufficient for you in this regard, because He has perfect knowledge of their apparent and hidden affairs. This is why Allah said, ... فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ ... so turn aside from them (do not punish them), meaning, do not punish them because of what is in their hearts. ... وَعِظْهُمْ ... but admonish them, means, advise them against the hypocrisy and evil that reside in their hearts. ... وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلاً بَلِيغًا and speak to them an effective word to reach their inner selves. advise them, between you and them, using effective words that might benefit them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم نے ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں (جس پر ہم انہیں جزا دیں گے) لیکن اے پیغمبر ! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھئے ! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، وعظ، نصیحت اور قول کے ذریعے سے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] مگر اللہ تعالیٰ نے منافق کے وارثوں کی اس چال سے آپ کو مطلع کردیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے قصاص کے مقدمہ کو یہ آیات نازل فرما کر خارج کردیا کہ جو لوگ اپنے مالی یا جانی مقدمات میں اللہ کے رسول کو دل و جان سے حکم تسلیم نہیں کرتے وہ فی الحقیقت مومن ہی نہیں ہیں لہذا قصاص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ اس سے آگے آ رہا ہے۔ سیدنا عمر (رض) کے اس فیصلہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ [٩٦] یعنی آپ ان منافقوں کی قطعاً پروا نہ کیجئے البتہ انہیں دل نشین انداز میں وعظ و نصیحت کرتے رہیے اور انہیں یہ سمجھائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کی جائے اور اسی کو دل و جان سے حکم تسلیم کیا جائے۔ اور جب وہ کوئی غلطی یا زیادتی کر بیٹھے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ آپ کے پاس آ کر اللہ سے معافی مانگتے اور آپ بھی ان کے لیے معافی مانگتے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول فرما لیتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ ۔۔ : اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ تمام معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے۔ ” باذن اللہ “ کا معنی اللہ کی توفیق و اعانت بھی کیا گیا ہے، وہ بھی درست ہے، معلوم ہوا ہر رسول واجب الاطاعت ہوتا ہے۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا : اپنی جان پر ظلم کرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنا اور آپ سے استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا، آپ کی وفات کے بعد کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آیا ہو اور آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی ہو۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے یہاں ایک بدوی کی حکایت نقل کی ہے، جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کچھ شعر پڑھے اور کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ کو سفارشی بناتا ہوں، اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا، خواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا ہے : ” اس بدوی کو بخش دیا گیا ہے۔ “ لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے ذکر کردی گئی ہے، یہ نہ آیت کی تفسیر ہے نہ حدیث ہے۔ الصارم المنکی (ص : ٢٣٨) “ میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے۔ اور نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب دین میں دلیل بھی نہیں بنتا۔ آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں آپ سے دعائے مغفرت کروائی جاسکتی تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد اس آیت کی رو سے قبر پر جا کر سفارش اور دعا کی درخواست کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ : اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے، لیکن یہاں جو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا، تو یہ اس لیے کہ چونکہ انھوں نے جھگڑے کے فیصلے کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کی شان کے نا مناسب حرکت کی تھی، اس لیے اس کے ازالے کے لیے انھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی تاکید فرمائی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (63) comes up with the answer. It says that Allah is all-aware of the disbelief and hypocrisy rooted in their hearts. All their interpretations are false, and their oaths, an exercise in lying. So, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، is being asked to ignore their excuses and reject their charge of excess against Sayyidna ` Umar , as the disbelief of this particular hypocrite had become manifest. After that, towards the end of this verse (63), the Holy Prophet 4 has been asked to give good counsel to the rest of the hypocrites as well, in a way that may touch their hearts, that is, tell them to fear what lies beyond the present life and invite them to follow the path of Islam sincerely, or remind them of their likely worldly punishment in the event they stuck to their hypocrisy which might be exposed some day, some time, and they might as well meet the same fate as did Bishr, the hypocrite.

چوتھی آیت میں اس کا جواب آیا کہ ان کے دلوں میں جو کفر و نفاق ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف اور باخبر ہیں، ان کی تاویلیں غلط اور قسمیں جھوٹی ہیں اس لئے آپ ان کے عذر کو قبول نہ فرمائیں اور حضرت عمر کے خلاف دعویٰ کرنے والوں کا دعویٰ رد فرما دیں، کیونکہ اس منافق کا کفر واضح ہوچکا تھا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان منافقین کو بھی آپ خیر خواہانہ نصیحت فرما دیں جو ان کے دلوں پر اثر انداز ہو، یعنی آخرت کا خوف دلا کر ان کو مخلصانہ اسلام کی طرف دعوت دیں یا دنیوی سزا کا ذکر کردیں کہ اگر تم نفاق سے باز نہ آئے تو کسی وقت نفاق کھل جائے گا، تو تمہارا بھی یہی انجام ہوگا جو بشر منافق کا ہوا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَعْلَمُ اللہُ مَا فِيْ قُلُوْبِہِمْ۝ ٠ۤ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا۝ ٦٣ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ بلاغة والبلاغة تقال علی وجهين : - أحدهما : أن يكون بذاته بلیغا، وذلک بأن يجمع ثلاثة أوصاف : صوبا في موضوع لغته، وطبقا للمعنی المقصود به، وصدقا في نفسه ومتی اخترم وصف من ذلک کان ناقصا في البلاغة . - والثاني : أن يكون بلیغا باعتبار القائل والمقول له، وهو أن يقصد القائل أمرا فيورده علی وجه حقیق أن يقبله المقول له، وقوله تعالی: وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغاً [ النساء/ 63] ، يصح حمله علی المعنيين، وقول من قال «2» : معناه قل لهم : إن أظهرتم ما في أنفسکم قتلتم، وقول من قال : خوّفهم بمکاره تنزل بهم، فإشارة إلى بعض ما يقتضيه عموم اللفظ، والبلغة : ما يتبلّغ به من العیش . البلاغتہ کا لفظ دو طرح بولا جاتا ہے ایک یہ کہ وہ کلام بذاتہ بلیغ ہو اور اس کے لئے اوصاف ثلاثہ کا جامع ہونا شرط ہے یعنی وضع لغت کے اعتبار سے درست ہو ۔ یعنی مقصود کے مطابق ہو اور فی الوقع سچی بھی ہو اگر ان اوصاف میں کسی ایک وصف میں بھی کمی ہو تو بلاغت میں نقص رہتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ قاتل اور مقول لا یعنی متکلم اور مکاطب کے اعتبار سے بلیغ ہو یعنی کہنے والا اپنے مافی الضمیر کو خوبی سے ادا کرے کہ مخاطب کو اس کا قائل ہونا پڑے اور آیت کریمہ : وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغاً [ النساء/ 63] اور ان سے ایسی باتیں کہو جا ان کے دلوں پر اثر کر جائیں ۔ میں قول بلیغ ان ہر دو معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور بعض نے اس کے جو یہ معنی کئے ہیں کہ ان سے کہہ دو کہ اگر تم نے اپنے مافی الضمیر جو ظاہر کیا تو قتل دیے جاؤ گے یاز یہ کہ انہیں ان پر نازل ہونے والے مصائب سے ڈرو تو یہ اس کے عام مفہوم میں سے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے ۔ البلغتہ اتنی مقدار جس سے گزر اوقات ہو سے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) آپ ان لوگوں کو معاف فرمائیے اور اس مرتبہ ان پر گرفت نہ فرمائیے اور نصیحت فرما دیجیے کہ دوسری مرتبہ ایسا نہ کریں ورنہ سخت قسم کی گرفت کروں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ ق ) (فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ ) (وَعِظْہُمْ ) (وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً م بَلِیْغًا ) یہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو بری قرار دیا کہ اللہ کی طرف سے ان کی براءت آگئی ہے ‘ اور اسی دن سے ان کا لقب فاروققرار پایا ‘ یعنی حق و باطل میں فرق کردینے والا۔ اب ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ اس سورة مبارکہ میں منافقت جو زیر بحث آئی ہے وہ تین عنوانات کے تحت ہے۔ منافقوں پر تین چیزیں بہت بھاری تھیں ‘ جن میں سے اوّلین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت تھی۔ اور یہ بڑی نفسیاتی بات ہے۔ ایک انسان کے لیے دوسرے انسان کی اطاعت بڑا مشکل کام ہے۔ ہم جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لیے ایک ادارے (institution) کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ شخصاً ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ جبکہ ان کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شخصاً موجود تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں ‘ دو پاؤں ہیں ‘ دو آنکھیں ہیں ‘ لہٰذا بظاہر اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت ان پر بہت شاق تھی۔ جیسا کہ جماعتوں میں ہوتا ہے کہ امیر کی اطاعت بہت شاق گزرتی ہے ‘ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ امیر کی رائے پر چلنے کے لیے اپنی رائے کو پیچھے ڈالنا پڑتا ہے۔ جو صادق الایمان مسلمان تھے انہیں تو یہ یقین تھا کہ یہ محمد بن عبد اللہ جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں ‘ حقیقت میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ہم ان کی اسی حیثیت میں ان پر ایمان لائے ہیں۔ لیکن جن کے دلوں میں یہ یقین نہیں تھا یا کمزور تھا ان کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصی اطاعت بڑی بھاری اور بڑی کٹھن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر وہ کہتے تھے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنے پاس سے کہہ رہے ہیں۔ کیوں نہیں کوئی سورت نازل ہوجاتی ؟ کیوں نہیں کوئی آیت نازل ہوجاتی ؟ اور سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی انداز میں نازل ہوئی ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنی طرف سے اقدام کردیا ہے۔ اس پر اللہ نے کہا کہ لو پھر ہم قتال کی آیات نازل کردیتے ہیں۔ دوسری چیز جو ان پر کٹھن تھی وہ ہے قتال ‘ یعنی اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا۔ ان کا حال یہ تھا کہ ع مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز ! تیسری کٹھن چیز ہجرت تھی۔ اس کا اطلاق منافقین مدینہ پر نہیں ہوتا تھا بلکہ مکہ اور ارد گرد کے جو منافق تھے ان پر ہوتا تھا۔ ان کا ذکر بھی آگے آئے گا۔ ظاہر ہے گھر بار اور خاندان والوں کو چھوڑ کر نکل جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اب سب سے پہلے اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی اہمیت بیان کی جا رہی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:63) فی انفسکم۔ ان کے اپنے متعلق۔ ان کے لئے۔ بلیغا۔ اثر کرنے والا۔ پہنچنے والا۔ بلاغت والا۔ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے ان سے ان کے حق میں اثر کرنے والی بات کہہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ان منافقوں کے دل کا چور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے تم کو معلوم نہیں تم ان سے اپنا ظاہری معاملہ درگزر کا رکھو اور ان کو دلپذیر نصیحت کرتے رہو شاید کسی کے دل میں کوئی بات اترجائے (ا، ت )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ان آیتوں میں ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے کہ ایک شخص تھا منافق بشر اس کا نام تھا اس کا کسی یہودی سے جھگڑا ہوا یہودی نے کہا چل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان سے فیصلہ کرالیں منافق نے کہا کعب بن اشرف کے پاس چل یہود کا ایک سردار تھا ظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس معاملہ میں حق یہودی ہوگا اس نے جانا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی رعایت نہ فرمائیں گے وہاں حق فیصلہ ہوگا گو میں آپ سے مذہبی مخالفت رکھتا ہوں منافق چونکہ باطل پر تھا اس نے سمجھا کہ رسول اللہ کے یہاں تو میری بات نہ چلے گی گو میں ظاہر مسلمان ہوں مگر کعب بن اشرف خود کوئی حق پرست نہیں وہاں میرا مقدمہ سرسبز ہوجائے گا پھر آخر وہ دونوں رسول اللہ ہی کے پاس مقدمہ لے کر گئے آپ نے یہودی کو غالب کیا وہ منافق راضی نہ ہوا اس یہودی سے کہا کہ چلو حضرت عمر کے پاس۔ غالبا وہ یہ سمجھا ہوگا کہ حضرت عمر کفار پر خوب سخت ہیں اس یہودی پر سختی فرمادیں گے یہود کو اطمینان تھا کہ گوسخت ہیں مگر وہ سختی حق پرستی ہی کی وجہ سے ہے۔ تو جب میں حق پر ہوں تو مجھ ہی کو غالب رکھیں گے اس لیے اس نے انکار نہیں کیا جب وہاں پہنچے تو یہودی نے ساراقصہ بیان کردیا کہ یہ مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجلاس سے فیصل ہوچکا ہے مگر یہ شخص یعنی منافق اس پر راضی نہی ہے آپ نے اس منافق سے پوچھا کیا یہی بات ہے اس نے کہا ہاں حضرت نے کہا اچھاٹھہرو آتا ہوں اور گھر سے ایک تلوار لے کر آئے اور منافق کا کام تمام کیا اور کہا جو شخص رسول اللہ کے فیصلے پر راضی نہ ہو اس کا فیصلہ یہی ہے اور عامہ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ پھر اس منافق مقتول کے ورثاء نے حضرت عمر پر دعوی کیا اور اس منافق کے کفر قولی وفعلی کی تاویل کی اللہ نے ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرمادی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم فاعرض عنھم وعظھم وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا “۔ (٤ : ٦٣) ”۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان سے تعرض مت کرو انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے ۔ “ یہ لوگ وہ ہیں جو اپنی نیتوں اور اپنے اندرونی ارادوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور جھوٹے دلائل اور غلط عذر پیش کرتے ہیں لیکن اللہ ان کے دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے اور ان کے ضمیر کے اندرونی حالات سے بھی باخبر ہیں ۔ لیکن جو پالیسی اسی وقت طے شدہ تھی وہ یہ تھی کہ منافقین سے چشم پوشی کی جائے ‘ ان کے ساتھ نرمی برتی جائے اور وعظ ونصیحت اور تعلیم وتربیت سے کام لیا جائے ۔۔۔۔ اس مقصد کے لئے عجیب انداز کلام اختیار کیا گیا ہے ۔ وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا “۔ (٤ : ٦٣) ” اور ان کو اس قدر بلیغانہ انداز میں سمجھاؤ کہ بات ان کے دل میں اتر جائے “۔ یہ نہایت ہی مصورانہ انداز تعبیر ہے ۔ گویا بات براہ راست ان کے دل میں رکھی جا رہی ہے اور وہ بات وہاں بیٹھتی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی طرف مائل کرتے ہیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آجائیں اور اللہ اور رسول کی پناہ میں امن و سکون کی زندگی بسر کریں ۔ اگرچہ انہوں نے یہ کوشش کی کہ وہ طاغوت کی عدالت سے فیصلے کرائیں اور یہ بات ان سے ظاہر بھی ہوگئی ۔ انہوں نے حضور سے فیصلہ کرانے سے پہلوتہی اختیار کی حالانکہ ان کو اس کی جانب بلایا گیا تھا ۔ لیکن ان سب کوتاہیوں کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا ہے ‘ اور واپسی کا وقت ختم نہیں ہوا ہے اور وہ اب بھی اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی طلب کرسکتے ہیں ۔ رسول اللہ کی جانب سے انکے لئے استغفار قابل قبول ہے لیکن یہ استغفار تب قابل قبول ہوگی جب اصولی بات مان لی جائے اور وہ بات یہ ہے کہ رسولوں کو محض اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ لوگ ان کی اطاعت کریں ورنہ پھر رسالت کا مطلب کیا ہوا ۔ نیز یہ کہ رسول محض واعظ نہیں ہوتا اور نہ محض مرشد ہوتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ ) (الایۃ) کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے دلوں کا حال معلوم ہے وہ ان کو سزا دے گا، آپ ان سے اعراض کریں زجر و توبیخ نہ کریں ہاں ان کو نصیحت کرتے رہیں جو ان کی ذاتوں کے بارے میں ہو اور انتہائی وضاحت کے ساتھ ان سے ایسی باتیں فرمائیں جو مؤثر ہوں راہ حق پر لانے والی ہوں۔ (فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ ) کا ایک مطلب تو مفسرین نے یہی بتایا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا کہ ان سے اعراض کریں اور زجر و تو بیخ سے کام نہ لیں اور دوسرا مطلب یہ بتایا ہے کہ ان کا عذر قبول کرنے سے اعراض فرمائیں اور انہوں نے جو بشر مقتول کے خون کا دعویٰ کیا ہے اس طرف توجہ فرمائیں کیونکہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں نیز (وَ قُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ ) کا ایک مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ ان کی ذاتوں کے بارے میں انہیں نصیحت فرماتے رہیں اور دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کو تنہائی میں نصیحت فرمائیں کیونکہ تنہائی میں سمجھانا نصیحت قوجل کرنے کے لیے زیادہ قریب تر ہوتا ہے۔ (ازابن کثیر صفحہ ٥١٩: ج ١، روح المعانی صفحہ ٦٩: ج ٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے اور ان کے مافی الضمیر سے خوب واقف ہے یعنی ان کا کفر اور نفاق اس کو خوب معلوم ہے لہٰذا بہ تقاضائے مصلحت آپ ان سے کوئی تعارض نہ کیجیے اور ان سے تغافل و چشم پوشی کا برتائو کیجیے اور ان کو نصیحت فرماتے رہیے اور ان کے حق میں اور ان کے بارے میں ان سے ایسی بات کہا کیجیے جو ان پر اثر انداز اور ان کے لئے مئوثر اور ان کی اصلاح کے لئے کافی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جو کفر و نفاق ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ … جانتا ہے اور یہ اپنے کفر و نفاق کی بنا پر چونکہ شریعت اسلامیہ کے فیصلہ کو پسند نہیں کرتے اس لئے دوسروں کے پاس جاتے ہیں لیکن اس وقت مصلحت اور حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ان سے کوئی مواخذہ نہ کریں۔ البتہ ان کو نصیحت فرماتے رہیں کہ اس قسم کی حرکات سے باز آ جائو یہ باتیں بری ہیں اور ا ن کے حق میں سے ایسی بات کہو جو مئوثر ہو یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب کی باتوں کو جانتا ہے اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے تم اپنی اصلاح کرو اور اپنے نفسوں کو خصائل رذیل اور صفات ذمیمہ سے پاک کرو وغیرہ وغریہ بلیخ وہ کلام ہے جس کا مدلول مقصود کے مطابق ہو بعض حضرات نے فاعرض عنھم کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کا عذر قبول کرنے سے اعراض کیجیے یا منافق مقتول کا جو خوں بہا طلب کر رہے ہیں اس سے اعراض کیجیے کیونکہ اس کا خون ناقابل التفات اور یہ خون کا مطالبہ بےکار ہے۔ (واللہ اعلم) اب آگے ان منافقوں کے لئے دوسری بات فرماتے ہیں کہ اگر قسمیں کھا کر غلط بات کہنے کی بجائے یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اقرار کرلیتے اور توبہ استغفار کرتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا (تسہیل)