Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 1

سورة مومن

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

Ha, Meem.

حٰمٓ

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, حم Ha Mim, We have already discussed the individual letters at the beginning of Surah Al-Baqarah, and there is no need to repeat the discussion here. In a Hadith recorded by Abu Dawud and At-Tirmidhi from one who heard it from the Messenger of Allah, it says: إِنْ بُيِّتُّمُ اللَّيْلَةَ فَقُولُوا حم لاَ يُنْصَرُون When you go to bed tonight... , recite Ha Mim, La Yunsarun." Its chain of narrators is Sahih. Allah says, تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ   Show more

سورتوں کے اول میں حم وغیرہ جیسے جو حروف آئے ہیں ان کی پوری بحث سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں جس کے اعادہ کی اب چنداں ضرورت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں حم اللہ کا ایک نام ہے اور اس کی شہادت میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں یذکرنی حم والرمح شاجر فھلا تلا حم قبل التقدم یعنی یہ مجھے حم یاد دلاتا ہے جب ... کہ نیزہ تن چکا پھر اس سے پہلے ہی اس نے حم کیوں نہ کہہ دیا ۔ ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں وارد ہے کہ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو حم لاینصرون کہنا ، اس کی سند صحیح ہے ۔ ابو عبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ نے فرمایا تم کہو حم لاینصروا یعنی نون کے بغیر ، تو گویا ان کے نزدیک لاینصروا جزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہوگے ۔ تو قول صرف حم رہا یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے ، جس کی جناب ہر بے ادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو ، وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے ۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کرکے آخرت سے بےرغبت ہو جائے ۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دی نے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ ) 15- الحجر:49 ) یعنی میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک عذاب ہیں ۔ اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف و امید کی حالت میں رہے ۔ وہ وسعت و غنا والا ہے ۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں ، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے ۔ بندوں پر اس کے انعام ، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کرسکے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا ۔ اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے ۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا ۔ اور بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص آکر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کردیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت عمر کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور تھا ذرا ایسا ہی آدمی ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیرالمومنین نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بہ کثرت شراب پینا شروع کردیا ہے ۔ حضرت عمر نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو یہ خط ہے عمر بن خطاب کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعداز سلام علیک میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں ۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو متوجہ کردے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا تو اس نے اسے بار بار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رودیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی توبہ کی جب حضرت فاروق اعظم کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے ۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو ۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو ۔ شیطان کے مددگار نہ بنو ۔ حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جاکر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورۃ مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی الیہ المصیر تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب غافر الذنب پڑھو تو کہو یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی اور جب قابل التوب پڑھو تو کہو یاشدید العقاب لا تعاقبنی حضرت مصعب فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گذرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا ۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ حضرت الیاس تھے ۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں حضرت الیاس کا ذکر نہیں ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حم : یہ حروف مقطعات ہیں، تشریح کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر حم (اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ کتاب اتاری گئی ہے اللہ کی طرف سے جو زبردست ہے ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ گناہ بخشنے والا ہے اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا ہے۔ قدرت والا ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اس کے پاس (سب کو) جانا ہے (پس قرآن مجید اور توحید کی حقیقت ... کا مقتضا یہ ہے کہ اس میں انکار وجدال نہ کیا جاوے مگر پھر بھی) اللہ تعالیٰ کی ان آیتوں میں (یعنی قرآن میں جو توحید پر بھی مشتمل ہے) وہی لوگ (ناحق کے) جھگڑے نکالتے ہیں جو (اس کے) منکر ہیں (اور اس انکار کا مقتضا یہ ہے کہ ان کو سزا دی جاتی، لیکن عاجلا سزا نہ ہونا استدراج یعنی چند روزہ مہلت دینا ہے) سو ان لوگوں کا شہروں میں (امن وامان سے دنیوی کاروبار کے لئے) چلنا پھرنا آپ کو اشتباہ میں نہ ڈالے (کہ اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ اسی طرح سزا و عذاب سے بچے رہیں گے اور آرام سے رہیں گے اور آپ کے اس خطاب سے دوسروں کو سنانا مقصود ہے، غرض ان پر داروگیر ضرور ہوگی خواہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یا صرف آخرت میں چنانچہ) ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اور دوسرے گروہوں نے بھی جو ان کے بعد ہوئے (جیسے عاد وثمود وغیرہم دین حق کو) جھٹلایا تھا اور ہر امت (میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے تھے انہوں) نے اپنے پیغمبر کے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا (کہ پکڑ کر قتل کردیں) اور ناحق کے جھگڑے نکالے تاکہ اس ناحق سے حق کو باطل کردیں سو میں نے (آخر) ان پر دارو گیر کی سو (دیکھو) میری طرف سے (ان کو) کیسی سزا ہوئی اور (جس طرح ان کو دنیا میں سزا ہوئی) اسی طرح تمام کافروں پر آپ کے پروردگار کا یہ قول ثابت ہوچکا ہے کہ وہ لوگ (آخرت میں) دوزخی ہوں گے (یعنی یہاں بھی سزا ہوئی اور وہاں بھی ہوگی، اسی طرح کفر کے سبب ان کفار حاضرین کو بھی داروگیر اور سزا ہونے والی ہے خواہ دونوں عالم میں یا آخرت میں۔ یہ تو حال ہے منکرین کا، کہ مستحق اہانت و عقوبت ہیں اور جو لوگ موحد اور مومن ہیں وہ ایسے مکرم ہیں کہ ملائکہ مقبربین ان کے لئے دعا و استغفار کرنے میں مشغول رہتے ہیں جو کہ حسب قاعدہ یفعلون ما یومرون اس کی علامت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے اس پر مامور ہیں کہ مومنین کے لئے استعفار کیا کریں۔ اس سے مومنین کا محبوب عند اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے چناچہ ارشاد ہے کہ) جو فرشتے کہ عرش (الٰہی) کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو فرشتے اس کے گردا گرد ہیں وہ اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہتے ہیں۔ اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے اس طرح دعاء) استغفار کیا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ کی رحمت (عامہ) اور علم ہر چیز کو شامل ہے (پس اہل ایمان پر بدرجہ اولیٰ رحمت ہوگی اور ان کے ایمان کا آپ کو علم بھی ہے) سو ان لوگوں کو بخش دیجئے، جنہوں نے (شرک و کفر سے) توبہ کرلی ہے اور آپ کے رستہ پر چلتے ہیں اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے۔ اے ہمارے پروردگار اور (دوزخ سے بچا کر) ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے داخل کر دیجئے اور ان کے ماں باپ اور بیبیوں اور اولاد میں جو (جنت کے) لائق (یعنی مومن) ہوں (گو ان مومنین کے درجے کے نہ ہوں) ان کو بھی داخل کر دیجئے، بلاشک آپ زبردست حکمت والے ہیں (کہ مغفرت پر قادر ہیں اور ہر ایک کے مناسب اس کو درجہ عطا فرماتے ہیں) اور (جیسا ان کو دوزخ سے جو کہ عذاب اعظم سے بچانے کے لئے آپ سے دعا ہے اس طرح یہ بھی دعا ہے کہ) ان کو (قیامت کے دن ہر طرح کی) تکالیف سے بچائیے (گو وہ جہنم سے خفیف ہوں جیسے میدان قیامت کی پریشانیاں) اور آپ جس کو اس دن تکلیف سے بچا لیں تو اس پر آپ نے بہت مہربانی فرمائی۔ اور یہ (جو مذکور ہوا مغفرت و حفاظت عذاب اکبر واصغر سے اور دخول جنت) بڑی کامیابی ہے (پس اپنے مومن بندوں کو اس سے محروم نہ رکھئے) ۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ حٰـمۗ۝ ١ۚتَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۝ ٢ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إل... يه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حم۔ یعنی قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کا فیصلہ فرما دیا یا یہ کہ اسے بیان فرما دیا یا یہ کہ یہ لفظ تاکید کے طور پر ایک قسم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { حٰمٓ۔ ” ح ‘ م۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٣۔ سورتوں کے شروع کے لفظ متشابہات میں سے ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے چناچہ اس کی تفصیل سورة بقر میں گزر چکی ہے مشرکین مکہ یہ کہتے تھے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بنا لیا ہے اس کے جواب میں جگہ جگہ فرمایا کہ ان پڑھ نبی پر یہ قرآن اترا ہے اور باتیں اس میں ایسی غیب کی ہیں کہ ... ان پڑھ شخص تو درکنار اہل کتاب بھی بغیر آسمانی مدد کے وہ باتیں نہیں بتلا سکتے ہیں۔ اس لئے اب کسی کو اس میں شک کرنے کا موقع باقی نہیں رہا کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اور معجزوں کے علاوہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کا ایک ایسا معجزہ دیا گیا ہے جس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا جس اثر سے اتنے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوں گے کہ قیامت کے دن اور امتوں سے آپ کی امت کے نیک لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں بھی فقط قرآن کے اثر سے غیر قوم کے لوگوں میں اسلام کا سلسلہ جاری ہے اس لئے یہ سلسلہ حدیث کی پیشن گوئی کا گویا ظہور ہے اور یہ حدیث قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی قویا تفسیر ہے۔ پھر فرمایا ان سیدھی سیدھی باتوں کے سمجھانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ اللہ کے رسول اور قرآن کی مخالفت سے باز نہ آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے سرکش لوگوں سے بدلہ لینے میں ایسا زبردست ہے کہ اس نے بہت سی پچھلی سرکش قوموں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا جن کے قصے گھڑی گھڑی ان لوگوں کو اس لئے سنا دیئے گئے کہ اگر یہ لوگ ان کے قدم بقدم چلیں گے تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا صاحب علم وہ ایسا ہے کہ اس سے کوئی بات ان لوگوں کی پوشیدہ نہیں ہے پھر فرمایا جو کوئی قرآن کی نصیحت کو مان کر پچھلی سرکشی سے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرنے اور اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے نہیں تو اس کا عتاب بہت سخت اور اس کی قدرت بہت بڑی ہے اس کے عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ پھر فرمایا جو صفتیں بیان کی گئیں جب وہ مخلوقات میں سے کسی میں نہیں پائی جاتیں تو لائق عبادت بھی وہی وحدہ لاشریک ہے جس کے رو برو حساب و کتاب اور نیک و بد کی جزا و سزا کے لئے سب کو حاضر ہونا ہے صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی (١ ؎ صحیح مسم باب سقوط الذنوب بالاستغفار و التوبہ ص ٣٥٤ ج ٢۔ ) ہے جس میں اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی غفور رحیمی کی صفت ایسی پیاری ہے اگر دنیا کے موجودہ لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی جگہ ایسے لوگ پیدا کرتا جو گناہ کر کے توبہ استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرکے ان کے گناہوں کو معاف کرتا یہ حدیث غافر الذنب و قابل التوب کی گویا تفسیر ہے۔ اسی طرح صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث اور بخاری وغیرہ کے حوالہ سے ابوذر کی حدیث گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کچھ عذاب الٰہی کا حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ میں بیان کروں تو لوگ گھر بار بال بچے چھوڑ کر جنگل کو نکل جائیں اور سوا رونے کے دوسرا کوئی کام نہ کریں یہ حدیثیں شدید العقاب کی گویا تفسیر ہیں پچھلی امتوں کے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوجانے کے جتنے قصے گزرے وہ سب ذی الطول کی گویا تفسیر ہیں کیونکہ ان قصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ایسا صاحب قدرت ہے کہ جس کے عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ بعضے سلف نے ذی الطول کے معنی صاحب فضل و کرم کے کئے ہیں اس صورت میں شدید العقاب ذی الطول کا یہ مطلب ہوگا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے اسی طرح اس کا فضل و کرم بھی بڑا ہے کہ وہ گناہ گاروں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب کیف نزل الوحی ص ٧٤٤ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری کتاب الرقاق ص ٩٦٠ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:1) حم۔ حروف مقطعات ہیں ان کا علم خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

تمت سورة زمر ۔ الحمد للہ۔ سورۃ المومن رکوع نمبر 1 ۔ آیات نمبر 1 تا 9: اسرار و معارف : اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے کتاب نازل فرما کر ہدایت کی راہ دکھائی کہ وہ بہت طاقت وقدرت رکھنے والا ہے اور ہر بات کو جانتا بھی ہے اسے انسانوں سے کسی مدد کی جرورت نہیں بلکہ وہ تو ایسا کریم ہے کہ اگر لوگ اس کی ... کتاب پر ایمان لا کر اس کے احکام کی پیروی کریں تو وہ ان کے گناہ معاف فرما دے اور ان کی توبہ قبول فرمائے بصورت دیگر اس کے عذاب بھی بہت سخت ہیں اور وہی صاحب اقتدار بھی ہے کوئی اس کے عذاب سے بھاگ نہیں سکتا اور اس کے علاوہ کوئی ایسی ہستی نہیں جس کی عبادت کی جائے نیز سب کو ہر حال میں لوٹ کر اسی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ کفار اگر اس کی نازل کردہ آیات میں جھگڑا کرتے ہیں اور ان پر ا اعتراض کرتے ہیں تو اس کا سبب ان کا کفر ہے کہ اس کی وجہ سے نور قرآن دیکھ کر نہیں پاتے اور اگر وقتی طور پر انہیں مہلت نصیب ہے اور شہروں اور ممالک پہ قابض ہیں تو یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں کہ یہی قانون قدرت ہے۔ سب کو ایک وقت تک مہلت دی جاتی ہے جیسے ان سے قبل نوح (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے بعد بہت سی دوسری اقوام کہ انہیں مہلت ملی تو یہاں تک حد سے بڑھے کہ جو رسول ان کے پاس مبعوث ہوئے ان کے قتل کا ارادہ کرلیا اور ان کے ساتھ ناروا جھگڑے کھڑے کئے اور بجائے حق کو قبول کرنے کے انہوں نے انبیاء کو بھی حق سے ڈگمگانے کی کوشش کی جب بات یہاں تک بڑھی تو میرے عذاب نے انہیں پکڑ لیا اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کا عذاب کس قدر شدید تھا۔ اسی طرح ان پر آخرت کا عذاب بھی واقع ہوگا اور اللہ کا حکم کفار پر جاری ہوجائے گا کہ انہیں دوزخ میں ٹھکانہ دیا جائے۔ دوسری طرف اہل ایمان کے لیے کتنے انعامات ہیں کہ وہ فرشتے جو اللہ کا عرش اٹھائے ہوئے اور ہر وقت اسی کی تسبیح کرتے اور اسی کی ذات میں سرشار ہیں۔ وہ بھی اہل ایمان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تیری رحمت وسیع تر اور تیرا علم کامل ہے تو خود سب سے بہتر جانتا ہے ہماری درخواست یہ ہے کہ جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ اپنائی تیرے نبی کا اتباع اختیار کیا۔ رب کریم انہیں بخش دے اور ان سے اگ کے عذاب کو دور رکھ۔ اور اے رب کریم انہیں جنت میں داخل فرما جس کا تو نے اہل ایمان سے وعدہ فرمایا ہے۔ نیز ان کے قریبی والدین ، بیویاں اور اولاد میں سے جو بھی ایمان لایا ہے سب کو ان کے ساتھ جمع فرما کہ تو جو چاہے کرسکتا ہے تو ہی بہتر حکمت والا ہے ان کو اپنی نافرمانی اور برائی سے مھفوظ رکھ کہ جس کسی کو تو نے برائی سے مھفوظ رکھ کہ جس کسی کو تو نے برائی سے محفوظ رکھا اس پر تیری خاص رحمت ہوئی۔ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام معصوم ہوتے ہیں اور صحابہ یا دیگر اہل اللہ کو حفاظت الہیہ نصیب ہوتی ہے اور یہ محفوظ ہوتے ہیں یہی اللہ کے قرب اور رضامندی کی دلیل ہے کہ اللہ گناہ سے حفاظت فرمانے لگے یہ تمام اذکار و عبادات کا حاصل ہے۔ اور جس کو یہ نعمت نصیب ہوئی در حقیقت اسی کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 3 :۔ عزیز ( زبردست ، سب پر غالب ، قوت والا) علیم (بہت کچھ جاننے والا ، سب کچھ جاننے والا) غافر الذنب (گناہوں کو بخشنے والا) قابل التوب (توبہ قبول کرنے والا) شدید العقاب (سخت سزا دینے والا) ذی الطول (بڑے فضل والا) المصیر ( ٹھکانہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 3 :۔ سورة المومن ان ... سات سورتوں میں سے ایک ہے جس کی ابتداء ” حم “ سے کی گئی ہے۔ ” حم “ حروف مقطعات میں سے ہے جس کے معنی اور مراد کا علم اللہ کو ہے۔ ” حم “ سے شروع کی گئیں سات سورتوں کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا ارشاد ہے کہ ہر چیز کا ایک مغز ہوتا ہے اور قرآن کریم کا مغز حم والی سورتیں ہیں ۔ ان ہی کا قول ہے کہ حم والی سورتیں قرآن کی زینت ہیں۔ ’ ’ حم “ اللہ کا اسم اعظم ہے۔ ( سدی) ” حم “ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ” حم “ والی سورتیں سات ہیں اور جہنم کے بھی سات دروازے ہیں ۔ گویا جو شخص ان کی تلاوت کرنے والا ہے اس لئے جہنم کے ہر دروازے پر یہ سورتیں رکاوٹ بن جائیں گی اور وہ جہنم سے محفوظ رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء نزول قرآن سے فرمائی ہے۔ ارشاد ہے کہ اس قرآن کریم کو اس اللہ نے نازل کیا ہے جو زبردست ہے ، سب کچھ جاننے والا ہے ، گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب وہ کسی قوم یا افراد کی گرفت کرتا اور ان کو سزا دیتا ہے تو وہ بھی سخت ہوتی ہے کیونکہ وہ زبردست قوتوں کا مالک ہے۔ سورۃ المومن میں بیان کی گئیں چھ صفات وہ ہیں جو اس سورت میں آنے والے مضامین سے گہری مناسبت رکھتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآن کے پڑھنے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ جس قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں وہ اس اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو عظیم ہے جس کی زبردست قوت و طاقت ہے وہ جب معاف اور فضل و کرم کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا اور اگر وہ کسی قوم یا فرد کی گرفت کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے چھڑا نہیں سکتی ، لہٰذا اسی کی عبادت و بندگی کی جائے اور اسی سے مانگا جائے ۔ وہی دینے والا ہے اور اسی سے ہر انصاف کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اسے سوا نہ کوئی اور معبود ہے اور نہ کسی سے انصاف کی امید کی جاسکتی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہاں سے سورة احقاف تک متصل سات سورتیں حم سے شروع ہوئی ہیں، اور عجیب لطیفہ ہے کہ ساتوں قرآن مجید کے منزل و موحی من اللہ ہونے کے مضمون سے شروع ہوئی ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 223 تشریح آیات آیت نمبر 1 تا 3 ﷽ یہ سورت ان سات سورتوں میں سے پہلی سورت ہے جن کا آغاز حا اور میم کے حروف مقعات سے ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک سورت ایسی ہے جس میں حا ۔ میم کے بعد عین ، سین اور قاف بھی آیا ہے۔ حرف مقطعات کے بارے میں ہم تمام سورتوں میں کہہ آئے ہیں کہ ان میں اشارہ اس طرف ہے کہ ی... ہ کلام انہی حروف تہجی سے بنا ہے اور یہ ایک معجز کلام ہے حالانکہ یہ حروف تہجی تمہاری دسترس میں ہیں۔ یہ تمہاری زبان کے حروف ہیں اور اس زبان کو تم بولتے بھی ہو ، لکھتے بھی ہو۔ ان حروف کے بعد پھر نزول کتاب کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ بات ہے جو اکثر مکی سورتوں کے اغاز میں کہی جاتی ہے جن کا مضمون اکثر اسلامی نظریہ حیات اور کلمہ توحید سے ہوتا ہے۔ تنزیل ۔۔۔۔ العلیم (40: 2) ” اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے “۔ اس اشارے کے بعد اب بات اس ذات کی بعض صفات کی طرف منتقل ہوتی ہے جس نے یہ کلام نازل کیا ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں جن کا اس سورت کے موضوع کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ اس سورت میں جو موضوعات اور جو مسائل لیے گئے ہیں ان کے ساتھ ان صفات الہٰی کا ربط ہے۔ غافر الذنب۔۔۔۔ المصیر (40: 3) ” زبردست ہے ، سب کچھ جاننے والا ہے ، گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے ، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب قضل ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے “۔ اس آیت میں عزت ، علم ، گناہوں کی مغفرت ، توبہ کی قبولیت ، سخت سزا ، فضل وکرم ، الوہیت اور حاکمیت کی وحدت اور سب لوگوں کا اس کی طرف لوٹنے کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اور اس سورت کے تمام موضوعات انہی معافی کے اردگرد گھومتے ہیں جن کو اس آیت میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اس آیت میں نہایت زور دار انداز ، زور دار آواز میں اور قومی ترتراکیب اور جملوں میں نہایت پختگی اور استقلال سے لایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی وہ صفات یہاں متعارف کرائی ہیں جن کا انسانی وجود اور انسانی زندگی پر گہرا اثر ہے۔ یوں اللہ نے انسانوں کے دلوں اور ان کے شعور کے احساسات کو تیز کیا۔ ان کے اندر رجائیت پیدا کی اور امید کو جگایا۔ ان کے اندر خوف اور تقویٰ پیدا کیا گیا اور ان کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ اللہ کے قبضے میں ہیں۔ وہ اللہ کے تصرفات سے کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ ذرا ان صفات کا تفصیلی جائزہ لیں۔ العزیز (40: 2) ” وہ قوی اور قادر مطلق جو ہر کسی پر غالب ہے ، اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا ۔ وہ تمام امور میں تصرف کرتا ہے اور اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا اور نہ اس کے اوپر کوئی نگران ہے۔ العلیم (40: 2) وہ ذات ہے جو اس کائنات کو علم اور مہارت سے چلاتی ہے ، اس پر اس کائنات کا کوئی راز مخفی نہیں ہے۔ اور کوئی چیز اس کے علم سے غائب نہیں ہے۔ غافر الذنب (40: 3) وہ جو بندوں کے گناہوں کو بخشتا ہے ، ان بندوں کے گناہوں کو جن کے بارے میں اپنے شامل علم کے ذریعے اللہ جانتا ہے کہ وہ بخشش کے مستحق ہیں۔ وقابل التوب (40: 3) وہ جو نافرمانوں پر مہربانی کرتا ہے اور ان کو لوٹا کر اپنے خطیرۂ امن میں لاتا ہے اور ان کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور بلاروک ٹوک ان کو اندر آنے دیتا ہے۔ شدید العقاب (40: 3) جو متکبرین کو نیست ونابود کرتا ہے ، اور اسلام کے دشمنوں کو سزا دیتا ہے ، جو نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ استغفار کرتے ہیں۔ ذی الطول (40: 3) وہ جو لوگوں کو انعامات دیتا ہے ، جو نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس قدر دیتا ہے کہ ان انعامات کا کوئی حساب نہیں کیا جاسکتا ۔ لاالٰه الاھو (40: 3) الوہیت ، حاکمیت اسی کی ہے۔ ، اور وہ وحدہ لاشریک ہے ، اپنی ذات وصفات ہیں۔ الیه المصیر (40: 3) حساب و کتاب کے لیے ہر کسی نے اس کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور اس سے ملاقات ہوگی۔ تمام مخلوق نے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور وہی لوٹنے کی جگہ ہے۔ یوں بندوں کا تعلق اللہ سے اور اللہ کا تعلق بندوں سے واضح کیا جاتا ہے۔ بندوں کے شعور ان کے تصورات ، ان کے ارداک ، اور ان کے علم میں اللہ سے رابطہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کس قدر چوکنا ہو کر اور احتیاط سے معاملہ کرنا ہے اور یہ جانتے ہوئے معاملہ کرنا ہے کہ کس چیز سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور کس چیز سے راضی ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے ادیان اور عقائد افسانوی ہیں ، وہ اپنے الہوں کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں ، وہ اس کے بارے میں حیرت میں رہتے ہیں ، انہیں ان الہوں کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہوتیں ، ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کیا چیز انہیں ناراض کرتی ہے اور کس سے وہ راضی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے الہوں کی جو تصویر کھینچتے ہیں۔ اس کے مطابق ان الہوں کی خواہشات بدلتی رہتی ہیں ، ان کا رجحان صاف نہیں ہوتا۔ وہ الہہ جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ ان الہوں کے ساتھ ہمیشہ بےچینی کی زندگی گزارتے ہیں اور ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ان کی رضا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے۔ آیا وہ تعویذوں سے راضی ہوتے ہیں ، قربانیوں سے راضی ہوتے ہیں۔ ذبیحوں سے راضی ہوتے ہیں یا اور اگر وہ یہ کام کر بھی گزریں تو بھی ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ راضی ہوگئے یا نہیں ہوئے۔ ان حالات میں اسلام آیا ، اس نے واضح اور ستھرے و عقائد دیئے ، لوگوں کو اپنے سچے خدا سے ملا دیا۔ ان کو اللہ کی صحیح صفات سے آگاہ کردیا ۔ ان کو اللہ کی مشیت کے بارے میں بتا دیا ، یہ بھی صاف صاف بتادیا کہ وہ اللہ کے قریب کس طرح ہوسکتے ہیں ، اسکی رحمت کی امیدوہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ اسکے عذاب سے کسطرح ڈرسکتے ہیں اور اللہ کا سیدھا اور درست راستہ کونسا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” حم “ سورة مومن حوامیم سبعہ میں سے پہلی ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ” حم “ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ قال ابن عباس حم اسم اللہ الاعظم (قرطبی، مدارک، معالم، خازن) ۔ حضرت ابن عباس ہی سے منقول ہے کہ ہر چیز کا مغرز اور خلاصہ ہوتا ہے اور قرآن مجید کا خلاصہ حوامیم ہیں۔ یعنی مصائب و حاجات...  میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو ان لکل شیء لبابا وان لباب القران الحوامیم (روح ج 24 ص 39، خازن و معالم ج 6 ص 73) ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” الدعاء مخ العبادۃ “ مصائب و حاجات میں پکارنا ہی عبادت کا مغز اور لب لباب ہے اور حوامیم میں چونکہ اسی مغز عبادت کا بیان ہے۔ اس لیے حضرت ابن عباس (رض) نے حوامیم کو سارے قرآن کا لب لباب فرمایا اور اسی لیے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ حوامیم قرآن مجید کا اعلی ترین حصہ ہیں ” الحوامیم دیباج القران “ (روح ج 24 ص 39، قرطبی ج 15 ص 288) ۔ یہ الفاظ مرفوعا بھی مروی ہیں (بحر ج 7 ص 446 قرطبی) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) حٰم ٓ