Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 26

سورة مومن

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ ﴿۲۶﴾

And Pharaoh said, "Let me kill Moses and let him call upon his Lord. Indeed, I fear that he will change your religion or that he will cause corruption in the land."

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام ) کو مار ڈالوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی ( بہت بڑا ) فساد برپا نہ کر دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ... Fir`awn said: "Leave me to kill Musa, and let him call his Lord!..." Fir`awn, may Allah curse him, resolved to kill Musa, peace be upon him, i.e., he said to his people, `let me kill him for you.' وَلْيَدْعُ رَبَّهُ (and let him call his Lord!), means, `I do not care.' This is the utmost in offensive stubbornness....  ... إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الاَْرْضِ الْفَسَادَ I fear that he may change your religion, or that he may cause mischief to appear in the land! (means, Musa); Fir`awn was afraid that Musa would lead his people astray and change their ways and customs. As if Fir`awn would be concerned about what Musa might do to his people! The majority understood this as meaning, `he will change your religion and cause mischief to appear in the land.' وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُم مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لاَّ يُوْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یہ غالبًا فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔ 26۔ 2 یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہار ہے کہ میں دیکھوں گا، اس کا رب اسے کیسے بچاتا ہے، اسے پکار کر دیکھ لے۔ یا رب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچا لے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔...  26۔ 3 یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث و تکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوگا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے قساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا درآں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] فرعون کی گیدڑ بھبکی :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے والوں میں کمی ہونے کے بجائے ان کی تعداد بڑھتی ہی گئی تو فرعون نے سوچا کہ اب اس مصیبت کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ ہی کو قتل کردیا جائے۔ لیکن اس کے درباریوں نے جو صحیح صورت حال سے واقف ہوچکے تھے اسے اس...  کام سے منع کردیا کہ کہیں ملک میں کوئی بڑی بغاوت نہ اٹھ کھڑی ہو، تو ان درباریوں کو فرعون نے یہ جواب دیا ہو کہ اب یہ کام کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ لہذا مجھے یہ کام کرنے سے مت روکو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے کسی نے بھی روکا نہ ہو مگر وہ محض اپنی بہادری جتلانے کے لئے یہ بات کہہ رہا ہو۔ مگر چونکہ وہ خود بھی دل میں ڈرا اور سہما ہوا تھا اس لئے وہ اس طرح بات کر رہا تھا۔ ورنہ اگر وہ خود خائف نہ ہوتا اور اس کام کا ارادہ کرلیتا تو اسے کون روکنے والا تھا۔ ؟ [٣٥] دین سے مراد تمدن اور ملکی نظام ہے :۔ یہاں دین سے مرادصرف سورج دیوتا یا ہبل کی پوجا ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام سلطنت اور نظام تمدن ہے۔ یعنی فرعون کو اصل خطرہ تو یہ تھا کہ کہیں اس ملک کی فرمانروائی اس سے چھن نہ جائے۔ مگر اس نے اس بات کو مکار سیاسی لیڈروں کے انداز میں پیش کیا کہ تمہارا دین، جس سے تمہیں محبت ہے۔ وہی نہ بدل ڈالے، جیسے ہمارے ہاں سیاسی لیڈر ایسے بیان دیتے رہتے ہیں کہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں۔ حالانکہ عوام بیچارے آئے دن کے انتخابات سے پہلے ہی بیزار بیٹھے ہوتے ہیں۔ [٣٦] یعنی اگر وہ اس نظام کو بدل نہ سکے تب بھی یہ خطرہ ضرور ہے کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ لہذا تحفظ امن عامہ کی خاطر ضروری ہے کہ جیسے بھی بن پڑے موسیٰ کو قتل کرکے ان آنے والی پریشانیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال فرعون ذرونی اقتل موسیٰ : یہ کہہ کر ف عون ظاہر یہ کرنا چاہتا تھا کہ ابھی تک اس نے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا تو اپنے درباریوں اور سرداروں کے روکنے کی وجہ سے نہیں کیا۔ یہ بات اس نے محض رعب کا گانٹھنے کے لئے یا اپنے آپ کو ہمت دلانے کے لئے کہی، کیونکہ اندر سے وہ شدید خوف زدہ تھا اور...  اللہ تعالیٰ نے ” نجعل لکما سلطناً فلا یصلون الیکما “ (ہم تم دونوں کے لئے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔ قصص : ٣٥) کے فرمان کے ساتھ موسیٰ اور ہ اورن (علیہ السلام) کو جو غلبہ اور رعب عطا فرما رکھا تھا، اس کے ہوتے ہوئے اس کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ انہیں قتل کرے، یا کوئی اور نقصان پہنچائے۔ رہے درباری، تو وہ نہ تو فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روکتے تھے اور نہ ہی فرعون ان کی رائے کو پرکاہ کی وقعت دیتا تھا۔ (دیکھیے مومن : ٢٩) اس نے اپنی پوری قوم کو اتنا بےوقعت بنادیا تھا کہ وہ ہر بات میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، خواہ وہ عقل سے کتنی ہی دور ہو جیسا کہ فرمایا :(فاستخف قومہ فاطعوہ، انھم کانوا قوما فسقین) (الزخرف : ٥٣)” غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بےوزن) کردیا تو انہوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقیناً وہ فرمان لوگ تھے۔ “ (٢) ولیدع ربہ : یہ بھی اس کی گیدڑ بھبکی تھی، ورنہ اسے اور اس کی قوم کو موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر یقین ہوچکا تھا کہ وہ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں بےیارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ اگر اسے یہ یقین نہ ہوچکا ہوتا تو اتنی افواج قاہرہ کا مالک ہونے کے باوجود کس نے اس کا ہاتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روک رکھا تھا۔ (٣) انی اخاف یبدل دینکم : دین سے مراد کا عقیدہ اور اس پر مبین نظام سلطنت ہے، جس میں فرعون کو رب الاعلیٰ اور اس کے حکم کو واجب الاطاعت مانا جاتا تھا۔ یعنی مجھے خطرہ ہے کہ یہ تمہیں تمہارے اس دین اور اعتقاد کا منکر کر دے جس کے تحت تم مجھے اپنا رب سمجھ کر میری محکومی اور فرماں برداری پر مطمئن ہو اور اس طرح ملک میں اقنلاب برپا کر دے، گویا میں اسے تمہاری خاطر ہی قتل کرنا چاہتا ہوں۔ (٤) او ان یظھر فی الارض الفساد : یعنی اگر وہ تمام اہل مصر کو آبائی دین کا منکر نہ کرسکے تو کم از کم یہ خطرہ تو ضرور ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو توحید کا قائل کرلے اور بعض میری ربوبیت اور حاکمیت کے قائل رہیں، اس سے آئے دن ملک میں ف ساد برپا رہے۔ یہ وہی انداز ہے جسے ہر مطلق العنان حاکم اندرونی یا بیرونی خطرے کا ہوا کھڑا کر کے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ اس ظالم کو تو دیکھیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو جس سے لوگ راہ راست پر آرہے ہیں، فساد قرار دے رہا ہے، حالانکہ اصل فسادی وہ خود ہے، جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے :(الا انھم ھم المفسدون ولکن لایشعرون) (البقرۃ : ١٢)” سن لو ! یقیناً وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّہٗ۝ ٠ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْہِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ۝ ٢٦ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی ... بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ ظَاهِرِهونا واستعیر لِظَاهِرِ الأرضِ ، فقیل : ظَهْرُ الأرضِ وبطنها . قال تعالی: ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر/ 45] ، ورجلٌ مُظَهَّرٌ: شدیدُ الظَّهْرِ ، وظَهِرَ : يشتكي ظَهْرَهُ. ويعبّر عن المرکوب بِالظَّهْرِ ، ويستعار لمن يتقوّى به، وبعیر ظَهِيرٌ: قويّ بيّن الظَّهَارَةِ ، وظِهْرِيٌّ: معدّ للرّكوب، والظِّهْرِيُّ أيضا : ما تجعله بِظَهْرِكَ فتنساه . قال تعالی: وَراءَكُمْ ظِهْرِيًّا [هود/ 92] ، اور کبھی ظہر کا لفظ بطور استعارہ روئے زمین کے معنی میں بھی آجاتا ہے ۔ کہاجاتا ہے ظھرالارض زمین کا اوپر کا حصہ اس کے بالمقابل بطن الارض کے معنی ہیں زمین کا اندرونی حصہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر/ 45] روئے زمین پر ایک چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا ۔ رجل مظھر قوی پست مضبوط آدمی ظھر پیٹھ درد کرنا اور ظھر سواری کو کہتے ہیں ۔ نیز ظھر ۔ مددگار پشت پناہ بعیر ظھیرقوی اونٹ ظھری وہ فالتوں سواری جیسے احتیاطا ساتھ رکھ لیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال کیا جاسکے ۔ نیز ظھری ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے پس پشت ڈال کر بھولی بسری کردیا جائے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَراءَكُمْ ظِهْرِيًّا[هود/ 92] فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور فرعون کہنے لگا کہ مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں اور اس کو چاہیے کہ اپنے رب کو بلا لے جس کے بارے میں یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے مجھے ڈر ہے کہ جس دین پر تم ہو کہیں وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی خرابی نہ پھیلائے کہ تمہاری لڑکیوں کو خادمہ بنائے اور لڑکو... ں کو قتل کر ڈالے جیسا کہ تم لوگ کر رہے ہو یا یہ کہ تمہارے آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑ دے اور تم سب کو اپنے دین میں داخل کرے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ } ” اور فرعون نے کہا : مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو قتل کر دوں اور وہ (بچائو کے لیے) پکارلے اپنے رب کو۔ “ فرعون کے اس فقرے کے اندر بہت سی اَن کہی تفصیلات کی جھلک بھی نظر آرہی ہے۔ اَوّلاً اس سے یہ معلوم ہوتا ... ہے کہ اس وقت تک فرعون بھانپ چکا تھا کہ پانی سر سے گزرنے کو ہے اور یہ کہ اس مرحلے پر اگر موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو قتل کر کے راستے سے نہ ہٹایا گیا تو یہ طوفان اس کے اقتدار سمیت مصر کی ” عظیم الشان تہذیب “ اور ” مثالی روایات “ کو بھی بہا لے جائے گا۔ ثانیاً اس فقرے سے اس کی بےچارگی بھی عیاں ہو رہی ہے۔ وہ مطلق العنان بادشاہ تھا مگر اس کے باوجود اس نے اپنے وزراء اور امراء سے اس قرارداد کی منظوری کی درخواست کی۔ اس کی ضرورت اسے کیوں محسوس ہوئی ؟ در اصل وہ دیکھ رہا تھا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کی دعوت سے ہر طبقے کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے اسے اندیشہ تھا کہ اگر اس تجویز پر تمام درباریوں کو اعتماد میں نہ لیا گیا تو رد عمل کے طور پر کہیں سے کوئی بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے۔ { اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْہِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ } ” مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فساد برپا کر دے گا۔ “ ” دین “ سے مراد یہاں نظام حکومت ہے ‘ اور فرعون کو اب سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ مصر کا اقتدارِ اعلیٰ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ فرعون کی مذکورہ قرارداد کی اطلاع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچی تو آپ ( علیہ السلام) نے خود کو اللہ کی پناہ میں دینے کے عزم کا اظہار کیا :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 The event which is being related here is a very important event of the Israelite history, which the Israelites themselves have totally forgotten. Both the Bible and the Talmud are without it, and no mention of it is found in the other Israelite traditions either. Only through the Qur'an has the world come to know that during the conflict between Pharaoh and the Prophet Moses this event had take... n place at some time. Anybody who reads this story, provided that he has not been blinded by prejudice against Islam and the Qur'an, cannot but realize that from the viewpoint of the invitation to the Truth this story is very valuable, and this thing by itself also is in no way against reason that a person from among the nobles of the kingdom of Pharaoh himself might have quietly believed in his heart, having been influenced by the personality of the Prophet Moses, his preaching and the wonderful miracles shown by him, and might not have been able to restrain himself when he saw that Pharaoh was planning to kill him. But the way the Western orientalists, in spite of their tall claims to knowledge ard research, try to repudiate the self-evident truths of the Qur'an, on account of prejudice, can be judged from this that the author of the article "Musa" in the Encyclopaedia of Islam writes in respect of this story: "The Kuranic story of a believer at the court of Pharaoh who wants to save Musa is not quite clear (xl, 28). Ought we to compare Jethro in the Haggada who advises clemency at Pharaoh's court?" In other words, these so-called researchers have one thing settled with them: they must find fault with everything that the Qur'an presents. Now, if they do not find any ground for criticising a statement of it, they should at least say this much out of mischief that the story is not entirely clear, and also should incidentally create this doubt in the reader's mind that the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) might have heard from somewhere the story of Jethro mentioned in the Haggada taking place even before the birth of Prophet Moses, and inserted it here in this form. This is the type of literary research" which these people have adopted with regard to Islam and the Qur'an and the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace). 42 In this sentence Pharaoh tries to give the impression as if some people were restraining him .from killing the Prophet Moses. Had they not stood in his way. he would have killed him long ago, whereas in fact there was no external power to restrain him; it was the fear of his own heart which was preventing him from laying his hands on the Messenger of Allah. 43 That is, "I fear a revolution from him, and even if he is unable to bring it about, there is at least the danger that he will cause mischief to appear in the country by his activities. Therefore, even if he doesn't commit a crime punishable with death, he should be put to death only for the sake of the maintenance of public order. As for this whether there is a real danger to the public order from him, the king's satisfaction in this regard is enough. If his majesty is convinced that he is dangerous, it should be declared that he is really dangerous and punishable with death." Here, the meaning of "changing the religion" also should be understood well. on account of which Pharaoh wanted to put the Prophet Moses to death. Din here implies the system of government, and what Pharaoh meant to say was this: "I fear that he will change your king." (Ruh al-Ma'ani, vol. XXIV, p. 56). In other words, the din of the land was the religious, political, cultural and economic system that was prevalent in Egypt on the basis of Pharaoh's and his family's sovereignty, and Pharaoh was afraid that Moses' message would change that very din. But like the cunning and deceitful rulers of every age he also did not say that he feared being deposed from his position of authority and, therefore, he wanted to kill Moses, but he presented the case like this: "O people, the danger is for you, not for me; for if Moses' movement succeeded your din would change. I am not worried for myself: I am worried for your sake as to what would become of you when you have been deprived of the protection of my authority. Therefore, the wicked man who poses such a danger should be put to death, for he is an enemy of the state. "  Show more

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :41 یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں ۔ بائیبل اور تَلْمود ، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں ، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔ اس قصے...  کو جو شخص بھی پڑھے گا ، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا نہ ہو چکا ہو ، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوت حق کے نقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے ، اور بجائے خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت ، ان کی تبلیغ ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہوکر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو ۔ لیکن مغربی مستشرقین ، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود ، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن کی روشن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مضمون موسیٰ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے : قرآن کی یہ کہانی کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ، پوری طرح واضح نہیں ہے ( سورہ40 آیت 28 ) ۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصے سے کرنا چاہیے جو ہگادا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھرو نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ؟ گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی ڈالنے ہیں ۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے ، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جائے کہ ہَگّادا میں یتھرو کا جو قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سن لیا ہو گا ، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا ۔ یہ ہے علمی تحقیق کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :42 اس فقرے میں فرعون یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا کچھ لوگوں نے اسے روک رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ کو قتل نہیں کر رہا ہے ، ورنہ اگر وہ مانع نہ ہوتے تو وہ کبھی کا انہیں ہلاک کر چکا ہوتا ۔ حالانکہ دراصل باہر کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہ تھی ، اس کے اپنے دل کا خوف ہی اس کو اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :43 یعنی ، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے ، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا ، لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت جرم کرے ، محض تحفظ امن عام ( Maintenance of Public order ) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے ۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں ، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے ۔ سرکار عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے ۔ اس مقام پر دین بدل ڈالنے کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا ۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ انی اخاف ان یغیر سلطانکم ( روح المعانی ، ج 24 ص 56 ) ۔ بالفاظ دیگر ، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدار اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا ، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا ۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں ، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو ، خطرہ مجھے نہیں ، تمہیں لاحق ہے ، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جائے گا ۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے ۔ میں تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایہ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا ۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک اور قوم کا دشمن ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:26) ذرونی فعل امر جمع مذکر غائب وذر مصدر (باب سمع و فتح) بمعنی چھوڑ دینا۔ مثلا اور جگہ قرآن مجید میں ہے ویذرھم فی طغیانہم یعمھون ۔ (7:186) اور وہ انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے رکھتا ہے۔ ذروا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم ۔ تم سب مجھے چھوڑ دو ۔ اقتل مضارع مجزوم بو... جہ جواب امر صیغہ واحد متکلم کہ میں قتل کر دں ذرونی اقتل تم مجھے چھوڑ دو کہ میں (موسیٰ کو) قتل کر ڈالوں یا قتل کر دوں۔ ولیدع واؤ عاطفہ ہے لیدع لام لام امر ہے اور یہ حرف جازم فعل ہے مضارع مجزوم (بوجہ لام امر) واحد مذکر غائب۔ رعاء (باب نصر) مصدر سے۔ اور اسے چاہیے کہ وہ (اپنے رب کو ربہ) پکارے۔ یا پکار دیکھے۔ ان اخاف : ای ان لم اقتلہ یعنی اگر میں نے اسے قتل نہ کیا تو میں ڈرتا ہوں یا مجھے ڈر ہے کہ ۔۔ ان یبدل میں ان مصدریہ ہے یبدل مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب تبدیل (تفعیل) مصدر سے کہ وہ (تمہارا دین ہی) بدل دے۔ او ان یظھر فی الارض الفساد : او۔ یا۔ ان مصدریہ ۔ یظھر مضارع (منصوب بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب۔ اظہار (افعال) مصدر پھیلانا۔ ظاہر کرنا۔ یا ملک میں فساد پھیلادے۔ اظہرہ علی عدوہ۔ کسی کو دشمن پر غالب کرنا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 گویا اب تک جو وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے سے رکا ہوا تھا وہ محض اس لئے کہ درباری اسے منع کر رہے تھے یہ بات اس نے محض رعب گانٹھنے کے لئے کہی یا اپنے آپ کو ہمت دلانے کے لئے، حالانکہ اندر سے خدائی طاقت تھی جو اسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھی۔ ( فتح القدیر) ش... اہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑو، شاید اس کے ارکان مشورہ نہ دیتے ہونگے مارنے کا اس سے کہ معجزہ دیکھ کر ڈر گئے تھے کہیں اس کا رب بدلہ نہ لے۔ (موضح)7 جس نے اسے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے دیکھیں وہ مییر ہاتھ سے اسے کیونکر بچاتا ہے ؟8 یعنی تمہیں اس دین اور اعتقاد کا منکر کر دے جس کے تحت تم مجھے اپنا رب سمجھ کر میری محکمومی و تابعداری پر مطمئن ہو۔9 یعنی اگر وہ تمام اہل مصر کو آبائی دین کا منکر نہ کرسکے تو کم از کم یہ خطرہ تو ضرور ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو توحید کا قائل کرلے اور بعض میری حاکمیت کے قائل رہیں اور پھر آئے دن ملک میں خانہ جنگی کا بازار گرم رہے۔ یہ وہی انداز ہے جسے ہر اقتدار پسند طبقہ یا حکومت پر قابض بادشاہ یا ڈکٹیٹر اہل ملک کے سامنے اندرونی یا بیرونی خطرہ کا ہوا کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا رکھنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے قتل عام کے بعد فرعون کا انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ۔ نامعلوم فرعون نے کتنی مدّت تک بنی اسرائیل کا قتل عام جاری رکھا۔ اس ظالمانہ اقدام کے باوجود بنی اسرائیل کا نوجوان طبقہ موسیٰ (علیہ السلام) پر دھڑا دھڑ ایمان لانے لگا جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہ... ے۔ ” موسیٰ پر اس کی قوم کے نو جوانوں کے سوا فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف اور ان کے فتنہ میں مبتلا کرنے کی وجہ سے کوئی ایمان نہ لایا اور بلا شبہ فرعون زمین میں سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں تھا۔ موسیٰ نے فرمایا اے میری قوم ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم فرمانبردار ہو۔ تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے سے بچا۔ اور اپنی رحمت کے ساتھ ہمیں کافر لوگوں سے نجات عطا فرما۔ “ (یونس : ٨٣ تا ٨٦) اس صورت حال میں فرعون نے یہ محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کے قتل عام کا فیصلہ جس مقصد کے لیے کیا گیا تھا اس کا نتیجہ ہماری بجائے موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جارہا ہے۔ اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف انتہائی اقدام کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے لیے اس نے وزیروں مشیروں کو کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر کے رہوں گا۔ بیشک وہ اپنے رب کو میرے مقابلے میں لے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح ڈھیل دیئے رکھی تو وہ تمہارے دین کو بدل دے گا اور ملک کو برباد کر دے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے کہ فرعون غصہ میں اپنے آپ سے باہر ہوا جارہا تھا اور اس کی قتل عام کی مہم ناکام ہوچکی تھی اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگائے کہ یہ ہمارے دین کو بدلنا چاہتا ہے اور ملک کو برباد کرنے درپے ہے۔ مجھے چھوڑ دو کے بارے میں مفسرین نے تین آراء کا اظہار کیا ہے۔ 1 موسیٰ (علیہ السلام) کی جرأت اور ان کے معجزات دیکھ کر فرعون اپنے دل میں خوف زدہ تھا کہ اگر میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی گزند پہنچائی تو ” اللہ “ کے ہاں فوری طور پر میری گرفت ہوجائے گی۔ 2 جس طرح اس نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ہی اس نے جھوٹی دھمکی دی تھی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ 3 فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی وارننگ دے کر انہیں مرعوب کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) سچے رسول ہیں اور اپنے رب کی نگرانی میں ہیں۔ یہاں تک کہ فرعون کا یہ کہنا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا دین بدلنا چاہتا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات شروع سے ہی حکمران اور دنیا دار انبیاء اور داعی حق کے بارے میں کہتے آ رہے ہیں۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کی دین سے مراد اس کا نظام حکومت ہے یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن اس بات کی گنجائش بھی موجود ہے کہ مشرک جس کی بھی پوجا کرتے ہیں وہ دین اور ثواب سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ فرعون کے ا لفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مذہبی لوگوں کو دین کے حوالے سے اور سیاسی لوگوں کو ملک کے نظام کے حولے سے اکسایا تھا تاکہ بیک وقت مذہب اور سیاست کے نام پر لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکایا جاسکے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون نے کسی دوسرے موقع پر براہ راست موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کھلے الفاظ میں فرمایا کہ میں قیامت کا انکار کرنے والے ہر متکبر سے اپنے اور تمہارے رب کی حفاظت میں آچکا ہوں۔ (المومن : ٢٧ ) تکبر کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ مسائل ١۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ملک میں فساد کرنے والا قرار دیا۔ ٢۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ٣۔ فرعون نے اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے لوگوں کو کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا دین بدلنا چاہتا ہے۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بلا خوف یہ بات فرمائی کہ میری حفاظت میرے رب نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ ٥۔ مومن کو متکبر شخص سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ ٦۔ جو شخص قیامت کے حساب و کتاب کو نہیں مانتا حقیقتاً وہ متکبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن متکبر شخص کی عادات اور اس کا انجام : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن : ٧٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر جابر اور متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن : ٣٥) ٧۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف : ٤٨) ٨۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (الاحقاف : ٢٠) ٩۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف : ٣٦) ١٠۔ جہنم کے دروازوں سے ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔ تکبر کرنے والوں کا کیسا برا ٹھکانہ ہے۔ (النحل : ٢٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 26 اس کے اس قول سے ذرونی اقتل موسیٰ (40: 26) ” چھوڑو مجھے ، میں اس موسیٰ کو قتل کروں “ سے معلوم ہوتا ہے ، اس کے حاشیہ نشینوں کی جانب سے حضرت موسیٰ کے قتل کے خلاف دلائل دیئے جارہے تھے کہ اگر آپ موسیٰ کو قتل کر بھی دیں تو مسئلہ ختم نہ ہوگا ، جمہور عوام انہیں شہید سمجھ کر اسے ایک مقدس شخصیت ق... رار دیں گے۔ اس طرح لوگ شعوری طور پر ان کے دین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہون ، خصوصاً جبکہ ایک قومی میلے کے دن جادوگر اس پر ایمان لاچکے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کی وجہ بھی لوگوں کو بتادی ہے۔ حالانکہ جادوگروں کو جمع اس لیے کیا گیا تھا کہ اس کے دین کو باطل ثابت کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ کے بعض مشیر دل ہی دل میں ڈرگئے ہوں کہ حضرت موسیٰ کا خدا ان سے انتقام لے گا۔ اور وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے ، یہ بات بعید ازامکان نہیں ہے کیونکہ بت پرست تو متعدد الہوں کے قائل ہوتے تھے۔ اور وہ قدرتی طور پر سوچ سکتے تھے کہ موسیٰ کا خدا ان سے انتقام لے۔ اور فرعون کا یہ قول کہ ولیدع ربه (40: 26) ” اور یہ اپنے رب کو بھی پکار دیکھے “۔ اگرچہ بظاہر فرعون کی ایک متکبرانہ بات ہے۔ لیکن شاید یہ ان مشیروں کے رد میں ہو اور اسی متکبرانہ بات کی وجہ سے بعد میں اسے اللہ نے پکڑا اور ہلاک کردیا۔ جیسا کہ بعد میں آئے گا۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے جو فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کے جواز کے بارے میں کہی۔ انی اخاف۔۔۔۔ الفساد (40: 26) ” مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد برپا کردے گا “۔ فرعون کی اس دلیل پر غور ضروری ہے۔ کیا ایک بت پرست بادشاہ کی یہ بات کوئی نئی بات ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین بدل دے گا ، یا کم ازکم ملک میں فساد ضرور برپا کردے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر سرکش اور مفسد ہمیشہ یہی کہتا ہے ، جب بھی کسی نے اسلام کی اصلاحی دعوت شروع کی ہے۔ مفسدین نے یہی بات کہی کہ انہوں نے اصلاح کو فساد کہا ، ہمیشہ اہل ایمان داعیوں اور مصلحین کے بارے میں مطلب برست سرکشوں اور مفسدوں نے عوام کے سامنے یہی عذر پیش کیا۔ جب بھی حق و باطل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی ، باطل کی منطق اور استدلال یہی رہا۔ ایمان اور کفر کی جنگ میں یہی منطق چلتی رہی۔ ہر زمان ومکان میں اور تاریخ کے ہر دور میں اصلاح کو فساد اور فساد کو اصلاح کہا گیا۔ عرض یہ قدیم کہانی ہے اور اسے باربار دہرایا جاتا ہے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے تھے۔ ان کا بھروسہ نہایت مضبوط قوت پر تھا۔ وہ حصن حصین میں محفوظ تھے اور انہوں نے اس ذات کے ہاں پناہ لے رکھی تھی جہاں ہر سرکش متکبر سے بھاگ کر لوگ پناہ لیتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ ” وقال فرعون “ فرعون نے سوچا موسیٰ (علیہ السلام) ہی اس نئے دین کی جڑ ہے، اس لیے اسے ہی ختم کرنا چاہئے۔ چناچہ اب ان کے قتل کا فیصلہ ہوا۔ فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں اسے قتل کرادوں، اور وہ اپنے رب کو اپنی مدد کے لیے بلا لے، ہم دیکھیں گے کس طرح وہ اسے قتل سے بچائیگا۔ فرعون کے اس انداز کلام سے م... علوم ہوتا ہے کہ وہ دہریہ تھا اور خدا کے وجود کا قائل نہ تھا۔ ” انی اخاف “ اس میں فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی وجہ بیان کی ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارا دین بدل دے اور تمہاری قوم (شاہی خاندان) اس کا دین قبول کرلے اور وہ میری عبات چھوڑ کر اس کے رب کی عبادت کرنے لگیں۔ اور اگر وہ اس میں کامیاب نہ بھی ہو تو قوم میں اختلاف ڈال کر کچھ لوگوں کو اپنی پارٹی ہی میں شامل کرلے۔ (انی اخاف ان یبدل دینکم) ای عبادتکم لی الی عبادۃ ربہ (او ان یظھر فی الارض الفساد) ان لم یبدل دینکم فانہ یظھر فی الارض الفساد۔ ای یقع بین الناس بسببہ الخلاف (قرطبی) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور فرعون نے اپنے مشیروں سے کہا کہ مجھ کو چھوڑ دو تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردوں اور اس کو چاہیے کہ وہ اپنے پروردگار کو مدد کے لئے پکارلے اور اس سے دعا کرے کیونکہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے ملک میں کوئی فساد برپا کرڈالے۔ اہل دربار موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کو...  سیاسی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہوں گے اس لئے روکتے ہوں گے کہ یاشد موسیٰ (علیہ السلام) کا قتل زوال سلطنت کا سبب ہوجائے اور لوگوں کو خیال پیدا ہو کہ فرعون دلائل سے مقابلہ کرنے میں عاجز ہوگیا اور موسیٰ کو قتل کردیا اس لئے اس نے اہل دریار اور مشیران خاص سے کہا کہ تم مجھ کو چھوڑ دو تاکہ میں اس کو قتل ہی کردوں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہارے دین کو بدل دے اور تم کو بد دین بنادے یعنی میری خدائی کی بجائے کسی اور خدا کی عبادت کی طرف مائل کردے یا ملک میں کوئی اور جھگڑا فساد کھڑاکردے اور کوئی بغاوت کرادے۔  Show more