Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 13

سورة مومن

ہُوَ الَّذِیۡ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُنَزِّلُ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ رِزۡقًا ؕ وَ مَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾

It is He who shows you His signs and sends down to you from the sky, provision. But none will remember except he who turns back [in repentance].

وہی ہے جو تمہیں اپنی ( نشانیاں ) دکھلاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے روزی اتارتا ہے نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو ( اللہ کی طرف ) رجوع کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ ايَاتِهِ ... It is He Who shows you His Ayat, means, He demonstrates His power to His servants through the mighty signs which they see in His creation, above and below, which indicate the perfection of its Creator and Originator. ... وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاء رِزْقًا ... and sends down provision for you from the sky. this refers to rain, through which crops and fruits are brought forth, which with their different colors, tastes, fragrances and forms are a sign of the Creator. It is one kind of water, but by His great power He makes all these things different. ... وَمَا يَتَذَكَّرُ ... And none remembers, means, no one learns a lesson or is reminded by these things, or takes them as a sign of the might of the Creator, ... إِلاَّ مَن يُنِيبُ but those who turn in repentance. which means, those who have insight and turn to Allah, may He be blessed and exalted. The Believers are commanded to worship Allah Alone no matter what Their Circumstances Allah says; فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی پانی جو تمہارے لئے تمہاری روزیوں کا سبب ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع کردیا اس لئے کہ آیات قدرت کا اظہار، مذا ہب کی بنیاد ہے اور روزیاں اجسام کی بنیاد ہیں، یوں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا ہے۔ (فتح القدیر) 13۔ 1 اللہ کی اطاعت کی طرف جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام و فرائض الہی کی پایندی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] بارش کے نظام میں اللہ کی نشانیاں :۔ یعنی آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے جو زمینی پیداوار اور تمہارے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس پورے نظام پر اگر غور کیا جائے کہ اس کائنات میں کون سی قوتیں سرگرم عمل ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں بارش برستی ہے پھر اس بارش سے رزق حاصل ہونے تک کون کون سی کائناتی اور زمینی قوتیں کام میں لگی رہتی ہیں۔ کس طرح سورج کی حرارت سے سطح سمندر پر سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں، پھر کس طرح ہوائیں انہیں اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہیں اور جس طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے، لے جاتی ہیں۔ پھر یہی آبی بخارات کیونکر پھر سے بارش کے قطروں میں منتقل ہوتے ہیں۔ پھر جب کسی خطہ زمین پر بارش برستی ہے تو زمین کی تاریکیوں میں بیج کی پرورش کون کرتا ہے اور کس طرح پودے کی نہایت نرم و نازک کونپل سطح زمین کو چیرتی ہوئی باہر نکل آتی ہے۔ غرضیکہ اس نظام میں بیشمار عجائبات قدرت ہیں۔ پھر ان قوتوں کے باہمی تعاون سے جو مثبت قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس سے از خود معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تمام قوتوں پر کنٹرول کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر ہواؤں کا دیوتا الگ ہوتا، سورج کا الگ، بارش کا الگ اور زمین کا کوئی الگ ہوتا تو ان میں ایسا باہمی ارتباط ناممکن تھا کہ ان قوتوں سے ہمیشہ مثبت نتائج ہی حاصل ہوسکیں۔ لیکن یہ باتیں تو صرف وہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو اللہ کی ان نشانیوں میں کچھ غور و فکر بھی کرتے ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھو الذی یریکم ایتہ : یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمہیں اپنے وجود اور اپنی وحدانیت کی بیشمار نشانیاں دکھاتا ہے، جو اس وقت بھی موجود تھیں جب تمہارے بنائے ہوئے معبودوں کا وجود تک نہ تھا۔ اب بھی کوئی داتا یا دستگیر یہ دعویٰ نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بہت سی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ نشانیاں آفاق (کائنات) میں بھی ہیں اور خود انسان کی ذات میں بھی۔ دیکھیے سورة یونس (٦) رحم السجدہ (٥٣) ، روم (٢٠ تا ٢٧) بقرہ (١٦٤) جاثیہ (٣٥) اور سورة مومن (٧٩، ٨٠) ۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے مراد انبیاء (علیہ السلام) کو عطا کردہ معجزے بھی ہیں اور اس کی قدرت پر دلالت کرنے والے عجیب و غریب واقعات و حوادث بھی، جو وقتاً فوقتاً انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے متعلق فرمایا :(ولقد ارینہ ایتنا کلھما قکذب وابی) (طہ : ٥٦)” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اس (فرعون) کو اپنی تمام آیات (نشانیاں) دکھائیں، پس اس نے جھٹلایا اور انکار کردیا۔ “ وینزل لکم من السمآء و رزقاً : یہ کہنے کے بعد کہ وہی ہے جو تمہیں اپنی آیات (نشانیاں) دکھاتا ہے، اپنی ایک عظیم نشانی کا ذکر فرمایا۔” رزقاً “ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ وہ انسان کے رزق کا سبب ہے۔ تمام نباتات اسی سے اگتی ہیں، جنہیں کھا کر وہ تمام جانور پلتے ہیں جو انسان کی خوراک ہیں یا اس کے کام آتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٢) ، جاثیہ (٥) ، ابراہیم (٣٢) ، ق (٩ تا ١١) اور سورة نحل (١٠، ١١) ۔ ومایتذکر الا من ینیب : یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی نشانیاں تو بیشمار ہیں، مگر ان سے نصیحت رجوع کرنے والے ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر آدمی اپنی روزی ہی کو دیکھ لے کہ اسے مہیا کرنے میں قدرت کی کون کون سی چیزیں مصروف عمل ہیں اور کس طرح ایک دوسرے کی موافقت کے ساتھ کام کر رہی ہیں تو کبھی شرک کی جرأت نہ کرے، کیونکہ ان تمام چیزوں کو بنانے اور چلانے والا ایک ہے۔ اگر وہ ایک نہ ہو تو کائنات ایک لمحہ کے لئے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ مگر جو شخص اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ لے اور اس کی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے، وہ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کی آنکھوں پر تقلید آباء، تعصب اور عناد کے پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں (قدرت کی) دکھاتا ہے (تا کہ تم ان سے توحید پر استدلال کرو اور وہی ہے جو) آسمان سے تمہارے لئے رزق بھیجتا ہے (یعنی بارش بھیجتا ہے جس سے رزق پیدا ہوتا ہے، یہ بھی منجملہ مذکورہ نشانیوں کے ہے) اور (ان نشانیوں سے) صرف وہی شخص نصیحت قبول کرتا ہے، جو (خدا کی) طرف رجوع (کرنے کا ارادہ) کرتا ہے (کیونکہ ارادہ رجوع سے غور وتامل نصیب ہوتا ہے، اس سے حق تک رسائی ہوجاتی ہے) تو (جب توحید پر دلائل قائم ہیں تو) تم لوگ خدا کو خالص اعتقاد کر کے (یعنی توحید کے ساتھ) پکارو (اور مسلمان ہوجاؤ) اگر کافروں کو ناگوار ہو (اس کی پروا نہ کرو کیونکہ) وہ رفیع الدرجات ہے، وہ عرش کا مالک ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی یعنی اپنا حکم بھیجتا ہے تاکہ وہ (صاحب وحی لوگوں کو) اجتماع کے دن (یعنی قیامت کے دن) سے ڈرائے جس دن سب لوگ (خدا کے) سامنے آموجود ہوں گے (کہ) ان کی بات خدا سے مخفی نہ رہے گی آج کے روز کس کی حکومت ہوگی، بس اللہ ہی کی ہوگی جو یکتا (اور) غالب ہے آج ہر شخص کو اس کے کئے (ہوئے کاموں) کا بدلہ دیا جاوے گا، آج (کسی پر) کچھ ظلم نہ ہوگا اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے اور (اس لئے) آپ ایک قریب آنے والی مصیبت کے دن (یعنی روز قیامت) سے ڈرائیے جس وقت کلیجے منہ کو آ جاویں گے (غم سے) گھٹ گھٹ جاویں گے (اس روز) ظالموں (یعنی کافروں) کا نہ کوئی دلی دوست اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جس کا کہا مانا جائے (اور) وہ (ایسا ہے کہ) آنکھوں کی چوری کو جانتا ہے اور ان (باتوں) کو بھی جو سینوں میں پوشیدہ ہیں (جن کو دوسرا نہیں جانتا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بندوں کے تمام کھلے اور چھپے اعمال سے باخبر ہے جن پر سزا اور جزا موقوف ہے) اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ پکارا کرتے ہیں وہ کسی طرح کا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ (کیونکہ) اللہ ہی سب کچھ جاننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ (اسی طرح اللہ تعالیٰ تمام صفات کمال سے موصوف اور جھوٹے معبود سب سے عاری ہیں اس لئے فیصلہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کے بس میں نہیں۔ اور یہ لوگ جو ان واضح دلائل کے بعد بھی انکار کرتے ہیں تو) کیا ان لوگوں نے ملک میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ جو (کافر) لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں (اس کفر کی وجہ سے) ان کا کیسا انجام ہوا۔ وہ لوگ قوت اور ان نشانیوں پر جو زمین پر چھوڑ گئے ہیں (مثل عمارات و باغات وغیرہ کے) ان (موجودین) سے بہت زیادہ تھے سو ان کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے ان پر داروگیر فرمائی (یعنی عذاب نازل کیا) اور ان کا کوئی خدا سے بچانے والا نہ ہوا (آگے ان کے گناہوں کی تفصیل ہے کہ) یہ مواخذہ اس سبب سے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں (یعنی معجزات جو دلائل نبوت ہوتے ہیں) لے کر آتے رہے پھر انہوں نے نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر مواخذہ فرمایا بیشک وہ بڑی قوت والا سخت سزا دینے والا ہے (جب ان موجودہ کافروں میں بھی وہی موجبات عذاب جمع ہیں تو یہ مواخذہ سے کیسے بچ سکتے ہیں) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ رِزْقًا۝ ٠ ۭ وَمَا يَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ يُّنِيْبُ۝ ١٣ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے مکہ والو وہی ہے جو تمہیں اپنی وحدانیت اور قدرت کی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ مشرکین کے مکانات کو تباہ و برباد کرتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے بارش برساتا ہے مگر قرآن کریم سے صرف وہ ہی شخص نصیحت حاصل کرتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { ہُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ وَیُنَزِّلُ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ رِزْقًا } ” وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور اتارتا ہے تمہارے لیے آسمان سے روزی۔ “ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے اور بارش کا پانی زمین سے روزی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ { وَمَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ } ” اور نہیں نصیحت حاصل کرتا مگر وہی جو رجوع کرتا ہے (اللہ کی طرف) ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 "Signs" imply those Signs which point to the great truth that the Fashioner, Ruler and Administrator of the Universe is One and only One God. 20 "Sustenance" here implies the rain, for every kind of the sustenance that man gets in the world, depends ultimately on the rainfall. AIlah presents this one single Sign out of His countless Signs, as if to draw the people's attention to the fact: "If you only consider and ponder over the arrangement of this one thing, you will understand that the concept being presented in the Qur'an of the administration of the Universe, is true. This arrangement could exist only it' the Creator of the earth and its creatures and of water and air and the sun and the heat and cold was only One God, and this arrangement could continue to exist for millions and millions of Years with perfect regularity only if the same Eternal God caused it to exist continually. And the One Who brought this arrangement into existence could only be an all-Wise and All-Merciful Lord, Who along with creating men, animals and vegetables in the earth, also created water precisely according to their needs and requirements, and then made these wonderful arrangements for transporting and spreading that water to different parts of the earth with perfect regularity. Now, who can be more unjust than the one who sees all this and yet denies God, or associates some other beings also with Him in Godhead?" 21 That is, "A person who has turned away from God and whose intellect has been clouded and corrupted by heedlessness or prejudice, cannot learn any lesson from any Sign. He will see with his animal eyes that the winds Blew, the clouds gathered, the lightning thundered and flashed and the rain fell; but his human eyes will never perceive why all this happened, who caused it, and what rights He has on him. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :19 نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس کائنات کا صانع اور مدبر منتظم ایک خدا اور ایک ہی خدا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :20 رزق سے مراد یہاں بارش ہے ، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دنیا میں ملتے ہیں ان سب کا مدار آخر کار بارش پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کر گے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمہاری سمجھ میں آ جائے کہ نظام کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جا رہا ہے وہی حقیقت ہے ۔ یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا تھا جبکہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و برودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو ۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے ۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے ، یا اس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرائے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :21 یعنی خدا سے پھرا ہوا آدمی ، جس کی عقل پر غفلت یا تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو ، کسی چیز کو دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لے سکتا ۔ اس کی حیوانی آنکھیں یہ تو دیکھ لیں گی کہ ہوائیں چلیں ، بادل آئے ، کڑک چمک ہوئی ، اور بارش ہوئی ۔ مگر اس کا انسانی دماغ کبھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ، کون کر رہا ہے اور مجھ پر اس کے کیا حقوق ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:13) ھو الذی مبتداء ہے یریکم اس کی خبر۔ یریکم : یری فعل مضارع واحد مذکر غائب اراء ۃ مصدر باب افعال کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر وہ تم کو دکھاتا ہے۔ ایتہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر یری کا مفعول ثانی۔ وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت شان اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ ینزل مضارع واحد مذکر غائب تنزل (تفعیل) مصدر وہ نازل کرتا ہے۔ من السماء اوپر سے۔ سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو کہتے ہیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے۔ ہر شے اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتی ہے۔ رزقا : ینزل کا مفعول ہے یہاں مسبب بیان کرکے سبب مراد لیا ہے یعنی سبب رزق مراد بارش ، یعنی وہی اوپر سے تمہارے لئے بارش برساتا ہے جس سے تمہارے لئے رزق پیدا کرتا ہے۔ ینزل لکم من السماء رزقا۔ یہ ھو الذی مبتدا کی خبر ثانی ہے۔ ما یتذکر۔ مضارع نفی واحد مذکر غائب تذکر (تفعل) مصدر سے کوئی نصیحت نہیں پکڑتا ۔ (مگر ۔۔ ) من ینیب : من موصولہ۔ ینیب مضارع واحد مذکر غائب۔ انابۃ (افعال) مصدر ۔ وہ لوٹتا ہے (یعنی شرک سے توحید کی طرف) (مگر) وہ جو (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا ہے) ۔ یہ جملہ معترضہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی مینہ برساتا ہے جس سے تمہاری روزی پیدا ہوتی ہے۔4 اور جو خدا سے پھرا ہوا ہو اور کسی طرح اسے ماننے کو تیار نہ ہو وہ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑا ہوتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ایک ” اللہ “ کے ساتھ مشرک شرک کرتے ہیں صرف وہی تو ہے جو سب کو رزق دیتا ہے۔ مگر مشرک اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مشرک کی عادت اور بد قسمتی پر غور فرمائیں کہ جو ” اللہ “ اسے اور سب کو آسمانوں سے رزق فراہم کرتا ہے۔ اسے حقیقی داتا ماننے کے لیے تیار نہیں اور نہ اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔ شرک کی نحوست اور جہالت کی وجہ سے مشرک اس قدر اپنے رب سے ذہنی اور عملی طور پر دور ہوچکا ہوتا ہے کہ جوں ہی اللہ تعالیٰ کی وحدت اور توحیدِخالص کا ذکر ہو۔ مشرک کو ایسی بات نہایت ہی گراں گزرتی ہے۔ جس وجہ سے مشرک نصیحت پانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ حقیقی نصیحت کی ابتدا اور انتہا صرف توحید کو سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ اس سے بڑی کوئی حقیقی نصیحت نہیں جو آخرت میں انسان کے کام آسکے۔ ” اللہ تعالیٰ نے کئی بار بارش کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” اللہ “ ہی تمہارے لیے آسمان سے رزق نازل کرتا ہے۔ اس سے مراد اکثر مفسرین نے بارش لی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بارش رزق کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر چیز کی زندگی کا انحصار پانی پر رکھا ہے۔ “ (الانبیاء : ٣٠) بارش تو ایک ذریعہ ہے کیونکہ رزق کے بارے میں ارشاد ہے۔ اے لوگو ! جس رزق کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمانوں میں ہے۔ (الذٰریات : ٢٢) اگر صرف بارش کے حوالے سے بات کی جائے تو غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش کا کس طرح انتظام کرتا ہے۔ اس اللہ کی قدرت سے سمندر کا پانی بخارات کے ذریعے اوپر جاتا ہے اور اس کے حکم سے ہوا بخارات اٹھائے پھرتی ہے۔ پھر بخارات بادل بنتے ہیں اور بادلوں کو برسنے کا حکم ہوتا ہے۔ (الاعراف : ٥٧) اس پورے نظام میں دنیا کے حکمران، کسی ستارے، دیوتا اور فوت شدگان کا کوئی عمل دخل نہ ہے اور نہ ہوگا۔ اس لحاظ سے بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو ہر دور کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ دکھلاتا آرہا ہے اور دکھلاتا رہے گا۔ مگر اس کے باوجود کافر اور مشرک نہ اس کو ایک الٰہ مانتے ہیں اور نہ اسی ایک کی عبادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے مومنوں کو حکم ہے کہ کفار کو یہ دعوت اور یہ طریقہ عبادت کتنا ہی برا لگے۔ تمہارا فرض ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کے مطابق صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ وہی بلندو بالا اور عرش کا مالک ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل کرتا ہے۔ جس پر وحی کی جائے وہ لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرائے۔ جس دن لوگ اپنے اپنے مدفن سے نکل کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے اور ان کی کوئی بات اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی۔ رب ذوالجلال فرمائے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے ؟ بالآخر خود جواب دے گا کہ آج اکیلے اللہ قہار کی بادشاہی ہے۔ پھر اعلان ہوگا کہ بیشک آج ایک اللہ قہار کی بادشاہی ہے لیکن اس کے باوجود کسی پر رتی برابر بھی زیادتی نہ ہونے پائے گی۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ اے لوگو ! ہوش کرو ! تمہارا رب بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ آیت ١٥ میں درج ذیل چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 1 رَفِیْعُ الدََّرَجَاتِ : اس کے مفسرین نے دو معنٰی کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات، رفعت مکانی اور علوِّمرتبت کے لحاظ سے لاثانی، بےمثال اور اعلیٰ ہے اور وہی اپنے فضل سے مومنوں کے درجات بلندفرمانے والا ہے۔ 2 ذُوالْعَرْشِ بڑے عرش والا جس کے بارے میں عرش عظیم اور عرش کریم کے الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں۔ 3 یُلْقِی الرُّوْحَ : الرّوح کے کئی معانی ہیں جن میں ایک معنٰی وحی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنی وحی کے لیے منتخب کرتا ہے۔ جن بندوں کو اس نے اپنی وحی کے لیے منتخب کیا۔ ان میں آخری اللہ کے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو اللہ کے آخری رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قیامت تک کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔ رسولوں کا کام لوگوں تک حق بات پہچانا تھا منوانا نہیں تھا۔ 4 یَوْمَ التَّلَاقِ : مختلف مراحل کے حوالے سے قیامت کے کئی نام ہیں ان میں ایک نام ” یَوْمَ التَّلَاقِ “ ہے جس کا معنٰی ملاقات کا دن ہے۔ اس میں ہر شخص بلاواسطہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگا اور اسے اپنے اچھے اعمال کی جزا ملے اور برے اعمال کی سزا ہوگی۔ (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ )[ رواہ مسلم : باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ آسمان کو قیامت کے دن لپیٹ لے گا پھر اس کو دائیں ہاتھ میں پکڑے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جابر لوگ ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟ پھر زمین کو بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر اعلان ہوگا میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر لوگ ؟ اور کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُحْشَرُونَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُہِمَّہُمْ ذَاکَ )[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کیف الحشر ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیے جاؤ گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس دن معاملہ اس قدر شدید ہوگا کہ انھیں اس کا خیال تک بھی نہیں آئے گا۔ “ بارش کی دعا : (اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ )[ رواہ ابو داؤد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ ] ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم کا مالک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی نازل کرتا ہے۔ وحی کا ایک مقصد آخرت کے عذاب سے لوگوں کو ڈرانا ہے۔ ٤۔ رب ذوالجلال سے لوگوں کی کوئی بات پوشیدہ ہے اور نہ رہے گی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے ؟ ٦۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر رائی کے دانے برابر زیادتی نہ ہوگی۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش کس طرح نازل ہوتی ہے : ١۔ ہوائیں بخارات اٹھاتی اور بادلوں کو چلاتی ہیں۔ (الاعراف : ٥٧) ٢۔ آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٤۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 13 تا 17 ھوالذی یریکم اٰیٰته (40: 13) ” وہی تو ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے “۔ اور اللہ کی نشانیاں تو اس کائنات کی ہر چیز میں نظر آتی ہیں۔ شمس وقمر کی گردش میں ، رات اور دن کے نظام میں۔ رعد وبرق اور بارو باراں میں ، ذرے ، خلیے ، پتے اور پتیوں میں عرض ہر چیز میں ایک معجزانہ نشانی ہے اور اس نشانی کی عظمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اس کی نقل کرنے کے لیے بیٹھے۔ یا اس جیسی کوئی چیز بنائے لیکن اے کاش کہ وہ اس قسم کی کسی چیز کی نقل کرسکتا یا اس جیسی ہی بناسکتا اور اللہ کی بنائی ہوئی ایک نہایت ہی چھوٹی چیز ہی بناسکتا۔ وینزل لکم من السمآء رزقا (40: 13) ” اور آسمانوں سے تمہارے لیے رزق نازل کرتا ہے “۔ لوگوں کو صرف بارش کے بارے میں علم ہے جس کی وجہ سے اس زمین پر زندگی قائم ہے ، اور یہ کھانے وپینے کے تمام اسباب فراہم کرتی ہے اور آسمانوں سے نازل ہونے والی دوسری اشیاء بھی بیشمار ہیں جن کے انکشافات روز ہوتے رہتے ہیں ، ان میں وہ شعاعیں ہیں جو زندگی بخشتی ہیں کہ اگر وہ نہ ہوں تو زمین کے اس ستارے پر زندگی نہ ہوتی اور یہ بھی انسان کے لیے ایک ذہنی اور روحانی غذا ہے جو آدم (علیہ السلام) سے نازل ہوتی چلی آرہی ہے اور جس کے ذریعے انسان سے بچنے سے آگے بڑھ کر بالغ ہوگیا ہے۔ اور اب نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے صراط مستقیم پر گامزن ہوگیا ہے۔ اور اس رزاق نے اسے منہاج حیات دیا ، اور اس کائنات کا مستقل قانون عطا کیا۔ وما یتذکر الامن ینیب (40: 13) ” سبق صرف وہی شخص لیتا ہے جو اللہ سے رجوع کرنے والا ہو “۔ جو شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ اللہ کا فضل وکرم کس قدرعظیم ہے اور وہ اس کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو پاتا ہے جبکہ غافل اور سخت دل ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔۔۔۔ انابت کی وجہ سے اہل ایمان کے دل میں جو یاد الہٰی پیدا ہوتی ہے ، اور وہ ان نشانیوں پر غور وفکر کرتے ہیں ، اس کے حوالے سے مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ وحدہ کو پکاریں ، اسی کا طے کردہ نظام زندگی جاری کریں اور کافروں کی ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ اگر مومنین اپنا دین اللہ کے لیے خالص کردیں اور صرف اسلامی نظام زندگی نافذ کردیں تو اس صورت میں کافران سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتے ۔ اسی طرح وہ اگر اللہ وحدہ کو پکاریں تو بھی کافر راضی نہیں ہوسکتے۔ مومنین کافروں کے ساتھ جس قدر نرمی بھی کریں ، جس قدر مصالحت بھی کریں اور ان کی رضا جوئی کے لیے جس قدر جتن بھی کریں وہ ان سے راضی نہیں ہوسکتے ۔ لہٰذا مومنین کو بےخطر اپنے راستے پر گامزن ہوجانا چاہئے ۔ رب واحد کو پکارنا چاہئے ، اس کے لیے عقیدہ خالص اختیار کرنا چاہئے۔ دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنا چاہئے ، چاہے کافر خوش ہوں یا خفا ہوں وہ تو کبھی راضی نہ ہوں گے۔ اب بتایا جاتا ہے کہ اس اللہ کی صفات کیا ہیں جس کی عبادت کی طرف اہل ایمان متوجہ ہوں گے اور اس پر کافر ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے۔ وہ صفات یہ ہیں : رفیع الدرجٰت۔۔۔۔۔ من عبادہ (40: 15) ” وہ بلند دوجوں والا ہے ، مالک عرش ہے ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنے حکم سے روح نازل کردیتا ہے “۔ اللہ ہی رفعتوں والا اور عالی مقام ہے۔ اور وہ ایک ایسے عرش کا مالک ہے جو قابض ہے پوری کائنات پر اور بہت ہی بلند ہے اور یہ وہی ہے جو اپنے بندے پر روحانی تعلیمات نازل کردیتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے یہ زمین دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے۔ اس میں بسنے والے انسانوں کی روح اور دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے مراد وحی اور رسالت ہے۔ لیکن انداز تعبیر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وحی اور رسالت کی غرض وغایت کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وحی لوگوں کے لیے روح اور زندگی ہے۔ اور پھر بلندیوں سے چنے ہوئے بندوں پر آتی ہے۔ یہ سب صفات اور سائے اور رنگ اللہ کی اس صفت کے ساتھ متناسب ہیں جن میں کیا گیا ہے کہ وہ العلی الکبیر ہے۔ اب جن لوگوں کو چنا جاتا ہے اور ان پر روح نازل کی جاتی ہے۔ ان کا فریضہ منصبی کیا ہے ؟ صرف لوگوں کو متنبہ کرنا۔ لینذریوم التلاق (40: 15) ” تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کردے “۔ اس دن تمام لوگ باہم ملیں گے ، لوگ اپنے اعمال کے ساتھ دوچار ہوں گے۔ لوگ ملائکہ ، جنوں اور تمام مخلوقات سے ملیں گے اور تمام لوگوں کو بھی باری تعالیٰ سے ملنا ہوگا اور حساب دینا ہوگا۔ گویا یہ دن اپنے تمام مفاہیم کے ساتھ یوم التلاق ہے۔ پھر یہ ایسا دن ہوگا کو کھلا ڈھلا ہوگا ، کوئی پردہ ، کوئی ملع کاری اور کوئی دھوکہ بازی اس میں نہ چلے گی : یوم ھم۔۔۔۔ شئ (40: 16) ” وہ دن جبکہ سب لوگ بےپردہ ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی “۔ اور اللہ سے تو کسی بھی وقت ، کسی بھی دن جبکہ سب لوگ بےپردہ ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی “۔ اور اللہ سے تو کسی بھی وقت ، کسی بھی دن اور کسی بھی حال میں کوئی شئ مخفی نہیں ہوتی ، لیکن دوسرے دنوں میں ، اس دنیا کے دنوں میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مخفی ہیں اور ان کے اعمال اور حرکات پوشیدہ ہیں ، آج لوگ خود بھی یہ سمجھیں گے کہ اب تو سب کھل گیا ہے ، ان کا سیاہ وسپید سامنے ہے۔ اور پردے غائب ہیں اور وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ آج تو مکذبین اور متکبرین برخوردار ہوں گے ، سکڑے اور سمٹے ہوئے ہوں گے۔ تمام کائنات سہمی ہوئی ہوگی ، لوگ ڈرے ہوئے ہوں گے۔ بادشاہت صرف اللہ وحدوقہار کی ہوگی۔ اللہ تو ہر وقت وحدہ بادشاہ ہے لیکن پہلے لوگوں کو اللہ کی بادشاہت نظرنہ آتی تھی۔ آج ان کا دل دماغ تسلیم کرتا ہے کہ بادشاہت اللہ کی ہے۔ ہر متکبر اور ہر متکبر بھی جان جائے گا کہ بادشاہ صرف اللہ ہے ۔ ہر قسم کی شور وغوغا اس دن ختم ہوگی اور ایک عظیم القدر اور صاحب جلالت آواز آئے گی۔ خود ہی سوال کرے گی اور خود ہی جواب دے گی پوری کائنات میں آج جواب دینے والا ہی کوئی نہیں ہے۔ لمن الملک۔۔۔ القھار (40: 16) ” آج بادشاہی کس کی ہے ؟ اللہ واحد قہار کی “۔ الیوم تجزٰی۔۔۔۔ الحساب (40: 17) ” آج ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا ، جو اس نے کی تھی ، آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے “۔ آج کا دن جزائے حق کا دن ہے۔ آج عدل کا دن ہے ، آج فیصلے اور حکم سنانے کا دن ہے۔ کوئی مہلت کسی کے لیے نہیں اور نہ سست روی ہے۔ فضا پر رعب اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ لوگوں پر خشوع اور خوف طاری ہوجاتا ہے ، تمام مخلوق بات سنتی ہے اور سہم جاتی ہے۔ تمام معاملات طے کردیئے جاتے ہیں اور تمام دفاتر لپیٹ لیے جاتے ہیں ، بڑی تیزی میں ۔ سورت کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں۔ فلایغررک تقلبھم فی البلاد (40: 4) ” شہروں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکہ نہ دے۔ یہاں بتادیا کہ زمین میں ان کی اس چلت پھرت کا ، ان کی سربلندی اور ناحق بڑائی کا ، ان کی جباری وقہاری کا ، اور ان کی دولت وسازو سامان کا یہ انجام ہے کہ مارے خوف کے سہمے ہوئے ہیں ، بات تک نہیں کرسکتے۔ اب روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مڑجاتا ہے کہ اپنی قوم کو اس سخت دن سے ڈرائیں ۔ ایک منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں فیصلے کے اختیارات صرف اللہ کے ہیں ، جبکہ اس سے قبل ان کے اس دن کے حالات حکایتی انداز میں بیان کیے گئے تھے اور اس میں ان کو بات کرنے کی کوئی اجازت نہ تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ رفیع الدرجات ہے، ذوالعرش ہے، جس کی طرف چاہتا ہے، وحی بھیجتا ہے، قیامت کے دن سب حاضر ہوں گے، اللہ سے کوئی بھی پوشیدہ نہ ہوگا، صرف اللہ تعالیٰ ہی کی بادشاہی ہوگی ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے بعض انعامات اور صفات جلیلہ اور قیامت کے دن کے بعض مناظر بیان فرمائے ہیں، اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اس کی مخلوق میں بیشمار نشانیاں ہیں جو اس کے قادر مطلق اور وحدہ لا شریک ہونے پر دلالت کرتی ہیں پھر فرمایا کہ وہ تمہارے لیے آسمانوں سے رزق نازل فرماتا ہے اس میں بیان قدرت بھی ہے اور اظہار انعام بھی پھر بھی (وَمَا یَتَذَکَّرُ اِِلَّا مَنْ یُّنِیبُ ) (اور نشانیوں کو دیکھ کر وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو رجوع کرتے ہیں) یعنی اپنی عقل کو استعمال کرتے ہیں اور فکر کو کام میں لاتے ہیں اور نشانیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کا یہ غور و فکر انہیں قبول حق تک پہنچا دیتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے رزق نازل کرتا ہے اور ان باتوں سے صرف وہی شخص نصیحت قبول کرتا ہے اور ان پر صرف وہی غور اور سوچ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے کی خواہش اور ارادہ کرتا ہے یعنی مختلف نشانیاں دکھاتا ہے ۔ فغی کل شبئی لہ ایۃ۔ ہرچیز میں اس کی کوئی نہ کوئی نشانی وجود ہے آسمان سے رزق اتارنے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے بارش کرتا جس کی وجہ سے ہر قسم کی نعمت زمین سی نکلتی ہے ان نشانیوں سے صرف وہی لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں توفیق میسر ہوجاتی ہے۔