Before this, there was the command to obey Allah and His Messenger. Now, in the present verses, Jihad has been prescribed for the obedient and faithful so that they can vitalize their Faith and raise the word of Allah high and supreme. (Qurtubi) Commentary Important Notes In the first part of the verse: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ اَلخ (0 those who believe, take your precaut... ions ...), appears the command to ensure the supply of weapons, while the later part refers to the launching of Jihad action. This tells us two things right away. Firstly, as already clarified at several places, the act of getting together functional means to achieve a good purpose is not contrary to tawakkul or trust in God. Secondly, we see that the text limits. itself to the command to ensure the supply of weapons, but it does not promise that, because of this support, Muslims will have any guaranteed security against their enemies. By doing so, it has been indicated that the choice of using means is for nothing but a certain peace of mind, otherwise, the use of means as such does not carry any operational gain or loss. The Qur&an has said: قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا (0 Prophet) say: |"Nothing will befall us except what Allah has prescribed for us.|" (9:51) 2. Let us look at the first verse again. It opens up with the command to get ready for Jihad followed by a- description of the marching plan; the later has been expressed in two sentences, that is, فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا (...and march in groups, or march off all together.) Here, the word, &thubatin& is the plural form of &thubatun& which means a small group and is used to denote a military company and was called a Sariyyah in the military campaigns of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In that sense, it is being said here that Muslims, when they go out for Jihad, should not start off all alone. They should, rather, set out in the forma¬tion of small groups. The other alternative is to march as a large army: jami’ an& because, in fighting, going &alone is very likely to hurt --- the enemy is not going to let this opportunity slip out of their hands. No doubt, this instruction has been given to Muslims for the partic¬ular occasion of Jihad, but, even in normal circumstances, this is what the Shari’ ah teaches - do not travel alone. In a hadith, therefore, a lone traveler is called one satan and two of them two satans and three of them become a group or party. Similarly, there is another hadith which says: خَیر الصحابہ اربعۃ، و خیرالسرایا أبعہ مایٔہ، وخیر اجیوش اربعۃ آلاف . The best companions are four and the best military company is that of four hundred and the best army is that of four thousand.& (From Mishkat as reported by Al-Tabarani) Show more
خلاصہ تفسیر اے ایمان والو (کافروں کے مقابلہ میں) اپنی تو احتیاط رکھو (یعنی ان کے داؤ گھات سے بھی ہوشیار رہو اور مقاتلہ کے وقت سامان، ہتھیار ڈھال اور تلوار سے بھی درست رہو) پھر (ان سے مقاتلہ کے لئے) متفرق طور پر یا مجتمع طور پر (جیسا موقع ہو) نکلو اور تمہارے مجمع میں (جس میں بعض منافقین بھی شامل ہو... رہے ہیں) کوئی شخص ایسا ہے (مراد اس سے منافق ہے) جو (جہاد سے) ہٹا ہے (یعنی جہاد میں شریک نہیں ہوتا) پھر اگر تم کو کوئی حادثہ پہنچ گیا (جیسے شکست وغیرہ) تو (اپنے نہ جانے پر خوش ہو کر) کہتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں حاضر نہیں ہوا نہیں تو مجھ پر بھی مصیبت آتی) اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجاتا ہے (یعنی فتح و غنیمت) تو ایسے طور پر (خود غرضی کے ساتھ) کہ گویا تم میں اور اس میں کچھ تعلق ہی نہیں (مال کے فوت ہونے پر تاسف کر کے) کہتا ہے ہائے کیا خوب ہوتا کہ میں بھی لوگوں کا شریک حال ہوتا (یعنی جہاد میں جاتا) تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی ہوتی (کہ مال و دولت لاتا اور خود غرضی اور بےتعلقی اس کہنے سے ظاہر ہے ورنہ جس سے تعلق ہوتا ہے اس کی کامیابی پر بھی تو خوش ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ اپنا افسوس کرنے بیٹھ جائے اور اس کی خوشی کا نام بھی نہ لے، اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں فرماتے ہیں کہ بڑی کامیابی مفت نہیں ملتی اگر اس کا طالب ہے) تو ہاں اس شخص کو چاہئے کہ اللہ کی راہ میں (یعنی اعلاء کلمتہ اللہ کی نیت سے جو کہ موقوف ہے ایمان و اخلاق پر یعنی مسلمان و مخلص بن کر) ان (کافر) لوگوں سے لڑے جو آخرت (چھوڑ کر اس) کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں (یعنی اس شخص کو اگر فوز عظیم کا شوق ہے تو دل درست کرلے ہاتھ پاؤں ہلائے، مشقت جھیلے، تیغ وسنان کے سامنے سینہ سپر بنے دیکھو فوز عظیم ہاتھ آتا ہے یا نہیں، اور یوں کیا کوئی دل لگی ہے، پھر جو شخص اتنی مصیبت جھیلے سچی کامیابی اس کی ہے، کیونکہ دنیا کی کامیابی اول تو حقیر، پھر کبھی ہے کبھی نہیں، کیونکہ اگر غالب آگئے تو ہے ورنہ نہیں) اور (آخرت کی کامیابی جو کہ ایسے شخص کے لئے موعود ہے ایسی ہے کہ عظیم بھی اور پھر ہر حالت میں ہے کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ) جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر خواہ (مغلوب ہوجائے حتی کہ) جان (ہی) سے مارا جائے یا غالب آجائے ہم (٢ ر حالت میں) اس کو (آخرت کا) اجر عظیم دیں گے (جو کہ فوز عظیم کہنے کے لائق ہے۔ ) ربط آیات :۔ اس سے قبل اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر تھا، آگے ان آیات سے فرمانبرداروں کو احیاء دین اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ (قرطبی) معارف ومسائل فوائد مہمہ :۔ یایھا الذین امنواخذوا احذرکم الخ اس آیت کے پہلے حصہ میں جہاد کرنے کے لئے اسلحہ کی فراہمی کا حکم دیا گیا اور دوسرے حصہ میں اقدام جہاد کا اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی جس کو متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں اسلحہ کی فراہمی کا حکم تو دے دیا گیا، لیکن یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ اس کی وجہ سے تم یقیناً ضرور محفوظ ہی رہو گے، اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا گیا کہ اسباب کا اختیار کرنا صرف اطمینان قلبی کے لئے ہوتا ہے، ورنہ ان میں فی نفسہ نفع و نقصان کی کوئی تاثیر نہیں ہے، جیسے ارشاد ہے : ” یعنی اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ ہم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر وہی جو ہمارے لئے مقدر ہوچکی ہے۔ “ ١۔ اس آیت میں پہلے تو جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا گیا، اس کے بعد اس کے لئے نکلنے کا نظم بتلایا گیا، جس کے لئے دو جملے ذکر کئے گئے یعنی فانفروا ثبات اوا نفرواجمعاً ثبات، ثبتہ کی جمع ہے، جس کے معنے چھوٹی سی جماعت کے ہیں، جس کو فوجی دستہ (سریہ) کہتے ہیں، یعنی اگر تم جہاد کے لئے نکلو تو اکیلے اور تنہا نہ نکلو، بلکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں نکلو یا ایک کثیر (جمعاً ) لشکر کی صورت میں جاؤ کیونکہ اکیلے لڑنے کے لئے جانے میں نقصان کا قوی احتمال ہوتا ہے اور دشمن ایسے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ یہ تعلیم تو جہاد کے موقع کے لئے مسلمانوں کو دی گئی ہے، لیکن عام حالات میں بھی شریعت کی یہی تعلیم ہے کہ اکیلے سفر نہ کیا جائے، چناچہ ایک حدیث میں تنہا مسافر کو ایک شیطان کہا گیا اور دو مسافروں کو دو شیطان اور تین کو جماعت فرمایا گیا۔ ” یعنی بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین فوجی دستہ چار سو کا ہے اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے۔ “ Show more