Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 71

سورة النساء

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا ﴿۷۱﴾

O you who have believed, take your precaution and [either] go forth in companies or go forth all together.

اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر گروہ گروہ بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکھٹے ہو کر نکل کھڑے ہو!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Necessity of Taking Necessary Precautions Against the Enemy Allah says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ خُذُواْ حِذْرَكُمْ فَانفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُواْ جَمِيعًا you who believe! Take your precautions, and either go forth (on an expedition) in parties, or go forth all together. Allah commands His faithful servants to take precautions against their enemies... , by being prepared with the necessary weapons and supplies, and increasing the number of troops fighting in His cause. ثُبَاتٍ (in parties) means, group after group, party after party, and expedition after expedition. Ali bin Talhah reported that Ibn Abbas said that, فَانفِرُواْ ثُبَاتٍ (and either go forth in parties) means, "In groups, expedition after expedition, أَوِ انفِرُواْ جَمِيعًا (or go forth all together), means, all of you." Similar was reported from Mujahid, Ikrimah, As-Suddi, Qatadah, Ad-Dahhak, Ata Al-Khurasani, Muqatil bin Hayyan and Khusayf Al-Jazari. Refraining from Joining Jihad is a Sign of Hypocrites Allah said,   Show more

طاقتور اور متحد ہو کر زندہ رہو اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے ۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لئے بیک آواز اٹھ کھڑے ہ... وں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں ، جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا ان کے آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا لیکن بےخبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے یہ بد نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو یا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا ، اور اگر مسلمان مجاہدین کا اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے گویا یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی ، غلام ، مال ، متاع والا بن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے ۔ پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مومنوں کو چاہیے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں ۔ سنو! اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ کی راہ کے مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے یا تو اس فوت کر کے جنت میں پہنچائے گا جس جگہ سے وہ چلا ہے وہیں اجر و غنیمت کے ساتھ صیح سالم واپس لائے گا فالحمد اللہ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 حِذْرَکُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] جنگ احد کے بعد مسلمانوں کی حالت اور احکام :۔ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمان میدان احد میں ایک دفعہ شکست سے دو چار ہوچکے تھے اور ابو سفیان نے واپسی کے وقت اپنے خطبہ میں اپنی کامیابی کا اعلان بھی کیا تھا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ یہودیوں، منافقوں اور مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل کے حوصلے ... بڑھ گئے اور اسلام دشمنی میں اپنی کوششیں تیز تر کردی تھیں۔ بسا اوقات ایسی خبریں آتیں کہ اب فلاں قبیلہ جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے اور اب فلاں قبیلہ مسلمانوں پر چڑھائی کے لیے مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی دور میں مسلمانوں سے پے در پے غداریاں بھی کی گئیں۔ ان کے مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی اور قتل کردیا جاتا تھا اور مدینہ کی حدود سے باہر مسلمانوں کا جان و مال محفوظ نہ تھا۔ اور مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس طاری رہتا تھا۔ تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ ایک تو ہر وقت محتاط اور چاک و چوبند رہو اور اپنے ہتھیار اپنے پاس رکھا کرو۔ دوسرے اکا دکا سفر نہ کیا کرو بلکہ جب کسی سفر پر نکلنا ہو تو دستوں کی شکل میں یا سب اکٹھے مل کر نکلا کرو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم فرمایا اور اس کی ترغیب کے سلسلہ میں یہ بھی بتایا کہ اس اطاعت سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت حاصل ہوگی۔ اب اس آیت میں جہاد کا حکم فرمایا، جو سب سے مشکل اطاعت ہے اور کفار و منافقین سے پورا بچاؤ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ حال... ات کے مطابق الگ الگ دستوں یا اکٹھے لشکر کی صورت نکلنے میں سے جو بہتر ہو اختیار کرو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Before this, there was the command to obey Allah and His Messenger. Now, in the present verses, Jihad has been prescribed for the obedient and faithful so that they can vitalize their Faith and raise the word of Allah high and supreme. (Qurtubi) Commentary Important Notes In the first part of the verse: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَ‌كُمْ اَلخ (0 those who believe, take your precaut... ions ...), appears the command to ensure the supply of weapons, while the later part refers to the launching of Jihad action. This tells us two things right away. Firstly, as already clarified at several places, the act of getting together functional means to achieve a good purpose is not contrary to tawakkul or trust in God. Secondly, we see that the text limits. itself to the command to ensure the supply of weapons, but it does not promise that, because of this support, Muslims will have any guaranteed security against their enemies. By doing so, it has been indicated that the choice of using means is for nothing but a certain peace of mind, otherwise, the use of means as such does not carry any operational gain or loss. The Qur&an has said: قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا (0 Prophet) say: |"Nothing will befall us except what Allah has prescribed for us.|" (9:51) 2. Let us look at the first verse again. It opens up with the command to get ready for Jihad followed by a- description of the marching plan; the later has been expressed in two sentences, that is, فَانفِرُ‌وا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُ‌وا جَمِيعًا (...and march in groups, or march off all together.) Here, the word, &thubatin& is the plural form of &thubatun& which means a small group and is used to denote a military company and was called a Sariyyah in the military campaigns of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In that sense, it is being said here that Muslims, when they go out for Jihad, should not start off all alone. They should, rather, set out in the forma¬tion of small groups. The other alternative is to march as a large army: jami’ an& because, in fighting, going &alone is very likely to hurt --- the enemy is not going to let this opportunity slip out of their hands. No doubt, this instruction has been given to Muslims for the partic¬ular occasion of Jihad, but, even in normal circumstances, this is what the Shari’ ah teaches - do not travel alone. In a hadith, therefore, a lone traveler is called one satan and two of them two satans and three of them become a group or party. Similarly, there is another hadith which says: خَیر الصحابہ اربعۃ، و خیرالسرایا أبعہ مایٔہ، وخیر اجیوش اربعۃ آلاف . The best companions are four and the best military company is that of four hundred and the best army is that of four thousand.& (From Mishkat as reported by Al-Tabarani)   Show more

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو (کافروں کے مقابلہ میں) اپنی تو احتیاط رکھو (یعنی ان کے داؤ گھات سے بھی ہوشیار رہو اور مقاتلہ کے وقت سامان، ہتھیار ڈھال اور تلوار سے بھی درست رہو) پھر (ان سے مقاتلہ کے لئے) متفرق طور پر یا مجتمع طور پر (جیسا موقع ہو) نکلو اور تمہارے مجمع میں (جس میں بعض منافقین بھی شامل ہو...  رہے ہیں) کوئی شخص ایسا ہے (مراد اس سے منافق ہے) جو (جہاد سے) ہٹا ہے (یعنی جہاد میں شریک نہیں ہوتا) پھر اگر تم کو کوئی حادثہ پہنچ گیا (جیسے شکست وغیرہ) تو (اپنے نہ جانے پر خوش ہو کر) کہتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں حاضر نہیں ہوا نہیں تو مجھ پر بھی مصیبت آتی) اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجاتا ہے (یعنی فتح و غنیمت) تو ایسے طور پر (خود غرضی کے ساتھ) کہ گویا تم میں اور اس میں کچھ تعلق ہی نہیں (مال کے فوت ہونے پر تاسف کر کے) کہتا ہے ہائے کیا خوب ہوتا کہ میں بھی لوگوں کا شریک حال ہوتا (یعنی جہاد میں جاتا) تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی ہوتی (کہ مال و دولت لاتا اور خود غرضی اور بےتعلقی اس کہنے سے ظاہر ہے ورنہ جس سے تعلق ہوتا ہے اس کی کامیابی پر بھی تو خوش ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ اپنا افسوس کرنے بیٹھ جائے اور اس کی خوشی کا نام بھی نہ لے، اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں فرماتے ہیں کہ بڑی کامیابی مفت نہیں ملتی اگر اس کا طالب ہے) تو ہاں اس شخص کو چاہئے کہ اللہ کی راہ میں (یعنی اعلاء کلمتہ اللہ کی نیت سے جو کہ موقوف ہے ایمان و اخلاق پر یعنی مسلمان و مخلص بن کر) ان (کافر) لوگوں سے لڑے جو آخرت (چھوڑ کر اس) کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں (یعنی اس شخص کو اگر فوز عظیم کا شوق ہے تو دل درست کرلے ہاتھ پاؤں ہلائے، مشقت جھیلے، تیغ وسنان کے سامنے سینہ سپر بنے دیکھو فوز عظیم ہاتھ آتا ہے یا نہیں، اور یوں کیا کوئی دل لگی ہے، پھر جو شخص اتنی مصیبت جھیلے سچی کامیابی اس کی ہے، کیونکہ دنیا کی کامیابی اول تو حقیر، پھر کبھی ہے کبھی نہیں، کیونکہ اگر غالب آگئے تو ہے ورنہ نہیں) اور (آخرت کی کامیابی جو کہ ایسے شخص کے لئے موعود ہے ایسی ہے کہ عظیم بھی اور پھر ہر حالت میں ہے کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ) جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر خواہ (مغلوب ہوجائے حتی کہ) جان (ہی) سے مارا جائے یا غالب آجائے ہم (٢ ر حالت میں) اس کو (آخرت کا) اجر عظیم دیں گے (جو کہ فوز عظیم کہنے کے لائق ہے۔ ) ربط آیات :۔ اس سے قبل اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر تھا، آگے ان آیات سے فرمانبرداروں کو احیاء دین اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ (قرطبی) معارف ومسائل فوائد مہمہ :۔ یایھا الذین امنواخذوا احذرکم الخ اس آیت کے پہلے حصہ میں جہاد کرنے کے لئے اسلحہ کی فراہمی کا حکم دیا گیا اور دوسرے حصہ میں اقدام جہاد کا اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی جس کو متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں اسلحہ کی فراہمی کا حکم تو دے دیا گیا، لیکن یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ اس کی وجہ سے تم یقیناً ضرور محفوظ ہی رہو گے، اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا گیا کہ اسباب کا اختیار کرنا صرف اطمینان قلبی کے لئے ہوتا ہے، ورنہ ان میں فی نفسہ نفع و نقصان کی کوئی تاثیر نہیں ہے، جیسے ارشاد ہے : ” یعنی اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ ہم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر وہی جو ہمارے لئے مقدر ہوچکی ہے۔ “ ١۔ اس آیت میں پہلے تو جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا گیا، اس کے بعد اس کے لئے نکلنے کا نظم بتلایا گیا، جس کے لئے دو جملے ذکر کئے گئے یعنی فانفروا ثبات اوا نفرواجمعاً ثبات، ثبتہ کی جمع ہے، جس کے معنے چھوٹی سی جماعت کے ہیں، جس کو فوجی دستہ (سریہ) کہتے ہیں، یعنی اگر تم جہاد کے لئے نکلو تو اکیلے اور تنہا نہ نکلو، بلکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں نکلو یا ایک کثیر (جمعاً ) لشکر کی صورت میں جاؤ کیونکہ اکیلے لڑنے کے لئے جانے میں نقصان کا قوی احتمال ہوتا ہے اور دشمن ایسے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ یہ تعلیم تو جہاد کے موقع کے لئے مسلمانوں کو دی گئی ہے، لیکن عام حالات میں بھی شریعت کی یہی تعلیم ہے کہ اکیلے سفر نہ کیا جائے، چناچہ ایک حدیث میں تنہا مسافر کو ایک شیطان کہا گیا اور دو مسافروں کو دو شیطان اور تین کو جماعت فرمایا گیا۔ ” یعنی بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین فوجی دستہ چار سو کا ہے اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے۔ “  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِيْعًا۝ ٧١ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته...  . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جنگ کی تیاری ہر وقت ضروری ہے قول باری ہے (یا ایھا الذین امنواخذور حذرکم فانفروا ثبات او انفرو جمیعا) اے ایمان والو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلوایا اکٹھے ہوکر) ایک قول ہے کہ ثبات کے معنی جماعتوں کے ہیں، اس کا واحد ثبۃ ہے، ایک قول ہے ثبۃ اس ٹولی یادست... ے کو کہتے ہیں جو دوسری ٹولیوں اور دستوں سے الگ تھلگ ہو، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ دشمن کے مقابلہ کے لیے الگ الگ دستوں کی شکل میں اس طرح نکلیں کہ ایک دستہ ایک سمت روانہ ہوجائے اور دوسرا دستہ دوسری سمت یا سب مل کر ایک ساتھ نکل پڑیں۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد، ضحاک اور قتادہ سے یہی روایت ہے کہ ، قول باری (خذواحذرکم) کے معنی ہیں اپنے اپنے ہتھیار لے لو، ہتھیار کو، حذر، کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا کہ اس کے ذریعے خوف اور ڈر سے بچاؤ حاصل کیا جاتا ہے اس میں یہ معنی ہی محتمل ہے اپنے ہتھار لے کر، اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔ جس طرح قول باری ہے (ولیاخذواحذرھم واسلحتھم) انہیں چاہیے کہ مقابلہ کے لیے تیار رہیں اور اپنااسلحہ لے لیں) ۔ اس آیت میں دشمنوں سے قتال کی غرض سے اسلحہ لے لینے، اور ہتھیار بند ہوجانے اور موقع کی مناسبت سے پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے ہوکرچل پڑنے کا حکم ہے ، نفور گھبراہٹ کو کہتے ہیں ، جب کوئی شخص گھبرا جائے توکہاجاتا ہے ، نفر نفورا، فلاں شخص گھبرا گیا) ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی چیز سے گھبرا کر کسی شخص کی طرف چلاجائے تو اس وقت کہاجاتا ہے (گھبرا کر اس کی طرف چلا گیا) ۔ آیت کا مفہوم ہے ، اپنے دشمنوں سے قتال کرنے کے لیے چل پڑو، نفراس گروہ اور جماعت کو کہتے ہیں جس کی گھبراہٹ کے اندر پناہ حاصل کی جاتی ہے دشمن کے خلاف جنگ کی طرف بلانے کے لیے دی جانے والی صدا کو نفیر کہتے ہیں، فیصلے کے لیے کسی کے پاس جانے کو منافرہ کہتے ہیں کیونکہ معاملات میں اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں اسی کاسہارا لیاجاتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ منافرہ کی اصل یہ ہے کہ لوگ حاکم سے جاکرپوچھتے ہیں کہ مجلس اور مجمع میں ہم میں سے کون زیادہ غالب ہے اس آیت کے بارے میں بھی نسخ کی روایت کی گئی ہے ۔ ابن جریج اور عثمان بن عطاء نے حضرت ابن عباس سے قول باری (فانفروا ثبات اونفروا جمیعا) کی تفسیر کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ گروہوں اور دستوں کی صورت میں ۔ سورت برات میں ارشاد ہے ، (انفروا خفافا وثقالا، ہلکے پھلکے اور بوجھل چل پڑو) تاآخر آیت ، نیز ارشاد ہے (الاتنفروا یعذبکم عذاباالیما) اگر نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب دے گا) ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ درج بالا آیات کو اس قول باری نے منسوخ کردیا (وماکان المومنون لینفروا کافۃ فلو لانفر من کل فرقۃ منھم طائفہ، اہل ایمان کو نہیں چاہیے کہ وہ سب کے سب نکل پڑیں یہ کیوں نہ ہو کہ ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کھڑا ہوا کرے) اور ایک حصہ حضور کے ساتھ ٹھہرا رہے حضور کی معیت میں رہنے والے لوگ وہ ہوں گے جو دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں گے ، اور جب ان کے بھائی غزوات سے واپس آئیں گے توا نہیں اللہ کا خوف دلائیں گے تاکہ وہ بھی اللہ کی کتاب میں نازل ہونے والے احکامات اور حدود کے بارے میں محتاط ہوجائیں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے دشمن سے پوری طرح احتیاط رکھو، علیحدہ علیحدہ مت نکلو، بلکہ اکٹھے ہو کر جماعتوں کی شکل میں نکلو یا سب کے سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب ذکر آ رہا ہے قتال فی سبیل اللہ کا۔ یہ دوسری چیز تھی جو منافقین پر بہت بھاری تھی۔ مادی اعتبار سے یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ تر ایک نفسیاتی مرحلہ تھا ‘ ایک نفسیاتی الجھن تھی ‘ لیکن اپنا مال خرچ کرنا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا ایک خالص محسوس مادی شے تھی۔ آ... یت ٧١ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ ) (فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا ) یعنی جیسا موقع ہو اس کے مطابق الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے فوج کی صورت میں نکلو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقع کی مناسبت سے کبھی چھوٹے چھوٹے گروپ بھیجتے تھے۔ جیسے غزوۂ بدر سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ مہمیں روانہ فرمائیں ‘ جبکہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری فوج لے کر نکلے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101. This discourse was revealed after the Battle of Uhud, when the tribes living around Madina had been greatly encouraged by the defeat of the Muslims. Thus dangers seemed to surround the Muslims on all sides. Day in and day out news poured in about the hostile intentions of one tribe after another. Reports came in of attacks mounted now in one area, and then in another. The Muslims were again a... nd again the victims of treachery. Their preachers were invited to preach and then put to the sword. Beyond Madina, neither their lives nor their property was secure. Consequently the Muslims had to prepare themselves for a fierce struggle, for a tremendous, all-out effort to ensure that the Islamic movement would not be crushed.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :101 واضح رہے کہ یہ خطبہ اس زمانہ میں نازل ہوا تھا جب احد کی شکست کی وجہ سے اطراف و نواح کے قبائل کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھر گئے تھے ۔ آئے دن خبریں آتی رہتی تھیں کہ فلاں قبیلے کے تیور بگڑ رہے ہیں ، فلاں قبیلہ دشمنی پر آمادہ ہے ، فلاں مقام ... پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ پے در پے غداریاں کی جا رہی تھیں ۔ ان کے مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کر دیا جاتا تھا ۔ مدینہ کے حدود سے باہر ان کے لیے جان و مال کی سلامتی باقی نہ رہی تھی ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی و جہد اور سخت جاں فشانی کی ضرورت تھی تاکہ ان خطرات کے ہجوم سے اسلام کی یہ تحریک مٹ نہ جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(71 ۔ 74) ۔ اوپر ذکر تھا کہ بعض مسلمانوں نے یہود کی توبہ قتل سے قبول ہونے کا حال یہود سے سن کر یہ کہا تھا کہ ہمارے اوپر کی اگر کوئی ایسا حکم نازل ہوتا تو ہم ضرور اس کی تعمیل کرتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی اور ان میں جہاد کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قتل کا سا حکم...  تو اس شریعت میں نہیں ہے۔ لیکن اس شریعت میں دین کی ترقی کے لئے دین کے مخالفوں سے لڑنے کا حکم ہے جس کو اجر کمانا ہو وہ اس حکم کی تعمیل میں کوشش اور جرأت کرلے لغت میں جہاد کے معنی مشقت کے ہیں اور شرع میں جہاد اس لڑائی کو کہتے ہیں جو خاص دین کی ترقی کے لئے کی جائے۔ مشہور قول علماء کا یہی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جہاد فرض کفایہ ہے فرض کفایہ اس فرض کو کہتے ہیں کہ قوم کے بعض لوگوں کے عمل سے تمام قوم کے ذمہ سے اس فرض کا بوجھ سا قط ہوجائے صحاح ستہ کے چھیؤں کتابوں میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرعی جہاد وہ ہے جس میں فقط دین کی ترقی کے لئے لڑائی کی جائے۔ صرف دنیاوی فائدہ یا ناموری یا کسی بدلا لینے یا دکھاوے کے لئے جو لڑائی کی جائے گی۔ وہ شرعی جہاد نہیں ہے ١۔ خوف کی چیز سے بچنے کو حذر کہتے ہیں حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہتھیاروں سے فوج کی تعداد سے جب دشمن کا حملہ روکنے کے قابل ہوجاؤ تو پھر تھوڑے تھوڑے یا اکٹھے لڑائی کے لئے نکلو۔ پھر فرمایا بعض تم میں ایسے مسلمان بھی ہیں جو لڑائی پر جانے سے کچیاتے ہیں۔ اور جب تم کو کسی لڑائی میں کچھ صدمہ پہنچ جاتا ہے تو اپنی جان کی خیر منانے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے بڑی خیر کی کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ نہ تھے ورنہ ہمارا بھی یہی حال ہوتا جو ان کا ہوا۔ اور جب کسی لڑائی میں تم کو کچھ کامیابی ہوتی ہے تو بالکل غیروں کی طرح حسد سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تاکہ ہم بھی اس کامیابی کے حصہ دار ٹھہرتے ان کچے مسلمانوں کی حالت سے نفرت دلانے کے بعد پکے مسلمانوں کو دین کی لڑائی میں یوں ترغیب دلائی کہ جن لوگوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کو بیچ کر عقبیٰ کا اجر مول لیا ہے ان کو دین کی لڑائی پر ہمت باندھنی چاہیے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ ” لڑیں اللہ کی راہ میں “ کا ارشادان ہی کچے مسلمانوں کے حق میں ہے کہ پکے مسلمانوں کی فتح اور شکست پر گھر میں بیٹھ کر باتیں بنانے سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ ان لوگوں کو چاہیے کہ پکے مسلمان بن جائیں اور نیک نیتی سے دین کی لڑائی لڑیں۔ کیونکہ نیک نیتی کی دین کی لڑائی میں جان دینا فتح پانا دونوں حالتیں اجر عظیم سے خالی نہیں۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک نیتی سے دین کی لڑائی لڑنے والوں کو ہر طرح فائدہ ہے خدا کی راہ میں جان دی تو جنت کمائی جیتے بچ کر گھر آئے تو عقبیٰ کا اجر جدا کمایا۔ اور لوٹ کا مال جدا ہاتھ آیا ١۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:71) حذرکم۔ تمہارا بچاؤ۔ جس کے ذریعہ کیا جاتا ہے ۔ حذر کہلاتا ہے۔ مضاف مضاف الیہ۔ الحذر (س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا۔ قرآن حکیم میں ہے ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروھم (65:14) تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر سے یہاں مراد اسلحہ جنگ ... وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے۔ خذوا حذرکم احتیاطی تدابیر مکمل رکھو۔ اپنے بچاؤ کا انتظام پورا رکھو۔ اپنے بچاؤ کے ہتھیار موجود رکھو۔ مقابلہ کے لئے چوکنے اور تیار رہو۔ انفروا۔ تم نکلو۔ تم کوچ کرو۔ (نصر، ضرب) نفیر اور نفور سے۔ جس کے معنی نکلنے کوچ کرنے۔ اور بھاگنے (فرار ہونے) کے ہیں۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں نفر کے معنی کسی چیز کے لئے بیتاب ہونے کے ہیں یا اس سے بیزار ہونے کے ہیں۔ فانفروا۔ پس تم نکلو۔ بثات۔ جمع ۔ ثبۃ واحد۔ گروہ۔ ٹولے۔ ثبات ای فی ثبات۔ جمیعا۔ سب اکٹھے ہوکر ۔ جماعت کی صورت میں۔ انفروا۔ سے مراد مطلق باہر نکلنا بھی ہے اور جہاد کے لئے دشمنوں کے مقابلہ میں نکلنا بھی ہے یہاں دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ جنگ احد کے بعد دشمنوں کے حوصلے بلند ہوگئے تھے۔ اطراف و نواح کے قبیلوں کے تیور بدل گئے تھے اور وہ ہر وقت مسلمانوں کے درپے آزار تھے۔ اس لئے حکم ہوا کہ جب بھی باہر نکلو تو دشمنوں سے خطرہ کے پیش نظر مسلح ہوکر گروہ کی صورت میں نکلو تاکہ بوقت ضرورت خاطر خواہ مدافعت کرسکو۔ دوسری صورت میں پہلے خدا اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا۔ اور اب دین کی سربلندی کے لئے جہاد کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اور حکم ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں متفق و مجتمع حالت میں نکلو۔ اور باقاعدہ اسلحہ جنگ سے لیس ہوکر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار و معارف آیات نمبر 71 تا 76: یا ایہا الذین امنو خذوا حزرکم ۔۔۔۔۔۔ کان ضعیفا۔ اگر قریب ترین راستیہ چاہیے تو وہ بھی ہے جس میں اللہ کریم کا قرب بھی ہے اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت زیادہ قرب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےپناہ شفقت اور پیار ہے اور وہ ہے راہ حق میں جہاد اور قتا... ل کا راستہ کہ ایسے خوش نصیبوں کا تذکرہ ملتا ہے جو میدانِ کارزار میں ہی پہنچے ایمان لائے اور شہادت سے سرفراز ہوئے ان بڑے لوگوں میں شامل ہوگئے جن کے پاس حاضری کی اجازت دے کر اللہ کریم اپنے پیارے اور جنت کے باسی لوگوں پہ احسان فرما رہا ہے لیکن یاد رہے شہادت کے لیے خودکشی جائز نہیں کہ آدمی بغیر اسباب کا اہتمام کیے یا بغیر کسی ترتیب کے خواہ مخواہ میدان جنگ کی طرف مسلمانوں کو دوڑ لگوا دے اور وہ موت کے منہ میں چلے جائیں بلکہ ہتھیار لو سب پہلے اسلحے کا ہر ممکن اہتمام کرو پھر ترتیب سے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں یا بہت بڑے لشکر کی صورت میں۔ یہ امیر لشکر پہ منحصر ہے کہ موقع کی مناسبت سے جو حکم دے اس صورت میں باہر نکلو یعنی اسباب و ذرائع یا جسے تکنیک کہتے ہیں وہ ضروری ہے اس کے بعد نتیجہ اللہ کریم کے دست قدر میں ہے یہ بھی یاد رکھو کہ کچھ لوگ منافق بھی ضرور ہوں گے کہ جب قومیں عروج حاصل کرتی ہیں تو وقتی فوائد کے خواہشمند فورا وہاں جمع ہوجاتے ہیں ایسے لوگ مقابلے میں جانے کترائیں گے کبھی تیار میں دیر کردیں گے اور کبھی کوئی اور بہانہ کرلیں گے پھر اگر تمہیں اس جنگ میں تکلیف اٹھانا پڑی یا وقتی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تو کہیں گے دیکھا ہماری قسمت ہم کو خدا نے اس مصیبت سے صاف بچا لیا۔ یعنی دوسرے مسلمانوں کے دکھ کو صرف اس لیے محسوس نہ کرنا کہ میں خود تو اس سے محفوظ ہوں منافقت ہے اور اگر تمہیں فتح نصیب ہوگئی مال غنیمت ہاتھ آیا تو اب لگے ہاتھ ملنے یعنی دوسرے مسلمانوں کو فتح نصیب ہونے کی یا مال ملنے کی کوئی خوشی نہیں یا وہ ان کے کچھ نہیں لگتے انہیں تو بس افسوس ہے کہ کاش میں بھی وہاں ہوتا تو خوب بڑھ چڑھ کے فتح میں حصہ لیتا ان کی بدنصیبی نے انہیں یہاں بھی نہ رہنے دیا سو اول ضرورت قلبی خلوص کی ہے دل میں اللہ کو بسانے کی ہے کہ جو عمل بھی کیا جائے اگرچہ اس سے دنیا کا نفع بھی حاصل ہو اور یہ انعام الہی ہے مگر غرض اللہ کی اطاعت ہونا چاہیے۔ اور جو لوگ محض دنیا کی چند روز عیش کے لیے آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہیں انہوں نے صرف یہ ہی نہیں کہ اپنا نقصان کرلیا ہے بلکہ اللہ کریم کے حکم کی پرواہ نہیں کی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے سو ان کا علاج تلوار ہے صرف تلوار ان سے مومن کی جنگ تب تک رہے گی جب تک ایسی قوتیں دنیا کے کسی حصے میں موجود ہیں۔ رہی مومن کی بات تو ہار شکست اس کی قسمت میں نہیں اگر مارا گیا تو شہید ہوگا بہت بڑا درجہ پالے اگر زندہ رہا تو بھی غازی بن کر اللہ کریم کے انعامات ظاہری فتح اور غنیمت کی صورت میں اور باطنی اس کے انوارات و تجلیات کی صورت میں پاتا رہے گا اور پھر تمہارے پاس تو لڑائی کے بغیر چارہ ہی نہیں بھلا تو کیسے نہیں لڑوگے جبکہ کمزور اور بےکس مرد ، عورتیں ، بچے ہر وقت مجھے پکار رہے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس شہر سے نکال کرلے جا جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی حمایت کرنے والے اور مدد کرنے والے بھیج دے مکہ مکرمہ میں کچھ ضعفاء مسلمین رہ گئے تھے جن کو نہ تو مشرکین ہجرت ہی کرنے دیتے تھے اور نہ عبادت کی آزادی تھی تو انہوں نے کسی خلوص سے دعا مانگی کہ مقصد اعلی مقامات یا مبارک جگہوں پہ رہنا نہیں بلکہ مقصد اللہ کریم کی عبادت ہے اس کی اطاعت ہے اگر پیشانی اس کے دروازے سے محروم ہوجائے تو کسی بھی جگہ رہنے سے حاصل تو کیا ہوگا جواب طلبی سخت ہوجائے گی کہ ایسے مبارک مقام پر بھی تم جھوٹ سے یا برائی سے باز نہیں آئے اللہ ہمیں اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین دوسرے جو بات یہاں واضح ہوگئی وہ یہ ہے کہ وہ گھر وہ جائداد وہ قبیلہ اور برادری حتی کہ وہ ملک تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو اللہ کریم کی عبادت سے مانع ہو اسے چھوڑ دینا عبادت چھوڑنے سے بدرجہا بہتر ہے اور اگر غربت و افلاس یا کسی دوسری وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا تو کم از کم خلوص کی ساتھ اللہ کریم سے دعا کرتا ہے کہ خدا ایسے لوگوں کے درمیان پہنچا دے جہاں تیری عبادت کرنا تیرا نام لینا اور تجھے یاد کرنا نصیب ہوجائے کہ تو سب کچھ کرسکتا ہے۔ تو اسباب کا محتاج نہیں ہے غیب سے سامان پیدا کرسکتا ہے اور ایسے افراد کی آزادی کے لیے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کے لیے نہ صرف مسلمان بلکہ کافر کو بھی جو اس کا حق بنتا ہے بلا روک ٹوک دلانے کے لیے مومن پہ جہاد فرض ہے اسی لیے یہاں انداز بیان ہی بڑا پیارا ہے کہ بھلا تم کیسے نہیں لڑوگے جبکہ غریب مسلمان سسک کر بلک بلک کر دعا مانگ رہے ہیں اور دعا ہی سب مصائب کا بہترین حل ہے ہاں خلوص سے ہو اور دعا ہو اللہ کریم کے لیے اسے حکم نہ سمجھا جائے کہ ہم نے فرما دیا اب کیسے نہیں ہوگا۔ رہا مومن کا جہاد تو مومن جنگ کرتا ہی نہیں جنگ مخالف کو تباہ کرنے اسے نیچا دکھانے اور رسوا کرنے کے لیے ہوتی ہے جو اسلام نے جائز نہیں رکھی بلکہ مومن اللہ کی راہ میں لڑتا ہے اور جب بھی کوئی اللہ کا قانون تسلیم کرلے مومن کا ہاتھ رک جاتا ہے کہ مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کا منوانا ہے اور بس کوئی ایمان لاکر مانے یا بغیر اس کے تسلیم کرلے سب کے حقوق جدا جدا ہیں اور کافر تو لڑتا ہی شیطان کے بہکانے پر ہے اس کا مقصد ہی تباہی پھیلانا تو ہوتا ہے شہر اجاڑنا خون بہانا فصلیں تباہ کرنا اخلاقیات تباہ کرنا غرض انسانی کمالا اور اوصاف کا دشمن ہوتا ہے۔ فقاتلوا اولیاء الشیطان۔ بڑا خوبصورت بامحاورہ ترجمہ بنتا ہے مارو ان بےایمانوں کو کہ شیطان کے مکر بڑے بودے اور کمزور ہوتے ہیں یہ تمہارا مقابلہ نہیں کرپائیں گے علماء حضرات اس آیہ کریمہ کا اکثر تقاریر میں حوالہ دیا کرتے ہیں کہ شیطان کے مکر اور تدابیر کمزور ہوتی ہیں مگر یاد رہے یہ صرف ان لوگوں سے فرمایا جا رہا ہے جو اللہ کی راہ میں جان بھی ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں یعنی جس درجے کا خلوص ذات باری سے نصیب ہوگا اتنا ہی مقابلے میں شیطان کمزور ہوگا ورنہ ہر کسی کے لیے ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 71-76 لغات القرآن : حذر، بچاؤ۔ انفروا، نکلو۔ ثبات، الگ الگ۔ لیبطئن، البتہ وہ دیر کرے گا۔ مودۃ، دوستی۔ یلیتنی، اے کاش کہ میں۔ افوز، میں کامیاب ہوں (کامیاب ہوجاتا ہے) ۔ یقتل، قتل کیا گیا۔ یغلب، غالب آئے گا۔ المستضعفین، کمزور، الولدان، بچے۔ اخرجنا، ہمیں نکال۔ اولیاء الشیطن، شیطان کے دوست اور س... اتھی۔ کید، فریب، دھوکہ۔ تشریح : ان آیات میں قتال یعنی فوجی حکمت عملی پر بہت زور دیا گیا ہے، جنگ احد کے بعد کفار اور منافقین یہ سمجھ کر ہر طرف سے منڈ کر آنے لگے کہ مسلمان کمزور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرماتے ہوئے مسلمانوں کو قتال کا حکم دے دیا اور یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی کہ اہل طاغوت بڑے زور و شور سے اٹھتے ہیں اور بڑی بڑی جنگی تدبیریں کرتے ہیں مگر ان کی تمام چالیں آگے چل کرنا کام ہو کر رہیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ نہ صرف تم مومن رہو بلکہ صرف اللہ کی راہ میں لڑنے کی ٹھان لو جس میں تمہارا کوئی دنیاوی مقصد نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے اجر عظیم اور بڑی کامیابی کا وعدہ کیا ہے مگر تخصیص نہیں کی کہ یہ انعامات کہاں ملیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ انعامات تو آخرت میں ضرور مل کر رہیں گے مگر دنیاوی کامیابی بھی عین ممکن ہے۔ بہرکیف مومن کو صرف اخروی انعامات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ اس نے اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے لئے فروخت کردیا ہے۔ جہاد و قتال کے بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن ایک بڑا مقصد ان لوگوں کی مدد کو پہنچنا ہے جو دنیا بھر میں ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں محض اس لئے کہ وہ اہل ایمان ہیں۔ اس وقت عرب میں بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں کافروں کا زور تھا اور وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم توڑ رہے تھے۔ اگر ان مظلوم مسلمانوں کو بےیارومددگار چھوڑ دیا جائے گا تو نہ صرف وہ ختم کر دئیے جائیں گے بلکہ اسلام کا پھیلنا مشکل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جہاد و قتال کی تین تدبیریں بتائی ہیں۔ (1) یہ کہ حالات نازک ہیں۔ مسلح رہو اور مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ یعنی جنگی تیاریوں سے غافل نہ ہو۔ (2) یہ کہ جب تم نکلو تو جماعت بن کر خواہ چھوٹی جماعت ہو یا بڑی جماعت کیونکہ کسی بھی جماعت کیلئے تنظیم ہی جان ہوا کرتی ہے۔ (3) یہ کہ منافقین سے ہوشیار رہو۔ تمہاری صفوں کے اندر منافقین موجود ہیں۔ اور منافق وہ ہے جو جہاد و قتال سے جی چراتا ہے۔ جسے اسلام سے نہیں بلکہ سراسر اپنے دنیاوی مفاد سے دلچسپی ہوتی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی ان کے داو گھات سے بھی ہوشیار رہو اور مقاتلہ کے وقت سامان ہتھیار ڈھال تلوار سے بھی درست ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اطاعت رسول کا حکم اور اس کے ثمرات بیان کرنے کے بعد جہاد کا حکم دیا ہے تاکہ اطاعت رسول کرنے والے جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ اسلام اور کفر کی پندرہ سالہ کشمکش اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ معرکۂ بدر میں مسلمانوں کو بےمثال کا میابی حاصل ہوئی اور احد میں کفار کا پلڑا بھاری رہا۔ جس سے...  کفار اور یہود و نصارٰی کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ وہ سوچنے لگے کہ مسلمانوں کو ختم کرنا ناممکن کام نہیں لہٰذا اب فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے کہ ایک فریق ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوجائے۔ اس بنا پر اہل مکہ اور یہود نے مدینہ کی چاروں جانب سازشوں کے جال بننا شروع کردیئے جس کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) کو گشت کے لیے بھیجا کرتے تھے تاکہ کفار کی نقل و حرکت کا بروقت علم ہو سکے۔ انہی حالات میں یہ حکم نازل ہوا کہ مسلمانو ! ہر وقت چاک و چوبند رہو اور اپنا اسلحہ پکڑے رکھو۔ مراد یہ ہے کہ اسلحہ اس قدر قریب اور تیار ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالت میں وقت ضائع کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے۔ پھر جنگ کے بارے ہدایات دیں کہ حالات کے مطابق تم گوریلا جنگ کرویا منظم طریقہ کے ساتھ جماعت کی صورت میں حملہ آور ہو تمہیں ہر طرح میدان کار زار میں اترنے کے لیے آمادہ و تیار رہنا چاہیے۔ اسی سے جنگ کے متعلق قوموں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مضبوط دفاع ہی قوموں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لہٰذا دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکس رہنا چاہیے۔ اس کے بعد منافقوں کے عزائم سے آگاہ کیا گیا کہ یہ تمہاری آستینوں کے سانپ اور گھر کے بھیدی ہیں ان کی سازشوں سے آگاہ رہنا نہایت ضروری ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی مشکل اور افتاد آپڑتی ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ہم پر انعام کیا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے۔ اگر تمہیں کامیابی نصیب ہو تو حسرت و افسوس سے کہتے ہیں کہ کاش ! ہم بھی اس عظیم کامیابی میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتے۔ (عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَۃَ بْنَ الأَکْوَعِ قَالَ مَرَّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُونَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا بَنِی إِسْمَاعِیلَ ، فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِی فُلاَنٍ قَالَ فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیقَیْنِ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا لَکُمْ لاَ تَرْمُونَ قَالُوا کَیْفَ نَرْمِی وَأَنْتَ مَعَہُمْ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیضِ عَلَی الرَّمْیِ ] ” حضرت یزید بن ابی عبید کہتے ہیں میں نے سلمہ بن اکوع (رض) سے سنا کہ ایک دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسلم قبیلہ کے چند لوگوں پر گذر ہوا جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اسماعیل کی اولاد تیر اندازی کرو یقیناً تمہارے آباء بھی تیر انداز تھے تیر اندازی کرو میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں تو دوسرے فریق نے مقابلہ کرنا چھوڑدیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے انہوں نے عرض کی کہ ہم تیر اندازی کیونکر کریں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم تیر اندازی کرو میں سبھی کے ساتھ ہوں “ مسائل ١۔ امت کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جہاد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو ہر وقت اپنا دفاع مضبوط رکھنا چاہیے۔ ٣۔ حالات کے مطابق جہاد انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنا چاہیے۔ ٤۔ منافق مسلمانوں کی آزمائش میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٥۔ منافق کو دنیا اور آخرت میں پچھتاوا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں مضبوط دفاع : ١۔ تھوڑے ہو یا زیادہ دفاع مضبوط رکھو۔ (النساء : ٧١) ٢۔ کفار کے مقابلے میں ہر دم تیار رہو۔ (الانفال : ٦٠) ٣۔ دفاعی قوت کے ذریعے اسلام دشمنوں کو مرعوب رکھو۔ (الانفال : ٦٠) ٤۔ اسلحہ سے غافل نہ رہو۔ (النساء : ١٠٢) ٥۔ نماز میں اسلحہ اپنے پاس رکھو۔ (النساء : ١٠٢) منافق کی حسرتیں : ١۔ جنگ میں نہ جاتے تو زندہ رہتے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٢۔ با اختیار ہوتے تو قتل نہ ہوتے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ ہماری بات مان لیتے تو نہ مرتے۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ کاش ہم فتح کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ہوتے۔ (النساء : ٧٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ٧١ تا ٧٤۔ یہ اہل ایمان کو نصیحت ہے ۔ یہ عالم بالا کی قیادت سے ان کے لئے ہدایات ہیں ‘ جن کے اندر ان کے لئے منہاج عمل درج کیا گیا ہے ، مستقبل کا راستہ متعین کیا گیا ہے ۔ جب انسان قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے ‘ تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کتاب اہل ایمان کے لئے معرکہ جہاد کی عمومی اسکیم...  بھی تیار کرتی ہے ۔ جنگ کی اسٹریٹیجی بھی قرآن میں درج کی جا رہی ہے ۔ ایک دوسری آیت میں ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا قاتلو الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ ان لوگوں کے ساتھ قتال کرو جو کفار میں سے تمہارے قریب ہیں ۔ اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی پائیں ۔ “ اسلامی تحریک کے لئے یہ عام منصوبہ ہے ۔ اس آیت میں اہل ایمان کو کہا جاتا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا خذوا حذرکم فانفروا اثبات اوانفروا جمیعا “۔ (٤ : ٧١) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو ‘ پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر “۔ یہ عملی اقدام کی اسکیم کا ایک حصہ ہے جسے ٹیکٹکس کہتے ہیں ۔ اور سورة انفال میں بھی بعض ایسی ہدایات دی گئی ہیں جو میدان جنگ کے بارے میں ہیں ۔ (آیت) ” فاما تثقفنھم فی الحرب فشردبھم من خلفھم لعلھم یذکرون) ” پس اگر تم انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہیں ان کو بھاگتے دیکھ کر خود بھی بھاگ کھڑے ہوں اور شاید وہ بدعہدی کے انجام سے عبرت پکڑیں ۔ “ یہ ہے قرآن مجید ‘ اس میں مسلمانوں کو صرف عبادات اور مراسم عبودیت ہی نہیں سکھائے گئے اور نہ اس میں صرف انفرادی اسلامی آداب اور اخلاق ہی سکھائے گئے ہیں ۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا اس دین کے بارے میں ایسا فقیرانہ تصور ہے بلکہ یہ قرآن کریم لوگوں کی زندگی کو پورے طور پر (As A Whole) لیتا ہے ۔ یہ زندگی کے عملی واقعات میں سے ہر ایک واقعہ پر اپنا فیصلہ دیتا ہے ۔ اور پوری زندگی کے لئے مکمل ہدایات دیتا ہے ۔ یہ کتاب ایک مسلمان فرد اور ایک مسلمان معاشرے سے ‘ اس سے کم کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتی کہ انکی پوری پوری زندگی اس کتاب کے مطابق بسر ہو ۔ اس کتاب کے تصرف میں ہو ‘ اس کی ہدایات کے مطابق بسر ہو ۔ خصوصا یہ کتاب کسی مسلمان فرد اور سوسائٹی کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کے لئے متعدد نظام اختیار کرلیں جن کے اصول مختلف ہوں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ذاتی نظام ‘ عبادات اور اخلاق وآداب کا نظام تو وہ کتاب اللہ سے لے لیں ‘ اور اقتصادی ‘ اجتماعی ‘ سیاسی اور بین الاقوامی معاملات میں ہدایات کسی دوسری کتاب یا کسی انسان کے دیئے ہوئے تصورات سے اخذ کرلیں۔ اس کتاب کے مطابق انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی فکر اور تصورات اس کتاب اور اس کے منہاج سے اخذ کرے اور اپنی زندگی کے لئے تفصیلی احکام اس کتاب سے لے کر زندگی کے واقعات پر ان کا انطباق کرے ۔ اس لئے کہ زندگی کے اندر مسلسل نئے نئے مسائل اور حالات پیش آتے رہتے ہیں اور یہ احکام وہ اس طرح مستنبط کرے جس طرح اس سبق سے پہلے سبق میں اس کی تفصیلات خود اس کتاب نے دی ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ اس کتاب نے کھلا نہیں چھوڑا ورنہ ‘ نہ ایمان ہوگا اور نہ اسلام ۔ سرے سے اسلام اور ایمان ہوگا ہی نہیں اس لئے کہ جو لوگ اس کتاب کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرتے وہ ایمان اور اسلام میں داخل ہی نہیں ہوتے اور گویا انہوں نے ارکان اسلام کا اعتراف ہی نہیں کیا ہے ۔ ان ارکان میں سے پہلا کلمہ شہادت (لاالہ الا اللہ) جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی شارع نہیں ہے ۔ یہ ہے قرآن کریم جو اس معرکے میں مسلمانوں کے لئے میدان جنگ کا منصوبہ بناتا ہے جو اس وقت ان کے موقف کے ساتھ شامل تھا ‘ اور جو ان کے وجود کے لئے ضروری تھا کیونکہ ان کے اردگرد ہر طرف بیشمار مخالفتیں تھیں ‘ جن میں وہ گھرے ہوئے تھے ۔ اسلامی مملکت کے اندر یہودی اور منافقین مسلمانوں کے خلاف گہری سازشیں کر رہے تھے ۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مومنین کو خبردار کرتے ہیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا خذوا حذرکم فانفروا اثبات اوانفروا جمیعا “۔ (٤ : ٧١) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو ‘ پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر “۔ ثبات ثبت کی جمع ہے ‘ یعنی مجموعہ ‘ حکم یہ ہے کہ جہاد کے لئے اکیلے نکلنا جائز نہیں ہے ۔ جہاد کے لئے یا تو چھوٹے چھوٹے دستوں کی شکل میں نکلو یا بڑے لشکر اور فوج کی شکل میں نکلو ‘ جس طرح کا معرکہ درپیش ہو ‘ اس لئے کہ افراد کو دشمن سہولت سے پکڑ سکتا ہے ‘ اور اس وقت دشمن ہر طرف پھیلا ہوا تھا ۔ اس وقت بالخصوص یہ حکم تھا ‘ اس لئے کہ اس دور میں دشمن اسلام کے مرکز میں پھیلے ہوئے تھے ۔ اور مدینہ میں یہودیوں اور منافقین کی صورت میں کھلے پھرتے تھے ۔ (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن فان اصابتکم مصیبۃ قال قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شیھدا (٧٢) ولئن اصابکم فضل من اللہ لیقولن کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ یلیتنی کنت معھم فافوز فوزا عظیما “۔ (٧٣) (٤ : ٧٢۔ ٧٣) ” ہاں ‘ تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے ۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ گیا ۔ اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا ۔ “ منظم دستوں کی شکل میں نکلو یا سب کے سب نکلو ‘ یہ نہ ہو کہ تم میں بعض لوگ تو نکلیں اور بعض لوگ سستی کریں ۔ جیسا کہ بعض لوگ سستی کر رہے ہیں ‘ اور ہر وقت تیار ہو ۔ صرف خارجی دشمن کے مقابلے میں نہیں بلکہ ان اندرونی دشمنوں کے مقابلے میں بھی ‘ ان لوگوں کے مقابلے میں بھی تیار رہو جو پہلو تہی کرتے ہیں ‘ لڑائی سے جی چراتے ہیں اور جو شکست خوردہ ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو جہاد سے روکتے اور سستی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی جنگ سے روکتے ہیں شکست خوردہ ذہنیت کے لوگوں کی عادت بالعموم ایسی ہی ہوتی ہے ۔ (لیبطئن) کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے اس کے اندر ایک قسم کا بھاری پن اور پھسلن پائی جاتی ہے ۔ اس کے حروف کی ادائیگی اور صوتی حرکت کے اندر بھی ایک قسم کی پھسلن پائی جاتی ہے ۔ اور جب زبان اس کے آخری اور مشدد حرف کو ادا کرتی ہے تو اس میں بھی کھچاؤ ہے ۔ ایک لفظ کے ساتھ اس پوری نفسیاتی کشمکش کو ادا کردیا گیا جو ایسے لوگوں کے ذہن میں ہوتی تھی اور خود لفظ جو اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا گیا ہے پوری کشمکش اپنے اندر رکھتا ہے ۔ جس طرح مفہوم بھاری ہے اس طرح لفظ بھی بھاری استعمال کیا گیا ہے اور یہ وہ کمال درجے کا اسلوب ادا ہے جو صرف قرآن کا خاصہ ہے ۔ (دیکھئے التصویر الفئی فی القرآن ‘ فصل تناسق) اس لفظ کے بعد پھر (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن “۔ (٤ : ٧٢) کے پورے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری طرح سست روی کا شکار ہیں ‘ یہ لوگ معدودے چند ہیں اور ان کو اس پہلو تہی پر پوری طرح اصرار ہے ۔ وہ اس میں سخت کوشاں ہیں اور یہ بات ان تاکیدی حروف سے معلوم ہوتی ہے جو اس فقرے میں استعمال ہوئے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ اپنے رویے پر مصر ہے اور اسلامی محاذ پر اس کا اثر پڑ رہا ہے اور بہت برا اثر ہو رہا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم ان کے بارے میں تفصیلی وضاحتیں کرتا ہے ۔ ان کے دلوں کے اندر پوشیدہ رازوں کا انکشاف کرتا ہے ۔ ان کی قابل نفرت حقیقت کی خوب تصویر کشی کرتا ہے اور یہ قرآن کریم کا عجیب معجزانہ انداز ہے ۔ یہ لو یہ لوگ تمہارے سامنے ہیں ‘ اپنے پورے ارادوں کے ساتھ ‘ اپنے مکمل مزاج اور اپنے اقوال وافعال کے ساتھ ‘ بالکل سامنے ‘ آنکھوں کے سامنے بالکل ننگے کھڑے ہیں ۔ گویا انہیں مائیکرو اسکوپ کے نیچے کھڑا کردیا گیا ہے ۔ اور یہ اندرونی مائیکرواسکوپ انکے دلی رازوں کا افشا کر رہا ہے اور ان کے تمام اغراض ومقاصد اس سے واضح ہو رہے ہیں ۔ دیکھو یہ لوگ ہیں ‘ جو عہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نظر آتے ہیں اور آپ کے عہد کے بعد ہر زمان ومکان میں یہ قسم یوں ہی باقی رہے گی ۔ یہ کیا ہیں ؟ کمزور ‘ منافق اور آئے دن بدلنے والے ‘ جن کے مقاصد نہایت ہی چھوٹے ہیں ‘ نہایت پیش پا افتادہ ‘ جو اپنے ذاتی مفادات اور شخصی فائدے سے اعلی کسی اور فائدے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ۔ وہ اپنی شخصیت سے اونچے افق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ‘ یہ لوگ پوری دنیا کو ایک ہی محور کے گرد گھماتے ہیں اور یہ محور ان کی ذات اور ذاتی مفادات کا محور ہے ‘ اسے وہ کبھی نہیں بھولتے ۔ یہ لوگ سست اور ڈھیلے ہیں اور آگے بڑھنے والے نہیں ہیں کہ اپنے اصل مقام پر جا کھڑے ہوں ‘ اور نفع ونقصان کے بارے میں ان کا جو تصور ہے وہ گھٹیا درجے کے منافقین کے لائق ہے ۔ یہ لوگ معرکہ جہاد سے پیچھے رہنے والے ہیں ‘ اگر مجاہدین پر مصیبتیں آجائیں اور وہ مبتلائے مشکلات ہوجائیں جس طرح اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے تو یہ پسماندہ لوگ بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ جہاد سے ان کا فرار اور مشکلات سے ان کا بچ نکلنا ان کے لئے مفید ہے ۔ (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن فان اصابتکم مصیبۃ قال قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شیھدا (٤ : ٧٢۔ ) ” ہاں ‘ تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے ۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ گیا ۔ ایسے لوگوں کو اس بات سے شرم نہیں آتی کہ وہ بزدلی کی اس زندگی کو اللہ کی نعمت تصور کرتے ہیں اور پھر وہ اسے اس اللہ کا فضل کہتے ہیں جس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ لوگ پیچھے بیٹھ گئے ہیں ایسے حالات میں اگر کوئی بچ بھی نکلے تو وہ کبھی نعمت خداوندی نہیں پا سکتا کیونکہ اللہ کی نعمت اللہ کے حکم کی خلاف ورزیاں کرکے نہیں ملتی اگرچہ بظاہر وہ صاحب نجات نظر آئیں یہ بیشک ایک نعمت ہوگی مگر ان لوگوں کے نزدیک جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ نہیں کرتے ۔ یہ ان لوگوں کے نزدک بچنا ہے جو یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا مقصد تخلیق کیا ہے ؟ اور وہ اطاعت کرکے اور جہاد کرکے اللہ کی غلامی نہیں کرتے تاکہ وہ اسلامی نظام حیات کو دنیا میں قائم کریں ۔ یہ ان لوگوں کے نزدیک نعمت ہے جن کی نظریں اپنے قدموں کے آگے بلند آفاق پر نہیں پڑ سکتیں ۔ یہ چیونٹیوں کی طرح کے لوگ ہیں ‘ یہ نجات ان لوگوں کے نزدیک نعمت ہے جو اس بات کا احساس نہیں رکھتے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کی مشکلات برداشت کرنا اسلامی نظام کے قیام کے لئے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور یہ اللہ کا خصوصی انتخاب ہے جس کے ذریعے وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے منتخب کرلیتا ہے تاکہ وہ دنیا کی اس زندگی میں بشری کمزوریوں پر قابو پائیں ۔ اس طرح وہ انہیں دنیا کی قید سے رہائی دلاتا ہے ۔ وہ ایک برگزیدہ زندگی پر فائز ہوجاتے ہیں ‘ وہ زندگی کے مالک ہوجاتے ہیں اور زندگی ان کی مالک نہیں ہوتی ۔ تاکہ یہ آزادی اور یہ سربلندی ان کو ان بلندیوں تک لے جائے جو آخرت میں شہداء کے لئے مقرر ہیں ۔ بیشک سب لوگ مرتے ہیں لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے والے ہی شہید ہوتے ہیں اور یہ اللہ کا فضل عظیم ہے۔ اگر صورت حال دوسری پیش آجائے اور مجاہدین کامیاب ہوجائیں ‘ وہ جو یہ تیاری کرکے نکلے تھے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو پیش آتا ہے ‘ آئے اور انہیں اللہ کا فضل نصیب ہوجائے ‘ فتح اور غنیمت کی صورت میں تو یہ پیچھے رہنے والے لوگ سخت نادم ہوتے ہیں کہ وہ کیوں نہ اس نفع بخش معرکے میں شریک ہوئے ۔ اس فائدے میں ان کے نزدیک نہایت ہی گھٹیا معیار ہوتا ہے ‘ خالص دنیاوی معیار ۔ (آیت) ” ولئن اصابکم فضل من اللہ لیقولن کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ یلیتنی کنت معھم فافوز فوزا عظیما “۔ (٤ : ٧٣) ” اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا۔ یہ نہایت ہی گھٹیا خواہش ہے محض مال غنیمت کی خواہش اور اسے یہ شخص فوز عظیم سے تعبیر کرتا ہے ۔ مومن بھی مال غنیمت کے ساتھ واپسی کو برا تو نہیں سمجھتا بلکہ اس سے توقع تو یہی ہے کہ وہ بھی اللہ سے ایسی کامیابی مانگے ۔ اور مومن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ مشکلات کی طلب کرے بلکہ مطلوب تو یہ ہے کہ وہ عافیت کی دعا کرے ۔ مومن کا مجموعی تصور ان متخلفین کے تصور سے بالکل جدا ہوتا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں کے تصور کو قرآن کریم نہایت ہی مکروہ صورت میں پیش کرتا ہے جو قابل نفرت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بھی مشکلات اور مصائب کی تمنا نہیں کرتا بلکہ عافیت کا طلبگار ہوتا ہے لیکن اسے جب جہاد کی طرف بلایا جائے تو وہ بوجھل قدموں کے ساتھ آگے نہیں بڑھتا ۔ جب وہ نکلتا ہے تو وہ دو اچھے انجاموں میں سے ایک کا طالب ہوتا ہے یا نصرت و کامرانی کا یاشہادت فی سبیل اللہ کا اور یہ دونوں ہی اللہ کے فضل میں سے ہیں اور دونوں ہی فوز عظیم ہیں ۔ اہل ایمان کی قسمت میں یا تو شہادت آجاتی ہے تو پھر بھی وہ راضی برضا ہوتے ہیں اور اس گروہ میں جاتے ہیں جو شہادت کے مقام پر فائز ہوا ۔ یا وہ زندہ مال غنیمت کے ساتھ واپس آتا ہے تو اس صورت میں وہ اللہ کے فضل پر شکر گزار ہوتا ہے اور اس کی جانب سے آئی ہوئی فتح پر خوش ہوتا ہے مگر یہ خوشی محض زندہ بچ جانے کی وجہ سے نہیں ہوتی ۔ یہ ہے وہ اعلی افق جس کے بارے میں اللہ کا ارادہ ہے کہ اہل ایمان اپنی نظریں اس پر رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ان اہل ایمان میں سے اس فریق کی تصویر ان کے سامنے کھینچتے ہیں اور یہ انکشاف فرماتے ہیں کہ تمہاری صفوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو جہاد سے پہلو تہی کرنے والے ہیں اور یہ انکشاف اس لئے کیا جاتا ہے کہ اہل ایمان ان سے چوکنے رہیں جس طرح وہ ظاہری دشمنوں سے چوکنے رہتے ہیں۔ اس طرح متنبہ کرنے اور اس دور میں جماعت مسلمہ کو مواقع عبرت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ایک ایسے انسانی ماڈل کا ایک عام نمونہ یہاں منقش کرتا ہے ‘ جو ہر دور اور ہر جگہ بار بار سامنے آتا رہتا ہے اور یہ تصویر کشی قرآن مجید چند الفاظ کے اندر کرتا ہے ۔ یہ حقیقت جماعت مسلمہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے اس لئے کہ اسلامی حلقوں کے اندر ہمیشہ ایسے لوگ پائے جاسکتے ہیں ۔ جماعت کو ایسے لوگوں کی حرکات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنی تیاری کو ہر حال میں مکمل رکھنا اور آگے بڑھنا چاہئے ۔ ہر وقت تربیت ہدایت اور جہد مسلسل کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ جماعت تمام نقائص سے پاک ہو۔ اپنی کمزوریوں کا مداوا ہر وقت ہوتا رہے اور جماعت کے عملی اقدامات ‘ اس کے نظریات اور اس کی تمام حرکات کے درمیان باہم ربط ہو۔ اب اگلی آیت میں یہ سعی کی جاتی ہے کہ یہ سست رو ‘ پہلو تہی کرنے والوں اور دنیاوی گندگیوں میں آلودہ لوگوں کو قدرے اٹھایا جائے اور ان کے حس و شعور میں اس دنیا سے آگے آخرت کا شعور پیدا کیا جائے ۔ ان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ دنیا کو فروخت کرکے آخرت کو خریدنے والے بنیں ‘ اور اس کام میں انہیں دو اچھے انجاموں میں سے ایک ضرور نصیب ہوگا یا تو فتح ونصرت سے ہمکنار ہوں گے یا شہادت ان کو نصیب ہوگی ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دشمنوں سے ہوشیار رہنے اور قتال کرنے کا حکم ان آیات میں اول تو مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ دشمنوں کی جانب سے چوکنے رہیں ہتھیار تیار رکھیں اور موقع کے مطابق نکل کھڑے ہوں، جہاں چھوٹی جماعتوں سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں چھوٹی جماعتیں چلی جائیں اور جہاں بڑی جماعت کی ضرورت ہو وہاں بڑی جماعت چلی جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 49 دوسرا حکم سلطانی (اٹھو اور ہتھیاروں سے مسلح ہو کر مشرکین سے جہاد کرو) حِذْرٌ سے جنگی ہتھیار مراد ہیں جیسا کہ امام مقاتل اور محمد باقر سے مروی ہے ای عدتکم من السلاح قالہ مقاتل وھو المروی عن ابی جعفر (رض) (روح ج 5 ص 79) اور ثبات جمع ثُبَۃٌ کی اور ثُبَۃٌ اس جماعت کو کہتے ہیں جس میں دس سے زیادہ آد... می ہوں (ایضا) اور فَانْفِرُوْا کی ضمیر سے حال ہے یعنی جب جہاد کی مہم درپیش ہو تو بلا توقف جہاد میں کود پڑو جیسا بن پڑے یا جیسا موقع و محل کے مناسب ہو سب مل کر دشمن پر حملہ کردو یا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں حملہ کرو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! اپنے بچائو کا سامان لے لو اور جو احتیاطی تدابیر کرسکتے ہو وہ کرلو، پھر کافروں سے جنگ کرنے کی غرض سے خواہ چھوٹی ٹولیاں بنا کر اور چند آدمی مل مل کر نکلو یا سب اکٹھے اور مجتمع ہو کر نکلو یعنی جیسا موقع دیکھو اس کے مطابق نکلو (تیسیر) حذر اور حذر دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے اثر اور...  اثر حذر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے دشمن کے مقابلہ میں اپنا بچائو کیا جائے وہ بچائو ہتھیاروں سے ہو یا ڈھال سے ہو یا اور کسی احتیاطی تدبیر سے ہو سب کو حذر کہا جاتا ہے۔ ثبۃ ایک چھوٹی سی جماعت کو کہتے ہیں جو دس آدمیوں کی یا دس سے زائد کی ہو بعض نے کہا جو جماعت دو سے اوپر ہو اس کو ثبۃ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بنا کر دشمن کا مقابلہ کرنے نکلو یا ایک جیش اور لشکر بنا کر کوچ کرو جیسا موقع دیکھو اور جس قسم کی لڑائی ہو اسی قسم کی لشکر میں ترتیب اختیار کرو۔ شاید یاد ہوگا ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کافر اور منافق اہل کتاب جس قسم کی شرارتیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی ترقی میں جس طرح رکاوٹ پیدا کرتے تھے اسی قسم کے احکام ان کے مقابلہ کے لئے وقتاً فوقتاً نازل ہوتے تھے اور اس قسم کے جہاد و قتال کے احکام نازل ہونے سے منافقوں کی حقیقت کا خو پتہ چلتا تھا اور مسلمانوں کو اپنے اور بیگانے میں امتیاز ہوجاتا تھا اگرچہ روزمرہ کے معاملات میں بھی منافقوں کی کمزوریاں ظاہر ہوتی رہتی تھیں لیکن جہاد کے موقعہ پر ان کی حالت عجیب و غریب ہوتی تھی اور ان کو اپنا کفر و نفاق چھپانا مشکل ہوجاتا تھا اور نیز یہ کہ کچے اور خام مسلمانوں کا خال معلوم ہوجاتا تھا چناچہ آگے اسی قسم کے لوگوں کا حال مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی لڑائی میں اپنا بچائو کرنا زرہ کر یا سپر کر یا تدبیر کر یا ہنر کر منع نہیں۔ (موضح القرآن) ہم نے ابھی عرض کیا تھا کہ حذر کا مفہوم بہت عام ہے اس لئے حضرت شاہ صاحب نے سب صورتیں بیان فرما دیں اور احکام الٰہی کی ترتیب کا حسن ملاحظہ ہو کر پہلے بچائو کے سامان کا حکم دیا پھر جہاد کے لئے نکلنے کو فرمایا جو لوگ احتیاطی تدابیر اور سامان کی فراہمی سے بےنیازی برتتے ہیں ان کو غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سامان حفاظت کو خروج پر مقدم فرمایا ہے۔ اب آگے بعض ان لوگوں کا حال ہے جو نکلنے میں توقف اور ٹال مٹول کرتے ہیں اور نتیجہ کا انتظار کرتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more